Sunday, January 24, 2021

استعداد انسانی

گینیس ورلڈ ریکارڈ یا گینیس بک آف ورلڈ ریکارڈ  سے تو تقریباً سبھی واقف ہیں. کسی بھی میدان میں بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ استعداد رکھنے والے انسان کا نام مع کام اس میں درج کیا جاتا ہے. مثال کے طور پر دنیا کا تیز ترین انسان یوسین بولٹ ہے جس نے سو میٹر فاصلہ 9.58 سیکنڈز میں طے کر کے 2009ء میں یہ ریکارڈ بنایا.

اسی طرح دنیا کا سب سے لمبی چھلانگ لگانے والا انسان مائیک پاول ہے، جس نے 1991ء میں  8.95 میٹر لمبی چھلانگ لگا کر یہ ریکارڈ اپنے نام کیا۔ اسی طرح وزن اٹھانے سے لے کر نیزہ پھینکنے، ایک منٹ میں زیادہ سے زیادہ اخروٹ توڑنے سے لے کر زیرِ آب سانس روکنے تک اور زیادہ کھانے سے لے کر دیر تک گانے تک ۔۔۔ ہزاروں میدانوں میں بنی آدم کی زیادہ سے زیادہ استطاعت ماپی جاتی ہے اور سب سے زیادہ استطاعت کے حامل شخص کو سند سے نوازا جاتا ہے اور اس کا نام اپنے میدان کے سرخیل کے طور پر کتاب اور ویب سائٹ میں درج کر دیا جاتا ہے۔

اب اگر اسی استعداد کو دوسرے زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو یہ استطاعت بنی نوع انسان کی حد یا limitations کا تعین ہے. گویا روئے زمین پر کوئی بھی انسان سو میٹر فاصلہ 9.58 سیکنڈز سے کم وقت میں طے نہیں کر سکتا۔ یا یہ کہ کائنات کا کوئی فرد بھی 104.8 میٹر سے زیادہ فاصلے تک نیزہ نہیں پھینک سکتا۔ یا کہ کوئی بنی آدم 100 میٹر تیراکی 46.9 سیکنڈز سے کم وقت میں نہیں کر سکتا. و علیٰ ھٰذالقیاس. 
  
اب سوچیں کہ اگر ہر ہر میدان میں حضرت انسان کی کارکردگی کی کوئی نہ کوئی حد ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ذہنی استعداد کی کوئی حد نہ ہو؟؟؟ یادداشت کے معاملہ میں دیکھیں تو کرۂ ارض کا ایک  بھی انسان ایسا نہیں ہو گا کہ جسے ایک سال قبل کے کسی ایک دن کی تمام کارگذاری مکمل جزیات کے ساتھ یاد ہو۔ بلکہ چھ ماہ قبل کی بھی نہیں یا شاید تین ماہ قبل کی بھی نہیں. بالکل ایسے ہی چیزوں کو سمجھنے میں بھی انسانی ذہن کی حد ہو گی ۔

تو پھر اگر خالقِ کائنات کی تخلیق یا ابتداء انسانی ذہن اور سمجھ کے احاطہ میں نہیں آ رہی اور صدیوں بلکہ ہزاروں لاکھوں سال سے نہیں آ رہی تو پھر کیوں نہ اسے باقاعدہ انسانی ذہن کی حد یا limitation تسلیم کر لیا جائے۔ بجائے اس  کے کہ سرے سے وجودِ خلاق عظیم کا ہی انکار کر دیا جائے۔ میرے خیال میں ہمیں اب یہ مان لینا چاہیئے کہ انسانی ذہن کی استطاعت بس اتنی ہے کہ وہ مخلوق اور تخلیقات کی ابتداء اور معرضِ وجود میں آنے کے عمل کو سمجھ سکتا ہے خالق کے نہیں۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک دس عددی کیلکولیٹر پر اگر بارہ عدد کا سوال حل کرنے کوشش کی جائے تو جواب ہر بار E ہی آتا ہے۔ چاہے کوئی یہ عمل ہزاروں بار کرے یا ہزاروں سال کرے. اور پھر اسی طرح تو نوعِ انسانی کی ایمان بالغیب کی پرکھ مکمل ہو گی ورنہ تو سب عیاں ہو جاتا

No comments:

Post a Comment