میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں مگر دل نہیں کرتا،اس کے چہرے پر اداسی کے تاثرات نمایاں تھے،
میں نے توجہ کی تو ایک نوجوان مصلے کی دائیں جانب بیٹھا تھا،
کوئی بات نہیں آپ ہمت کریں اور کوشش کریں کہ نماز نہ چھوٹنے پائے،
میں نے سمجھایا۔
مگر اللہ کی توفیق ہو گی تو پڑھوں گا ناں، اس کے سوال پر میں چونک گیا،
میں نے پوچھا،
آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟
دیکھیں ناں! ہم جتنی بھی ہمت کر لیں مگر وہ توفیق دے گا تو ہم کھڑے ہوسکتے ہیں ناں،وہ توفیق ہی نہ دے تو ہم کیسے نماز کی عبادت ادا کریں گے۔۔
میں خاموشی سے اس کی بات سنتا رہا،
اس نے بات مکمل کی اور میری طرف دیکھا،
میں نے پوچھا،
آپ نے حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ پڑھا ہے؟
جی! مکمل تو نہیں مگر علم ہے ،اس نے جواب دیا
اچھا آپ کو پتہ ہے ناں کہ جب یوسف علیہ السلام کو عورت نے بہلایا تو آپ بھاگے ،میں نے پھر پوچھا،
جی بالکل! اور پھر دروازے بھی کھل گے تھے،اس نے قدرے دلچسپی سے جواب دیا،۔
میں خاموش ہوا،،
پھر مخاطب ہوا،
دیکھو!
ایک ہوتی ہے اللہ کی توفیق،اور ایک ہوتی ہے ہماری کوشش
توفیق اصل میں ایک نتیجہ ہے اور اس نتیجہ کو حاصل کرنے کا نام کوشش ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام جب بھاگے تو دروازے کھل گے،
اب ذرا غور سوچو!
کہ حضرت یوسف علیہ السلام تو نبی ہیں اور نبی کے پاس عام انسان سے زیادہ علم ہوتا ہے،تو آپ بھاگے ہیں دروازے کی طرف حالانکہ آپ کو علم ہے کہ دروازوں کو تالے لگے ہوئے ہیں ،آپ کو تو بھاگنا تھا چابی کی طرف تاکہ دروازے کھول سکیں،مگر آپ دروازے کی طرف ہی کیوں بھاگے ہیں؟
درحقیقت آپ علیہ السلام نے کوشش کی،اور آپ نے جب گناہ سے بچنے کی کوشش مکمل کی تو پھر اللہ کی "توفیق" متوجہ ہوئی اور دروازے کھل گے،اگر آپ نہ بھاگتے اور وہیں کھڑے رہتے تو کبھی بھی دروازے نہیں کھلتے،
وہ غور سے سب سن رہا تھا،
میں نے مزید بات جاری رکھی:
تو بھئی!
کوشش کرو،جب کوشش کرو گے تو اللہ کی توفیق ملے گی،یوں بیٹھے رہے تو نماز کی توفیق نہیں ملے گی۔
تو جتنا تمہارا کام ہے تم اتنا تو کرو،
باقی جو اللہ کا کام ہے وہ اس کو اچھی طرح کرنا جانتا ہے۔۔۔
میں خاموش ہوا،
وہ نوجوان سلام کرکے صف کی طرف چل پڑا۔۔۔
میں نے توجہ کی تو ایک نوجوان مصلے کی دائیں جانب بیٹھا تھا،
کوئی بات نہیں آپ ہمت کریں اور کوشش کریں کہ نماز نہ چھوٹنے پائے،
میں نے سمجھایا۔
مگر اللہ کی توفیق ہو گی تو پڑھوں گا ناں، اس کے سوال پر میں چونک گیا،
میں نے پوچھا،
آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟
دیکھیں ناں! ہم جتنی بھی ہمت کر لیں مگر وہ توفیق دے گا تو ہم کھڑے ہوسکتے ہیں ناں،وہ توفیق ہی نہ دے تو ہم کیسے نماز کی عبادت ادا کریں گے۔۔
میں خاموشی سے اس کی بات سنتا رہا،
اس نے بات مکمل کی اور میری طرف دیکھا،
میں نے پوچھا،
آپ نے حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ پڑھا ہے؟
جی! مکمل تو نہیں مگر علم ہے ،اس نے جواب دیا
اچھا آپ کو پتہ ہے ناں کہ جب یوسف علیہ السلام کو عورت نے بہلایا تو آپ بھاگے ،میں نے پھر پوچھا،
جی بالکل! اور پھر دروازے بھی کھل گے تھے،اس نے قدرے دلچسپی سے جواب دیا،۔
میں خاموش ہوا،،
پھر مخاطب ہوا،
دیکھو!
ایک ہوتی ہے اللہ کی توفیق،اور ایک ہوتی ہے ہماری کوشش
توفیق اصل میں ایک نتیجہ ہے اور اس نتیجہ کو حاصل کرنے کا نام کوشش ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام جب بھاگے تو دروازے کھل گے،
اب ذرا غور سوچو!
کہ حضرت یوسف علیہ السلام تو نبی ہیں اور نبی کے پاس عام انسان سے زیادہ علم ہوتا ہے،تو آپ بھاگے ہیں دروازے کی طرف حالانکہ آپ کو علم ہے کہ دروازوں کو تالے لگے ہوئے ہیں ،آپ کو تو بھاگنا تھا چابی کی طرف تاکہ دروازے کھول سکیں،مگر آپ دروازے کی طرف ہی کیوں بھاگے ہیں؟
درحقیقت آپ علیہ السلام نے کوشش کی،اور آپ نے جب گناہ سے بچنے کی کوشش مکمل کی تو پھر اللہ کی "توفیق" متوجہ ہوئی اور دروازے کھل گے،اگر آپ نہ بھاگتے اور وہیں کھڑے رہتے تو کبھی بھی دروازے نہیں کھلتے،
وہ غور سے سب سن رہا تھا،
میں نے مزید بات جاری رکھی:
تو بھئی!
کوشش کرو،جب کوشش کرو گے تو اللہ کی توفیق ملے گی،یوں بیٹھے رہے تو نماز کی توفیق نہیں ملے گی۔
تو جتنا تمہارا کام ہے تم اتنا تو کرو،
باقی جو اللہ کا کام ہے وہ اس کو اچھی طرح کرنا جانتا ہے۔۔۔
میں خاموش ہوا،
وہ نوجوان سلام کرکے صف کی طرف چل پڑا۔۔۔