ماں نے ڈرتے ڈرتے عالیہ کی طرف دیکھا اور بولی
عالیہ یہ اتنا سارا پھل تو کہاں سے لائی ہے؟ ابھی تو تنخواہ ملنے میں بہت دن باقی ہیں !!
ماں کی آنکھوں میں کرب تھا دماغ میں جو ممکنہ سچ گھوم رہا ہے اسے سننے سے ڈر رہی تھی، حالانکہ اسے پتہ تھا عالیہ اس سے کبھی جھوٹ نہیں بولے گی اسی لئے یہ سوال پوچھ کر وہ پچھتا رہی تھی۔
عالیہ بولی امی جی آپ پریشان نہ ہوں آپکو پتہ ہے میں نہ آپ کو رسوا کروں گی نہ شرمسار ہونے دونگی،
آج جب ہم ٹرمینل پر واپس پہنچے اور میں مسافروں کو رخصت کر رہی تھی تو ایک صاحب نے بس سے اترتے ہوئے میرے ہاتھ میں ہزار روپے کا نوٹ تھما دیا اور بولے ... بیٹا !!! یہ تمہاری عیدی ہے۔
امی جی میری آنکھیں بھیگ گئیں مجھے ابو بہت یاد آئے، مجھے یاد ہے ابو ہمارے لئے موسم کے پھل لایا کرتے تھے میں نے بھی فیصلہ کیا آج گھر پھل لے کر جاوں گی۔
امی پتہ ہے پھل خریدتے ہوئے میں کیا سوچ رہی تھی !! روزانہ کئی لوگ مجھے غلیظ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اور شیطانی مسکراہٹ کیساتھ فون نمبر کی پرچیاں اور وزٹنگ کارڈز دے کر جاتے ہیں، لیکن حیوانوں کے اس جنگل میں آج مجھے ایک انسان بھی مل ہی گیا ، امی مجھے گمان بھی نہ تھا کہ مجھے کوئی بیٹی سمجھ کر بھی مخاطب کرے گا۔
خیالات بدلیں معاشرہ بدلیں
No comments:
Post a Comment