Tuesday, January 26, 2021

فرمانبرداری والی روزی


گھی والی چوری بندہ طوطے کو بھی ڈالتا ھے اور چوھے کو بھی۔۔ طوطے کو خوش ھو کر ڈالتا ھے اور چوہے کو پھنسانے کیلے اور بطور سزا کے ۔۔۔۔۔ چوہا بڑا خوش ھو رھا ھوتا ھے کہ اتنی اچھی روزی کا خزانہ مل گیا ھے لیکن اس وقت حقیقت سامنے اتی ھے جب لوھے کی تار گردن کا شکنجا بن جاتی ھے جس کو وہ روزی سمجھ رھا تھا وہہ مصیبتوں کا پہاڑ بن جاتی۔۔۔۔ ایسے ہی اللہ تعالی کچھ لوگوں کو روزی خوش ھو کر دیتا ھے اور کچھ لوگوں کو ناراض ھو کر بطور سزا کہ ۔۔۔ 
اب کیسے پتہ چلے گا کہ اللہ روزی خوش ھو کر دے رھا ھے یا ناراض ھوکر  دے راھا ھے۔۔۔۔ اگر روزی بڑھتی جاے اور ساتھ اللہ کی فرمابرداری بھی بڑھتی جاے اور انسان  جھکتا جاے اپنے اللہ کے سامنے تو یہ نشانی ھے اس بات کی کہ اللہ خوش ھو کر روزی دے رھا ھے ۔۔۔۔اور اگر روزی بھی بڑھتی جا  رھی ھے اور ساتھ اللہ کی نافرمانی بھی بڑھتی جارھی ھے اور انسان اللہ سے دور ھوتا جا رھا ھے تو یہ نشانی ھے اس بات کی کہ اللہ ناراض ھوکر روزی دے رھا ھے  ۔۔۔۔روزی حا صل کر لینا کوی کمال کی بات نہیں وہ تو جانور بھی حاصل کر لیتے ہیں اور غیر مسلم ہم سے بھی بہتر حاصل کر لتے ہیں مسلمان ہمیشہ اللہ کی رضا والی روزی حاصل کرتا ھے اور اللہ کی ناراضگی والی روزی سے پناہ مانگتا ھے ۔۔۔۔اچھا جب ایک چوھا پھنستا ھے تو باقی چوھے دیکھ رھے ھوتے ہیں تو پھر کیوں باقی چوہے  پھنس جاتے ہیں وہ اس لیے کہ جب لوھے کی تار چوھے کی گردن پر پڑتی ھے تو چوھے کا منہ  کھل جاتا ھے جو چوری سے بھرا ھوتا ھے اور  تار اتنی باریک ھوتی ھے کہ وہ نظر نہیں اتی چوری سے بھرا منہ نظر ا راھا ھوتا ھے  وہ کہتے یہ نکلے تو ہم بھی یہ چوری کھایں ۔۔۔۔ایسے ہی نافرمان بندے کے اوپر  جو مصیبتوں پریشانیوں اور بیماریوں  کی تار ھوتی ھے وہ دوسرے بندوں کو نظر نہیں ا رھی ھوتی  سامنے چوری سے بھرا منہ نظر ا رھا ھوتا ھے بندے کہتے ہیں اس کا سر نکلے تو ہم پھنسایں اس وقت پتہ چلتا ھے  جب نافرمانی کی وجہ سے روزی کی شکل میں مصیبتیں پریشانیاں اور ذلتیں انسان کا مقدر بن جاتی ہیں۔

Monday, January 25, 2021

پر عزم انسان

ایک دفعہ ایک گھوڑا ایک گہرے گڑھے میں جا گرا اور زور زور سے اوازیں نکالنےلگا
گھوڑے کا مالک کسان تھا جو کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا
جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گھوڑا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے
وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں اور گڑھے کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں
یہ سوچ کر اس نے اپنے
اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور گڑھا بند کرنا شروع کر دیا
سب کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ تھا جس سے وہ مٹی بجری اور کوڑا کرکٹ گڑھےمیں ڈال رہے تھے
گھوڑا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا
اس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی
کچھ ہی لمحے بعد گھوڑا بالکل خاموش سا ہو گیا
جب کسان نے جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب گھوڑے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہے
یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا
کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور گھوڑا اسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر اوپر آتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اوپر تک پہنچ گیا اور باہر نکل آیا
یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی سکتے میں آ گئے
زندگی میں ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے
ہماری کردار کشی کی جائے
ہمارے دامن کو داغدار کیا جائے
ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے
لیکن گندگی کے اس گڑھے سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں
بلکہ ہمیں بھی ان بے کار کی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے
زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں مگر یہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ آیا ہم ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں
یا
ان کے اوپر چڑھ کر مشکل کے کنویں سے باہر آنے کی ترکیب کریں
خاک ڈالنے والے ڈالتے رہیں 
مگر پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا.

قوتِ برداشت

لوہار کی بند دکان میں کہیں سے گھومتا پھرتا ایک سانپ گھس آیا...
یہاں سانپ کی دلچسپی کی کوئی چیز نہیں تھی، اس کا جسم وہاں پڑی ایک آری سے ٹکرا کر بہت معمولی سا زخمی ہو گیا، گھبراہٹ میں سانپ  نے پلٹ کر آری  پر پوری قوت سے ڈنگ مارا، سانپ کے منہ سے خون بہنا شروع ہو گیا...
اگلی بار سانپ  نے اپنی سوچ کے مطابق آری کے گرد لپٹ کر، اسے جکڑ کر اور دم گھونٹ کر مارنے کی پوری کوشش کر ڈالی، دوسرے دن جب دکاندار نے ورکشاپ کھولی تو ایک سانپ کو آری کے گرد لپٹے مردہ پایا جو کسی اور وجہ سے نہیں محض اپنی طیش اور غصے کی بھینٹ چڑھ گیا تھا...

بعض اوقات غصے میں ہم دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر وقت گزرنے کے بعد ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم نے اپنے آپ کا زیادہ نقصان کیا ہے...
اچھی زندگی کیلئے بعض اوقات ہمیں
کچھ چیزوں کو
کچھ لوگوں کو
کچھ حادثات کو
کچھ کاموں کو
کچھ باتوں کو
 نظر انداز کرنا چاہیئے...
اپنے آپ کو ذہانت کے ساتھ نظر انداز کرنے کا عادی بنائیے، ضروری نہیں کہ ہم ہر عمل کا ایک رد عمل دکھائیں. ہمارے کچھ رد عمل ہمیں محض نقصان ہی نہیں دیں گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہماری جان بهی لے لیں...

سب سے بڑی قوت۔۔۔ قوتِ برداشت ہے ...

اپنوں سے غداری کا انجام

سلطان محمود غزنوی کے پاس ایک شخص ایک چکور لایا جسکا ایک پاوں نہیں تھا۔ جب سلطان نے اس سے چکور کی قیمت پوچھی تو اس شخص نے اس کی قیمت بہت مہنگی بتائی۔ سلطان نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کہ اسکا ایک پاٶں بھی نہیں ہے پھر بھی اس کی قیمت اتنی زیادہ کیوں بتا رہے ہو؟ تو وہ شخص بولا کہ جب میں چکوروں کا شکار کرنے جاتا ہوں تو یہ چکور بھی شکار پر ساتھ لے جاتا ہوں۔  وہاں جال کے ساتھ اسے باندھ لیتا ہوں تو یہ بہت عجیب سی آوازیں نکالتا ہے اور دوسری چکوروں کو بلاتا ہے۔  اس کی آوازیں سن کر بہت  سے چکور آ جاتے ہیں اور میں انہیں پکڑ لیتا ہوں۔ 
سلطان محمود غزنوی نے اس چکور کی قیمت اس شخص کو دے کر چکور کو ذبح کردیا۔ اس شخص نے پوچھا کہ اتنی قیمت دینے کے باوجود اس کو کیوں ذبح کیا؟ سلطان نے اس پر تاریخی الفاظ کہے: 

"جو دوسروں کی دلالی کیلئے اپنوں سے غداری کرے اس کا یہی انجام ہونا چاہیے"...

جو چاہئے سو مانگئے

ایک بادشاہ راستہ بھٹک کر کسی ویرانے میں پہنچ گیا،وہاں جھونپڑی تھی اس جھونپڑی میں رہنے والے شخص نے بادشاہ کی بڑی خدمت کی،وہ غریب جانتا بھی نہیں تھا کہ یہ بادشاہ ہے،مسافر سمجھ کر خدمت کی،بادشاہ بہت خوش ہوا،جب جانے لگا تو اس نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اتاری اور کہا:تم مجھے نہیں جانتے ہوکہ میں بادشاہ ہوں۔یہ انگوٹھی اپنے پاس رکھو،جب کبھی کوئی ضروت ہوگی ہمارے محل میں آجانا،دروازے پر جو دربان ہوگا اسے یہ انگوٹھی دکھا دینا،ہم کسی بھی حالت میں ہوں گے وہ ہم سے ملاقات کرادے گا۔بادشاہ چلا گیا، کچھ دن کے بعد اس کو کوئی ضرورت پیش آئی ،تو وہ دیہاتی بڑے میاں گئے،محل کے دروازے پر پہنچے،کہا بادشاہ سے ملنا ہے، دربان نے اوپر سے نیچے تک دیکھا کہ اس کی کیا اوقات ہے بادشاہ سے ملنے کی،کہنے لگا نہیں مل سکتے،مفلس وقلاش آدمی ہے۔ اس دیہاتی شخص نے پھر وہ انگوٹھی دکھائی،اب جودربان نے دیکھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، یہ بادشاہ کی مہر لگانے والی انگوٹھی آپ کے پاس ؟بادشاہ کا حکم تھا کہ یہ انگوٹھی جولے کر آئے گا ہم جس حالت میں ہوںاسے ہمارے پاس پہنچادیا جائے،چنانچہ دربان اسےساتھ لے کر بادشاہ کے خاص کمرے تک گیا،دروازہ کھلا ہوا تھا، اندر داخل ہوئے، اب یہ جو شخص وہاں چل کر آیا تھا،اس کی نظر پڑی کہ بادشاہ نماز میں مشغول ہے،پھر اس نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ اٹھائے،اس کی نظر پڑی تو وہ وہیں سے واپس ہوگیا اور محل کے باہر جانے لگا،دربان نےکہا مل تو لو،کہا اب نہیں ملنا ہے،کام ہوگیا ۔ اب واپس جاناہے،تھوڑی دورچلاگیا،جب بادشاہ فارغ ہوگیا دربان نے کہاایسا ایسا آدمی آیا تھا یہاں تک آیا پھر واپس جانے لگا بادشاہ نے کہا فوراًلے کر آو وہ ہمارا محسن ہے،واپس لایا گیا بادشاہ نے کہا آئے ہو تو ملے ہوتے،ایسے کیسے چلے گئے؟ اس نےکہا کہ بادشاہ سلامت !اصل بات یہ ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ کوئی ضرورت پیش آئے تو آجانا ہم ضرورت پوری کردیں گے۔مجھے ضرورت پیش آئی تھی میں آیا اور آکر دیکھا کہ آپ بھی کسی سے مانگ رہے ہیں ،تو میرے دل میں خیال آیا کہ بادشاہ جس سے مانگ رہا ہے کیوں نہ میں بھی اسی سے مانگ لوں۔
یہ ہے وہ چیزکہ ہمیں جب کبھی کوئی ضرورت ہو بڑی ہویاچھوٹی٬اس کا سوال صرف اﷲ پاک سےکیاجائےکہ وہی ایک در ہےجہاں مانگی ہوئی مرادملتی ہے ۔
؂
جو چاہئے سو مانگیے اﷲ سے امیرؔ
اس در پہ آبرو نہیں جاتی سوال سے یاحی یاقیوم۔

Sunday, January 24, 2021

پختہ ایمان۔۔۔۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عیسائیوں کے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا تو ان کا سب سے بوڑھا پادری آپ کے پاس آیا اس کے ہاتھ میں انتہائی تیز زھر کی ایک پڑیا تھی اس نے حضرت خالد بن ولید سے عرض کیا کہ آپ ھمارے قلعہ کا محاصرہ اٹھا لیں اگر تم نے دوسرے قلعے فتح کر لئے تو اس قلعہ کا قبضہ ھم بغیر لڑائی کے تم کو دے دیں گے۔ 

حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا 
نہیں ہم پہلے اس قلعہ کو فتح کریں گے  بعد میں کسی دوسرے قلعے کا رخ کریں گے یہ سن کر بوڑھا پادری بولا  اگر تم اس قلعے کا محاصرہ نہیں اٹھاؤ گے تو میں یہ زھر کھا کر خودکشی کر لوں گا اور میرا خون تمہاری گردن پر ھوگا حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمانے لگے 
یہ ناممکن ہے کہ تیری موت نہ آئی ھو اور تو مر جائے
بوڑھا پادری بولا اگر تمہارا یہ یقین ہے تو لو پھر یہ زھر کھا لوحضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہ زھر کی پڑیا پکڑی اور یہ دعا بسم الله وبالله رب الأرض ورب السماء الذي لا يضر مع اسمه داء  پڑھ کر وہ زھر پھانک لیا اور اوپر سے پانی پی لیا۔ 

بوڑھے پادری کو مکمل یقین تھا کہ یہ چند لمحوں میں موت کی وادی میں پہنچ جائیں گے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چند منٹ آپ کے بدن پر پسینہ آیا اس کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پادری سے مخاطب ھو کر فرمایا دیکھا  اگر موت نہ آئی ھو تو زھر کچھ نہیں بگاڑتا پادری کوئی جواب دئیے بغیر اٹھ کر بھاگ گیا اور قلعہ میں جا کر کہنے لگا۔

اے لوگو میں ایسی قوم سے مل کر آیا ہوں کہ خدا تعالٰی کی قسم اسے مرنا تو آتا ہی نہیں وہ صرف مارنا ہی جانتے ھیں جتنا زِہر ان کے ایک آدمی نے کھا لیا اگر اتنا پانی میں ملا کر ہم تمام اہلِ قلعہ کھاتے تو یقیناً مر جاتے مگر اس آدمی کا مرنا تو درکنار  وہ بیہوش بھی نہیں ہوا۔ میری مانو تو قلعہ اس کے حوالے کر دو اور ان سے لڑائی نہ کرو چنانچہ وہ قلعہ بغیر لڑائی کے صرف حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قوت ایمانی سے فتح ہو گیا۔

(تاریخ ابن عساکر)

قضا و قدر

میڈیکل کے کچھ اسٹوڈنٹ کالج کے باهر خوش گپیوں میں مصروف تھے کے اچانک ایک گاڑی بڑی تیزی سے آئی اس نے درمیان میں کھڑے لڑکے کو ٹکر مار دی. باقی لڑکے بال بال بچ گئے. جس لڑکے کو چوٹ لگی تھی اسے فوری هسپتال منتقل کر دیا گیا.
چونکه وه میڈیکل کا اسٹوڈنٹ تھا اسلیے اس کے باقی ساتھی بھی پہنچ گئے ِفوری طور پر خون کے نمونے لیے گئے علاج شروع هوگیا - ایکسرے روپورٹ آگئی - ڈاکٹر نے اس کو بتایا که اس کے گردے کو سخت چوٹ لگی هے - اس میں سے خون رِس رها هے - اگر فوری نه نکالا گیا تو موت واقع هو سکتی هے -میں آپ سے یه فیصله لینے آیا هوں - وقت کم هے آپ کو فوراً فیصله کرنا هوگا - اس اسٹوڈنٹ کے پاس مواقفت کے سوا کوئی چاره نهیں تها - فوری طور پر آپریشن هوا اور گردے کو نکال کر لیباٹری میں ٹیسٹ کے لیے بهیجوا دیا گیا-
2 ،3 دن گزرے- سٹوڈنٹ ابهی تک اپنے بیڈ پر هی تها که وه ڈاکٹر جس نے لڑکے کا آپریشن کیا تها ، مسکراتا هوا اس کے پاس آیا - ڈاکٹر نے کہا که کیا کبھی تم نے قضا و قدر کے بارے میں سنا هے؟ اسٹوڈنٹ نے کها یه تو درست هے هم قضا و قدر پر یقین رکهتے هیں لیکن میرا نقصان کچھ زیاده هوچکا هے- ڈاکٹر کهنے لگا میں نے بهی تمهاری طرح قضاو قدر کو سن رکها تها مگر جب هم نے تمهارا معامله دیکها تو مجهے قضا و قدر پر اور زیاده یقین هو گیا هے -پهر اس نے بتایا که جب هم نے تمهارا گرده نکالا تو لیباٹری میں اسے ٹیسٹ کے لیے بهیجوایا-
جب اسے ٹیسٹ کیا گیا تو معلوم هوا که گردے میں کینسر کا آغاز هو چکا هے- میڈیکل میں اس قسم کے کینسر کا علم کافی عرصے بعد هوتا هے اس وقت علاج نا ممکن هوتا هے - اور مریض کی موت واقع هو جاتی هے- تم بہت خوش قسمت هو که گردے کے کینسر کا بالکل ابتدائی اسٹیج پر علم هوگیا- اور تمهیں کینسر زده گردے سے نجات مل گئی - دیکهو بیٹا ! گاڑی نے تمهیں اسی جگه ٹکر ماری جہاں پر کینسر تها - الله تعالی تمهیں دوباره زندگی دینا چاهتا تها- بلا شبه یه قضا و قدر تهی که تم اس بلڈنگ کے نیچے کهڑے هوئے اور پهر گاڑی نے اتنے سارے لڑکوں میں صرف تم هی ٹکر ماری-
یاد رکهو..! الله تعالی اپنے بندوں کے ساتھ ماں باپ سے بهی کہیں زیاده مهربان هے- اور ہمارے ساتھ جو بھی معاملات ہوتے ہیں وہ اللہ کی مرضی سے ہوتے ہیں اس لیے انسان کو اللہ کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ اللہ جو بھی کرتا ہے ہمارے بھلے کے لیے کرتا ہے.

شرم و حیا

#شرم_و_حیاء____ایمان_کی_ایک_اھم_ترین_شاخ ! 
شرم و حیاء انسان کا وہ فطرتی وصف ھے جس سے اُسکی بہت سی اخلاقی خوبیوں کی پرورش ھوتی ھے ۔ اسی کی بدولت انسان کو عفت و عصمت ، پاک بازی و پارسائی اور پاک دامنی حاصل ھوتی ھے ۔ اور اسی کے سبب وہ دوسروں کے ساتھ مروت و لحاظ اور چشم پوشی کا معاملہ کرتا ھے ۔ بلکہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اسی ایک فطرتی وصف کی برکت سے انسان بہت سے گناھوں سے محفوظ رہتا ھے ۔ شرم و حیاء کا یہ وصف ھر انسان میں فطرتی طور پر موجود ھوتا ھے اور اگر اِس کی شروع ھی سے نگہداشت اور حفاظت کی جائے تو انسان کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ وصف بھی خوب نشو و نما پاتا ھے اور پھر جب انسان اور یہ وصف آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ خوب گھل مل جاتے ھیں تو پھر یہ انسان کی عادت بن کر رہ جاتا ھے اور اُس کی پوری زندگی کو سنوار دیتا ھے ۔ لیکن اگر اِس کی بروقت صحیح حفاظت اور مناسب تربیت نہ کی جائے اور اسے یوں ھی آزاد اور بےمہار چھوڑ دیا جائے تو پھر یہ وصف انسان کی زندگی کا ایک بدنما داغ بن کر اُبھرتا ھے اور اِسکی وجہ سے انسان کی مکمل زندگی داغدار بن جاتی ھے ۔

اسلام نے اپنی رُوشن اور مبارک تعلیمات کے ذریعہ انسان کو زندگی کے تمام مواقع پر شرم و حیاء کی صحیح نگہداشت اور مناسب تربیت کرنے کا حکم دیا ھے ۔ وضع قطع ھو یا بود و باش ، چال چلن ھو یا نشست و برخاست ، اجتماعی زندگی ھو یا انفرادی زندگی غرض ھر موقع پر اسلام نے انسان کو شرم و حیاء کا پابند اور اُس کا مکلف بنایا ھے ۔

خود رسول اکرم ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ کی زندگیاں شرم و حیاء سے عبارت تھیں ۔ چنانچہ حدیث پاک میں آتا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لڑکپن کے زمانہ میں ایک مرتبہ خانہ کعبہ کی تعمیر کا کام ھو رھا تھا اور آپ ﷺ اینٹیں اُٹھا اُٹھا کر لا رھے تھے تو آپؐ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ : ''تم اپنا تہبند کھول کر کندھے پر رکھ لو تا کہ اینٹ کی رگڑ نہ لگ سکے۔'' آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ایسا کیا تو آپؐ پر بیہوشی طاری ھو گئی ، جب ھوش آیا تو آپؐ کی زبان مبارک پر تھا : ''میرا تہبند ! '' حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے تہبند باندھ دیا ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں شرم و حیاء کا مادہ اِس قدر غالب تھا کہ آپؐ پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرمیلے محسوس ھوتے تھے ! چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ : ''کنواری لڑکی اپنے پردے میں جتنی شرم و حیاء والی ھوتی ھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس سے بھی زیادہ شرم و حیاء والے تھے ۔ (صحیح بخاری)

حضرت سعید بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ : ''ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی چادر اُوڑھے ھوئے اپنے بستر پر لیٹے ھوئے تھے کہ اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی اور آپؐ اُسی طرح لیٹے رھے ، وہ اپنی بات کر کے چلے گئے ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی اجازت دے دی اور آپؐ اُسی طرح لیٹے رھے ، وہ بھی اپنی ضرورت کی بات کر کے چلے گئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ : ''پھر میں نے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا کہ : ''تم بھی اپنے کپڑے ٹھیک کر لو (پھر مجھے اجازت دی) میں بھی اپنی ضرورت کی بات کر کے چلا گیا ۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کیا : '' یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! کیا بات ھے آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے آنے پر جتنا اھتمام کیا اتنا حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے آنے پر نہیں کیا؟۔'' حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''عثمان بہت ھی حیاء والے آدمی ھیں تو مجھے ڈر ھوا کہ اگر میں اُنہیں اسی حالت میں اجازت دے دوں گا تو وہ اپنی ضرورت کی بات کہہ نہ سکیں گے۔'' اس حدیث کے بہت سے راوی یہ بھی روایت کرتے ھیں کہ : ''حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا : ''کیا میں اُس سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے حیاء کرتے ھیں؟۔'' (مسلم)

حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بہت زیادہ باحیاء ھونے کا تذکرہ کرتے ھوئے فرمایا کہ : ''بعض دفعہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ گھر میں ھوتے اور دروازہ بھی بند ھوتا لیکن پھر بھی غسل کے لئے اپنے کپڑے نہ اُتار سکتے اور وہ اتنے شرمیلے تھے کہ (غسل کے بعد) جب تک وہ کپڑے سے ستر نہ چھپا لیتے کمر سیدھی نہ کر سکتے یعنی سیدھے کھڑے نہ ھو سکتے تھے۔''. (مسند احمد)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ھیں کہ : ''میں نے (حیاء کی وجہ سے) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرم والی جگہ کبھی نہیں دیکھی۔'' (شمائل ترمذی) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ھیں کہ : ''تم لوگ اللہ سے حیاء کیا کرو ! کیوں کہ میں بیت الخلاء میں جاتا ھوں تو اللہ سے شرما کر اپنے ستر کو ڈھک لیتا ھوں۔'' (کنزالعمال) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ (اللہ تعالیٰ سے شرم و حیاء کی وجہ سے) جب کسی تاریک کمرے میں غسل کر لیتے تو سیدھے کھڑے نہ ھوتے بلکہ کمر جھکا کر کبڑے بن کر چلتے اور کپڑے لے کر پہن لیتے (اور پھر سیدھے ھوتے) (حلیۃ الاولیاء) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ لنگی باندھے بغیر پانی میں کھڑے ھیں تو آپؓ نے فرمایا : ''میں مرجاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے ، پھر مرجاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے ، پھر مرجاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے یہ مجھے اِس سے زیادہ پسند ھے کہ میں اِن کی طرح کروں۔'' (حلیۃ الاولیاء)

حضرت اشج عبد القیس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ : ''حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''تمہارے اندر دو خصلتیں ایسی ھیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ھیں.'' میں نے پوچھا وہ دو خصلتیں کون سی ھیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''برد باری اور حیاء۔'' میں نے پوچھا : ''یہ پہلے سے میرے اندر تھیں یا اب پیدا ھوئی ھیں؟۔'' حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''نہیں ! پہلے سے تھیں۔'' میں نے کہا : ''تمام تعریفیں اُس اللہ کے لئے ھیں جس نے مجھے ایسی دو خصلتوں پر پیدا فرمایا جو اُسے پسند ھیں۔'' (مصنف ابن ابی شیبہ) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ھے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ''حیاء'' تو سارے کی ساری خیر ھی ھے۔'' (مسند بزار)

مگر افسوس کہ آج کل کے معاشرے میں فحاشی و عریانی کو جو عروج بخشا جا رھا ھے ۔ بےشرمی و بےحیائی کو جو فروغ دیا جا رھا ھے ۔ اُ سے جس طرح رُوشن خیالی اور جدت پسندی قرار دیا جا رھا ھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُسے جس آزادی و بہادری اور جرأت و دلیری کے ساتھ سر انجام دینے کی کوششیں کی جا رھی ھیں اُنہیں دیکھ کر آج کل کے دور میں بڑی ھی مشکل سے یہ باور ھوتا ھے کہ اسلام کی چودہ سو سالہ درخشاں تاریخ میں کبھی ھمارے آباؤ اجداد او ر ھماری مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی ایسی گزری ھوں گی کہ جن کی عفت و عصمت ، پاک بازی و پاک دامنی اور اُن کی بے داغ جوانی پر آج کی تاریخ بجا طور پر فخر محسوس کرتی ھو گی ۔

مولوی اور چرواہا

ایک ایمان افروز کہانی
علاقے میں قحط سالی تھی اور جانور سب کچھ کھا کر فارغ ہو گئے تھے مزید کچھ کھانے کو رہا نہیں تھا او مویشی مالکان نہایت پریشان تھے، اس دوران مولوی اللہ وسایا نے جمعہ کے خطبے میں نہایت یقین کے ساتھ یہ بات بتائی کہ اگر اللہ کا نام لے کر یعنی بسم اللہ پڑھ کر دریا کو حکم دیا جائے تو وہ بھی نافرمانی نہیں کرتا۔
شاید یہ اس کا مولوی صاحب کے پیچھے زندگی کا پہلا جمعہ تھا کہ بات اس کے دل میں اتر کر یقین کا درجہ پا گئی، اس نے واپس آکر اپنی بکریاں کھولیں اور سیدھا دریا پہ چلا گیا، اونچی آواز سے بسم اللہ الرحمان الرحیم پڑھا اور دریا کو کہا کہ وہ ذرا اپنی بکریاں چرانے جا رہا ہے اس لیے وہ اسے اپنے اوپر سے گزرنے دے، یہ کہہ کر اس نے اپنی بکریوں کو ہانکا اور دریا کے اوپر سے چلتا ہوا دریا پار کر گیا، علاقہ گھاس سے بھرا پڑا تھا، درختوں کے پتے بھی سلامت تھے کیونکہ یہاں تک کسی کو رسائی حاصل نہیں تھی۔
اب تو یہ اس کا معمول بن گیا کہ وہ بکریاں پار چھوڑ کر خود واپس آ جاتا اور شام کو جا کر واپس لے آتا، اس کی بکریوں کا وزن دگنا چوگنا ہو گیا تو لوگ چونکے اوراس سے پوچھا کہ وہ اپنی بکریوں کو کیا کھلاتا ہے، وہ سیدھا سادہ صاف دل انسان تھا، صاف صاف بات بتا دی کہ جناب ہم تو دریا پار اپنی بکریاں چرانے جاتے ہیں، بات سب نے سنی مگر یقین کسی نے نہ کیا کیونکہ یہ ایک ناقابل یقین بات تھی مگر بات ہوتے ہوتے مولوی اللہ وسایا تک جا پہنچی۔ 

مولوی اللہ وسایا نے اس بکروال کو بلوایا اور اصل حقیقت بتانے کو کہا، بکروال نے مولوی اللہ وسایا ہی کو اپنا ریفرنس بنا لیا کہ مولوی جی میں تو خود آپ کے پاس شکریہ ادا کرنے آنے والا تھا کہ آپ نے ایک جمعہ میں یہ نسخہ بتایا تھا کہ بسم اللہ کہہ کر دریا کو حکم دو تو وہ بھی انکار نہیں کرتا۔ مولوی اللہ وسایا صاحب ٹک ٹک دیدم نہک شیدم کی تصویر بنے بیٹھے تھے، بھائی ایسی باتیں تو ہم ہر جمعے کو کرتے ہیں مگر ان کا مقصد لوگوں کا ایمان بنانا ہوتا ہے۔
مگر بکریوں والا ڈٹا رہا کہ بس میں تو بسم اللہ کہہ کر پانی پر چلتا ہوا بکریوں سمیت پار چلا جاتا ہوں، آخر کار مولوی صاحب نے صبح خود یہ تجربہ کرنے کی ٹھانی، لوگ بھی صبح دریا کے کنارے جمع ہو گئے اور بکروال بھی آ گیا، مجمع زیادہ تھا، مولوی صاحب نے ایک دو دفعہ اندر ہی اندر ارادہ کیا کہ انکار کر دیں۔
مگر وہ جو مولوی صاحب کو مسجد سے کندھوں پر اٹھا کر لائے تھے،اب بھی جوش و خروش سے اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے اور مولانا اللہ وسایا کے حق میں تعریفی موشگافیاں کر رہے تھے۔ آخر کار مولوی صاحب نے ایک رسہ منگوایا اور پہلے اسے درخت کے ساتھ باندھا پھر اپنی کمر کے ساتھ باندھا اور پھر ڈرتے ڈرتے ڈھیلا ڈھالا سا بسم اللہ پڑھا اور دریا پر چلنا شروع ہو گئے، مگر پہلا پاؤں ہی شڑاپ سے پانی میں چلا گیا اور مولوی اللہ وسایا صاحب ڈبکیاں کھانے لگے۔
بدحواسی میں وہ یہ بھی بھول گئے کہ وہ ابھی کمرکمر پانی میں اٹھ کر کھڑے بھی ہو سکتے ہیں،وہ پانی کے بہاؤ میں بہنا بھی شروع ہو گئے، لوگوں نے کھینچ کھینچ کر باہر نکالا اور سوکھنے کے لیے سائیڈ لٹا دیا، مولوی صاحب کی درگت نے بکروال کو بھی پریشان کر دیا کہ مولوی صاحب کی بسم اللہ کو کیا ہو گیا ہے مگر چونکہ اس کا یہ روز کا معمول تھا لہٰذا اس کے اپنے یقین میں کوئی فرق نہ آیا، اس نے بسم اللہ کہہ کر بکریوں کو پانی کی طرف اشارہ کیا اور خود ان کے پیچھے چلتا ہوا، ان کو پار چھوڑ کر واپس بھی آ گیا۔
لوگ اسے ولی اللہ سمجھ رہے تھے اور اس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے مگر وہ سب سے بے نیاز سیدھا مولوی اللہ وسایا کے پاس پہنچا اور کہا کہ مولوی صاحب میں آپ کی بسم اللہ کی طرف سے کافی پریشان تھا مگر پانی پر چلتے ہوئے مجھے آپ کی بسم اللہ کی بیماری کا پتہ چل گیا۔
اس نے درخت سے بندھے رسے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ مولوی صاحب یہ ہے آپ کی بسم اللہ کی بیماری، آپ کی بسم اللہ کی برکت کو یہ رسہ کھا گیا ہے، آپ کو اللہ اور بسم اللہ سے زیادہ اس رسے پر بھروسہ تھا لہٰذا اللہ نے بھی آپ کو رسے کے حوالے کر دیا تھا، کمال کرتے ہیں آپ بھی مولوی صاحب، میں نے آپ کے منہ سے سنا اور یقین کر لیا اور میرے اللہ نے میرے یقین کی لاج رکھ لی مگر آپ نے اللہ سے اللہ کا کلام سنا مگر یقین نہیں کیا لہٰذا اللہ نے آپ کو رسوا کر دیا۔
یہی کچھ حال ہماری نمازوں اور دعاؤں کا ہے، ہر ایک عبادت یقین سے خالی ہے، اسلیے 
دعائیں قبول نہیں ہو رہیں

الله کی دی ہوئی ہر ہر نعمت کا شکر

یونیورسٹی سے آتے ھوئے ایک بھکاری پر نظر پڑی جو خاصی دھوپ میں بیٹھا ھوا تھا.. جس کے نہ ہاتھ تھے اور نہ ھی پاؤں.. جس کے اوپر بہت سی مکھیاں بیٹھی تھیں اور وہ ان کو اڑا بھی نہیں سکتا تھا.. کچھ دیر بعد مجھ پر یہ انکشاف ھوا کہ وہ نہ بول سکتا ھے نہ ھی سن سکتا ھے.. وہ بھیک مانگنے کے لئے تو بیٹھا ھوا تھا لیکن صدا لگانے کے بھی قابل نہیں تھا..

میں مُسلسل اس کو دیکھتا اور یہ سوچتا رھا کہ اس بھکاری کی جگہ میں بھی تو ھو سکتا تھا پھر اس کی جگہ پر میں کیوں نہیں..؟؟

میں نے تو کبھی کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی وجہ سے میں اس حال میں نہیں.. آخر میں کیوں نہیں اس جگہ پر..؟؟ مجھے کیوں الله نے ویسا نہیں بنایا..؟؟ وہ چاھتا تو مجھے دنیا کا مظلوم ترین انسان بنا دیتا ' پر اس نے نہیں بنایا..

میں ساری زندگی بھی سجدے میں رھوں تو بھی اس کا شکر ادا نہیں کر سکتا.. ھاتھ ' پاؤں ' آنکھیں ' کان ' سب کچھ تو دے رکھا ھے الله نے..

وہ چاھتا تو مجھے بھی دنیا میں محروم کر دیتا لیکن مجھے تو الله مسلسل عطا کیے جا رھ ھے.. عطا پر عطا ' مسلسل مہربانی.. میری نافرمانیوں ' کوتاھیوں کے باوجود مجھے دیتا ھی چلا جا رھا ھے الله..

اس سارے رحم و کرم کے بعد بھی میں شکر کیوں نہ کروں..؟؟

اِن آنکھوں کا جن سے میں دیکھ سکتا ھوں..
اس زبان کا جس سے میں ذکر کر سکتا ھوں..
ان ھاتھوں کا جن سے میں دعا مانگ سکتا ھوں..

الله کی دی ہوئی ہر ہر نعمت کا آخر ھم کیوں شکر ادا نہ کریں..؟؟ اور شکر کا سب سے احسن طریقہ یہ ھے کہ ھم ابھی سے ' آج سے اللہ کی اطاعت اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا عہد کر لیں..

پورے خلوصِ دل سے___

والدین کی خوشی

جانتے ہو 
 ہم اپنے ماں باپ پر سب سے بڑا ظلم کیا کرتے ہیں...؟
ہم ان کے سامنے *"بڑے"* بن جاتے ہیں ...
*"سیانے"* ہو جاتے ہیں ...
اپنے تحت بڑے *"پارسا نیک اور پرہیزگار"* بن جاتے ہیں ...
وہی ماں باپ جنہوں نی ہمیں سبق پڑھایا ہوتا ہے ۔.
انہیں *"سبق"* پڑھانے لگتے ہیں ...
ابا جی یہ نہ کرو یہ غلط ہے ۔.
اماں جی یہ آپ نے کیا کیا...؟
آپ کو نہیں پتا ایسے نہیں کرتے ...
ابا جی آپ یہاں کیوں گیے...؟
اماں جی پھر گڑبڑ کر دی آپ نے  ..
سارے کام خراب کر دیتی ہیں آپ ..
اب کیسے سمجھاؤں, آپ کو ...؟

جانتے ہو ...
ہمارا یہ *"بڑا پن یا سیانا پن"* ہمارے اندر کے *"احساس"* کو مار دیتا ہے ...
وہ احساس جس سی ہم یہ محسوس کر سکیں ...
 کہ ہمارے ماں باپ اب بالکل بچے بن گئے ہیں۔.. 
وہ عمر کے ساتھ ساتھ بے شمار ذہنی گنجلکوں سی آزاد  ہوتے جا رہے ہیں ...
 چھوٹی سے خوشی ...
تھوڑا سا پیار...
ہلکی سی مسکراہٹ ... 
انہیں نہال کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے ...

انہیں *"اختیار"* سے محروم نہ کرو  ....
*"سننے"* کا اختیار ...
*"کہنے"* کا اختیار ...
*"ڈانٹنے"* کا اختیار ...
*"پیار"* کرنے کا اختیار ...
یہی سب انکی خوشی ہے ..
چھوٹی سے دنیا ہے ...

ہمارے تلخ رویوں سے وہ اور  کچھ سمجھیں یا نہ سمجھیں ...
 یہ ضرور سمجھ جاتے ہیں کہ اب وقت انکا نہیں رہا ...
وہ اپنے ہی خول میں قید ہونے لگتے ہیں ...
اور بلآخر رنگ برنگی ذہنی اور جسمانی بیماریوں  کا شکار ہونے لگتے ہیں ...

اس لئے ...
اگر ماں باپ کو خوش رکھنا ہے  ..
تو ان کے سامنے  زیادہ *"سیانے"*  نہ بنیں ...
*"بچے"* بن کے رہیں ..
تا کہ آپ خود بھی *"بچے"* رہیں ...

سورۃ الکوثر میں عددی معجزہ

"سورۃ الکوثر میں عددی معجزے نے ہی مجھے حیران کر رکھا ہے"

سورۃ الکوثر قرآن کی سب سے چھوٹی سورت ہے اور اس سورۃ کے جملہ الفاظ 10 ہیں۔

قرآن بذات خود ایک معجزہ ہے

لیکن جب

- سورۃ الکوثر کی پہلی آیت میں 10 حروف ہیں۔

- سورۃ الکوثر کی دوسری آیت میں 10 حروف ہیں۔

- سورۃ الکوثر کی تیسری آیت میں 10 حروف ہیں۔

- اس پوری سورت میں جو سب سے زیادہ تکرار سے حرف آیا ہے وہ‏…حرف "ا" الف ہے جو 10 دفعہ آیا ہے۔

- وہ حروف جو اس سورت میں صرف ایک ایک دفعہ آئے ہیں انکی تعداد 10 ہیں۔

- اس سورت کی تمام آیات کا اختتام حرف "ر" راء پر ہوا ہے جو کہ حروفِ ہجا میں 10 واں حرف شمار ہوتا ہے۔

- قرآن مجید کی وہ سورتیں جو حرف "ر" راء پر اختتام پذیر ہو رہی ‏…ہیں، انکی تعداد 10 ہے جن میں سورۃ الکوثر سب سے آخری سورت ہے۔

سورت میں جو 10 کا عدد ہے اسکی حقیقت یہ ہے کہ وہ ذو الحجہ کے مہینے کا 10واں دن ہے جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا
" فصل لربک وانحر"
"پس نماز پڑھو اور قربانی کرو"
وہ دراصل قربانی کا دن ہے

اللہ کی شان کہ یہ ‏…سب کچھ قرآن کریم کی سب سے چھوٹی سورت ، جو ایک سطر پر مشتمل ہے، میں آگیا
آپکا کیا خیال ہے بڑی سورتوں کے متعلق!!!
‏اللہ تعالی نے اسی لئیے فرمایا
"ہم نے اپنے بندے پر جو کچھ نازل کیا ہے اگر تمہیں اس میں شک ہو تو اس جیسی ایک سورت ہی لے آؤ"
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو حوضِ کوثر سے ایسا مبارک پانی پلائے جسکے بعد ہمیں کبھی پیاس نہ لگے۔ آمین

_*ثواب کی نیت سے اپنے تمام *"سورۃ الکوثر میں عددی معجزے نے ہی مجھے حیران کر رکھا ہے"* 

سورۃ الکوثر قرآن کی سب سے چھوٹی سورت ہے اور اس سورۃ کے جملہ الفاظ 10 ہیں۔

قرآن بذات خود ایک معجزہ ہے

لیکن جب

- سورۃ الکوثر کی پہلی آیت میں 10 حروف ہیں۔

- سورۃ الکوثر کی دوسری آیت میں 10 حروف ہیں۔

- سورۃ الکوثر کی تیسری آیت میں 10 حروف ہیں۔

- اس پوری سورت میں جو سب سے زیادہ تکرار سے حرف آیا ہے وہ‏…حرف "ا" الف ہے جو 10 دفعہ آیا ہے۔

- وہ حروف جو اس سورت میں صرف ایک ایک دفعہ آئے ہیں انکی تعداد 10 ہیں۔

- اس سورت کی تمام آیات کا اختتام حرف "ر" راء پر ہوا ہے جو کہ حروفِ ہجا میں 10 واں حرف شمار ہوتا ہے۔

- قرآن مجید کی وہ سورتیں جو حرف "ر" راء پر اختتام پذیر ہو رہی ‏…ہیں، انکی تعداد 10 ہے جن میں سورۃ الکوثر سب سے آخری سورت ہے۔

سورت میں جو 10 کا عدد ہے اسکی حقیقت یہ ہے کہ وہ ذو الحجہ کے مہینے کا 10واں دن ہے جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا
" فصل لربک وانحر"
"پس نماز پڑھو اور قربانی کرو"
وہ دراصل قربانی کا دن ہے

اللہ کی شان کہ یہ ‏…سب کچھ قرآن کریم کی سب سے چھوٹی سورت ، جو ایک سطر پر مشتمل ہے، میں آگیا
آپکا کیا خیال ہے بڑی سورتوں کے متعلق!!!
‏اللہ تعالی نے اسی لئیے فرمایا
"ہم نے اپنے بندے پر جو کچھ نازل کیا ہے اگر تمہیں اس میں شک ہو تو اس جیسی ایک سورت ہی لے آؤ"
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو حوضِ کوثر سے ایسا مبارک پانی پلائے جسکے بعد ہمیں کبھی پیاس نہ لگے۔ آمین

لوہا اور قرآن کا معجزہ


#قرآن_میں_لوھے_کے_متعلق_پیشن_گوئیاں_اور_قرآن_کا_معجزہ

سائنسانوں کا کہنا ھے کہ لوہا اس زمین اور نظام شمسی کا حصہ نہیں ھے۔ کیونکہ لوھے کے پیدا ہونے کے لئے ایک خاص درجہ حرارت کی ضرورت ھوتی ھے جو ہمارے نظام شمسی کے اندر بھی موجود نہیں۔ لوہا صرف سوپر نووا supernova کی صورت میں ھی بن سکتا ھے۔ یعنی جب کوئی سورج سے کئی گنا بڑا ستارہ پھٹ جائے اور اس کے اندر سے پھیلنے والا مادہ جب شہاب ثاقب meteorite کی شکل اختیار کرکے کسی سیارے پر گر جائے جیسا کے ھماری زمین کے ساتھ ھوا۔
سائنسدان کہتے ہیں کہ ھماری زمین پر بھی لوھا اسی طرح آیا۔ اربوں سالوں پہلے اسی طرح شہاب ثاقب meteorites اس دھرتی پر گرے تھے جن کے اندر لوھا موجود تھا۔

اللہ سبحان وتعالی نے یہی بات قرآن میں بیان فرمائی ہے، 1400 سال پہلے اس بات کا وجود تک بھی نہیں تھا کہ لوھا کیسے اور کہاں سے آیا؟

عرب کے صحراؤں میں تو لوھے کا استعمال بھی صرف تلوار اور ڈھال کے لئے ھوتا تھا۔

قرآن کی 57 ویں سورة کا نام الحدید ھے جس کا مطلب لوھا ھے۔ لوھے کے نام پر پوری سورة موجود ھے اور اسی سورة کی آیت میں اللہ فرماتا ھے کہ: 

"اور ہم نے لوھے کو اتارا، اس میں سخت قوت اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں۔" 

(سورة الحدید، آیت نمبر 25) 

سبحان اللہ 

قرآن میں موجود یہ سائنسی حقائق اس بات کی دلیل ھے کہ یہ رب کا سچا کلام ھے۔ جو اس آخری پیغمبر پر نازل ھوا جو اُمی کہلاتے تھے۔

سورہ حدید آیت 4

﴿۴﴾ وھی ھے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ھوتی اور جو اس سے نکلتی ھے اور جو آسمان سے اُترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ھے سب اس کو معلوم ھے۔ اور تم جہاں کہیں ھو وہ تمہارے ساتھ ھے۔ اور جو کچھ تم کرتے ھو خدا اس کو دیکھ رھا ھے۔

یعنی اللہ جانتا ھے جو کچھ زمین میں داخل ھوتی ھے اور جو اس سے نکلتی ھے۔ 

اس سے بھی زیادہ حیران کر دینے والی بات یہ ھے کہ لوہا زمین کے بالکل درمیان میں ھے۔ اور  لوھے کی بدولت مقناطیسی لہریں زمین کے گرد پیدا ہوتی ہیں جس سے زمین پر سورج کی الٹرا ریز اثر انداز نہیں ہو سکتی اور یہ وائرلیس کمیونیکیشن میں بھی مدد فراہم کرتی ھے۔

اب حیران کرنے والی بات یہ ھے کہ قرآن میں 114 سورتیں ہیں اور سورہ الحدید کا نمبر 57 ھے یعنی سورت حدید عین قرآن کے بیچ میں ھے۔ اور لوہا اسی طرح زمین کے درمیان ھے۔ یعنی اللہ نے اس سورہ کی ترتیب بھی اسی حساب سے رکھی جو کہ ایک معجزے سے کم نہیں۔

یہ بات حقیقت ھے کہ لوھے کہ بنا زمین پر زندگی تقریبا نا ممکن تھی۔ لوھا ہیموگلبن کی صورت میں ھمارے خون میں موجود ھے۔ جو کہ خون میں آکسیجن کو پورے جسم پہنچانے کام کرتا ھے۔

عربی زبان کے ٢٨ حروف ہیں اور ھر حرف سے کوئی عدد منسوب ھے.حروف کو  مختلف ترتیب سے لکھا جاتا ھے.
سب سے زیادہ عام طریقہ درج ذیل ھے۔

 ا         ب       ج          د        ہ        و        ز       ح      ط  
1         2        3         4        5        6       7       8       9
ی       ک        ل         م         ن       س       ع     ف      ص 
10     20      30        40       50      60     70    80     90
ق       ر        ش        ت        ث        خ       ذ     ض       ظ
100  200    300      400     500    600   700  800    900
غ 
1000

ا کے لئے 1 ب کے لئے 2 کا عدد ھے ج کے لئے 3 اور د کے لئے 4

اسی طرح الحدید میں ا ل ح د ی د الفاظ ہیں۔

 اسکے ابجد الفاظ درج زیل ہیں۔
1 + 30 + 8 + 4 + 10 + 4 = 57

الحدید سورت کا نمبر بھی 57 ھے۔ 

اب آتے ہیں لفظ حدید کی طرف۔ حرف حدید میں چار الفاظ ہیں ح د ی د۔ اسکا ابجد نمبر ھے۔
8+ 4 + 10 + 4 = 26

اب آپ سوچیں گے کہ اب 26 کیا چیز ھے؟؟؟

جی جناب یہ لوھے کا ایٹومک  نمبر ھے۔ 
Atomic number of iron is 26

سورہ حدید میں رکوع کی تعداد 4 ھے جبکہ آئرن کے آئسوٹوپس کی تعداد بھی 4 ھے۔

 ھماری زمین میں سب سے زیادہ لوھا زمین کی سب سے اندرونی تہہ (inner core) میں پایا جاتا ہے.  Inner core 80% لوہے اور 20% نکِل پر مشتمل ھے. زمین کی اس تہہ یعنی inner core کی پیمائش(موٹائی) 2475 کلومیٹر ھے۔ جبکہ سورہ حدید میں حروف کی تعداد بھی 2475 بنتی ھے.

 سورہ حدید قران مجید کی 57 ویں سورت ھے جبکہ سائنسدانوں کے مطابق inner core کا درجہ حرارت بھی  5700 کیلون یعنی5427 ڈگری سنٹی گریڈ ھے.  جبکہ آئرن کے ایک آئسوٹوپ کا ماس نمبر بھی 57 ھے.

ایک ستارا کا ایندھن ہائیڈروجن گیس ہوتی ھے اور گریوٹی کی وجہ سے ستارا کے رکز میں فیوزن ری ایکشن شروع ھوتا ھے اور ہائیڈروجن ایٹم دوسرے ایٹم سے ملکر ہیلیئم بناتی ھے جب کسی ستارا کہ تمام ہائیڈروجن ختم ھو جاتی ھے تو اس کا ایندھن ہیلیئم ھوتا ھے اور ہیلیئم کے آئیٹم فیوزن ری ایکشن سے نائیٹروجن اور پھر آکسیجن بناتے پھر اور آخر میں لوھا بنتا ھے جب کسی ستارا میں لوھا پیدا ھونا شروع ھو جائے تو وہ ستارا مر جاتا ھے اور بلاسٹ کر کے لوھا کائنات میں چھوڑ دیتا ھے۔
زمین پر موجود لوھا کس مرے ہوئے ستارے سے آیا۔ جس کو قرآن نے 1400 سال سے بھی پہلے بیان کر دیا۔

اسلام اور قرآن کی حقانیت جدید سائنس دن بدن عیاں کر رھی ھے مگر پھر بھی ھم اللہ کو راضی کرنے کے بجائے دنیا کے پیچھے پڑے ہیں۔

بیشک قرآن حکیم ایک زندہ و جاوید معجزہ ھے💖

#محمدسکندرجیلانی

شفاخانہ برائے توجہ اور علاج

🤱🤱
 اشفاق احمد اکثر کہا کرتے تھے کہ آدمی عورت سے محبت کرتا ہے جبکہ عورت اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے, اس بات کی مکمل سمجھ مجھے اس رات آئی, یہ گزشتہ صدی کے آخری سال کی موسمِ بہار کی ایک رات تھی. میری شادی ہوئے تقریباً دوسال ہو گئے تھے۔ اور بڑا بیٹا قریب ایک برس کا رہا ہوگا.
     
 * 🤒🤒
اس رات کمرے میں تین لوگ تھے, میں, میرا بیٹا اور اس کی والدہ! تین میں سے دو لوگوں کو بخار تھا, مجھے کوئی ایک سو چار درجہ اور میرے بیٹے کو ایک سو ایک درجہ. اگرچہ میری حالت میرے بیٹے سے کہیں زیادہ خراب تھی۔ تاہم میں نے یہ محسوس کیا کہ جیسے  کمرے میں صرف دو ہی لوگ ہیں, میرا بیٹا اور اسکی والدہ.*

    🤒🤒
بری طرح نظر انداز کیے جانے کے احساس نے میرے خیالات کو زیروزبر تو بہت کیا لیکن ادراک کے گھوڑے دوڑانے پر عقدہ یہی کھلا کہ عورت نام ہے اس ہستی کا کہ جب اسکو ممتا دیت کر دی جاتی ہے تو اس کو پھر اپنی اولادکے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا. 
حتیٰ کہ اپنا شوہر بھی اور خاص طورپر جب اسکی اولاد کسی مشکل میں ہو.اس نتیجہ کے ساتھ ہی ایک نتیجہ اور بھی نکالا میں نے اور وہ یہ کہ *اگر میرے بیٹے کے درد کا درمان اسکی کی والدہ کی آغوش ہے تو یقینا میرا علاج میری ماں کی آغوش ہو گی.*
 
   💆‍♂💆‍♂ 
*اس خیال کا آنا تھا کہ میں بستر سے اٹھا اور ماں جی کے کمرہ کی طرف چل پڑا. رات کے دو بجے تھے پر جونہی میں نے انکے کمرے کا دروازہ کھولا وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئیں جیسے میرا ہی انتظار کر رہی ہوں. 
پھر کیا تھا, بالکل ایک سال کے بچے کی طرح گود میں لے لیا۔ 
اور توجہ اور محبت کی اتنی ہیوی ڈوز سے میری آغوش تھراپی کی کہ میں صبح تک بالکل بھلا چنگا ہو گیا.*
         
  💆‍♂💆‍♂
*پھر تو جیسے میں نے اصول ہی بنا لیا جب کبھی کسی چھوٹے بڑے مسئلے یا بیماری کا شکار ہوتا کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے سیدھا مرکزی ممتا شفا خانہ برائے توجہ اور علاج میں پہنچ جاتا.
* وہاں پہنچ کر مُجھے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ بس میری شکل دیکھ کر ہی مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ لگا لیا جاتا. 
میڈیکل ایمرجنسی ڈیکلئر کر دی جاتی. 
مجھے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ماں جی ) کے ہی بستر پر لٹا دیا جاتا اور انکا ہی کمبل اوڑھا دیا جاتا, کسی کو یخنی کا حکم ہوتا تو کسی کو دودھ لانے کا, خاندانی معالج کی ہنگامی طلبی ہوتی, الغرض توجہ اور محبت کی اسی ہیوی ڈوز سے آغوش تھراپی ہوتی اور میں بیماری کی نوعیت کے حساب سے کبھی چند گھنٹوں اور کبھی چند پہروں میں روبہ صحت ہو کر ڈسچارج کر دیا جاتا.
     💆‍♂💆‍♂
یہ سلسلہ تقریباً تین ماہ قبل تک جاری رہا۔ 
وہ وسط نومبر کی ایک خنک شام تھی, جب میں فیکٹری سے گھر کیلئے روانہ ہونے لگا تو مجھے لگا کہ مکمل طور پر صحتمند نہیں ہوں, تبھی میں نے  آغوش تھراپی کروانے کا فیصلہ کیا اور گھر جانے کی بجائے ماں جی کی خدمت میں حاضر ہو گیا, لیکن وہاں پہنچے پر اور ہی منظر دیکھنے کو ملا. ماں جی کی اپنی حالت کافی ناگفتہ بہ تھی پچھلے کئی روز سے چل رہیے پھیپھڑوں کے عارضہ کے باعث بخار اور درد کا دور چل رہا تھا۔

    💆‍♂💆‍♂
میں خود کو بھول کر انکی تیمارداری میں جت گیا, مختلف ادویات دیں, خوراک کے معروف ٹوٹکے آزمائے. 
مٹھی چاپی کی,مختصر یہ کہ کوئی دو گھنٹے کی آؤ بھگت کے بعد انکی طبیعت سنبھلی اور وہ سو گئیں. 
میں اٹھ کر گھر چلا آیا. 
ابھی گھر پہنچے آدھ گھنٹہ ہی بمشکل گذرا ہوگا کہ فون کی گھنٹی بجی, دیکھا تو چھوٹے بھائی کا نمبر تھا, سو طرح کے واہمے ایک پل میں آکر گزر گئے. جھٹ سے فون اٹھایا اور چھوٹتے ہی پوچھا, بھائی سب خیریت ہے نا, بھائی بولا سب خیریت ہے *وہ اصل میں ماں جی پوچھ رہی ہیں کہ آپکی طبیعت ناساز تھی اب کیسی ہے……*

   ........ اوہ میرے خدایا…
     
     💆‍♂💆‍♂
اس روزمیرے ذہن میں ماں کی تعریف مکمل ہو گئی تھی۔ ماں وہ ہستی ہے جو اولاد کو تکلیف میں دیکھ کر اپنا دکھ,اپنا آپ  بھی بھول جاتی ہے.

    👵
*آج ماں جی کو رحمان کی رحمت میں گئے ایک ماہ اور آٹھ روز ہو گئے ہیں۔  
آج مجھے پھر بخار ہوا ہے, آغوش تھراپی کی اشد ضرورت ہے۔ پر میرا مرکزی ممتا شفاخانہ برائے توجہ اور علاج ہمیشہ کیلئے بند ہو چکا ہے۔  
مجھے آپ دوستوں سے رہنمائی درکار ہے۔ 
اب بھلا میں کیسے ٹھیک ہونگا ⁉️*

*💰💰 .. 
شاید اس تحریر کو پڑھنے سے کسی کو سیدھی راہ مل جائے اور کسی کے غم دور ہو جائیں...

انوكھی شہزادی

حضرت سیّدنا شیخ شاہ کرمانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی کی شہزادی جب شادی کے لائق ہوئی
تو بادشاہ کے یہاں سے رشتہ آیا مگر آپ نے تین دن کی مہلت مانگی 
اور مسجد مسجد گھوم کر کسی پارسا نوجوان کو تلاش کرنے لگے۔
ایک نوجوان پر آپ کی نگاہ پڑی جس نے اچّھی طرح نماز ادا کی (اورگڑگڑا کر دعا مانگی)۔

شیخ نے اس سے پوچھا:
کیا تمہاری شادی ہو چکی ہے؟
اس نے نفی میں جواب دیا۔ 
پھر پوچھا:
کیا نکاح کرنا چاہتے ہو؟ 
لڑکی قرآنِ مجید پڑھتی ہے،
نماز روزہ کی پابند ہے
اور سیرت و صورت والی بھی ہے۔
اس نے کہا: 

بھلا میرے ساتھ کون رشتہ کرے گا!
شیخ نے فرمایا: 
میں کرتا ہوں، لو یہ کچھ درہم !ایک درہم کی روٹی،
ایک کا سالن اور ایک کی خوشبو خرید لاؤ۔
اس طرح شاہ کرمانی قُدِّسَ  سِرُّہُ النّوْرَانِی نے اپنی دختر نیک اختر کا نکاح اس سے پڑھا دیا۔

دلہن جب دولہا کے گھر آئی تو اس نے دیکھا کہ پانی کی صراحی پر ایک روٹی رکھی ہوئی ہے۔
اس نے پوچھا:
یہ روٹی کیسی ہے؟
دولہا نے کہا:
یہ کل کی باسی روٹی ہے میں نے افطار کے لئے رکھ لی تھی۔ 
یہ سن کر وہ واپس ہونے لگی۔

یہ دیکھ کر دولہا بولا: 
مجھے معلوم تھا کہ شیخ شاہ کرمانی قُدِّسَ سِرُّہُ النّوْرَانِی کی شہزادی مجھ غریب انسان کے گھر نہیں رُک سکتی۔
دلہن بولی:
میں آپ کی مفلسی کے باعث نہیں بلکہ اس لئے لوٹ کر جارہی ہوں کہ ربُّ العالمین پر آپ کا یقین بہت کمزور نظر آ رہا ہے
جبھی تو کل کیلئے روٹی بچا کر رکھتے ہیں۔ 

مجھے تو اپنے باپ پر حیرت ہے کہ انہوں نے آپ کو پاکیزہ خصلت اور صالح کیسے کہہ دیا...!
دولہا یہ سن کر بہت شرمندہ ہوا اور اس نے کہا:
اس کمزوری سے معذرت خواہ ہوں۔
دلہن نے کہا: 
اپنا عذر آپ جانیں، 
البتہ!
میں ایسے گھر میں نہیں رُک سکتی جہاں ایک وَقْت کی خوراک جمع رکھی ہو،
اب یا تو میں رہوں گی یا روٹی۔ 
دولہا نے فوراً جا کر روٹی خیرات کر دی (اور ایسی درویش خصلت انوکھی شہزادی کا شوہر بننے پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا شکر ادا کیا)


اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

*یقینِ کامِل کی بہاریں*
مُتَوکّلین کی بھی کیا خُوب اَدائیں ہیں۔
شہزادی ہونے کے باوُجُود ایسا زبردست توکل کہ کل کیلئے کھانا بچانا گوارا ہی نہیں!
یہ سب یقینِ کامِل کی بہاریں ہیں کہ جس خُدا نے آج کھِلایا ہے وہ آئندہ کل بھی کھِلانے پر یقیناً قادِر ہے۔ 

*(روض الریاحین، الحکاية الثانیة والتسعون بعد المائة، ص۱۹۲)*

چار بیویاں

ایک شخص کی چار بیویاں تھیں، چوتھی بیوی سے وہ بہت محبت کرتا تھا اور اس کو بنانے سنوارنے میں ہر وقت لگا رہتا تھا۔
تیسری بیوی سے بھی وہ محبت کرتا تھا کیونکہ وہ بہت خوبصورت تھی جو اسے دیکھتا گرویدہ ہو جاتا اسی لئے اس کو یہ خوف لگا رہتا تھا کہ یہ کسی اور کی نہ ہو جائے
اس لئے اسے چھپا چھپا کر رکھتا تھا۔

دوسری سے بھی اسے بہت محبت تھی اس لئے کہ وہ اسکی ساری پریشانیوں کا حل اسے بتاتی اور ہمیشہ اس کی مدد کرتی رہتی۔

مگر پہلی!!! پہلی سے وہ محبت نہیں کرتا تھا لیکن وہ اس سے بدستور محبت کرتی تھی۔

*------اب ہوا یہ کہ -----*

ایک دن وہ شخص اتنا بیمار ہوا کہ مرنے کے قریب ہوگیا،

اس نے سوچا میرے پاس چار بیویاں ہیں کسی ایک کو تو مرتے ہوئے ساتھ لے جاؤں۔
اس  نے چوتھی بیوی سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلو---
میں نے تم پر اتنی توجہ دی اور اپنا مال بھی تم پر سب سے زیادہ خرچ کیا----
★--جواب میں اس نے صاف صاف انکار کردیا۔

تیسری بیوی سے کہا تو اس نے جواب دیا کہ---
★--دنیا میں ابھی میرے چاہنے والے بہت ہیں میں کسی کی بھی ہو جاؤں گی.
 
دوسری بیوی نے کہا کہ---
★---میں صرف قبر تک تو ساتھ آجاؤں گی مگر اس سے آگے میں نہیں آسکتی۔

اب یہ بڑا پریشان ہوا اچانک پیچھے سے آواز آئی کہ میں تمہارے ساتھ قبر تک چلوں گی،
★---اگرچہ تم نے کبھی میری طرف توجہ نہیں کی
جب اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کی پہلی بیوی تھی، جو عدم توجہی اور غذا کی کمی کی وجہ سے بالکل کمزور ہوچکی تھی۔
جس کے سبب قبر میں اس کے کسی کام کی نہ تھی۔

اب یہ افسوس کرتا رہا کہ---
میں نے سمجھنے میں غلطی کی
اگر میں اس پر توجہ دیتا تو آج یہ قبر میں میری اچھی رفیق اور ساتھی  ہوتی۔

🌹 *وضاحت---*🌹

*چوتھی بیوی سے مراد----- ہمارے اعضاء تھے* 

جن کو بنانے سنوارنے میں تو ہم لگے رہتے ہیں
مگر مرتے ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں

*تیسری بیوی سے مراد---* 

ہمارا مال و منال دولت جائیداد وغیرہ ھے---
★---کہ ساری زندگی لوگوں سے چھپا کر رکھا 
مگر مرنے کے بعد یہ دوسروں کے  ہو جاتے ہیں.

*دوسری بیوی سے مراد---* 

ہمارے اہل وعیال رشتے دار اور دوست احباب ہیں،
دنیا میں یہی لوگ ہمارے کام آتے ہمارے مسائل حل کرواتے ہم ان سے جتنی اور جیسی چاہیں مدد لیتے رہیں  مگر یہ لوگ بھی زیادہ سے زیادہ قبر تک ہمارے ساتھ رہتے ہیں.

*پہلی بیوی سے مراد---*
★----ہمارے اعمال ہیں- 
جو قبر میں ساتھ جائیں گے۔
لیکن ہم نے ان کی طرف توجہ نہ دے  کر قبر کے حقیقی دوست رفیق اور ساتھی سے محروم ہوئے

آئیں آج ھی  اپنے اعمال کی طرف توجہ دینے کا پکا عہد کرتے ہیں...
اللہ تعالی  ہمیں اپنے عہد میں ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے

انٹرویو

بڑی دوڑ دھوپ کے بعد وہ آفس پہنچ گیا _ آج اس کا انٹرویو تھا ۔

     وہ گھر سے نکلتے ہوئے سوچ رہا تھا : اے کاش ، آج میں کامیاب ہو گیا تو فوراً اپنے پشتینی مکان  کو خیر باد کہہ دونگا اور یہیں شہر میں قیام کروں گا  _ امی اور ابو کی روزانہ کی مغزماری  سے جان چھڑا لوں گا ۔! 
      صبح جاگنے سے لےکر رات کو سونے تک ہونے والی مغز ریزی سے اکتا گیا ہوں ، بیزار ہو گیا ہوں ۔ 
     صبح غسل خانے کی تیاری کرو تو حکم ہوتا ہے :پہلے بستر کی چادر درست کرو پھر غسل خانے جاؤ ! 
     غسل خانے سے نکلو تو فرمان جاری ہوتا ہے: نل بند کردیا _ تولیہ سہی جگہ پر رکھا ہے یا یوں ہی پھینک دیا ؟ 
     ناشتہ کرکے کے گھر سے نکلنے کا سوچو تو ڈانٹ پڑی : پنکھا بند کیا یا چل رہا ہے ؟ 
    کیا کیا سنیں؟؟! یار، نوکری ملے تو گھر چھوڑ دوں گا - 

     آفس میں  بہت سے امیدوار بیٹھے "باس " کا انتظار کر رہے تھے _ دس بج گئے تھے  _ اس نے دیکھا ، پیسج کی  بتی ابھی تک جل رہی ہے _ امی یاد  آگئیں تو بتی بجھا دی ۔ آفس کے دروازے پر کوئی نہیں تھا _
بازو میں رکھے واٹر کولر سے پانی رس رہاتھا ، اس کو بند کردیا _ والد صاحب کی ڈانٹ یاد آگئی _
      بورڈ لگا تھا : انٹرویو دوسری منزل پر ہوگا ! 
      سیڑھی کی لائٹ بھی جل رہی تھی _ اسے بند کرکے آگے بڑھا تو ایک کرسی سر راہ دکھائی دی _ اسے ہٹاکر اوپر گیا_  دیکھا ، پہلے سے موجود امیدوار اندر جاتے اور فوراً واپس آجاتے تھے _ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وہ اپلیکیشن لے کر کچھ پوچھتے نہیں ہیں ، فوراً واپس بھیج دیتے ہیں ۔

      میرا نمبر آنے پر میں نے اپنی فائل مینجر کے سامنے رکھ دی _ تمام کاغذات دیکھ کر مینجر نے پوچھا : کب سے جوائن کر رہے ہو ؟ 
      ان کے سوال پر مجھے یوں لگا ، جیسے آج یکم اپریل ہو اور یہ مجھے 'فول' بنا رہے ہیں - 
مینجر نے محسوس کر لیا اور کہا : اپریل فول نہیں ، حقیقت ہے ۔

     آج کے انٹرویو میں کسی سے کچھ پوچھا ہی نہیں گیا ہے_  صرف CCTV میں امیدواروں کا برتاؤ دیکھا گیا ہے _  سبھی امیدوار آئے ، مگر کسی نے  نل یا لائٹ بند نہیں کی ، سوائے تمھارے _ 
     مبارک باد کے مستحق ہیں تمہارے والدین ، جنہوں نے تمہیں تمیز اور تہذیب سکھائی ہے  _ 
     جس شخص کے پاس Self Discipline نہیں ، وہ چاہے جتنا ہوشیار اور چالاک ہو ، مینجمینٹ اور زندگی کی دوڑ میں پوری طرح کام یاب نہیں ہو سکتا  _
     یہ سب ہو جانے کے بعد میں نے پوری طرح طے کر لیا کہ گھر پہنچتے ہی امی اور ابو سے معافی مانگ کر انہیں بتاؤں گا کہ آج اپنی زندگی کی پہلی آزمائش میں ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر روکنے اور ٹوکنے کی باتوں نے مجھے جو سبق پڑھایا ہے ان کے مقابل میری ڈگری کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔
     زندگی کے سفر میں تعلیم ہی نہیں ، تہذیب کا اپنا مقام ہے _
( منقول )

ہماری سوچ

ہر چیز بدلی نہیں جا سکتی ,,لیکن ہم اپنی سوچ تو بدل سکتے ہیں نا ؟

جانتے ہیں -----جب کوئی جگہ خالی ہوتی ہے وہاں دوسری ہوائیں فوراً بسیرا کر لیتی ہیں ..
اسی لیے آپکو آندھیاں محسوس ہوتی ہیں 

آپ کا جو دل ہے اگر یہ اللّٰہ کو یاد نہیں کرتا تو اِس میں خلاء (Space) آ جائے گی  

تو پھر اس جگہ کو بھرنے شیطانی خیال اور نیگٹیو (Negative)  سوچیں آئیں گی ---'کیونکہ جگہ تو بھرنی ہی ہے 

آپکو یہ تجربہ ہوا ہو گا کے جب آپ اللّٰہ کا ذکر نہیں کرتے ,نماز نہیں پڑھتے ,قرآن نہیں پڑھتے تو آپکا دماغ آہستہ آہستہ دنیا کی طرف شفٹ (Shift) ہوتا جاتا ہے --'ص
پھر ذہن میں شیطانی خیال ,لوگوں کی باتیں آتی ہیں اور پھر (At the End) آخر میں آپ کہتے ہیں زندگی بہت مشکل ہے لوگ بڑے منافق ہیں  .....

غلطی ہماری ہوتی ہے ,,,اللَٰہ نے کیا ایسا کہا کہ یہ دنیا آسان جگہ  ہے؟؟ یہاں سب لوگ اچھے ہی ملیں گے؟؟

یاد رکھیں ! جو اللہ پہ یقین رکھے گا اللہ اس سے غم اور فکریں دور کر دے گا
اور اللہ پہ یقین اللہ کو یاد رکھنے سے آتا ہے نا..  

تو اب سے جب پریشانی بڑھتی جائے ,صبر کم ہوتا جائے ..
بس سمجھ جائیں ذکر کی ضرورت ہے

پکار

  جب انسان جذبوں کی گہرائی کا احساس پا لیتا ہے تب خاموشی بولنے لگتی ہے اور الفاظ بےمعنی ٹھہرتے ہیں. 
اور جب کائنات کی بولی سمجھنے لگے تب وہ سراپا سماعت بن جاتا ہے  ششدر و حیران.  ایک معصوم بچے کی طرح سب کچھ نیا سیکھنے کے عمل سے گزرنے لگتا ہے.  سینکڑوں بار کا دیکھا آسمان ، اپنے مفہوم بدل لیتا ہے.  اس سے پرے کے جہان آشکار ہونے لگتے ہیں.

  زمین صرف قدم اٹھانے کے لیے بنیاد نہیں رہتی.  خالق کائنات کی نشانیوں سے بھرا خزانہ بن جاتی ہے.  اس کے ذروں میں نئے جہان نظر آنے لگتے ہیں.  اس کی تہوں میں نئے ممکنات کے در ملتے ہیں.  سانس لینے کا عمل شعور سے اوجھل نہیں رہتا بلکہ' شعوری احساس تشکر' میں بدل جاتا ہے.  ہر سانس '' اللہ ھو ''کی گردان بن جاتا ہے.  اللہ ھو یعنی اللہ تو ہی ہے، بس تو ہی ہے  ہر سو ہر رنگ ہر سمت میں جلوہ بس تیرا ہی ہے.  سرسراتی ہوا ہو یا بہتے پانی کا سرگم سمندری موجوں کی چنگھاڑ ہو یا طائر کا لحن ہر آواز میں تیری حمد سنائی دیتی ہے.  

کبھی تیتر کی میٹھی بولی 'سبحان تیری قدرت ' سنیے اور سر دھنیے. بچے کی پہلی چیخ مجھے ہمیشہ اللہ ھو سنائی دیتی ہے. شیر خوار کی اوں اوں میں '' تو تو تو '' سنائی دیتا ہے.   کبھی موقع ملے تو سننے کی کوشش کیجیے.  چکی کی پھک پھک دراصل ''حق حق'' ہے.  چرخے کی چرخ چوں چرخ چوں ، اللہ ھو اللہ ھو ہے. گھوڑے کی ٹک ٹکا ٹک، ھو اللہ ھو ہے.  کوے کی  کائیں کائیں ،سائیں سائیں ہے .جرس کی ٹن ٹن، کن کن کن ہے.  

ہر آواز  ہر خاموشی رب حقیقی کی طرف بلاتی پکار ہے سنیے تو زرا سنیے تو !

استعداد انسانی

گینیس ورلڈ ریکارڈ یا گینیس بک آف ورلڈ ریکارڈ  سے تو تقریباً سبھی واقف ہیں. کسی بھی میدان میں بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ استعداد رکھنے والے انسان کا نام مع کام اس میں درج کیا جاتا ہے. مثال کے طور پر دنیا کا تیز ترین انسان یوسین بولٹ ہے جس نے سو میٹر فاصلہ 9.58 سیکنڈز میں طے کر کے 2009ء میں یہ ریکارڈ بنایا.

اسی طرح دنیا کا سب سے لمبی چھلانگ لگانے والا انسان مائیک پاول ہے، جس نے 1991ء میں  8.95 میٹر لمبی چھلانگ لگا کر یہ ریکارڈ اپنے نام کیا۔ اسی طرح وزن اٹھانے سے لے کر نیزہ پھینکنے، ایک منٹ میں زیادہ سے زیادہ اخروٹ توڑنے سے لے کر زیرِ آب سانس روکنے تک اور زیادہ کھانے سے لے کر دیر تک گانے تک ۔۔۔ ہزاروں میدانوں میں بنی آدم کی زیادہ سے زیادہ استطاعت ماپی جاتی ہے اور سب سے زیادہ استطاعت کے حامل شخص کو سند سے نوازا جاتا ہے اور اس کا نام اپنے میدان کے سرخیل کے طور پر کتاب اور ویب سائٹ میں درج کر دیا جاتا ہے۔

اب اگر اسی استعداد کو دوسرے زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو یہ استطاعت بنی نوع انسان کی حد یا limitations کا تعین ہے. گویا روئے زمین پر کوئی بھی انسان سو میٹر فاصلہ 9.58 سیکنڈز سے کم وقت میں طے نہیں کر سکتا۔ یا یہ کہ کائنات کا کوئی فرد بھی 104.8 میٹر سے زیادہ فاصلے تک نیزہ نہیں پھینک سکتا۔ یا کہ کوئی بنی آدم 100 میٹر تیراکی 46.9 سیکنڈز سے کم وقت میں نہیں کر سکتا. و علیٰ ھٰذالقیاس. 
  
اب سوچیں کہ اگر ہر ہر میدان میں حضرت انسان کی کارکردگی کی کوئی نہ کوئی حد ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ذہنی استعداد کی کوئی حد نہ ہو؟؟؟ یادداشت کے معاملہ میں دیکھیں تو کرۂ ارض کا ایک  بھی انسان ایسا نہیں ہو گا کہ جسے ایک سال قبل کے کسی ایک دن کی تمام کارگذاری مکمل جزیات کے ساتھ یاد ہو۔ بلکہ چھ ماہ قبل کی بھی نہیں یا شاید تین ماہ قبل کی بھی نہیں. بالکل ایسے ہی چیزوں کو سمجھنے میں بھی انسانی ذہن کی حد ہو گی ۔

تو پھر اگر خالقِ کائنات کی تخلیق یا ابتداء انسانی ذہن اور سمجھ کے احاطہ میں نہیں آ رہی اور صدیوں بلکہ ہزاروں لاکھوں سال سے نہیں آ رہی تو پھر کیوں نہ اسے باقاعدہ انسانی ذہن کی حد یا limitation تسلیم کر لیا جائے۔ بجائے اس  کے کہ سرے سے وجودِ خلاق عظیم کا ہی انکار کر دیا جائے۔ میرے خیال میں ہمیں اب یہ مان لینا چاہیئے کہ انسانی ذہن کی استطاعت بس اتنی ہے کہ وہ مخلوق اور تخلیقات کی ابتداء اور معرضِ وجود میں آنے کے عمل کو سمجھ سکتا ہے خالق کے نہیں۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک دس عددی کیلکولیٹر پر اگر بارہ عدد کا سوال حل کرنے کوشش کی جائے تو جواب ہر بار E ہی آتا ہے۔ چاہے کوئی یہ عمل ہزاروں بار کرے یا ہزاروں سال کرے. اور پھر اسی طرح تو نوعِ انسانی کی ایمان بالغیب کی پرکھ مکمل ہو گی ورنہ تو سب عیاں ہو جاتا

ڈپریشن- پچھتاوے- احساس کمتری

مجھے تقریبا پچھلے تین سال سے 10 ہزار سے زیادہ لوگوں نے ان باکس کیئے اپنے مسائل شیئر کیئے ۔ کچھ بہنوں کی دعائوں میں اب بھی میں شامل ہوں ۔۔ تو میں 20 نکات شیئر کر رہا ہوں آپ سے تمام مسائل کا حل ان میں موجود ہے ۔ جو اپنے 25 سال کے زندگی میں سیکھا اور دیکھا اس کی روشنی میں لکھے ہیں ۔

1: اگر آپ ڈیپریس ہیں اور کوئ آپ کو چھوڑ گیا ہے تو کبھی تنہا Room میں لائیٹ آف کرکے نا بیٹھیں ۔
یہ جو اندھیرا ہوتا ہے انسان کو یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ اس کی زندگی میں کچھ باقی نہیں ہے ۔ وہ اکیلا ہے ۔ اور سب مطلبی ہیں ۔ اس کے بعد نماز پڑھیں اور اللہ سے مدد مانگیں ۔

2: اگر آپ اداس ہیں تو چھوٹے بچوں کے پاس جاکر بیٹھ جائیں ۔ ان کی شرارتیں دیکھیں تو یقیناً آپ کو اپنا بچپن یاد آجائے گا اور آپ کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل جائے گی ۔

3: جن لوگوں کہ پاس YouTube تک رسائ ہے اور ان کو لگتا ہے کہ ان کی زندگی بے معنی ہے اور سب کچھ ختم ہوچکا ہے تو You Tube پہ جاکر Real Heros in The Life لکھ کر سرچ کر لیں ۔ ان کو inspiration ملے گی کہ زندگی میں کسی کے جانے سے کچھ بھی ختم نہیں ہوتا ۔ آدمی بڑا اپنے لیئے ہوتا ہے لیکن انسان بڑا انسانیت کی خدمت سے ہوتا ہے ۔

4: اگر آپ مسلمان ہیں یا کسی بھی مذہب سے ہیں تو آپ نماز یا کوئ بھی عبادت کرسکتے ہیں ۔ اور اپنے رب کے سامنے رو سکتے ہیں ۔ کیونکہ ہر چیز اس رب کی طرف سے ہوتی ہے ۔ بس یہ شیطان ہے جو ہمیں بدگمان کر دیتا ہے ۔

5: اگر کوئ آپ سے شادی کا وعدہ کرکے یا آپ کو طلاق دے گیا ہے یا آپ کی علیحدگی ہوگئ ہے ۔ تو آپ کی زندگی ختم نہیں ہوتی بلکہ اصل زندگی کی شروعات تب ہی ہوتی ہے ۔ پہلے آپ زندگی کے میدان میں بیساکھیوں کے سہارے چل رہے تھے جبکہ اب آپ کو آذادی ملی ہے تو کیوں نا آپ ان کا سہارا بن جائیں ۔ جن کو سہارے کی ضرورت ہے ۔
قسمت کو کوسنا ، کسی پہ بے وفائ کا الزام لگانا اس کا کیا فائدہ یا آپ روتے رہیں یا آپ طاقتور بن جائیں ۔


6: اگر آپ فنانشل پروبلم کا شکار ہیں یا آپ کے پاس کرایہ کا گھر ہے ۔ تو ایک دفعہ کسی بھی شہر کے فلائ اوور کے نیچے پڑے ہوئے ان بچوں ،عورتوں اور مرد حضرات کو دیکھ لیں جن کے پاس ایک وقت کی روٹی نہیں ہے اور نا ہی چھت ہے ۔
اسی طرح آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی شکل و صورت اچھی نہیں ہے ۔ تو کسی بھی ہسپتال کے Fire and Burn Hall کا وزٹ کرلیں ۔ آپ کو شاید الله کی تقسیم پہ صبر آجائے گا ۔



7: اسی طرح اگر کوئ مرد آپ کو چھوڑ گیا ہو تو آپ ضرور روئیں بہت روئیں لیکن اس کے بعد آپ منگنی کریں یا نکاح کریں ۔ یقین کی جیئے آپ کا آنے والا جیون ساتھی آپ کے درد کا مداوا لازمی کرے گا ۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو صبر بھی آجائے گا اور آپ کی چہرے پہ ہنسی کا باعث آپ کے بچے ہونگے ۔

8: بہت سے cases ایسے ہوتے ہیں جن میں منگنیاں ٹوٹ جاتی ہیں ، طلاق ہوجاتیں ہیں ۔ اس بعد انسان جیتے جی مرجاتا ہے ۔ تو اس کو اپنی زندگی میں ایک اور چانس دینا چاہیئے کیونکہ اندھیری رات کے بعد اجالا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر غم کے بعد خوشی لازمی ملتی ہے ۔
9: ہر مسلمان کو لازمی سورة النساء بمعہ ترجمہ پڑھنی چاہیئے تاکہ دونوں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق کا پتا ہو ۔ کیونکہ یاد رکھنا اگر جیون ساتھی ایک دوسرے سے مخلص نہیں ہونگے تو شادی سے پہلے ہی انکار کردیں ۔ کیونکہ۔شادی کے بعد بہت سی زندگیاں خراب ہوتی ہیں ۔
10: اگر آپ نے کسی کا دل توڑ دیا اور شیطان کے بہکاوے میں آکے اس کی زندگی تباہ کردی تو یقین کریں کہ زرا کا ثواب نہیں ملتا کسی کے دل کو توڑنے کا ۔ بس اس سے لازمی معافی مانگیں اس کے سوالات کے جواب دیں آپ نے ایسا کیوں کیا تاکہ وہ اپنی زندگی سکون سے جی سکے ۔
11:- اپنی زندگی میں اپنے جیون ساتھی کو اعتبار دیں اور کسی دوسرے کی باتوں میں آکر اپنے جیون ساتھی سے تعلق مت توڑیں کیونکہ یاد رکھنا آپ کے علاوہ اس کا کوئ نہیں ہے ۔
12:- باقی اس دنیا میں بہت کم لوگ ہوگئے جن کو اپنی خوشیاں سے زیادی کسی اور کی خوشی عزیز ہو ۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے ہار جانے سے کسی کی جیت اس کو نئ زندگی دے سکتی ہے تو اس کو جیتنے دیں ۔ کیونکہ بعض دفعہ کسی کی خوشی کے لیئے ہار جانا ہی اصل جیت ہوتی ہے ۔
13: اگر آپ اللہ پاک کو اپنا رب مانتے ہیں تو اس پہ یقین بھی رکھیں ۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی زندگی کا کوئ مقصد نہیں ہے ۔ تو ایک دفعہ قرآن پاک کا ترجمعہ پڑھ لیں ۔ شاید آپ کو اپنی زندگی کا راستہ مل جائے اور انسانوں کی بجائے اس اللہ پاک پہ کامل یقین ہوجائے ۔
14: کسی کے چلے جانے سے انسان کی زندگی نہیں رکتی اس سے ایک سبق سیکھنا چاہیئے کہ انسان کی محبت اور عادت صرف خسارہ ہے اس لیئے محبت کا منبع اللہ کو نبی پاک کو اور والدین کو ماننا چاہیئے یہ تمام وہ ذات ہیں جو بغیر کسی غرض کے انسان کا ساتھ دیتیں ہیں ۔
15: اگر آپ نے کسی کے ساتھ برا نہیں کیا ہمیشہ وفا کی اچھا سوچا ان کا ہر موقع پہ ساتھ دیا اور وہ آپ کو تنہا چھوڑ گئے یا انہوں نے دھوکہ دیا ۔ تو آپ کو خوش ہونا چاہیئے کہ آپ دھوکہ کھانے والوں میں سے ہو دینے والوں میں سے نہیں ۔ قیامت کے روز وعدہ کے بارے میں پوچھا جائے گا اس دن آپ کو آپ کابدلہ مل جائے گا۔
16: اگر آپ ٹوٹ گئے ہو اور آپ کو لگتا ہو کہ اللہ نے آپ پہ آپ کی سکت سے زیادہ بوجھ ڈالا ہے تو آپ لوگوں کی سننے لگ جائیں آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا کہ ان کا درد آپ سے بہت زیادہ ہے ۔
17: جو بھی انسان آپ کی زندگی میں اہم ہو اگر وہ روٹھ جائے تو منا لو کیونکہ جسیے جیسے وقت گزرتا ہے غلط فہمیاں بڑھتی جاتی ہیں اور پھر ایک گیپ پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد آپ چاہے صلح کیوں نا کر لیں لیکن وہ پیار ومحبت پہلے جیسے نہیں رہتی ۔ کیوں کہ صرف اللہ پاک کی ذات ہے جو کہ انسان کو معاف کرکے اپنی رحمت پہلے سے زیادہ کردیتی ہے جبکہ انسان اتنا ظرف نہیں رکھتے ۔
18: میں نے زندگی میں ایک اصول یہی بنایا ہے جو آپ کی قدر کرتا ہے حال پوچھتا ہے آپ کے لیئے دعا کرتا ہے جو آپ کے ہسنے سے خوش اور رونے سے اداس ہوجاتا ہے وہی آپ کا سرمایہ ہے باقی اس کے علاوہ سب محض دکھاوا ہے ۔ کبھی اس شخص کا ساتھ نہیں چھوڑنا ۔ اگر وہ کسی وجہ سے آپ کا ساتھ چھوڑ جائے تو کبھی اس کو بلیم نہیں دیتا مسکرا کر الوداع کہتا ہوں ۔ نا اس پہ غصہ ہوتا نا ہی اس سے کوئ شکایت و شکوہ کرتا ۔ کیونکہ انسان اس دنیا میں اکیلا آتا ہے اکیلا جاتا ہے ۔ تو ہمیں کسی سے امید ضرور رکھنی چاہیئے اتنی زیادہ نہیں کہ اس کے بن میں جی نا پائیں ۔
بشکریہ
ھیلتھ ٹپس اینڈ سیکرٹس

ایک دلچسپ تجربہ


ایک جگہ تھوڑا سا پانی گرائیں اس پانی کے ایک طرف ٹشوپیپر کا ایک کونا رکھ دیں، اس کونے کے علاوہ باقی سارا ٹشوپیپر پانی سے باہر ہوگا، تھوڑی دیر بعد دیکھیے گا کہ ٹشوپیپر کا ایک بڑا حصہ گیلا ہوچکا ہے، خاموشی کے ساتھ پانی ٹشوپیپر میں سرایت کرتا جائے گا اور یہ عمل بہت دلچسپ معلوم ہوتا ہے، سرایت کرنے کا عمل نہایت خاموشی اور سرعت کے ساتھ نظر آئے گا۔
اس عمل کو سائنسی اصطلاح میں Capillary Action کہا جاتا ہے، یہی حال نیک صحبت یا بری صحبت کا ہے، آپ تھوڑا وقت گزاریں یا زیادہ وقت، صحبت کے اثرات اسی طرز پر آپ کے قلب پر مرتب ہونگے اور شروع میں آپ کو معلوم بھی نہ ہوپائے گا 
جتنی زیادہ صحبت، اُتنے زیادہ اثرات، صحبت کے اثرات ازخود سرایت کرتے جائیں گے اس لیے صحبتِ نیک رکھیے اور بری صحبت سے احتراز کیجیے تاکہ دنیا اور آخرت میں سرخرو رہیں۔

بات صرف سوچ کی ہے....

بات صرف سوچ کی ہے....
عورت اپنی ہو یا پرائی... اسے دوسروں سے ڈسکس نہیں کرتے.... مذاق نہیں بناتے.. برے خطاب نہیں دیتے.
 اخلاقیات آپکی نسلوں کو نواز دیں گی. اور بد اخلاقی نسلوں کو بگاڑ دیتی ہے . (واقعی سوچ، نیت اور عمل کا اثر اگلی نسل تک ضرور جاتا ہے، مشاہدہ کر کے دیکھ لیجیے) 
کچھ عرصہ ہوا، میرے بہنوئی گاؤں کے چھوٹے سے ہوٹل میں کسی آدمی کے ساتھ کاروباری معاملہ کرنے بیٹھے ہوئے تھے. ان کی ساتھ والی میز پر ایک صاحب اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے.. دوستوں میں شیخی بگھارنے کے لیے ان صاحب نے کسی خاتون کو فون ملایا اور سپیکر آن کر کے بات چیت شروع کر دی. وہ صاحب شادی شدہ اور تین بیٹیوں کے والد محترم ہیں. ہنس ہنس کر گفتگو کرتے ہوئے اور داد طلب نظروں سے ارد گرد کی عوام کو متاثر کرتے ہوئے انہوں نے اس خاتون کی عزت سر بازار نیلام کر دی. خاتون بھی گاؤں ہی کی ہیں اور طلاق یافتہ ہیں...
خاتون کا عمل بے حد غلط، لیکن اس فون کال کے پیچھے شاید ایک اعتبار ہو گا، ایک اپنے پن کا احساس ہو گا اور بے خوفی ہو گی... جو منہ کے بل جا گری ہو گی... 
احمق عورتیں کیوں بھول جاتی ہیں کہ احترام بس محرم رشتوں سے ملتا ہے...؟ ؟اسکے علاوہ تو کوئی لاکھوں میں ایک مرد ہوتا ہے جو اجنبی عورت عزات و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہو گا.

شہزادے کی ذہانت

ایک شہزادہ کم صورت تھا اور اس کا قد بھی چھوٹا تھا۔ اس کے دوسرے بھائی نہایت خوبصورت اور اچھے ڈیل ڈول کے تھے۔ ایک بار بادشاہ نے بدصورت شاہزادے کی طرف ذلّت اور نفرت کی نظر سے دیکھا۔ شہزادہ نے اپنی ذہانت سے باپ کی نگاہ کو تاڑ لیا اور باپ سے کہا ''اے ابّا جان! سمجھ دار ٹھگنا لمبے بیوقوف سے اچھا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ جو چیز دیکھنے میں بڑی ہے وہ قیمت میں بھی زیادہ ہو۔

 دیکھیے ہاتھی کتنا بڑا ہوتا ہے، مگر حرام سمجھا جاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں بکری کتنی چھوٹی ہے مگر اس کا گوشت حلال ہوتا ہے۔ ساری دنیا کے پہاڑوں کے مقابلہ میں طور بہت چھوٹا پہاڑ ہے لیکن خدا کے نزدیک اس کی عزت اور مرتبہ بہت زیادہ ہے (کیونکہ حضرت موسیٰ ؑ نے اس پہاڑ پر خدا کا نور دیکھا تھا) کیا آپ نے سنا ہے کہ ایک دبلے پتلے عقلمند نے ایک بار ایک موٹے بیوقوف سے کہا تھا کہ اگر عربی گھوڑا کمزور ہو جائے تب بھی وہ گدھوں سے بھرے ہوئے پورے اصطبل سے اچھا اور طاقتور ہوتا ہے! بادشاہ شہزادے کی بات سن کر مسکرایا، تمام امیر اور وزیر خوش ہوئے اور اس کی بات سب کو پسند آئی۔ لیکن شہزادے کے دوسرے بھائی اس سے جل گئے اور رنجیدہ ہوئے۔جب تک انسان اپنی زبان سے بات نہیں کرتا ہے اس وقت تک اس کی اچھائیاں اور بُرائیاں ڈھکی چھپی رہتی ہیں۔

 ہر جنگل کو دیکھ کر یہ خیال نہ کرو کہ وہ خالی ہوگا، تمہیں کیا خبر کہ اس میں کہیں شیر سو رہا ہو۔میں نے سنا ہے کہ اسی زمانے میں بادشاہ کو ایک زبردست دشمن کا سامنا کرنا پڑا۔ جب دونوں طرف کی فوجیں آمنے سامنے آئیں اور لڑائی شروع کرنے کا ارادہ کیا تو سب سے پہلے جو شخص لڑنے کے لیے میدان میں نکلا وہی بدصورت شہزادہ تھا۔ اور اس نے پکار کر کہا: میں وہ آدمی نہیں ہوں کہ تم لڑائی کے دن میری پیٹھ دیکھ سکو۔ میں ایسا بہادر ہوں کہ تم میرا سر خاک اور خون میں لتھڑا ہوا دیکھو گے، یعنی میں دشمن سے لڑتے لڑتے جان دے دوں گا مگر ہمت نہ ہاروں گا!

جو لوگ خواہ مخواہ لڑائی پر آمادہ ہوتے ہیں وہ خود اپنے خون سے کھیلتے ہیں یعنی مفت جان گنواتے ہیں اور جو لڑائی کے میدان سے بھاگ جاتے ہیں وہ پوری فوج کے خون سے کھیلتے ہیں! یہ کہہ کر شہزادے نے دشمن کی فوج پر بہت سخت حملہ کیا اور کئی بڑے بڑے بہادروں کو قتل کر دیا۔ جب باپ کے سامنے آیا تو آداب بجا لایا اور کہا: اے ابّا جان! آپ نے میرے دبلے پتلے کمزور جسم کو ذلّت کی نگاہ سے دیکھا اور ہر گز میرے ہنر کی قیمت کو نہ سمجھا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پتلی کمر والا گھوڑا ہی لڑائی کے میدان میں کام آتا ہے آرام اور آسائش میں پلا ہوا موٹا تازہ بیل کام نہیں آسکتا! کہتے ہیں دشمن کی فوج بہت زیادہ تھی اور شہزادے کی طرف سپاہیوں کی تعداد کم تھی کچھ نے بھاگنے کا ارادہ کیا، شہزادے نے ان کو للکارا اور کہا اے بہادرو! کوشش کرو اور دشمن کا مقابلہ کرو، یا پھر عورتوں کا لباس پہن لو۔ اس کی بات سن کر سپاہیوں کی ہمت بڑھ گئی اور سب دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑے اور اس کو مار بھگایا اور دشمن پر اسی دن فتح حاصل کی۔

 بادشاہ نے شہزادے کو پیار کیا اور اپنی گود میں بٹھایا۔ اور روز بروز اس سے محبت بڑھنے لگی اور اس کو اپنا ولی عہد بنایا۔ دوسرے بھائیوں نے یہ حال دیکھا تو حسد کی آگ میں جلنے لگے اور ایک دن بدشکل شہزادے کے کھانے میں زہر ملا دیا۔ اس کی بہن نے کھڑکی سے دیکھ لیا اور شہزادے کو خبردار کرنے کے لیے کھڑکی کے دروازے زور سے بند کیے۔

 شہزادہ اس کی آواز سے چونک پڑا اور اپنی ذہانت سے سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے، کھانا چھوڑ دیا اور کہنے لگا، یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ بے ہنر لوگ زندہ رہیں اور ہنر مند مر جائیں۔ 

اگر ہما دنیا سے ختم ہو جائے، تب بھی کوئی شخص الّو کے سایہ میں آنا پسند نہ کرے گا! باپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو اس نے شہزادے کے سب بھائیوں کو بلایا ان کو مناسب سزا دی۔ اس کے بعد ہر ایک کو اپنے ملک کا ایک ایک حصّہ دے دیا۔ تاکہ آپس میں جھگڑا فساد نہ کریں۔ اس طرح یہ فتنہ اور فساد ختم ہوا۔

 سچّی بات یہ ہے کہ دو فقیر ایک کمبل اوڑھ کر آرام سے لیٹ سکتے ہیں لیکن دوبادشاہ ایک ملک میں نہیں رہ سکتے:

 اللہ کا ایک بندہ آدھی روٹی کھا لیتا ہے اور آدھی دوسرے بھوکے شخص کو دے دیتا ہے، مگر ایک بادشاہ کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے بڑے حصّے پر قبضہ کر لے تب بھی اس کو باقی دنیا پر قبضہ کرنے کی فکر سوار رہتی ہے۔

دوسری ماں

دوسری ماں کہاں سے ملے گی..
ابن قیم رحمه الله نے ایک عجیب بات لکهی ہے.... 
فرماتے ہیں

 میں گلی میں جارہا تها میں نے دیکها ایک دروازہ کهلا ماں اپنے بچے کو مار رہی ہے تهپڑ لگا رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ تو نے مجهے بڑا ذلیل کیا.بڑا پریشان کیا.نافرمان ہے.کوئی بات نہیں مانتا.نکل جا میرے گهر سے.وہ بچہ رو رہا تها.دهکے کها رہا تها.جب گهر سے باہر نکلا.ماں نے کنڈی لگا دی.
فرماتے ہیں میں کهڑا ہوگیا کہ ذرا منظر تو دیکهوں.بچہ روتے روتے ایک طرف کو چل پڑا ذرا آگے گیا رک کر پهر واپس آگیا.

میں نےپوچها بچے تم واپس کیوں آگئے. کہنے لگا.سوچا کہیں اور چلا جاوں.پهر خیال آیا کہ مجهے دنیا کی ہر چیز مل سکتی ہے.مجهے ماں کی محبت نہیں مل سکتی.میں اسی لیے واپس آگیا ہوں.محبت ملے گی اسی در سے ملے گی.

کہتے ہیں بچہ بات کرکے وہیں بیٹھ گیا.میں بهی وہیں بیٹها. بچے کو نیند آئی.اس نے دہلیز پر سر رکها سو گیا.کافی دیر گزری ماں نے کسی وجہ سے دروزہ کهولا.ضرورت کے لیے باہر جانا چاہتی تهی.بیٹے کو دیکھا دہلیز پر سر رکهے سو رہا ہے.اٹهایا.......کیوں دہلیز پر سر رکهے سو رہے ہو؟؟
امی مجهے دنیا میں دوسری ماں نہیں مل سکتی. میں اس دہلیز کو چهوڑ کر کیسے جاوں..

فرمایا بچے کی بات سے ماں کی آنکھوں میں آنسو آگئے. بچے کو سینے سے لگا لیا......میرے بیٹے جب تیرا یقین ہے کہ اس گهر کے سوا تیرا گهر کوئی نہیں 
میرے در کهلے ہیں آجا میں نے تیری غلطیوں کو معاف کردیا.
فرماتے ہیں........

جب گناہگار بندہ اپنے رب کے دروازے پر اس طرح آتا ہے

 رب کریم میری خطاوں کو معاف کردے.

میرے گناہوں کو معاف کردے.

اے بے کسوں کے دستگیر.

اے ٹوٹے دلوں کوتسلی دینے والے.

اے پریشانیوں میں سکون بخشنے والی ذات.

اے بے سہارا لوگوں کا سہارا بننے والی ذات.

اے گناہوں کو اپنی رحمت کے پردوں میں چهپا لینے والی ذات.

تو مجه پر رحم فرما دے.

مجهے در در دهکے کهانے سے بچا لے.

اللہ اپنی ناراضگی سے بچا لے.

پروردگار آئندہ نیکوکاری کی زندگی عطافرما.

جب بندہ اس طرح اپنے آپ کو پیش کر دیتا ہے. اللہ تعالی اس بندے کی توبہ کو قبول کر لیتے ہیں.
اللہ تعالي ہمیں سچی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے
 آمین

Saturday, January 23, 2021

محبوب کی نظر کرم

کوٹ مٹھن شریف میں ایک مجذوب تھا 
جو ہر آتے جاتے سے ایک ہی سوال پوچھتا رہتا کہ 
" عید کڈاں؟ " ( عید کب ہوگی؟ ) 
کچھ  لوگ اس مجذوب کی بات اَن سُنی کر دیتے 
اور کچھ سُن کر مذاق اُڑاتے گُزر جاتے 
 ایک دن حضرت خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ اس جگہ سے گزرے 
تو اُس مجذوب نے اپنا وہی سوال دہرایا 
 " عید کڈاں؟ " ( عید کب ھوگی؟ )
آپ صاحبِ حال بزرگ تھے اُس کا سوال سُن کر مسکرائے اور کہا 
" یار ملے جڈاں" ( جب محبوب ملے وھی دن عید کا دن ھو گا )
 یہ الفاظ سُنتے ھی مجذوب کی  آنکھُوں سے 
موتیوں کی طرح آنسوؤں جاری ھو گے 
وہ مزید ترستی آنکھوں سے گویا ھوا سرکار 
" یار ملے کڈاں؟ " ( محبوب کب  ملے گا؟ ) 
خواجہ غلام فرید رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا
" مَیں مرے جڈاں " ( جب " مَیں " مرے  گئی تب )
بس یہ فرمانا تھا  کہ مجذوب نے کپکپاتے اور تھرتھراتے ھوۓ عرض کیا حضور 
" مَیں مرےِ کڈاں؟ " ( میں کب مرے گی؟ ) 
سرکار رحمتہ اللہ علیہ مسکراۓ اُسے پیار سے تھپکی دیتے یہ کہتے چل دیے 
" یار ڈیکھے جڈاں " ( جب محبوب نظرِ کرم کرے گا )

Thursday, January 21, 2021

اصلی اور نسلی



مغرب کا وقت قریب تھا میں کرکٹ کھیل کر گھر پہنچا اور امی ابو کو سلام کیا۔ امی نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے بچپن میں مجھ سے کوئی نقصان ھونے پر دیکھا کرتی تھیں۔ مجھے کچھ گڑ بڑ لگی البتہ ابا جی نے بڑی خوش دلی سے جواب دیا...
ہیلمٹ اور بیٹ رکھا ہی تھا کہ ابا نے کہا، "بچے چلو کھیتوں کا چکر لگاتے ہیں۔"
مجھے مزید حیرانی ہوئی، یہ علامات کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھیں....
میں نے کہا "ٹھیک ہے پر پہلے ذرا نہا لوں" تو ابا نے کہا "نہیں واپس آکر نہا لینا۔"
مجھے انہونی کا احساس ہونے لگا پر میں ابا جی کے ساتھ چل پڑا۔ خاموشی سے سفر کٹ رہا تھا، راستے میں آنے جانے والوں سے ابا جی بڑی خوش دلی سے سلام کلام کر رہے تھے۔
پھر پکی سڑک سے کچے راستے کی طرف مڑ گئے، میں بھی ساتھ ساتھ تھا کہ ایک ڈھابے کے ساتھ ایک کتا بیٹھا دیکھ کر ابا جی بولے، "یار تمہارا کتا کدھر ہے ؟؟؟" میں نے کہا "ابا جی وہ اپنے دوست کو دے دیا ہے، اسے اچھا لگتا تھا۔" تو ابا جی نے پوچھا "اب رکھو گے نیا کتا یا نہیں ؟؟" میں نے کہا "رکھوں گا اگر کوئی اچھا مل گیا۔۔۔" تو ابا بولے "اسے ہی اٹھا لو ہے تو کتا ہی"۔۔۔ میں ہنس دیا، "ابا جی یہ بے نسلا کتا ہے میں کیوں رکھوں؟؟؟"
ابا ہنس دیئے اور بولے، "کیا فرق ہے نسلے بے نسلے میں؟ وہ بھی بھونکے گا اور یہ بھی بھونک لیتا ہے، شاید اسکی بھونک اچھی ہو۔۔۔ میں نے کہا کہ ابا جی بھونک تو نہیں دیکھنی بہت کچھ دیکھنا ہوتا ہے۔۔۔ اب دیکھیں یہ ٹھہرے گلی کے آوارہ کتے، ہر چیز میں منہ مارنے والے۔۔۔ اپنا کتا دیکھا۔۔!  کبھی گھر کے اس حصے میں نہیں آیا،  کبھی کسی برتن میں منہ نہیں مارا،  کبھی ایسا نہیں ہوا کوئی کھلا برتن پڑا ہو اور اس منہ مارا ہو، کسی کا لباس تک کبھی ناپاک نہیں کیا۔۔۔
ابا ہنس دیئے اور بولے "بیٹا کچھ باتیں کتوں اور انسانوں میں ایک جیسی ہوتی ہیں پر شرط ہے دونوں نسلی اور خاندانی ہوں۔۔۔ میں نے پوچھا "مثلا؟"ً تو ابا نے کہا "بیٹا وہ ہر برتن میں منہ نہیں مارتے۔۔۔ پھر بولے، "تمہیں یاد ہے؟؟ ایک دفعہ گاۓ کا دودھ نکال کر میں نے یوں ہی رکھ دیا تھا اور ایک آوارہ کتا باڑ پھلانگ کر اندر آگیا اور تمہارے والے کتے نے اسے مارا تھا۔۔۔" میں نے کہا "جی ابا۔۔۔" تو ابا بولے "بیٹا۔۔۔!!! ہمارے خاندان ، گلی ،محلے اور گاؤں کی لڑکیاں جو سکول کالج پڑھتی ہیں، یہ سب کھلا برتن ہی ہیں۔ بیٹا اب یہ چُناؤ تمہارا ہے کہ تم کیا بنو گے؟ گلی کا کوئی آوارہ کتا۔۔۔ یا اچھے خاندان کا با عزت لڑکا۔۔۔"
اور پھر اچانک مجھے یاد آیا کہ آج کالج سے واپسی پر میں نے ایک دوشیزہ پر جملہ کسا تھا اور سیٹی بھی ماری تھی۔۔۔ جس کے بعد ابا جی نے انسانوں والی پیار کی زبان میں میری کتے والی کرتے ھوئے مجھے بہت کچھ سمجھا دیا تھا۔۔۔

سچی توبہ

کہاں سے ڈھونڈ کر لائیں ایسے گوہر

قادسیہ کا میدان جنگ ہے ایک آدمی شراب پی لیتا ہے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جومسلمان فوج کے سپہ سالار ہیں ان کو خبر ہوتی ہے، فرمایا اس کو زنجیروں میں جکڑ دو،؛ اور میدان جنگ سے واپس بلا لو، ایک کمانڈر نے کہا :سپہ سالار میدان جنگ ہے، غلطی ہو گئی اس سے ، دلیر آدمی ہے بہادر آدمی ہے، چھوڑ دیجیے اللہ کی راہ میں جنگ کرے گا، یا کسی کو مارے گا یا مر جائے گا، اس کو زنجیروں میں جکڑنے کی ضرورت کیا ہے؟

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا صحابی تلواروں اور بازؤں پر بھروسہ نہیں کرتا، اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرتا ہے میں اس شرابی کو لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا، اس کی وجہ سے کہیں میرے رب کی رحمتیں منہ ہی نہ موڑ جائیں ، جاؤ اسے زنجیریں پہنا دو،

سپہ سالار کے حکم پر اسے زنجیروں میں جکڑ دیتا جاتا ہے، اور خیمے میں ڈال دیا جاتا ہے اب وہ مسلمان قیدی زنجیروں میں جکڑا اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہے کہ میدان جنگ خوب گرم ہے بے بسی اور لاچارگی سے میدان جنگ کی جانب دیکھ کر تڑپ اٹھتا

ہائے کوئی میری زنجیروں کو کھول دو، میں نے اپنے رب سے اپنے گناہوں سے معافی مانگ لی ہے، ہائے مجھےکوئی کھولنے والا نہیں اور مسلسل آہ و بکا کرنے لگا سعد بن ابی وقاص کی بیوی دوسرے خیمے کے اندر موجود ہیں ، زنجیروں میں جکڑے قیدی نے دوسرے خیمے میں ان کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے پکار کر کہا اے سعد رض کی بیوی میری زنجیروں کو کھولنے میں میری مدد کریں ،

مجھ سے مسلمانوں کا گرتا ہوا خون دیکھا نہیں جاتا وہ بدستور پردے میں رہتے ہوئے کہتی ہیں، تم نے گناہ کیا اور سپہ سالار نے تمہیں زنجیروں میں جکڑنے کا حکم دیا ہے قیدی کہنے لگا ، خدا کی قسم اگر زندہ رہا تو خود آ کے زنجیریں پہن لوں گا خدا را مجھے رہا کر دیں، میں نے اپنے اللہ سے معافی مانگ لی ہے،

ادھر مسلمانوں کے لشکر پر شکست کے آثار گہرے ہوتے جارہے تھے، کافروں نے ایک ایک صف پر حملے کیے، صفیں الٹنے لگیں، ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ کی آہوں اور سسکیوں کو دیکھ کر سعد رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ کا دل بھر آیا

انہوں نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس کی زنجیروں کو کھول دیا،ابو محجن ثقفی نے اپنی زرہ نہیں پہنی بکتر بند نہیں پہنا، ننگے جسم کافروں کی ایک ایک صف پر ٹوٹ پڑے،
سعد رضی اللہ عنہ ان دنوں سخت بیمار تھے اور ایک بلند جگہ پر میدان جنگ کا نقشہ دیکھ رہے تھے، کیا دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی ہر ایک صف درہم برہم ہے، لیکن ایک تنہا آدمی آتا ہے کافروں کی صفوں کو الٹ کر رکھ دیتا ہے، اور وہ جس طرف بھی جاتا ہے بجلی بن کر گرتا ہے اور خرمنوں کو جلاتا ہوا چلا جاتا ہے، جس طرف مڑتا ہے کافر کٹ کٹ گرتے چلے جاتے ہیں،

سعد رضی اللہ عنہ ٹیلے پر بیٹھے ہوئے اپنا سر سجدے میں رکھ دیتے ہیں کہنے لگے:اے اللہ! اگر یہ فرشتہ نہیں ہے تو میں اپنی تلوار اس کی نذر کرتا ہوں، اس نے کافروں کی صفوں کو الٹ کر رکھ دیا، اسی مجاہد کی ہمت اور شجاعت کی بدولت اللہ پاک نے مومنوں کو فتح عطا فرما دی،مسلمان واپس ہوئے، کمانڈر نیچے اترے دیکھوں وہ جوان کون تھا؟

اب وہ صفوں میں نظر نہیں آرہا تھا، پوچھا وہ کون تھا جو اس بے جگری سے لڑ رہا تھا، ڈھونڈا، تلاش کیا وہ وہاں ہوتا تو ملتا!!!! ، خیمے سے بیوی آواز دیتی ہیں :
اے سپہ سالار جس کو آپ ڈھونڈ رہے ہیں، اس نے اب زنجیریں پہن رکھی ہیں، سعد بن ابی وقاص پلٹے کہنے لگے، بیوی کیا کہتی ہو؟ کہنے لگیں، صحیح کہتی ہوں، یہ ابو محجن ثقفی ہے جس نے شراب سے توبہ کی اور تلوار تھام کے میدان جنگ میں چلا گیا، اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر زندہ لوٹا تو خود زنجیریں پہن لوں گا، اب یہ زنجیریں پہن چکا ہے،

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی چھڑی کو ٹیکتے ہوئے اٹھے، ساتھیوں نے سہارا دینا چاہا، کہنے لگے چھوڑ دو مجھے میں اس شخص کے پاس اپنے پیروں پر چل کر جانا چاہتا ہوں جس کی توبہ نے اللہ کی رحمت کو آسمانوں سے زمین پر نازل کر دیا،
سبحان اللہ اللہ کبیرا

*توبہ و استغفار میں دیر مت کریں کیا خبر ہم میں سے کسی ایک کی توبہ اللہ رب العالمین کی آسمانوں پر موجود رحمت کو زمین 🌏 پر لے آئے اللہ کریم توفیق عمل عطا فرمائے۔آمیـــــــــــــــــن ثم آمیـــــــــــــــــن یا رب العالمین ..

کھیر کی دیگ

ٹیوب ویل کے گرد گاؤں کی کچھ عورتیں کپڑے دھو رہی تھیں، ایک عورت نے دوسری سے پوچھا "آج کیا کھایا؟" اُس نے جواب دیا 
"کوئی ایک مہینہ پہلے کھیر کی دیگ اتاری تھی، اس دن سے روزانہ کھیر ہی کھا رہی ہوں"
ایک عورت کے کان میں یہ بات پڑی تو اس نے سوچا میں بھی ایسا ہی کرتی ہوں کھیر ویسے بھی اس کی پسندیدہ ڈش تھی۔۔ چنانچہ اس نے گھر پہنچتے ہی کھیر کی دیگ اتارنے کا پروگرام بنایا۔۔ وہ کھیر کی دیگ سب سے چھپ کر مہینہ بھر اکیلی کھانا چاہتی تھی۔۔ لہذٰا اس نے دیگ پکا کر "تُوڑی" والے کمرے میں چھپا دی۔۔ پہلے دن کھیر کھائی، دوسری دن بھی کھائی، مگر تیسرے دن اس میں سے بُو آنے لگی مجبوراً بھری دیگ ضائع کرنی پڑی۔۔۔ اگلے دن پھر سے وہ ٹیوب ویل پہنچی تو کپڑے دھوتے ہوئے کسی عورت نے اسی عورت سے پوچھ لیا کہ آج کیا کھایا؟ تو اس نے وہی جواب دیا۔۔ "ایک ماہ سے ہر روز کھیر کھارہی ہوں"
وہ اس کے پاس گئی اور حیرانی سے کہنے لگی " بہن میں نے تو دو دن کھائی تیسرے دن اتنی شدید بدبو آنے لگی کہ مجبوراً ضائع کرنا پڑی۔۔۔ تمہاری ہمت ہے جو ایک ماہ سے کھائے جا رہی ہو"
وہ عورت اس کی بات سن کر ہنس پڑی۔۔ اور کہنے لگی "میں نے ایک ماہ پہلے کھیر کی دیگ اتروا محلے کے ہر گھر میں بانٹ دی تھی۔۔۔ اس کے بعد سے روزانہ جس کسی گھر میں کھیر پکتی ہے وہ میرے گھر بھی بھجوادیتا یے، اس طرح ہر روز کھیر کھاتی ہوں"
دوسروں کے خوشی غم میں شریک ہوں، راہ چلتے لوگوں کو سلام کریں، عزیز و اقارب کے لیے خاص وقت نکالیں، محفلوں اور دعوتوں کا رواج عام کریں، معاشرے کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں، اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو یقین کریں آپ کے "فیلنگ سیڈ" پر گردواطراف ہر کوئی فکرمند دکھائی دے گا، راہ چلتے ہوئے پلٹ کر نجانے کتنے سلام آنے لگیں گے، خوشی غمی میں خود کو تنہا نہیں پائیں گے، مشکل مواقع پر عزیز و اقارب اپنی جمع پونجی میں سے بالکل اسی طرح آپ پر خرچ کریں گے جیسا کہ آپ نے کیا ہوگا، آپ کو ہر محفل میں ہر دعوت پر مدعو کیا جائے گا. جزاک اللہ

حقیقی خوشی

 ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں ریڈیو اناؤنسر نے اپنے مہمان سے جو ایک کروڑ پتی شخص تھا ، پوچھا :" زندگی میں سب سے زیادہ خوشی آپ کو کس چیز میں محسوس ہوئی؟"

وہ کروڑ پتی شخص بولا:

میں زندگی میں خوشیوں کے چار مراحل سے گزرا ہوں اور آخر میں مجھے حقیقی خوشی کا مطلب سمجھ میں آیا.سب سے پہلا مرحلہ تھا مال اور اسباب جمع کرنے کا. لیکن اس مرحلے میں مجھے وہ خوشی نہیں ملی جو مجھے مطلوب تھی.پھر دوسرا مرحلہ آیا قیمتی سامان اور اشیاء جمع کرنے کا. لیکن مجھے محسوس ہوا کہ اس چیز کا اثر بھی وقتی ہے اور قیمتی چیزوں کی چمک بھی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہتی.

پھر تیسرا مرحلہ آیا بڑے بڑے پروجیکٹ حاصل کرنے کا. جیسے فٹ بال ٹیم خریدنا، کسی ٹورسٹ ریزارٹ وغیرہ کو خریدنا . لیکن یہاں بھی مجھے وہ خوشی نہیں ملی جس کا میں تصور کرتا تھا.چوتھی مرتبہ ایسا ہوا کہ میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ میں کچھ معذور بچوں کے لیے وہیل چیرس خریدنے میں حصہ لوں.

دوست کی بات پر میں نے فوراً وہیل چیرس خرید کر دے دیں. لیکن دوست کا اصرار تھا کہ میں اس کے ساتھ جا کر اپنے ہاتھ سے وہ وہیل چیرس ان بچوں کے حوالے کروں. میں تیار ہو گیا اور اس کے ساتھ گیا. وہاں میں نے ان بچوں کو اپنے ہاتھوں سے وہ کرسیاں دیں. میں نے ان بچوں کے چہروں پر خوشی کی عجیب چمک دیکھی. میں نے دیکھا کہ وہ سب کرسیوں پر بیٹھ ادھر ادھر گھوم رہے ہیں اور جی بھر کے مزہ کر رہے ہیں. ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی پکنک اسپاٹ پر آئے ہوئے ہیں.

لیکن مجھے حقیقی خوشی کا احساس تب ہوا جب میں وہاں سے جانے لگا اور ان بچوں میں سے ایک نے میرے پیر پکڑ لیے. میں نے نرمی کے ساتھ اپنے پیر چھڑانے کی کوشش کی لیکن وہ بچہ میرے چہرے کی طرف بغور دیکھتا ہوا میرے پیروں کو مضبوطی سے پکڑے رہا.

میں نے جھک کر اس بچے سے پوچھا : کیا آپ کو کچھ اور چاہیے؟

اس بچے نے جو جواب مجھے دیا اس نے نہ صرف مجھے حقیقی خوشی سے روشناس کرایا بلکہ میری زندگی کو پوری طرح بدل کر رکھ دیا.اس بچے نے کہا: میں آپ کے چہرے کے نقوش اپنے ذہن میں بٹھانا چاہتا ہوں تاکہ جب جنت میں آپ سے ملوں تو آپ کو پہچان سکوں اور ایک بار اپنے رب کے سامنے بھی آپ کا شکریہ ادا کر سکوں.."