کسی گاؤں میں تین بھائی رہتے تھے
اُن کے گھر پر پھل کا ایک درخت تھا
جسکا پھل بیچ کر یہ دو وقت کی روٹی حاصل کرتے تھے
ایک دن کوئی اللّٰه والا انکا مہمان بنا
اُس دن بڑا بھائی مہمان کے ساتھ کھانے کیلئے بیٹھ گیا اور دونوں چھوٹے بھائی یہ کہہ کر شریک نہ ہوئے کہ اُن کو بھوک نہیں ہے
اِس سے مہمان کا اکرام بھی ہوگیا
اور
کھانے کی کمی کا پردہ بھی رہ گیا
آدھی رات کو مہمان اٹھا
جب تینوں بھائی سو رہے تھے
ایک آری سے وہ درخت کاٹا
اور اپنی اگلی منزل کی طرف نکل گیا
صبح اُس گھر میں کہرام مچ گیا
سارا اہل محلہ اُس مہمان کو کوس رہا تھا جس نے اُس گھر کی
واحد آمدن کو کاٹ کر پھینک دیا تھا
چند سال بعد وہی مہمان دوبارہ
اُس گاؤں میں آیا تو دیکھا
اُس بوسیدہ گھر پر جہاں وہ مہمان ہوا تھا
اب عالیشان گھر بن گیا تھا
اُن کے دن بدل گئے تھے
تینوں بھائیوں نے درخت کے پھل نکلنے کے انتظار کی اُمید ختم ہونے پر زندگی کیلئے دوسرے اسباب کی
تلاش شروع کردی تھی
اور
اللّٰه نے اُن کو برکت عطا فرما دی
جب بھی ہم پر دنیا میں اسباب کا کوئی دروازہ بند ہو جاتا ہے
تو
ہماری بھی زندگی میں ایک زلزلہ آجاتا ہے
ہم سمجھتے ہیں
جیسے سب کچھ ختم ہوگیا
جبکہ یہ کسی نئی شروعات کیلئے
قدرت کا پیغام ہوتا ہے
اِنسان کی فطرت ہے وہ
دستیاب صورتحال میں
کمفرٹ زون بنا لیتا ہے
وہ حسرت سے دُنیا کو دیکھتا ہے
لیکن
اپنا کمفرٹ زون چھوڑنے کی ہمت نہیں کر پاتا کبھی قدرت ہمیں اُس کمفرٹ زون سے
نکالتی ہے کبھی ہمارا امتحان ہی
اُس زون سے نکلنا بن جاتا ہے۔
اِس لئیے کہتے ہیں
ایک در بند ہوتا ہے تو
اللّہ تعالیٰ سو نئیے در کھول دیتا ہےبیشک ایسا ہی ہے
مگر میرے نزدیک یہ اللّٰہ ہی کی حکمت ہے
جو اسنے پیدائش سے پہلے ہمارا رزق لکھا ھوتا ہے تو اسکے حساب سے ہی ہمیں اپنے کمفرٹ زون میں رکھنا ہے یا زلزلہ لا کے اگلے زون میں لے کے جانا ہے یہ اسی کی مرضی اور حکمت ہے ہم اسی کے بندے اور اسی کی رحمت کے طالب ہیں۔
No comments:
Post a Comment