جب انسان جذبوں کی گہرائی کا احساس پا لیتا ہے تب خاموشی بولنے لگتی ہے اور الفاظ بےمعنی ٹھہرتے ہیں.
اور جب کائنات کی بولی سمجھنے لگے تب وہ سراپا سماعت بن جاتا ہے ششدر و حیران. ایک معصوم بچے کی طرح سب کچھ نیا سیکھنے کے عمل سے گزرنے لگتا ہے. سینکڑوں بار کا دیکھا آسمان ، اپنے مفہوم بدل لیتا ہے. اس سے پرے کے جہان آشکار ہونے لگتے ہیں.
زمین صرف قدم اٹھانے کے لیے بنیاد نہیں رہتی. خالق کائنات کی نشانیوں سے بھرا خزانہ بن جاتی ہے. اس کے ذروں میں نئے جہان نظر آنے لگتے ہیں. اس کی تہوں میں نئے ممکنات کے در ملتے ہیں. سانس لینے کا عمل شعور سے اوجھل نہیں رہتا بلکہ' شعوری احساس تشکر' میں بدل جاتا ہے. ہر سانس '' اللہ ھو ''کی گردان بن جاتا ہے. اللہ ھو یعنی اللہ تو ہی ہے، بس تو ہی ہے ہر سو ہر رنگ ہر سمت میں جلوہ بس تیرا ہی ہے. سرسراتی ہوا ہو یا بہتے پانی کا سرگم سمندری موجوں کی چنگھاڑ ہو یا طائر کا لحن ہر آواز میں تیری حمد سنائی دیتی ہے.
کبھی تیتر کی میٹھی بولی 'سبحان تیری قدرت ' سنیے اور سر دھنیے. بچے کی پہلی چیخ مجھے ہمیشہ اللہ ھو سنائی دیتی ہے. شیر خوار کی اوں اوں میں '' تو تو تو '' سنائی دیتا ہے. کبھی موقع ملے تو سننے کی کوشش کیجیے. چکی کی پھک پھک دراصل ''حق حق'' ہے. چرخے کی چرخ چوں چرخ چوں ، اللہ ھو اللہ ھو ہے. گھوڑے کی ٹک ٹکا ٹک، ھو اللہ ھو ہے. کوے کی کائیں کائیں ،سائیں سائیں ہے .جرس کی ٹن ٹن، کن کن کن ہے.
ہر آواز ہر خاموشی رب حقیقی کی طرف بلاتی پکار ہے سنیے تو زرا سنیے تو !
No comments:
Post a Comment