#شرم_و_حیاء____ایمان_کی_ایک_اھم_ترین_شاخ !
شرم و حیاء انسان کا وہ فطرتی وصف ھے جس سے اُسکی بہت سی اخلاقی خوبیوں کی پرورش ھوتی ھے ۔ اسی کی بدولت انسان کو عفت و عصمت ، پاک بازی و پارسائی اور پاک دامنی حاصل ھوتی ھے ۔ اور اسی کے سبب وہ دوسروں کے ساتھ مروت و لحاظ اور چشم پوشی کا معاملہ کرتا ھے ۔ بلکہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اسی ایک فطرتی وصف کی برکت سے انسان بہت سے گناھوں سے محفوظ رہتا ھے ۔ شرم و حیاء کا یہ وصف ھر انسان میں فطرتی طور پر موجود ھوتا ھے اور اگر اِس کی شروع ھی سے نگہداشت اور حفاظت کی جائے تو انسان کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ وصف بھی خوب نشو و نما پاتا ھے اور پھر جب انسان اور یہ وصف آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ خوب گھل مل جاتے ھیں تو پھر یہ انسان کی عادت بن کر رہ جاتا ھے اور اُس کی پوری زندگی کو سنوار دیتا ھے ۔ لیکن اگر اِس کی بروقت صحیح حفاظت اور مناسب تربیت نہ کی جائے اور اسے یوں ھی آزاد اور بےمہار چھوڑ دیا جائے تو پھر یہ وصف انسان کی زندگی کا ایک بدنما داغ بن کر اُبھرتا ھے اور اِسکی وجہ سے انسان کی مکمل زندگی داغدار بن جاتی ھے ۔
اسلام نے اپنی رُوشن اور مبارک تعلیمات کے ذریعہ انسان کو زندگی کے تمام مواقع پر شرم و حیاء کی صحیح نگہداشت اور مناسب تربیت کرنے کا حکم دیا ھے ۔ وضع قطع ھو یا بود و باش ، چال چلن ھو یا نشست و برخاست ، اجتماعی زندگی ھو یا انفرادی زندگی غرض ھر موقع پر اسلام نے انسان کو شرم و حیاء کا پابند اور اُس کا مکلف بنایا ھے ۔
خود رسول اکرم ﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ کی زندگیاں شرم و حیاء سے عبارت تھیں ۔ چنانچہ حدیث پاک میں آتا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لڑکپن کے زمانہ میں ایک مرتبہ خانہ کعبہ کی تعمیر کا کام ھو رھا تھا اور آپ ﷺ اینٹیں اُٹھا اُٹھا کر لا رھے تھے تو آپؐ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ : ''تم اپنا تہبند کھول کر کندھے پر رکھ لو تا کہ اینٹ کی رگڑ نہ لگ سکے۔'' آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ایسا کیا تو آپؐ پر بیہوشی طاری ھو گئی ، جب ھوش آیا تو آپؐ کی زبان مبارک پر تھا : ''میرا تہبند ! '' حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے تہبند باندھ دیا ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں شرم و حیاء کا مادہ اِس قدر غالب تھا کہ آپؐ پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرمیلے محسوس ھوتے تھے ! چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ : ''کنواری لڑکی اپنے پردے میں جتنی شرم و حیاء والی ھوتی ھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس سے بھی زیادہ شرم و حیاء والے تھے ۔ (صحیح بخاری)
حضرت سعید بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ : ''ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی چادر اُوڑھے ھوئے اپنے بستر پر لیٹے ھوئے تھے کہ اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی اور آپؐ اُسی طرح لیٹے رھے ، وہ اپنی بات کر کے چلے گئے ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اندر آنے کی اجازت مانگی ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی اجازت دے دی اور آپؐ اُسی طرح لیٹے رھے ، وہ بھی اپنی ضرورت کی بات کر کے چلے گئے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ : ''پھر میں نے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا کہ : ''تم بھی اپنے کپڑے ٹھیک کر لو (پھر مجھے اجازت دی) میں بھی اپنی ضرورت کی بات کر کے چلا گیا ۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کیا : '' یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ! کیا بات ھے آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے آنے پر جتنا اھتمام کیا اتنا حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے آنے پر نہیں کیا؟۔'' حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''عثمان بہت ھی حیاء والے آدمی ھیں تو مجھے ڈر ھوا کہ اگر میں اُنہیں اسی حالت میں اجازت دے دوں گا تو وہ اپنی ضرورت کی بات کہہ نہ سکیں گے۔'' اس حدیث کے بہت سے راوی یہ بھی روایت کرتے ھیں کہ : ''حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا : ''کیا میں اُس سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے حیاء کرتے ھیں؟۔'' (مسلم)
حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بہت زیادہ باحیاء ھونے کا تذکرہ کرتے ھوئے فرمایا کہ : ''بعض دفعہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ گھر میں ھوتے اور دروازہ بھی بند ھوتا لیکن پھر بھی غسل کے لئے اپنے کپڑے نہ اُتار سکتے اور وہ اتنے شرمیلے تھے کہ (غسل کے بعد) جب تک وہ کپڑے سے ستر نہ چھپا لیتے کمر سیدھی نہ کر سکتے یعنی سیدھے کھڑے نہ ھو سکتے تھے۔''. (مسند احمد)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ھیں کہ : ''میں نے (حیاء کی وجہ سے) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرم والی جگہ کبھی نہیں دیکھی۔'' (شمائل ترمذی) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ھیں کہ : ''تم لوگ اللہ سے حیاء کیا کرو ! کیوں کہ میں بیت الخلاء میں جاتا ھوں تو اللہ سے شرما کر اپنے ستر کو ڈھک لیتا ھوں۔'' (کنزالعمال) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ (اللہ تعالیٰ سے شرم و حیاء کی وجہ سے) جب کسی تاریک کمرے میں غسل کر لیتے تو سیدھے کھڑے نہ ھوتے بلکہ کمر جھکا کر کبڑے بن کر چلتے اور کپڑے لے کر پہن لیتے (اور پھر سیدھے ھوتے) (حلیۃ الاولیاء) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ لنگی باندھے بغیر پانی میں کھڑے ھیں تو آپؓ نے فرمایا : ''میں مرجاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے ، پھر مرجاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے ، پھر مرجاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے یہ مجھے اِس سے زیادہ پسند ھے کہ میں اِن کی طرح کروں۔'' (حلیۃ الاولیاء)
حضرت اشج عبد القیس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ھیں کہ : ''حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''تمہارے اندر دو خصلتیں ایسی ھیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند فرماتے ھیں.'' میں نے پوچھا وہ دو خصلتیں کون سی ھیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''برد باری اور حیاء۔'' میں نے پوچھا : ''یہ پہلے سے میرے اندر تھیں یا اب پیدا ھوئی ھیں؟۔'' حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ''نہیں ! پہلے سے تھیں۔'' میں نے کہا : ''تمام تعریفیں اُس اللہ کے لئے ھیں جس نے مجھے ایسی دو خصلتوں پر پیدا فرمایا جو اُسے پسند ھیں۔'' (مصنف ابن ابی شیبہ) حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ھے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ''حیاء'' تو سارے کی ساری خیر ھی ھے۔'' (مسند بزار)
مگر افسوس کہ آج کل کے معاشرے میں فحاشی و عریانی کو جو عروج بخشا جا رھا ھے ۔ بےشرمی و بےحیائی کو جو فروغ دیا جا رھا ھے ۔ اُ سے جس طرح رُوشن خیالی اور جدت پسندی قرار دیا جا رھا ھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُسے جس آزادی و بہادری اور جرأت و دلیری کے ساتھ سر انجام دینے کی کوششیں کی جا رھی ھیں اُنہیں دیکھ کر آج کل کے دور میں بڑی ھی مشکل سے یہ باور ھوتا ھے کہ اسلام کی چودہ سو سالہ درخشاں تاریخ میں کبھی ھمارے آباؤ اجداد او ر ھماری مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی ایسی گزری ھوں گی کہ جن کی عفت و عصمت ، پاک بازی و پاک دامنی اور اُن کی بے داغ جوانی پر آج کی تاریخ بجا طور پر فخر محسوس کرتی ھو گی ۔
No comments:
Post a Comment