Sunday, November 22, 2020

محبت

پہلی محبت دل خالی کر جائے تو،،، دوسری محبت اُسے بھر بھی سکتی ہے۔۔۔ پہلی محبت دل کِرچی کِرچی کردے تو،،، دوسری محبت مرہَم بن بھی جاتی ہے۔۔۔ پہلی محبت دُھتکار دے تو،،، دوسری محبت گلے لگا بھی لیتی ہے۔۔۔ پَر اکثر پہلی محبت کے بعد دوسری محبت بھی ہار جاتی ہے۔۔۔ کیونکہ کوئی اِسے قبول کرنا ہی نہیں چاہتا۔۔۔ کوئی اِسے موقع دینا ہی نہیں چاہتا۔۔ اور ہر کسی کا ظرف اجازت بھی نہیں دیتا۔۔۔!!!

ایک چھوٹی سی تحریر

ایک شخص سمندر کے  کنارے  واک کر رہا تھا تو اس نے دور سے دیکھا  کہ کوئی شخص نیچے جھکتاہے ، کوئی چیز اٹھاتا ہے اور سمندر میں پھینک دیتا ہے  ذرا قریب جاتا ہے تو کیا دیکھتا ہے ہزاروں مچھلیاں کنارے پر پڑی تڑپ رہی ہیں  شاید کسی بڑی موج نے انہیں سمندر سے نکال کر ریت پہ لا پٹخا تھا اور وہ شخص ان مچھلیوں کو واپس سمندر میں پھینک کر ان کی جان بچانے کی اپنی سی کوشش کر رہا تھا۔

بیک فائر ایفیکٹ!!!

من میں کھڑکی سیریز!

بیک فائر ایفیکٹ!!! 

کبھی آپ نے سوچا کہ لوگ آنکھوں دیکھی مکھی کیوں نگل لیتے ہیں؟ اپنے بے پیندے اور لولے لنگڑے مؤقف ہر کیوں جم جاتے ہیں؟ اور جان بوجھ کر دیوار پر لکھا پڑھنے سے کیوں انکار کردیتے ہیں؟ آپ نے نہیں بھی سوچا تو نفسیات دانوں نے اس پر بہت سوچا اور جواب تک پہنچنے کی سعی کی ہے. 

عورتوں کیلئے ڈاکٹر کی کچھ ہدایات

1- ضروری نہیں کہ گھر کے تمام کاموں کو ایک ہی دن میں کیا جائے ۔ایسے کرنے والی خواتین سٹریس میں رہتی ہیں اور ایسی ہی کئی قبر کے نیچے آرام فرما رہی ہیں ۔

2 - اپنے آرام کیلئے کچھ وقت ضرور نکالیں ، کیونکہ کچھ دیر  آرام کرنا اور کچھ من پسند کھانا کھانا قطع گناہ نہیں ہے۔

جھگڑے، زندگی کا حصّہ ہیں!

خواتین و حضرات!...
 انصاف سے کام لیں تو کچھ کمی نہیں چھوڑی کسی نے، ایک اُس نے کہا تو ایک آپ نے... اور آپ کی آوازیں اونچی ہونے لگ گئیں!
اور کہانی توڑ پھوڑ کرنے تک پہنچ گئی؛
ایک حریم خاک میں ملی تو کئی حرمتیں ٹوٹ گئیں!

اللّٰہ کی پہچان

جو اللّٰه کو پہچان جائے وہ اس سے محبت کیے بنا رہ ہی نہیں سکتا..وہ اتنا کریم ہے، اتنا رحیم ہے، وہ ایسی خوبصورت اور باکمال ذات ہے جس کو اگر کوئی جان لے، تو اسے اس ذات سے بے پناہ محبت ہو جائے، اس کی معرفت مل جائے تو اس سے محبت کرنے کے لئے خود پر جبر نہ کرنا پڑے، اصل بات ہی یہ ہے کہ ہم اسے پہچانتے ہی نہیں ہیں...

اللّٰہ کی گڈ لسٹ

"اللّٰہ کی گڈ لسٹ میں شامل ہونے کی کوشش کریں انسانوں کی نہیں، انسانوں کی لسٹ تو وقت اور مفاد کے مطابق بد لتی رہتی ہے"

باتوں کو بھلانے کی عادت

باتوں کو بھلانے کی عادت ڈال لیجیئے - 
ھـر بات کو یاد رکھنا ، اپنے دماغ کا سکون خراب کرنے کے برابر ہوتا ہے -
زِندگی کے کچھ مقامات پر لاپرواہ رہنا سیکھیئے ، کیونکہ
جس طرح ہر بات کہنے والی نہي ہوتی اِسی طرح ہر بات سننے والی بھی نہيں ھـوتـی۔

کیسا یہ عشق ھے

ایک بچے نے اک استاد کو اپنےگھر ایک مضمون پڑھانے کے لئے مقرر کیا. استاد نے اسے اک ٹاپک سمجھایا اور کہا کہ آج شام میں گھر آکر اس کا ٹیسٹ لوں گا اس کی پریکٹس کر کے ٹیسٹ تیار کرلینا. 
 استاد جب شام کو بچے کے گھر گئے تو دیکھا کہ گلی میں قالین بچھا ھوا تھا جس پر گلاب کے پھولوں کی پتیاں اسے ڈھانپے ھوئے تھیں. گلی کے دونوں طرف کے تما گھروں کی دیواروں پر ہر رنگ کی بتیاں جل رھی تھیں. اورگلی کےاوپر رنگ برنگی جھنڈیوں کی چادر تنی ھوئی تھی آخرتک. 
 استاد جب گلی میں سے گزر کر بچے کے گھر کے دوازے پر پہنچے تو ان پر چھت سے پھولوں کی بارش برسائی گئی. اور فضا "مرحبا یااستاذ" کےفلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی. گھر کے دروازے پر بچے نے استاد کا پرتپاک استقبال کیا اور استاد کے ہاتھوں کو جھک کر ادب سے چوما اور انھیں آنکھوں پر لگایا. 
استادنے پوچھا کہ "بیٹا یہ سب کیا ھے..‫؟" تو بچے نے جواب دیا کہ،،،، "استاد محترم مجھے آپ سے والہانہ پیار، محبت، عقیدت اورعشق ھے. آپ آج میرے گھر تشریف لائے ھیں تو یہ سارا انتظام آپ کی آمد کی خوشی میں آپ کے استقبال کے لئے میں نے کیا ھے.تاکہ آپ مجھ سے راضی اور خوش ھوجائیں."
 استاد نے فرمایا کہ "اچھا بیٹا یہ بتاؤ کہ تم نے وہ ٹیسٹ تیار کیا ھے جس مقصد کے لئے میں یہاں آیا ھوں.؟" تو بچے نے جوب دیا کہ "استاد محترم دراصل میں آپ کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف رہا تھا اس لئے میں وہ ٹیسٹ تیار نھیں کر سکا." تو استاد نے فرمایا کہ.، ، ، 
 " بیٹا جس مقصد کے لئے میں یہاں آیا ھوں اور جس کام سے میں نے تم سے راضی اور خوش ہونا تھا وہ تو یہ ٹیسٹ تھا جو تم نے تیار ھی نھیں کیا. اور جس کام کے کرنے کے لئے میں نے ایک مرتبہ بھی آپ کو نھیں کہا تھا آپ نے اس کام میں اپنا قیمتی وقت اور پیسہ لگا کر مجھے خوش کرنے کا کیسے سوچ لیا.؟ جس کام کے کرنے کا میں نے کہا ھی نھیں تھا اس کام سے بھلا میں خوش کیسے ھو سکتا ھوں.؟ اور جس کام سے میں نے خوش ھونا تھا وہ آپ نے کیا ھی نھیں. آپ کےخلوص اور جذبے پر مجھے کوئی شک نھیں بیٹا لیکن اس جذبے کی تکمیل اس راستے سے کبھی نھیں ھو سکتی جو آپ کو پسند ھو بلکہ صرف اسی طریقے سے ھو سکتی ھے جو مجھے پسند ھے."
بس یہی حقیقت ہمارے اپنے نبی سے عشق و محبت کی میرے بھائیو! جس کا بخار ہمیں صرف ربیع الاول میں ھوتا ھے. اگر ہم اپنے نبی کو راضی و خوش کرنا چاھتے ھیں تو اس کے لئے ہمیں طریقہ بھی وھی اختیار کرنا ھوگا جو خود نبی علیہ السلام نے بتایا تھا اور صحابہ کرام علیھم الرضوان نے جس پر عمل کرکے دکھایا تھا. 
 بے شک ہمارے خلوص اور عشق کی سچائی میں کوئی شک نھیں لیکن محبوب راضی اسی طریقے سے ھوتا ھے جو محبوب کو پسند ھو نہ کہ عاشق کو پسند ھو. اور وہ ایک ھی طریقہ ھے کہ حکم الله کا ھو اور طریقہ ِمحمد الرسول الله کا ھو. صلی الله عليه وسلم. اور زندگی اسی محبوب کی سنتوں کی اتباع میں گزر جائے. 
 کوئی لڑائی نھیں کوئی جھگڑا نھیں کوئی بحث و مناظرہ نھیں بس صرف آسان الفاظ میں آپ کےلیے سادہ سی دعوت فکر ھے. اس امید کے ساتھ کہ، ، ، ،
شاید کہ اتر جائےکسی دل میں میری بات

آنسو پونچھنا سیکھو

کل ایک کمال کا لطیفہ سنا. کسی لاہوری کا بیٹا تلاش روزگار میں ملک سے باہر گیا تو وہ ایئر پورٹ سے سیدھا داتا دربار گیا اور وہاں جا کر صدق دل سے پنجابی میں ایک دعا مانگی. "یا داتا، اسماعیل نوں دبئی وچ سیٹ کرادیو، پکا سیٹ کرادیو، جیویں تسی آپ لاہور وچ سیٹ او".( داتا صاحب، میرے بیٹے اسماعیل کو بھی اسی طرح دبئی میں سیٹ کرادیں، جیسے آپ خود لاہور میں سیٹ ہیں).ہنسا بھی، پھر خیال بھی آیا جس شہر میں قطب الدین ایبک، جلال الدین اکبر، جہاں گیر، نورجہاں، شاہ جہاں، آصف جاہ، رنجیت سنگھ جیسے آئے اور گرد بن گئے، وہاں داتا صاحب اتنے عرصے سے سیٹ کیسے بیٹھے ہیں؟ جواب ملا، بس ہزار سال سے لوگوں کے آنسو پونچھ پونچھ کر سیٹ ہوگئے ہیں. باقی شاہ اور شہنشاہ شاید یہ کام نہیں جانتے تھے تو وقت کے آتشدان میں راکھ ہوگئے. 

ہاں، اپنی سارے علم کو، ادب کو، فلسفے کو، توانائی کو، ولولے کو، تجربے کو، فہم کو، کامرانیوں کو، باقی سب جگہوں پر کام میں لے کر آؤ، مگر ایک کام سب سے ضروری ہے. وہ یہ ہے کہ سر پر ہاتھ رکھنا سیکھو، گلے لگانا سیکھو، آنسو پونچھنا سیکھو، اگر باقی سارےگن سیکھ لئے مگر یہ گن نہ سیکھا تو سب ڈسٹ بن میں چلا جائے گا.

مرغی اور بطخ کے بچے پیدا ہونے کے پہلے گھنٹے میں اپنے آپ کو سنبھالنے جوگے ہوجاتے ہیں. ایک قسم کے زرافے کے بچے کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں چار سے چھ گھنٹے لگتے ہیں. کچھ طرح کی مکھیاں ہیں، ان کے بچے پانچ منٹ میں اپنی ماں کی طرح اڑنا سیکھ لیتے ہیں. مگر انسان ہے جسے اپنا جوگا ہونے میں ماہرین کے مطابق نو سال کی مدت درکار ہوتی ہے. وہ اتنے عرصے دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے. پھر درمیان میں ایک مدت ایسی آتی ہے کہ اسےلگتا ہے کہ وہ پہاڑوں کاسرمہ بنادے گا اور کوہساروں کو شق کر کے دودھ کی نہر نکال دے گا اور بادلوں کوآپس میں ٹکرا دے گا. پھر اس کی زندگی کا آخری وقت آتا ہے جب وہ پھر چلنے، پھرنے، کھانے پینے کے لیے دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے. دائرہ پھر مکمل ہوجاتا ہے.

دلائی لامہ نے کیسی خوبصورت بات کی ہے "ہماری زندگی کے ابتدائی اور انتہائی دونوں ادوار لوگوں کے سہارے گزرتے ہیں، جزبات اور احساسات کے سہارے گزرتے ہیں. یہ دنیا کتنی بہتر ہوجائے کہ ہم درمیان والی مدت میں بھی زور کی بجائے رحم، کرم اور شفقت سے کام لیتے رہیں اور یہ سبق بھلا نہ دیں".

لیکن عام طور پر دکھائی یہ دیتا ہے کہ دنیا زورآوروں آور زرداروں کی ہے. ماہرین نفسیات اور بشریات نے بہت دلچسپ تجزیہ کیا کہ گو دنیا بھر کے سہارے مذاہب اور ثقافتوں میں عاجزی کے فوائد بیان کیے جاتے ہیں، مگر واقعی اس ثقافت کا اصل کیا ہے، اس کا پتہ اس وقت چلے گا جب بھی آپ اسی ثقافت میں ان کے مجسموں کا مطالعہ کریں گے. اگر ان کے تمام ہیروز مغرور اور جنگجو لوگ ہوں گے، یہیں سے سمجھ جانا چاہیے کہ آپ کی اندرونی نفسیات کیسے کام کرتی ہے. جب سفید گھوڑے پر سمشیر خاراشگاف لہراتے ہوئے سورما کا انتظار ہوگا تو سوچ بھی متشدد ہوجائے گی. ایدھی اور چاہئیں، ڈاکٹر امجد ثاقب اور چاہئیں، رتھ فاؤ اور چاہئیں تو مجسمے بھی انہی کے لگانے ہوں گے.

کچھ لوگ زندگی میں اس قانون پر عمل پیرا ہوتے ہیں کہ وہ ہتھوڑا ہیں، اور باقی دنیا کیل ہے، جہاں کیل دیکھو، اسے ٹھونک دو. اس قانون پر پوری زندگی گزارتے گزارتے کبھی کبھار وہ اپنے سے بڑے ہتھوڑے کی زد میں آتے ہیں اور کسی کیل کی طرح ٹھونک دیے جاتے ہیں. ایسے ہتھوڑے ہمارے آس پاس ہر طرح کے کرداروں کی شکل میں موجود ہیں، ویسے تو پوری دنیا میں ہوتے ہیں، مگر ہمارے جیسے نیم قبائلی معاشروں میں ہتھوڑے اور کیل زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں. نوکر شاہی اور لیڈرشپ کی پاکستانی نفسیات جہاں تک سیکھی تھی اس کے حساب سے اپنے ہاں تقریباً ہر کیل کا ایک ہی خواب ہے کہ وہ بڑی ہوکر ہتھوڑا بن جائے.

ہاں، صرف کیل اور ہتھوڑوں کے کلچر میں نہیں رہا جاسکتا. کوئی مرہم لگانے والا بھی ہو، کوئی سر پر ہاتھ رکھنے والا بھی ہو، کوئی آنسو پونچھنے والا بھی ہو. کیا ہی اچھا ہو کہ وہ کوئی ہم خود ہی ہوں. کیا ہی بہتر ہو جس عاجزی ہر ہم اپنے خیال میں ایمان رکھتے ہیں، ہمارے مجسمے بھی اسی لے میں ڈھل. جائیں.  جہاں کیل، ہتھوڑے بنتے ہیں، وہاں مرہم بھی تو بنا جاسکتا ہے.

( مصنف کی زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس )

پرعزم انسان راستہ کبھی نہیں بدلتا

ایک دفعہ ایک گھوڑا ایک گہرے گڑھے میں جا گرا اور زور زور سے اوازیں نکالنےلگا
گھوڑے کا مالک کسان تھا جو کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا
جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گھوڑا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے
وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں اور گڑھے کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں
یہ سوچ کر اس نے اپنے
اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور گڑھا بند کرنا شروع کر دیا
سب کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ تھا جس سے وہ مٹی بجری اور کوڑا کرکٹ گڑھےمیں ڈال رہے تھے
گھوڑا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا
اس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی
کچھ ہی لمحے بعد گھوڑا بالکل خاموش سا ہو گیا
جب کسان نے جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب گھوڑے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہے
یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا
کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور گھوڑا اسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر اوپر آتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اوپر تک پہنچ گیا اور باہر نکل آیا
یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی سکتے میں آ گئے
زندگی میں ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے
ہماری کردار کشی کی جائے
ہمارے دامن کو داغدار کیا جائے
ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے
لیکن گندگی کے اس گڑھے سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں
بلکہ ہمیں بھی ان بے کار کی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے
زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں مگر یہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ آیا ہم ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں
یا
ان کے اوپر چڑھ کر مشکل کے کنویں سے باہر آنے کی ترکیب کریں
خاک ڈالنے والے ڈالتے رہیں
مگر پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا

Saturday, November 21, 2020

رشتے اور صبرو برداشت

سوال ۔رشتے نبھانے کے لیے صبر اور برادشت کو انسان کی کمزوری سمجھا جا تا ہے ،صبر کرنے کی صورت میں انعام کیا ملتا ہے؟
سرفراز شاہ صاحب 
رشتے نبھانے کے لیے انسان کا فقیر ہو نا ضروری نہیں ہے ۔اب یہ فقیر کا لفظ بھی بڑا ٹریکی ہے ہمارے ہاں بھکاری کو بھی فقیر کہا جا تا ہے حالانکہ فقیر اور بھکاری میں بڑا فرق ہے فقیر وہ ہے جس نے دنیا کو ٹھکرا دیا اور بھکاری وہ ہے جس کو دنیا نے ٹھکرا یا ہے ۔انسان کو چاہیے کہ وہ صبر سے کام لے اس میں رشتے بھی شامل ہیں ۔مسلمان کے لیے صبر کی بڑی تلقین کی گئی ہے اور اللہ کے ہاں اسکا بڑا اجر ہے ۔اللہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے ۔  انسان جس قدر بڑی کامیابی کے لیے کو شش کرتا ہے دشواری بھی اتنی ہی ہو تی ہے ۔جب انسان صبر کرتا ہے تو بہت سے لو گ اس کو بے وقوف سمجھ رہے ہو تے ہیں لیکن ایک وقت کے بعد وہی لو گ اس کی عزت واحترام کرتے ہیں اوراس کی تعریف کرتے ہیں ۔

مردانگی

مردانگی طاقت دیکھانے کا نام نہیں. مردانگی غصہ ،جبر و جلال کا نام بھی نہیں .مردانگی حکومت کرنے خود کو حاکم منوانے کا نام نہیں کیونکہ طاقت ،غصہ ،جبر وجلال اور حکومت کرنے والا مادہ تو مخالف جنس میں بھی موجود ہوتا ہے.تو مرد کیا ہوتا ہے؟ مردانگی کیا ہے؟ 
مرد ایک ذمہ داری کا نام ہے 
مرد ایک سہارے کا نام ہے 
مرد خوداری کا نام ہے 
مرد برداشت کا نام ہے 
مرد صبر کا نام ہے 
مرد معاف کر دینے کا نام ہے 
مرد انصاف کا نام ہے
مرد تلوار ہے جو ظلم کو خلاف لڑتی ہے 
مرد عورت کا ہتھیار ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے 
مرد شان ہے معاشرے کی 
مرد طاقت ہے کسی قوم کی 
 

اللہ کی راہ اور نفسانی ترغیبات

سوال: راہ خدا میں درپیش آنے والی نفسانی ترغیبات کو کیسے کنٹرول کریں ؟
محترم سرفراز شاہ صاحب 
بزرگوں نے جو اس کا حل بتایا ہے وہ ہ ہے کہ جب بھی آپ کا نفس کچھ بھی کرنے کو کہے توآپ اس کی مخالفت کریں ۔جب بھی آپ یہ بار بار کریں گے تو آپ کا نفس سو جائے گا،اگرچہ وہ مرے گا نہیں لیکن اس کو کنٹرول کیا جاسکتاہے۔جب ایسا ہو جاتا ہے تو جو آپ کے اندر       تر غیبات اٹھتی ہیں وہ خود بخود ختم ہو جائیں گی ۔جب آپ بار بار اپنے نفس کی مخالفت کریں گے تو بغیر کسی شعوری کو شش کے آپ کے اندر کی ترغیبات ختم ہو نا شروع ہو جائیں گی ۔

رب صرف پہلی ترجیح پرملتا ہے

گرو گندم کے کھیتوں میں چہل قدمی کررہا تھا کہ اس کا چیلا ڈھونڈتے ہوئے وہاں پہنچ گیا. چیلے کے چہرے پر شکنیں تھیں اور وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا.
گرو نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا. 

"میں بہت پریشان ہوں. سمجھ نہیں آتا کہ سیدھا راستہ کیا ہے؟ صراط مستقیم تک کیسے پہنچا جائے؟ خالق کو کیسے ڈھونڈا جائے؟ سب سے پہلی ترجیح کیا ہونی چاہیے؟ میں یہ معمہ حل کرنے سے قاصر ہوں، تھک گیا ہوں". چیلے نے بے چارگی سے کہا.

گرو نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور پوچھا "یہ تم نے دائیں ہاتھ کی انگلیوں پر کیا پہنا ہوا ہے؟"

"یہ ہیرے کی انگوٹھی ہے جو میرے سسر نے شادی کے وقت مجھے تحفتاً دی تھی "چیلے نے جواب دیا.

گرو نے ہاتھ بڑھایا" یہ مجھے پکڑاؤ".

چیلے نے کچھ تذبذب کے ساتھ حکم کی تعمیل کی.

گرو نے انگوٹھی ہاتھ میں پکڑی، ایک نظر اسے دیکھا اور پھر گھما کر دور گندم کے گھنے کھیت میں پھینک دی. چیلا ہکا بکا رہ گیا. 

" یہ کیا کیا مرشد؟ وہ ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کرلایا.

" اب تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے مجھے صرف یہ ہیرے کی انگوٹھی ڈھونڈنی پڑے گی. اوپر سے شام ہونے والی ہے، مگر اسے ڈھونڈنے کے لیے مجھے یہاں رات بھی گزارنی پڑی، کچھ بھی کرنا پڑا تو کروں گا".

گرو کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری.

"بس تمہیں تمہارے سوال کاجواب مل گیا. جو سب سے ضروری ہوتا ہے وہ پہلا انتخاب بن جاتا ہے. ساری پگڈنڈیاں اس ایک رستے میں مدغم ہوجاتی ہیں. جو اولین ترجیح بن جائے، سارے رستے اسی کی طرف لے جاتے ہیں. اور جو سب سے ضروری ہوتا ہے وہ متبادل یا دوسری ترجیح کے طور پر نہیں ملتا".

Wednesday, November 18, 2020

مغرب کا عجیب فلسفہ

پراپیگنڈوں کی قوت نے یہ عجیب وغریب فلسفہ پر مسلط کردیاہے۔ کہ عورت اگر اپنے گھر میں اپنے شوہر، ماں، باپ،بہن،بھائیوں اور اولاد کے لیے خانہ داری کا انتظام کریں۔ تو یہ قید و زلت ہے لیکن وہی عورت اجنبی مردوں کے لیے کھانا پکائے انکے کمروں کی صفائی کرے، ہوٹلوں اور جہازوں میں اسکی میزبانی کرے ، دکانوں میں اپنی مسکراہٹوں سے گاہکوں کو متوجہ کرے اور دفاتر  میں افسروں کی نازبرداری کرے تو پھر یہ آزادی اور عزاز ہے۔
(مفتی تقی عثمانی)

والدین اور اولاد

ایک عورت بڑی کثرت سے عبادت کرنے والی تھی، جب اس کا انتقال ہونے لگا تو اس نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا:

اے وہ ذات جو میرا توشہ اور جو میرا ذخیرہ ہے اور جس پر زندگی موت میں بھروسہ ہے، مجھے مرتے وقت رسوا نہ کرنا اور قبر میں مجھے وحشت میں نہ رکھنا۔۔

جب وہ انتقال کر گئی تو اس کے لڑکے نے اہتمام کیا کہ ہر جمعہ کو وہ ماں کی قبر پر جاتا اور قرآن شریف پڑھ کر اس کو ثواب بخشتا اور
تمام قبرستان والوں کے لئے دعا کرتا۔

ایک دن اس لڑکے نے اپنی ماں کو خواب میں دیکھا اور اس سے پوچھا: ماں تمہارا کیا حال ہے؟

ماں نے جواب دیا کہ موت کی سختی بڑی سخت چیز ہے، میں اللہ کی رحمت سے قبر میں بڑی راحت سے ہوں اور  قیامت تک مجھ سے یہ بھی برتاؤ رہے گا۔

 بیٹے نے کہا کہ میرے لئے کوئی خدمت ہو تو کہو امی جان! ماں نے کہا بس ہر جمعہ کے دن میری قبر کے پاس آکر قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہو اس کو نہ چھوڑنا اور جب تم قبرستان میں آتے ہوتو سارے قبرستان والے
خوش ہو کر مجھے مبارک باد دینے آتے ہیں۔۔۔


مجھے بھی تیرے آنے سے خوشی ہوتی ہے۔۔۔۔


اللہ تعالیٰ عزوجل ہر ایک کے والدین کو سلامت رکھے اور جن کے فوت ہوگئے ہیں اُن کی مغفرت فرمائے آمین یارب العالمین۔۔۔۔

زندگی کا لطف

ارب پتی صنعت کار، ایک مچھیرے کو دیکھ کر بہت حیران
ہوا جو مچھلیاں پکڑنے کی بجائے اپنی کشتی کنارے سگریٹ سُلگائے بیٹھا تھا۔
صنعت کار۔ تم مچھلیاں کیوں نہیں پکڑ رہے؟
مچھیرے۔ کیونکہ آج کے دن میں کافی مچھلیاں پکڑ چکا ہوں۔
صنعت کار۔ تو تم مزید کیوں نہیں پکڑ رہے؟
مچھیرا۔ میں مزید مچھلیاں پکڑ کر کیا کروں گا؟
صنعت کار۔ تم زیادہ پیسے کما سکتے ہو، پھر تمہارے پاس موٹر والی کشتی ہوگی جس سے تم گہرے پانیوں میں جاکر مچھلیاں پکڑ سکو گے. تمہارے پاس نائیلون کے جال خریدنے کے لئے کافی پیسے ہوں گے۔ اس سے تم زیادہ مچھلیاں پکڑو گے اور زیادہ پیسے کماؤ گے۔ جلد ہی تم ان پیسوں کی بدولت دو کشتیوں کے مالک بن جاؤ گے۔ ہوسکتا ہے تمہارا ذاتی جہازوں کا بیڑا ہو۔ پھر تم بھی میری طرح امیر ہو جاؤ گے۔
مچھیرا۔ اس کے بعد میں کیا کروں گا؟
صنعت کار۔ پھر تم آرام سے بیٹھ کر زندگی کا لُطف اُٹھانا۔
مچھیرا۔ تمہیں کیا لگتا ہے، میں اس وقت کیا کر رہا ہوں؟

فیوز بلب

ریٹائرڈ دوستوں کی یاد دہانی کے لئے

 ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہائش کے لئے ایک بڑا افسر آیا ، جو تازہ تازہ ریٹائر ہوا تھا۔

 

 یہ بوڑھا بڑا ریٹائرڈ افسر  حیران اور پریشان ، ہر شام سوسائٹی پارک میں گھومتا ، دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا اور کسی سے بات نہیں کرتا تھا -

  ایک دن وہ شام کے وقت ایک بزرگ کے پاس باتیں کرنے کے لئے بیٹھ گیا اور پھر اس کے ساتھ تقریبا" روزانہ بیٹھنے لگا۔  اس کی گفتگو کا ہمیشہ ایک ہی موضوع رہتا تھا۔  "میں اتنا بڑا افسر تھا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ پوچھ سکتا ہے ، یہاں میں مجبوری وغیرہ میں آیا ہوں۔"  اور وہ بزرگ اس کی باتیں سکون سے سنتے تھے۔

 ایک دن جب "ریٹائرڈ" افسر نے دوسرے ساتھی کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش کی تو اس بزرگ نے بڑی انکساری کے ساتھ اسے جواب دے کر دانشمندی کی بات بتائی -

 

 اس نے وضاحت کی:-

 "ریٹائرمنٹ کے بعد  ہم سب فیوز بلب کی طرح ہو جاتے ہیں اس کی اب کوئی اہمیت نہیں رہتی کہ یہ بلب کتنی وولٹیج کا تھا ، کتنی روشنی اور چمک دیتا تھا ، فیوز ہونے کے بعد اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

  انہوں نے جاری رکھتے ہوئے کہا کہ "میں گذشتہ 5 سالوں سے سوسائٹی میں رہ رہا ہوں اور کسی کو یہ نہیں بتایا کہ میں دو بار پارلیمنٹ کا ممبر رہا ہوں۔  یہاں ایک اور صاحب ہیں وہ ریلوے کے جنرل منیجر تھے ، یہاں گلزار صاحب ہیں فوج میں بریگیڈیئر تھے ، پھر ندیم صاحب ہیں جو ایک کمپنی کے کنٹری ہیڈ تھے ، انہوں نے یہ باتیں کسی کو نہیں بتائی ، حتی کہ مجھے بھی نہیں ، لیکن ہم سب جانتے ہیں۔

 "فیوز کے تمام بلب اب ایک جیسے ہیں - چاہے وہ صفر واٹ ، 40 ، 60 ، 100 واٹ ، ہلوجن ہو یا فلڈ لائٹ کے ہوں ، اب کوئی روشنی نہیں دیتا اور بے فائدہ ہیں۔  اور ہاں اس بات کی آپ کو جس دن سمجھ آجائے گی ، آپ معاشرے میں سکون  زندگی گزار سکیں گے۔

  ہمارے ہاں طلوع اور غروب آفتاب کو یکساں احترام دیا جاتا ہے ، لیکن اصل زندگی میں  ہم طلوع آفتاب کی قدر زیادہ کرتے ہیں جتنی جلدی ہم اس کو سمجھیں گے اتنا جلد ہی ہماری زندگی آسان ہوجائے گی۔

لہذا فیوز بلب ہونے سے پہلے ۔۔۔۔۔۔
جتنی بھی خیر کی زیادہ سے زیادہ روشنی پھیلا سکتے ہو ۔۔۔۔پھیلا دو۔۔۔۔۔۔۔۔تاکہ کل کو جب اندھیرے کمرے میں جاؤ ۔۔۔۔تو یہی روشنی کام آئے۔

فیوز بلب

ریٹائرڈ دوستوں کی یاد دہانی کے لئے

 ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہائش کے لئے ایک بڑا افسر آیا ، جو تازہ تازہ ریٹائر ہوا تھا۔

 

 یہ بوڑھا بڑا ریٹائرڈ افسر  حیران اور پریشان ، ہر شام سوسائٹی پارک میں گھومتا ، دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا اور کسی سے بات نہیں کرتا تھا -

  ایک دن وہ شام کے وقت ایک بزرگ کے پاس باتیں کرنے کے لئے بیٹھ گیا اور پھر اس کے ساتھ تقریبا" روزانہ بیٹھنے لگا۔  اس کی گفتگو کا ہمیشہ ایک ہی موضوع رہتا تھا۔  "میں اتنا بڑا افسر تھا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ پوچھ سکتا ہے ، یہاں میں مجبوری وغیرہ میں آیا ہوں۔"  اور وہ بزرگ اس کی باتیں سکون سے سنتے تھے۔

 ایک دن جب "ریٹائرڈ" افسر نے دوسرے ساتھی کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش کی تو اس بزرگ نے بڑی انکساری کے ساتھ اسے جواب دے کر دانشمندی کی بات بتائی -

 

 اس نے وضاحت کی:-

 "ریٹائرمنٹ کے بعد  ہم سب فیوز بلب کی طرح ہو جاتے ہیں اس کی اب کوئی اہمیت نہیں رہتی کہ یہ بلب کتنی وولٹیج کا تھا ، کتنی روشنی اور چمک دیتا تھا ، فیوز ہونے کے بعد اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

  انہوں نے جاری رکھتے ہوئے کہا کہ "میں گذشتہ 5 سالوں سے سوسائٹی میں رہ رہا ہوں اور کسی کو یہ نہیں بتایا کہ میں دو بار پارلیمنٹ کا ممبر رہا ہوں۔  یہاں ایک اور صاحب ہیں وہ ریلوے کے جنرل منیجر تھے ، یہاں گلزار صاحب ہیں فوج میں بریگیڈیئر تھے ، پھر ندیم صاحب ہیں جو ایک کمپنی کے کنٹری ہیڈ تھے ، انہوں نے یہ باتیں کسی کو نہیں بتائی ، حتی کہ مجھے بھی نہیں ، لیکن ہم سب جانتے ہیں۔

 "فیوز کے تمام بلب اب ایک جیسے ہیں - چاہے وہ صفر واٹ ، 40 ، 60 ، 100 واٹ ، ہلوجن ہو یا فلڈ لائٹ کے ہوں ، اب کوئی روشنی نہیں دیتا اور بے فائدہ ہیں۔  اور ہاں اس بات کی آپ کو جس دن سمجھ آجائے گی ، آپ معاشرے میں سکون  زندگی گزار سکیں گے۔

  ہمارے ہاں طلوع اور غروب آفتاب کو یکساں احترام دیا جاتا ہے ، لیکن اصل زندگی میں  ہم طلوع آفتاب کی قدر زیادہ کرتے ہیں جتنی جلدی ہم اس کو سمجھیں گے اتنا جلد ہی ہماری زندگی آسان ہوجائے گی۔

لہذا فیوز بلب ہونے سے پہلے ۔۔۔۔۔۔
جتنی بھی خیر کی زیادہ سے زیادہ روشنی پھیلا سکتے ہو ۔۔۔۔پھیلا دو۔۔۔۔۔۔۔۔تاکہ کل کو جب اندھیرے کمرے میں جاؤ ۔۔۔۔تو یہی روشنی کام آئے۔

Sunday, November 15, 2020

خطرناک عورت

"سنا ہے جس عورت سے آپکی شادی ہوئی تھی وہ بڑی خطرناک عورت تھی، اور آپ نے ڈر کے مارے اسے طلاق دے دی تھی"برگد کے درخت کے نیچے کرسی پر بیٹھے ایک خاموش طبع بوڑھے سے ایک منچلے نے استہزائیہ کہا.ساتھ ہی قریب بیٹھے نوجوانوں کی ٹولی نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو ہنس کردیکھا.
"اللہ بخشے اسے،بہت اچھی عورت تھی."بنا ناراض ہوئے،بغیر غصہ کئے بابا جی کی طرف سے ایک مطمئن جواب آیا.

عشق حقیقی

 مولانا رومی ایک دن خریدوفروخت کے سلسلے میں بازار تشریف لے گئے۔ ایک دکان پر جاکر رک گئے دیکھا کہ ایک عورت کچھ سودا سلف خرید رہی ہے۔ سودا خریدنے کے بعد اس عورت نے جب رقم ادا کرنا چاہی تو دکاندار نے کہا: 

Saturday, November 14, 2020

فقیر کے نزدیک قناعت کیا ہے

سوال۔فقیر کے نزدیک قناعت کیا ہے اور قناعت کے مقام کو کیسے پایا جا سکتاہے ؟
سر فراز شاہ صاحب 
دنیا میں سب سے زیادہ کثیر العیال جو چیز ہے اس کا نام خواہش ہے یہ انسانوں کے اندر اتنی تیزی سے بڑھتی ہے کہ اس کو کنڑول کرنا مشکل ہو تا ہے ۔فقیر لوگ عام طور پر خواہشات سے بہت دور بھاگتے ہیں کیوں کہ خرابی کی ابتداء اسی سے ہو تی ہے ۔

Friday, November 13, 2020

ہم اور ہمارا بنیادی کام

دنیا🌏 کے پہلے موبائل کا بنیادی کام صرف کال کروانا تھا، اور موبائل کی اس پہلی نسل کو  1G یعنی فرسٹ جنریشن کا نام دیا گیا۔ اور اس موبائل میں کال کرنے اور سننے کے سوا کوئی دوسرا آ پشن نہیں ہوتا تھا۔

پھر جب موبائلز میں sms یعنی سینٹ میسج کا آپشن ایڈ ہوا، تو اسے 2G یعنی سیکنڈ جنریشن کا نام دیا گیا ۔

بہترین لوگ

بہترین لوگ بہترین نیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے الله رب کائنات ان کے تمام کاموں کو خود سنوار دیتا ہے اور جب جس کام کو الله رب العزت سنوار دے تو اسے بهلا کوئی اس کا بندہ کیسے بگاڑ سکتا ہے۔ صحت و سلامتی کی ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ الله عزوجل آپ اور آپ کے خاندان کا ہمیشہ حامی و ناصر رہے۔

میرے خیال

میرے دماغ میں Tabs کھُلتی ہیں۔۔۔ بالکل ویسے ہی جیسے کمپیوٹر پہ جب Error آجاتا تھا اور وہ Hang ہو جایا کرتا تھا۔۔۔ اور پھر ایک کے بعد ایک بغیر رُکے Windows کھلتی جاتی تھیں۔۔۔ اُلجھنیں ہیں،،، گِرہیں ہیں،،، لامحدُود سوچیں ہیں۔۔۔ جو شاید میری موت پہ رکیں گی۔۔۔ اور میری قبر میں میرے ساتھ دفن ہوں گی۔۔۔!!!

ہمارا رویہ اور ہمارے الفاظ

کافی عرصہ پہلے کی بات ہے ایک لڑکی جس کا نام تبسم تھا اس کی شادی ہوئی وہ سسرال میں اپنے شوہر اور ساس کے ساتھ رہتی تھی- بہت کم وقت میں ہی تبسم کو یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ وہ اپنی ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی- ان دونوں کی شخصیت بالکل مختلف تھی اور تبسم اپنی ساس کی بہت ساری عادتوں سے پریشان تھی-

Thursday, November 12, 2020

صندل

صندل کے درخت کی خوبی ہے کہ یہ خود کی درویشی کو یوں چھپاتا ہے کہ رفتہ رفتہ ہولے ہولے اپنی خوشبو کو ارد گرد کے 100 درختوں میں منتقل کردیتا ہے یہی وجہ ہے کہ صندل کے درخت کو پہچاننا قدرے مشکل ہوتا ہے کیونکہ اس نے اپنی پہچان چھپائی ہوتی ہے اور یہی اس کی ادا ہے اللہ والے بھی اسی طرح ہوا کرتے ہیں خود کو چھپانے والے اپنی خوشبو ارد گرد والوں میں منتقل کرکے جتاتے نہیں بلکہ کہتے ہیں دیکھو یہ تمہاری اپنی خوشبو پھوٹ رہی ہے اس کی حفاظت کرو یہی وجہ ہے کہ صندل کا اصل درخت اور اللہ والے شاذونادر ہی ملتے ہیں اور اگر مل جائیں تو اپنا  سب کچھ طالب صادق میں انڈیل دیتے ہیں...!!!

بچے کی ذہنی صحت

بچے قدرت کا بہترین عطیہ اور والدین کا سرمایہ حیات ہیں،جن کا کوئی نعم البدل نہیں۔ماں باپ بچے کی بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی صحت کا بھی بہت خیال رکھتے ہیں اگر وہ بیمار ہوجائیں تو ان کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتے ہیں ان کے مختلف ٹسٹ کرواتے ہیں یعنی جسمانی صحت کے لحاظ سے ان کا کافی خیال تو رکھتے ہیں لیکن ان کی ذہنی صحت کے بارے میں بعض اوقات لاپرواہی برتتے ہیں جس کی وجہ سے بچے بہت سے مسائل شکار ہوجاتے ہیں۔تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی حاصل کرے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب بچے کی جسمانی اور ذہنی صحت دونوں بہترین ہوں۔

ضرورت

گاؤں کے مشترکہ ڈیرے پر شام کو مل بیٹھنا اور خوش گپیاں لگانا ہمارا روز کا معمول تھا. آج بھی روز کی طرح کافی لوگ موجود تھے کہ...
اچانک میں نے موضوع بدلا، ہاتھ میں موجود میگزین کھولا اور بولا کہ اس میں ایک جدول ھے اور جو بھی اس جدول کے سوال کا صحیح جواب دے گا میری طرف سے ایک کلو مونگ پھلی اور ساتھ میں گڑ انعام ملے گا.

ہم اپنی اپنی جنگ میں ہیں

دنیا میں سات ارب سے زائد لوگ بستے ہیں. دیکھنے کو درجنوں رنگ، ترنگ، ادائیں، رویے، سٹائل ہیں. دیکھنے میں لگتا ہے کہ ہر ایک کے اندر ایک الگ کائنات آباد ہے. بھانت بھانت کے روپ، بہروپ ہیں. کوئی عاجز تو کوئی میر شہر، کوئی سوالی تو کوئی موالی، لیکن بہت اندر سے ہم ایک ہی ہیں. پیار کے متلاشی، یہی کہ کندھے پر کوئی تھپکی دے دے، جب گرنے لگیں تو کوئی تھام لے.

ایک بیٹے کو والد صاحب کی نصیحت

1- سگریٹ نوشی سے بچو۔
2- بیوی کے انتخاب ميں بہت دور اندیشی سے کام لو کیونکہ تمہاری خوشی یا غمی کا دارو مدار 90% اسی پر ہوتا ہے۔
3- بہت سستی چیزیں مت خریدو۔

بس انشورنس کام آجائے

کورونا سے پہلے کے دنوں میں، دبئی میں ایک شاپنگ مال کے ایک بڑے سٹور میں گھومتے ہوئے میں نے ایک دوکان سے چھناک کے ساتھ کچھ ٹوٹنے کی آواز سنی اور ساتھ ہی کچھ شور شرابا اٹھا. وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ایک مجمع لگا ہوا ہے اور ایک جما ہوا دوپٹہ پہنے بزرگ خاتون بدحواسی میں فرش سے کانچ اٹھا رہی ہے. نظر آرہا ہے کہ وہ غلطی سے برتنوں کے ریک سے جا ٹکرائی تھی اور درجنوں گلاس، پلیٹیں زمین پر گر کے چکنا چور ہوچکی تھیں. 

Tuesday, November 10, 2020

اودھو داس اور ہم

قیام پاکستان سے قبل اودھو داس سندھ کے امیر کبیر لوگوں میں شامل تھا۔اس کی ماں بیمار ہوئی تو ڈاکٹروں نے کہا کہ سندھ میں موجود اسپتالوں میں اس بیماری کے علاج کی سہولت میسر نہیں ، اس کا علاج بمبئی کے اسپتال میں ہی ہوسکتا ھے ۔
 اودھو داس والدہ کو بمبئی لے گیا اور علاج کرایا،ماں کی حالت بہتر ہونے پر گھر واپس لے آیا اور چند روز بعد ماں سے پوچھا کہ آپ کی طبعیت کیسی ھے جس پر اس کی ماں نے جواب دیا کہ:
 میں تو اودھو داس کی ماں ہوں،یہاں علاج ممکن نہیں تھا تو بمبئی کے اسپتال میں علاج ہوگیا مگر سندھ میں بسنے والی ان ماؤں کا کیا ہوگا جن کے بیٹے اودھو داس کی طرح دولت مند نہیں۔

نصیحت کا انداز

ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﺎﻟﻢ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﭘﮍ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﻐﺮﺽ ﻋﻼﺝ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﺎﻝ ﭘﺮ ﺟﺲ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﮐﻮ ﻣﺎﻣﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻋﻠﻢ، ﺗﻘﻮﯼٰ ﺍﻭﺭ ﺣﺴﻦ ﺍﺧﻼﻕ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﮑﺮﯾﻢ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺷﺮﻑ ﻭ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ

ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﻣﺸﺎﮨﺪﮦ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﻭ ﺑﯿﺸﺘﺮ ﻣﻐﺮﺑﯽ ﻟﺒﺎﺱ ﺯﯾﺐ ﺗﻦ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺳﺘﺮ ﭘﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﺗﻘﺎﺿﻮﮞ ﭘﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺧﺼﻮﺻﺎً "ﺷﺎﺭﭦ ﺳﮑﺮﭦ" ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﺑﺮﮨﻨﮧ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻟﺒﺎﺱ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﮐﺮﯾﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺴﯽ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻭﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ 

Monday, November 9, 2020

رشتے کیوں نہیں ہوتے آج کل؟

آج کل جس گلی محلے رشتے داری میں جائیں تو سر میں اترتی چاندی کے ساتھ رشتے کے انتظار میں لڑکیاں بیٹھی نظر آتی ہیں۔۔۔

*وجہ یہ ھے کہ...* شروع میں لڑکیاں اور والدین بہت نخرے کرتے ہیں۔
1 ذاتی گھر ھو۔
2  گاڑی ھو۔
3 آمدنی لاکھوں میں ھو۔
4 برادری اچھی ھو۔
5 فیملی چھوٹی ھو۔

اللّٰہ مجھ سے محبت کرتا ہے؟


یہ سوال اکثر میرے ذہن میں گردش کرتا ۔۔۔ پھر ایک دن مجھے خیال آیا کہ میرا رب جن بندوں کو زیادہ چاہتا ہے ان کے بارے میں تو اس نے آیتیں اتاریں ہیں سو میں قرآنِ مجید کھول کر بیٹھ گیا ۔۔
میں نے ڈھونڈا تو پہلی آیت ملی "وہ متقین سے محبت کرتا ہے"
مجھے ملال ہوا مجھ میں تو نام کا بھی تقوی نہیں

نسبت سے فرق تو پڑتا ہے

گندم میں کنکرہوتا ہے، کیا وہ کنکر گندم کے بھاؤ نہیں بکتا؟ 
وہ بھی  گندم کے حساب سے ہی تلتا ہے۔ اسی طرح جو ﷲ والوں کی مجالس میں بیٹھتا ہے وہ کھرا نہ بھی ہو، کھوٹا ہی ہو… ان شاء ﷲ اس کا حساب کتاب، اور بھاؤ، اسی گندم کے بھاؤ لگ جائے گا اور ان شاء ﷲ وہ بھی اسی طرح بوریوں میں پیک ہو کے تُلے گا اور کندھوں پہ اٹھایا جائے گا
 اور اگر وہ دور رہا تو آوارہ پڑے کنکر کی طرح پاؤں تلے روندا جائے گا یا اٹھا کر باہر پھینک دیا جائیگا۔

تربیت

مجھے یاد ہے۔۔

ہمارے گھروں میں جب کوئی باہر سے عورتیں آتیں، امی بیٹوں کو کہتی ہیں، تم ادھر جا کر بیٹھو یہاں خواتین بیٹھیں گی. جس کمرے میں بہنیں سوئی ہوں، بھائیوں کو اجازت نہیں ہوتی تھی کہ بےدھڑک وہاں گھس جائیں، اگر راستے میں کسی عورت کو مدد چاہیئے تو ماں کہتی کہ بیٹا جاؤ، "تمہاری ماں جیسی ہے اس کی مدد کرو" 

مکان برائے فروخت

بڑھاپے میں والدین کو آپ کی ضرورت ہوتی ھے 
پراپرٹی ڈیلر نے اشتہار پڑھا
"مکان براۓ فروخت"
اس نے مکان کا وزٹ کیا اور ہمراہ ایک پارٹی کو لے کر گیا جو مطلوبہ مکان خریدنا چاہتی تھی جیسے ھی یہ لوگ اس گھر کے دروازے پر پہنچے ایک عمر رسیدہ بزرگ نے انھیں اندر آنے کی دعوت دی اور ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کا کہا کچھ دیر بعد ایک عمر رسیدہ خاتون خانہ چاۓ کی ٹرالی ٹیبل سجاۓ ہوۓ ان لوگوں کی طرف آ رہی تھی جس پر چاۓ کے علاوہ گاجر کا حلوہ ،نمکو ،بسکٹ اور کچھ مٹھائی رکھی ہوئی تھی

اللّٰہ کا تصور

گھروں میں کام کرنے والی ایک عورت روٹی پکانے کے ساتھ ساتھ اپنی چھوٹی سی بیٹی کو ڈانٹ رہی تھی ،جو بار بار جوتے کے بغیر باہر گلی میں جانے کی کوشش کرتی تھی ۔ اسکی ماں اسے ڈرانے کیلئے بڑی عجیب تاویلیں پیش کررہی تھی۔
"اگر تو گلی میں گئی تو اللہ تجھے گناہ دے گا، تیرے پاؤں کاٹ دے گا، گلہ کاٹ کے رکھ دے گا"
میں پاس ہی تھی ، پہلے تو میں سمجھی کہ اتنی چھوٹی بچی جو صحیح سے بول بھی نہیں سکتی، اسکو یہ سب سمجھ ہی نہیں آرہا ہوگا ، مگر میں نے دیکھا کہ بچی ذرا دیر کو رک کر، اپنی ماں کے چہرے کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے شاید اسکے الفاظ پہ غور کررہی تھی۔ اسکا مطلب تھا کہ بات کو ذہن نشین کررہی تھی۔
تب میں نے بچی کو مخاطب ہوکر کہا
"میری بات سنو ۔۔۔! ،اللہ تعالی نہ پاؤں کاٹتا ہے نہ گلہ، یہ کام برے آدمی کرتے ہیں۔ اللہ تعالی تو چیزیں دیتا ہے، کپڑے جوتے اسی نے دئیے ہیں۔ اللہ تعالی تمہاری اماں کی طرح پیار کرتا ہے"۔
پھر میں نے اسکی ماں سے کہا
" کیوں چھوٹی سی بچی کے سامنے اللہ کی غلط تصویر پیش کر رہی ہو؟ کیا یہ کام انسان نہیں کرتے ؟ انسانوں کی غلطیاں اللہ پہ مت ڈالو''
بچی کی ماں حیران پریشان مجھے دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلانے لگی، اور مجھے لگا کہ یہ الفاظ مجھ پر قرض تھے۔ یہ الفاظ کچھ سال پہلے ایک گھاس کاٹنے والی عورت نے میرے حوالے کئے تھے، جب میرا چھوٹا سا بیٹا باغ میں رینگنے والے حشرات الارض کو پاؤں سے روند رہا تھا۔ میں بار بار اسے روکتی اور کہتی کہ
اللہ ناراض ہوجائے گا۔ جب کیڑوں کو درد ہوگا تو اللہ گناہ دے گا۔
تب پاس ہی گھاس کاٹتی ہوئی عورت نے درانتی رکھ کر سنجیدگی سے مجھے کہا
"بی بی بچے کو وہ بات بتاؤ جو اسے سمجھ میں آئے۔ اللہ سے متنفر مت کرو۔ اللہ اتنی سی بات پہ ناراض ہوتا تو یہ سب کچھ نہ دیتا۔ اسکو بتاؤ کہ جیسے آپکو تکلیف ہوتی ہے، ویسی ہی تکلیف کیڑوں کو بھی ہوتی ہے۔ اور کسی کو تکلیف دینے سے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔"
میں بھی ایک انپڑھ عورت کے منہ سے ایسی گہری بات سن کے بالکل اسی طرح حیران ہوکے دیکھ رہی تھی۔ آج یہ الفاظ میں نے روٹی پکانے والی کے سپرد کر دئیے۔ 
یقیناً اسی طرح یہ الفاظ آگے ہی آگے منتقل ہوتے رہینگے۔ان شاء اللہ

یہ زندگی

یہ زندگی ایک کتاب کی طرح ہوتی ہے:
_بالکل ایک بند کتاب کی طرح جسے جب پڑہنے کے لیئے کھولا جائے تو یہ نہیــــں پتہ ہوتا کہ کســــں صفحے میــــں ہنسی اور خوشی ملنے والی ہے اور کہاں غم اور آنسو کســــی کے چہرے پر مت جائیــــں کیونکہ ہر انسان ایک بند کتاب کی مانند ہے  جســــں کے ہر ورق پر کچھ اور جبکہ اندرونی صفحات پر کچھ اور تحریر ہوتا ہے_

یہ سب میری ماں کی دعا ہے

جوہرچوک سے رکشہ پر کلفٹن جانے کا اتفاق ہوا، رکشہ والے نے گاڑی کے شیشہ پر "یہ سب میری ماں کی دعا ہے" کا اسٹیکر آویزاں کررکھا تھا۔ دیکھ کر ہنسی آئی، پھر اس سے پوچھا کہ رکشہ چلانے کو اپنی والدہ کی دعا قرار دے رہے ہو، کیا یہ اتنی بڑی فضیلت ہے؟

رکشہ والا

مسکرا کربتانے لگا کہ صاحب میرا تعلق مظفر گڑھ سے ہے، والدکا حادثے میں انتقال ہوگیا تو سگے تایا نے مکان جائیداد پر قبضہ کرکے والدہ اور ہم چھے بہن بھائیوں کو گھر سےنکال دیا۔ ماں ہمیں اپنے بھائی کے پاس لے کرکراچی آگئی،چند دن بعد بیگم کے کہنے پر ماموں نے بھی معذرت کرلی تو ساتھ والے محلے میں بیٹھک کرائے پر لے کر والدہ نے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا اور رات گئے تک سلائی مشین پر محلے والوں کے کپڑے سینا شروع کردئے،

تعلیم کا تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے، اسی لئے چھوٹی عمر سے سبزی منڈی جانا شروع کردیا، سبزی اور پھلوں کی لوڈنگ انلوڈنگ کرواتے اور ٹوکری پر پھل فروٹ بیچتے نوجوان ہوئے، پھر کنڈیکٹری شروع کردی، اس فیلڈ میں استادوں اور ڈرائیوروں کی مار کھاتے کھاتےجوان ہوئے اور پھر کسی کا رکشہ چلانا شروع کیا، پیسے اکٹھے کئے،کمیٹی ڈالی، پھر قسطوں پر اپنا رکشہ لیا، اس کی قسطیں ختم ہوئیں تو دو رکشے قسطوں پر لئے اور بھائیوں کو بھی سبزی منڈی سے ہٹاکر ساتھ لگالیا۔ تینوں بھائی مل کر کماتے رہے، والدہ سے سلائی مشین چھڑوائی، چھوٹے بھائی کو پڑھاتے رہے، کہ جو ہم نہیں بن پائے ، اسے بنادیں

،بھائی نے ایم بی اے کیا، اسے بینک میں نوکری مل گئی، اس نے جس ماہ بینک سے گاڑی لیز کروائی، اسی ماہ اپنی کولیگ سے شادی کی اور ہمیں چھوڑ کر چلا گیا، اب کبھی کبھار آتا ہے۔ ہم تین بھائی رکشہ چلاتے ہیں، دوبہنوں کی شادیاں کردی ہیں۔ میرے تین رکشے مزید ہیں، جو کرائے پر دے رکھے ہیں، سرجانی ٹاون میں گزشتہ برس اپنا چھوٹا سا گھر بنایا ہے، والدہ نے اپنی پسند سے میری شادی کردی ہے۔ ہم سب اکٹھے رہتے ہیں،

اب ہم تینوں بھائیوں نے ایک پلاٹ تاڑرکھا ہے، اسے خرید کر اس پر ایک اورگھر بناکر اگلے دوسالوں تک دوسرے بھائی کی شادی کرنے کا سوچ رکھا ہے۔ چونکہ والدہ ساتھ رہتی ہیں اور ان کی دعائیں ساتھ ہیں تو امید ہے کہ اگلے دوسال میں چھوٹے بھائی کا گھر اور اسکی شادی دونوں ہوجائینگی۔ یہ سب ماں کی دعا نہ سمجھوں تو کیا ہے

۔باقی کا سفر خاموشی میں کٹا اور میں سوچتا رہا کہ مجھے اپنی والدہ کی دعا کے باعث جتنا زیادہ اللہ پاک نے بنا محنت کے دے دیا، اس سے کہیں کم کسی کو ان تھک محنت کے بعد حاصل ہوا۔ اپنے ناشکرے پن پر ہزاربار توبہ استغفار کی۔آپ سے بھی گزارش ہے کہ کسی کی حیثیت کا مذاق مت اڑائیں، کیا پتا ، اس نے اس مقام تک پہنچنے کے لئے بھی اپنی ہڈیاں گلادی ہوں

غصے کی کیمسٹری

جوشخص غصے کی کیمسٹری کو سمجھتا ہو وہ بڑی آسانی سے غصہ کنٹرول کر سکتا ہے" میں نے پوچھا "سر غصے کی کیمسٹری کیا ہے؟"
وہ مسکرا کر بولے "ہمارے اندر سولہ کیمیکلز ہیں' یہ کیمیکلز ہمارے جذبات' ہمارے ایموشن بناتے ہیں' ہمارے ایموشن ہمارے موڈز طے کرتے ہیں اور یہ موڈز ہماری پرسنیلٹی بناتے ہیں" میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا' وہ بولے "ہمارے ہر ایموشن کا دورانیہ 12 منٹ ہوتا ہے" میں نے پوچھا "مثلا"۔۔۔؟ وہ بولے "مثلاً غصہ ایک جذبہ ہے' یہ جذبہ کیمیکل ری ایکشن سے پیدا ہوتا ہے'مثلاً ہمارے جسم نے انسولین نہیں بنائی یا یہ ضرورت سے کم تھی' ہم نے ضرورت سے زیادہ نمک کھا لیا'
ہماری نیند پوری نہیں ہوئی یا پھر ہم خالی پیٹ گھر سے باہر آ گئے' اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟ ہمارے اندر کیمیکل ری ایکشن ہو گا' یہ ری ایکشن ہمارا بلڈ پریشر بڑھا دے گا اور یہ بلڈ پریشر ہمارے اندر غصے کا جذبہ پیدا کر دے گا' ہم بھڑک اٹھیں گے لیکن ہماری یہ بھڑکن صرف 12 منٹ طویل ہو گی' ہمارا جسم 12 منٹ بعد غصے کو بجھانے والے کیمیکل پیدا کر دے گا اور یوں ہم اگلے 15منٹوں میں کول ڈاؤن ہو جائیں گے چنانچہ ہم اگر غصے کے بارہ منٹوں کو مینیج کرنا سیکھ لیں تو پھر ہم غصے کی تباہ کاریوں سے بچ جائیں گے"
میں نے عرض کیا "کیا یہ نسخہ صرف غصے تک محدود ہے" وہ مسکرا کر بولے "جی نہیں' ہمارے چھ بیسک ایموشنز ہیں' غصہ' خوف' نفرت' حیرت' لطف(انجوائے) اور اداسی' ان تمام ایموشنز کی عمر صرف بارہ منٹ ہو تی ہے' ہمیں صرف بارہ منٹ کیلئے خوف آتا ہے' ہم صرف 12 منٹ قہقہے لگاتے ہیں' ہم صرف بارہ منٹ اداس ہوتے ہیں' ہمیں نفرت بھی صرف بارہ منٹ کیلئے ہوتی ہے' ہمیں بارہ منٹ غصہ آتا ہے اور ہم پر حیرت کا غلبہ بھی صرف 12 منٹ رہتا ہے'
ہمارا جسم بارہ منٹ بعد ہمارے ہر جذبے کو نارمل کر دیتا ہے" میں نے عرض کیا "لیکن میں اکثر لوگوں کو سارا سارا دن غصے' اداسی' نفرت اور خوف کے عالم میں دیکھتا ہوں' یہ سارا دن نارمل نہیں ہوتے" وہ مسکرا کر بولے "آپ ان جذبوں کو آگ کی طرح دیکھیں' آپ کے سامنے آگ پڑی ہے' آپ اگر اس آگ پر تھوڑا تھوڑا تیل ڈالتے رہیں گے' آپ اگر اس پر خشک لکڑیاں رکھتے رہیں گے تو کیا ہو گا ؟ یہ آگ پھیلتی چلی جائے گی' یہ بھڑکتی رہے گی'
ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنے جذبات کو بجھانے کی بجائے ان پر تیل اور لکڑیاں ڈالنے لگتے ہیں چنانچہ وہ جذبہ جس نے 12 منٹ میں نارمل ہو جانا تھا وہ دو دو' تین تین دن تک وسیع ہو جاتا ہے' ہم اگر دو تین دن میں بھی نہ سنبھلیں تو وہ جذبہ ہمارا طویل موڈ بن جاتا ہے اور یہ موڈ ہماری شخصیت' ہماری پرسنیلٹی بن جاتا ہے یوں لوگ ہمیں غصیل خان' اللہ دتہ اداس' ملک خوفزدہ' نفرت شاہ' میاں قہقہہ صاحب اور حیرت شاہ کہنا شروع کر دیتے ہیں" وہ رکے اور پھر بولے "آپ نے کبھی غور کیا ہم میں سے بے شمار لوگوں کے چہروں پر ہر وقت حیرت' ہنسی' نفرت' خوف' اداسی یا پھر غصہ کیوں نظر آتا ہے؟
وجہ صاف ظاہر ہے' جذبے نے بارہ منٹ کیلئے ان کے چہرے پر دستک دی لیکن انہوں نے اسے واپس نہیں جانے دیا اور یوں وہ جذبہ حیرت ہو' قہقہہ ہو' نفرت ہو' خوف ہو' اداسی ہو یا پھر غصہ ہو وہ ان کی شخصیت بن گیا' وہ ان کے چہرے پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے درج ہو گیا' یہ لوگ اگر وہ بارہ منٹ مینج کر لیتے تو یہ عمر بھر کی خرابی سے بچ جاتے' یہ کسی ایک جذبے کے غلام نہ بنتے' یہ اس کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہوتے" میں نے عرض کیا "اور کیا محبت جذبہ نہیں ہوتا" فوراً جواب دیا "محبت اور شہوت دراصل لطف کے والدین ہیں' یہ جذبہ بھی صرف بارہ منٹ کاہوتا ہے'
آپ اگر اس کی بھٹی میں نئی لکڑیاں نہ ڈالیں تو یہ بھی بارہ منٹ میں ختم ہو جاتا ہے لیکن ہم بے وقوف لوگ اسے زلف یار میں باندھ کر گلے میں لٹکا لیتے ہیں اور یوں مجنوں بن کر ذلیل ہوتے ہیں' ہم انسان اگر اسی طرح شہوت کے بارہ منٹ بھی گزار لیں تو ہم گناہ' جرم اور ذلت سے بچ جائیں لیکن ہم یہ نہیں کر پاتے اور یوں ہم سنگسار ہوتے ہیں' قتل ہوتے ہیں' جیلیں بھگتتے ہیں اور ذلیل ہوتے ہیں' ہم سب بارہ منٹ کے قیدی ہیں' ہم اگر کسی نہ کسی طرح یہ قید گزار لیں تو ہم لمبی قید سے بچ جاتے ہیں ورنہ یہ 12 منٹ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑتے"۔
میں نے ان سے عرض کیا "آپ یہ بارہ منٹ کیسے مینیج کرتے ہیں" وہ مسکرا کر بولے "میں نے ابھی آپ کے سامنے اس کا مظاہرہ کیا' وہ صاحب غصے میں اندر داخل ہوئے' مجھ سے اپنی فائل مانگی' میں نے انہیں بتایا میں آپ کی فائل پر دستخط کر کے واپس بھجوا چکا ہوں لیکن یہ نہیں مانے' انہوں نے مجھ پر جھوٹ اور غلط بیانی کا الزام بھی لگایا اور مجھے ماں بہن کی گالیاں بھی دیں' میرے تن من میں آگ لگ گئی لیکن میں کیونکہ جانتا تھا میری یہ صورتحال صرف 12 منٹ رہے گی چنانچہ میں چپ چاپ اٹھا'
وضو کیا اور نماز پڑھنی شروع کر دی' میرے اس عمل پر 20 منٹ خرچ ہوئے' ان 20 منٹوں میں میرا غصہ بھی ختم ہو گیا اور وہ صاحب بھی حقیقت پر پہنچ گئے' میں اگر نماز نہ پڑھتا تو میں انہیں جواب دیتا' ہمارے درمیان تلخ کلامی ہوتی' لوگ کام چھوڑ کر اکٹھے ہو جاتے'ہمارے درمیان ہاتھا پائی ہو جاتی' میں اس کا سر پھاڑ دیتا یا یہ مجھے نقصان پہنچا دیتا لیکن اس سارے فساد کا آخر میں کیا نتیجہ نکلتا؟ پتہ چلتا ہم دونوں بے وقوف تھے' ہم سارا دن اپنا کان چیک کئے بغیر کتے کے پیچھے بھاگتے رہے چنانچہ میں نے جائے نماز پر بیٹھ کر وہ بارہ منٹ گزار لئے اور یوں میں' وہ اور یہ سارا دفتر ڈیزاسٹر سے بچ گیا' ہم سب کا دن اور عزت محفوظ ہو گئی"
میں نے پوچھا "کیا آپ غصے میں ہر بار نماز پڑھتے ہیں" وہ بولے "ہرگز نہیں' میں جب بھی کسی جذبے کے غلبے میں آتا ہوں تو میں سب سے پہلے اپنا منہ بند کر لیتا ہوں' میں زبان سے ایک لفظ نہیں بولتا' میں قہقہہ لگاتے ہوئے بھی بات نہیں کرتا' میں صرف ہنستا ہوں اور ہنستے ہنستے کوئی دوسرا کام شروع کر دیتا ہوں' میں خوف' غصے' اداسی اور لطف کے حملے میں واک کیلئے چلا جاتا ہوں' غسل کرلیتا ہوں' وضو کرتا ہوں' 20 منٹ کیلئے چپ کا روزہ رکھ لیتا ہوں' استغفار کی تسبیح کرتا ہوں'
اپنی والدہ یا اپنے بچوں کو فون کرتا ہوں' اپنے کمرے' اپنی میز کی صفائی شروع کر دیتا ہوں' اپنا بیگ کھول کر بیٹھ جاتا ہوں' اپنے کان اور آنکھیں بند کر کے لیٹ جاتا ہوں یا پھر اٹھ کر نماز پڑھ لیتا ہوں یوں بارہ منٹ گزر جاتے ہیں' طوفان ٹل جاتا ہے' میری عقل ٹھکانے پر آ جاتی ہے اور میں فیصلے کے قابل ہو جاتا ہوں" وہ خاموش ہو گئے' میں نے عرض کیا "اور اگر آپ کو یہ تمام سہولتیں حاصل نہ ہوں تو آپ کیا کرتے ہیں" وہ رکے' چند لمحے سوچا اور بولے "آسمان گر جائے یا پھر زمین پھٹ جائے' میں منہ نہیں کھولتا'
میں خاموش رہتا ہوں اور آپ یقین کیجئے سونامی خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو وہ میری خاموشی کا مقابلہ نہیں کر سکتا' وہ بہرحال پسپا ہو جاتاہے' آپ بھی خاموش رہ کر زندگی کے تمام طوفانوں کو شکست دے سکتے ھیں

معاف.. کیسے کروں ❓


*معاف ہر صورت میں کر دینا چاہیے،۔ تعلقات رکھنا یا نہ رکھنا الگ بات۔* 
مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا اسلئے حدود متعیں کرنا بہتر ہے۔ لیکن معاف تو کرنا ہی ہے چاہے کوئی اپنے کیے پر شرمندہ ہو نہ ہو۔ 

🌼 *معاف کر کے دوسرے سے زیادہ انسان اپنے اوپر رحم کرتا ہے۔* ایک بوجھ ہے جو معاف کر کے انسان اپنے دل سے اتار پھینکتا ہے۔ 

🌼 *سب سے بہترین طریقہ یہ پایا ہے* کہ اس انسان کے لئے دعا کریں۔ نہیں دل سے نکلتی، نہ سہی۔ خالی خولی الفاظ ہی سہی۔ پھر جب یہ مرحلہ آسان ہو جائے تو الفاظ میں دل کی لگن بھی شامل ہونے لگے گی۔ ساتھ اپنے لئے بھی دعا کہ اللہ، میرے دل سے یہ بوجھ ہلکا کر دیں کہ مجھ میں سکت نہیں اسے مسلسل اٹھائے پھرنے کی۔ 

*اگر غلطی کرنے والے خود آپ ہیں*، وہ شخص آپکے کہنے کے باوجود معاف کرنے پر راضی نہیں تو المقلب القلوب سے اسکا دل پلٹنے کی دعا کیجیے۔ اور اس بات کا افسوس نہ پالیں۔ آئندہ کے لئے احتیاط۔

اس پر عمل روزانہ کی بنیاد پر کرنا ہے۔ بالکل جیسے گھر کی خوب صفائی کر لی تو بھی ایک دو چار دن کے بعد پھر سے صاف کرنا ہے۔ کپڑے میلے ہو جائیں تو انہیں بھی میلا ہی نہیں چھوڑ دینا۔ دل کی صفائی بھی ایک بار ناکافی ہے۔ جب جب منفی خیال جھانکینے لگیں، تب تب تعوذ کی مدد سے انہیں بھگانا ہے۔ ڈیرے ڈالنے ہی نہیں دینے*۔ روز کا کام روز ۔۔۔کیجئے. 


Sunday, November 8, 2020

دستبرداری

میں نے زندگی میں کئی سبق سیکھے مگر جس سبق نے میری زندگی بدل دی وہ ہے *"دستبرداری"*
دنیا کی ہر شے سے دستبردار ہو جاؤ سکون پا لو گے.. یہ بات تو طے ہے کہ ہم میں بھی یہ چیز اس سطح پر موجود نہیں ہے لیکن جب جب ہم کسی چیز سے دستبردار ہوتے ہیں  سکون مل جاتا,
ہم ہر چیز کو اپنا سمجھ کر اس پر حق ملکیت جتانے لگتے ہیں بس یہیں سے بے سکونی کی ابتداء ہوتی ہے,
 ہم تو خود بھی اپنے نہیں, پھر کوئی چیز ہماری ملکیت کیسے ہو سکتی ہے!!
 ہماری تخلیق کا اصل مقصد بس اخلاص اور خلوص کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی ہے...

کتنی گرہیں اب باقی ہیں

قاسم بائیک پہ گھر جا رہا تھا 
وہ کسی  وجہ سے آج لیٹ ہو گیا تھا 
راستے میں دیکھا ایک بہت خوبصورت لڑکی کھڑی تھی 
قاسم پہلے اس کے پاس سے گزر گیا 
پھر بائیک روک کر واپس آیا 
ہائے . آپ اس وقت اندھیری رات میں خیریت ہے نا 
وہ لڑکی مسکرا کر بولی ہاں جناب خیریت ہے 
قاسم کے قریب ہوئی مسکرانے لگی 
موڈ ہے کیا۔ قاسم کے چہرے کو ہاتھ لگا کر پوچھ رہی تھی 
قاسم حیران ہوا وہ اتنی خوبصورت کے اس کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جائے اور وہ ایسے کام کر رہی ہے  
قاسم مسکرانے لگا میڈم کیا مذاق  ہے
وہ لڑکی تھوڑا اور قریب ہوئی کیوں مسٹر کیا غلط کر رہی ہوں میں آ جاو 1000 روپے دے دینا 
قاسم حیران تھا یار اتنی خوبصورت لڑکی یہ کام آخر کیوں کر رہی ہے 
تھوڑے فاصلے پہ اور بھی لڑکیاں موجود تھیں
لیکن وہ اتنی خوبصورت نہیں تھی
قاسم نے اس لڑکی کی طرف دیکھا ۔اچھا سنو 1000 روپے لیکر کتنا ٹائم گزارو گی میرے ساتھ 
وہ لڑکی قاسم کی آنکھوں میں دیکھنے لگی 
صرف دو گھنٹے قاسم نے حامی بھر لی ٹھیک ہے بیٹھو پیچھے 
میں دوں گا تم کو ہزار روپے  
وہ اس لڑکی کو ساتھ لیکر چلا گیا 
اچھا بتاو کیا کرتی ہو تم وہ لڑکی قاسم کہ طرف دیکھتے ہوئے بولی میں کچھ نہیں کرتی بس تم اپنا کام کرو اور مجھے واپس وہاں پہ چھوڑ کر آو 
قاسم اسے ایک ہوٹل میں لے گیا کمرہ بک کیا 
بیڈ پہ بیٹھ گیا جا کر 
اچھا اتنا بتاو نام کیا ہے تمہارا 
اس نے حیرت سے قاسم کی طرف دیکھا 
ارے تم اپنا کام کرو اور جاو نام پوچھ کر کیا کرو گے
قاسم نے اس لڑکی کی طرف دیکھا  اچھا صرف نام بتانے کا 1000 روپے زیادہ دوں گا 
بتاو کیا نام ہے وہ لڑکی چڑا کر بولی میرا نام کشف ہے 
وہ جلدی سے اپنے کپڑے اتارنے لگی 
قاسم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا کپڑے نہ اتارو کشف 
کوئی ضرورت نہیں ہے کپڑے اتارنے کی 
میں تمہارے ساتھ کچھ نہیں کرنے والا 
کشف حیران تھی مجھے یہاں لیکر آگیا لیکن یہ کیا بات کیسا مرد ہے 
کشف خاموشی سے بیٹھ گئی ٹھیک ہے دو گھنٹے کے لیئے میں تمہاری ہوں جو کرنا ہے کر لو 
ایک گھنٹہ باقی ہے 
قاسم نے گھڑی کی طرف دیکھا پھر سے پوچھا کیا ہر روز آتی ہو یہاں 
کشف نے ہاں میں سر ہلایا جی ہاں ہر روز آتی ہوں 
قاسم نے نمبر مانگا لیکن کشف نے نمبر دینے سے انکار کر دیا 
میں نمبر نہیں دوں گی 
ہر روز میں یہی پہ ہوتی ہوں 
دو گھنٹے گزر گئے قاسم نے اسے واپس اسی جگہ پہ چھوڑ دیا اس کے ہاتھ میں دو ہزار رکھے اور چلا گیا 
کشف ہر روز وہاں  آتی جسم بیچتی پیسے کماتی 
قاسم گھر آیا بہت پریشان تھا یار ایسی کیا وجہ ہو سکتی ہے وہ لڑکی جسم بیچتی ہے اتنی خوبصورت ہے 
پڑھی لکھی لگتی ہے پھر کیوں ایسا کرتی ہے میری سمجھ سے باہر ہے 
قاسم دوسری رات پھر وہاں گیا 
کشف کچھ لوگوں کے ساتھ بات کر رہی تھی 
قاسم انتظار کرتا رہا 
کشف نے دیکھ لیا تھا قاسم کو وہ لوگوں سے فری ہو کر قاسم کے پاس آئی 
آگئے مسٹر قاسم نے سلام کیا جی ہاں آ گیا 
کیسی ہو کشف 
کشف بائیک کے پیچھے بیٹھ گئی چلو ہوٹل لے چلو 
قاسم مسکرانے لگا تم کو کیسے پتا میں ہوٹل لے کر جاوں گا 
کشف نے قاسم کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اتنا تو سمجھتی ہی ہوں جناب 
وہ ہوٹل چلے گئے 
قاسم نے ضد کی بتاو کیوں کرتی ہو ایسا 
اپنی فیملی کے بارے میں بتاو 
کشف خاموش رہی نہیں سر میں اپنے بارے کچھ نہیں بتاوں گی 
لیکن قاسم کی ضد پہ کشف نے صرف اتنا بتایا اس کی طلاق ہو چکی ہے بس 
اس کے علاوہ کشف نے کچھ نہ بتایا 
قاسم ہر روز کشف کو ملنے آتا کشف کے ساتھ ٹائم گزارتا 
ایک رات کشف اداس کھڑی تھی 
قاسم پاس آیا 
کشف اداس سی تھی 
کیا ہوا کشف خیریت ہے نا 
کشف دھیمے سے لہجے میں بولی ہاں خیریت ہے 
یہ کہہ کر آنسو اس کی پلکوں کو نم کر گئے 
کشف کو بازو سے پکڑا فٹ پاتھ پہ بیٹھ گئے دونوں 
کیا ہوا کشف آج سے پہلے تم کو  اتنا اداس نہیں دیکھا میں نے 
کشف روتے ہوئے بولی آج میری ماں مر گئی ہے 
قاسم حیران ہو کر بولا تو تم یہاں کیا کر رہی ہو گھر جاو 
کشف آنسو پوچھتے ہوئے بولی نہیں جا سکتی گھر میرا کوئی گھر ہی نہیں ہے میں کہاں جاوں  
قاسم حیران تھا یہ خود کیسی پاگلوں والی باتیں کرتی ہے 
قاسم نے پوچھا کہاں رہتی ہو کشف نے بتایا یہ پاس ہی ایک کرائے کے گھر میں رہتی ہوں 
میری کچھ دوست بھی رہتی ہیں ساتھ 
قاسم کشف کو گھر تک چھوڑ آیا 
اس کو سکون نہیں  آ رہا تھا آخر کشف کے ساتھ ایسا کیا ہوا کے وہ ایسی بن گئی ہے 
اس نے سوچ لیا آج چاہے کچھ بھی ہو جائے کشف سے سچ پوچھ کر رہوں گا 
قاسم رات کو کشف کے پاس آیا ہوٹل میں لے گیا 
کشف بتاو مجھے آج اصل حقیقت کیا ہے 
کشف اسکی طرف حسرت سے دیکھنے لگی ارے قاسم رہنے دو نا کیوں درد دیتے ہو مجھے 
قاسم نے ضد کی نہیں کشف آج بتاوگی مجھے تم 
کشف نے گہری سانس لی 
آنکھوں سے آنسو نکلے وہ اپنے ماضی میں گم ہو گئی 
بابا کی لاڈلی سی شہزادی تھی میں 
سب بہت پیار کرتے تھے مجھ سے میرے 4 بھائی تھے 
مجھے پیار سے سب شہزادی کہتے تھے
میرے سب نخرے اٹھاتے تھے بابا تو میری ہر بات مان لیتے تھے اکثر امی بابا سے کہا کرتی تھی آپ شہزادی کو کچھ زیادہ ہی پیار کرتے ہیں 
بھائیوں کی جان بستی تھی مجھ میں  
جیسے مجھے گلابوں کے بستر پہ سلایا کرتے تھے 
میں سب سے چھوٹی تھی 
مجھے بہت پیار ملا میں نے میٹرک کے امتحان دیئے تو بابا سے کہا مجھے میڈیکل میں داخلہ لے کر دیں 
میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں 
بابا راضی ہو گئے مجھے اچھے کالج میں داخلہ لے کر دیا 
میں بہت خوش تھی 
پھر کلب کے دن تھے مجھے ایک لڑکے سے پیار ہوا 
وہ کب میری زندگی بن گیا محسوس نہ ہوا 
ہم چوری ایک دوسرے کو ملنے لگے 
اور پھر ایک دن ہم۔نے سب سے چھپ کر کورٹ میرج کر لی کسی کو کچھ نہ بتایا 
ہم۔چوری ملتے رہے میں کالج جاتی رہی 
لیکن ان دنوں میں حاملہ ہو گئی میں اپنا بچہ نہیں گرانا چاہتی تھی 
لیکن وہ ضد کرتا رہا بچہ نہیں چاہیے 
میں نے اسے کہا سب کو بتاو کے تم میرے شوہر ہو اور مجھے اپنے گھر لیکر جاو 
میں کبھی اس کے گھر نہیں گئی تھی بس اعتبار تھا اس کی باتوں پہ 
پھر ایک دن میں اسے کال ملاتی رہی اس کا نمبر بند آ رہا تھا 
میں 3 دن مسلسل فون کرتی رہی میں روتی  رہی ۔لیکن اس کا نمبر بند رہا
میں بے بس ہو گئی تھی میرے پیٹ میں بچہ تھا باپ بھائیوں کا ایک مان  تھا مجھ پہ 
میں نے سب کچھ ماں کو بتا دیا 
ماں کو یقین نہ ہو رہا تھا ماں بابا کو کیسے بتاتی کچھ 
ماں چھپ کر بہت رونے لگی 
ماں نے میری طرف دیکھا کہنے لگی میں زہر لا کر دیتی ہو کھا لو یہ راز یہی دفن ہو جائے گا ۔تیرا باپ یہ جانے گا تو مر جائے گا جو تم نے کیا ہےہے لیکن ماں آخر ماں تھی 
وہ مجھے زہر بھی تو نہیں دے سکتی تھی 
میری غلطی نے میری ماں کو پاگل کر دیا ڈاکٹر کے پاس لے گئی ماں مجھے ڈاکٹر نے بتایا 6 ماہ کا حمل ہے مشکل ہے 
بابا کو بتانا ضروری ہو گیا تھا 
مجھے اچھے سے یاد ہے بابا اس دن میرے لیئے نیا برقع لیکر آ ئے تھے
میرے ہاتھ میں برقع دے کر کہنے لگے بیٹی یہ پہن کر کالج جایا کرو 
لیکن کیا پتا تھا بابا کو ان کی بیٹی نے کیا گناہ کر دیا 
وہ بدذات مجھ سے کھیل کر چلا گیا 
ماں نے بابا کو سب کچھ بتا دیا 
مجھے یاد ہے بابا دیوار کے ساتھ سر مار مار کر اہنا غصہ ٹھنڈا کر رہے تھے 
میرا بچہ گرا دیا گیا 
میں گھر آئی بھائی کچھ نہیں جانتے تھے وہ مجھ سے خوشی خوشی بات کیا کرتے تھے 
لیکن بابا مجھ سے بات نہ کرتے 
ماں مجھے گھر کا کوئی کام نہ کرنے  دیتی 
میں جان چکی تھی ماں بابا ناراض ہیں مجھ سے 
میں نے ایک رات دیکھا تھا بابا میری بچن کی تصویریں نکال کر دیکھ رہے تھے چوم کر رو رہے تھے 
میں مر گئی تھی اس دن 
ماں نے مجھ سے بات کرنا چھوڑ دیا 
نہ جانے بھابھی کو کیسے پتہ چلا اس بات کا بھابھی نے بھائی کو بتایا سب بھائیوں کو بھی پتہ چل گیا 
ایک بھائی نے مجھے گولی مارنے کی کوشش کی لیکن ماں نے بچا لیا مجھے 
پھر بابا نے ایک جگہ میرا رشتہ کر دیا 
وہ لڑکا شرابی تھا 
پہلی رات اس نے شراب پہ کر میرے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا 
میں بےبس ہو گئی تھی کہاں جاتی 
بابا نے کہا تھا مر جانا اب ہمارے پاس واپس نہ آنا 
وہ میرا شوہر مجھے بہت مارتا 
میں کیا کرتی کہاں جاتی ایک دن میں بے بس ہو کر بابا کے پاس چلی گئی میری چہرے پہ زخموں کے نشان تھے 
میں نے روتے ہوئے کہا بابا اپنے ہاتھوں سے مار دیں مجھے لیکن اس ظالم انسان سے بچا لیں 
بابا منہ موڑ کر چلے گئے ماں نے مجھے گالیاں دی تم گھر بسا ہی نہیں سکتی 
میری منتیں کرنے کے بعد اس ظالم سے طلاق لے لی 
بھائی کوئی بھی بات نہیں کرتے تھے 
ماں بھی بات نہیں کرتی تھی بھابھی اپنے بچوں کو مجھ سے دور رکھتی 
ایک بار میں نے اپنی بھتیجی کو اپنی بانہوں میں اٹھایا 
بھابھی نے مجھے بہت گالیاں دی 
اپنی بیٹی کو نہہلاتے ہوئے کلمہ پڑھنے لگی پاک کرنے لگی اپنی بیٹی کو 
میں اتنی بری ہو چکی تھی 
مجھ سے سب نے منہ موڑ لیا نہ بابا ماں بھائی سب کے لیئے میں بری تھی 
میں پانچ وقت کی نماز ادا کرتی اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتی 
اللہ تو معاف کر دیتا لیکن لوگ معاف نہیں کرتے 
گھر میں کچھ بھی نقصان ہو جاتا سب مجھے منحوس کہتے 
مجھے برا بھلا کہتے 
اور پھر ایک دن میں بابا کے پیر پکڑ لیئے بہت روئی تھی میں اس دن بابا کی ٹانگوں سے لپٹ کر 
بابا مجھ سے گناہ ہو گیا تھا مجھے بابا معاف کر 
میں چیخ چیخ کر رو رہی تھی 
بابا کرسی پہ بیٹھ گئے انھوں نے مرے سر پہ ہاتھ رکھا 
کچھ کہنا چاہتے تھے کے وہ بھی چھوڑ گئے دل کا دورہ پڑا اور مجھے روتا ہوا چھوڑ گئے 
اس دن ماں نے مجھے منحوس بد بخت کہا 
میں بہت روئی تھی بابا کی موت کے بعد بھائیوں نے مجھے گھر سے نکالنے کا فیصلہ کیا 
مجھے بات بات پہ طعنے دیتے بھابھی لوگوں نے مجھے بدکرادار کہا میں اپنے سب رشتہ داروں میں بدنام ہو گئی 
کوئی مہمان گھر آتا سب سے ملتا لیکن مجھ سے کوئی نہ ملتا 
پھر مجھے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا مجھے اس کمرے سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی 
ماں بھی طعنے دیتی 
اور ایک دن پھر فضل کا کافی نقصان ہوا بھائی سمجھنے لگے میری منحوسی کی وجہ ہے مجھے کہنے لگے تم دارایمان  چلی جاو میں سب سے ہوتے ہوئے لاوارث  تھی 
ماں شاید مجبور تھی بیٹوں کے ہاتھوں یا سچ میں نفرت کرتی تھی مجھ سے 
مجھے بھائی دارالامان چھوڑ گئے 
لیکن یہاں بھی کچھ گندی نگاہ والے تھے میں جوان خوبصورت مجھے یہاں بھی ہراساں کیئے جانے لگا 
بس حالات سے لڑتے لڑتے میں پھر اس گندگی میں آ گئی 
ہاں ماں سے بات کرتی تھی میں فون پہ 
ماں چوری بات کرتی تھی بھائیوں سے 
بہت روتی تھی ماں میرے لیئے 
لیکن شاید بے بس تھی رشتہ داروں کا سامنا نہیں کر پا رہی تھی ماں بیمار تھی مجھے آخری بار فون کر کے کہہ رہی تھی شاید کبھی اب بات نہ کر سکوں میں تم سے اپنا خیال رکھنا میری بچی 
اور کل فون کیا تو بھائی نے فون اٹھایا میں خاموش رہی لیکن پیچھے رونے کی آواز آ رہی تھی میں سمجھ گئی تھی میری ماں اب نہیں رہی 
کشف رو رہی تھی قاسم پاس بیٹھا تھا فجر کی اذان ہونے لگی 
کشف نے آنسو پونچھے قاسم مجھے میرے گھر چھوڑ او 
قاسم کی آنکھیں نم تھیں کشف کے قریب ہوا 
آنسو صاف کیئے کشف آو میرے ساتھ کشف کو اپنے گھر لے گیا 
قاسم کی ماں نماز پڑھ کر بیٹھی تھی قاسم کے بابا نہیں تھے 3 چھوٹی بہنیں  تھی قاسم گھر میں داخل ہوا صبح صبح کر وقت تھا  چڑیوں کی چووں چوں کی آوازیں آ رہی تھیں باغ میں کوئل کی پیاری سی آواز سنائی دے رہی تھی 
بڑی بہن نے قاسم کے ساتھ کشف کو دیکھا 
دوڑتی ہوئی ماں کے پاس گئی اماں بھائی پتا نہیں کس لڑکی کو گھر لے کر آئے ہیں 
لڑکی ویسے بہت خوبصورت ہے 
ماں نے قرآن پاک چوم  کر بند کیا ۔اللہ خیر کرے 
قاسم نے ماں کو سلام کیا ماں نے قاسم کا ماتھا چوما ۔آ جا میرے بچے بیٹھ جا کشف کے سر پہ ہاتھ پھیرا  
آ میری بیٹی بیٹھ جا یہاں میرے پاس 
ماں نے کوئی سوال نہ کیا کیوں کے وہ جانتی تھی اس کا بیٹا قاسم کبھی کچھ غلط نہیں کر سکتا 
ماں نے بیٹی کو جلدی سے کہا ناشتہ بناو ہم کو ناشتہ دو 
کشف کو پاس بٹھایا سر پہ ہاتھ رکھا ماشاللہ کتنی پیاری بیٹی ہے 
نظر نہ لگے آنکھیں کیوں سرخ ہیں روئی ہو کیا 
کشف اداسی چھپا کر مسکرانے لگی 
نہیں خالہ ایسی کوئی بات نہیں 
ناشتہ کیا پھر قاسم نے ماں کو سب کچھ بتایا کشف کے بارے 
ماں کے پاس بیٹھ کر بولا ماں اجازت دو تو میں نکاح کر لوں کشف سے 
ماں پہلے خاموش رہی پھر اپنی بیٹیوں کی طرف اس کی جگہ میری بیٹی بھی ہو سکتی ہے 
قاسم کو سینے سے لگایا ہاں بیٹا 
سادگی سے نکاح کروا دیتی ہوں تم۔دونوں کا 
قاسم اور کشف کا نکاح ہو گیا 
کشف بہت خوش تھی اتنے دکھ کے بعد سکون ملا تھا 
قاسم بہت اچھا تھا کشف کا جسم سگریٹ سے جگہ جگہ سے جلا ہوا تھا نشان نظر آتے تھے 
کشف 5 وقت نماز ادا کرتی قرآن پاک کی تلاوت کرتی 
ایک دن پرانی تصویریں دیکھ رہے تھے 
کے اچانک کشف کی نظر ایک تصویر پر پڑھی 
کشف نے وہ تصویر ہاتھ میں اٹھا کر قاسم سے پوچھا یہ کس کی تصویر ہے 
قاسم کی ماں بھی پاس بیٹھی تھی 
ماں روتے ہوئے بولی میرا جنتی بیٹا ہے جو آج سے 3 سال پہلے ایک ایکسیڈینٹ میں فوت ہو گیا تھا 
کشف کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں وہ لڑکا کوئی اور نہیں قاسم کا بھائی اور کشف کا پہلا پیار جس سے چوری نکاح کیا تھا وہی لڑکا تھا 
کشف خاموش رہی کسی سے کچھ نہ کہا آسمان کی طرف دیکھنے لگی یا اللہ تیرے راز ہیں سب 
کشف کے سب سے چھوٹے بھائی کی شادی قاسم ہی بہن سے ہوئی تھی 
وہ جن رشتوں سے بھاگ رہے تھے وہ گھوم  پھر کر ایک بار پھر سامنے آ گئے تھے 
نہ چاہتے ہوئے ایک دوسرے کا سامنا کرنا پڑھ رہا تھا 
لیکن ان سب میں قاسم بے حد پیار کرتا تھا کشف سے 
اللہ نے ان کی خوبصورت سی بیٹی عطا کی 
کشف کی زندگی جنت بنا دی تھی قاسم نے 
ایک انسان ایک غلطی ایک بھول کتنا کچھ بدل جاتا ہے صرف ایک غلط قدم سے 
کشف اور قاسم حج کر رہے تھے کشف رو رہی تھی 
یا اللہ تیرا شکر ہے مجھے واپس زندگی دینے کے لیئے۔۔ 

مکان براۓ فروخت

بڑھاپے میں والدین کو آپکی ضرورت ہوتی ھے۔

پراپرٹی ڈیلر نے اشتہار پڑھا
"مکان براۓ فروخت"

اس نے مکان کا وزٹ کیا اور ہمراہ ایک پارٹی کو لے کر گیا جو مطلوبہ مکان خریدنا چاہتی تھی جیسے ھی یہ لوگ اس گھر کے دروازے پر پہنچے ایک عمر رسیدہ بزرگ نے انھیں اندر آنے کی دعوت دی اور ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کا کہا کچھ دیر بعد ایک عمر رسیدہ خاتون خانہ چاۓ کی ٹرالی ٹیبل سجاۓ ہوۓ ان لوگوں کی طرف آ رہی تھی جس پر چاۓ کے علاوہ گاجر کا حلوہ ،نمکو ،بسکٹ اور کچھ مٹھائی رکھی ہوئی تھی
وہ دونوں میاں بیوی ہمارے سامنے بیٹھ گئے اور ہمیں چاۓ نوش کرنے کی اجازت دینے لگے میں نے ان سے کہا ہماری آج پہلی ملاقات ہے اور ہم مکان کی بات چیت کرنے آئے ہیں اور آپ نے اتنا تکلف کیوں کیا ؟
بابا جی نے دھیمے سے لہجے میں کہا بیٹا آپ چاۓ نوش فرمائیں مکان کی بات بعد میں ہوتی رہے گی ہم سب لوگ چاۓ سے لطف اندوز ہوتے رھے اور ساتھ کچھ گفتگو کرتے رھے کچھ دیر بعد چاۓ وغیرہ پی کر میں نے بابا جی سے پوچھا آپ مکان کی بات کریں یہ مکان آپ کتنے میں دیں گے ؟ تو بابا جی نے کہا مکان کی قیمت پچاس لاکھ روپے ہے میں حیران ہو کر بولا بابا جی آپ کا مکان تو تیس لاکھ روپے کا بھی نہیں اور آپ پچاس لاکھ مانگ رہے ہیں؟ حیرت کی بات ہے آپ نے ہمیں چاۓ پلا کرہم پر احسان کیا ہے اور مکان کی قیمت بھی بہت زیادہ مانگی ہے لہٰذا ہمارا سودا نہیں ہو سکتا تو بابا جی نے کہا کوئی بات نہیں یہ کھانا پیناکچھ نہیں انسان اپنے نصیب کا کھاتا ہے ۔ خیر ہم دو تین گھنٹے وہاں گزار کر خالی ہاتھ واپس لوٹ آئے ۔
تین مہینے بعد میں نے اخبار میں پھر سے اسی مکان کی فروخت کا اشتہار پڑھا اور تعجب ہوا کہ ابھی تک بابا جی کا مکان نہیں بکا دوبارہ رابطہ کرنے کے لئیے ایک دوسری پارٹی کو ساتھ لے کر بابا جی کا مکان دیکھنے چلا گیا جیسےہی دروازہ کھٹکھٹایا تو بابا جی نے پر تپاک طریقے سے اندر آنے کی دعوت دی اور ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور کچھ دیر بعد وہی خاتون خانہ چاۓ کی ٹرالی ٹیبل لے کر ہماری طرف آ رہی تھی
میں نے بے ساختہ لہجے میں کہا بابا جی آپ اتنا تکلف کیوں کرتے ہیں آپ مکان کتنے میں بیچنا چاھتے ہیں بابا جی نے کہا آپ چاۓ نوش فرمائیں مکان کی بات بعد میں کرتے ہیں ۔ پہلے کی مرتبہ اس بار بھی چاۓ وغیرہ پینے کے بعد کچھ گفتگوہوئی اور بابا جی سے مکان کی بات کرنا چاہی تو بابا جی نے پھر پچاس لاکھ کی ڈیمانڈ کر دی مجھے غصہ بھی آیا اور حیرت بھی ہوئی کہ یہ بابا جی دماغی مریض لگتےہیں ہم نے اجازت طلب کی اور وہاں سے واپس آ گئے ۔ 
اس بات کو کافی ماہ گزر گئے میرا ایک دوست جو پراپرٹی ڈیلر تھا اس کا مجھے فون آیا اور اس نے کہا ایک مکان مل رھا ہے کافی سستا ہے اگر ارادہ ہے تو چلو ساتھ تمہیں مکان دکھا دوں میں نے کہا چلو چلتے ہیں جب میں اس کے ساتھ گیا تو وہ وہی مکان تھا جو بابا جی کا تھا میں نے اپنے دوست کو ہنستے ہوے بتایا یہ بابا جی کا مکان ہے اور وہ بابا جی پاگل ہیں شاید- پھر میں نے اپنے دوست کو پچھلے دونوں واقعیات سناۓ تو اس دوست نے کہا اس بات میں کچھ نہ کچھ راز تو ضرور ہے چلو پتا کرتےہیں
ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا تو بابا جی کی نظر مجھ پر پڑی انہوں نے مجھے گلے سے لگایا اور پہلے کی مرتبہ اس بار بھی اندر آنے کی دعوت دی اور ڈرائنگ روم میں لے گئے کچھ دیر بعد وہی خاتون چاۓ کی ٹرالی ٹیبل ہماری طرف لاتی ہوئی دکھائی دیں بابا جی نےہمیں چاۓ نوش کرنے کا کہا ۔ میرے دوست نے کہا بابا جی آج ھم چاۓ تب تک نہیں پئیں گے جب تک آپ ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ آپ مکان کی فروخت کا اشتہار دیتے رہتے ہیں لیکن مکان فروخت نہیں کرتے اور جو مکان خریدنے آتا ہے اس کی تواضح کر کے اسے بھیج دیتےہیں آخر ماجرا کیا ہے ؟
یہ بات سن کر بابا جی نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور اداسی والی نگاہوں سے میری طرف پلٹے اور کہا ھم نے مکان نہیں بیچنا ھم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر کوئی آتا جاتا رہے ہم کسی سے بات چیت کرتے رہیں اور کوئی ھم سے باتیں کرے ہم بوڑھےہیں لاچار ہیں ھمارے 3 بیٹے ہیں جنھیں ہم نے اچھی تعلیم دلوائی وہ ملک سے باہر ہیں لیکن ہمارے لئیے نہ ہونے کے برابر ہیں ہم اکیلے پن کی وجہ سے اپنے آپ کو اس گھر کی دیواروں کو دیکھ دیکھ کر اکتا گئے ہیں اس لئیے ہم نے سوچا ھم اپنی اس اداسی کو لوگوں کی تواضح سے ختم کریں ان کی باتیں سن کر میرا دل پسیج گیا اور میں نےسوچا بڑھاپا اور اکیلا پن ان دونوں چیزوں کے ساتھ زندگی کس قدر کٹھن ہے بابا جی نے کہا بیٹا دنیا کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئیے سب کچھ پاس ہے لیکن بڑھاپے میں اولاد کا سہارا ہی ساتھ دیتا ہے-

بڑھاپے میں بوڑھے والدین کو آپکے پیسے کے نہیں بلکہ آپکی ضرورت زیادہ ہوتی ھے۔ لہذا والدین کو زیادہ سے زیادہ وقت دیں ۔.. !!!!!!!

"انمول ھیں وہ  لوگ جو دوسروں کے درد کو محسوس کرتے ہیں"۔

پاک محبت

تحریر:         _گلزیب فاطمہ_
میں حال میں بیٹھی چاۓ پی رہی تھی کے اچانک دروازے پر دستک ہوئی جب دیکھا تو سامنے وہ کھڑا تھا 
ذولید تم!  تم یہاں کیا کر رہے ہو آنے سے پہلے فون تو کر دیتے ؟
ہاں ! 
وہ تم سے ملنا تھا کچھ کہنا تھا .
اچھا آؤ اندر آؤ کیا بات ہے؟
کیا ہوا چپ کیوں ہو ؟
میری شادی ہے اگلے ہفتے آفرین .
کچھ پل کے لئے لگا جیسے پیرو کے تلے سے زمین نکل گئ
کیا ؟
ہاں بس یہی کہنے آیا تھا میں شادی کر رہا ہوں ،
کس سے ؟
امی کی بھتیجی سے بہت اچھی لڑکی ہے گھر پر سب کو پسند ہے. 
اور میں ؟ میرا کیا ؟ 
میرے گھر والے زیادہ انتظار نہیں کر سکتے میں مجبور ہوں یار تم تو سمجھوں. 
کیا کیا سمجھوں میں ؟
تم تو مجھ سے محبت کرتے ہو نا تو شادی کسی اور سے کیسے کر سکتے ہو کیا تہمیں میری فکر نہیں ہے میں کیا کرو گئ تم بن .
میں بھی محبت کرتا ہوں تم سے پر ؟
پر کیا پر ؟
پر ہر محبت کرنے والے کی قسمت میں مل جانا ہی تو نہیں ہوتا میں نے بہت کوشش کی پر گھر والے نہیں مانے اب تم ہی بتاؤ میں کیا کرو ؟
اب یہ بھی میں ہی بتاؤ کے تم کو کیا کرنا ہے. 
چلو ٹھیک ہے میں نے سوچ لیا ہے مجھے کیا کرنا ہے. 
مطلب ؟
مطلب یہ کے چلو سب کچھ چھوڑ کر میرے ساتھ چلو ہم دونوں سب سے دور اپنی نیی زندگی بنا لے ہم گھر سے باگ کر شادی کر لیتے ہیں، آفرین تم میرے ساتھ چلو گئ نا ؟
یہ کیسی باتیں کر رہے ہو تم ذولید میں ایسا کچھ نہیں کرو گئ!  
میری محبت پاک ہے تمہارے لئے پر اس کا مطلب یہ نہیں کے میں میرے گھر والوں کی اذیت خراب کر دو میں ایسا کچھ نہیں کرو گئ سمجھے تم. 
ہاں! تمہارے گھر والوں کی اذیت اذیت اور میرے گھر والے ان کا کیا آفرین ؟ جس طرح تم اپنے گھر والوں کو دکھ نہیں دے سکتی میں بھی نہیں دے سکتا. 
مجھے یہی کہنا تھا اب میں چلتا ہوں. 
اور وہ جانے کے لئے مڑ گیا. 
آفرین نے پیچھے سے اس کو آوازہ دی اور اس سے پوچھا 
کیا یہی تھی میرے لئے تمہاری محبت ؟
ذولید! نے جواب دیا ہا یہی ہے میری محبت جتنی پاک تم مجھ سے محبت کرتی ہوں اتنی ہی پاک محبت. 
آفرین! اچھا تو کیا ہے تمہارے لئے پاک محبت کا مطلب ذولید؟
ذولید!  اس نے کچھ نہیں کہا اور چلا گیا. 
بہت وقت گزرتا گیا ذولید نے شادی کر لی آفرین اپنی زندگی میں مصروف رہنے لگی وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل گیا مگر آج بھی آفرین کو اس بات کا دکھ تھا کے ذولید نے اس کے سوال کا جواب کیوں نہیں دیا کیا یہی تھی اس کی محبت؟ کیا اس نے کبھی مجھ سے محبت نہیں کی ؟ کیا وہ میرے ساتھ وقت گزر رہا تھا ؟
کیا میں اس کا ٹیم پاس تھی ؟
مگر اس کے خود کے پاس بھی اپنے کسی سوال کا جواب نہیں تھا. 
دو سال گزر گئے آفرین کچھ لکھ رہی تھی کے اچانک اس کو فون کی گھٹی سنوئی دی اس نے فون لیا اور دوسری طرف سے جو آوازہ آئی تو وہ خاموش ہو گئ. 
آفرین میں.... میں ذولید! 
تم..... تم نے کیوں فون کیا ؟
تمہارے سوال کا جواب دینے کے لئے!  تم نے پوچھا تھا نا کے کتنی پاک محبت ہے مجھے تم سے اس کا جواب دینے کے لئے. 
اتنے وقت بعد یاد آیا جواب تم کو ذولید. 
ہا!  میری بیٹی ہوئی ہے آج اور آج ہی مجھے اس سوال کا جواب مل گیا آفرین! 
اچھا تو کیا ہے جواب اس سوال کا ؟
میری محبت تم سے اتنی پاک ہے آفرین، کہ میں نے تمہارے نام سے میری بیٹی کا نام رکھ لیا. 
وہ چپ بس سن رہی تھی آج بس ذولید بول رہا تھا. 
میں کبھی تمہارے ساتھ وقت نہیں گزر رہا تھا نا ہی ٹیم پاس کر رہا تھا میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں آفرین کل بھی کرتا تھا آج بھی کرتا ہوں اور ہمیشہ کرو گا پتا ہے آفرین میں ہمیشہ اللہ پاک سے دعا کرتا تھا! کہ اے اللہ میں آفرین سے بہت محبت کرتا ہوں ہمیشہ اس کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں
اللہ اگر میں اس کے حق میں بہتر نہیں ہوں تو مجھے اس سے دور کر دے! 
اور جس دن میری شادی کہی اور ہو گئ اس دن مجھے پتا چل گیا کے میں تمہارے حق میں بہتر نہیں تھا پر میری محبت تمہارے لئے پاک تھی بہت پاک اتنی پاک کے میں نے تمہارے نام سے میری بیٹی کا نام رکھ لیا !
اگر میں تمہارے ساتھ وقت گزر رہا ہوتا ٹیم پاس کر رہا ہوتا تو کبھی بھی  اپنی بیٹی کا نام تمہارے نام سے نہیں رکھتا 
کیوں کے کوئی بھی مرد کبھی اس عورت کے نام سے اپنی بیٹی کا نام نہیں رکھتا جس کو وہ صرف ضرورت سمجھ کر استعمال کرے! 
تم میری زندگی ہو آفرین اب تمہارا نام لینے کے لئے مجھے کسی کی آجازت کی ضرورت نہیں اب میں دن میں ہزا بار تم کو پکارتا ہوں اتنی پاک محبت کرتا ہوں میں تم سے 
مجھے بس یہی کہنا ہے آفرین آج کے بعد کبھی کال نہیں کرو گیا کبھی بات نہیں ہو گئ ہماری پر میں ہمیشہ تم سے محبت کرو گیا ہمیشہ! 
کچھ پل کے لئے دونوں طرف خاموشی تھی وہ جاتا تھا کے آفرین رو رہی ہے اور کہی نا کہی اس کی آنکھوں میں بھی آنسوں تھے پر اس نے فون بند کر دیا. 
آفرین بہت دیر تک خاموش وہی کھڑی رہی اور یہ سوچ رہی تھی! کیا سچ میں اس کو مجھ سے اتنی محبت تھی؟
اور میں کبھی سمجھ نہیں سکی. 

محبت کا مطلب مل جانا ہی نہیں ہوتا! اپنی محبت کی خوشی کے لئے اس سے دور چلے جانا بھی محبت ہی ہوتا ہے. 

آج تک کسی نے ایسے بلایا ہی نہیں آقاﷺ

ایک بوڑھی عورت اپنے بہرے گھونگے بچے کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کے پاس آئی۔ اور آ کر کہنے لگی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کیا آپ اس کو ایسا نہیں بنا سکتے کہ یہ سنے بھی اور بولے بھی۔ میں اب بہت بوڑھی ہو گئی ہوں آپ اس کو اس قابل بنا دیں کہ یہ میرے بڑھاپے کا سہارا بن جاے۔ سرکار نے اس بوڑھی عورت کی طرف دیکھا ۔ اور اس بوڑھی عورت کی آنکھوں  میں نمی دیکھی آواز میں بے محتاجی نظر آئی۔ آواز میں درد محسوس کیا۔ سرکار ﷺ نے اس لڑکے کی طرف دیکھا اور اس کو آواز دی۔ یاولد(اے بیٹے) یا ولد۔ وہ بے دھڑک ہو کر بولا لبیک یا رسول ﷲ ﷺ۔ تمہاری ماں کہتی ہے کہ نہ تم بولتے نہ تم سنتے ہو۔ لڑکے نے جواب دیا۔ سرکار ﷺ آج تک آپ کی طرح کسی نے بلایا  ہی نہیں ۔۔
 _درس مسناوی۔۔ مولانا روم_