مرحوم اشفاق احمد فرماتے ہیں
۔ ۔ میرے منجھلے بیٹے کو پرندوں کا بڑا شوق ہے ۔ ۔ اس نے گھر میں پرندوں کے دانہ کھانے کے ایسے ڈبے لگا رکھے ہیں جن میں آٹومیٹک دانے ایک ایک کرکے گرتے رہتے ہیں ۔ ۔ اور پرندے شوق سے آکر کھاتے رہتے ہیں ۔ ۔ جب ہم قصور سے لاہور آ رہے تھے تو ، اس نے ایک دوکان دیکھی ، جس میں پانچ پانچ کلو کے تھیلے پڑے ہوئے تھے ۔ ۔ جن میں باجرہ اور ٹوٹا چاول وغیرہ بھرے ہوئے تھے ۔ ۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ابو یہ پرندوں کے لئے بہت اچھا دانا ہے ۔ ۔ میرا بیٹا اس دکان سے چاول اور باجرہ لینے گیا تو ، اس دکاندار نے پوچھا ، کہ آپ کو یہ دانے کس مقصد کیلئے چاہیے ? تو میرے بیٹے نے اسے بتایا ، کہ پرندوں کو ڈالنے کے لئے اس پر اس دکاندار نے کہا کہ آپ کنگنی بھی ضرور لیجئے ۔ ۔ کیونکہ کچھ خوش الحان پرندے ایسی بھی ہوتے ہیں جو باجرہ نہیں کھا سکتے ۔ ۔ بلکہ کنگنی کھاتے ہیں ۔ ۔ وہ بھی پھر کنگنی کھانے آپ کے پاس آیا کریں گے ۔ ۔ اس نے کہا کہ بسم اللہ کنگنی ضرور دے دیں ۔ ۔ اور اس رہنمائی کا میں آپ کا عمر بھر شکر گزار رہوں گا ۔ ۔ وہ چیزیں لے کر جب اس نے پرس نکالنے کی کوشش کی تو نہ ملا جیبوں ، گاڑی ، آس پاس ہر جگہ دیکھا لیکن وہ نہ ملا ۔ ۔ تب وہ تینوں تھیلے گاڑی سے واپس اُٹھا کر دکاندار کے پاس گیا اور کہا ، کہ میں معافی چاہتا ہوں میں تو اپنا بٹوہ ہی بھول گیا ہوں ۔ ۔ اس دکاندار نے کہا صاحب آپ کمال کرتے ہیں ۔ ۔ یہ لے جائے پیسے آجائیں گے ۔ ۔ میرے بیٹے نے کہا کہ آپ تو مجھے جانتے ہی نہیں ہیں ? وہ دکاندار بولا کہ میں آپ کو جانتا ہوں ۔ ۔ وہ کیسے میرے بیٹے نے کہا ۔ ۔ دوکاندار گویا ہوا ، صاحب جو شخص پرندوں کو دانہ ڈالتا ہے وہ بے ایمان نہیں ہو سکتا ۔ ۔ میں نے جھٹ سے اپنی آٹو گراف بک نکالی ، اور اس کا انگوٹھا لگوا لیا ۔ ۔ ایسے ہی میرے پاس کئی لوگوں کے دستخط اور انگوٹھے موجود ہیں ۔ ۔
اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے ۔ ۔
زاویہ ۲ ۔
No comments:
Post a Comment