استاد کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ طلباء نے شور مچایا کہ سر ہم آپ کا لیکچر نہیں لیں گے ۔ کیونکہ ذمہ داران نے اس کا پیپر ہی منسوخ کردیا ہے ۔
استاد نے طلباء کی حمایت کی کہ بالکل میں آپ کو کوئی زور نہیں دوں گا کہ آپ کوئی ٹیسٹ دیں یا کوئی امتحانی نقطہ نگاہ سے کام کریں ۔ میری طرف سے آپ ریلیکس ہوجائیں ۔ کوئی فکر نہ کریں کہ کوئی مشقتی کام نہ ہوگا ۔
طلباء یہ بات سن کر بالکل مطمئن ہوگئے ۔ استاد نے کہا کہ چونکہ یہ ہمارا لیکچر فری ہے ۔ فارغ وقت میں میں آپ کو ایسا کام پڑھاتا ہوں کہ جو ہمارے سلیبس میں شامل نہیں تھا ۔ آپ نے بس سننا ہے ۔ نہ تو آپ اسے یاد کریں گے اور نہ ہی کوئی ٹیسٹ دیں گے ۔ بس میں سناوں گا اور آپ سنیں گے ۔
طلباء نے حامی بھری کہ ٹھیک ہے آپ لیکچر دیں ہم سن لیں گے ۔ استاد نے سلیبس کا قرآنی حصہ نکال کر لیکچر دینا شروع کیا ۔ چالیس منٹ تک لیکچر ہوا ۔ مفصل لیکچر ہوا ۔ طلباء نے بھری توجہ سے سنا ۔ بیچ بیچ استاد بچوں سے مخاطب کرکے کوئی مسئلہ بھی پوچھ لیتے اور طلباء جواب بھی دے دیتے ۔
استاد نے محسوس کیا کہ آج کے لیکچر میں بچوں نے جو غیر معمولی دل چسپی دکھائی وہ پہلے کبھی نظر نہیں آئی ۔
دراصل اس غیر معمولی دلچسپی کی وجہ انسان کی بوجھ اور شوق والی نفسیات ہے ۔ انسان جب کوئی ذمہ داری والا کام کرتا ہے اور اس کام کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتا ہے تو اس کی طبیعت میں تکدر اور اکتاہٹ پیدا ہوجاتی ہے ۔
اس کے برعکس جب انسان کوئی کام شوق سے کرتا ہے تو اس کی طبیعت پر اکتاہٹ طاری نہیں ہوتی بلکہ اسے وہ کام کھیل محسوس ہوتا ہے ۔
اس لیے انسان کے پاس کامیابی کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ جو بھی کام کرے شوق سے کرے ۔ ایسا کام کرے جس میں وہ شوق کی حد تک عمل دخل دیتا ہے ۔ یوں اسے اکتاہٹ بیزاری اور طبیعت کے بوجھل پن سے نجات ملے گی ۔
جب وہ ایسا کام کرے گا جس میں وہ کام کو مشغلے کی بجائے بوجھ سمجھے گا تو اس کام کا نتیجہ صفر نکلے گا ۔ اور اس کا وقت اور انرجی دونوں ہی برباد ہونگیں ۔
اس لیے کامیابی تک پہنچنے کا خفیہ راستہ دلچسپی اور شوق ہی ہے ۔ اس کو خفیہ راستہ اس لیے کہا گیا کہ انسانوں کی اکثریت سے یہ راستہ اوجھل ہے ۔ انسانوں کی اکثریت ایسے کاموں میں مشغول ہے جس میں وہ قطعی نہ شوق رکھتے ہیں اور نہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اور یوں ان کی زندگی اجیرن ہو کر رہ جاتی ہے ۔
No comments:
Post a Comment