ایک خاتون کی عادت تھی کہ وہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے اپنی دن بھر کی خوشیوں کو ایک کاغذ پر لکھ لیا کرتی تھی۔
ایک شب اس نے لکھا کہ:
ایک خاتون کی عادت تھی کہ وہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے اپنی دن بھر کی خوشیوں کو ایک کاغذ پر لکھ لیا کرتی تھی۔
ایک شب اس نے لکھا کہ:
ایک بزرگ کہتے ھیں کہ سرِ بازار چلتے ھوئے کسی نے میرے ٹخنے پر ڈنڈے سے چوٹ لگائی درد اور غضب کی کیفیت میں پلٹ کر جو مارنے والے کو دیکھا
رویے جھلک جاتے ہیں۔
انسان ہر وقت اچھے موڈ میں نہیں ہوتا.. کبھی وہ دوسروں کے رویئوں سے بہت پریشان بھی ہوسکتا ھے.. خیال رکھیئے گا !!!
آپ کے اکھڑے ہوۓ رویے کو محسوس کرنے کے باوجود جو اظہار نہ کرے
وہ اعلی ظرف ہے بے وقوف نہیں۔
اپنوں کی قدر کیا کریں یہ ہمیشہ میسر نہیں رہتے.. قسمت کی کرنی سے یہ مل تو باآسانی جاتے ھیں مگر' اگر یہ گم ہوجائیں تو آپ إنہیں بمشکل ہی تلاش کرپائیں گے.. پلیز ہمیشہ خیال رکھیئے گا !!۔
کہا جاتا ہے کہ حاتم تائی نے ایک جگہ ستر دروازے بنوائے تھے
جو جس دروازے سے چاہتا داخل ہوتا اور اُس سے کچھ طلب کرتا اور حاتم اُسے دے دیتا۔
یہ جو زندگی کی ٹھوکریں ہوتی ہیں ناں یہ رب کی طرف سے بلاوے کا پیغام لیکر آتی ہیں۔۔۔۔
آپ نے دیکھا ہوگا ہم اپنی غفلت سے بھری زندگی میں حقیقت سے بےخبر جی رہے ہوتے ہیں ایک دم سے ایسی ٹھوکر لگتی ہے
ایک نوجوان لڑکے کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کو کسی مہنگے ہوٹل میں کھانا کھلائے ماں باپ تو نہیں چاہتے تھے لیکن اپنے بیٹے کے ضد کرنے پر وہ راضی ہوگئے پھر ایک دن اُس نوجوان لڑکے نے شہر کے ایک مہنگے ہوٹل میں لنچ کرنے کا پروگرام بنایا
پانچ چھ بچے گلی میں کھیل رہے تھے. جب میں ان بچوں کے پاس سے گزرا تو میں نے رک کر مسکراتے ہوئے کہا: "پیارے بچو! السلام علیکم"
بچے اپنا کھیل چھوڑ کر حیرانگی سے مجھے دیکھنے لگے لیکن سلام کا جواب نہیں دیا.
ریلوے اسٹیشن پر ٹرین رکی. مسافر اترے اور کئی سوار ھوئے۔ جب بالکل ٹرین چلنے کا وقت ھوا ہلکی سی ٹرین کھسکنے لگی تو ٹرین میں بیٹھے ایک مسافر نے دوسرے سے کہا کہ دیکھو تماشہ....
اس نے جلدی سے چلتی ٹرین سے ھاتھ باھر نکال کر اخبار والے کو آواز دی کہ اخبار دیدو اور اپنا جعلی سکہ اسکو تھما دیا اور اس سے اخبار لے لیا...
ٹرین تیزی سے پلیٹ فارم کراس کر گئی اس نے خوب قہقہے لگائے اور ساتھی سے کہا دیکھا میرا کمال..؟
کچھ منٹ بعد جب اخبار کھول کر پڑھنے لگا تو کچھ خبریں پرانی سی محسوس ھوئیں... غور سے دیکھا تو... اوہ یہ تو پچھلے ھفتہ کا اخبار ھے.
اب کی دفعہ قہقہے لگانے کی باری ساتھی مسافر کی تھی اور مسافر بولا؛ واقعی آج تماشہ دیکھا.
جیسی نیت ویسی مراد . جو دو گے لوٹ کر آئیگا دھوکہ چاھے دیانت داری ..
ایک عدد چھتری کا بندوبست کرلیں جو قیامت کے روز ہمیں عذاب کی بارش سے بچاۓ
ایک دفعہ پاکستان اور انڈیا کے میچ کے دوران جب اچانک بارش شروع ہوئی تو آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ سٹیڈیم میں موجود ہر شخص نے اپنی چھتری کھول کر سر پر رکھ لی تھی ۔
جب اس وقت کیمرہ تماشائیوں کے سٹینڈ پر گیا تو رنگ برنگی چھتریوں کا ایک حسین منظر تخلیق پا چکا تھا، شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس کے چھتری یا بارش کی برساتی نہ پہنی ہو ۔
میں نے زندگی میں اتنی بڑی گاڑی نہیں دیکھی تھی گاڑی کی چمک دمک سج دھج بتاتی تھی وہ ابھی ابھی کارخانے سے نکلی ہے میرا اندازہ بڑی حد تک درست نکلا کیونکہ گاڑی کے سامنے ’’اپلائیڈ فار‘‘ لکھا تھا اور سیٹوں کے اوپر پلاسٹک کے کور چڑھے تھے‘ گاڑی رکی‘ پہلے باوردی شوفرباہر نکلا‘ اس نے جلدی سے پچھلا دروازہ کھولا
تیرے چہرے کے خدوخال یاد کرتا ہوں، تاکہ جنت میں ملتے ہی تجھے پہچان سکوں!
کسی ٹی وی ٹاک شو میں اینکر نے اپنے کروڑ پتی مہمان سے سوال پوچھا : زندگی میں آپ کو حقیقی خوشی
حضرت عمر فاروقؓ کو ایک شخص کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ ماں کو گالیاں دیتا ھے۔
آپ نے اس شخص کو بلوایا اور حکم دیا کہ پانی سے بھری ھو مشک لائی جائے
گھر جانے کے لئے گاڑی میں بیھٹا ھی تھا کہ نظر ایک بزرگ پر پڑی جو ایک کاغذ ہاتھ میں لیے علی حسنین کا پتہ پوچھ رہے تھے. مجھ پر نظر پڑتے ہی ہاتھ سے روکنے کا اشارہ کیا اور پاس آئے.کپڑوں کی خستہ حالی اور چہرے پر جھریاں بہت کچھ بتا رہی تھی.
بولے بیٹا یہ میرے پتر کا نام ہے.
میں سوتے وقت بیڈ پر موبائل کے استعمال سے پرہیز کرتا ہوں اگر ضرورت پڑجائے تو روشنی کم کرتا ہوں تاکہ بیگم کی نیند خراب نہ ہو۔
کھانے میں نمک مرچ کم زیادہ ہونے پر کبھی بیگم کو برا بھلا نہیں کہا کیوں کہ اتنی سی بات کے لئے میں شریک حیات کی تذلیل کیسے کر سکتا ہوں۔
رات کا آخری پہر تھا.. سردی تھی کہ ھڈیوں کے اندر تک گھسی جارھی تھی.. بارش بھی اتنی تیز تھی جیسے آج اگلی پچھلی کسر نکال کر رھے گی..
میں اپنی کار میں دوسرے شہر کے ایک کاروباری دورے سے واپس آرھا تھا اور کار کا ھیٹر چلنے کے باوجود میں سردی محسوس کررھا تھا..
نمازِ فجر کی جماعت میں جیسے ہی نبی رحمت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم سلام پھیرتے، حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ اٹھ کر جلدی جلدی چل دیتے. باقی صحابہ کرام محفل نبوی میں کچھ دیر بیٹھے رہتے.
جب تواتر سے یہ ہوا تو نبی رحمت کی توجہ کچھ صحابہ کرام نے ابو دجانہ کی طرف کرائی.