Friday, May 29, 2020
ایک کے بعد دوسرا
انسان کی شخصیت
بنیاد
جواب کا طریقہ
مسائل اور مواقع
برتر کامیابی
شکایت
Saturday, May 16, 2020
بامقصد ذندگی
ایکسپریس ٹرین
پوری رفتار سے اپنی منزل کی طرف بھاگی چلی جارہی ہے۔ راستہ میں دونوں طرف سرسبز کھیتوں
اور ڈبڈبائے ہوئے نالوں اور ندیوں کا مسلسل منظر اپنی طرف کھینچتا ہے۔ مگر تیز
دوڑتی ہوئی ٹرین کو ان خوش نما مناظر سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پستی اور بلندی، خشکی اور
پانی اس کی رفتار میں کوئی فرق پیدا نہیں کرتے۔ راستہ میں چھوٹے چھوٹے اسٹیشن آتے
ہیں مگر وہ ان کو چھوڑتی ہوئی اس طرح بھاگی چلی جاتی ہے گویا اسے کہیں ٹھہرنا نہیں
ہے۔
بامقصد زندگی کا
معاملہ بھی کچھ اسی قسم کا ہے۔ جس آدمی نے اپنی زندگی کا ایک مقصد بنارکھا ہو، اس
کی ساری توجہ اپنے مقصد میں لگ جاتی ہے۔ ادھر ادھر کے مسائل میں وہ اپنا وقت ضائع
نہیں کرتا۔
بامقصد زندگی گزارنے
والا آدمی ایک ایسے مسافر کی طرح ہوتا ہے جو اپنا ایک ایک لمحہ اپنی منزل کی طرف بڑھنے
میں لگادینا چاہتا ہے۔ دنیا کے خوش نما مناظر ایسے مسافر کو لبھانے کیلئے سامنے
آتے ہیں، مگر وہ ان سے آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ سائے اور اقامت گاہیں اس کو ٹھہرنے
اور آرام کرنے کی ترغیب دیتی ہیں مگر وہ ان کو چھوڑتا ہوا اپنی منزل کی طرف بڑھتا
رہتا ہے۔ دوسری چیزوں کے تقاضے اس کا راستہ روکتے ہیں مگر وہ ہر ایک سے دامن بچاتا
ہوا بڑھتا چلا جاتا ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز اس سے ٹکراتے ہیں مگر اس کے باوجود
اس کے عزم اور اس کی رفتار میں کوئی فرق نہیں آتا۔
بامقصد آدمی کی
زندگی ایک بھٹکے ہوئے آدمی کی مانند نہیں ہوتی جو سمت سفر متعین نہ ہونے کی وجہ سے
کبھی ایک طرف چلنے لگتا ہے اور کبھی دوسری طرف۔ بلکہ اس کے ذہن میں راستہ اور منزل
کا واضح شعور ہوتا ہے۔ اس کے سامنے ایک متعین نشانہ ہوتا ہے۔ ایسا آدمی کیسے کہیں
رک سکتا ہے۔ کیسے وہ دوسری چیزوں میں الجھ کر اپنا وقت ضائع کرنے کے پسند کرسکتا
ہے۔ اس کو تو ہر طرف سے اپنی توجہ ہٹا کر ایک متعین رخ پر بڑھنا ہے اور بڑھتے رہنا
ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مقصد کو پالے، یہاں تک وہ اپنی منزل پر پہنچ جائے۔
زندگی کو بامعنی
بنانے کیلئے ضروری ہے کہ آدمی کے سامنے ایک سوچا ہوا نشانہ ہو۔ جس کی صداقت پر اس
کا ذہن مطمئن ہو۔ جس کے سلسلے میں اس کا ضمیر پوری طرح اس کا ساتھ دے رہا ہو، جو
اس کے رگ و پے میں خون کی طرح اترا ہوا ہو۔ یہی مقصدی نشانہ کسی انسان کو جانور سے
الگ کرتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ اور جس آدمی کے
اندر مقصدیت آجائے اس کی زندگی لازماً ایک اور زندگی بن جائے گی۔ وہ چھوٹی چھوٹی
غیر متعلق باتوں میں الجھنے کے بجائے اپنی منزل پر رکھے گا۔ وہ یک سوئی کے ساتھ
اپنے مقررہ نشانہ پر چلتا رہے گا یہاں تک کہ منزل پر پہنچ جائے گا۔
مولانا وحید الدین خان
Tuesday, May 12, 2020
بھرم ھی تو ھے ....
Saturday, May 9, 2020
اب تمہیں معلوم ہوا.....
خدا را خود کو پہچانیں
*خدارا اپنے آپ کو پہچانو...... اک مسلم کی طاقت یہ ہے کہ وہ آج سے 1400 سال قبل اس پتھریلی سرزمین عرب کے ہِلنے پر اپنے نافذ کردہ عدل و انصاف کی یاددہانی کے سلسلے میں اس پر ضرب مارے اور آج تک اس زمینِ عرب پر زلزلہ نہیں آیا...... تو کیا ہم اپنے پختہ ایمان واعتقاد اور عمل وافکار سے اس عام کرونا وائرس کو نیست ونابود نہیں کر سکتے.... ہم یہ ثابت کریں گے کہ ہم وہ خاص لوگ ہیں کہ اک مسلم کے منہ سے جب تلاوتِ خداوندی جاری ہوتی ہے تو فرشتے اس مسلم کے منہ کو بوسہ دینے کےلیے رشک کرتے ہیں......جب یہ مسلم اللہ اکبر منہ سے کہتا ہے تو شیطان کوسوں دور ہو جاتا ہے.......جب یہ مسلم فراخ دلی سے اپنے مسلم بھائی کو گلے لگاتا ہے اور مصافحہ کرتا ہے تو اللہ انکی اس ادا کو دیکھ کر دونوں کے سابقہ گناہوں کو دھو ڈالتا ہے.......یہ مسلم جب جمعہ کے وقت مسجد میں اجماعِ امّہ کے ساتھ شمولیت کرنے کے سلسلے میں مسجد کے دروازہ پر قدم رکھتا ہے تو فرشتے اسکے مسجد میں آنے والے وقت کے لحاظ سے سونے, چاندی کے اوراق پر حاضری لگانے کے سلسلے میں اس آدمی کا نام تحریر کرتے ہیں.........جب یہ مسلم وضو کرتے ہوئے جس جس عضو کو دھوتا ہے تو ہر عضو سے گناہ پانی کے ساتھ بہتے چلے جاتے ہیں...... تو میرے پیارے نادان مسلمان تو کیوں مساجد و حرمین شریفین سے خوف کھانے لگا ہے. اٹھ اس ذات کو حاضر ناظر رکھ اور بلا جھجھک اپنی عبادتیں خوش اسلوبی سے بغیر خوف کے معمول کے مطابق ادا کر.اگر اس ساری دنیا نے کرونا وائرس سے تباہ ہونا ہے تو میں تجھے ضمانت دیتا ہوں جس جس نے مُحمّد صلّی اللہ علیہ وسلّم کا کلمہ پڑھا ہے اور ذوقِ عبادت رکھتا ہے وہ شخص اس وائرس سے فنا نہیں ہو گا نہیں ہو گا نہیں ہو گا۔"
منقول.....
توجہ طلب بات
میں نے پوچھا ''تمہیں کرونا سے ڈر نہیں لگتا؟''
معلوم ہے اس نے کیا جواب دیا ؟ کہتا ہے کہ
''بھوک سے بلکتے بچوں کا چہرہ نہیں دیکھا جاتا حافظ صاحب ، کرونا سے زیادہ بھوک خطرناک ہے ، میں کہیں سیدھے رستے سے بھٹک نہ جاؤں اس لیے کسی سے ڈرے بغیر کمانے نکلا ہوں۔"
میں نے کہا کہ ''مخلص لوگ اِن دِنوں بیروزگار ہوئے لوگوں میں راشن تقسیم کر رہے ہیں ، کیا آپ کو نہیں ملا؟''
اس بات کے جواب میں جو اس نے کہا ملاحظہ فرمائیں، کہتا ہے کہ
*''کسی سے حدیث سنی تھی کہ کوئی تمہیں ہدیہ وغیرہ دےتو قبول کرلو ، مجھے بھی لوگ اشیاء دینے آئے تھے مگر اشیاء دیتے ساتھ انہوں نے کیمرے نکال لیے تاکہ مجھے راشن لیتے ہوئے دکھا کر اپنا نیک کام اور میری بے بسی لوگوں کو دکھا سکیں ، حافظ صاحب مجھے بھوکا رہنا یا قانون توڑ کر مزدوری کرنا منظور ہے لیکن اپنی عزت نفس کی بربادی ہوتے دیکھنا منظور نہیں۔"*
اور میں اس سے آگے کوئی سوال کرنے کے قابل نہ رہا تھا کیونکہ میں اور آپ جانتے ہیں کہ کیا مذہبی اور کیا دنیا دار کوئی بھی نیکی کو کیمرے کے بغیر قبول کروانے کے لیے آج کل راضی نہیں ہے، جس کا جی چاہتا ہے چند سو روپوں کا عطیہ دے کر کسی مفلس کی عزت نفس پر ضربِ کاری لگانے کا موقع ضائع نہیں کرتا ۔۔۔۔
*منقول*
اپنا اصل ٹھکانہ بنائیں
یہی صورتحال تاجر صاحب کے ساتھ بھی ہوئی… اخلاص اور شوق کی طاقت نے …چند گھنٹوں میں سارے کام کرا دئیے… بہترین موقع کا پلاٹ بھی مل گیا… اچھا انجینئر اور اچھا ٹھیکیدار بھی ہاتھ آ گیا… اور مغرب کی اذان سے پہلے پہلے کھدائی اور تعمیر کا کام بھی شروع ہو گیا …شام کو وہ صاحب واپس گھر آئے تو گھر والوں نے پوچھا کہ آج آپ کھانا چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے؟… کہنے لگے… اپنے اصلی گھر اور اصلی رہائشی گاہ کا انتظام کرنے…اور وہاں کھانے پینے کا نظام بنانے گیا تھا…الحمد للہ سارا انتظام ہو گیا … اب سکون سے مر سکتا ہوں… آپ لوگوں نے تو میری زندگی میں ہی… انگور کے چار دانے میرے لئے چھوڑنا گوارہ نہ کئے… اور میں اپنا سب کچھ آپ لوگوں کے لئے چھوڑ کر جا رہا تھا … میرے مرنے کے بعد آپ نے مجھے کیا بھیجنا تھا؟ … اس لئے اب میں نے خود ہی اپنے مال کا ایک بڑا حصہ اپنے لئے آگے بھیج دیا ہے…اس پر میرا دل بہت سکون محسوس کر رہا ہے.
_اس تحریر نے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے._
دینو کی دعوت
Thursday, May 7, 2020
آئینہ
ایک مُسافِر نے وہاں سے گُزرتے ہوئے اس سے پوچھا:
میں یہاں آباد ہونا چاہتا ہوں,,.مجھے بتاؤ کہ یہاں کِس قِسم کے لوگ بَستے ہیں؟
دانا انسان:جس بستی سے تم آرہے ہو وہاں کہ لوگ کیسے ہیں؟
مسافر:وہ کَمینے,ظالِم اور بد تہذیب ہیں
دانا انسان : اس بستی کہ لوگ بھی ایسے ہی ہیں,
وہ مُسافر چلا گیا, کچھ دیر بعد ایک اور مسافر آیا اور اُس نے بھی دانا اِنسان سے یَہی پوچھا کہ اِس بستی کہ لوگ کیسے ہیں؟
دانا اِنسان نے اُس بھی ویسا ہی سُوال کیا کہ تمہاری بستی میں کیسے انسان بَستے ہیں؟
اس نے کہا مُہَذب, شَائِستہ ,مِہربان,نرَم خُو اور مہمان نواز,
دانا:تمہیں یہاں بھی ایسے ہی لوگ ملیں گے
پہلا قدم
وہ غریب فٹ پاتھ پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور رونے لگا کہ مالک کو کیا جواب دوں گا۔ لوگ اس کے ارد گرد کھڑے ہوگئے اور ہمدردی تسلی دینے لگے۔
.
اتنے میں ایک بزرگ آگے بڑھے اور سو روپے اس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہنے لگے بیٹا اس سے نقصان تو پورا نہیں ہوگا ۔۔۔ لیکن رکھ لو۔ بزرگ کی دیکھا دیکھی باقی لوگوں نے بھی اس کے ہاتھ پر سو پچاس کے نوٹ رکھنے شروع کر دئیے تھوڑی ہی دیر میں شیشے کی قیمت پوری ہوگئی. اس نے سب کا شکریہ ادا کیا ....
تو ایک شخص بولا بھئی شکریہ ان بزرگ کا ادا کرو جنھوں نے ہمیں یہ راہ دکھائی اور خود چپکے سے چل دئیے۔۔۔
پہلا قدم اٹھانے کی ہی دیر ہوتی ہے ؛؛
باقی قدم خود بخود اٹھنے لگتے ہیں ۔۔ !!
حاصل کلام : سب ہی اپنے طور پر نیکی کا کام کرنا چاہتے ہیں ؛؛
لیکن سوال یہ ہے کہ پہلا قدم بڑھائے کون، راستہ دکھائے کون ؟؟
Tuesday, May 5, 2020
بندگی کا روزہ
*مگر دوسری طرف ہم سب ایک اور روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بندگی کا روزہ ہے۔ یہ روزہ خدا کی ہر نافرمانی کے ساتھ ٹوٹ جاتا ہے۔ مگر ہمیں اس روزے کے ٹوٹنے کا کوئی افسوس نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ ہمیں اس روزے کے ٹوٹنے کا کوئی احساس بھی نہیں ہوتا۔ ہم بندگی کا روزہ ہر روز توڑتے ہیں۔ حتیٰ کہ عین روزے کے عالم میں بھی توڑتے ہیں۔ مگر ہمارا ہر احساس اس سنگین جرم کو سمجھنے کے لیے مردہ بنا رہتا ہے۔ اس لیے کہ ہم نے اس جرم کو کبھی جرم ہی نہیں سمجھا۔*
*جس وقت ہم فواحش سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ حرام کھاتے اور کماتے ہیں۔ لوگوں کے ساتھ ظلم کرتے، انھیں دھوکہ دیتے اور ان کا مال دباتے ہیں، بندگی کا یہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔*
*جس وقت ہم جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ پھیلاتے ہیں۔ جس وقت ہم غیبت کر کے کسی کو رسوا کرتے ہیں۔ جس وقت ہم الزام و بہتان لگا کر کسی کو بدنام کرتے ہیں۔ بندگی کا یہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔*
*جس وقت ہم اپنی خواہشات کو دین بنا لیتے ہیں۔ جس وقت ہم اپنے تعصبات کی بنا پر سچائی کو رد کر دیتے ہیں۔ جس وقت ہم عدل و انصاف کے تقاضوں کو پامال کرتے ہیں۔ بندگی کا یہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔*