امی میں بھی چلوں آپ کے ساتھ
کیوں ابھی تو تمھارے سر درد تھا
اب نہیں ہے میں نے ہنس کے کہا
بہت ڈرامہ کرتی ہو
چلو میں خوش ہو گئ آنٹی نوری کے گھر مجھے جانا بہت اچھا لگتا تھا بچپن سے میں ان کے گھر جارہی تھی آنٹی کی سب سے اچھی بات یہ تھی کے وہ بہت ملنسار اور خوش اخلاق خاتون تھیں اور سب سے بڑھ کے مہمان نواز ان کے گھر جب جاؤ مزے مزے کی چیزیں کھلاتی تھیں
کوئ غریب ہو یا امیر کسی میں کوئ فرق نہیں کرتی تھیں
میری تو رول ماڈل تھیں کبھی کوئ گلاِ شکوہ شکایت ان کے منہ سے نہیں سنا تھا
ھم آنٹی نوری کے گھر گۓ ان کی نوکرانی آئ اس نے وہیں سے آواز لگائ مہمان آۓ ہیں باجی
آنٹی اٹھ کے آئیں
بسم اللہ بسم اللہ وہ ہمیشہ ایسے استقبال کرتی تھیں وہ ھم کو لے کر لاؤنج میں آگئیں وہاں دسترخوان لگا تھا نوکرانی پانی لائ آنٹی نے کہا آئیں کھانا کھائیں
امی نے ایسی کہا۔ آپ کھائیں ھم کھا کر آۓ ہیں
آنٹی نے اصرار کیا آجائیں ان کی نوکرانی اور وہ ایک ہی دسترخوان پہ بیٹھے تھے آنٹی نے کہا میں روٹی ڈال کے لاتی ہوں
نوکرانی نے کہا باجی آپ بیٹھیں میں بنالیتی ہوں انھوں نے کہا نہیں تم کھا لو تم نے شروع کردیا تھا وہ کچن میں چلی گئیں میں بھی ان کے پیچھے گئ
بیٹا آپ اندر چلی جاؤ گرمی ہے آج بہت !
میں نے کہا نہیں آنٹی میں آپ کے ساتھ کھڑی ہوں آنٹی جلدی جلدی روٹیاں بنانے کی تیاری کر رہیں تھیں پھر انھوں نے روٹی توے پہ ڈالی اور فریج سے کباب نکال کے فرائ کے لیےرکھےمیں نے آنٹی سے کہا آنٹی آپ کیسے لوگوں کی مہمان نوازی کرتی ہیں ھمارے گھر تو اگر مہینے میں دو بھی مہمان آجائیں تو امی بہت تنگ ہوجاتی ہیں اور ھمارا بجٹ بھی آؤٹ ہوجاتا ہے!
انکل پاپا کے ساتھ ہی آفس میں ہوتے ہیں اور دونوں کی انکم بھی ایک ہے؟
آنٹی زیر لب مسکرائیں
پھر مجھ سے مخاطب ہوئیں بیٹا میں نے اپنی ماں سے سیکھا ہے آج میں تم کو کامیاب زندگی کے کچھ ہنر بتاتی ہوں آج تم بھی سیکھ لو تمہارے کام آئے گا
میری جب سے شادی ہوئ ہے یہ میرا معمول ہے میں اپنے شوہر کی تنخواہ سے سب سے پہلے دو پرسنٹ اللہ نام کے نکالتی ہوں پھر گھر کا خرچ الگ کر کے رکھ دیتی ہوں
مہمان اللہ کی رضا سے آتے ہیں میں نے اپنی ماں سے سنا تھا کہ جب اللہ خوش ہوتا مہمان کی صورت میں رحمت بھیجتا ہے
میں یہاں اپنے رب سے ایک تجارت کرتی ہوں مہمان کی خاطر مدارت کر کے اپنے رب کی رضا اور خوشنودی حاصل کر لیتی ہوں اس سے میرے دسترخوان کی برکت اور بڑھ جاتی ہے
کسی کی کبھی دل آزاری نہ کرنا کبھی کسی میں فرق نہ کرنادلجوئ کیا کرو کیوں کے دل میں سوہنا رب بستا ہے دل کی حفاظت کرو جب بھی زبان کھولو بول میٹھے بولو تاکہ تم دل میں بس جاؤتمہارا بول تم کو اسکے دل میں بسا دے گا اور جو دل میں ہوتے ہیں وہ دعا میں شامل ہوجاتے ہیں
اور جب دعا لگتی ہے تو عزت والا رب سن لیتاہے
اوروہ عطائیں کرتا ہے جس کا تصور بھی ناممکن ہے
زندگی کو آسان بناؤ
آنٹی کے کباب بھی فرائ ہوگۓ اور روٹیاں بھی پک گئ
آنٹی نے مجھے کہا فریج سے آم نکال لو
دو ہی آم رکھے تھے میں نے آنٹی کو کہا آم رہنے دیں آنٹی نے کہا نکال لو زاہد صاحب کے باغ کے ہیں بہت ہی لذیذہیں
ھمارے ہاں بھی بھیجے تھے ھم نے کھاۓ ہیں
تو نکالو نا بیٹا مل کے کھاتے ہیں آنٹی نے کہا
میں نے شرماتے ہوۓ کہا دو ہی رکھیں ہیں آپ اور انکل کھا لیجیےگا آنٹی نے کہا بیٹا اور آجائیں گے
میں نے دل میں سوچا اتنی مشکل سے زاہد انکل ایک ایک پیٹھی اپنے سب دوستوں میں تقسیم کرتے ہیں اب تو اگلے سال ہی آئیں گےآنٹی نے آم نکال کے کاٹ لیے
ھم دسترخوان پہ آگۓ
آنٹی کے ہاتھ میں ایک الگ ہی ذائقہ تھا
ھم نے آنٹی کے مزیدار کھانے کا لطف اٹھایا
نوکرانی امی کے ساتھ باتوں میں لگی تھیں پھر وہ اٹھنے لگی تو آنٹی نے کہا آم تو کھالو نجمہ اور دو موٹی پھانکیں پلیٹ میں رکھ کے دیں
امی سے وہ باتیں کر رہیں تھیں امی اپنے بہن بھائیوں کے گلے کر رہیں تھیں
آنٹی تحمل سے سن رہی تھیں میں نوٹ کر رہی تھی جہاں امی تلخ ہوتیں وہیں آنٹی امی کی بات کاٹتی اور کہتی ارے بھابھی کباب تو لیے نہیں آپ نے اور بات کٹ جاتی ارے یہ چٹنی کھا ئیں آج ہی بنائ ہے بیٹا تم تو لو ایسی بیٹھی ہو
امی تو گئ ہی تھیں دل کا بوجھ ہلکا کرنے کیسے خاموش ہوتیں
بات پھر شروع کردی اور یوں کھانا کھایا آم کھاۓ دوآم سے ہم چار لوگوں نے آم کھاۓ پھر بھی ایک پھا نک بج گئ میں نے دیکھا آنٹی نوری نے گھوٹلیاں کھائ تھیں جس پہ براۓ نام ہی آم تھا
میں نے کہا آپ کھالیں انھوں نے انکار کر دیا امی کوکہا آپ لے لیں پھر مجھے کہا کھالو بیٹا میں نے منع کردیا یہ سوچ کر کہ آنٹی کھالیں گی
انھوں نے اپنی نوکرانی کو آواز دی اور اس کو کہا کہ یہ کھالو اور برتن اٹھالو
ہم باتوں میں لگ گۓ
پھر انکل آگۓ ان کی گاڑی کا ہارن سنائ دیا
امی نے کہا لو بھائ صاحب آگۓ باتوں میں پتا ہی نہ چلا
انکل اندر آۓ سلام دعا کی آنٹی نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا خود کچن میں جاکر پانی لائیں پھر نوکرانی کو چاۓکے لیے کہا انکل نے کہا کہ پہلے گاڑی سے آم کی پیٹھی اتروالو زاہد نے دی ہے
ایک دوست کے لیے لایا تھا وہ چھٹیوں پہ چلا گیا ہے مجھے کہا تم لے جاؤ بچوں کے لیے
میں انکل کی بات سن کے حیران ہوگئ
اس دن میں نے ایک بات اور سیکھی
"بہترین زندگی جینے کے لیےتوکل اللہ کتنا ضروری ہے"
No comments:
Post a Comment