Monday, March 15, 2021

آزادی


بھیڑیوں نے بکریوں کے حق میں جلوس نکالا کہ بکریوں کو آزادی دو بکریوں کے حقوق مارے جا رہے ہیں انہیں گھروں میں قید کر رکھا گیا ہے ایک بکری نے جب یہ آواز سنی تو دوسری بکریوں سے کہا کہ سنو سنو ہمارے حق میں جلوس نکالے جا رہے ہیں چلو ہم بھی نکلتے ہیں اور اپنے حقوق کی آواز اٹھاتے ہیں
ایک بوڑھی بکری بولی بیٹی ہوش کے ناخن لو یہ بھیڑئے ہمارے دشمن ہیں ان کی باتوں میں مت آو
مگر نوجوان بکریوں نے اس کی بات نہ مانی کہ جی آپ کا زمانہ اور تھا یہ جدید دور ہے اب کوئی کسی کے حقوق نہیں چھین سکتا یہ بھیڑئے ہمارے دشمن کیسے یہ تو ہمارے حقوق کی بات کر رہے ہیں
بوڑھی بکری سن کر بولی بیٹا یہ تمہیں برباد کرنا چاہتے ہیں ابھی تم محفوظ ہو اگر ان کی باتوں میں آگئی تو یہ تمہیں چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے
بوڑھی بکری کی یہ بات سن کر جوان بکری غصے میں آگئی اور کہنے لگی کہ اماں تم تو بوڑھی ہوچکی اب ہمیں ہماری زندگی جینے دو تمہیں کیا پتہ آزادی کیا ہوتی ہے باہر خوبصورت کھیت ہونگے ہرے بھرے باغ ہونگے ہر طرف ہریالی ہوگی خوشیاں ہی خوشیاں ہونگی تم اپنی نصیحت اپنے پاس رکھو اب ہم مزید یہ قید برداشت نہیں کرسکتیں یہ کہ کر سب آزادی آزادی کے نعرے لگانے لگیں اور بھوک ہڑتال کردی ریوڑ کے مالک نے جب یہ صورتحال دیکھی تو مجبورا انہیں کھول کر آزاد کردیا بکریاں بہت خوش ہوئیں اور نعرے لگاتی چھلانگیں مارتی نکل بھاگیں 
مگر یہ کیا؟؟؟؟ بھیڑئیوں نے تو ان پر حملہ کردیا اور معصوم بکریوں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا
آج عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والے درحقیقت عورتوں تک پہنچنے کی آزادی چاہ رہے ہیں یہ ان معصوموں کے خون کے پیاسے ہیں انہیں عورتوں کے حقوق کی نہیں اپنی غلیظ پیاس کی فکر ہے کاش کہ کوئی سمجھے!!!!!!

Saturday, March 13, 2021

شاپنگ بیگ

از: اشتیاق احمد
میں پریشان تھا کہ آخر اس کو اپنا شاپنگ بیگ یاد کیوں نہیں آیا….؟
___________________________________
گاہک کے دکان سے چلے جانے کے بعد میری نظر اس شاپنگ بیگ پر پڑی۔ میں فوراً اٹھ کر دکان سے نکل آیا۔ دائیں بائیں دور تک نظریں دوڑائیں، لیکن وہ گاہک کہیں نظر نہ آیا۔ اب تو میں گھبرا گیا۔ میں نے جلدی سے اس شاپر کو ٹٹولا اس میں کچھ کپڑے ٹھونسے گئے تھے۔ ان کپڑوں کو جلدی جلدی باہر نکال کر بنچ پر رکھا…. اور پھر میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ ان کپڑوں میں سونے کے زیورات لپیٹ کر رکھے گئے تھے۔ میں نے جلدی سے وہ کپڑے جوں کے توں اس شاپنگ بیگ میں ٹھونس دیے اور بیگ کو دکان کے سیف میں رکھ دیا۔
اب یہ اطمینان تو ہو چکا تھا کہ اس میں کوئی دھماکا خیز مواد نہیں ہے…. بس سونے کے زیورات ہیں اور ظاہر ہے…. کوئی دم میں زیورات کا مالک واپس آنے والا ہوگا…. لہٰذا میں مطمئن ہو کر بیٹھ گیا…. پھر جوں جوں وقت گزرنے لگا، پریشانی ایک بار پھر مجھے اپنے حصار میں لینے لگی۔ میں سوچ رہا تھاکہ آخر اس شخص کو اپنا شاپنگ بیگ اب تک کیوں یاد نہیں آیا۔ وہ تو عام چیزوں کا بیگ تو تھا نہیں…. اس میں تو سونے کے زیورات تھے اور میرے اندازے کے مطابق زیورات اتنے کم نہیں تھے۔ کم از کم دس تولے کے تو ضرور تھے…. اور آج کل دس تولے سونے کی قیمت تین ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے وہ شخص اتنی بڑی رقم کی چیز کیسے بھول گیا۔
وہ دن اس الجھن میں گزر گیا۔ دوسرے دن بھی وہ گاہک نہ آیا…. اب تو میری الجھن حد درجے بڑھ گئی…. سب سے بڑی الجھن یہ تھی کہ اسے اب تک اپنے زیورات کیوں یاد نہیں آئے۔ وہ انہیں بھول کیسے گیا؟
تیسرا دن بھی گزر گیا…. پھر تو دن ایک ایک کرکے گزرتے چلے گئے…. میری الجھن کا کیا پوچھنا، بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی…. آخر میں نے ایک عالم دین سے اس بارے میں پوچھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے…. انہیں میں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ معاملہ ایک بڑی رقم کا ہے۔ انہوں نے کہا۔
"ایک ماہ تک انتظار کریں، رقم کا مالک نہ آئے تو اس کی طرف سے صدقہ کردیں۔"اب میں نے ان سے پوچھا۔
"اور اگر نقدی زیادہ ہو…. ہو سکتا ہے…. وہ اس رقم سے اپنی بیٹی کا زیور خریدنے نکلا ہو اور میری دکان سے نکلنے کے بعد اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہو گیا…. اور کچھ مدت بعد وہ مر جائے…. اس صورت میں کیا ہوگا؟ "
اس کے جواب میں عالم دین نے کہا۔
" صورت حال اگر یہ ہے تو ابھی آپ اس امانت کو جوں کا توں رکھیں۔"
مجھے یہ بات پسند آئی۔ میں نے اس شاپر کو اپنے سیف کے ایک خفیہ خانے میں رکھ دیا…. دن گزرتے چلے گئے…. یہاں تک کہ تین سال بعد ایک پریشان حال شخص میری دکان میں داخل ہوا…. وہ کافی دیر تک میری طرف دیکھتا رہا۔ میں سمجھ نہ سکا کہ وہ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہا ہے…. آخر مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے کہا۔

" آپ میری طرف اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں؟"
"تین سال پہلے کا ایک دن یا د کرانے چلا ہوں…. میں یہاں آیا تھا…. کچھ کپڑا دیکھا تھا، پسند نہیں آیا تھا۔ اس لیے کچھ خریدے بغیر دکان سے نکل گیا تھا…. اور میں اپنا شاپنگ بیگ یہیں چھوڑ گیا تھا…." یہاں تک کہہ کر وہ خاموش ہو گیا….
اب میں نے اس کی طرف غور سے دیکھا…. دیکھتا چلا گیا۔ پھر بولا۔
" اس میں کیا تھا….؟"
"سونے کے زیورات تھے۔" وہ بولا۔
" اور آپ فوری طور پر واپس کیوں نہ آئے…. سونے کے زیورات کو آپ بھول کیسے گئے۔"
" اس لیے کہ اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ جو شاپنگ بیگ میں آپ کی دکان پر چھوڑ آیا ہوں…. اس میں زیورات ہیں۔"
" کیا مطلب؟ " میں حیرت زدہ رہ گیا، کیونکہ یہ اس نے ایک اور عجیب بات کہہ دی تھی۔
" ہاں ! یہی بات ہے…. مجھے معلوم نہیں تھا…. دراصل وہ بیگ میرا نہیں تھا۔ کسی سے بدل گیا تھا۔ آپ کی دکان سے پہلے میں ایک اور دکان پر کپڑا دیکھنے کے لیے گیا تھا…. وہاں میں جس گاہک کے ساتھ بیٹھا اس کے پاس بھی ویسا ہی شاپنگ بیگ تھا…. لیکن اس وقت نہ اس نے اس بات کی طرف دھیان دیا، نہ میں نے…. میں اس سے پہلے دکان سے نکل آیا اور آپ کی دکان میں آگیا۔ جب کہ جس کا وہ بیگ تھا، وہ اس دکان میں کافی دیر رکا رہا…. پھر وہ میرا والا بیگ اٹھا کر چلا گیا…. اسے یہ بات اپنے گھر جا کر معلوم ہوئی…. اب تو وہ سر پیٹ کر رہ گیا…. اور میں آپ کے پاس اس لیے نہیں آیا کہ میرے بیگ میں بے کار اور پرانے کپڑے تھے…. اور گاؤں سے آنا میرے لیے مشکل تھا…. لہٰذا میں نے اس بیگ کو سر سے جھٹک دیا، جب کہ زیورات کا مالک پاگلوں کی طرح اپنا بیگ تلاش کرتا رہا۔ سب سے پہلے وہ اس دکان پر گیا۔ جس میں وہ اور میں جمع ہو گئے تھے۔ دکان دار نے اسے بتایا کہ اسے کوئی بیگ نہیں ملا۔ اب وہ بے چارہ کیا کہتا…. وہاں سے بے یقینی کے عالم میں گھر آگیا۔ جو بیگ وہ غلطی سے لے آیا تھا، اس نے اس کی چیزوں کو دیکھا۔ اس میں صرف پرانے کپڑے تھے۔ اس نے جان لیا کہ دراصل اس کا بیگ بدل گیا ہے…. اور ایسا بھول میں ہوا ہے۔ اب اس نے اخبارات میں اشتہارات شروع کیے…. لوگوں سے ذکر کرتا رہا…. کرتا رہا آخر اس کا یہ ذکر مجھ تک پہنچ گیا…. میں تو اپنے بیگ کو قریب قریب بھول ہی گیا تھا، کیونکہ اس میں تو کوئی خاص چیز تھی نہیں…. لیکن یہ ساری کہانی سن کر مجھے یاد آگیا۔ میں تو تین سال پہلے اپنا شاپنگ بیگ ایک دکان پر بھول آیا تھا…. کہیں وہ بیگ اس بے چارے کا تو نہیں تھا۔ بس اس خیال کا آنا تھا کہ میں سیدھا یہاں چلا آیا۔ ابھی میں اس سے نہیں ملا ہوں…. کیونکہ پہلے میں یقین کر لینا چاہتا ہوں کہ ایسا ہوا ہے، پھر آپ کے بارے میں بھی تو طرح طرح کے خیالات آتے رہے ہیں۔ یہ کہ بھلا آج کل اتنے دیانت دار لوگ کہاں ملتے ہیں۔ میرا مطلب یہ کہ امید نہیں تھی …. لیکن پھر بھی چلا آیا کہ کیا خبر …. میں اسے یہ خوشی دے سکوں۔"
اس کے خاموش ہونے پر میں بولے بغیر اٹھا اور سیف میں سے بیگ نکال کر اس کے آگے رکھ دیا۔ اس کی حیرت قابل دید تھی…. اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا…. پھر وہ اٹھا اور بے اختیار مجھ سے لپٹ گیا۔ کتنی ہی دیر وہ میری دیانتداری پر تبصرہ کرتا رہا۔ پھر اس نے کہا۔

" اب مجھے یہ امانت اس تک پہنچا نی ہے…. جو اس کے لیے تین سال سے دربدر پھر رہا ہے۔"
" میری خواہش ہے…. میں بھی آپ کے ساتھ چلوں۔"
"ہاں ہاں ! کیوں نہیں…. آپ تو اس معاملے میں برابر کے شریک ہیں…. اور یہ آپ ہی کی ذات ہے…. جس کی وجہ سے آج ہم یہ زیورات دینے کے قابل ہیں…. شوق سے چلیے۔"
میں نے دکان بند کی اور اس کے ساتھ چل پڑا…. کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد ہم اس گاؤں میں پہنچے اور پھر اس کے گھر کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے ہمارے دل دھک دھک کررہے تھے۔ ہم سوچ رہے تھے…. ہم جو اسے یہ خوشی دے رہے ہیں ۔ وہ اسے سنبھال بھی پائے گا یا نہیں…. آخر دروازہ کھلا…. وہ باہر نکلا۔ وہ برسوں کا بیمار لگ رہا تھا…. ایک مسلسل تلاش نے اسے گویا ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا دیا تھا۔ حسرت اور یاس نے اس کے چہرے پر ڈیرہ جمالیا تھا…. اس نے ہم دونوں کے چہروں پر ایک نظر ڈالی …. پھر بولا۔
"فرمائیے! آپ کون ہیں…. مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟"
" آپ کی تلاش کامیاب ہو گئی …. آج ہم آپ کی امانت آپ کی لوٹا رہے ہیں…. یہ ہیں آپ کے زیورات۔"
یہ کہتے ہوئے میں نے اس کا بیگ اس کی آنکھوں کے سامنے کر دیا…. وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا شاید اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
" کیا…. کیا واقعی…. اس میں میری بچی کے زیورات ہیں۔"
" ہاں بابا…." ہم دونوں بولے۔
اس نے پاگلوں کے سے انداز میں بیگ جھپٹ لیا ، پھر اسے الٹ دیا…. اور کپڑوں سے نکلنے والے زیورات کو تک کرپھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔ پھر اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے…. اس کا رونا ہم سے دیکھانہ گیااور ہم بھی اس کے ساتھ رونے لگے…. یہ رونا اس قدر خوشی کا رونا تھا کہ روکے نہیں رک رہا تھا…. ہمیں ایک بے پایاں خوشی ملی تھی…. یہ خوشی ان آنسوؤں کے بغیر نظر آہی نہیں سکتی تھی۔

ایک لونڈی درکار ہے

ہارون الرشید کو ایک لونڈی کی ضرورت تهی، اس نے اعلان کیا کہ مجهے ایک لونڈی درکار ہے،اس کا یه اعلان سن کر اس کے پاس دو لونڈیاں آئیں اور کہنے لگیں ہمیں خرید لیجیے! ان دونوں میں سے ایک کا رنگ کالا تها ایک کا گورا.
هارون الرشید نے کہا مجهے ایک لونڈی چاهیے دو نہیں.
گوری بولی تو پهر مجهے خرید لیجیے حضور! کیونکہ گورا رنگ اچها ہوتا ہے...
کالی بولی حضور رنگ تو کالا ہی اچها ہوتا هے آپ مجهے خریدیے.
ہارون الرشید نے ان کی یہ گفتگو سنی تو کہا. اچها تم دونوں اس موضوع پر مناظرہ کرو کہ رنگ گورا اچها ہے یا کالا؟
جو جیت جائے گی میں اسے خرید لونگا..
دونوں نے کہا بہت اچها! چنانچہ دونوں کا مناظرہ شروع ہوا
اور کمال یہ ہوا کہ دونوں نے اپنے رنگ کے فضائل و دلائل عربی زبان میں فی البدیہ شعروں میں بیان کیے. یہ اشعار عربی زبان میں هیں مگر مصنف نے ان کا اردو زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے، لیجئے آپ بهی پڑهئے اور غور کیجئے کہ پہلے زمانے میں لونڈیاں بهی کس قدر فہم و فراست کی مالک ہوا کرتی تهیں
گوری بولی:
''موتی سفید ہے اور قیمت ہے اس کی لاکهوں،
اور کوئلہ ہے کالا پیسوں میں ڈهیر پالے''
(بادشاہ سلامت ! موتی سفید ہوتا ہے، اور کس قدر قیمتی هوتا ہے، اور کوئلہ جو کہ کالا ہوتا ہے کس قدر سستا ہوتا ہے کہ چند پیسوں میں ڈهیر مل جاتا ہے)
اور سنیے؛
''اللہ کے نیک بندوں کا منہ سفید ہوگا،
اور دوزخی جو ہونگے،منہ ان کے هونگے کالے''
بادشاه سلامت اب آپ ہی انصاف کیجیے گا کہ رنگ گورا اچها ہے یا نہیں؟
بادشاہ ''گوری'' کے یہ اشعار سن کر بڑا خوش ہوا
اور پهر کالی سے مخا طب ہوکر کہنے لگا. سنا تم نے؟؟ اب بتاو کیاکہتی ہو؟؟
کالی بولی حضور!
''ہےمشک نافہ کالی قیمت میں بیش عالی،
ہے روئی سفید اور پیسوں میں ڈهیر پالی''
(کستوری کالی ہوتی ہے، مگر بڑی گراں قدر اور بیش قیمت مگر روئی جع کہ سفید ہوتی ہے، بڑی سستی مل جاتی ہے اور چند پیسوں میں ڈهیر مل جاتی ہے)
اور سنیے؛
''آنکهوں کی پتلی کالی ہے نور کا وہ چشمہ،
اور آنکهہ کی سفیدی ہے نور سے وہ خالی''
بادشاه سلامت اب آپ ہی انصاف کیجیے کہ رنگ کالا اچها ہے یا نہیں؟؟ کالی کے یہ اشعار سن کر بادشاہ اور بهی زیادہ خوش ہوا اور پهر گوری کی طرف دیکها تو فورا بولی:
''کاغذ سفید ہیں سب قرآن پاک والے''
کالی نے جهٹ جواب دیا:
''اور ان پہ جو لکهے ہیں قرآں کے حرف کالے''
گوری نے پهر کہا کہ:
''میلاد کا جو دن ہے روشن وہ بالیقیں ہے''
کالی نے جهٹ جواب دیا کہ:
''معراج کی جو شب هے کالی هے یا نہیں ہے؟؟''
گوری بولی کہ:
''انصاف کیجیے گا، کچهہ سوچیے گا پیارے!
سورج سفید روشن، تارے سفید سارے''
کالی نے جواب دیا کہ:
''ہاں سوچیے گا آقا! ہیں آپ عقل والے،
کالا غلاف کعبہ، حضرت بلال کالے''
گوری کہنے لگی کہ
''رخ مصطفے ہے روشن دانتوں میں ہے اجالا''
کالی نے جواب دیا
''اور زلف ان کی کالی کملی کا رنگ کالا''
بادشاہ نے ان دونوں کے یہ علمی اشعار سن کر کہا. کہ مجهے لونڈی تو ایک درکار تهی مگر میں تم دونوں ہی کو خرید لیتا ہوں،

بیٹی کا رشتہ

ایک حافظ صاحب میرے ساتھ پڑھتے رہے ہیں ، انھیں رشتے دار اس لیے رشتہ نہیں دیتے تھے کہ ان کا اپنا مکان نہیں تھا ۔
ایک اللہ کی بندی نے انھیں بیٹی کا رشتہ دے دیا تو اُسے اس کی ہمشیرہ کہنے لگی:
تو نے اس میں کیا دیکھا ہے؟
فلاں لڑکا خوب صورت بھی ہے ، اس کا اپنا مکان بھی ہے ، تُو نے اسے رشتہ دینا تھا ، اسے کیوں دیا ۔
انھوں نے جواب دیا :
مجھے پتا ہے اس کا مکان نہیں ، لیکن میں نے یہ دیکھا ہے کہ:
بیٹا حافظ قرآن ہے ، نمازی ہے ، نیک ہے ۔
اللہ نے چاہا تو مکان بھی بن جائے گا ۔
اللہ اللہ کرکے ان کی شادی ہوئی ، اور میاں بیوی مدینہ پاک چلے گئے ۔
وہاں سے واپس آکر انھوں نے مکان بھی بنا لیا اور فیکٹری بھی ۔

اللہ کریم نے انھیں اولاد سے بھی نوازا ہے اور ان کی بیوی اپنی دوسری بہنوں کی بہ نسبت زیادہ سکون میں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1: آج کل بعض لوگ لڑکیاں بیاہتے نہیں ، بیچتے ہیں ۔
لاکھوں کے زیوارات ، نقدی ، مکان ، جائیداد اور خرچے وغیرہ کامطالبہ رکھ کر رشتہ دیتے ہیں ۔
ایسا کرنے والے بیٹی کے خیر خواہ نہیں ہوتے ، اس کے لیے گڑھا کھود رہے ہوتے ہیں جس سے وہ زندگی بھر نہ نکل سکے ۔

2: بیٹی کا نکاح کرنے سے پہلے مال و دولت کی فراوانی نہیں دیکھنی چاہیے ، بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ:
¹ لڑکا محبت کرنے والا ہے ، اسے شادی کے لیے مجبور نہیں کیا گیا ۔
² نیک نیت ہے ، اور نیک عادات و اطوار کا مالک ہے ؛ اس کااٹھنا بیٹھنا اچھے لوگوں کے ساتھ ہے ۔
³ کماتا ہے ، نکھٹو نہیں ہے ۔
کماؤ پُتر ، غریب بھی ہو تو ایک دن امیربن جاتا ہے ، لیکن نکھٹو دولت سے بھرے ہوئے مکان بھی اُجاڑ دیتا ہے ۔

3: لڑکی کو سسرال والوں سے کوئی لالچ نہیں ہونا چاہیے ، نہ ان سے کوئی مطالبہ کرنا چاہیے ۔
اعلیٰ قسم کے ملبوسات ، عمدہ قسم کے میک اپ ، اور زیوارات وغیرہ پر نظر رکھنے کے بجائے ، محبت کرنے والے شوہر کو دیکھنا چاہیے ؛ بھلا اس سے اچھا لباس اور زیور کیا ہوسکتا ہے !!

4: برکت والا وہ نکاح ہوتاہےجس میں اخراجات کم ہوں ۔
اور اخراجات کم اسی صورت میں ہوسکتے ہیں جب بیوی بھی تعاون کرے ۔
سعادت مند بیوی کو ضرور تعاون کرنا چاہیے اور اپنی شادی کو باعث برکت بنانا چاہیے ۔

سات مجاہدوں کی ماں

حضرت عفراء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے سات بیٹے تھے۔ان کی پہلی شادی حارث بن رفاعہ سے ہوئی، ان سے تین بیٹے معاذ، معوذ، اور عوف پیدا ہوئے اور دوسری شادی بکیراللیثی سے ہوئی اور ان سے چار بیٹے ایاس، عاقل، خالد اور عامر رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔ پہلے تینوں بیٹے بنوعفراء ماں کے نام سے پکارے جاتے تھے۔آپ کے سات بیٹے تھے سبھی نبی کریم ٖ ﷺ کے ہمراہ جنگ بدر میں شریک ہوئے۔
آپ کے ساتوں بیٹوں نے غزوہ بدر میں بہت عمدہ کردار ادا کیا۔معرکے کے آغاز میں عفراء کے بیٹے معوذ اور عوف رضی اللہ عنہم آگے بڑھے اور دعوت دی مگر مشرکین نے انکار کردیا۔عوف بن عفراء رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضرہوکر عرض کی 'یارسول اللہﷺ! اللہ رب العزت اپنے بندے کے کس کارنامے سے مسکراتے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا:-بغیر زرہ پہنے دشمن کی صفوں میں گھس جانا 
حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے زرہ اتار پھینک دی۔ پھر تلوار پکڑی اور معرکے میں کودگئے۔انہیں کوئی پرواہ نہ تھی کہ وہ موت پر غالب آجائیں گے یا موت ان پر غالب آجائے گی۔آپ معرکہ آرائی میں داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کرکے اللہ سے جاملے۔ پھر ان کے دونوں حقیقی بھائی معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہما نے مل کر ابوجہل بن ہشام کوقتل کیا۔
صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا'ہمارے لئے کون دیکھے گا کہ ابوجہل نے کیا کیا؟حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ گئے دیکھا کہ عفراء کے دو بیٹوں نے اسے تلوار سے وار کرکے ٹھنڈا کردیا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کی داڑھی پکڑ کر کہا"ارے ابوجہل ہے؟اس نے کہا !کیا تم نے کبھی مجھ سے بڑے آدمی کو قتل کیا ہے؟کاش مجھے کسان کے علاوہ کسی اور نے قتل کیا ہوتا۔
رسول اللہﷺ عفراء کے دونوں بیٹوں کی لاشوں کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا:اللہ تعالی عفراء رضی اللہ عنہ نے دونوں بیٹوں پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے ان دونوں نے مل کر امت کے فرعون کو قتل کیا۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت عفراء رضی اللہ عنہ کے تین بیٹے عاقل، عوف، اور معوذ رضی اللہ عنہما میدان بدر میں شہید ہوئے۔یہ اعزاز حضرت عفراء رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا کہ سات بیٹے جنگ بدر میں شریک ہوئے اور تین شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ہم میں سے بہت سے کم لوگ ان کے بارے میں جانتے تھے۔

_[انتخاب: صحابیات'طیبات​]_

Friday, March 12, 2021

بدبودار معاشرہ

       امریکہ کی ایک ریاست میں ایک ماں نے اپنے بچے کے خلاف مقدمہ کیا کہ میرے بیٹے نے گھرمیں ایک کتا پالا ہوا ہے، روزانہ چار گھنٹے اس کے ساتھ گزارتا ہے، اسے نہلاتا ہے، اس کی ضروریات پوری کرتاہے، اسے اپنے ساتھ ٹہلنے کے لئے بھی لے جاتا ہے، روزانہ سیر کرواتا ہے اور کھلاتا پیلاتا بھی خوب ہے اور میں بھی اسی گھرمیں رہتی ہوں لیکن میرا بیٹا میرے کمرے میں پانچ منٹ کے لئے بھی نہیں آتا، اس لئے عدالت کو چائیے کہ وہ میرے بیٹے کو روزانہ میرے کمرے میں ایک مرتبہ آنے کا پاپند کرے۔

          جب ماں نے مقدمہ کیا تو بیٹے نے بھی مقدمے لڑنے کی تیاری کرلی، ماں بیٹے نے وکیل کر لیا دونوں وکیل جج کے سامنے پیش ہوئے اور کاروائی مکمل کرنے کے بعد جج نے جو فیصلہ سنایا ملاحظہ کیجئے۔

    "عدالت آپ کے بیٹے کو آپ کے کمرے میں 5 منٹ کے لیے بھی آنے پر مجبور نہیں کر سکتی کیونکہ ملک کا قانون ہے جب اولاد 18سال کی ہوجائے تو اسے حق حاصل ہوتا ہے کہ والدین کو کچھ ٹائم دے یا نہ دے یا بالکل علیحدہ ہو جائے۔

    رہی بات کتے کی تو کتے کے حقوق لازم ہیں جنہیں ادا کرنا ضروری ہے، البتہ ماں کو کوئی تکلیف ہو تو اسے چائیے کہ وہ حکومت سے رابطہ کرے تو وہ اسے بوڑھوں کے گھر لے جائیں گے اور وہاں اس کی خبرگیری کریں گے۔

   یہ وہ متعفن اقدار ہیں جن کے پیچھے ہمارے بہت سے لوگ اندھا دھند بھاگ رہے ہیں۔ یقین کریں ہمارے معاشرے میں بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت جیسی اعلیٰ روایات ہماری اسی مغربی تقلید کی وجہ سے ہی دم توڑ رہی ہیں۔

    اسلام میں دوسروں کے حقوق کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ انکے ساتھ احسان کرنے کی بھی ترغیب دی گئی ہے، اس لیے اگر ہم اسلام کے دامن میں پناہ نہیں لیتے تو بہت جلد ہمارا حال بھی ان لوگوں جیسا ہی ہوگا جنہیں ہم ترقی یافتہ سمجھ کر انکی تقلید کی کوشش کرتے ہیں۔

قوت ایمانی

ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪ ﺭﺿﯽ اللّٰه ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻋﯿﺴﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ایک ﻗﻠﻌﮧ ﮐﺎ ﻣﺤﺎﺻﺮﮦ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺗﯿﺰ ﺯﮨﺮ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﭘﮍﯾﺎ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪ رضی اللّٰه عنهُ ﺳﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻗﻠﻌﮧ ﮐﺎ ﻣﺤﺎﺻﺮﮦ ﺍﭨﮭﺎﻟﯿﮟ، ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻗﻠﻌﮯ ﻓﺘﺢ ﮐﺮ ﻟﺌﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻗﻠﻌﮧ ﮐﺎ ﻗﺒﻀﮧ ﮨﻢ ﺑﻐﯿﺮ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ:
"ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻢ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﻗﻠﻌﮧ ﮐﻮ ﻓﺘﺢ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ، ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻗﻠﻌﮯ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ۔"
ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﺑﻮﻻ: "ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﺍﺱ ﻗﻠﻌﮯ ﮐﺎ ﻣﺤﺎﺻﺮﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﺅ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺯﮨﺮ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺧﻮﺩﮐﺸﯽ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﻮﻥ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮔﺮﺩﻥ ﭘﺮ ﮨﻮﮔﺎ۔"
ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺭﺿﯽ اللّٰه ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ:
"ﯾﮧ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﻮﺕ ﻧﮧ ﺁﺋﯽ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ تو ﻣﺮ ﺟﺎﺋﮯ۔"
ﺑﻮﮌﮬﺎ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﺑﻮﻻ، ﺍﮔﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﯾﮧ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ ﺗﻮ، ﻟﻮ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺯﮨﺮ ﮐﮭﺎ ﻟﻮ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪ ﺭﺿﯽ اللّٰه ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻭﮦ ﺯﮨﺮ ﮐﯽ ﭘﮍﯾﺎ ﭘﮑﮍﯼ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺩﻋﺎ:
ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺑﺎﻟﻠﻪ ﺭﺏ ﺍﻷﺭﺽ ﻭﺭﺏ ﺍﻟﺴﻤﺎﺀ ﺍﻟﺬﻱ ﻻ ﻳﻀﺮ ﻣﻊ ﺍﺳﻤﻪ ﺩﺍﺀ۔
ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺯﮨﺮ ﭘﮭﺎﻧﮏ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﻟﯿﺎ۔ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﮐﻮ ﻣﮑﻤﻞ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﻭﺍﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﭼﻨﺪ ﻣﻨﭧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺑﺪﻥ ﭘﺮ ﭘﺴﯿﻨﮧ ﺁﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ۔۔۔!!!

ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪ ﺭﺿﯽ اللّٰه ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
"ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﺍﮔﺮ ﻣﻮﺕ ﻧﮧ ﺁﺋﯽ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺯﮨﺮ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮕﺎﮌﺗﺎ۔" ﭘﺎﺩﺭﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﺋﯿﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮒ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻗﻠﻌﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ:
"ﺍﮮ ﻟﻮﮔﻮ ! ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻗﻮﻡ ﺳﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ ﺧﺪﺍ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ! ﺍﺳﮯ ﻣﺮﻧﺎ ﺗﻮ ﺁﺗﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻭﮦ ﺻﺮﻑ ﻣﺎﺭﻧﺎ ﮨﯽ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﺘﻨﺎ ﺯﮨﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﮐﮭﺎ ﻟﯿﺎ، ﺍﮔﺮ ﺍﺗﻨﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻼ ﮐﺮ ﮨﻢ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﮨﻞ ﻗﻠﻌﮧ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﻣﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﺎ ﻣﺮﻧﺎ ﺗﻮ ﺩﺭﮐﻨﺎﺭ، ﻭﮦ ﺑﮯ ﮨﻮﺵ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﻧﻮ ﺗﻮ ﻗﻠﻌﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﻭ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ۔"
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻭﮦ ﻗﻠﻌﮧ ﺑﻐﯿﺮ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺻﺮﻑ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪ ﺭﺿﯽ اللّٰه ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﻗﻮﺕِ ﺍﯾﻤﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﻓﺘﺢ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔۔۔۔

اچھا انسان

اچھا انسان وہی ہے جو معاف کرنا جانتا ہے
انسان انسان کو ایسے معاف کرے جیسے اللہ تعالی سے اُمید رکھتا ہے کہ وہ ہمیں معاف کر دے

ہم انسان ہیں اور انسان غلطیوں کا پُتلا ہے کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں غلطی ضرور کر بیٹھتے ہیں  ہم فرشتے نہیں جو ہر گناہ سے پاک ہیں ایک انسان غلطی کرتا ہے تو وہی غلطی کسی  دوسرے سے بھی ہو سکتی ہے دوسروں کی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی بھی اصلاح کرنی ہو گی

 ہمیشہ ایک انسان غلطی کرتا رہے اور دوسرا نہ کرے ایسا نہیں ہوتا کسی کے پاس علم زیادہ ہے اور کسی کے پاس کم لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ زیادہ علم بہتر ہے تو یہ کہنا غلط ہو گا اگر زیادہ علم والے کا عمل کم ہے اور کم علم والے کا عمل زیادہ ہے تو میری نظر میں کم علم بہترین انسان ہے جو علم کم ہونے کے باوجود زیادہ عمل کی طرف سے توجہ رکھے ہوئے ہے

ہم مسلمان ہیں اور ہمیں ہمارا دین کہتا ہے کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں سے زیادہ دیر تک ناراض نہ رہو اور کوشش کرو کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے قصور جلدی سے معاف کر دو  اُن کے لیئے دل میں بغض نہ رکھو  ان کے ساتھ خوش سلوکی سے پیش آؤ اگر کوئی غلط کر رہا ہے تو اُس کو سمجھائو نا کہ اس سے بدلہ لو اور اسے جگہ جگہ ذلیل کرو وہ کیسا مومن مسلمان ہے جس کے ہاتھ و زبان سے دوسرا مومن و مسلمان محفوظ نہ رہے

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی معاملے میں آپ حق پر ہیں اور آپ کا مسلمان بھائی غلطی پر ہے پھر بھی اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جھگڑا چھوڑ دیں ہمارے آقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بھی اس کے رزق اور مال میں برکت ہوتی ہے اور بندے کے معاف کر دینے سے اپنا کچھ کم نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ اس کی عزت اور بھی بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی بھی اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے.
اللہ تعالی سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب کو اپنی غلطیوں کو جاننے اور اس کو سدھارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دوسروں کی غیبت کرنے  جھوٹ بولنے  غرور کرنے اور دلوں میں بغض رکھنے کسی سے حسد کرنے اور کسی کا دل دُکھانے سے باز رکھے آمین یا رب العالمین 

داغ.....

کیا دیکھ رہی ہو؟
اپنی جلی ہوئی بازو پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ ایک پل کو رکی....سوال پوچھنے والے کو دیکھنے کی بجائے آنکھیں موند لیں اس نے.....جب آگ لگتی ہے تو جلن نہیں ہوتی کیا تمھے تکلیف نہیں ہوتی جو چیختی چلاتی نہیں ہو....اب کی بار اس نے لب کھولے اور مسکراہٹ سجائے ہوئے کہا..... یہ روز کی بات ہے اب عادت پڑ چکی ہے.....
نہیں میں نہیں مانتا روز نئے زخم ملنا الگ بات ہے پر روز انہی زخموں کو بار بار جلایا جانا ناخنوں کو جسم میں گاڑھ دینا پھر روز ان کی گہرائی میں مزید اضافہ کرنا سوچ کر ہی تکلیف ہوتی ہے تو تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ عادت پڑ چکی ہے.....
جب یہ زخم ملتے ہیں نہ تکلیف تب نہیں ہوتی تکلیف تب ہوتی ہے جب ان زخموں کے نشان جسم سے جا نہیں پاتے جب روز مجھے یہ داغ دیکھنے پڑتے ہیں تو مجھ پر گزری راتوں کا ایک ایک پل یاد آتا ہے یہ داغ میرے جسم پر نہیں روح پر پڑ چکے ہیں جنہیں میں لاکھ کوششوں کے بعد بھی مٹا نہیں پاتی جب زخم نہیں بھی ملتے نہ تب بھی  یہ داغ میری روح کو نوچتے ہیں یادیں میرے دماغ کو ناخنوں کی مانند کھڑوچتی ہیں تکلیف تب ہوتی ہے بہت ہوتی ہے اذیت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ بس نہیں چلتا کچھ ایسا کروں کہ چھڑی لے کر اپنے جسم کی پوری کھال ہی اتار دوں تاکہ یہ تازہ زخم اور داغ دوبارہ نہ دیکھ سکوں.....
اتنی تکلیف سہتی ہو پر حلق سے ایک آواز تک نہیں نکلتی تمھارے کیوں مجھے تم انسان نہیں لگتی یا پھر انسان ہو ہی نہیں کیونکہ کوئی انسان اتنے ضبط سے اتنی طاقتور مخلوق کا تشدد برداشت نہیں کر سکتا....تم بھول رہے ہو اسی لئے خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات کہا ہے اس نے مسکرا کر جواب دیا جسے سن کر وہ یکدم خاموش ہو گیا اس کی گرم سانسوں کے تھپیڑے پڑنا کم ہو گئے اور پھر مدہم سی آواز آئی کاش  میں تمھاری مدد کر سکتا ان بھیڑیوں سے چھٹکارا دلا سکتا تمھے تمھارے اپنوں کے تم پر کئے گئے یہ ظلم مجھے یقین دلا دیتے ہیں کہ کچھ  انسان خود شیطان ہوتے ہیں.....
میری مدد میرا رب کرے گا بس شاید ابھی وقت نہیں ہے اس لئے خاموش ہے وہ پر مجھے یقین ہے اس دیری میں بھی کوئی حکمت ہو گی اس کی اور میں نے اپنا معاملہ اسی پر چھوڑ رکھا ہے وہ بہتر جانتا ہے معاف کرنا ہے یاسزا دینی ہے.... یہی توکل تم انسانوں کو اشرف المخلوقات بناتا ہے آج اس راز کو جان لیا ہے میں نے کوشش کروں گا خدامجھے معاف کر دے اور اب اسی کی طرف لوٹ رہا ہوں کبھی جو مجھے معاف کر سکو تو بس زرا سی آواز دے لینا میں مدد کو حاضر ہو جاؤں گا... ....کافی دیر خاموشی محسوس کرکے اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ جاچکا تھا اس کو نوچنے والے درندوں میں سے ایک بھیڑیا کم ہو گیا تھا درد کی لہریں اٹھتی اٹھتی کناروں تک آ ہی گئی تھیں اور پھر باندھ توڑ کر  آنسوؤں کی شکل میں  آنکھوں سے بہنے لگی تھیں.....

روح پر جوداغ پڑ جائیں وہ کسی مرہم دوا سے نہیں جاتے وہ داغ اپنی تکلیف کی پہلے دن جیسی شدت سمیت قبر تک ساتھ جاتے ہیں..... 

Thursday, March 11, 2021

بہترین تحفہ

زندگی کا بہترین تحفہ وقت ہے


👈 ‏ایک سال کی اہمیت جاننا چاہتے ہو تو اس سے پوچھو...
جو امتحان میں ناکام ہوا...

👈 ایک مہینہ کی اہمیت جاننا چاہتے ہو تو اس سے پوچھو۔۔۔۔
 جسے تنخواہ نہیں ملی......

👈 ایک ہفتے کی اہمیت جاننا چاہتے ہو تو اس سے پوچھو جو ہسپتال میں داخل ہے......

👈 ‏ایک دن کی اہمیت کو جاننا چاہتے ہو تو اس سے پوچھو جس نے روزہ رکھا.....

👈 ایک گھنٹہ کی اہمیت کو جاننا چاہتے ہو تو اس سے پوچھو جو کسی کا انتظار کر رہا ہوں......

👈 ایک منٹ کی اہمیت کا جاننا چاہتے ہو تو اس سے پوچھو جس کی ٹرین چھوٹ گئی ہو......

👈 ‏ایک سیکنڈ کی اہمیت کو جاننا چاہتے ہو تو اس سے پوچھو جو کسی حادثے سے بچ گیا.....

زندگی کا بہترین تحفه "وقت" ہوتا ہے جو ہم اپنے پیاروں کے لیے اپنی مصروفیت میں سے نکالتے ہیں...!