Thursday, October 29, 2020

انسانیت کی معراج کا سفر

‏ایک بادشاہ نے کانچ کے ہیرے اور اصلی ہیرے ایک تھیلی میں ڈال کر اعلان کِیا "ہے کوئی جوھری جو کانچ اور اصلی ہیرے الگ کر سکے ؟"
شرط یہ تھی کہ کامیاب جوھری کو منہ مانگا انعام اور ناکام کا سر قلم کردیا جائے گا، درجن بھر جوھری سر قلم کروا بیٹھے کیوں کہ کانچ کے نقلی ھیروں کو ‏اس مہارت سے تراشا گیا تھا کہ اصلی کا گمان ہوتا تھا
ڈھنڈھورا سن کر ایک اندھا شاہی محل میں حاضر ہوا سلام کے بعد بولا کہ میں وہ ہیرے اور کانچ الگ الگ کر سکتا ہوں

بادشاہ نے تمسخر اڑایا اور ناکامی کی صورت میں سر قلم کرنےکی شرط بتائی اندھا ہر شرط ماننے کو تیار ہوا ‏تھیلی اٹھائی اور محل سے نکل گیا ایک گھنٹے بعد حاضر ہوا اُس کے ایک ہاتھ میں اصلی اور دوسرے ھاتھ میں کانچ کے نقلی ہیرے تھے

شاھی جوھریوں نے تصدیق کی کہ اندھا جیت گیا ہے
بادشاہ بہت حیران ہوا اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ایک کام جو
آنکھوں والے نہ کر سکے وہ کام ایک نابینا ‏کیسے کر گیا ؟

بادشاہ نے اندھے سے دریافت کیا کہ اس نے اصلی اور نقلی کی پہچان کیسے کی؟

اندھا بولا یہ تو بہت آسان ہے: 
"میں نے ہیروں کی تھیلی کڑی دھوپ میں رکھ دی پھر جو تپش سے گرم ہو گئے وہ نقلی تھے اور جو گرمی برداشت کر گئے اور ٹھنڈے رہے وہ اصلی تھے"

‏بادشاہ نے اندھے کے علم کی تعریف کی اور انعام اکرام سے نواز کر رخصت کیا
اندھے کی رخصتی کے ساتھ ہی میرا غصہ میری انا اور میرے دماغ کی گرمی بھی رخصت ہو گئی
 
مجھے سمجھ آ گئی کہ برداشت نرم مزاجی حلیمی متانت اور محبت ہی انسایت کی معراج ہے جو گرمی حالات کو سہہ گیا وہ ہیرا ‏جو نہ سہہ سکا وہ کانچ
بانو قدسیہ آپا ناول "راجہ گدھ" میں لکھتی ہیں کہ "جو دباؤ سہہ جائے وہ ہیرا جو نہ سہہ سکے وہ کوئلہ"

مجھے اندھے بابا نے بہت بڑی بات سمجھائی میں جان گیا تھا کہ
اصلی اور نقلی میں صرف برداشت اور سہہ جانے کا فرق ہے
میں نے سوچا انسان آخر کب تک برداشت کرے؟

‏کب تک لوگوں کے طعنے سہے؟
کب تک اپنے غصے کو پئے؟
آخر برداشت کی کوئی حد ہوتی ہے
اندر سے آواز آئی
اُس وقت تک سہنا ہے جب تک ہیرا نہ بن جاؤ

ہیرا بننے کے بعد ہیرے پر کوئی دباؤ کوئی آگ اور کوئی تپش اثر نہیں کرتی یہاں سے پھر انسانیت کی معراج کا سفر شروع ہوتا ہے۔❤

No comments:

Post a Comment