Sunday, December 27, 2020

کسی کیلئے ڈیسٹ بین نہ بنیں

معروف عرب مفکر ڈاکٹر علی طنطاوی مرحوم لکھتے ہیں ایک دن میں ٹیکسی میں ائیرپورٹ جا رہا تھا،ہم سڑک پر اپنی لائن پر جا رہے تھے کہ اچانک کار پارکنگ سے ایک شخص انتہائی سرعت کے ساتھ گاڑی لیکر روڑ پر چڑھا قریب تھا کہ ان کی گاڑی ہماری ٹیکسی سے ٹکرائے لیکن ٹیکسی ڈرائیور نے لمحوں میں بریک لگائی اور ہم کسی بڑے حادثے سے بچ گیے،ہم ابھی سنبھلے نہیں تھے کہ خلاف توقع وہ گاڑی والا الٹا ہم پر چیخنے چلانے لگ گیا اور ٹیکسی ڈرائیور کو خوب کوسا،ٹیکسی ڈرائیور نے اپنا غصہ روک کر اس سے معذرت کرلی اور مسکرا کر چل دیا 

مجھے ٹیکسی ڈرائیور کے اس عمل پر حیرت ہوئی میں نے ان سے پوچھا کہ غلطی اس کی تھی اور غلطی بھی ایسی کہ کسی بڑے حادثے سے دو چار ہوسکتے تھے پھر آپ نے ان سے معافی کیوں مانگی؟

ٹیکسی ڈرائیور کا جواب میرے لیے ایک سبق تھا وہ کہنے لگے کہ کچھ لوگ کچرے سے بھرے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں،وہ گندگی اور کچرا لدھا گھوم رہے ہوتے ہیں،وہ غصہ،مایوسی ،ناکامی اور طرح طرح کے داخلی مسائل سے بھرے پڑے ہوتے ہیں،انہیں اپنے اندر جمع اس کچرے کو خالی کرنا ہوتا ہے،وہ جگہ کی تلاش میں ہوتے ہیں،جہاں جگہ ملی یہ اپنے اندر جمع سب گندگی کو انڈیل دیتے ہیں لہذا ہم ان کے لئے ڈیسٹ بین اور کچرا دان کیوں بنیں؟

اس قبیل کے کسی فرد سے زندگی میں کبھی واسطہ پڑ جائے تو ان کے منہ نہ لگیں بلکہ مسکرا کر گزر جائیں اور اللہ تعالی سے ان کی ہدایت کے لئے دعا کریں.

Friday, December 25, 2020

ﺑﮯ ﻋﯿﺐ ﺗﺼﻮﯾﺮ

ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﭘﺴﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﮯ ﺩﮐﮫ ﺳﮑﮫ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﮭﺎ*،``` ﻣﮕﺮ ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﭨﺎﻧﮓ ﺳﮯ ﻟﻨﮕﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﮐﺎﻧﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻤﻠﮑﺖ ﮐﮯ ﻣﺎﮨﺮ ﻣﺼﻮﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﻮﺍﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﻠﻮﺍ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺷﺮﻁ ﭘﺮ ﮐﮧ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﺍُﺳﮑﮯ ﯾﮧ ﻋﯿﻮﺏ ﻧﮧ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﮟ۔ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﺼﻮﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﻼ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﺐ کہ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﮭﺎ ﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﮐﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮐﯿﺴﮯ ﺍُﺳﮯ ﺩﻭ ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺩﮐﮭﺎﺗﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﭨﺎﻧﮓ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻨﮕﮍﺍ ﺗﮭﺎ۔

ماں کی ممتا

ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﭽا ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻧﯿﺸﻨﻞ ﺟﯿﻮ ﮔﺮﺍﻓﮏ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﮈﺍکیوﻣﻨﭩﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﭼﻞ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ، ﯾﯿﻠﻮ ﺳﭩﻮﻥ ﻧﯿﺸﻨﻞ ﭘﺎﺭﮎ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﯾﺴﯽ ﺁﮒ ﺑﮭﮍﮐﯽ ﮐﮧ ﺳﺐ کچھ ﺍﮌﺍ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﺌﯽ، ﮨﺮ ﺷﮯ ﺭﺍکھ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ، کچھ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺑﭽﺎ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺭﯾﺴﺮﭺ ﭨﯿﻢ ﺍﺩﮬﺮ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﮮ ﺟﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﮯ ﺗﻨﮯ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭽﺎﺭﯼ ﺟﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﮍﯾﺎ ﻣﻠﯽ۔

Thursday, December 24, 2020

بڑا آدمی.....

‏بڑا آدمی کیسے بنا جائے :

ایک دن پروفیسر صاحب سے جوتا پالش کرنے والے بچے نے جوتا پالش کرتے کرتے پوچھا
ماسٹر صاحب ! کیا میں بھی بڑا آدمی بن سکتا ہوں پروفیسر نے قہقہہ لگا کر جواب دیا
''دنیا کا ہر شخص بڑا آدمی بن سکتا ہے''
بچے کا اگلا سوال تھا
کیسے؟

زندگی کی دوڑ......

توجہ کیجئے گا.....
  ایک ٹویوٹا پراڈو کے دروازے پہ ڈینٹ تھا۔ اسکے مالک نے ڈینٹ والا دروازہ کبھی مرمت نہیں کرایا. کوئی پوچھتا تو وہ بس یہی کہتا "زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز نہیں چلنا چاہیے کہ کسی کو اینٹ مار کر گاڑی روکنی پڑے"۔
سننے والا اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر قدرے حیران ہوتا اور پھر سمجھتے، نہ سمجھتے ہوئے سر ہلا دیتا؛
-سرگوشی سنو گے  یا اینٹ سے بات سنو گے !

میاں، بیوی اور عزت نفس

کوئی شوہر اپنی بیوی سے پاگل پن کی حد تک پیار کیسے کرسکتا ہے؟

ایک بوڑھی خاتون کا انٹرویو جنہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ پچاس سال کا عرصہ پرسکون طریقے سے ہنسی خوشی گزارا۔
 
خاتون سے پوچھا گیا کہ اس پچاس سالہ پرسکون زندگی کا راز کیا ہے؟
کیا وہ کھانا بنانے میں بہت ماہر تھیں؟

ریچھ کی موت

‛‛ مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ‛‛ 

ایک مرتبہ ایک شیر شکار پر نکلا تو اپنے ساتھ لومڑی اور ریچھ کو بھی لے لیا شیر نے تین شکار کیے 
ایک ہرن کا 
ایک گائے اور 
ایک خرگوش ۔ 

شُکر الحمدللّٰہ

ﺍﮔﺮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭘﮑﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﮮ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﮐﺎﺭﮈ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻥ ﭼﺎﺑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ بہتر ﮨﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻋﺎﺟﺰ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﺑﯿﺘﮯ ﮔﯽ؟

ﺍﮔﺮ ﮐﺴﺮﯼٰ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﮭﮏ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺻﻮﻓﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﺨﺖ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺁﺭﺍﻡ ﺩﮦ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﮔﺰﺭﮮ ﮔﯽ؟

نصیب سے ہار گئی

آج پہلی رات تھی بستر پہ پھول سجائے گئے تھے 
نبیلہ اور کامران کی شادی ہوئی تھی 
شادی بہت دھوم دھام سے کی گئی 
نبیلہ بیڈ پہ بیٹھی تھی کمیرہ مین تصاویر بنا رہا تھا وہ کبھی دائیں سر کر رہی کبھی بائیں طرف 
سب لوگ نئے تھے ہر چہرہ اجنبی تھا 
کامران پاس بیٹھا تھا 

Wednesday, December 23, 2020

اصولِ عِشق اور مولانا رومؒ

وہ بازار سے گزر رہے تھے۔۔۔۔ مولانا صاحب کے سامنے کریانے کی دکان تھی۔۔۔۔
ایک درمیانی عمر کی خاتون دکان پر کھڑی تھی ۔۔۔۔ اور دکاندار وارفتگی کے عالم میں اس خاتون کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
وہ جس چیز (جنس) کی طرف اشارہ کرتی دکاندار ہاتھ سے اس بوری سے وہ جنس نکالنے لگتا تھا۔۔۔ اور اس وقت تک وہ جنس تھیلے میں ڈالتا جاتا جب تک خاتون کی انگلی کسی دوسری بوری کی طرف نہیں جاتی۔۔۔ اور دکاندار دوسری بوری سے بھی اندھادھند جنس نکال کر تھیلے میں ڈالنے لگتا۔۔۔

مردانگی

مردانگی طاقت دیکھانے کا نام نہیں. مردانگی غصہ ،جبر و جلال کا نام بھی نہیں .مردانگی حکومت کرنے خود کو حاکم منوانے کا نام نہیں کیونکہ طاقت ،غصہ ،جبر وجلال اور حکومت کرنے والا مادہ تو مخالف جنس میں بھی موجود ہوتا ہے.تو مرد کیا ہوتا ہے؟ مردانگی کیا ہے؟ 

رزق اور محبت

رزق:
رزق صرف یہی نہیں کہ جیب میں مال ہو بلکہ ہماری ہر صفت رزق ہےاور ہماری ہر استعداد رزق ہے۔ بینائی رزق ہے گویائی رزق ہے خیال رزق ہے احساس رزق ہے سماعت رزق ہے وجود کی طاقت اور لطافت رزق ہے غم رزق ہے خوشی رزق ہے علم رزق ہے محبت رزق ہے حسن رزق ہے ذوق جمال رزق ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ ایمان رزق ہے۔

بیٹا اور بیٹی کی تربیت

ایک حاملہ خاتون نے اپنے شوہر سے پوچھا ! ہم اگلے دو مہینوں میں ماں باپ بننے والے ہیں، 
بولی اگر بیٹا ہوا، تو کیا منصوبہ ہوگا؟ 

شوہر نے جواب دیا ! میں اس کو تمام روزمرہ زندگی کی روایات سکھاؤں گا، کھیل، ریاضی، لوگوں کی عزت اور وغیرہ وغیرہ۔

خاتون نے پھر پوچھا:-
اگر بیٹی ہوئی تو؟ 

شوہر نے جواب دیا:-
میں اسے کچھ نہیں سکھاؤں گا، بلکہ میں اس سے خود سیکھوں گا۔ 

میں غیرمشروط محبت سیکھوں گا، میری بیٹی یہ کوشش کرے گی کہ وہ میری پرورش اپنے ایک مخصوص زاویہ نگاہ سے کرے۔

بالوں کی کنگھی کرنے سے لیکر ڈریسنگ تک، 

ابتداءِ گفتگو سے لیکر انتہاءِ گفتگو تک، 

نیز کہ وہ میرے ہر کام کو اپنی زاویہ نظر سے تربیت کرے گی۔ 

وہ میرے لیے دوسروں سے لڑے گی، مباحثہ کرے گی، اس کی خوشی اور غم میری طبیعت پہ منحصر ہوں گے۔ 

خاتون نے پھر پوچھا ! 
کیا بیٹا یہ سب کچھ نہیں سکھائے گا آپ کو؟ 

شوہر نے جواب دیا ! 
بیٹے میں یہ ساری خصوصیات ڈالی جاتی ہے، لیکن بیٹی ان خصوصیات کیساتھ پیدا ہوتی ہے۔ 

خاتون نے پوچھا !
لیکن بیٹی تو ہمارے ساتھ ہمیشہ نہیں رہے گی؟

 شوہر نے جواب دیا ! 
بیٹی ہمارے ساتھ جسمانی طور پر نہیں رہے گی، لیکن روحانی طور پروہ ہرلمحہ ہمارے ساتھ ہوگی۔ 

*یہ بات کہہ کر شوہر نے اپنے مکالمے کوختم کیا کہ بیٹی کے ساتھ بندھن ختم نہیں ہوتا، لیکن بیٹا زندگی کے کسی بھی موڑ پہ ہمیں چھوڑ سکتا ہے..!```

معتدل معاشرہ

معتدل معاشرہ وہ ہے جہاں ادب، مذہب سے بیزار نہ ہو اور مذہب، ادب سے بیزار نہ ہو۔ ہمارے ہاں، ادب ہو یا مذہب دونوں نے اپنی توانائی ایک دوسرے کے خلاف صرف کی ہے۔ کچھ تنگ ذہن مولوی میر، غالب، انیس اور منٹو کی تکفیر کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب بعض ادیبوں کی تمام تر ادبی تخلیقات مذہب کے خلاف پراپیگنڈہ کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ مذہب کو تنگ گلی نہ بننے دیں۔ ادب کو پراپیگنڈہ نہ بننے دیں۔

آپ کی پہچان

اس کا آغاز پہلے گھریلو ماحول سے کرنا ہوگا اور پھر تعلیمی اداروں سے.. جس طرح انگریزی بولنے پر بچوں کا ماتھا چوم لیتے ہیں اسی طرح انگریزی کا ترجمہ پوچھ کر بھی ماتھا چوم لیا جائے...
بتانا ہوگا کہ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے، آپ نے سیکھنی ہے مگر زبان کی حیثیت سے، اسے معیار سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی...
اردو آپ کی قومی زبان ہے، آپ کی پہچان اور آپ کی شناخت... انگریزی تب بولیں جب لازم ہو یا ضرورت ہو، بلا وجہ نہیں......
بچوں سے اردو میں بات کریں بیشک ساتھ ساتھ بتا دیں کہ انگریزی میں اس لفظ کو یہ کہتے ہیں مگر ہم الٹ چل رہے ہیں، انگریزی بول کر کہتے ہیں کہ اردو میں اسے یہ کہتے ہیں........
تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ والدین بھی قصور وار ہیں، تعلیمی ادارے تو اس وقت ایک مارکیٹ بن چکے ہیں اور مارکیٹنگ کا تو اصول ہے کہ کسٹمر کی ڈیمانڈ کے مطابق چلنا ہے.... 
آپ لوگ بھی تو اس تعلیمی ادارے کو اچھا سمجھتے ہیں جہاں تین چار خوب صورت خواتین پہلے آپ کا استقبال کریں، پھر آپ کو ایک کپ ٹی کا دیا جائے، آپ کو انتظار کرنے کا کہا جائے، آپ کو کہا جائے کہ ابھی ڈائریکٹر یا پرنسپل صاحب مصروف ہیں، چاہے اندر پرنسپل صاحب فری بیٹھے ہوں، اس طرح کے ماحول سے آپ کو لگتا ہے واہ جی بچے واقع کسی اچھے ادارے میں پڑھ رہے ہیں..
یورپ میں والدین اس تعلیمی ادارے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جہاں ڈائریکٹر یا پرنسپل سے ملنا آسان ہو جبکہ ہم اس تعلیمی ادارے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں ڈائریکٹر یا پرنسپل سے ملنا انتہائی مشکل ہو...... 

ایمان کا تقاضا

میرے ایک استاد اونگارتی تھے ، میں ان کا ذکر پہلے بھی کرتا رہا ہوں - میں نے ان سے پوچھا کہ سر " ایمان کیا ہوتا ہے " انھوں نے جواب دیا کہ " ایمان خدا کے کہنے پر عمل کرتے جانے اور کوئی سوال نہ کرنے کا نام ہے یہ ایمان کی ایک ایسی تعریف تھی جو دل کو لگتی تھی " 
اٹلی میں ہمارے کمرے میں ایک بار آگ لگ گئی اور ایک بچا تیسری منزل پر رہ گیا شعلے بڑے خوفناک قسم کے تھے - اس بچے کا باپ نیچے زمین پے کھڑا بڑا بیقرار اور پریشان تھا اس لڑکے کو کھڑکی میں دیکھ کر اس کے باپ نے کہا "چھلانگ مار بیٹا " اس لڑکے نے کہا بابا میں کیسے چھلانگ ماروں مجھے تو تم نظر ہی نہیں آ رہے اس کے باپ نے کہا " تو چاہے جہاں بھی چھلانگ مار تیرا باپ تیرے نیچے ہے تو مجھے نہیں دیکھ رہا " میں تو تمھیں دیکھ رہا ہوں نا !" اسی طرح الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ " تم مجھے نہیں دیکھ رہے میں تو تمھیں دیکھ رہا ہوں "
اعتماد کی دنیا میں اترنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی شہ رگ کی بیٹھک اور شہ رگ کے ڈرائنگ روم کا کسی نہ کسی طرح آہستگی سے دروازہ کھولیں - اس کی چٹخنی اتاریں اور اس شہ رگ کی بیٹھک میں داخل ہو جائیں جہاں الله پہلے سے موجود ہے 

حَیٰیّ عَلَی الفلَاح

میں اللہ کو نہیں مانتا تھا۔ خُدا کو نہیں جانتا تھا۔ مگر دنیا کی سب نعمتیں ہوتے ہوۓ بھی میری روح بے چین رہا کرتی، جانے کیا چیز تھی جو مجھے بے سکون رکھتی تھی۔ اور وہ نوجوان "شاہ" اللہ کو نہ صرف مانتا بلکہ پہچانتا بھی تھا۔ میں گاڑی خریدنے کے لیئے اس کے شو روم گیا تھا۔ مجھے گاڑی پسند آ گئی سودا طے ہو گیا میں نے بیانہ ادا کیا۔ اُس نے مجھے دعا دی "خُدا اِسے تمہارے لیئے بابرکت کرے" میں خدا کو نہیں مانتا کہاں ہوتا ہے تمہارا خدا؟ جانے کیوں نہ چاہتے ہوۓ بھی میرالہجہ طنزیہ ہو گیا۔ "ایسے مت کہو" وہ تڑپ کر بولا "میرا خدا زندہ خدا ہے وہ تمہاری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے" عجیب بات تھی جانے کیا تھا اُس کے لہجے میں۔ اُس رات پہلی بار میں نے خدا کے بارے میں سوچا اس کے لہجے کی تڑپ نے مجھے حیران کر دیا تھا۔ وہ اللہ کو نہ صرف مانتا بلکہ اچھی طرح سے پہچانتا تھا۔اس کی آنکھیں خدا کا نام لیتے ہی یوں چمکتیں جیسے اندھیری رات میں جگنو۔ اس کی ہر بات اللہ سے شروع ہو کر اللہ پر ہی ختم ہو جاتی جیسے کوئی عاشق بات بے بات اپنے محبوب کا ذکر کرتا ہے۔ اور پھر میں اکثر کسی نہ کسی بہانے سے اُس لڑکے کے پاس جانے لگا۔ وہ اپنے اللہ کی باتیں کرتا۔ نہ جانے کیوں مُجھے اُس کی باتیں اچھی لگنے تھیں ایک عجب سا سرُور ہوتا اُس کی باتوں میں-
اور پھر ایک روز ڈاکٹر نے مجھے کینسر ڈائگنوز کیا میرے پاس صرف چھ مہینے کی زندگی باقی تھی۔ تب پہلی مرتبہ مجھے خدا کا خیال آیا۔ میں بے بس تھا بے شمار دولت کے باوجود صحت اور زندگی خریدنے پر قادر نہیں تھا۔ جانے کیوں میں شاہ سے ملنے چلا آیا۔ میری بیماری کی خبر سنتے ہی اس نے کہا "اللہ فضل کرے گا" میں چیخ پڑا اللہ اللہ کان پک گئے ہیں اللہ کا نام سُنتے سُنتے۔ میں مرنا نہیں چاہتا اور تمہارا خدا مجھ سے میری زندگی چھیننا چاہتا ہے۔"اللہ تمہیں صحت دے گا انشاءاللہ۔ تم مانگ کر تو دیکھو۔ اللہ تمہیں صحت کے ساتھ لمبی زندگی دے گا" شاہ نے مجھے تسلی دیتے ہوۓ کہا۔

مجھے تمہارے اللہ سے ملنا ہے۔ میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ "اللہ تمہیں روز ملتا ہے تم ہی پہچان نہیں پاتے ہو۔ وہ تمہارے ارد گرد بہت ہی پاس رہتا ہے۔ کبھی وہ فقیر کے روپ میں ملتا ہے۔ کبھی یتیم کے اور کبھی مہمان بن کر چلا آتا ہے۔ ہو سکے تو اللہ کی راہ میں کچھ صدقہ دو کچھ خرچ کرو اِس کا بہت اجر ہے اور یقیناً یہ بڑھ کر تمہیں واپس ملے گا۔ اللہ اپنے بندے سے بے پناہ محبت کرتا ہے"

اُس دن گھر جاتے ہوۓ میں نے ایک مزدور عورت کو دیکھا اُس نے کمر پر بچہ باندھ رکھا تھا بچہ بھوک سے رو رہا تھا ماں کی چھاتی سے لگتے ہی بچہ پرسکون ہو گیا کون تھا وہ جس نے اُس کے لیئے ماں کی چھاتیوں میں دودھ اتارا یقیناً اللہ اور یوں میں نے پہلی بار اللہ کو دیکھا۔ میں نے مزدور عورت کے سر پر ہاتھ رکھا اُس کے ہاتھ میں چند نوٹ تھماۓ اور آگے چل دیا۔اُس عورت کی آنکھوں میں بلکتی بھوک خوشی سے بھنگڑہ ڈالنے لگی۔اُس کی نظروں میں اچانک دو کیفیات کی تبدیلی حیرت انگیز تھی اور میرے دل میں بھی جہاں یاسیت کی جگہ اطمینان نے لے لی تھی۔ عجیب نشہ اور سکون تھا اس اطمینان میں اور پھر میں ضرورتمندوں کو ڈھونڈنے لگا اور اللہ مُجھے۔ اُسی شام کونے والی مسجد کی دیکھ بھال کرنے والا نابینا رشید ملا اُس کے بار بار اللہ کے شکر ادا کرنے نے مجھے زمین پر پٹخ دیا۔ تم اندھے ہو پھر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہو میرے پوچھنے پر اس نے میرا ہاتھ بارش کی بوندوں کے آگے کر دیا میں بارش کو محسوس کرتا ہوں بوندوں کی جلترنگ سن سکتا ہوں اذان ہو رہی تھی "حَیٰیّ عَلَی الفلَاح" دیکھو وہ مجھے پکارتا ہے۔ میں نصیبے والا ہوں ُاس کی پکار سن سکتا ہوں خدا کی قسم میں خوش قسمت ہوں دل کے اندھوں سے زیادہ خوش قسمت۔اب سوچتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی پیارے جگری دوست "لُکن میٹی" کھیل رہے تھے۔ میں جہاں بھی چُھپتا وہ میرا یار مجھے ڈھونڈ ہی لیتا۔ اور پھر ہر جگہ مجھے اللہ نظر آنے لگا ساری کائنات اللہ سے بھر گئی تھی۔ جو کبھی دِکھا ہی نہیں تھا وہ پتھلا مار کر میرے دل میں بیٹھ گیا۔ شاہ سچ کہتا تھا اللہ تمہیں ملتا ہے تم ہی پہچان نہیں پاتے۔ تب پہلی بار میں نے اللہ کو پکارا اور زندگی میں پہلی بار مجھے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور اپنی ناشکری کا احساس ہوا۔ وہ رات میری زندگی کی سب سے خوبصورت رات تھی۔ میں اس رات بہت سکون سے سویا۔ مجھے اللہ کی پہچان ہونے لگی تھی اب وہ مجھے اکثر ملنے لگا تھا اور مجھے پتہ ہی نہ چلا کب مجھے اللہ سے پیار ہو گیا۔ مرنے کا خوف کہیں دور رہ گیا۔ میں جان چُکا تھا کہ سب کچھ اُسی کا ہے۔ وہ جِتنا اور جس کو چاہتا ہے امانتاً تھما دیتا ہے۔ مجھے باقی کی زندگی اللہ کے لیئے جینا تھا چاہے وہ ایک دن کی ہی کیوں نہ ہو۔

پھر ایک عجیب بات ہوئی۔ چھ مہینے کے بعد ڈاکٹر حیران تھے۔ میرا کینسر غائب ہو گیا تھا کہیں جسم میں بیماری کانام و نشان تک نہیں تھا۔ " یقیناً وہی ہے میرا رب جو شفاء دینے والا ہے" میں شاہ کے پاس چلا آیا میری رپوٹس دیکھ کر وہ رو رہا تھا۔ "الحمدللّٰہ دیکھو پاک ہے میرا رب بے شک پاک ہے میرا رب اس نے تمہارے جسم کو بیماری سے پاک کر دیا" شاہ بیٹا جسم کی پروا ہی اب کسے ہے یہ مِٹّی تو بس مِٹّی کی امانت ہے۔اسے کیڑوں نے ہی کھانا ہے۔ اُس پاک رب نے میرے دل سے بیماری کو دور کر دیا۔ وہ مجھے آن ملا وہ مجھے آن ملا دیکھو میرا رب مجھے آن ملا۔

"جب تم پہلی بار میرے پاس آۓ تھے مجھے تم دنیا کے غریب ترین انسان لگے تھے۔ میرے دل سے بے اختیار دعا نکلی خدا کرے تمہیں خدا ملے بے شمار دولت سے سجا تمہارا پھیکا اور ویران جہاں سجنے لگے میں بس تمہیں رب سے ملوانا چاہتا تھا اُس نے میری دعا سن لی۔ کیا اب بھی تم کہتے ہو اللہ نہیں ہے۔ دیکھو تم نے اسے پکارا اور وہ دوڑا چلا آیا" شاہ بول رہا تھا اُس کی مسکراہٹ میں رب مسکراتا تھا۔ ہم دونوں کی آنکھیں ایک ہی یار کے لیئے بھیگ رہی تھیں۔

میں نے اسی روز مسجد جا کر اسلام قبول کر لیا الحمدللّٰہ۔ میں "تھامس" اب عبداللہ ہوں۔ آج پورے دو سال کے بعد میں شاہ کے ساتھ اس کے دفتر میں بیٹھا تھا اس کا چھوٹا سا بیٹا میرے پاس کھیل رہا تھا۔ عصر کا وقت تھا۔اذان ہو رہی تھی اس کے بیٹے نے میری اُنگلی تھامی اور کہنے لگا چلیں انکل میں آپ کو مسجد لے چلوں بالکل ایسے ہی جیسے اُس کا باپ میری اُنگلی تھام کر مجھے اللہ سے ملوا لایا تھا۔ عصر کی نماز پڑھنے کے بعد ہمیں شاہ کے نئے شوروم کے افتتاح کے لیئے جانا تھا۔ جہاں وہ مجھے دعا کروانے کا کہہ رہا تھا جانے مجھ جیسے گنہگار کو اس نے اُس کام کے لیئے کیوں چنا تھا۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگا کیوں کہ آپ میرے بزرگ ہیں۔میں دل ہی دل میں ہنس دیا بزرگ تو وہ تھا میرا "پگلا کہیں کا" میری روح اپنے اصل کی طرف لوٹ کر سکون میں تھی بے شک ہم سب کو لوٹ کر اُسی کی طرف جانا ہے۔
☚ اللّٰہ ﮬﻢ ﺳﺐ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿں ﺁﺳﺎﻧﯿﺎﮞ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﮰ ﺁﻣﯿﻦ.

Sunday, December 20, 2020

کچھ ایسا کرجاؤ.....

"ڈاکٹر جی ...
کوئی ایسی دوا دیں کہ اس مرتبہ بیٹا ہی ہو،
دو بیٹیاں پہلے ھیں،
اب تو بیٹا ہی ہونا چاھیئے۔

ڈاکٹر: میڈیکل سائنس میں ایسی کوئی دوائی نہیں ہے۔

ساس: پھر کسی اور ڈاکٹر کا بتا دیں؟

ڈاکٹر: آپ نے شاید بات غور سے نہیں سنی،
میں نے یہ نہیں کہا کہ مجھے دوائی کا نام نہیں آتا۔ میں نے یہ کہا کہ میڈیکل سائنس میں ایسی کوئی دوائی نہیں ہے۔

سسر: وہ فلاں لیڈی ڈاکٹر تو۔۔۔

ڈاکٹر: وہ جعلی ڈاکٹر ہوگا،
اس طرح کے دعوے جعلی پیر، فقیر، حکیم، وغیرہ کرتے ہیں، سب فراڈ ہے یہ۔۔

شوہر: مطلب ہماری نسل پھر نہیں چلے گی؟_*

ڈاکٹر : یہ نسل چلنا کیا ہوتا ہے؟ آپ کے جینز کا اگلی نسل میں ٹرانسفر ہونا ہی نسل چلنا ہے نا؟ تو یہ کام تو آپ کی بیٹیاں بھی کر دیں گی، بیٹا کیوں ضروری ہے؟
ویسے آپ بھی عام انسان ہیں۔ آپ کی نسل میں ایسی کیا بات ہے جو بیٹے کے ذریعے ہی لازمی چلنی چاھیئے؟

سسر: میں سمجھا نہیں؟

ڈاکٹر: ساھیوال کی گایوں کی ایک مخصوص نسل ہے جو دودھ زیادہ دیتی ہے۔ بالفرض اس نسل کی ایک گائے بچ جاتی ہے تو worried ہونا چاھیئے کہ اس سے آگے نسل نہ چلی،
تو زیادہ دودھ دینے والی گایوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ طوطوں کی ایک مخصوص قسم باتیں کرتی ہے۔ بالفرض اس نسل کی ایک طوطی بچ جاتی ہے تو فکر ہونی چاھیئے کہ اگر یہ بھی مر گئ کہ تو اس نسل کا خاتمہ ہو جائے گا۔
آپ لوگ عام انسان ہیں باقی چھ سات ارب کی طرح آخر آپ لوگوں میں ایسی کونسی خاص بات ہے؟

سسر: ڈاکٹرصاحب کوئی نام لینے والا بھی تو ہونا چاھیئے۔

ڈاکٹر : آپ کے پَر دادے کا کیا کیا نام ہے؟

سسر: وہ، میں، ہممممم، ہوں وہ۔۔۔۔

ڈاکٹر: مجھے پتہ ہے آپ کو نام نہیں آتا،
آپ کے پر دادا کو بھی یہ ٹینشن ہو گی کہ میرا نام کون لے گا؟ اور آج اُس کی اولاد کو اُس کا نام بھی پتہ نہیں۔

ویسے آپ کے مرنے کے بعد آپ کا نام کوئی لے یا نہ لے۔ آپ کو کیا فرق پڑے گا؟ 
آپ کا نام لینے سے قبر میں پڑی آپ کی ھڈیوں کو کونسا سرور آئے گا؟
علامہ اقبال کو گزرے کافی عرصہ ہوگیا،
آج بھی نصاب میں انکا ذکر پڑھایا جاتا ہے۔
گنگا رام کو مرے ہوئے کافی سال ہو گئے لیکن لوگ آج بھی گنگا رام ھسپتال کی وجہ سے گنگا رام کو نہیں بھولے۔
ایدھی صاحب مر گئے،
لیکن نام ابھی بھی زندہ ہے اور رہے گا۔
کچھ ایسا کر جاو کہ لوگ تمہارا نام لیں بے شک تمہاری نسلیں تمہں بھول جائیں۔
انسان انسانیت سے ہے۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔
ورنہ اطاعت کےلئے کم نہ تھے کروبیاں۔ 

Saturday, December 19, 2020

زندگی کی ریل

جب ریل کسی سرنگ میں سے گزرتی ہے اور ایک دم سے اندھیرا ہو جاتا ہے تو آپ اپنی ٹکٹ کو پھینک کر ریل سے باہر کود نہیں جاتے کیونکہ آپ کو ریل کے ڈرائیور پر بھروسہ ہوتاہے۔


اسی طرح جب زندگی کی ریل دکھوں، مصیبتوں اور پریشانیوں کے اندھیروں ںسے گزر رہی ہو تو زندگی کی ٹرین کو چلانے والے پر بھروسہ رکھو وہ ان اندھیروں سے ضرور نکال لے جائے گا۔

بس کبھی کبھی یہ سرنگ چھوٹی ہوتی ہے اور کبھی کبھی بہت بڑی مگر یقین رکھو ہوتی یہ سرنگ ہی ہے جس کے دوسرے سرے پر روشنی اور اجالا ہی اجالا ہوتا ہے۔ بس ہمیں صرف اس سفر کے ختم ہونے کا انتظار کرنا ہے۔

Thursday, December 17, 2020

مولوی صاحب اور ھوٹل

شہر کے بیچ میں جامع مسجد کے دروازے کے سامنے ریحان کا چائے کا ہوٹل ہے۔ اس کا ہوٹل خوب چلتا ہے۔ اس نے ہوٹل کی دیوار پر پچاس انچ کی ایل ای ڈی لگا رکھی ہے جس پر سارا دن لوگ فلمیں دیکھتے ہیں۔ ہندی ، انگریزی ، چائنیز وغیرہ، رات دس بجے کے بعد والے شو بالغ افراد کے لئے ہوتے ہیں۔ ریحان کو فلموں کی کافی جانکاری ہے۔ ہارر ، رومانوی ، تاریخی ، آرٹ ہر طرح کی فلموں کا وسیع علم ہے۔
ریحان پانچ وقت کا نمازی بھی ہے۔ جیسے ہی اذان ہوتی ہے وہ دکان چھوٹے لڑکے کو سونپ کر مسجد کا رخ کرتا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ پنجگانہ نماز کی بدولت ہی اس کے کاروبار میں برکت ہے۔ یوں ریحان کا سارا دن فلموں میں اور پانچ مرتبہ کچھ منٹ مسجد میں گزرتے ہیں۔ مگر تمام لوگوں کا ماننا ہے کہ ریحان ایک نیک اور نمازی پرہیزگار آدمی ہے۔
مسجد کے امام کا نام مولوی "حافظ عبدالسبحان" ہے۔
پچیس سال کا خوب رو باریش نوجوان ، تازہ تازہ درس نظامی کر کے آیا ہے اور مسجد میں بلا معاوضہ امامت و تدریس سنبھالی ہے۔
نماز پڑھانے اور بچوں کو درس دینے کے بعد مسجد سے ملحق حجرے میں جا بیٹھتا ہے اور کتابوں میں کھو جاتا ہے۔ کل عصر کی نماز کے بعد مولوی صاحب کا چائے پینے کا من ھوا تو مولانا صاحب کے دل میں خیال آیا کیوں نا آج اپنے ریحان بھائی کے ہوٹل سے چائے پی جائے ۔ مسجد کے صدر دروازے پر ھوٹل ھے۔ چنانچہ وہ حجرے کا کواڑ لگا کر چپل پہنے ہوٹل میں داخل ہوئے ۔ تمام فلم بین جو پیشاب روکے ، آنکھیں پھاڑے فلم میں مست تھے ، مولوی صاحب کو دیکھ کر یوں چونکے جیسے کوئی خلائی مخلوق ہوٹل میں داخل ہو گئی ہو ۔ مولوی صاحب نے چائے کا کہا اور ایک کونے میں بیٹھ کر رسالہ پڑھنے لگ گئے، تیسری آنکھ سے دیکھنے والے کو صاف معلوم پڑتا تھا کہ اس وقت ہوٹل میں مجرم فقط ایک ذات تھی یعنی "مولوی حافظ عبدالسبحان صاحب"۔
چائے پینے کے بعد حجرے میں لوٹ آئے ۔ نماز مغرب کی اذان دے کر مولوی صاحب مصلے امامت تک تشریف لائے تو مقتدیوں کے چہرے یوں بدلے ہوئے تھے جیسے کوفہ والوں کے مسلم بن عقیل کو دیکھ کر بدلے تھے ۔ اطراف میں بات پھیل چکی تھی کہ مولوی صاحب فلمیں بہت دیکھتے ہیں اور ان کے پیچھے نماز جائز نہیں ۔ مولوی صاحب کی چھٹی کروا دی گئی۔ 
عشاء کے وقت جب مولوی"حافظ عبدالسبحان" صاحب اپنا سامان سمیٹے مسجد سے نکل رہے تھے تو ریحان بھائی کے ہوٹل میں بیٹھے چاچا شریف نے ریحان کو پکارتے ہوئے کہا :
"اچھا کیا مولوی حافظ عبدالسبحان صاحب کی چھٹی کروا دی، ایسے مولویوں کی وجہ سے اسلام بدنام ہے اور ہم مسلمانوں کی عزت نہیں ہے ۔" ریحان نے ہاں میں ہاں ملائی اور پھر سے سب دوبارہ فلم میں مگن ہو گئے۔

یہ ہے ہمارے معاشرے کا حال، ریحان سارا دن فلمیں دیکھنے اور دکھانے والا نیک ہے اور مولوی صاحب پانچ منٹ چائے پینے گئے تو بہت بڑے گناہ گار ھوگئے۔۔۔۔۔۔
الله هم سب كو هدايت عطا فرمائے ... 
آمین ثم آمین یارب العالمین۔

Wednesday, December 16, 2020

اندرونی خوشی

جب انسان اندر سے خوش ہو تو کانٹے بھی حسین نظر آتے ہیں ورنہ تازہ گلاب بھی کسی کام کے نہیں. سارا کمال انسان کی اندرونی کیفیت کا ہوتا ہے.. اندر سے خوش ہوں تو عام ہوٹل کی دال کا بھی کوئی مقابل نہیں، عام سی خوبصورتی کا بھی کوئی ثانی نہیں.
زندگی میں سارے ذائقے اور خوبصورتی اندرونی خوشی سے وابستہ ہیں ورنہ لوگ فائیو سٹار ہوٹل کے خوبصورت لان میں بیٹھے بھی آنسو بہاتے رہتے ہیں.
وہ لوگ ناداں ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ساری خوشیاں دولت سے یا سہولیات سے وابستہ ہیں، آپ دیکھنے کی کوشش کریں تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ موجود ہیں جن کے پاس دولت بھی ہے، سہولیات بھی، گاڑیوں کی قطار بھی، بنگلوں کی فہرست بھی، نوکروں کا انبار بھی، پروٹوکول بھی ہے مگر رات کو پیٹ میں انجیکشن لگا کر، نیند کی گولیاں کھا کر سوتے ہیں....
اچھے دوست، اچھے رشتے، کسی اپنے کا قیمتی وقت اور توجہ وہ ٹولز ہیں جو خوشیوں کا سبب بنتے ہیں، کوئی اچھا دوست ساتھ ہو تو کسی ڈھابے کا کھانا یا چاے بھی دنیا بھر کے لذیذ کھانوں اور مہنگے ہوٹلز سے زیادہ خوشی دیتے ہیں کیونکہ تب آپ اندر سے خوش ہوتے ہیں.

Tuesday, December 15, 2020

بہلـــــــول دانا

ایک دن آپ بادشاہ کے پاس گئے جو اس وقت کچھ سوچ رہا تھا۔ 
آپ نے پوچھا: '' سوچتے کیا ہو؟ '' 
اُس نے کہا : '' میں اس وقت دنیا کی بےوفائی پر غور کررہا ہوں کہ اس بےوفا نے کسی سے بھی نباہ نہ کیا۔''
آپ نے کہا : '' اگر دنیا وفادار ہوتی تو تم آج بادشاہ کیونکر بن سکتے۔ پس اس قصے کو جانے دو اور کچھ سوچو۔'' 

ایک دفعہ بارش کی کثرت سے اکثر قبروں میں ایسے شگاف پڑ گئے کہ مردوں کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں نظر آنے لگیں۔ 
بہلول قبرستان میں چند کھوپڑیاں سامنے رکھے دیکھ رہے تھے کہ اتفاقاً بادشاہ کی سواری بھی آ نکلی۔ 
اس نے انہیں اس شغل میں مصروف دیکھ کر پوچھا۔ '' بہلول ! کیا دیکھ رہے ہو؟ ''
آپ نے فرمایا : '' تمہارا اور میرا دونوں کا باپ مرچکا ہے۔ میں اب یہ دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے باپ کی کھوپڑی کونسی ہے اور میرے باپ کی کونسی؟۔'' 
بادشاہ نے کہا : '' کیا مُردہ امیر و غریب اور شاہ و گدا کی ہڈیوں میں بھی کچھ فرق ہوا کرتا ہے کہ پہچان لوگے۔؟ '' 
بہلول دانا نے کہا '' پھر چار دن کی جھوٹی نمود پر بڑے لوگ مغرور ہوکر غریبوں کو حقیر کیوں سمجھتے ہیں؟۔'' 
بادشاہ قائل ہوگیا اور اس دن سے حلیمی اختیار کرلی۔

ایک مرتبہ کسی نے کہا : '' بہلول ! بادشاہ نے تمہیں پاگلوں کی مردم شماری کا حکم دیا ہے۔'' 
فرمایا : '' اس کے لئے تو ایک دفتر درکار ہوگا۔ اور ہاں دانا گننے کا حکم ہو تو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں

مسکراتا چہرا

کسی بھی موقع پر گھبراہٹ کا مظاہرہ نہ کریں کیوں کہ گبھراہٹ یا دوسروں کہ پریشر سے ہمیشہ پریشانی میں اضافہ ہی ہوتا ہے-
ہمیشہ مسکراتے چہرے کے ساتھ کسی بھی سچوٸشن کا سامنا کریں -آپ ہنسیں گے تو دنیا آپکے ساتھ ہو گی-اگر آپ پریشان ہوں گے یا گبھراہٹ کا مظاہرہ کریں گے تو اکیلے ہی نظر آٸیں گے-
ہر کوٸی آپکو اپنا ہی دشمن نظر آٸے گا-
اس لیے مطمٸن رہنا سیکھیں-مطمٸن اور پر سکون رہنے سے ہر کام میں بہت اچھا  رزلٹ آتا ہے
*اور گبھراہٹ سے بنا ہوا کام بھی خراب ہو جاتا ہے*
*اللہ سے دل کی باتیں کریں اور کسی ایسے سے جو اپکو مخلصانہ مشورہ دے

Monday, December 14, 2020

ہر لاعلاج مرض کا علاج

درود شریف سے ہر لاعلاج مرض کا علاج
ہر لمحہ دل میں کوئی چھوٹا سا درود شریف پڑھتے رہیں۔ آپ انشاءاللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں شامل رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے سارے تفکرات کی کفایت کرے گا اور آپ کی تمام حاجات پوری کرے گا۔ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جو ہر روز یا ہر شب مجھ پر درود بھیجا کرے۔ مجھ پراس کی شفاعت کرنا واجب ہوگی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ حضورپرنور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود شریف پڑھتے رہا کرو۔ بیشک تمہارا درود شریف مجھ تک پہنچتا رہتا ہے۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ جو شخص فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد مجھ پر ایک سو مرتبہ درود شریف پڑھے گا اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی 100حاجات پوری کریگا۔ درود شریف دلوں کا نور ہے' گناہوں کا کفارہ ہے۔ زندہ اور مردوں دونوں کیلئے رحمت ہے۔ درود دعا بھی ہے اور دوا بھی۔ درود سوغات بھی ہے۔ درود اللہ اور ملائکہ کی سنت بھی اور قبولیت دعا کا سبب بھی۔ (ہر دعا کے اوّل و آخر درود شریف پڑھنا چاہیے)

حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی زیارت

حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کی 
زیارت صحابہ کرام رضوان اللّٰه عنہُم کے لیے اتنی بڑی قوت اور سعادت تھی
کہ یہ بھوکوں کی بھوک رفع کرنے کا ذریعہ بنتی تھی

چہرۂ اقدس کے دِیدار کے بعد قلب و نظر میں اُترنے والے کیف کے سامنے بھوک و پیاس کے احساس کی کیا حیثیت تھی؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰه عنہُ روایت کرتے ہیں کہ ایک دِن رحمتِ عالم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم ایسے وقت کاشانۂ نبوت سے باہر تشریف لائے کہ

آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم پہلے کبھی اس وقت باہر تشریف نہ لاتے تھے اور نہ ہی کوئی آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کرتا

دراصل ہُوا یوں تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہُ بھی بھوک سے مغلوب باہر تشریف لے آئے تھے۔حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیقِ سفر اور یارِ غار سے پوچھا

اے ابوبکر! تم اس وقت کیسے آئے ہو؟ 
اس وفا شعار پیکرِ عجز و نیاز نے ازراہِ مروّت عرض کِیا

یارسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم! صرف آپ کی ملاقات،چہرۂ انور کی زیارت اور سلام عرض کرنے کی غرض سے حاضر ہُوا ہوں 

تھوڑی دیر بعد ہی حضرت فاروقِ اعظم رضی اللّٰه عنہُ بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے اپنے آقا صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہو گئے

نبئ رحمت صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا
اے عمر! تمہیں کون سی ضرورت اس وقت یہاں لائی؟ 

شمعِ رسالت صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے پروانے نے حسبِ معمول لگی پٹی کے بغیر عرض کی

یارسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم! بھوک کی وجہ سے حاضر ہُوا ہوں

( ترمذی،الجامع الصحیح،کتاب الزھد،باب فی معیشة أصحاب النبي صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم، ٥۸۳:٤،رقم:۲۳٦۹ )

شمائل ترمذی کے حاشیہ پر مذکورہ حدیث ( مفہوم ) کے حوالے سے یہ عبارت درج ہے

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰه عنہُ اس لیے تشریف لائے تھے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے اپنی بھوک مِِٹانا چاہتے تھے،

جس طرح مصر والے حضرت یوسف علیہ السّلام کے حُسن سے اپنی بھوک کو مِٹا لیا کرتے تھے اور سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہُ کے عمل میں بھی یہی راز مضمر تھا

مگر مزاج شناس نبوت نے اپنا مدعا نہایت ہی لطیف انداز میں بیان کِیا اور یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم پر نُورِ نبوت کی وجہ سے ان کا مدعا بھی آشکار ہو چُکا تھا

 کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہُ کیوں طالبِ ملاقات ہیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰه عنہُ پر نُورِ ولایت کی وجہ سے واضح ہو چُکا تھا کہ اس گھڑی آقائے مکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کا دِیدار انہیں ضرور نصیب ہو گا

( شمائل الترمذی:۲۷،حاشیه:۳ )

چنانچہ ایسا ہی ہُوا اور حضور سرورِ کائنات صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں جان نثاروں کی حالت سے باخبر ہونے پر اپنی زیارت کے طفیل ان کی بھوک ختم فرما دی

( کتاب التوحید،جِلد ۲،صفحہ ٥٦٦ تا ٥٦۸ )

ایمان بخیر یارم🍁

صالح معاشرہ

صالح معاشرہ کیسے بنے _______؟؟؟؟

✾ کیسے بچہ نیک و صالح ہوگا جبکہ ماں کو کھانے پینے، گھر، بازار اور انٹرنیٹ سے ہی فرصت نہ ملتی ہو؟؟؟

✾ بچہ کیسے حافظ قرآن اور عالم باعمل بنے جبکہ اس کے والدین کو فیس بک پر گھنٹوں فضول چیٹنگ کرنے کی فرصت تو ہو لیکن بچہ کو آدھا گھنٹہ قرآن شریف کا ایک آدھا صفحہ یا ایک حدیث شریف یاد کروانے کے لئے ٹائم نہ ہو۔؟؟؟

✾ بچہ نیک کیسے بنے گا جبکہ اس کے والدین کو بچہ کو روز تھوڑی دیر بھی نیک لوگوں کے سبق آمیز واقعات سنانے کی فرصت نہیں پائیں؟؟؟

✾ بچہ میں قائدانہ صلاحیت اور قابلیت کیسے پیدا ہوگی جبکہ گھر کا سارا بجٹ میک اپ اور پرتعیش اشیاء میں خرچ ہوجاتا ہو، اور گھڑسواری، تیراندازی اور تیراکی سیکھنے کی گھر کے بجٹ میں کوئی گنجائش ہی نہ رکھی جائے؟؟؟

✾ بچہ میں دوراندیشی و بردباری جیسے جوہر کہاں سے پیدا ہونگے جبکہ اس کے روز وشب بےکار ویڈیو گیم اور واھیات کارٹون دیکھنے میں گزرتے ہوں؟؟؟

✾ کہاں سے بچہ حلیم الطبع اور سنجیدہ ہو جبکہ ماں باپ کے آپس کی لڑائی اور چینخ پکار سے دور دور تک ہمسائے لطف اندوز ہوتے ہوں؟؟؟

✾ بچہ کہاں سے قابل اور خود اعتماد بنے گا جبکہ اسے سب بڑے دن رات ہر وقت گالیاں اور کوسنے دے دے کر ذلیل کرتے ہوں؟ 

✾ بچہ کہاں سے نیک بنے گا اور اس کے والدین دینی تعلیم، مجالس ذکر اور دینی احکام کے سیکھنے سکھانے سے بیزار ہوں؟؟؟

✾ بچہ کیسے نیک بنے گا جب باپ کو بچہ کی تعلیم دلانے اور ماں کی تربیت میں ھاتھ بٹانے کے فرصت نہ ہو۔

✾ بچہ کہاں سے نیک و صالح بنے گا جبکہ ماں باپ کا مقصد زندگی صرف ظاہری دکھاوہ اور شو شاہی ہو، اور ان کو دین، نماز اورقرآن سے کوئی سروکار نہ ہو؟؟؟

👈 یاد رکھیں!
ماں باپ کی صحیح تربیت میں ہی نسلوں کی درستگی ہے اور اسی میں ہے پوری امت کی بہتری اور فلاح۔

سوچئے کہاں سے بچہ آپ کے مرنے کے بعد دعا کے لئے ھاتھ اٹھائے گا، جبکہ آپ نے اس کی صحیح تربیت ہی نہیں کی ہوگی۔

میں سب سے پہلے خود کو اور پھر اپنے بھائیوں کو نصیحت کررہا ہوں۔

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات ۔۔

انعام رب کا

یہ اُلجھنیں ہیں انعام ربّ کا
جو سمجھو اِنکو پیّام ربّ کا
*یہ ہیں آ جاتی بنا بتاۓ___!!!* 
کدھر کو جائیں سمجھ نہ آۓ
*مگر اے پیارو نہ اس میں اُلجھو___!!!*
ذرا سا سوچو ذرا سا سمجھو
  *ابھی بھی ہے وقت ___!!!*
ہوش کر لو
*جو ہو چکا اس سے کچھ اَثر لو___!!!*
قرآن کھولو پیغام پڑھ لو
*جو رسّی چھوڑی اُسے پکڑ لو___!!!*
ناراض ہم سے ہمارا ربّ ہے
*اسے منانے کا وقت اب ہے___!!!*
اٹھو نہ سوچو اور توبہ کر لو
 *دیں پہ چلنے کا وعدہ کر لو___!!!*
رحیم ربّ ہے کریم ہے وہ 
*محبّ بھی ہے اور عظیم ہے وہ___!!!*
مایوس مت ہو اداس مت ہو
*اُمید رکھو بے آس مت ہو___!!!*
وہ مان لےگا یقین رکھو
*جُھکا کہ اپنی جبین رکھو___!!!*
وبائیں.دکھ اور غموں کے لمحے
*وہ ٹال دے گا سنبھال لے گا___!!!*
وہ ساتھ ہے وہی سن رہا ہے،،، وہ *سب بلاؤں  کو ٹال دے گا ہمیں وہ دکھ سے نکال لے گا___!!!

وقت ہی ملا نہیں!!

 عجیب سی یہ بات ہے;
    عجب سا یہ خیال ہے;
    مگر جو سوچنے لگوں;
     تو اک اہم سوال ہے;
     کہ وقت ہی کہاں گیا؟
     یہ  عمر سب گزار دی!
    *اور وقت ہی ملا  نہیں!*
     کہا  کسی  نے  آ  ملو
    *تو  وقت  ہی نہیں ملا!*
    کسی  کا  درد  بانٹ  لو
   *تو  وقت   ہی نہیں ملا!*
   جو چاہا کچھ لکھوں کبھی
  *تو وقت   ہی   نہیں ملا!*
   آرام     کرنا   چاہا    جو 
   *تو  وقت  ہی  نہیں ملا!*
   ماں باپ کو میں وقت دوں 
  *تو  وقت  ہی   نہیں ملا!*
   بچے  کہیں   کہ  وقت دو
 *تو  وقت   ہی  نہیں  ملا!*
  شوہر   کہے   کہ  بنو ٹھنو
 *تو  وقت   ہی   نہیں ملا!*
  بہنیں کہیں  کہ *بس کرو!*
 *تو  وقت   ہی  نہیں ملا!*
  میری صحت  گر رہی تھی;
 جب مجھ سےکہایہ بھاٸی نے
 تب
  کہ *سارے کام چھوڑ دو;*
 *"کسی ڈاکٹر سے وقت لو"*
 *تو  وقت  ہی  نہیں  ملا!*
  کاموں  کی اک قطار   ہے،
  جو  ذہن   پہ    سوار ہے،
  پچھلوں کوجب سمیٹ لوں
  تو  نٸی  فہرست  تیار ہے!
  کیسے  سب ختم   کروں؟
 *کہ وقت   ہی   نہیں ملا!*
  کچی عمر  کا  دور   تھا،
  دل  نے  کہا  کہ  پیار کر!
 *پر  وقت   ہی  نہیں  ملا!*
  پھر محبت   رب  سے ہوگٸ
  تو محبت   دھر    کھو گٸ!
  *یہ چاہا ربّ کوکھوج لوں*
  کیوں جہاں  کا بوجھ لوں!!
  پکا  یہ  ٹھان  بھی  لیا
 *پر وقت   ہی  نہیں  ملا!*
  یہ ماہ  و سال سارے اب
  ہیں مانگتے  جواب  سارے
  تو  کیا  ہوٸی حیات پھر؟
  کیسے بنے گی  بات  پھر؟
  کہ عمر  سب  گزار   دی،
  *اور  وقت ہی نہیں ملا!*
   تو
   *وقت  یہ  گیا  کہاں؟!*

عبادت اور بندگی

عبادتوں اور بندگی میں ڈوبا وجود کب سے خواہشات اور خوابوں کے سراب کے پیچھے بھاگتا جا رہا تھا ...اندھا دھند ...
کہ بے بسی کا ایک آنسو مقبول ہوا ....
اور دعا کا جواب عطا سے آیا ...
جواب آیا ....کہ اک تیری چاہت ہے اک میری چاہت ہے .....
خوابوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے آنکھیں آندھی ھو گئیں اب کیا دل بھی اندھا کرنا ہے ؟؟ 
چل ......فیصلہ کر لے ..
تین موقعے ہیں تیرے پاس ....
دعا کی قبولیت ،کا  انتظار کر لے اس یقین کے ساتھ کہ یہ سب سنی جا رہی ...
یا یہ کہ  اپنی دعا کا بدل لے لے دنیا میں یا آخرت میں ...
یا پھر ...تجارت کر لے میرے ساتھ ....
اپنی چاہت کو میرے لئے قربان کر دے اور دیکھ پھر میں تیری چاہت بن جاؤں گا ...
بول منظور ہے کیا ؟؟ 
اور ھو گا وہی پھر بھی جو میری چاہت ہے ...
برسوں سے کھڑا وجود ہاتھ جوڑے ...صرف اپنی خوائش کے لئے جھکتا تھا بس ...
اب تر ا ز و میں ...میری چاہت اور اس کی چاہت آ  گئی تھی ...
دل کا دروازہ بند پڑا تھا ...دستک تو دی جا رہی تھی پر اندر سے آواز آ رہی تھی باہر کون ہے ؟؟ 
تیری چاہت یا میری چاہت ...
دروازہ اندر سے ہی کھلتا ہمیشہ .....کھولنے والے کی مرضی کہ وہ کھولے یا نہ کھولے .....
دل غیر سے آباد ھو تو ہر طرف ویرانے نظر آتے ہیں اور دل دلدار سے آباد ھو تو ہر طرف نور ہی نور نظر آتا ہے ...نظر میں بھی اور نظارے میں بھی ....
سودا مہنگا نہیں ویسے ....
خواہشات کا جم غفیر تھا آوازیں ہی آوازیں ....سکوت صرف اس بات میں تھا جہاں دھڑکن تھی ...
اک طرف طلب اک طرف مطلوب 
اکطرف خوائش اک طرف رضا ۓ مطلوب ...
اور تم چاہ بھی نہیں سکتے اگر وہ نہ چاہے تو .....
سودا مہنگا نہیں تھا پھر بھی ...سوچ کے در کھل گۓ ..
اک طرف آدھی ادھوری ٹوٹی پھوٹی خوایشیں اور دوسری طرف وہ خود پورے کا پورا ......

.رحمت ،محبت ،چاہت بن کے سامنے بھی کھڑا اور اندر بھی بسا ....بس اک پکار کا منتظر ....

بس دو باتیں ماننی تھی ...
خوائش ہے کہ کوئی خوائش نہ رہے ...
اور 
دل کے دروازے پر دربان بن کے بیٹھ جا اور سوا ۓ اللّه کے کسی کو نہ اندر آنے دے ...
پھر دیکھ اس کی چاہت کے رنگ ...چار سو ہر سو کو بہ کو ...
اور تو خود کیا ہے ...؟؟؟؟
تو بھی تو  صبغة اللہ ّ  ہے ....رنگوں میں سے ہی ایک رنگ ....
چاہت کا سوال بھی چاہت اور جواب بھی چاہت ... 

ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ

*ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ۔۔۔ ﮐﻞ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻣﻠﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺣﺴﺎﻧﺎﺕ گنوائیں !!*
*ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ۔۔۔ ﻓﻼﮞ ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﮨﮯ ﮐﮧ۔۔۔*
*ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﺗﻢ ﭨﻮﭦ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﺑﮑﮭﺮ ﺭﯼ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺱ ﺁﯾﺖ ﮐﮯ ﺯﺭﯾﻌﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺗﺴﻠﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ* ♥️
*ﻓﻼﮞ ﻭﻗﺖ ﭘﺮ ﺟﺐ ﻟﻮﮒ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﮯﺭﺧﯽ ﺑﺮﺕ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔۔۔ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﻼﮞ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺗﮭﺎ۔۔۔ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺩﮮ*
*ﺟﺐ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﭼﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﮔﺮ ﮐﺮ ﺗﮭﮏ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ۔۔۔ ﺗﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺩﻻﺗﺎ ﺗﮭﺎ* ♥️
*ﺟﺐ ﺗﻢ ﺗﮭﮏ ﮐﺮ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔*
*ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺁﭖ ﮨﯿﮟ ﻧﺎﮞ ﻭﮨﺎﮞ ...*
*ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﺎﮞ ...*
*ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ* ♥️
*ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮬﺘﯽ ﮬﻮﮞ۔۔۔۔ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﻨﻮﺍﺋﯿﮟ ﮨﺮ ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮧ۔۔۔۔ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔۔*
*ﺍﻟﻠﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺟﺐ ﺗﻢ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔۔ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺁﻧﺴﻮ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔۔۔۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻧﺎﻣﮯ ﻣﯿﮟ ۔۔۔۔*
*ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺴﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺟﺎﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ۔۔۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮈﺍﻝ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ* ♥️
*ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ۔۔۔ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯿﺎﮞ ﺩﻟﻮﺍ ﮐﺮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺩﻻﺗﺎ ﺗﮭﺎ ۔۔۔۔*
*ﮐﮧ ﺟﻮ ﺳﺒﻖ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﭘﮍﮬﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺗﻢ ﺧﻮﺩ ﺍﺳﮯ ﻧﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﻧﺎ۔۔*
*ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮬﺘﯽ ﮬﻮﮞ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ۔۔۔*
*ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍن ﺳﮯ ﭼﭙﮑﮯ ﭼﭙﮑﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﮯ* ♥️
*ﻣﯿﮟ ﭼﺎﮬﺘﯽ ﮬﻮں ﺍﺱ ﺩﻥ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﻮﮞ ﺗﻮ ۔۔۔ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﻭﺍﺗﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ..*
*ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﯽ ﺣﻘﯿﺮ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﮔﻨﻮﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔۔۔۔۔*
*ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﻗﺪﺭ ﮐﺮﺗﮯ ۔۔۔ﺍﻭﺭ ﮐﺮﻭﺍﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔۔۔*
*ﻣﯿﮟ ﺳﻨﺘﯽ ﺟﺎﺅﮞ۔۔
ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﯽ ﺟﺎﻭﮞ۔۔۔۔*
*ﺍﻭﺭ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎﺗﯽ ﺟﺎﺅﮞ۔۔۔*
*ﺍﺱ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﺳﺠﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﺗﯽ ﺟﺎﻭﮞ..*
*ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﺳﺮﺷﺎﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﺎﺋﮯ..*
*ﮨﺎﮞ ﻣﯿﺮﯼ ﺭﻭﺡ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺩﻥ ﮐﯽ!!* 


عقل اور نصیب

کہتے ہیں کسی جگہ دو شخص رہتے تھے
ایک کا نام "عقل" تھا
اور دوسرے کا نام "نصیب"
ایک دفعہ وہ دونوں کار میں سوار ہو کر ایک لمبے سفر پر نکلے
آدھے راستے میں سنسان راستے پر کار کا پیٹرول ختم ہوگیا، 
دونوں نے کوشش کی کہ کسی طرح رات گہری ہونے سے پہلے یہاں سے نکل جائیں....... 
مگر اتنا پیدل چلنے سے بہتر یہ جانا گیا کہ ادھر ہی وقت گزار لیں جب تک کوئی مددگار نہیں آ جاتا۔

عقل نے فیصلہ کیا کہ وہ سڑک کے کنارے لگے ہوئے درخت کے نیچے جا کر سوئے گا۔

نصیب نے فیصلہ کیا کہ وہ سڑک کے درمیان میں ہی سوئے گا۔
عقل نے نصیب سے کہا بھی کہ تو پاگل ہوگیا ہے کیا؟

سڑک کے درمیان میں سونا اپنے آپ کو موت کے منہ میں ڈالنا ہے
نصیب نے کہا؛ نہیں۔ سڑک کے درمیان میں سونا مفید ہے،
کسی کی مجھ پر نظر پڑ گئی تو جگا کر یہاں سونے کا سبب پوچھے گا اور ہماری مدد کرے گا ۔

اور اس طرح عقل درخت کے نیچے جا کر اور نصیب سڑک کے درمیان میں ہی پڑ کر سو گیا،

گھنٹے بھر کے بعد ایک بڑے تیز رفتار ٹرک کا ادھر سے گزر ہوا۔
جب ٹرک ڈرائیور کی نظر پڑی کہ کوئی سڑک کے بیچوں بیچ پڑا سو رہا ہے
تو اس نے روکنے کی بہت کوشش کی،
ٹرک نصیب کو بچاتے بچاتے مڑ کر درخت میں جا ٹکرایا
درخت کے نیچے سویا ہوا 
بیچارا عقل کچل کر مر گیا
اور نصیب بالکل محفوظ رہا

شاید حقیقی زندگی میں کچھ ایسا ہی ہوتا ہے
نصیب لوگوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتا ہے ۔۔۔۔۔

حالانکہ ان کے کام عقل سے نہیں ہو رہے ہوتے، یہی ان کی تقدیر ہوتی ہے۔
بعض اوقات سفر سے تاخیر کسی اچھائی کا سبب بن جایا کرتی ہے۔

شادی میں تاخیر کسی برکت کا سبب بن جایا کرتی ہے۔

اولاد نہیں ہو رہی، اس میں بھی کچھ مصلحت ہوا کرتی ہے۔
نوکری سے نکال دیا جانا ایک با برکت کاروبار کی ابتدا بن جایا کرتا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو
اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو
اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے.

تین چیزیں

1":تین چیزیں ایک ہی جگہ پرورش پاتی هیں؟ 

*1"پهول        2"کانٹے          3 " خوشبو*

2 " : تین چیزیں ہر ایک کو ملتی ہیں؟ 
*1 " خوشی     2"غم           3"موت* 

3 " :تین چیزیں ہر ایک کی الگ الگ ہوتی ہیں؟ 
*1"صورت         2"سیرت         3"قسمت*

4 " : تین باتوں کو کهبی چهوٹا نہ سمجهو؟
 *1" قرض         2" فرض          3"مرض*

5": تین چیزوں کو کهبی نہ ٹهکراو؟ 
*1" دعوت         2"تحفہ          3" مشوره*

6":تین چیزوں کو ہر کوئی اپنا لے؟
*1"صبر            2"رزق            3"شکر*

7": تین چیزوں کو ہمیشہ پاک رکهو؟
*1"جسم            2"لباس            3" خیالات* 

8 " : تین چیزوں کو ہمیشہ یاد رکهو؟ 
*1"نعمت           2" احسان          3" موت* 

9":تین چیزوں کو ہمیشہ حاصل کرو ؟
*1"علم              2"اخلاق             3"ہنر*

10": تین چیزوں سے پرہیز کرو ؟
*1حسد             2" غیبت           3" چغلخوری* 

11": تین چیزوں کو ہمیشہ قابو میں رکهو ؟
*1" زبان             2 "غصہ             3" نفس* 

12": تین چیزوں کے لیے لڑو ؟
*1"وطن               2" حق               3" عزت*

13": تین چیزیں ہمیشہ واپس نہیں آتیں ؟
*1 " زندگی           2" وقت             3"جوانی*    

بچوں کی تربیت

بچوں کی تربیت کے موضوع پر کچھ باتیں

ہر گھر کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ بھی اگر کچھ اصول بنا لیے جائیں تو زندگی آسان ہو جاتی ہے؛ ہماری ہی نہیں، انکی بھی!
 اصول تھوڑے ہوں، اور جو ہوں انکی پابندی کی جائے۔ احمد کے لئے جو اصول ہمارے گھر میں ہیں،
ان میں سے چند مختصراً بتاتی ہوں۔ 
اگر کوئی خاص اصول ہے تو شیئر کریں۔ ہم سبھی ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔

 *1- صدقہ دینا۔* 
جب بھی احمد کو کچھ پیسے ملیں، اصول یہی ہے کہ پہلے صدقہ الگ کرنا ہے۔ اب الحمدللہ وہ چھوٹو سا آ کر جب مجھے کہتا ہے کہ ماما! یہ صدقہ رکھ لیں، کسی غریب بندے کے لئے، بہت اچھا لگتا ہے۔ ہم سب کبھی باہر کسی غریب کو کھانا پکڑا دیتے ہیں، گھر میں کام کرنے والی ماسی کی کوئی مدد کر دیتے ہیں، حتی کہ باہر پرندوں کو بچی ہوئی روٹی ڈالتے ہیں، لیکن بچوں کو شامل نہیں کرتے۔ کرنا چاہیے! انہیں پتہ ہو کہ ہر بندے کے پاس وہ تمام سہولتیں نہیں جو ہمارے پاس ہیں اور جنکی قدر ہمیں نہیں۔ اور پیسہ جتنا بھی ہمیں عزیز ہو، اسکے ایک حصے پر اوروں کا حق ہے۔

 *2- کھانے سے متعلق ہمارا اصول* ۔
احمد کو کھانا کھلانا شروع سے ہی ایک مشکل کام رہا۔ یہی وہ وقت ہے جس وقت صبر کا دامن میرے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور بار بار چھوٹ جاتا ہے۔ لیکن کچھ عرصہ پہلے کوئی لیکچر سنا کہ اگر کھانا حلال اور صحت بخش ہے تو بس یہ کافی ہے، کھانے کے وقت کو جنگ نہ بنائیں۔ اس دن کے بعد سے اگر احمد وہ کھانا نہیں کھانا چاہتے جو گھر میں بنا ہے تو جو وہ چاہیں، حلال اور صحت بخش، انکو مل سکتا ہے بشرطیکہ وہ پہلے اتنے نوالے گھر بنے کھانے کے لیں جتنی انکی عمر ہے۔ جب 4 سال کے تھے تو چار لقموں کے بعد انہیں بریڈ انڈہ/دودھ سیریل/نان پنیر۔۔۔ جو وہ چاہیں مل سکتا تھا۔ اب پانچ سال کے ہیں تو پہلے پانچ لقمے لینا پڑیں گے، یہی ہمارا اصول ہے۔ 

 *3- "میں نہیں کر سکتا" نہیں* *کہنا* ۔
یہ ہمارا ایک نیا سا اصول ہے اور اسکا بہت فائدہ دیکھتی ہوں۔ ہمارے گھر میں "I can't" کہنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں احمد کو یہ بتاتی ہوں کہ "I can't/میں نہیں کر سکتا" تو ہوتا ہی نہیں ہے، "I'll try/میں کوشش کروں گا" ہوتا ہے۔ کوشش بھی پہلی بار شاید کامیاب نہ ہو لیکن ہمیں پھر بھی کوشش کرتے رہنی ہے جب تک ہم وہ کام سیکھ نہ لیں۔ پھر میں اسکو یاد بھی کرواتی ہوں کہ یاد ہے جب آپ پہلی بار تیرنے کے لئے گئے تھے، کنارے پر بیٹھی ماما کی انگلی ہی نہیں چھوڑ رہے تھے۔ اب دیکھیں، کیسے زور سے پانی میں چھلانگ لگاتے ہیں۔ یاد ہے شروع میں آپکو پڑھنا مشکل لگتا تھا، اب آپ چھوٹی چھوٹی کتابیں خود ہی پڑھ لیتے ہیں۔۔۔ کچھ دن پہلے احمد کے بابا نے اس سے کہا کہ وہ lego نہیں بنا سکتے تو احمد کا جواب تھا: "بابا! ہم نے ہمیشہ کوشش کرنی ہوتی ہے۔ پھر ہمیں آ جاتا ہے۔ شروع میں نہ آیا تو کچھ دفعہ کے بعد آپ سیکھ جائیں گے۔" :)
 
 *4- اپنے ہر عمل کے ذمہ دار ٓاپ* *خود* *ہیں* ۔
ٓاپ نے غلط لفظ کیوں بولا؟ مجھے فلاں نے سکھایا ہے۔ ٓاپ نے ایسا کیوں کیا؟ کیوں کہ فلاں نے ٓائیڈیا دیا تھا۔ ایسے جواب ٓاپکے بچے بھی بارہا ٓاپکو دیتے ہونگے۔ ایسے میں اصول یہ ہے کہ 

اپنے ہر عمل کے ذمہ دار ٓاپ خود ہیں۔ اگر کسی نے مستی والے کام کا ٓائیڈیا دیا ہے تو بھی ٓاپ اسکی بات ماننے یا انکار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جو بھی عمل  ٓاپ نے کیا ہے، اچھا یا برا، اس کے لئے ذمہ دار اور جوابدہ ٓاپ خود ہیں۔ 

بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو اولاد کی بہترین پرورش کرنے والا بنائے، انہیں ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہمارے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔۔۔۔
آمین

نوٹ: اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے 

فاذكرونى أذكركم

اتوار کی چھٹی گزارنے ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ (ﮔﺎﺅﮞ)ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺧﻼﻑ ﺗﻮﻗﻊ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺎﺭﭦ ﻓﻮﻥ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻭﭨﺲ ﺍﯾﭗ ﭘﮧ ﻣﺴﯿﺞ ﻟﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ 

ﯾﮧ ﺻﻮﺭﺗﺤﺎﻝ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﻧﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﺑﮭﯽ۔ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ

 *ﺍﺑّﺎﺟﯽ! ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺁﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﭨﺲ ﺍﯾﭗ ﭘﺮ.*
ﺍﺑﺎ ﺟﯽ ﻣﺴﮑﺮﺍﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ *"ﯾﮧ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﯼ ﭼﯿﺰ ﻧﮩﯿﮟ۔"*

 ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ *" :ﺍﯾﮏ ﻧﮑﺘﮧ ﺑﮍﯼ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﻧﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔"* 

ﻣﯿﺮﯼ ﺣﯿﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﮭﻼ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﻧﮑﺘﮧ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺑّﺎﺟﯽ ﮐﻮ ﺳﻤﺎﺭﭦ ﻓﻮﻥ ﺳﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﺁﯾﺎ۔ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺗﻔﺼﯿﻼﺕ ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﺘﻔﯿﺪ ﮨﻮﺳﮑﯿﮟ۔ 

 ﺍﺑّﺎﺟﯽ ﺑﻮﻟﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﺱ ﺑﺎﺭﮦ ﺩﻥ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﭨﺲ ﺍﯾﭗ ﭘﮧ ﺭﺍﺑﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ۔ ﺟﻮ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﯾﮏ ﺩﻭ ﺩﻥ ﺭﺍﺑﻄﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﻐﺎﻣﺎﺕ ﺑﮩﺖ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺗﻨﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﮏ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺳﮑﺮﻭﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ *ﺟﻮ ﺭﺍﺑﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻟﺴﭧ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔* 

ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺑﮍﯼ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺗﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ 

ﺍﺑّﺎ ﺟﯽ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﭘﮧ ﻏﻮﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔ 

 *ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺭﺏ ﮨﮯ۔ ﺟﺐ ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﺍﺑﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻟﺴﭧ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﺍﻭﭘﺮ ﮨﯽ ﺍﻭﭘﺮ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﮨﻢ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻏﺎﻓﻞ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﺴﭧ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﺑﮩﺖ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔*

 ﺑﺲ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﻧﮑﺘﮧ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻟﺴﭧ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻡ ﺍﻭﭘﺮ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﻗﺘﺎً ﻓﻮﻗﺘﺎً ﺍﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ
فاذكرونى أذكركم
*اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کرو

زندگی مہکتا ہوا پھول ہے

میں کیوں زبردستی کسی کو اچھا لگوں.....!!!!!

اب یہ لازم نہیں ہے کہ میں سب کو اچھا لگوں یا مجھے سب اچھے لگیں
یہ قعتاََ ممکن نہیں ہے 
کیونکہ........!
ہر انسان دوسرے انسان سے فطرتاً مختلف مزاج رکھتا ہے.
سوچ اور نظریات میں فرق ہوتا ہے.
علاوازیں طرزِ زندگی اور طرزِ گفتگو مختلف ہوتے ہیں.
کوئی سوئے ظن کا مریض ہے اور کوئی حُسنِ ظن میں رہ کے خوشی محسوس کرتا ہے.
کوئی زیادہ خاموش رہتا ہے تو کوئی باتونی ہوتا ہے. 
کوئی زیادہ ہنستا ہے تو کوئی چہرے پہ بس مسکراہٹ و تبسم لاتا ہے.
کوئی نرم لہجہ رکھتا ہے , کوئی سختی و کڑواہت بھرے لہجے کا مالک ہوتا ہے
یہاں کوئی غریب تو کوئی امیر ہے
یہاں ہر دوسرا انسان اپنے اپنے آباؤاجداد کے دیے ہوئے مسلک سے وابستہ ہے
یہاں اگر چند اِک افراد حق کے ساتھ کھڑے ہیں تو زیادہ تر باطل کے ساتھ بھی کھڑے ہیں
کوئی حُسن پرست ہے تو کوئی کوئی اچھا کہنے, اچھا کرنے اور اچھا دیکھنے کو پسند کرتا ہے
کوئی منہ پہ بات کرنا پسند کرتا ہے تو کوئی پیٹھ پیچھے لفظوں کی بوچھاڑ کر دیتا ہے

ہر انسان کو اُسے اپنے مزاج کے مطابق لوگ اچھے لگتے ہیں اور وہ شخص اُن لوگوں کو کشش کرے گا جن سے انکے مزاج میں مطابقت ہوگی.
ان عادات و خصائل کا مختلف ہونا یہ نہیں بتاتا کہ آپ ایک دوسرے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھیں یا قطراتے پھریں, جو جیسا ہے اُسکا ﷲ پاک سے اپنا ایک زاتی تعلق ہے

اگر آپ اتنے اچھے, عاقل, عامل, فاضل اور مخلص ہیں تو اُسکی اصلاح کریں اور اُسے اچھا طرزِ زندگی اپنانے کی طرف راغب کریں
کسی کی غیبت کر کے کسی کو برا کہہ کے اور بہتان لگا کے اپنی زبان اور باطن کو گندہ نہ کیجئیے 
چونکہ........!!!
اُسے بھی پیدا کرنے والا وہی خالق ہے, دنیا میں لانے والا باری تعالیٰ ہے 
پالنے والا وہی ﷲ تو ہے جس نے آپکی تخلیق کی. 
جو آپکو اِس روئے زمیں پر لایا.
کسی سے عداوت, کینہ, بغض نہ رکھئیے کیونکہ زندگی بد گُمانی اور عداوت کا نام نہیں ہے.
یہ امن و امان, محبت, اخلاق و تمدن کا نام ہے.🌻🌹🌻🌹🌻🌹🌻🌹🌻🌻🌹🌻🌹🌻
*زندگی مہکتا🌻 ہوا پھول🌻 ہے* 
یہ راحت انگیز اور پر نور فضا ہے جو دل کو مہکا دے جو چمنِ دل کو روشن کر دے

ھم مسلم ھیں ۔۔۔
ھم پاکستانی ھیں ۔۔۔
ھم فخر کرتے ھیں ۔۔۔۔
زندگی شمع کی صورت ہو اللہ کرے میری

آپ کی بیوی آپ کا ساتھی ہے

 (چند چیزیں جو آپ اپنی بیوی کے ساتھ لازمی کریں)

 1. اسے میٹھے عرفی ناموں سے پکاریں (نبیﷺ عائشہؓ کو "عاشُ" کہ کر پکارتے تھے)۔

2.اس کے ساتھ  کوئی بھی حلال کھیل کھیلو (نبیﷺ عائشہؓ کے ساتھ دوڑ لگاتے تھے) اور جب شوہر اپنی بیوی کے ساتھ کھیلتا ہے تو اللہ اس سے محبت کرتا ہے۔

 3.اس کے ساتھ حسن سلوک کرو اور اس کو ہر وہ چیز پیش کرو جس سے اس کا دل آپ کی طرف نرم ہوجائے (عرفات میں آخری خطبہ میں نبیﷺ کی طرف سے یہ انتباہ ہے)

4.اس کے لیے تحائف خریدیں بعض اوقات  ٹافی ھی کیوں نہ ہو (انہیں ایک بچے کی طرح سلوک کرنا پسند ہے)

 6. گھریلو سرگرمیوں میں اس کی مدد کریں۔  جب بھی آپ موجود ہوں ، کھانا پکانے ،کپھڑے دھونے ، کمرے کو صاف کرنے وغیرہ میں۔ (یہ سنت ہے)

 7. اس کے والدین کی عزت کریں اور انھیں کبھی کبھی تحفہ دیں۔

 8. ان اچھی باتوں اور کام کی تعریف کریں جو وہ آپ کے لیے کرتی رہی ہیں اور اس کے لئے ہمیشہ اس کا شکریہ ادا کرتے رہیں۔  اللہ فرماتا ہے؛  جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ میرا شکریہ ادا نہیں کرتا ہے۔

 9. اسے بتائیں کہ وہ آپ کے لیے کتنا معنی رکھتی ہے ، آپ اس سے کتنا پیار کرتے ہیں اور آپ اسے پا کر کتنے خوش قسمت ہیں۔

 10. اس کی باتیں پوری توجہ محبت اور  دلچسپی سے سنو ۔ اور جو مسائل وہ بتائے ان کو فوری حل کرو ۔۔

 11. اس کو اس کا عیب بتانے سے پہلے اس کی تعریف کرو۔

 12. اچھی خوشبو (منہ اور جسم دونوں ،  یہ سنت ھے)  سے ہمیشہ اپنے آپ کو مزین کریں۔

 13. جب کبھی آپ ساتھ ہوں تو اس کے ساتھ گفتگو کریں۔

 14. جب آپ کام پر ہوتے ہو تو ، "مجھے آپ کی یاد آتی ہے" ، "مجھے آپ سے محبت ہے" ، اسے فون پر بتایں۔

 15. اس کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں ، جیسے۔  کھانا پکانا ، کھانا ،  ، قرآن پاک پڑھنا ، وغیرہ

 16. دوسروں کی موجودگی میں اس کی غلطی کا انکشاف نہ کریں۔

 17. اسے دین کے بارے میں سکھائیں ۔          

18.اسے  مارنے ، پیٹنے ،تکلیف دینے سے پرھیز کریں۔

19.اسے حجاب پہننے ، اپنے وقت کے اندر پانچ  وقت نماز  پڑھنے ، اور رمضان کے روزے رکھنے،اور  زکات دینے( اگر فرض ہو)  کی تلقین کریں .. یہ سب لازمی ھیں.

20.اسے ھمیشہ اپنی دوعاؤں میں یاد رکھیں.

21.وہ راستہ بنیے جس پر آپ کی بیوی جنت جاسکے۔

یآ اللہ ! ہمیں صحیح مسلمان بنا دے ۔۔۔اور ہماری ازدواجی زندگی کو خوبصورت بنا دے ۔۔۔آمین

Sunday, December 13, 2020

ﺳﺮﺥ ﺍﻭﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ


ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﺒﻠﻎ ﯾﻮﺭﭖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﮮ ﭘﺮ ﺗﮭﺎ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﻋﻤﺮ ﺳﺘﺮ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ﮨﻮﮔﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﺐ ﻟﯿﺌﮯ, ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﮭﭽﮯ ﺩﺍﻧﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ...
ﯾﮧ ﺁﺩﻣﯽ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ۔ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺳﯿﺐ ﻟﯿﮑﺮ ﮐﺎﭨﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﻗﺎﺷﯿﮟ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﮐﻮ ﺩﯾﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﺍُﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺁﺋﮯ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﺳﯿﺐ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺭﻭ ﭘﮍﯼ .."ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ؛ ﺁﭘﮑﻮ ﮐﺲ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺭﻭﻧﺎ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ؟
ﺑﮍﮬﯿﺎ ﺑﻮﻟﯽ:"ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﯿﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﺱ ﺳﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ, ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﺍﻭﺭ , ﻣﯿﺮﮮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻟﻮﭦ ﮐﺮ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯽ۔ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺗﻨﯽ ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﮨﮯ؟
ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: "ﺟﺲ ﺩﯾﻦ ﮐﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺮﻭﮐﺎﺭ ﮨﻮﮞ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻭ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ, ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ, ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ , ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﻠﮑﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻧﮑﻠﺘﮯ , ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﮐﮭﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﮨﻢ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻭﻻﺩ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺣﺎﺿﺮ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ , ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﯾﻦ ﻧﮯ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔"
ﺑﮍﮬﯿﺎ ﺑﻮﻟﯽ:"ﮐﯿﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﺩﯾﻦ ﮐﺎ, ﺟﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ  ﺍﯾﺴﺎ ﺩﺭﺱ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ؟"
"ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:ﻣﯿﺮﮮ ﺩﯾﻦ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﺳﻼﻡ ﮨﮯ" ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﺍﭼﮭﮯ ﺍﺧﻼﻕ ﻭ ﺑﺮﺗﺎﺅ ﻭﺍﻻ اس ﻣﺒﻠﻎ کی وجہ سے بڑھیا نے اسلام قبول کرلیا ..
" ﺳﺮﮐﺎﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ کا فرمان ہے کہ اگر ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﺳﺮﺥ ﺍﻭﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ"

نوبت نہ آنے پائے

‏‏‏اپنی وجہ سے کسی کو یہ کہنے کی نوبت نہ آنے دیجئے گا کہ۔۔۔۔
"وَاُفَوّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللّٰہ"
"میں اپنا مقدمہ اللّٰہ کے ہاں پیش کرتا ہوں۔"

یاد رکھیئے ۔۔۔

کسی کے یہ کہنے سے پہلے معاملہ سُلجھا لیجیئے گا۔ کیونکہ اُس رَب کے ہاں نہ جج بِکتے ہیں نہ ہی گواہ خریدے جا سکتے ہیں اور نہ ہی وکیل ، وہ خُود ہی گواہ ، خُود ہی وکیل اور خُود ہی جج ہے ۔

اُس کے فیصلے پھر ٹلتے نہیں اور وہاں ترازُو بھی انصاف کے تُلتے ہیں ۔

اور اللّٰہ جو چاہتا ہے کر دیتا ہے۔

اللّٰہ کو تکبر پسند نہیں

📡۔فـــرعون ٹیـــکنالوجـــی اور ســـائنس میں ہم ســـے بہــــت آگے تھے، 
🧱۔ یہ سات ہزار سال قبل سات سو کلو میٹر دور لکسر شہر سے ایک کروڑ پتھر یہاں لائے، ہر پتھر 25 سے اڑھائی سو ٹن وزنی تھا،
⚒۔ یہ ون پیس تھا اور یہ پہلے پہاڑ سے چوڑائی میں کاٹا گیا تھا اور پھر سات سو کلو میٹر دور لایا گیا تھا، یہ پتھر بعد ازاں صحرا کے عین درمیان 170 میٹر کی بلندی پر لگائے بھی گئے،
👥۔ قدیم مصری آرکیٹیکٹس نے آٹھ ہزار سال قبل مقبروں کا ایسا ڈیزائن بنایا جو ہر طرف سے بند بھی تھا لیکن بندش کے باوجود اندر سورج کی روشنی بھی آتی تھی، ہوا بھی اور اندر کا درجہ حرارت بھی باہر کے ٹمپریچر سے کم رہتا تھا،
⚰۔ ان لوگوں نے آٹھ ہزار سال قبل لاشوں کو حنوط کرنے کا طریقہ بھی ایجاد کر لیا اور یہ خوراک کو ہزار سال تک محفوظ رکھنے کا طریقہ بھی جان گئے، قاہرہ کے علاقے جیزہ کے بڑے اہرام میں 23 لاکھ بڑے پتھر ہیں، 
🐩۔ ابولہول دنیا کا سب سے بڑا ون پیس اسٹرکچر ہے۔
🐝۔اور یہ لوگ جانتے تھے،شہد دنیا کی واحد خوراک ہے جو کبھی خراب نہیں ہوتی چنانچہ اہراموں میں پانچ ہزار سال پرانا شہد نکلا اور یہ مکمل طور پر استعمال کے قابل تھا،
یہ لوگ کمال تھے، بس ان میں ایک خرابی تھی،
💥۔یہ متکبر تھے اور اللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں، چنانچہ یہ پکڑ میں آ گئے اور یوں عبرت کی نشانی بن گئے۔
🦘۔ طبع 

شیر اور شارک

شیر اور شارک دونوں پیشہ ور شکاری ہیں، لیکن شیر سمندر میں شکار نہیں کر سکتا اور شارک خشکی پر شکار نہیں کر سکتی۔

شیر کو سمندر میں شکار نہ کر پانے کیوجہ سے ناکارہ نہیں کہا جا سکتا اور شارک کو جنگل میں شکار نہ کر پانے کیوجہ سے ناکارہ نہیں کہا جا سکتا۔ دونوں کی اپنی اپنی حدود ہیں جہاں وہ بہترین ہیں۔

اگر گلاب کی خوشبو ٹماٹر سے اچھی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے کھانا تیار کرنے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایک کا موازنہ دوسرے کے ساتھ نہ کریں۔

آپ کی اپنی ایک طاقت ہے، اسے تلاش کریں اور اس کے مطابق خود کو تیار کریں۔

کبھی خود کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں، بلکہ ہمیشہ خود سے اچھی اُمیدیں وابستہ رکھیں۔

یاد رکھیں، ٹوٹا ہوا رنگین قلم بھی رنگ بھرنے کے قابل ہوتا ہے۔

اپنے اختتام تک پہنچنے سے پہلے، خود کو بہتر کاموں کے استعمال میں لے آئیں۔

*وقت کا بدترین استعمال، اسے خود کا دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے میں ضائع کرنا ہے۔*

*مویشی گھاس کھانے سے موٹے تازے ہو جاتے ہیں۔ جبکہ یہی گھاس اگر درندے کھانے لگ جائیں تو وہ اس کی وجہ سے مر سکتے ہیں۔*

کبھی بھی اپنا موازنہ دوسروں کے ساتھ نہ کریں۔ اپنی دوڑ اپنی رفتار سے مکمل کریں ۔

خُدا کے عطاء کردہ تحفوں، نعمتوں اور صلاحیتوں پر نظر رکھیں اور اُن تحفوں سے حسد کرنے سے باز رہیں، جو خُدا نے دوسروں کو دیے.

Saturday, December 12, 2020

شادی کی پہلی رات

 خاوند کمرے میں داخل ہوا اور کمرے کا دروازہ بند کر کے بیوی  کے قریب آ کر بیٹھ گیا ۔ سب سے پہلے اس نے اپنی بیوی کو سلام کیا اس کے بعد  پانچ ہزار حق مہر دینے لگا ۔ بیوی نے کہا " میں نے حق مہر نہیں لینی میں  آپ کو معاف کرتی ہوں " خاوند نے دوسری بار حق مہر دینے کی کوشش کی بیوی نے  یہ ہی جواب دیا ، پھر خاوند نے تیسری بار حق مہر دینے کی کوشش کی بیوی نے  پھر وہ ہی جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
 خاوند نے وہ پیسے اپنے بٹوے میں رکھ دیۓ اور چند منٹوں کے لیے سوچوں میں گم ہو گیا کہ کتنی توکل والی اور وفا والی بیوی ہے جو پیسوں سے زیادہ مجھے ترجیح دے رہی ہے ۔۔۔۔
 اس کے بعد خاوند نے منہ دیکھاٸی کے لیے بیوی کو پانچ ہزار دیۓ بیوی نے منہ  نہ دیکھایا ۔ پھر خاوند نے دس ہزار دیۓ بیوی نے منہ نہ دیکھایا ، پھر  خاوند نے پندرہ ہزار دیۓ بیوی نے منہ نہیں دیکھایا ، پھرخاوند نے بیس ہزار  دیۓ بیوی نے منہ نہیں دیکھایا ۔پھر پچیس ، تیس ، چالیس حتی کہ خاوند نے  پچاس ہزار دیا بیوی نے منہ نہ دیکھایا ۔ خاوند نے تنگ آ کر پورا بٹوہ بیوی  کے حوالے کر دیا جس کے اندر ایک لاکھ روپے تھے پھر بھی بیوی نے منہ نہیں  دیکھایا ۔۔۔۔خاوند نے بیوی سے کہا ۔۔
 " آپ کو اور کیا چاہیے " بیوی نے کہا ۔۔۔ایک وعدہ 
 خاوند نے کہا "کون سا وعدہ" 
 "بیوی نے کہا مجھ سے ایک وعدہ کرو مجھے کھبی چھوڑوں کے تو نہیں "
 خاوند نے شادی کی پہلی رات بیوی کو نہ چھوڑنے کا وعدہ کر لیا ۔ یہ لڑکی  کوٸی عام لڑکی نہیں تھی بلکہ اس نے ایم اے اردو کر رکھا تھا اور اس کے  والدین نے داماد سے ضمانت کی طور پر پانچ لاکھ ۔ یا دس لاکھ بھی نہیں  لکھوایا تھا ۔ ایسی عورتیں نصیب والے مردوں کو ملتی ہیں جو صرف خاوند سے  پیار کرتی ہیں ان کی نظر میں پیسوں کی کوٸی اہمیت نہیں ہوتی ۔ایسی بیویاں  معاشرے کے لیے رول ماڈل ہیں ۔جن کی وجہ سے ہمارہ معاشرہ چل رہا ہے ۔۔۔۔۔۔
چاہت خلوص کی کچھ کم نہ تھی 
 کم شناس لوگ دولت پر مر گۓ
اللہ تعالیٰ سب بیٹیوں کے نصیب  اچھے کرے.👐👐
 آمین ثمہ آمین

انسان کی سوچوں کا کمال

ہم دن بھر جو سوچتے ہیں اور جو وسوسے دن بھر ہماری گود میں پلتے ہیں وہ اکثر رات کے پچھلے پہر ہمارا دردِ سر بن جاتے ہیں.
زیادہ تر ایسا کسی اپنے قریبی کو کھو دینے یا تنہائی کا شکار ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے.
تنہائیوں کا بسیرا ہمارے ارد گرد نہیں بلکہ درحقیقت ہمارے اندر ہی ہوتا ہے.
تنہائی ایک اندرونی کیفیت ہے آپ اسے بیرونی کیفیت قطعاً نہیں کہہ سکتے اور جو کیفیت اندرونی ہو اس کا علاج بھی اندر ہی موجود ہوتا ہے یعنی کہ ہماری تنہائی کا علاج ہمارے ہی پاس ہوتا ہے مگر ہم اس بیماری کے علاج کیلئے طبیب کی تلاش شروع کر دیتے ہیں.
ہماری زیادہ تر پریشانیوں اور ٹینشن یا سٹریس کی وجہ بھی ہم خود ہی ہیں. ہم خود کو بلا وجہ الجھائے رکھتے ہیں. بے جا کہ وسوسے اور الجھنیں پال رکھی ہیں ہم نے.
اکثر اوقات ہم چیزیں خود سے فرض کرتے ہیں اور ان کے فرضی نتائج بھی نکال لیتے ہیں. ہمارے اندر کی بیزاری اور اکتاہٹ کی وجہ کوئی دوسرا یا تیسرا نہیں ہم خود ہی ہیں. کیونکہ ہم خوابی دنیا میں جی رہے ہیں، جب ہم حقیقت سے نظریں چراتے ہیں تو ہم بیزار ہوتے ہیں.
زندگی میں بہت کچھ ایسا ہے جو ہو کر رہنا ہے، ہم جو مرضی کوشش کر لیں ہو کر رہے گا تو بہتر ہے کہ ہونے دیں.
جو ہم بدل نہیں سکتے اس کے بارے سوچ کر بھی ہمیں کچھ نہیں ملنا. 
"Don't stuck your mind with those things you can't understand".
ہر سٹریس کا ایک حل ہے کہ آپ اپنی مصروفیات کو بڑھا دیں، آپ کی جو انرجی منفی خیالات پر خرچ ہوتی ہے اس کا رخ مثبت خیالات کی جانب موڑ دیں، لوگوں سے مثبت گفتگو کریں، یاد رکھیں کہ مثبت مکالمہ آپ کے ذہن کے بند دروازوں کو بھی کھول دیتا ہے. مثبت موضوعات پر مشتمل کتب کا مطالعہ کریں، ورزش کریں، اپنے آپ پر توجہ دیں کیونکہ خوشی انسان کے اندر جبکہ غم باہر موجود ہوتے ہیں. آپ جب خود پر توجہ دیتے ہیں تو آپ کی اندرونی کیفیت بحال ہو جاتی ہے اور اس طرح آپ کو حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے. افسانوں میں جینے والے ہمیشہ سٹریس کا شکار رہتے ہیں، وہ حقیقت کا سامنا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے.
جو انسان اپنے آپ سے محبت کرتا ہے وہی انسان دوسروں سے محبت کر سکتا ہے، جب آپ اندر سے خوش ہوتے ہیں تو ہر کام میں اپنا بھرپور پوٹینشل دیتے ہیں، رشتوں کی قدر کرتے ہیں، ارد گرد رہنے والوں کا خیال کرتے ہیں. جو انسان خود سے محبت نہیں کرتا وہ اپنے آپ میں الجھا رہتا ہے، جو خود میں الجھا ہو وہ کسی کی الجھی ڈوری کو نہیں سلجھا سکتا. چلتے رہیں، آگے بڑھتے رہیں ♥️

اللّٰہ سے باتیں

کبھی کبھی اللّٰہ سے باتیں کر لیا کرو
 اے ابن آدم!!.... 
 لوگ تمہیں طنز کریں گے... 
 تمہاری  امانت کو خود تک محفوظ کرنے والے بہت کم ہوں گے... 
 بعض ان میں سے تمہارے مسائل بڑھانے والے ہوں گے...
  انکی بجائے اس ذات پاک سے رابطہ کرو جو تمہارے مسائل حل کر دے...
  تمیں سیدھی راہ کی طرف لے آئے.. 
غلط  صحیح  کی پہچان کروا دے... 
 جو سننے والا ہے اسے اپنے غم سناؤ.. 
 وہ سنتا ہے دلوں کی آوازوں کو, خاموشی کو...
دلوں کے راز جاننے والا ہے..
  اپنا کنکشن اس ذات کے ساتھ مضبوط کر لو جو ہر وقت تمہاری شہ رگ سے بھی ذیادہ قریب ہے... 
 دوست بناؤ.. پر اپنا ایک خاص دوست صرف اللہ کو ہی بناؤ..  اسی پر یقین رکھو... 
وہ سن لے گا تو حل سمجھا بھی دے گا.  مشکل میں صبر کی توفیق بھی دے گا.... 
خود سوچیں..  جب کوئی ہم سے پوچھے گا کہ آپکا خاص دوست کون ہے تو ہم کہیں گے اللہ پاک ہیں.. 
کتنا الگ سا, خوبصورت  سا احساس,  سکون ملتا ہے نا...  
خود کو اپنے خالق کی قریب کریں..  وہ تو پہلے سے ہی ہمارے بہت قریب ہے..  

ڈپریشن

ایک اھم امدادی تحریر
تعارف:
وقتاً فوقتا ہم سب اداسی، مایوسی اور بیزاری میں مبتلا ہو تے ہیں۔ عمو ماً یہ علامات ایک یا دو ہفتے میں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور ہماری زندگیوں میں ان سے بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ کبھی یہ اداسی کسی وجہ سے  شروع ہوتی ہے اور کبھی بغیر کسی وجہ کے ہی شروع ہو جاتی ہے۔  عام طور سے ہم خود ہی اس اداسی کا مقابلہ کر لیتے ہیں۔بعض دفعہ دوستوں سے بات کرنے سے ہی یہ اداسی ٹھیک ہوجاتی ہے اور کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی۔لیکن طبّی اعتبار سے  اداسی اسوقت ڈپریشن کی بیماری کہلانے لگتی ہے جب:

• اداسی کا احساس بہت دنوں تک رہے اور ختم ہی نہ ہو

•  اداسی کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کے روز مرہ کے معمولات اس سے متاثر ہونے لگیں۔

ڈپریشن میں کیسا محسوس ہوتا ہے؟
ڈپریشن کی بیماری کی  شدت  عام اداسی کے مقابلے میں جو ہم سب وقتاً فوقتاً محسوس کرتے ہیں  کہیں زیادہ گہری اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔  اس کا دورانیہ بھی عام اداسی سے کافی زیادہ ہوتا ہےاور مہینوں تک چلتا ہے۔ درج ذیل ًعلامات ڈپریشن کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر مریض میں تمام علامات مو جود ہوں لیکن اگر آپ میں ان میں سے کم از کم چار علامات موجود ہوں تو اس بات کا امکان ہے کہ آپ ڈپریشن کے مرض کا شکار ہوں۔

۱۔ ہر وقت یا زیادہ تر وقت اداس اور افسردہ  رہنا 

۲۔ جن چیزوں اور کاموں میں پہلے دلچسپی ہو  ان میں دل نہ لگنا، کسی چیز میں مزا نہ آنا

۳۔ جسمانی یا ذہنی کمزوری محسوس کرنا، بہت زیادہ تھکا تھکا محسوس کرنا

۴۔ روز مرہ کے کاموں یا باتوں پہ توجہ نہ دے پانا

۵۔ اپنے آپ کو اوروں سے کمتر سمجھنے لگنا، خود اعتمادی کم ہو جاناا

۶۔ ماضی کی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لیے اپنے آپ کو الزام دیتے رہنا، اپنے آپ کو فضول اور ناکارہ سمجھنا

۷۔ مستقبل سے مایوس ہو جانا

۸۔ خودکشی کے خیالات آنا یا خود کشی کی کوشش کرنا

۹۔ نیند خراب ہو جاناا

۱۰۔ بھوک خراب ہو جانا

ڈپریشن کیوں ہو جاتا ہے؟
بعض لوگوں میں ڈپریشن کی کوئی خاص وجہ ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ بہت سے لوگوں کو جو اداس رہتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں اپنی اداسی کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔اس کے باوجود ان کا ڈپریشن بعض دفعہ اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ انھیں مدد اور علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

•معاملاتَ زندگی
بعض تکلیف دہ واقعات مثلا کسی قریبی عزیز کے انتقال، طلاق، یا نوکری ختم ہوجانے کے بعد کچھ عرصہ اداس رہنا عام سی بات ہے۔ اگلے کچھ ہفتوں تک ہم  لوگ اس کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور بات طاہر رہتے ہیں۔پھر کچھ عرصہ بعد ہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اپنی روز مرہ کی زندگی میں واپس آ جاتے ہیں۔لیکن بعض لوگ اس اداسی سے باہر نہیں نکل پاتے اور ڈپریشن کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

• حالات وواقعات
اگر ہم تنہا ہوں، ہمارے آس پاس کوئی دوست نہ ہوں، ہم ذہنی دباؤ کا شکار ہوں، یا ہم بہت زیادہ جسمانی تھکن کا شکار ہوں، ان صورتوں میں ڈپریشن کی بیماری ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

• جسمانی بیماریاں
جسمانی طور پر بیمار لوگوں میں ڈپریشن ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ بیماریاں ایسی بھی ہو سکتی ہیں جو زندگی کے لیے خطرناک ہوں مثلا کینسر یا دل کی بیماریاں، یا ایسی بھی ہو سکتی ہیں جو بہت لمبے عرصے چلنے والی اور تکلیف دہ ہوں مثلاً جوڑوں کی تکلیف یا سانس کی بیماریاں۔ نوجوان لوگوں میں وائرل انفیکشن مثلاً فلو کے بعد ڈپریشن ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

• شخصیت
ڈپریشن کسی کو کسی بھی وقت ہو سکتا ہےلیکن بعض لوگوں کو ڈپریشن ہونے کا خطرہ اور لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ ہماری شخصیت بھی ہو سکتی ہے اوربچپن کے حالات و تجربات بھی۔

• شراب نوشی
جو لوگ الکحل بہت زیادہ پیتے ہیں ان میں سے اکثر لوگوں کو ڈپریشن ہو جاتا ہے۔بعض دفعہ یہ پتہ نہیں چلتا کہ انسان شراب پینے کی  وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو گیا ہے یا ڈپریشن کی وجہ سے شراب زیادہ پینے لگا ہے۔جو لوگ شراب بہت زیادہ پیتے ہیں ان میں خود کشی کرنے کا خطرہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔

• جنس
خواتین میں  ڈپریشن ہونے کا امکان  مرد حضرات سے زیادہ ہوتا ہے۔

• موروثیت
ڈپریشن کی بیماری بعض خاندانوں میں زیادہ ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے والدین میں سے کسی ایک  کو ڈپریشن کی بیماری ہے تو آپ کو ڈپریشن ہونے کا خطرہ اورلوگوں کے مقابلے میں آٹھ   گنا زیادہ  ہے۔

مینک ڈپریشن یا بائی پولر ڈس آرڈر کیا ہے؟
جن لوگوں کو شدید ڈپریشن ہوتا ہے  ان میں سے تقریباً دس فیصد لوگوں کو ایسےتیزی کے  دورے بھی ہوتے ہیں جب وہ بغیر کسی وجہ کے بہت زیادہ خوش رہتے ہیں اور اور نارمل سے زیادہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔  اس تیزی کے دورے کو مینیا اور اس بیماری کو  بائی پولر ڈس آرڈر کہتے ہیں۔ اس بیماری کی شرح مردوں اور عورتوں میں برابر ہے اور یہ بیماری بعض خاندانوں میں زیادہ ہوتی ہے۔

کیا ڈپریشن انسان کی ذاتی کمزوری کا دوسرا نام ہے؟
جس طرح سے ذیابطیس ایک بیماری ہے اور بلڈ پریشر کا بڑھ جانا ایک بیماری ہے اسی طرح سے ڈپریشن بھی ایک بیماری ہے۔ یہ بیماری کسی بھی انسان کو ہو سکتی ہے چاہے وہ اندر سے کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔ جیسے اور بیماریوں کے مریض ہمدردی اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں اسی طرح سے ڈپریشن کے مریض بھی ہمدردی اور علاج کے مستحق ہوتے ہیں، تنقید اور مذاق اڑائے جانے کے نہیں۔

ڈپریشن میں آپ کس طرح سے اپنی مدد کر سکتے ہیں؟
•اپنی جذباتی کیفیات کو راز نہ رکھیں۔
اگر آپ نے کوئی بری خبر سنی ہو تو اسے کسی قریبی شخص سے شیئر کر لیں اور انھیں یہ بھی بتائیں کہ آپ اندر سے کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ اکثر دفعہ غم کی باتوں کوکسی قریبی شخص کے سامنے  بار بار دہرانے، رو لینے  اور اس کے بارے میں بات کرنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔

•جسمانی کام کریں۔
کچھ نہ کچھ ورزش کرتے رہیں، چاہے یہ صرف آدھہ گھنٹہ روزانہ چہل قدمی ہی کیوں نہ ہو۔ ورزش سے انسان کی جسمانی صحت بھی بہتر ہوتی ہے اور نیند بھی۔ اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھیں چاہے یہ گھر کے کام کاج ہی کیوں نہ ہوں۔ اس سے انسان کا ذہن تکلیف دہ خیالات سے ہٹا رہتا ہے۔

•اچھا کھانا کھائیے۔
متوازن غذا کھانا بہت ضروری ہےچاہے آپ کا دل کھانا کھانے کو نہ چاہ رہا ہو۔ تازہ پھلوں اور سبزیوں سے سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ڈپریشن میں لوگ کھانا کھانا چھوڑ دیتے ہیں جس سے بدن میں وٹامنز کی کمی ہو جاتی ہے اور طبیعت اور زیادہ خراب لگتی ہے۔

•شراب نوشی سسے دور رہیں ۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ شراب پینے سے ان کے ڈپریشن کی شدت میں کمی ہو جاتی ہے۔ حقیقت میں شراب پینے سے ڈپریشن اور زیادہ شدت اختیار کر لیتا ہے۔ اس سے وقتی طور پر کچھ گھنٹوں کے لیے تو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن بعد میں آپ اور زیادہ اداس محسوس کریں گے۔ زیادہ شراب پینے سے آپ کے مسائل اور بڑھتے ہیں، آپ صحیح مدد نہیں لے پاتےاور آپ کی جسمانی صحت بھی خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

•نیند
نیند کے نہ آنے سے پریشان نہ ہوں۔ اگر آپ سو نہ سکیں تو پھر بھی آرام سے لیٹ کر ٹی وی دیکھنے یا ریڈیو سننے سے آپ کو ذہنی  سکون ملے گا اور آپ کی گھبراہٹ بھی کم ہو گی۔

•ڈپریشن کی وجہ کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
اگر آپ کولگتا ہے کہ آپ کو اپنے ڈپریشن کی وجہ معلوم ہے تو اس کو لکھنے اور اس پہ غور کرنے سے کہ اسے کیسے حل کیا جائے ڈپریشن کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

•مایوس نہ ہوں۔
اپنے آپ کو یاد دلاتے رہیں کہ:

آپ جس تجربے سے گزر رہے ہیں اس سے اور لوگ بھی گزر چکے ہیں۔

ایک نہ ایک روز آپ آپ کا ڈپریشن ختم ہو جائے گا چاہے ابھی آپ کو ایسا نہ لگتا ہو۔

ڈپریشن کا علاج کیسے کیا جا سکتا ہے؟
ڈپریشن کا علاج باتوں (سائیکو تھراپی) کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے،  اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کے ذریعے بھی اور بیک وقت دونوں کے استعمال سے بھی۔ آپ کے ڈپریشن کی علامات کی نوعیت، ان کی شدت اور آپ کے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ کے لیے ادویات کا استعمال زیادہ بہتر ہے یا سائیکو تھراپی۔ ہلکے اور درمیانی درجے کے ڈپریشن میں سائیکوتھراپی کے استعمال سے طبیعت ٹھیک ہو سکتی ہے  لیکن اگر ڈپریشن زیادہ شدید ہو تو دوا دینا ضروری ہو جاتا ہے۔

 باتوں کے ذریعے علاج (سائیکوتھراپی)
ڈپریشن میں اکثر لوگوں کو اپنے احساسات کسی با اعتماد شخص کے ساتھ شیئر کرنے سے طبیعت بہتر محسوس ہوتی ہے۔بعض دفعہ اپنے احساسات رشتہ داروں یا دوستوں کے ساتھ بانٹنا مشکل  ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ماہر نفسیات (سائیکولوجسٹ) سے بات کرنا زیادہ آسان لگتا ہے۔سائیکوتھراپی کے ذریعے علاج میں وقت لگتا ہے۔ عام طور سے آپ کو ماہر نفسیات سے ہر ہفتے ایک گھنٹے کے لیے ملنا ہوتا ہے اور اسکا دورانیہ ۵ ہفتے سے ۳۰ ہفتے تک ہو سکتا ہے۔

اینٹی ڈپریسنٹ ادویات۔
اگر آپ کا  ڈپریشن شدید ہو یا کافی عرصے سے چل رہا ہو تو ہو سکتا ہے کہ آپ کا ڈاکٹر آپ کو اینٹی ڈپریسنٹ ادویات تجویز کرے۔ ان ادویات سے اداسی کم ہوتی ہے، زندگی بہتر لگنے لگتی ہے اور حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں بہتری ہوتی ہے۔ یاد رکھیے کہ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کا فائدہ دوا شروع کرنے کے بعد فوراً نظر آنا شروع نہیں ہوتا بلکہ اس میں ۲ سے ۳ ہفتے لگ سکتے ہیں۔بعض لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دوا شروع کرنے  کے بعد چند ہی دنون میں ان کی نیند بہتر ہو جاتی ہے اور گھبراہٹ کم ہو جاتی ہے لیکن ڈپریشن کم ہونے میں کئی ہفتے لگتے ہیں۔

اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کس طرح کام کرتی ہیں؟
انسانی دماغ میں متعدد کیمیائی مواد موجود ہیں جو ایک خلیے سے دوسرے خلیے تک سگنل پہنچاتے ہیں۔ایسا سمجھا جاتا ہے کہ ڈپریشن میں دو خاص کیمیکلز  کی کمی ہوتی ہےجنھیں  سیروٹونن اور نارایڈرینلین کہا جاتا ہے ۔ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات ان کیمیکلز کی مقدار دماغ میں بڑھانے میں مددگار ہو تی ہیں۔

اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کے مضر اثرات۔
دوسری تمام ادویات کی طرح ڈپریشن مخا لف ادویات کے بھی مضر اثرات ہو تے ہیں مگر عام طور سے یہ شدید نہیں ہوتے اور دوا لیتے رہنے سے کچھ عرصے میں ختم ہو جاتے ہیں ۔ ایس ایس آر آئی اینٹی ڈپریسنٹ ادویات شروع کے دنوں میں کچھ مریضوں میں متلی اور بے چینی پیدا کرتی ہیں۔ ٹرائی سائکلسٹ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لینے سے شروع کے چند ہفتوں میں منہ کی خشکی اور قبض کی شکایات ہو سکتی  ہیں۔ اگر یہ مضر اثرات بہت شدید نہ ہوں تو امکان یہی ہے کہ آپ کا ڈاکٹر  آپ کو کہے گا کہ دوا جاری رکھیں کیونکہ اکثر مریضوں میں دوا جاری رکھنے سے یہ اثرات کم یا ختم ہو جاتے ہیں۔

بعض اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کولینے سے  نیند  آتی ہےاس لیے  ان کو رات سونے سے پہلے لینے کی ہدایت کی جاتی  ہے۔ غنودگی کی صورت میں گاڑی چلانے اور بڑی مشینری کے استعمال سے گریز کریں۔ بعض ادویات کا بعض دوسری ادویات کے ساتھ ری ایکشن ہو سکتا ہےاس لیے  اپنے ڈاکٹر کو ہر اس دوا سے آگاہ کریں جو آپ استعمال کر رہے ہیں۔ اگر آپ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات لینے کے ساتھ ساتھ شراب پینا جاری رکھیں گے  تو آپ کو بہت زیادہ نیند آئے گی اور دوا کا پورا فائدہ بھی نہیں ہو گا۔

دوا شروع کرنے کے بعد اپنے ڈاکٹر کو باقاعدگی سے دکھاتے رہیں تا کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ آپ کو دوا سے فائدہ ہو رہا ہے کہ نہیں اور اس کے مضر اثرات تو نہیں ہو رہے۔اینٹی ڈپریسنٹ ادویات طبیعت صحیح ہو جانے کے بعد بھی کم از کم مزید  چھ مہینے تک جاری رکھنی پڑتی ہیں ورنہ بیماری کی علامات واپس  آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات آہستہ آہستہ بند کی جاتی ہیں۔ اپنے ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر خود سے اچانک دوا بند نہ کریں۔

اکثر لوگ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات شروع کرنے  سے پہلے پریشان ہوتے ہیں کہ وہ ان کے عادی ہو جائیں گےاور پھر انھیں ساری عمر ان دوائیوں کو لینا پڑے گا۔ یہ خیال صحیح نہیں، انسان اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کا س طرح سے عادی نہیں بنتا جیسے لوگ نیند کی دوائیوں مثلاً ویلیم، شراب یا نکوٹین کے عادی ہو جاتے ہیں۔ان نشہ آور چیزوں کے برعکس  نہ اینٹی ڈپریسنٹ ادویہ کا فائدہ برقرار رکھنے کے لیے ان کی مقدار بڑھانی پڑتی ہے اور نہ ہی ان کی شدید طلب ہوتی ہے۔ البتہ اگر آپ اینٹی ڈپریسنٹ ادویات کو اچانک بند کریں تو گھبراہٹ، پتلا پاخانہ اور ڈراؤنے خواب کی شکایات ہو سکتی ہیں۔اگر دوائیں آہستہ آہستہ بند کی جائیں تو یہ شکایات شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں۔

کیا مجھے ماہر نفسیاتی امراض (سائیکائٹرسٹ)  کو دکھانا ہو گا؟
ڈپریشن کے بہت سارے مریض اپنے فیملی ڈاکٹر کے علاج سے ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ کی طبیعت اس سے صحیح نہ ہو تو ہو سکتا ہے آپ کو ماہر نفسیاتی امراض (سائیکائٹرسٹ) کو دکھانے کی ضرورت پڑے۔ سائیکائٹرسٹ ڈاکٹر ہو تے ہیں اور اس کے بعد  انہوں نے نفسیاتی امراض کے علاج  میں مزید تربیت حاصل کی ہو تی ہے

علاج نہ کرانے کی صورت میں کیا ہو تا ہے؟
اچھی خبر یہ ہے کہ ڈپریشن کے اسی فیصد مریض  علاج نہ کروانے کے باوجود بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن اس میں چار سے چھ مہینے یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔آپ سوچیں گے کہ پھر علاج کروانے کی کیا ضرورت ہے؟ وجہ یہ ہے کہ باقی  بیس فیصد مریض بغیر علاج کے  اگلے دو سال تک ڈپریشن میں مبتلا رہیں گے اور پہلے سے یہ بتانا ممکن نہیں ہوتا کہ کون ٹھیک ہو جائے گا اور کون ٹھیک نہیں ہو گا۔اس کے علاوہ اگر علاج سے چند ہفتوں میں طبیعت بہتر ہو سکتی ہے تو انسان کئی مہینو ں تک اتنی  شدید تکلیف کیوں برداشت کرتا رہے۔ کچھ لوگوں کا ڈپریشن اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ وہ خود کشی کر لیتے ہیں۔ اسی لیے اگر آپ کے  ڈپریشن کی علامات کی شدت بڑھ گئی ہے اور  ان میں کوئی کمی نہیں ہو رہی، آپ کے  ڈپریشن نے آپکے  کام، دلچسپیوں، اور رشتہ داروں اور دوستوں سے تعقات  کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے، یا آپ کو اس طرح کے خیالات آنے لگے ہیں کہ آپکے  زندہ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں اور  دوسرے لوگوں کے حق میں یہی بہتر ہے کہ آپ مر جائیں، تو آپ کو فوراً اپنا علاج کروانے کے لیے اپنے ڈاکٹر یا سائکائٹرسٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔