زندگی ایک بہت خوبصورت امتحان ہے، جس کا ایک پرچہ ہمیں روز حل کرنا ہوتا ہے.
اس پرچے میں کبھی خوشیاں ہوتی ہیں، کبھی غم ہوتے ہیں، کبھی محبتیں ہوتی ہیں اور کبھی نفرتیں اور بدگمانیاں!
ہمیں اس پرچے کو حل کرنا ہوتا ہے، اور ہم اپنی غفلت میں کئی جگہیں خالی چھوڑ دیتے ہیں.
وہ جگہیں جہاں ہمیں خوشی کے جواب میں شکر لکھنا ہوتا ہے، جہاں ہمیں درد کے جواب میں صبر درج کرنا ہوتا ہے. ہم وہاں کچھ بھی نہیں کرتے.
زیادہ غلطی تب ہوتی ہے جب ہم جگہ خالی چھوڑنے کی بجائے اپنی مرضی کے جواب درج کردیتے ہیں اور ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا.
وہی احساس جو ہمارے اندر بتدریج گھٹتا گھٹتا ختم ہورہا ہے.
ہمیں رشتے توڑتے ہوئے احساس ہونا چاہیے، مگر وہ ہمارے پاس ہوتا ہی نہیں.
ہمیں کسی کو دکھ دیتے ہوئے احساس ہونا چاہیے، کسی کی خوشی کا. مان رکھنے کی حس ہونی چاہیے مگر وہ ہمارے پاس نہیں ہوتا.
ہم تہی دامان دوسروں کے دامن سے بھی اچھی چیزیں نوچ لیتے ہیں، اور ہمیں اتنا بھی نہیں پتہ ہوتا کہ کسی دوسرے کی نعمت ہمارے دامن کو نہیں بھر سکتی. ہمارا دامن صرف ہمارے نصیب سے بھر سکتا ہے جسے ہم خود ضائع کردیتے ہیں.
ہمیں اب رک جانا چاہیے.
زندگی پرچے لا رہی ہے، کون جانے کس پرچے میں کیا درج کرنا پڑے؟
اپنے ہر روز کے پرچے کو اچھی طرح حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے. کیونکہ کوئی پرچہ دوبارہ نہیں ملے گا، ہماری کی ہوئی کوئی غلطی بھی حل شدہ ماضی کے پرچوں میں سے مٹائی نہیں جائے گی.
اب ہمیں سنبھل جانا چاہیے، کیونکہ اسی میں ہماری اور ہمارے اردگرد کے انسانوں کی بھلائی ہے.
No comments:
Post a Comment