Tuesday, January 19, 2021

ماں صرف ماں ہے

ڈی آئی جی نونت سکیرا جی نے عبرت ناک داستان پوسٹ کی ھے۔ 

ایک جج صاحب اپنی بیوی کو طلاق کیوں دے رہے ہیں، ؟؟؟؟ 

رونگٹے کھڑے کر دینے والا سچا واقعہ۔۔ 

کل رات ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے زندگی کی کئی پہلوؤں کو چھو لیا۔
قریب شام کے7بجےھونگے ،موبائل کی گھنٹی بجی۔ اٹھایا تو ادھر سے رونے کی آواز ۔۔۔ 
میں نے چپ کرایا اور پوچھا کہ بھابی جی آخر ہوا کیا ؟؟
ادھر سے آواز آئی آپ کہاں ہیں؟ اور کتنی دیر میں آ سکتے ہیں؟
میں نے کہا آپ پریشانی بتایے اور بھائی صاحب کہاں ہیں؟ ۔ اور ماں کدھر ہیں۔آخر ہوا کیا ہے؟
لیکن ادھر سے صرف ایک ہی رٹ کے آپ فوراً آجاءیے۔ 
میں اسے مطمئن کرتے ہوئے کہا کہ ایک گھنٹہ لگے گا پہنچنے میں۔ جیسے تیسے گھبراہٹ میں پہونچا۔۔ 

دیکھا کہ بھائی صاحب، (جو یمارے جج دوست ہیں ) سامنے بیٹھے ہوے ہیں۔ 
بھابی جی رونا چیخنا کر رہی ہیں؛ ١٢ سال کا بیٹا بھی پریشان ہے اور ٩ سال کی بیٹی بھی کچھ کہ نہیں پا رہی ہے۔ 

میں نے بھای صاحب سے پوچھاکہ" آخر کیا بات ہے"؟ 
بھائی صاحب  کچھ جواب نہیں دے رہے تھے۔۔

پھر بھابی جی نے کہا؛ یہ دیکھیے طلاق کے کاغذات۔

 کورٹ سے تیار کرا کر لائے ہیں۔  مجھے طلاق دینا، چاہتے ہیں َ۔ 

میں نے پوچھا " یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟؟؟  اتنی اچھی فیملی ہے ؛ دو بچے ہیں۔ سب کچھ سیٹلڈ ھے۔  پہلی نظر میں مجھے لگا کے یہ مذاق ہے۔ 

لیکن میں نے بچوں سے  پوچھا دادی کدھر ھے ۔ تو بچوں نے بتایا ؛  پاپا  انہیں ٣ دن پہلے نوئیڈا کے "اولڈ ایج ھوم" میں شفٹ کر آئے ہیں۔

میں نے نوکر سے کہا؛ مجھے اور بھائی صاحب کو چاے پلاو؛ 
کچھ دیر میں چائے آئی  َ بھائی صاحب کو میں نے بہت کوشش کی چائے پلانے کی۔ مگر انہوں نے نہیں پیا۔ اور کچھ ہی دیر میں وہ معصوم بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔  اور بولے میں نے ٣ دنوں سے کچھ بھی نہیں کھایا ہے۔ میں اپنی 61سال کی ماں کو کچھ لوگوں کے حوالے کر کے آیا ھوں۔ 

پچھلے سال سے میرے گھر میں ماں کے لیے اتنی مصیبتیں ہوگئیں  کہ بیوی نے قسم کھا لی کی "میں ماں جی کا دھیان نہیں رکھ سکتی"
نا تو یہ ان سے بات کرتی تھی اور نہ میرے بچے ان سے بات کرتے تھے۔  

روز میرے کورٹ سے آنے کے بعد ماں بہت روتی تھی۔ 
نوکر تک بھی ان سے خراب طرح سے پیش آتے تھے۔ اور اپنی منمانی کرتے تھے۔ 

ماں نے ۱۰ دن پہلے بول دیا ۔۔۔۔۔، تو مجھے اولڈ ایج ھوم میں ڈال دے۔۔ میں نے بہت کوشش کی پوری فیملی کو سمجھانے کی، لیکن کسی نے ماں سے سیدھے منہ بات تک نہیں کی۔ 

                     جب میں دو سال کا تھا تب ابو انتقال کرگئے تھے۔ ماں  نے دوسروں کے گھروں میں کام کر کے *مجھے پڑھایا* اس قابل بنایا کے میں آج ایک جج ھوں،

لوگ بتاتے ہیں کہ ماں دوسروں کے گھر کام کرتے وقت کبھی بھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑتی تھی۔ 

اس ماں کو میں آج اولڈ ایج ھوم میں چھوڑ آیا ہوں۔ میں اپنی ماں کی ایک ایک دکھ کو یاد کرکے تڑپ رہا ہوں جو انھوں نے صرف میرے لئے اٹھائے  تھے۔ 

           مجھے آج بھی یاد ھے جب میں میٹرک کے امتحان دینے والا تھا۔ ماں میرے ساتھ رات۔ رات بھر بیٹھی رہتی تھی۔
 
ایک بار  جب میں اسکول سے گھر آیا تو ماں کو بہت زبردست بخار میں مبتلا پایا۔۔۔پورا جسم گرم اور تپ رہا تھا۔ میں نے ماں سے کہا تجھےتیز بخار ہے۔ تب ماں ہنستے ہوئے بولی ابھی کھانا بنا کر آی ہوں اس لئے گرم ہے۔ 

لوگوں سے ادھار مانگ کر مجھے دھلی یونیورسٹی سے *ایل ایل بی* تک پڑھایا۔

 مجھے ٹیوشن تک نہیں پڑھانےدیتی تھی۔ کہیں میرا وقت برباد نہ ہو جائے۔ 
کہتے کہتے رونے لگے۔۔ ۔۔ اور کہنے لگے۔ جب ایسی ماں کے ہم نہیں ھو سکے تو اپنے بیوی اور بچوں کے کیا ہونگے۔ 

ہم جنکے جسم کے ٹکڑے ہیں، آج ہم انکو ایسے لوگوں کے حوالے کر آئے '؛ '''جو انکے عادت، انکی بیماری، انکے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ہیں۔۔ جب میں ایسی ماں کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتا تو میں کسی اور کے لئے بھلا کیا کر سکتا ہوں۔ 

آذادی اگر اتنی پیاری ھے اور ماں اتنی بوجھ ہے تو، میں پوری آزادی دینا چاہتا ہوں۔ 

جب میں بغیر باپ کے پل گیا تو یہ بچے بھی پل جاینگے۔اسی لیے میں طلاق دینا چاہتا ہوں۔
 
ساری پراپرٹی میں ان لوگوں کے حوالے کرکے  اس اولڈ ایج ھوم میں رہوں گا۔ وہاں کم سے کم ماں کے ساتھ رہ تو سکتا ہوں۔ 
اور اگر اتنا سب کچھ کر نے کے باوجود ماں، آشرم میں رہنے کے لئے مجبور ہے ۔ 
تو ایک دن مجھے بھی آخر جانا ہی پڑے گا۔ 

ماں کے ساتھ رہتے۔ رہتے عادت بھی ھو جائےگی۔
 ماں کی طرح تکلیف تو نہیں ہوگی۔
 جتنا بولتے اس سے بھی زیادہ رو رہے تھے۔ 

اسی درمیان رات کے 12:30ھوگیے۔ میں نے بھابی جی کے چہرے کو دیکھا۔ 
انکے چہرے پچھتاوے کے جذبات سے بھرے ہوئےتھے۔ 

میں نے ڈرائیور سے کہا " ابھی ہم لوگ نوئیڈا چلیں گے۔  بھابی جی ؛ بچے، اور ہم سارے لوگ نوئیڈا پہونچے،
  بہت زیادہ گزارش کرنے پر گیٹ کھلا۔ 
بھای صاحب نے گیٹ کیپر کے پیر پکڑ لیے ۔ بولے میری ماں ہے۔ میں اسے لینے آیا ہوں۔ 

چوکیدار نے پوچھا "کیا کرتے ہو صاحب" ؟ 
بھای صاحب نے کہا۔ میں ایک جج ہوں۔ 

اس چوکیدار نے کہا "جہاں سارے ثبوت سامنے ہے۔ تب تو آپ اپنی ماں کے ساتھ انصاف نہیں کر پائے ۔ اوروں کے ساتھ کیا انصاف کرتے ہونگے صاحب۔

 اتنا کہ کر ہم لوگوں کو وہیں روک کر وہ اندر چلا گیا۔ 

اندر سے ایک عورت آی جو وارڈن تھی۔ اسنے بڑے زہریلے لفظ میں کہا۔  2 بجے رات کو آپ لوگ لے جاکے کہیں  اسے مار دیں تو میں اللہ کو کیا جواب دونگی، ؟ 

میں نے وارڈن سے کہا "بہن آپ یقین کیجئے یہ لوگ بہت  پچھتاوے میں جی رہے ہیں، ۔ 

آخر میں کسی طرح انکے کمرے میں لے گئی 
۔ کمرے کا جو نظارہ تھا اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ 
صرف ایک فوٹو جس میں پوری فیملی ہے۔، وہ بھی ماں کے بغل میں جیسے بچے کو سلا رکھا ھے۔ 

مجھے دیکھی تو اسے لگا کہیں بات نہ کھل جائے۔ 
لیکن جب میں نے کہا کہ ھم لوگ آپ کو لینے آے ھیں۔ تو پوری فیملی ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگی۔  آس پاس کے کمروں میں اور بھی بزرگ تھے۔ سب لوگ جاگ کر باہر تک ہی آگئے۔ انکی بھی آنکھیں نم تھیں۔ 

کچھ وقت کے بعد چلنے کی تیاری ھوی۔ پورے آشرم کے لوگ باہر تک آے۔ کسی طرح ہم لوگ آشرم کے لوگوں کو چھوڑ پائے ۔

 سب لوگ اس امید سے دیکھ رہے تھے، شاید انہیں بھی کوئی لینے آئے۔ 

راستے بھر بچے اور بھابی جی تو چپ چاپ رہے۔ مگر ماں اور  بھای صاحب ایک دوسرے کے جذبات کو اپنے پرانے رشتے پر بٹھا رہے تھے۔ گھر آتے آتے قریب 3:45 ھو گیا۔ 

بھابی جی بھی اپنی خوشی کی چابی کہاں ہے۔ یہ سمجھ گئی تھیں۔ 

میں بھی چل دیا لیکن راستے بھر وہ ساری باتیں اور نظارے آنکھوں میں گھومتے رھے۔ 

*ماں صرف ماں ھے*
اسکو مرنے سے پہلے نہ ماریں۔ 

ماں ہماری طاقت ہے۔ اسے کمزور نہیں ھونے دیں۔ اگر وہ کمزور ہو گئی تو ثقافت کی ریڑھ کمزور ھو جاۓگی ۔ اور بنا ریڑھ کا سماج کیسا ھوتا ھے۔ یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ھے۔ 

اگر آپ کے آس پاس یا رشتہ دار میں اسطرح کی کوئی مسئلہ ھو تو؛ انھیں یہ ضرور پڑھوایں اور اچھی طرح سمجھایں ؛  کچھ بھی کرے لیکن ھمیں جنم دینے والی ماں کو بے گھر ، بے سہارا نہیں ہونے دیں۔  اگر ماں کی آنکھ سے آنسو گر گئے تو یہ قرض کئی سالوں  تک رہے گا۔ 

یقین مانیں سب ھوگا  تمہارے پاس لیکن سکون نہیں ھوگا۔ 
سکون صرف ماں کے آنچل میں ھوتا ھے۔ اس آنچل کو بکھرنے مت دینا۔ 

اس دل کو چھو لینے والی داستان کو خود بھی پڑھیں۔ اور اپنے بچوں کو بھی پڑھنے کو دیں۔۔ تاکہ اس سے عبرت حاصل کر سکے۔

اپنے آپ کو پہچانو

عرب حکایت ہے کہ 
ایک بوڑھے باپ نے اپنے بیٹے کو بلا کر ایک پرانی خستہ حال گھڑی دی اور کہا .... بیٹا یہ گھڑی تمہارے پڑدادا کی ہے۔ اس کی عمر دو سو سال ہوگی۔ یہ گھڑی میں تمہیں دینا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے تمہیں میرا کام کرنا ہوگا۔ اسے لیکر گھڑیوں والی دکان پر جاؤ اور پوچھو وہ یہ گھڑی کتنے میں خریدیں گے ... "

وہ لڑکا جب واپس لوٹا تو کہنے لگا .... دکان دار گھڑی کی حالت دیکھتے ہوئے پانچ درھم سے زیادہ قیمت دینے کو تیار نہیں ... "

بوڑھے باپ نے کہا..... اب اسے وہاں لے جا کر بیچو جہاں نوادرات فروخت ہوتے ہیں "

وہ لڑکا جب وہاں سے واپس آیا تو بولا وہ لوگ پانچ ہزار درھم دینے کو تیار ہیں "

یہ سن کر وہ شخص بولا....  اب اسے عجائب گھر لے جاو اور فروخت کرنے کا ارادہ ظاہر کرو "

لڑکے نے واپس آکر کہا ....  وہ لوگ اسے پچاس پزار درھم میں خریدنے کو تیار ہیں ...!!

یہ سن کر اس بوڑھے شخص نے بیٹے کو مخاطب کیا اور کہا .....!!

بیٹا..!! گھڑی کی قیمت لگا کر میں تمہیں سمجھانا چاہتا تھا اپنی ذات کو اس جگہ ضائع نہ کرنا،  جہاں تمہاری قدر و منزلت نا ہو۔ تمہاری اہمیت کا اندازہ وہیں لگایا جائیگا جنہیں پرکھنے کی سمجھ ہوگی.

مقصود تحریر یہ کہ  *اگر دیکھا جائے تو ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی صلاحیتوں کو ایسی جگہ ضائع کر رہے ہوتے ہیں جہاں سوائے وقت ضائع کرنے کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔* 

*" اپنی صلاحیتوں، خوبیوں کو صحیح سمت استعمال کرو۔ ایسی جگہ خود کو مت تھکاؤ جہاں بدلے میں سوائے تھکاوٹ کے کچھ حاصل نہ ہو. "*

ایک در بند تو سو در کھلے گ

‏کسی گاؤں میں تین بھائی رہتے تھے
اُن کے گھر پر پھل کا ایک درخت تھا
جسکا پھل بیچ کر یہ دو وقت کی روٹی حاصل کرتے تھے
ایک دن کوئی اللّٰه والا انکا مہمان بنا
اُس دن بڑا بھائی مہمان کے ساتھ کھانے کیلئے بیٹھ گیا اور دونوں چھوٹے بھائی یہ کہہ کر شریک نہ ہوئے کہ اُن کو بھوک ‏نہیں ہے
اِس سے مہمان کا اکرام بھی ہوگیا
اور
کھانے کی کمی کا پردہ بھی رہ گیا
آدھی رات کو مہمان اٹھا
جب تینوں بھائی سو رہے تھے
ایک آری سے وہ درخت کاٹا
اور اپنی اگلی منزل کی طرف نکل گیا

صبح اُس گھر میں کہرام مچ گیا
سارا اہل محلہ اُس مہمان کو کوس رہا تھا جس نے اُس گھر کی
 ‏واحد آمدن کو کاٹ کر پھینک دیا تھا

چند سال بعد وہی مہمان دوبارہ
اُس گاؤں میں آیا تو دیکھا
اُس بوسیدہ گھر پر جہاں وہ مہمان ہوا تھا
اب عالیشان گھر بن گیا تھا
اُن کے دن بدل گئے تھے
تینوں بھائیوں نے درخت کے پھل نکلنے کے انتظار کی اُمید ختم ہونے پر زندگی کیلئے دوسرے اسباب کی
‏تلاش شروع کردی تھی
اور
اللّٰه نے اُن کو برکت عطا فرما دی

جب بھی ہم پر دنیا میں اسباب کا کوئی دروازہ بند ہو جاتا ہے
تو
ہماری بھی زندگی میں ایک زلزلہ آجاتا ہے
ہم سمجھتے ہیں
جیسے سب کچھ ختم ہوگیا
جبکہ یہ کسی نئی شروعات کیلئے
قدرت کا پیغام ہوتا ہے
اِنسان کی فطرت ہے وہ
دستیاب صورتحال میں
کمفرٹ زون بنا لیتا ہے
وہ حسرت سے دُنیا کو دیکھتا ہے
لیکن
اپنا کمفرٹ زون چھوڑنے کی ہمت نہیں کر پاتا  کبھی قدرت ہمیں اُس کمفرٹ زون سے
نکالتی ہے کبھی ہمارا امتحان ہی
اُس زون سے نکلنا بن جاتا ہے۔
اِس لئیے کہتے ہیں
ایک در بند ہوتا ہے تو
اللّہ تعالیٰ سو نئیے در کھول دیتا ہے‏‎بیشک ایسا ہی ہے 
مگر میرے نزدیک یہ اللّٰہ ہی کی حکمت ہے 
جو اسنے پیدائش سے پہلے ہمارا رزق لکھا ھوتا ہے تو اسکے حساب سے ہی ہمیں اپنے کمفرٹ زون میں رکھنا ہے یا زلزلہ لا کے اگلے زون میں لے کے جانا ہے یہ اسی کی مرضی اور حکمت ہے ہم اسی کے بندے اور اسی کی رحمت کے طالب ہیں۔

دنیا اور آخرت کا زلزلہ

رات کی تارکی میں اس کا دل بہت بے چین تھا۔ جانے کیسی بےچینی تھی۔ اکتا کر موبائل اٹھایا اور بےتوجہی سے فیس بک کھولی اور مزید اکتاہٹ طاری ہوگئی۔ پورا دن صرف واٹس ایپ کی پرائیویسی لیک ہونے کے چرچے۔ 

"واٹس ایپ ساری پرائیویسی پبلک کر دے گا۔ آپ کے فلاں فلاں راز باہر آجائیں گے۔ 
واٹس ایپ کے متبادل ٹیلی گرام، سگنل یا بپ (جو ترک بھائیوں کی بنائی گئی ایپ ہے) ڈاؤنلوڈ کرنے کے مشورے۔"


وہ حیران تھی کیا سب لوگوں کو اپنی پرائیویسی اتنی عزیز تھی....؟ ہر کوئی چاہتا تھا اس کے موبائل کی ہر خبر دوسرے سے محفوظ رہے۔ اگر اتنی ہی فکر سوار ہے تو ایسے کام کرتے ہی کیوں ہیں؟ جب ایک غلط کام کرلیا تو اس کے انجام کے لیے تیار کیوں نہیں ہوتے؟ لڑکیوں کو اپنی تصویروں کی فکر تھی۔اس کا دل چاہتا تھا پہلے ایک تھپڑ مارے ان کو پھر پوچھے کہ جب اتنی فکر ہوتی ہے تو موبائل میں رکھتی کیوں ہو...؟ یہ جھوٹا ملمع خود پر طاری کرکے پھر اپنی تصویر کھینچ کر اسے بار بار دیکھتی ہو، اپنی کس حس کی تسکین کرتی ہو.....؟ اور باقی سب لوگ گناہ تو کرتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ ان کا کوئی کارنامہ رشتے داروں کے سامنے ظاہر نہ ہو۔

اکتاہٹ مزید بڑھ گئی تھی۔ اس نے موبائل ایک طرف رکھ دیا۔ 

"حد ہے جب ہم انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں تو کیا پرائیویسی..... پہلے ہی نجانے ہمیں کہاں کہاں چیک کیا جارہا ہے۔ کسی انسان کا ڈیٹا اور کارنامے محفوظ نہیں۔ ایسے کام ہی کیوں کریں جنہیں چھپانا پڑے... یہ دنیا بھی ناں عجیب ہے لوگوں کے گناہوں سے بھری پڑی ہے لیکن ہر کوئی چاہتا ہے اس کے گناہ چھپے رہیں۔ کبھی کسی کو پتہ نہ چلے۔" 

وہ خود کلامی کرتے کرتے الماری کے پاس آگئی تھی کسی کتاب کی تلاش میں۔ وہ مطالعہ کرنا چاہتی تھی. شاید دل کی بےچینی کو سکون مل جائے۔ آخری پارے کی تفسیر ہاتھ لگ گئی. اسے اٹھا کر اپنے بستر میں بیٹھ گئی نجانے کیسے کتاب کھلتے ہی سامنے سورہ الزلزال آگئی اور وہ وہیں رک گئی۔ پورے دن کی بحث آنکھوں کے سامنے پھر گئی۔ فیس بک پر زلزلہ ہی تو آگیا تھا آج خبروں کے باہر آنے کا۔ چاہے وہ خبر جھوٹی ہو یا سچی لیکن لوگ تو چونک گئے تھے، گھبرا گئے تھے، واٹس ایپ کو چھوڑنے کی باتیں ہونے لگی تھیں۔ اپنی پرانی چیٹس اور تصویریں پر نظرِ ثانی ہونے لگی تھی لیکن یہ جو اتنی بڑی اطلاع، آج سے تقریباً 1400 سال پہلے دے دی گئی تھی کہ زمین ہلا دی جائے گی اور سب باہر آجائے گا اور اس سب میں "خبریں" بھی شامل ہیں۔ وہ اٹھی اور تفسیر الماری میں رکھ دی. باوضو تھی اس لیے سوچا قرآن سے سورہ الزلزال کی تلاوت ہی کرلوں۔ قرآن کھولا تو اونچی آواز میں تلاوت کرنے کی ہمت ہی نہ ہوئی بس بمشکل ہونٹ ہی ہل سکے۔

*سورۃ الزلزال (مدنی — کل آیات 8)*
*بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ*

*اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَـهَا (1)*  *جب زمین بڑے زور سے ہلا دی جائے گی۔*

*وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَـهَا (2)*
*اور زمین اپنے بوجھ نکال پھینکے گی۔*

*وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَـهَا (3)* 
*اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہوگیا۔*

*يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَا (4)*
*اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی۔*

*بِاَنَّ رَبَّكَ اَوْحٰى لَـهَا (5)*
*اس لیے کہ آپ کا رب اس کو حکم دے گا۔*

*يَوْمَئِذٍ يَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا لِّيُـرَوْا اَعْمَالَـهُمْ (6)* 
*اس دن لوگ مختلف حالتوں میں لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھائے جائیں۔*

*فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْـرًا يَّرَهٝ (7)* 
*پھر جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔*

*وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٝ (8)*
*اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔*

وہ تھک گئی اس سورت کو پڑھ کر۔ اسے ایسا لگا جیسے ساری زندگی کا حساب دیا ہو۔ اس کے ہاتھ شل ہوگئے۔
 
*آفت کا معرکہ دم ردو بدل ہوا*
*پھولی شقی کی سانس بھی بازو بھی شل ہوا*

ایک معرکہ ہی تو تھا گناہ چھپانے کا۔ اپنی پرائیویسی کو برقرار رکھنے کا۔ اس نے میز پر قرآن رکھا اور تھک کر جائے نماز پر بیٹھ گئی۔

"یااللہ  قرآن کا حق کیسے ادا ہو؟ سب کو ڈر ہے اپنی خبروں کے کھل جانے کا، اپنے راز کے باہر آجانے کا۔ دنیا میں بدنامی کا خوف ہے لیکن کسی کو یہ یاد نہیں کہ زمین سب یاد رکھ رہی ہے اور جس دن اللہ کا حکم ہوگا وہ سب بیان کردے گی۔ زمین کی یادداشت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے کوئی کیسے اسے مٹائے گا۔ ہر انسان کے پل پل کی خبر اللہ کے حکم سے لکھی جارہی ہے، آخرت میں وہ تمام خبریں باہر آجائیں گی۔ اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے کہاں منہ چھپائیں گے اس وقت؟ 

آج تو واٹس ایپ کے متبادل کئی ایپس ہیں، کہا جارہا ہے ٹیلی گرام بہت محفوظ ایپ ہے۔ بپ (Bip) تو سیکرٹ چیٹ کا آپشن بھی دیتی ہے اور اگر چیٹ پر 5 یا 10 سیکنڈ کا وقت لگا دیا جائے تو وہ اتنے وقت کے بعد خودبخود ڈیلیٹ ہوجاتی ہے اور کوئی بھی آپ کی اس چیٹ کے بارے میں جان نہیں سکتا۔ ہم سب قیامت کے دن کیا کریں گے جب کوئی متبادل ایپ نہیں ہوگی۔ جب زمین بھی ہموار کر دی جائے گی جب چھپنے کی جگہ بھی نہیں ہوگی کوئی پیڑ، کوئی آڑ، کوئی دیوار نہیں ملے گی۔ سایہ بھی ان کو نصیب ہوگا جو پرہیز گار ہوں گے۔

 یااللہ اس دن کا خوف کیوں نہیں ہوتا ہمیں؟ آج کوئی فحش ویڈیو دیکھتے ہوئے دس بار دروازے کی طرف دیکھتے ہیں کہ کوئی آ تو نہیں رہا اس وقت کیسے بچیں گے جب ہمارا ہر گناہ ہمیں تفصیل سے بتایا جا رہا ہوگا۔"

اس وقت کے خوف سے اس کے دل کی بےچینی تو ختم ہوگئی تھی لیکن ایک نئی فکر ذہن و دل پر سوار ہوگئی تھی۔ اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کی فکر۔ قیامت کے دن سب سامنے آنے کا خوف۔ اور اسی خوف میں وہ یاد آئے جن کے آنسو بہہ نکلے تھے سورہ الزلزال سن کر۔ جو اس شدت سے روئے کہ آج 1400 سال بعد وہ سوچتی ہے وہ کیوں روئے...؟

وہ تو مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے تھے۔ انہیں تو غارِیار کا لقب ملا تھا۔ وہ تو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے دوست تھے۔ جن کی سادگی کا یہ حال تھا کہ اپنے گھر کا تمام سامان غزوہ کی تیاری میں دے دیتے تھے۔ ان کے اور ان کے گھر والوں کے گزارے کے لیے تو صرف اللہ اور اس کا رسول ہی کافی تھا۔ جن کو صدیق کا لقب عطا ہوا اور ایسا عطا ہوا کہ اس کے بغیر ان کا نام ہی مکمل نہیں ہوتا۔ اگر وہ بھی اس سورت کو سن کر روتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ہم تو ہنسنےکا حق ہی نہیں رکھتے۔ وہ جو گناہ کی پرچھائی سے بھی دور رہتے تھے جب ان کی آنکھیں اس سورت کی وجہ سے بہہ نکلیں تو ہم گناہوں میں ڈوبے انسان اتنے بے فکرے کیسے ہوسکتے ہیں.؟ ہم کیسے خود کو قرآن سے دور کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔ ہم کیسے توبہ سے غافل ہوسکتے ہیں..... ؟

یہ دنیا میں آئی ایک چھوٹی سے تھرتھلی کیا ہمیں اس آخرت کے زلزلے کی یاد نہیں دلا سکتی جب زمین ہل جائے گی اور ایسی ہلے گی کہ ساری خبریں اگل دے گی۔  کیا ہم اس وقت سے نظریں چرا سکتے ہیں...؟ کیا ہم اس وقت کی تیاری نہیں کر سکتے۔۔۔؟ کیا اللہ کے آگے رازوں کے آشکار ہونے کی خبر اتنی ہلکی ہے کہ ہم اس خبر سے گزر جاتے ہیں۔ وہ کون و مکاں کا مالک ہر آن ہمیں دیکھ رہا ہے لیکن جب وہ ہمیں سامنے کھڑا کر کے ایک ایک بات بتائے گا تو افففففففف میرے مالک.....

اس سے آگے وہ سوچ ہی نہیں سکی. اسے لگا کہ بس اب موت آئی کہ تب آئی۔ اس نے تھک کر سر گھٹنوں پر گرا لیا۔ جانتی تھی اس کی رحمت سب ڈھانپ سکتی ہے۔ ہم عاصی ہیں تو وہ تواب ہے

*مجھ سے عاصی کا، مجھ سے سیہ کار کا*
*کون غمخوار ہوتا مگر آپ ہیں*

بات تو صرف غور کرنے کی ہے، انتظار تو صرف پلٹنے کا ہے، ضرورت تو صرف سمجھنے کی ہے۔
اس نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ آنکھیں موند لیں۔

✒️: ماوراء زیب


امتحان

زندگی ایک بہت خوبصورت امتحان ہے، جس کا ایک پرچہ ہمیں روز حل کرنا ہوتا ہے.

اس پرچے میں کبھی خوشیاں ہوتی ہیں، کبھی غم ہوتے ہیں، کبھی محبتیں ہوتی ہیں اور کبھی نفرتیں اور بدگمانیاں!

ہمیں اس پرچے کو حل کرنا ہوتا ہے، اور ہم اپنی غفلت میں کئی جگہیں خالی چھوڑ دیتے ہیں.

وہ جگہیں جہاں ہمیں خوشی کے جواب میں شکر لکھنا ہوتا ہے، جہاں ہمیں درد کے جواب میں صبر درج کرنا ہوتا ہے. ہم وہاں کچھ بھی نہیں کرتے.

زیادہ غلطی تب ہوتی ہے جب ہم جگہ خالی چھوڑنے کی بجائے اپنی مرضی کے جواب درج کردیتے ہیں اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا.
وہی احساس جو ہمارے اندر بتدریج گھٹتا گھٹتا ختم ہورہا ہے.

ہمیں رشتے توڑتے ہوئے احساس ہونا چاہیے، مگر وہ ہمارے پاس ہوتا ہی نہیں.

ہمیں کسی کو دکھ دیتے ہوئے احساس ہونا چاہیے، کسی کی خوشی کا. مان رکھنے کی حس ہونی چاہیے مگر وہ ہمارے پاس نہیں ہوتا.

ہم تہی دامان دوسروں کے دامن سے بھی اچھی چیزیں نوچ لیتے ہیں، اور ہمیں اتنا بھی نہیں پتہ ہوتا کہ کسی دوسرے کی نعمت ہمارے دامن کو نہیں بھر سکتی. ہمارا دامن صرف ہمارے نصیب سے بھر سکتا ہے جسے ہم خود ضائع کردیتے ہیں.

ہمیں اب رک جانا چاہیے.

زندگی پرچے لا رہی ہے، کون جانے کس پرچے میں کیا درج کرنا پڑے؟

اپنے ہر روز کے پرچے کو اچھی طرح حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے. کیونکہ کوئی پرچہ دوبارہ نہیں ملے گا، ہماری کی ہوئی کوئی غلطی بھی حل شدہ ماضی کے پرچوں میں سے مٹائی نہیں جائے گی.

اب ہمیں سنبھل جانا چاہیے، کیونکہ اسی میں ہماری اور ہمارے اردگرد کے انسانوں کی بھلائی ہے.

ضرورت

صرف عورت مرد کی تسکین کیلئے پیدا نہیں کی گئی مرد بھی عورت کی تسکین کیلئے پیدا کیا گیا ہے.
بحیثیت مرد ہم کہتے ہیں کہ جب ہمیں ضرورت ہو عورت یعنی بیوی ہماری ضرورت پوری کرے لیکن ایسے کتنے مرد ہیں جو اپنی بیوی کی ضرورت کا بھی خیال رکھتے ہیں؟
ہمارے معاشرے کا یہ بڑا المیہ ہے کہ جب شوہر کو تسکین درکار ہو تو وہ دھڑلے سے بیوی کے پاس چلا جاتا ہے اور اپنا حق لے کر اپنی ضرورت پوری کر لیتا ہے لیکن اگر بیوی کو شوہر کی ضرورت ہو تو وہ شوہر کے پاس جا کر اپنا حق لے کر اپنی ضرورت پوری نہیں کر سکتی وہ تب بھی شوہر کے ہی پاس آنے کا انتظار کرتی ہے کیونکہ اسے یہ ڈر لا حق ہوتا ہے کہ اسے بدکردار یا جسم کا بھوکا نہ سمجھا جائے.
میاں بیوی کا رشتہ احساس کا رشتہ ہوتا ہے، محبت، عزت اور اعتماد کا رشتہ ہوتا ہے...
بیوی اگر تھکی ہوئی ہے یا بیمار ہے یا کسی پریشانی میں مبتلا ہے تو مرد کو چاہیے کہ ضرورت اور حق کو چھوڑ کر اسے احساس کی دوا اور محبت کی چادر مہیا کرے تاکہ یہ معاملات دو طرفہ ہوں ورنہ یک طرفہ معاملا صرف اذیت دیتا ہے اور اذیت کے سوا کچھ نہیں دیتا.
دو طرفہ محبت، عزت، اعتماد ،انڈرسٹینڈگ ،احساس، کوشش، جدوجہد ہی اس رشتے کو مضبوط بناتے ہیں ورنہ ایک دن دونوں میں سے ایک فریق تھک کر بیزار ہو جاتا ہے اور ہار مان لیتا ہے کہ سب کچھ میں اکیلا ہی کیوں یا اکیلی ہی کیوں کروں جب سامنے والا نہیں کرتا..

Saturday, January 16, 2021

محبت اور عادت


کچھ لوگوں نے مجھ سےکہا کہ،،، مجاہد ملک یہ بتایئے کہ لوگوں کی محبت کے دعوے کیوں مدھم پڑھ جاتے ہیں؟؟؟ ہر شخص کی داستان سننے کے بعد اندازہ لگایا کہ،،، ہر انسان کی محبت سچی ہے۔۔۔ کسی نے کہا محبت کو کیسے ماپا جائے،،، تو کسی نے کہا اس سے بے وفائی کردی۔۔۔

درحقیقت چاہے کوئی مرد ہے یا عورت،،، ہمیشہ مخالف جنس سے بات کرنا اچھا لگتا ہے۔۔۔ بات کرتے کرتے ہم اتنا Close ہو جاتے ہیں کہ،،، ہمیں اس شخص کی عادت پڑ جاتی ہے۔۔۔ اگر وہ بات نا کرے تو یوں لگتا ہے کہ،،، جیسے دنیا میں کوئی رشتہ باقی نہیں رہا۔۔۔ اس کے بغیر سانسیں رکنے لگتی ہیں۔۔۔ یہ سب محبت نہیں،،، اس کی عادت کہلاتی ہے۔۔۔ اور عادت وقت کے ساتھ ساتھ ہی جاتی ہے۔۔۔ جن کو لگتا ہے کہ محبت کو صرف محسوس کیا جاسکتا ہے،،، تو میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔۔۔

1: اگر کوئی انسان آپ کی قدر کرے،،، آپ کو وقت دے،،، آپ کو سمجھائے،،، آپ کا بہتر سوچے،،، آپ کو درست مشورہ دے،،، آپ کو جھوٹے خواب نا دکھائے،،، حقیقت پسند ہو۔۔۔ وہ آپ سے سچی محبت کرتا ہے۔۔۔ کیونکہ محبت میں جھوٹ بولنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔۔۔ اور جو جھوٹ بولے وہ محبت نہیں کرسکتا۔۔۔

2: اگر کوئی شخص آپ کی بات چپ چاپ مان جاتا ہو،،، آپ روٹھ جائیں وہ منا لیتا ہو۔۔۔ آپ کا خیال رکھے،،، آپ تکلیف میں ہوں وہ چاہے آپ کے پاس نا ہو،،، لیکن آپ کا حال چال پوچھے۔۔۔ آپ کو پریشان دیکھ کر خود پریشان ہوجائے۔۔۔ تو وہ شخص آپ سے سچی محبت کرتا ہے۔۔۔

3: جو شخص آپ کی ہر خوشی میں خوش ہوجائے،،، آپ کا مسکراتا چہرا دیکھ کر وہ چہکے۔۔۔ اور آپ کو اداس دیکھ کر اس کی جان نکلنے لگ جائے۔۔۔ آپ روئیں تو اس کی آنکھیں نم ہوجائیں،،، تو سمجھ لیں اس کے دل میں آپ کے لیئے بےانتہا محبت ہے۔۔۔

4: جو شخص آپ میں وہ خوبیاں بتائے،،، جو آپ میں نا ہوں۔۔۔ خوابوں کی دنیا میں لے جائے،،، آپ کی تعریف کرتے نا تھکتا ہو۔۔۔ آپ سے ہر بات چھپائے،،، اور وہ سب کچھ آپ کو دوسروں سے پتا چلے۔۔۔ تو یاد رکھیں،،، وہ آپ سے محبت نہیں کرتا۔۔۔ جو بات بات پہ چھوڑ دینے کے بات کرتا ہو۔۔۔ یاد رکھیں وہ آپ کو ضرور چھوڑ دے گا۔۔۔ ایسے لوگوں سے بچیں۔۔۔

5: جو لوگ محبت کے نام پہ رشتے توڑتے ہیں،،، دلوں کو توڑتے ہیں،،، بے سکون کرتے ہیں،،، وہ لوگ محبت نہیں کرتے۔۔۔ کیونکہ محبت تو رشتوں کو جوڑتی ہے۔۔۔ جو شخص آپ کو اپنی ذات کی سچائی سونپ دے،،، تو یاد رکھیں وہ آپ پہ اعتبار کر رہا ہے۔۔۔ اور اعتبار کا دوسرا نام محبت ہی تو ہے۔۔۔
  
6: محبت میں شادی ضروری نہیں ہوتی،،، عزت ضروری ہوتی ہے۔۔۔ بعض لوگ شادی کو منزل سمجھ لیتے ہیں۔۔۔ اگر شادی ہی منزل ہوتی تو کبھی Love Marriage کے بعد طلاق نا ہوتی۔۔۔

سب سے اہم بات،،، دعا مانگنے کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ آپ کا محرم ہی ہو۔۔۔ بہت سی Females کہتی ہیں،،، مجاہد ملک ہم آپ کے لئے دعا گو رہتیں  ہیں۔۔۔ میرا حال احوال پوچھتی ہیں۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میرا ان سے کوئی ریلیشن ہے۔۔۔ لیکن پھر بھی ان کو مجھ سے محبت ہے۔۔۔ کیونکہ ایک احترام کا رشتہ بھی محبت ہی ہوتا ہے۔۔۔ کسی کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا بھی محبت ہے۔۔۔ کسی کی Care کرنا بھی محبت ہے۔۔۔ اس لیے محبت کیجئے۔۔۔ والدین بچوں سے کرتے ہیں وہ بھی تو محبت ہی ہے۔۔۔ محبت بانٹیں،،، دلوں کو سکون دیں۔۔۔ عادت کے نام پہ محبت کو بدنام نا کریں۔۔۔ کیونکہ کسی کی عزت کی خاطر دو قدم پیچھے ہٹ جانا،،، بدنام نا کرنا،،، یہ بھی محبت ہی ہے۔۔۔ جو کہتے ہیں کہ،،، محبت ایک بار ہوتی ہے۔۔۔ ان کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں،،، محبت بار بار ہوتی ہے۔۔۔  اس   لئے محبت بانٹیں۔۔۔ کیونکہ انسان کے برتن میں جو کچھ ہوتا ہے،،، وہی وہ بانٹتا ہے۔۔۔ آپ بھی محبتیں بانٹنے والے بن جائیں،،، بدلے میں آپ کو بھی بے شمار محبتیں ملیں گی۔۔۔!!!

Wednesday, January 13, 2021

خوفزدہ نہ ہوں

اگر آپکے حالات بگڑ جاۓ تو خوفزدہ نہ ہوں

ایک بحری جہاز میں کافی بوجھ تھا سفر کے دوران طوفان کی وجہ سے ہچکولے کھانے لگا جہاز ڈوبنے کے قریب تھا ، لہذا اس کے کپتان نے تجویز پیش کی کہ جہاز پر بوجھ ہلکا کرنے اور زندہ رہنے کے لئے کچھ سامان کو سمندر میں پھینک دیا جائے۔
تو انہوں نے متفقہ طور پر اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک سوداگر کا سارا سامان چھوڑ دیا جائے کیونکہ یہ ڈوبنے سے بچنے کے لیے بہت ہوگا ،
جس تاجر کا سامان پھینکا جانا تھا اس نے اعتراض کیا کہ کیوں اسکا ہی سارا سامان پھینکا جائے اور تجویز پیش کی کہ سارے تاجروں کے سامان میں سے تھوڑا تھوڑا پھینکا جائے تا کہ نقصان تمام لوگوں میں تقسیم ہو اور نہ صرف ایک شخص متاثر ہو۔
تب باقی سارے تاجروں نے اس کے خلاف بغاوت کی ، اور چونکہ وہ ایک نیا اور کمزور سوداگر تھا ، اس لئے انہوں نے اس کے سامان کے ساتھ اسے سمندر میں پھینک دیا اور اپنا سفر جاری رکھا۔
لہروں نے سوداگر کے ساتھ لڑائی کی یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہوگیا۔
جب وہ بیدار ہوا تو اسے معلوم ہوا کہ لہروں نے اسے کسی نامعلوم اور ویران جزیرے کے کنارے پھینک دیا ہے۔
سوداگر بہت مشکل سے اٹھا اور سانس لیا یہاں تک کہ وہ گھٹنوں کے بل گر گیا اور خدا سے مدد کی درخواست کی اور کہا کہ وہ اسے اس تکلیف دہ صورتحال سے بچائے ..

کئی دن گزرے ، اس دوران تاجر نے درختوں کے پھل اور خرگوش کا شکار کر کے گزارا کیا
اور پانی قریبی ندی سے پیتا ... اور رات کی سردی اور دن کی گرمی سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے درخت کی لکڑی سے بنی ایک چھوٹی جھونپڑی میں سوتا۔
ایک دن ، جب تاجر اپنا کھانا بنا رہا تھا ، تیز آندھی چل رہی تھی اور اس کے ساتھ لکڑی کی جلتی ہوئی لاٹھی اٹھ جاتی ہے ، اور اس کی لاپرواہی میں اس کی جھونپڑی میں آگ لگ جاتی تھی ، لہذا اس نے آگ بجھانے کی کوشش کی۔
لیکن وہ ایسا نہ کر سکا ، کیوں کہ آگ نے پوری جھونپڑی کو اس کے ساتھ ہی بھسم کردیا
یہاں سوداگر چیخنے لگا:
"کیوں ، رب ..؟
مجھے غلط طریقے سے سمندر میں پھینک دیا گیا اور میرا سامان ضائع ہوگیا۔
اور اب تو یہ جھونپڑی بھی جو میرے گھر ہے جل گئی ہے
اور میرے پاس اس دنیا میں کچھ نہیں بچا ہے
اور میں اس جگہ پر اجنبی ہوں ..
یاﷲ یہ ساری آفتیں مجھ پر کیوں آتی ہیں ..

اور سوداگر غم سے بھوکا ہی رات کو سو گیا۔
لیکن صبح ایک "حیرت انگیز واقعہ"اس کا انتظار کر رہا تھا ... جب اسے جزیرے کے قریب پہنچنے والا ایک جہاز ملا اسے بچانے کے لئے ایک چھوٹی کشتی سے اتر رہا تھا ...
اور جب سوداگر جہاز پر سوار ہوا تو خوشی کی شدت سے یقین نہیں کر پا رہا تھا ، اور اس نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اسے کیسے ڈھونڈا اور اس کا ٹھکانہ کیسے جانا؟
انہوں نے اس کا جواب دیا:
"ہم نے دھواں دیکھا ، لہذا ہمیں معلوم ہوا کہ کوئی شخص مدد کے لئے پکاررہا ہے ، لہذا ہم دیکھنے آئے"

اور جب اس نے اُن کو اپنی کہانی سنائی کہ کس طرح اسے ناجائز طریقے سے سوداگروں کے جہاز سے پھینک دیا گیا
انہوں نے اسے بتایا "کہ سوداگروں کا جہاز منزل تک نہیں پہنچا
ڈاکوں نے اس پر چھاپہ مارا ، سب کو لوٹ لیا اور لوگوں کو مار ڈالا "۔
تو سوداگر روتے ہوئے سجدہ کرتا ہے اور کہتا ہے ، یاﷲ یاﷲ ، تمہارے سب کام اچھے ہیں۔
پاک ہے وہ رب " جس نے قتل سے بچایا اور اس کے لیے بھلائی کا انتخاب کیا"۔

اگر آپ کے حالات بگڑ جاتے ہیں تو خوفزدہ نہ ہوں ..
بس اتنا بھروسہ کریں کہ خدا ہر چیز میں حکمت رکھتا ہے
یہ آپ کے ساتھ ہوتا ہے اور اس کا بہترین ...
اور جب آپ کی جھونپڑی جل جائے گی ...
جان لو کہ خدا آپ کے امور کا انتظام کر رہا ہے اور آپ کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے.  جو کرتا ہے اللہ کرتا ہے اور اللہ جو کرتا بہتر کرتا ہے
منقول

Monday, January 11, 2021

اسلام جیت گیا

کاندھلہ میں ایک مرتبہ ایک زمین کا ٹکڑا تھا اس پر جھگڑا چل رہا تھا، مسلمان کہتا تھا کہ یہ ہمارا ہے،ہندو کہتا تھا کہ یہ ہمارا ہے،چنانچہ یہ مقدمہ بن گیا۔انگریز کی عدالت میں پہنچا، جب مقدمہ آگے بڑھا تو مسلمان نے اعلان کر دیا کہ یہ زمین کا ٹکڑا  مجھے ملا تو میں مسجد بناؤں گا،ہندو نے جب یہ سُنا تو اس نے ضد میں کہہ دیا کہ یہ ٹکڑا اگر ہمیں ملا تو ہم اس پر مندر بناؤں گا۔
اب بات دو انسانوں کی انفرادی تھی،لیکن اس میں رنگ اجتماعی بن گیا،حتیٰ کہ اِدھر مسلمان جمع ہو گئے اور اُدھر ہندو اکٹھے ہو گئے  اور مقدمہ ایک خاص نوعیت کا بن گیا،اب سارے شہر میں قتل و غارت ہو سکتی تھی،خون خرابہ ہو سکتا تھا، تو لوگ بھی بڑے حیران تھے کہ نتیجہ کیا نکلے گا؟
۔جج انگریز تھا وہ بھی پریشان تھا کہ اس میں کوئی صلح صفائی کا پہلو نکالے،ایسا نہ ہو کہ یہ آگ اگر جل گئی تو اس کا بجھانا مشکل ہو جائے گا۔جج نے مقدمہ سننے کے بجائے ایک تجویز پیش کی کہ کیا کوئی ایسی صورت ہے کہ آپ لوگ آپس میں بات چیت کے ذریعے مسئلہ کا حل نکال لیں، تو ہندوؤں نے ایک تجویز پیش کی کہ ہم آپ کو ایک مسلمان کا نام تنہائی میں بتائیں گے،آپ اگلی پیشی پر اُن کو بُلا لیجئے اور ان سے پوچھ لیجئے،اگر وہ کہیں کہ یہ مسلمانوں کی زمین ہے تو ان کو دے دیجئے اور اگر وہ کہیں کہ یہ مسلمانوں کی زمین نہیں ہندوؤں کی ہے تو ہمیں دے دیجئے۔
جب جج نے دونوں فریقوں سے پوچھا تو دونوں اس پر راضی ہو گئے۔مسلمانوں کے دل میں یہ بات تھی کہ مسلمان ہو گا جو بھی ہوا تو وہ مسجد بنانے کے لیے بات کرے گا۔چنانچہ انگریز نے فیصلہ دے دیا اور  مہینہ یا چند دنوں کی تاریخ دے دی کہ اس دن آنا اور میں اس بڈھے کو بھی بلوا لوں گا۔اب جب مسلمان باہر نکلے تو بڑی خوشیاں منا رہے تھے، سب کود رہے تھے، نعرے لگا رہے تھے۔ہندوؤں نے پوچھا اپنے لوگوں سے کہ تم نے کیا کہا،انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک مسلمان عالم کو حکم بنا لیا ہے کہ وہ اگلی پیشی پر جو کہے گا اسی پر فیصلہ ہو گا، اب ہندوؤں کے دل مرجھا گئے اور مسلمان خوشیوں سے پھولے نہیں سماتے تھے۔لیکن انتظار میں تھے کہ اگلی پیشی میں کیا ہوتا ہے۔چنانچہ ہندوؤں نے مفتی _الہٰی بخش کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ_ کا نام بتایا کہ جو _شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ_ کے شاگردوں میں سے تھے اور اللہ نے ان کو سچی سچی زندگی عطا فرمائی تھی،مسلمانوں نے دیکھا کہ مفتی صاحب تشریف لائے ہیں تو سوچنے لگے کہ مفتی صاحب تو مسجد کی ضرور بات کریں گے۔چنانچہ جب انگریز جج نے پوچھا کہ بتایئے، مفتی صاحب! یہ زمین کا ٹکڑا کس کی ملکیت ہے؟اُن کو چونکہ حقیقتِ حال کا پتہ تھا انہوں نے جواب دیا کہ یہ زمین کا ٹکڑا تو ہندو کا ہے۔اب جب انہوں نے کہا کہ یہ ہندو کا ہے تو انگریز جج نے اگلی بات پوچھی کہ کیا اب ہندو لوگ اس کے اوپرمندر   تعمیر کر سکتے ہیں؟ مفتی صاحب نے فرمایاجب ملکیت ان کی ہے تو جو چاہیں کریں،چاہے گھر بنائیں یا مندر بنائیں۔یہ  اُن کا اختیار ہے۔چنانچہ فیصلہ دے دیا گیا کہ یہ زمین ہندو کی ہے۔
مگر انگریز جج نے فیصلے میں ایک عجیب بات لکھی،فیصلہ کرنے کے بعد لکھا کہ
"آج اس مقدمہ میں مسلمان ہار گئے مگر اسلام جیت گیا"۔جب انگریز  جج نے یہ بات کہی تو اس وقت ہندوؤں نے کہا کہ آپ نے تو فیصلہ دے دیا ہے ہماری بات بھی سن لیں ہم اسی وقت کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں اور آج یہ اعلان کرتے ہیں اب ہم اپنے ہاتھوں سے یہاں مسجد بنائیں گے۔
عقل کہہ رہی تھی کہ جھوٹ  بولو کہ مسجد بنے گی۔حضرتِ مفتی صاحب نے سچ بولا اور سچ کا بول بالا ہوا،سچے پرودگار نے اس جگہ مسجد بنوا   کر دکھلا دی۔کئی مرتبہ نظر آتا ہے جھوٹ بولنا آسان راستہ ہے اور سچ بولنا آسان راستہ نہیں ہے،یہ کانٹوں بھرا راستہ ہوا کرتا ہے،جھوٹے سے اللہ تعالیٰ نفرت کرتے ہیں،انسان نفرت کرتے ہیں، انسان اعتماد کھو بیٹھتا ہے، ایک جھوٹ کو نبھانے کے لیے کئی جھوٹ بولنے پڑھتے ہیں۔لہٰذا سچی زندگی کو آپ اختیار کیجئے،اس پر پرودگار آپ کی مدد فرمائے گا۔

Sunday, January 10, 2021

ایک اَچھا سبق

6 سال کا ایک بچہ اَپنی چار سالہ چھوٹی بہن کے ساتھ بازار سے گُزر رہا تھا۔ 
چلتے چلتے جب اس نے مُڑ کر دیکھا تو اس کی بہن پیچھے رہ گئی تھی' وہ ایک کھلونوں کی دوکان کی کھڑکی سے اندر کسی چیز کو بڑے شوق و انہماک سے دیکھ رہی تھی' لڑکا اس کے قریب گیا اور پوچھنے لگا۔
کیا تُمھیں کوئی کھلونہ چاہیئے..؟ لڑکی نے سر ہلاتے ھوئے ایک کھلونے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بہن کے ساتھ دوکان کے اندر گیا۔ اور ایک ذمہ دار بڑے بھائی کی طرح وہ گُڑیا اُٹھا کر اپنی بہن کے ہاتھ میں تھما دی۔ بہن کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں'
دوکاندار یہ سارا منظر بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ کہ اتنا چھوٹا سا بچہ کس قدر محبت اور ذمہ داری سے اپنی بہن کی  فرمائش پوری کر رہا ہے' وہ لڑکا دوکاندار کے پاس آیا اور کہنے لگا۔
انکل... یہ گُڑیا کتنے کی ہے۔؟؟
دوکاندار ایک جہاندیدہ شخص تھا۔ اور زندگی کی اُتار چڑھاؤ دیکھ چکا تھا۔ اس نے بڑے شفقت سے پوچھا۔ تم اس کی کتنی قیمت دے سکتے ھو۔؟
لڑکے نے جیب سے وہ ساری سیپیاں نکالیں' جو اس نے ساحل سے چنیں تھیں اور دوکاندار کے سامنے میز پر رکھ دیئں'
دوکاندار ان سیپیوں کو ایسے گننے لگا۔ جیسے پیسے گن رہا ھو' اس نے لڑکے کے سمت نظر اُٹھاکر دیکھا تو لڑکے نے پریشان ھوکر پوچھا۔ کیا کم ہیں انکل..؟
نہیں نہیں یہ تو اس گُڑیا کی قیمت سے کہیں زیادہ ہیں' یہ کہہ کر دوکاندار نے چار سیپیاں رکھ لیں' اور باقی اس لڑکے کو واپس لوٹا دیں' لڑکے نے سیپیاں اپنے جیب میں ڈالیں' اور خوشی خوشی اپنی بہن کے ساتھ دوکان سے نکل گیا۔
دوکاندار کا ایک کاریگر بڑے غور سے یہ ماجرا دیکھ رہا تھا۔ دوکاندار کے پاس آ کر کہنے لگا۔ یہ کیا کیا۔؟ اتنی قیمتی گُڑیا چار سیپیوں کے عوض اس بچے کو دے دی۔؟
دوکاندار کہنے لگا... یہ ہمارے لیئے سیپیاں ہیں لیکن اس لڑکے کے لیئے بہت قیمتی ہیں' اس عمر میں شائد اسے اندازہ نہیں' کہ پیسؤں کی اہمیت کیا ہے' لیکن جب یہ بڑا ھوگا۔ تو اسے بھی ہماری طرح سمجھ آجائے گی۔
اور جب اسے یاد آجائے گا کہ کبھی اس نےاَپنی بہن کے لیئے گُڑیا صرف چار سیپیاں دے کر خریدی تھی' تو وہ سمجھے گا۔ کہ دنیا ابھی اچھے انسانوں سے بھری پڑی ہے' 
اس سے اُسے ایک اَچھا سبق ملے گا۔ اور مُمکن ہے یہ واقع اسے بھی کسی کے ساتھ کچھ اَچھا کرنے کی ترغیب کا باعث بن جائے"