Tuesday, March 23, 2021

استحکام پاکستان

ابابیل اپنا گھونسلہ کنویں میں بناتی ہے۔۔
اس لیے  اس کے پاس اپنے نومولود بچوں کو اڑنے کی تربیت دینے کے لیے کوئی دوسری جگہ نہیں ہوتی۔
 بچے اگر گر پڑیں تو اس کا مطلب پانی کی دردناک موت۔۔۔
 اس خطرناک جگہ پر کچی تربیت کا رسک نہیں لیا جاسکتا۔
  کسی نے کبھی ابابیل کے مرے ہوئے بچوں کو کنویں کے پانی پر تیرتے نہیں دیکھا ہو گا۔۔
کیوں؟؟؟
 اس لیے کہ ابابیل اپنے بچوں کی تربیت انتہائی سخت جانی سے کرتی ہے۔
 اگر انڈے سے بچے نکلنے سے پہلے وہ کنویں سے دن بھر میں معمول کی  25 اڑانیں بھرتی تھی تو بچے انڈوں سے نکلنے کے بعد دو گنا زائد اڑانے بھرنے لگتی ہے۔
 یوں نر اور مادہ روزانہ دن بھر اڑانیں بھر کر اپنے بچوں کو عملی تربیت دیتے ہیں اور ان کا دل و دماغ اس یقین سے بھر دیتے ہیں کہ یہاں سے اڑ کر سیدھا باہر ہی جانا ہے۔
بالکل اس طرح اڑان بھرنا ہے جیسے ہم بھرتے ہیں!!!
ننھے بچے جن کی پیدائش کنویں میں ہوئی ہے اپنے والدین کی پر مشقت زندگی سے لمحہ لمحہ پرواز کا درس لیتے ہیں۔
جس دن بچہ پہلی اڑان بھرتا ہے وہ کمان  سے نکلے ہوئے تیر کی طرح گھونسلے سے نکل کر سیدھا منڈیر پہ جا بیٹھتا ہے۔

 ہماری اولاد ہمارے یقین کے سرمائے سے اپنا حصہ پاتی ہے۔
 اگر ہم خود یقین اور عمل کی سخت کوشی سے تہی داماں ہوں گے تو اپنے بچوں کو کیا دیں گے۔
  بچے بڑے لوگوں کی بڑی بڑی  باتیں  سن کر نہیں بلکہ والدین کے عمل سے سیکھتے ہیں۔۔
وہ  والدین پر جتنا اعتماد کرتے ہیں دنیا کے کسی کتابی ہیرو پر نہیں۔۔
قابل مبارکباد ہیں وہ والدین  جو اپنی اولاد کے لیے آسائشیں نہیں ڈھونڈتے بلکہ انھیں زندگی گزارنے کا درس اپنی مجاھدانہ زندگی سے دیتے ہیں۔۔

خانہ کعبہ کی تاریخ اور فضیلت

" خانہ کعبہ کی تاریخ " اور فضیلت …
خانہ کعبہ کی تعمیر کب ہوئی ؟

جب حضرت ابراہیمؑ کو حکم الٰہی ہوا کہ مکہ کی طرف جاؤ تو آپ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ کو لے کر روانہ ہوگئے اور اس مقام پر پہنچے جہاں اب مکہ واقع ہے۔ 

یہاں نہ کوئی عمارت تھی اور نہ پانی تھا اور نہ یہاں کوئی رہتا تھا۔ درختوں کے نام پر صرف ببول وغیرہ کی جھاڑیاں تھیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے بیوی بچے دونوں کو یہاں بٹھا دیا۔ ایک مشکیزہ پانی کا اور کھجوریں پاس رکھ دیں اور پھر آپؑ شام کی طرف چلے گئے۔ 
حضرت ابراہیمؑ دوسری بار مکہ آئے تو قیام نہ کیا لیکن جب تیسری بار تشریف لائے تو حضرت اسماعیلؑ سے فرمایا کہ ''بیٹا! اﷲ تعالیٰ نے مجھے ایک حکم دیا ہے''۔ حضرت اسماعیلؑ نے کہا: ''تو اطاعت کیجیے''۔ پوچھا: ''کیا تُو میری مدد کرے گا؟'' کہا: ''کیوں نہیں''۔ حضرت ابراہیمؑ نے کہا: ''اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہاں ایک گھر بناؤں''۔

گھر کی تعمیر شروع ہوئی، حضرت اسماعیلؑ پتھر لاتے جاتے اور حضرت ابراہیمؑ بناتے جاتے تھے۔ جب تعمیر ذرا بلند ہوگئی تو حضرت اسماعیلؑ ایک پتھر اٹھاکر لائے تاکہ حضرت ابراہیمؑ اس پر کھڑے ہوکر تعمیر کریں۔
 (یہی مقام ابراہیمؑ ہے) دونوں باپ بیٹے دیوار اٹھاتے جاتے تھے اور دعا کرتے جاتے تھے۔''اے پروردگار! ہم سے قبول فرما، تُو سننے اور جاننے والا ہے۔'

'انھوں نے اس گھر کی تعمیر نہ مٹی سے کی اور چونے سے، بس پتھر پر پتھر رکھتے چلے گئے، نہ اس کی چھت بنائی نہ دروازہ۔.

 بعد میں مختلف ایام میں پھر بیت اﷲ کی تعمیر ہوئی۔ قریش نے بھی تعمیر کی اور ان کے بعد بھی ہوئی۔کہتے ہیں اس وقت حضرت اسماعیلؑ کی عمر بیس سال تھی، حضرت ابراہیمؑ نے بیت اﷲ کے پہلو میں حجر کو حضرت اسماعیلؑ کی بکریوں کا باڑہ بنایا تھا اور اس پر پیلو کی چھت ڈالی تھی۔ پہلے بیت اﷲ کی جگہ ایک سرخ ٹیلہ تھا۔

 اکثر سیلاب ادھر ادھر سے اسے کاٹتا رہتا تھا۔ جب حضرت ابراہیمؑ تعمیر کعبہ سے فارغ ہوگئے تو حضرت اسماعیلؑ سے ایک ایسا پتھر لانے کو کہا جو آغاز طواف کے لیے نشانی کے طور پر استعمال ہوسکے۔

 یہ پتھر حضرت جبرئیل ابوقبیس کی پہاڑی سے لائے۔ حضرت ابراہیمؑ نے اسے اس مقام پر رکھ دیا جہاں وہ اب قائم ہے۔ روایت ہے یہ بہت روشن تھا۔حضرت جبرئیل نے انھیں تمام مقامات دکھائے اور پھر اﷲ نے حکم دیا کہ لوگوں کو حج کے لیے پکاریں۔

 حضرت ابراہیمؑ نے کہا: ''پروردگار! میری آواز لوگوں تک کیسے پہنچ سکتی ہے؟'' اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ''آپ پکاریے، ہم آپ کی پکار لوگوں تک پہنچادیں گے۔

'' تفسیر جلالین میں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے ابو قبیس پہاڑی پر چڑھ کر پکارا: ''لوگو! اﷲ تعالیٰ نے ایک گھر بنایا ہے اور تم پر حج فرض کیا ہے لہٰذا تم اپنے پروردگار کی آواز پر لبیک کہو۔''حضرت ابراہیمؑ نے شمال جنوب، دائیں اور بائیں منہ کرکے آواز دی اور لوگوں نے لبیک کہا۔

۔''طاہر الکروی لکھتے ہیں خانہ کعبہ گیارہ بار تعمیر ہوا ہے۔ فرشتوں نے بنایا، حضرت آدمؑ نے بنایا، 
حضرت شیثؑ نے تعمیر کیا، حضرت ابراہیمؑ نے تعمیر کیا، عمالقہ نے بنایا، 
جرہم نے تعمیر کیا، قصی نے تعمیر کیا، قریش نے بنایا، عبداﷲ بن زبیرؓ نے تعمیر کیا، 
حجاج نے بنایا، پھر سلطان مراد رابع نے بنایا جو آل عثمان میں سے تھا۔قریش کی جانب سے تعمیر نو رسول اﷲ ؐ کے زمانے میں ہوئی تھی۔ قریش نے تعمیر کے لیے جو حلال مال جمع کیا تھا وہ کافی نہیں تھا اس لیے حجر کی طرف چھ ہاتھ ایک بالشت جگہ کم کردی گئی تھی۔ 

حجر کے پیچھے ایک چھوٹی سی گول دیوار بنادی تھی تاکہ لوگ اس کے باہر طواف کریں، کعبہ کے اندر انھوں نے دو صفوں میں چھ ستون رکھے تھے جس پر چھت تھی۔ اس سے پہلے کعبہ پر چھت نہیں تھی۔ 

دروازہ ایک رکھا تھا، چھت کی بلندی اٹھارہ ہاتھ تھی۔حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی تعمیر بیت اﷲ کے بارے میں طاہر الکروی بتاتے ہیں ''انھوں نے تین دن تک استخارہ کرنے کے بعد کعبہ کو بالکل زمین کے برابر کردیا اور حضرت ابراہیمؑ کی بنیاد کو بھی کھدوایا تو دیکھا کہ وہ چھ ہاتھ اور ایک بالشت حجر اسماعیل میں داخل ہے لہٰذا آپ نے انھی بنیادوں پر تعمیر کی۔
 ایسا انھوں نے حضرت عائشہؓ کی ایک حدیث کی بنا پر کیا۔حضرت زبیرؓ نے کعبہ کی بلندی ستائیس ہاتھ رکھی .
 ایک دروازہ داخلے کے لیے اور ایک باہر جانے کے لیے بنایا۔ دونوں دروازے سطح زمین کے برابر تھے، ہر دروازے کی لمبائی گیارہ ہاتھ تھی اور دو پٹ تھے۔ 

آپ نے کعبہ کے چار ستون بنائے۔آپ کے زمانے میں یہ چاروں ستون چومے جاتے تھے۔ اپ نے رکن شامی کی جانب ایک زینہ اوپر جانے کے لیے بنایا تھا اور اسے سونے سے مزین کیا تھا۔ 

چھت پر پرنالہ رکھا تھا جو حجر میں گرتا تھا۔جس دن کعبہ شریف کی تعمیر مکمل ہوئی وہ دن عجیب تھا۔ اس دن بہت سے غلام آزاد کیے گئے اور بہت سی بکریاں ذبح کی گئیں۔ 

کہتے ہیں کہ ابن زبیر کی تعمیر کی وجہ یہ تھی کہ ایک شخص نے محاصرے کے زمانے میں مسجد حرام کے کسی خیمے میں آگ جلائی۔ خیمے میں آگ لگ گئی جو بڑھتے بڑھتے کعبہ تک پہنچ گئی اور اس نے غلاف کعبہ اور رکن یمانی جلا ڈالا۔ 
یہ واقعہ 64 ہجری کا ہے۔ دس سال بعد 74 ہجری میں حجاج نے اس بنا پر کہ ابن زبیر نے کعبہ میں اضافہ کیا تھا اور ایک دروازہ مزید بنادیا تھا، اسے گرا کر قریش کی تعمیر کے مطابق کردیا۔

عثمانی سلطان مراد رابع کے زمانے میں 19 شعبان 1039 ہجری کو صبح 8 بجے مکہ اور اس کے اطراف میں شدید بارش ہوئی۔
 بارش سے سیلاب حرم شریف میں داخل ہوگیا اور کعبہ شریف کے دروازے کی چوکھٹ سے بھی بلند ہوگیا۔ 

دوسرے دن جمعرات کو عصر کے وقت کعبہ کی شامی دیوار دونوں طرف سے گر گئی اور اس کے ساتھ مشرقی دیوار کا کچھ حصہ بھی۔ مغربی دیوار بھی دونوں طرف سے چھٹے حصے کے بقدر گرگئی، چھت کا کچھ حصہ بھی گر گیا، چنانچہ سلطان مراد نے دوبارہ کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا۔
- آخری مرتبہ خلافتِ عثمانیہ کے سلطان مراد چہارم نے 1630ء میں اس کی تعمیر کروائی۔ یہ ہی خانہ کعبہ کی موجودہ شکل ہے, ایک سال میں یہ تعمیر مکمل ہوئی۔ سلطان مراد کی تعمیر ہمارے اس دور تک باقی ہے.

آج خانہ کعبہ کی اونچائی 15 میٹر ہے تاہم اس کی چوڑائی ہر جانب مختلف پیمائش رکھتی ہے۔ مغربی جانب اس کی چوڑائی 12 میٹر اور گیارہ سینٹی میٹر ہے۔ مشرقی جانب اس کی چوڑائی 12 میٹر اور 84 سینٹی میٹر ہے۔ جنوبی جانب خانہ کعبہ کی چوڑائی 11 میٹر اور 52 سینٹی میٹر اور شمالی جانب 11 میٹر اور 20 سینٹی میٹر ہے۔

خانہ کعبہ کی موجودہ شکل بھی وہ نہیں ہے جس شکل میں یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں تعمیر ہوا تھا۔ مختلف زمانوں کے دوران بیت اللہ نئے سِرے سے تعمیر کیا گیا۔ ان میں درجِ ذیل مواقع سامنے آتے ہیں 

اسی طرح خانہ کعبہ کے چار کونے ہیں جن میں ہر کونے کے نام کی ایک دلیل ہے۔ رکن یمانی کی جانب رُکنِ عراقی اور شامی ہے۔ رکن حجرِ اسود اُس کونے کو کہا جاتا ہے جس میں جنّت کا یہ مبارک پتھر نصب ہے۔ اسی کے قریب بیت اللہ کا دروازہ ہے جو سال میں دو بار کھولا جاتا ہے۔ ہمیں حطیم کو بھی نہیں بُھولنا چاہیے جو خانہ کعبہ کا ہی حصّہ شمار کیا جاتا ہے۔

بعد ازاں خانہ کعبہ کی تاریخ میں بعض دیگر امور کا اضافہ ہوا۔ ان میں اُس کا غلاف (کِسوہ) جو سال میں دو مرتبہ تبدیل ہوتا ہے، میزابِ رحمت اور شاذروان (خانہ کعبہ کے چاروں جانب نچلی دیوار) شامل ہے۔

خانہ کعبہ کے دروازے کو ماضی میں طویل عرصے تک کسی منظّم ترتیب کے بغیر کھولا جاتا رہا۔ تاہم شدید بھیڑ کے باعث اس طرح لوگوں کی جانوں کو خطرہ درپیش ہوا۔ لہذا یہ امر اس بات کا متقاضی ہوا کہ اس دروازے کو سال میں صرف دو مرتبہ کھولے جانے تک محدود کر دیا جائے۔

 پہلی مرتبہ شعبان میں غُسلِ کعبہ کے موقع پر اور دوسری مرتبہ اس کے غُسل اور نئے غلاف کی تبدیلی کے موقع پر ذوالحجہ کے مہینے میں.

تاہم اس حوالے سے متعدد روایات ملتی ہیں کہ اللہ کے اس گھر کو پہلی مرتبہ کس نے تعمیر کیا۔ قرآن کریم خلیل اللہ حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہما السلام کے بارے میں تصدیق کرتا ہے کہ ان باپ بیٹے نے اللہ کے حکم کو پورا کرتے ہوئے خانہ کعبہ کی دیواریں تعمیر کیں.

خانہ کعبہ کتنی بار تعمیر کیا گیا؟
--------------------------------------
حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ''تاریخ مکہ'' میں تحریر فرمایا ہے کہ ''خانہ کعبہ'' دس مرتبہ تعمیر کیا گیا:

(۱)سب سے پہلے فرشتوں نے ٹھیک ''بیت المعمور'' کے سامنے زمین پر خانہ کعبہ کو بنایا۔
(۲)پھر حضرت آدم علیہ السلام نے اس کی تعمیر فرمائی۔
(۳)اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے فرزندوں نے اس عمارت کو بنایا۔
(۴)اس کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسمٰعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام نے اس مقدس گھر کو تعمیر کیا۔ جس کا تذکرہ قرآن مجید میں ہے۔
(۵) قوم عمالقہ کی عمارت۔
(۶)اس کے بعد قبیلہ جرہم نے اس کی عمارت بنائی۔
(۷)قریش کے مورث اعلیٰ ''قصی بن کلاب'' کی تعمیر ۔
(۸)قریش کی تعمیر جس میں خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی شرکت فرمائی اور قریش کے ساتھ خود بھی اپنے دوش مبارک پر پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے۔(۹)حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تجویز کردہ نقشہ کے مطابق تعمیر کیا۔ یعنی حطیم کی زمین کو کعبہ میں داخل کر دیا۔ اور دروازہ سطح زمین کے برابر نیچا رکھا اورایک دروازہ مشرق کی جانب اور ایک دروازہ مغرب کی سمت بنا دیا۔
(۱۰)عبدالملک بن مروان اموی کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا۔ اور ان کےبنائے ہوئے کعبہ کو ڈھا دیا ۔اور پھر زمانۂ جاہلیت کے نقشہ کے مطابق کعبہ بنا دیا۔ جو آج تک موجود ہے۔

لیکن حضرت علامہ حلبی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی سیرت میں لکھا ہے کہ نئے سرے سے کعبہ کی تعمیر جدید صرف تین ہی مرتبہ ہوئی ہے:
(۱)حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی تعمیر
(۲)زمانۂ جاہلیت میں قریش کی عمارت اور ان دونوں تعمیروں میں دو ہزار سات سو پینتیس (۲۷۳۵) برس کا فاصلہ ہے
(۳)حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعمیر جو قریش کی تعمیر کے بیاسی سال بعد ہوئی۔

حضرات ملائکہ اور حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے فرزندوں کی تعمیرات کے بارے میں علامہ حلبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ یہ صحیح روایتوں سے ثابت ہی نہیں ہے۔ باقی تعمیروں کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ یہ عمارت میں معمولی ترمیم یا ٹوٹ پھوٹ کی مرمت تھی۔ تعمیر جدید نہیں تھی۔(1) واللہ تعالیٰ اعلم۔

(حاشیہ بخاری ج۱ ص۲۱۵ باب فضل مکہ)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد

…………   الحدیث : حرمت کعبہ اور اس کے آداب …………

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے۔
ان عبدا اصححت جسمه، واوسعت عليه فی الرزق فی الدنيا فلا يعد الی فی خمسة اعوام أو أربعة اعوام، محروم.
''جس بندے کو میں نے دنیا میں جسمانی صحت اور رزق کی فراوانی عطا کی، پھر بھی وہ چار یا پانچ سال کے اندر میرے پاس نہ آیا، وہ بڑا ہی محروم ہے''۔

شرح و تفصیل

اس حدیث پاک میں مالی و جسمانی قوت و طاقت رکھنے والے افرادِ امت کو کعبہ کی زیارت کے لئے باقاعدہ آنے اور حج کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور نہ آنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔ یہ پر جلال اسلوب و انداز اس بات کا متقاضی ہے کہ پہلے کعبہ شریف کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جائیں تاکہ اس حکم کی حکمت سمجھ میں آئے اور پھر اس کی روشنی میں علی وجہ البصیرت اس حدیث کو سمجھا جائے۔ اس لئے ہم پہلے کعبہ کا مکمل تعارف پیش کرتے ہیں۔

کعبہ کی پرشکوہ عمارت

کعبہ معظمہ ایک پرشکوہ، بلند و بالا اور فلک بوس چوکور عمارت کا نام ہے جو مکہ مکرمہ میں مسجد حرام کے وسیع و عریض اور خوبصورت شفاف صحن کے وسط میں واقع ہے۔ اس کی جلالتِ شان اور شرف و عظمت کے پیش نظر، اظہارِ محبت و عقیدت کے طور پر ہر سال، اس پر ایک نہایت قیمتی، قالین نما غلاف چڑھایا جاتا ہے، جس پر سونے کے تاروں سے قرآنی آیات کندہ ہوتی ہیں، کالے غلاف میں ملبوس کعبہ معظمہ بڑا پرشکوہ دکھائی دیتا ہے جیسے کوئی بارعب بادشاہ پورے جاہ و جلال کے ساتھ کھڑا ہو، یہ رعب و جلال اس کو سجتا بھی ہے کیونکہ وہ بادشاہ حقیقی کے جاہ وجلال کا مظہر ونمائندہ ہے اور اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ بندے وہاں عجز ونیاز کے ساتھ حاضری دیں اور اظہارِ بندگی کریں اور محبوب حقیقی اور خالق ومالک کے لئے دلوں میں جو جذباتِ محبت رکھتے ہیں ان کا کھل کر مظاہرہ کریں اور اس مظاہرہ میں دیوانگی کی حدوں کو چھولیں، دیکھنے والا پہلی ہی نظر میں جان لے کہ یہ سچے عاشق ہیں، جنہوں نے لباسِ جنوں پہنا ہوا ہے اور مجنوں بن کر اپنے محبوب کے گھر کا طواف کر رہے ہیں۔
دولت مندوں پر لازم کیا گیا ہے کہ جب وہ حالات کو سازگار اور راستے کو پرامن پائیں تو اس کا حج کرنے کے لئے آئیں اور اس کی زیارت اور اس کے طواف کا شرف حاصل کریں۔

''بیت اللہ'' اور ''پہلا گھر ''

قرآن پاک میں بتایا گیا ہے کہ کعبہ شریف پہلا گھر ہے جو لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے، وہ مکہ مکرمہ میں ہے اور بڑی ہی برکت والا ہے، اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ تمام عالم کے لئے مرکز رشد وہدایت ہے۔
اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَکَّةً مُّبَارَکًا وَّهُدًی لِّلْعَالَمِيْنَ.

پہلا سوال :

یہ چوتھے پارے کے پہلے رکوع کی پانچویں آیت ہے، اس میں کعبہ شریف کو ''اَوَّلَ بَيْتٍ'' یعنی پہلا گھر قرار دیا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ پہلا گھر ہونے کا مطلب کیا ہے۔

دوسرا سوال :

اسی طرح پہلے پارے کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسے ''بَيْتِيْ'' فرمایا ہے یعنی میرا گھر دوسرے لفظوں میں اسے ''بیت اللہ'' قرار دیا ہے، یعنی ''اللہ کا گھر'' یہاں دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر مسجد اور عبادت گاہ ''بیت اللہ'' ہوتی ہے، پھر کعبہ شریف ہی کو ''بیت اللہ'' کیوں فرمایا؟

دونوں سوالوں کا جواب :

 ان دونوں سوالوں کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مختلف انداز ہیں، بندے ذکر و فکر، تسبیح ومناجات، تلاوت ونماز وغیرہ کی صورت میں عبادت کرتے ہیں، یہ عبادات کسی بھی جگہ اور کسی بھی مسجد میں ادا کی جا سکتی ہیں، ان کے لئے کوئی عبادت گاہ یا کوئی مسجد مخصوص نہیں ہے۔ لیکن کعبہ شریف کی انفرادی شان یہ ہے کہ اس میں ہر قسم کی عبادات کے علاوہ ایک ایسی عبادت بھی کی جاتی ہے جو کسی اور عبادت گاہ یا مسجد میں جائز نہیں اور وہ عبادت طواف ہے۔ اس عبادت کے لئے خاص طور پر اس گھر کو سب سے پہلے بنایا گیا ہے اس لئے یہ ''پہلا گھر'' بھی ہے اور سب سے زیادہ ''بیت اللہ'' کہلانے کا مستحق بھی، کیونکہ اس میں وہ عبادت کی جاتی ہے جو کسی اور جگہ ممکن ہی نہیں۔

کعبہ کیا ہے؟

کعبہ ایک بلند و بالا، سیاہ غلاف میں ملبوس پرشکوہ چوکور عمارت کا نام ہے، جس کے درو دیوار اور چار کونے ہیں اور وہ حرم شریف کے صحن کے درمیان بنا ہوا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اصل کعبہ وہ نہیں ہے جو ظاہر بین آنکھوں کو نظر آتا ہے بلکہ اصل کعبہ وہ ہے جسے اہل حقیقت دیکھتے ہیں۔ اصل کعبہ اس مقام یا جگہ کا نام ہے جہاں یہ کعبہ کھڑا ہے۔ یہ جگہ شروع ہی سے مرکز انوار ہے، اگر یہاں موجودہ عمارت اور اس کے در ودیوار نہ ہوتے تو بھی یہ جگہ کعبہ ہوتی اور لوگوں کو حکم ہوتا کہ وہ اس کا حج کریں۔
یہی وجہ ہے کہ جب طوفان نوح کے بعد یہ جگہ ریت میں دب گئی اور اس جگہ صرف ایک سرخ ٹیلہ رہ گیا تھا اور لوگوں کے لئے جگہ کا تعین مشکل تھا، تو اس وقت بھی یہاں کا حج کرنے کے لئے آتے تھے، انبیاء کرام کو یہ حکم تھا کہ وہ خصوصی طور پر یہاں پہنچیں اور حج کے مناسک ادا کریں۔ مظلوم فریاد لے کر یہاں پہنچتے اور دعا کرتے تو وہ قبول ہوتی تھی۔ خواص کو یہاں کعبہ کی خوشبو آجاتی تھی، اس لئے درودیوار اور عمارت نہ ہونے کے باوجود کعبہ یہاں موجود تھا۔ جو لوگ نور ولایت سے سرفراز ہیں اور عرف عام میں انہیں اولیاء اللہ کہتے ہیں، وہ اصل کعبہ ہی کی زیارت کے لئے آتے ہیں، اگر وہ اسے نہ دیکھ سکیں تو سراپا فریاد بن جاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اس کا دیدار کرایا جائے۔

آدابِ کعبۃ اللہ

کعبۃ اللہ کی شان و شوکت کے چرچے سن کر اور اس کی زیارت کے لئے مقرر کئے گئے زبردست آداب و ضوابط کی تفصیلات پڑھ کر اور اس کے حیرت انگیز فضائل وکمالات سے آگاہ ہو کر، انسان دنگ رہ جاتا ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ راوی ہیں :
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِذَا اَتَيْتُمْ الْغائِطَ فَلاَ تَسْتَقْبِلُوْا الْقِبْلَةَ وَ لاَ تَسْتَدْ بِرُوْهاَ.
''جب تم پیٹ کا فضلہ پھینکنے کے لئے کہیں جاؤ تو اس حالت میں قبلہ کی طرف نہ منہ کرو، نہ پشت کرو''۔
کعبہ معظمہ، انوار الہٰیہ کے نزول کی مرکزی جگہ ہے اس لئے عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کے لئے قابل احترام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان خواہ زمین کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں، وہ اپنی حیثیت اور سمجھ کے مطابق اس کا ضرور احترام کرتے ہیں، اس کی طرف پاؤں نہیں پھیلاتے، ادھر منہ کر کے نہیں تھوکتے اور پیشاب وغیرہ کرتے وقت اپنا رخ پھیر لیتے ہیں اور اس حالت میں اس کی طرف پشت بھی نہیں کرتے۔ یہ عام مسلمانوں کی حالت ہے لیکن جو اہل نظر ہیں اور کعبہ شریف کے صرف در ودیوار ہی کو نہیں دیکھتے بلکہ اس میں انوار وتجلیات کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں، ان کا معاملہ ہی کچھ اور ہے، وہ اس انداز سے احترام کرتے ہیں اور ایسے آداب و ضوابط ملحوظ رکھتے ہیں جو عوام کی سمجھ سے بھی بالا تر ہوتے ہیں اور ان کا ذہن ان آداب کی پابندی کی طرف نہیں جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام حج کرنے کے بعد، فوراً اپنے شہروں کی طرف واپس چلے جاتے تھے تاکہ کوئی ایسی غلطی سرزد نہ ہو جائے جو حرمتِ کعبہ کے منافی ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرمایا کرتے تھے، مکہ مکرمہ کے علاوہ کسی مقام پر مجھ سے ستر غلطیاں سر زد ہو جائیں میں یہ تو گوارا کر سکتا ہوں، لیکن یہ گوارا نہیں کرتا کہ مکہ مکرمہ میں ایک غلطی بھی سرزد ہو، اسی لئے آپ طائف میں رہتے تھے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا سرکاری حکم

جب لوگ حج سے فارغ ہو جاتے تو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ، سرکاری حکم جاری فرما دیتے تھے۔ اے اہل یمن! تم یمن چلے جاؤ، اے اہلِ شام! تم شام چلے جاؤ! اے اہل عراق! تم عراق چلے جاؤ۔ اب مکہ مکرمہ میں زیادہ دیر ٹھہرنے کی کوشش نہ کرو، ایسا نہ ہو کہ زیادہ قیام سے ادب کے تقاضے پورے کرنے میں سستی ہو جائے، اس لئے قیام سے بہتر یہی ہے کہ اپنے وطن کی طرف لوٹ جاؤ تاکہ کعبہ کی حرمت و محبت دلوں میں برقرار رہے۔
اپنے وطن میں رہ کر، جسمانی طور پر کعبہ سے دور ہوتے ہوئے بھی محبت و عقیدت کی بنیاد پر، روحانی طور پر کعبہ سے قریب رہنا، اس قرب سے بہتر ہے جس میں انسان جسمانی طور پر تو کعبہ کے پاس ہو، مگر ذہنی طور پر اس سے دور ہو، اس کیفیت سے کعبہ شریف کی بے حرمتی ہوتی ہے، جس کی وہ بارگاہ خداوندی میں شکایت بھی کرتا ہے اور اہل مشاہدہ وہ شکایت سن بھی لیتے ہیں۔

کعبۃ اللہ کی شکایت

ایک مرتبہ حضرت وھب بن ورد نے سنا، کعبہ کہہ رہا تھا :
اِلَی اللّٰهِ اَشْکُوْ ثُمَّ اِلَيْکَ يَاجِبْرِيْلُ مَااَلْقٰی مِنَ الطَّائِفِيْنَ حَوْلِيْ مِنْ تَفَکُّرِ هِمْ فِی الْحَدِيْثِ وَلَغْوِهِمْ وَلَهْوِهِمْ لئِنْ لَمْ يَنْتَهُوْا عَنْ ذَالِکَ لَاَنْتَفِضَنَّ اِنْتِفَاضَةً يَرْجِعُ کُلُّ حَجَرٍ اِلَی الْجَبَلِ الَّذِيْ قُطِعَ مِنْهُ.
''اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں فریاد کرتا ہوں، اے جبریل! تیرے حضور بھی شکایت کرتا ہوں، یہ طواف کرنے والے مجھ پر ستم ڈھاتے ہیں، طواف کے دوران دلوں میں بے کار اور نامناسب باتیں سوچتے رہتے ہیں، اگر وہ اس حرکت سے باز نہ آئے تو میں اتنی زور سے کانپوں گا کہ ہر پتھر اڑ جائے گا اور اسی پہاڑ پر چلا جائے گا، جہاں سے اسے لیا گیا تھا''۔
(احياء العلوم، : 243)

اولیاء کرام کی دربارِ کعبہ میں حاضری

کعبہ معظمہ، حقیقی حاکم اعلیٰ کا دربار خاص ہے، شاہی دربار میں اس کے ارکان اور اہل دربار کی حاضری لازمی ہوتی ہے، دربارِ مکہ کے خاص درباری اولیاء کرام ہیں، اس لئے اولیاء کرام یہاں ضرور حاضری دیتے ہیں اور طواف و زیارت سے فیض یاب ہوتے ہیں، اس مقصد کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں، وہ جب چاہیں روحانی یا جسمانی طور پر یہاں پہنچ جاتے ہیں، مگر اوقات فاضلہ میں یا جمعہ کی رات کو وہ ضرور حاضری دیتے ہیں، کیونکہ ان خصوصی اوقات میں کعبہ شریف کے نوری فیضان میں خاص تموج اور جوش پیدا ہوتا ہے، جس سے وہ اپنے قلب ونظر اور ظاہر وباطن کو منور کرتے ہیں۔ اہل بصیرت فرماتے ہیں۔
وَلاَ شَکَّ فِيْ تَرَدُّدِ الْاَوْلِيَائِ اِلَيْهَا فِی الْاَوْقَاتِ الْفَاضِلَةِ وَيَحْضُرُوْنَ الْجُمُعَةُ وَالْاَوْقَاتِ الشَرِيْفَةَ وَ يَحُجُّوْنَ کُلَّ عَامٍ.
(تاريخ القطبی، 28)
''اس میں کوئی شک نہیں کہ اولیاء کرام، فضیلت والے خاص اوقات میں اور جمعہ کو کعبہ شریف میں پہنچتے ہیں اور ہر سال حج کرتے ہیں''۔
اولیاء کرام کے ایک عالی پایہ گروہ کو ''اوتاد'' اور ''ابدال'' کہتے ہیں، اس عظیم گروہ کا کوئی نہ کوئی فرد، سورج کے طلوع و غروب کے وقت یعنی صبح و شام وہاں ضرور موجود ہوتا ہے، گویا وہ دونوں وقت کی حاضری ضروری سمجھتا ہے۔
يُقَالُ لاَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ مِنْ يَوْمٍ اِلاَّ وَيَطُوْفُ بِهٰذَا الْبَيْتِ رَجُلٌ مِنْ الْاَبْدَالِ وَلاَ يَطْلُعُ الْفَجْرُ مِنْ لَيْلَةٍ اِلاَّ طَافَ بِهِ وَاحِدٌ مِنَ الْاَوْتَادِ وَاِذَا انْقَطَعَ ذَالِکَ کَانَ سَبَبُ رَفْعِهِ مِنَ الْاَرْضِ فَيُصْبِحُ النَّاسُ وَقَدْ رُفِعَتِ الْکَعْبَةُ لاَ يَرَی النَّاسُ لَهَا اَثْرًا.
(احياء العلوم، 1 : 242)
''کہا جاتا ہے، جب سورج غروب ہونے لگتا ہے تو ابدال میں سے کوئی نہ کوئی شخص ضرور اس کا طواف کرتا ہے اور جب فجر طلوع ہونے لگتی ہے تو اوتاد میں سے کوئی نہ کوئی ضرور اس کا طواف کرتا ہے، جب یہ سلسلہ منقطع ہو جائے گا، یعنی اولیاء کرام میں سے کوئی اس کا طواف کرنے والا نہیں رہے گا تو یہ کعبہ شریف کے اٹھائے جانے کا سبب بن جائے گا، چنانچہ لوگ صبح کو اٹھیں گے تو کعبہ کا کوئی نشان دکھائی نہیں دے گا، وہ اٹھایا جا چکا ہوگا''۔
حضرت عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ۔
لَا تَزَالُ هٰذِهِ الْاُمَّةُ بِخَيْرٍ مَاعَظَّمُوْا هٰذِهِ الْحُرْمَةَ حَقَّ تَعْظِيْمِهَا فَاِذَا ضَيَعُوْا ذَالِکَ هَلَکُوْا.
''جب تک یہ امت ''حرم کعبہ'' کی اس طرح تعظیم کرتی رہے گی جیسی تعظیم کرنے کا حق ہے، تو خیر و برکت سے بہرہ ور رہے گی، جب وہ یہ معمول ترک کر دے گی تو تباہ و برباد ہو جائے گی''۔
(ابن ماجة)
قرآن پاک میں ہے۔
وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ.
(الْحَجّ ، 22 : 25)
''اور جو شخص حرم کعبہ میں گناہ کا ارادہ بھی کرے گا تو ہم اسے المناک عذاب چکھائیں گے''۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں حرمت کعبہ کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ کعبہ شریف کی طرف جانے والے قربانی کے جانوروں اور حج کے ارادے سے سفر کرنے والے انسانوں کی بے حرمتی سے بھی روکا گیا ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللّهِ وَلاَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلاَ الْهَدْيَ وَلاَ الْقَلآئِدَ وَلاَ آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ.
(الْمَآئِدَة ، 5 : 2)
گویا حکم ہے کہ ان کا احترام ملحوظ رکھو اور کوئی ایسی حرکت نہ کرو جو ان کی شان کے منافی ہو اور ان کی موجودہ حیثیت کے لحاظ سے بے ادبی کے زمرے میں آتی ہو کیونکہ وہ اس وقت راہِ کعبہ پر گامزن ہیں اور اس کی زیارت کے لئے جا رہے ہیں۔
کعبہ کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے، جس دور میں بھی کسی نے اس کی بے حرمتی کا ارادہ کیا اور اس کی عزت و تکریم کو پامال کرنے کے درپے ہوا بلکہ اگر اس کی توہین کی نیت بھی کی، تو وہ اپنے جاہ و جلال سمیت پیوندِ زمین کر دیا گیا، اس کا شاہی دبدبہ، لاؤ لشکر، زر و مال اور جنگی سازو سامان کچھ کام نہ آیا اور اس کا حشر قیامت تک کے لئے عبرت کا نشان بن گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے کی بات ہے، سرزمین عرب پر تُبَّع بادشاہ حکمران تھا۔ جس کی حکومت ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی تھی اور اس نے بزور شمشیر تمام قبائل کو اپنا مطیع بنایا ہوا تھا۔ اسے فتوحات کا بہت شوق تھا، چونکہ فوجی لحاظ سے طاقتور تھا اس لئے جدھر کا رخ کرتا، فتح و نصرت اور کامیابی اس کے قدم چومتی اور مقامی آبادی اس کے زیر نگین آ جاتی۔
بنو ھذیل ایک جنگ جو قبیلہ تھا، مگر تُبَّع کی فوجی قوت کے سامنے اس کی بھی پیش نہ گئی اور اس نے اطاعت قبول کر لی، بنو ھذیل کی قریش سے لگتی تھی وہ چاہتے تھے کسی طرح قریش کا زور ٹوٹے اور تُبَّع ان پر حملہ کر کے انہیں شکست دیدے، جب انہوں نے تُبَّع کی فوجی طاقت دیکھی تو انہیں امید کی کرن نظر آئی وہ تُبَّع کے پاس آئے اور اسے پٹی پڑھائی کہ یہاں مکہ میں ایک گھر ہے لوگ دور، دور سے اس کی زیارت کے لئے آتے ہیں اگر تم اسے منہدم کر دو اور قریش کو اپنا غلام بنا لو، جو اس گھر کے متولی ہیں تو پورا عرب تمہارا غلام بن جائے گا۔
بنو ھذیل نے چکنی چپڑی باتیں کر کے تُبَّع بادشاہ کو شیشے میں اتار لیا اور بادشاہت اور شان و شوکت کے سبز باغ دکھا کر کعبہ شریف منہدم کرنے پر آمادہ کر لیا۔ جب اس نے یہ خوفناک ارادہ کیا، اسی وقت اس کے سر میں شدید درد شروع ہوگیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے ناقابل برداشت ہوگیا۔ ناک، منہ اور جسم کے مختلف حصوں سے سخت بدبودار پانی بہنے لگا، لوگوں کو اس کے قرب سے ابکائیاں آنے لگیں، ہم نشینوں کے لئے اس کے نزدیک بیٹھنا مشکل ہوگیا، وہ ناک پہ کپڑا رکھ کر آنکھیں بند کر کے دور بھاگ گئے۔
وزیر کو بڑی فکر لاحق ہوئی، اس نے حکماء اور اطباء کو بلایا سب نے بادشاہ کی حالت دیکھ کر کہا، یہ کوئی زمینی بیماری نہیں بلکہ امرِ سماوی اور عذاب الہٰی ہے ہم اس کا علاج نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے کوئی ایسا شخص تلاش کیا جائے جو صاحب روحانیت اور باطنی امراض و اسرار کا ماہر ہو، وہی اس بیماری کو سمجھ سکتا اور علاج کر سکتا ہے۔ اس کی تہہ تک پہنچنا ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ وزیر نے اعلان کرا دیا کہ جو شخص اس عجیب و غریب بیماری کو سمجھنے اور اس کا علاج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ مہربانی کر کے خود ہی سامنے آ جائے۔
ایک شخص وزیر کے پاس آیا اور کہا وہ بادشاہ کے روگ کا علاج کر سکتا ہے، وزیر اسے بادشاہ کے پاس لے گیا حکیم نے بادشاہ سے پوچھا
اَيُهَا الْمَلِکَ! هَلْ اَنْتَ نَوَيْتَ لِهٰذَا الْبَيْتِ سُوْءًا.
''اے بادشاہ! کیا تو نے اس بیت اللہ شریف کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا تھا''؟
بادشاہ نے اعتراف کیا : ہاں! میں نے اسے گرانے کا ارادہ کیا تھا۔ حکیم نے کہا :
اَيُهَاالْمَلِکُ! نِيَتُکَ اَحْدَثَتْ لَکَ هٰذَا الدَّاءَ وَرَبُّ هٰذَا الْبَيْتِ عَالِمٌ بِالْاَسْرَارِ، فَبَادِرْ وَارْجِعْ عَمَّا نَوَيْتَ.
''اے بادشاہ : یہ سب صورت حال اور بیماری، اسی بدنیتی کی پیداوار اور برے ارادے کا نتیجہ ہے، اس گھر کا ایک رب ہے، جو دلوں کے بھید جانتا ہے، اس لئے اگر تو عافیت چاہتا ہے تو فوراً اس ارادے سے باز آ، اور جو بری نیت کی ہے، اس سے توبہ کر اور عقیدت مند بن کر اس گھر کی زیارت کے لئے جا اور اس کا طواف کر، تیرے تمام روگ دور ہو جائیں گے''۔
جونہی بادشاہ نے اپنا پہلا ارادہ بدلا اور کعبہ شریف کی حرمت و تعظیم کا ارادہ کیا اسی وقت اس کے ناک منہ سے پانی بہنا بند ہوگیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ٹھیک ہوگیا، جیسے اسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا، وہ یہ اعجازی شان اور حیرت انگیز کرامت دیکھ کر دنگ رہ گیا، عملی طور پر جو کچھ بیتا اس نے اس کی آنکھیں کھول دیں، اس کا دل کعبہ شریف کے لئے عقیدت و محبت سے لبریز ہوگیا۔ وہ پہلو میں شوق فراواں لئے بڑی چاہت کے ساتھ کعبہ کے سامنے حاضر ہوا، اسے دیکھ کر سراپا نیاز بن گیا اس کا پورا وجود عقیدت میں ڈھل گیا، کوئی ہوش نہ رہا کہ کہاں ہے، اسی عالم بے خودی میں اس نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ کعبہ معظمہ کا طواف کیا۔ اس کے دل نے چاہا کہ ایسے انداز سے اظہار محبت کرے، جس میں انفرادیت ہو، اظہار عقیدت کا وہ طریقہ کسی نے نہ اپنایا ہو، عشق سچا ہو تو ہر مشکل آسان کر دیتا ہے اور چاہت کے اظہار کے لئے نئی نئی راہیں تلاش کر لیتا ہے۔ تُبَّع کی سچی محبت نے بھی پیار کی ایک راہ تلاش کر لی۔
اس نے حکم دیا، کعبہ شریف پر چڑھانے کے لئے ایک بہت بڑا قیمتی غلاف بنایا جائے، کام شروع ہوا اور شاہی حکم کے مطابق ایک شاندار غلاف تیار ہوگیا، تُبَّع نے دھڑکتے دل کے ساتھ عقیدت میں ڈوب کر کعبہ معظمہ کو یہ غلاف پہنایا، تاریخ انسانی کا یہ پہلا غلاف تھا جو کعبہ کو پہنایا گیا۔
یہ سب کچھ کر کے بھی تُبَّع کی محبت کو قرار نہ آیا، اس نے چاہا کہ اور ذرائع سے بھی وہ اپنی عقیدت کا اظہار کرے۔ چنانچہ اس نے ''مطابخ'' یعنی باورچی خانے تعمیر کرنے کا حکم دیا، جب ''شاہی مطابخ'' تیار ہوگئے، تو اس نے اپنے کارندوں سے کہا ہر روز ایک سو اونٹ ذبح کر کے اہل مکہ کو کھلائے جائیں یہ لوگ مقدس گھر کے پڑوسی ہیں ان کی شاندار ضیافت کی جائے۔
تُبَّع بادشاہ جب تک وہاں رہا، اہل مکہ کی ضیافت کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہا۔
آج کے جدید ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ماضی قریب و بعید میں ایسے واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں جو بے حرمتی کے زمرے میں آتے ہیں مگر شواہد موجود ہیں کہ خلاف حرمت غلط حرکت کرنے والوں کی کوئی گرفت نہ ہوئی اور کسی کو ایسی سزا نہ ملی جو انہیں نشان عبرت بنا دیتی اور جس کی غیر معمولی اذیت رسانی کو دیکھ کر یہ رائے قائم کی جا سکتی کہ یہ بے حرمتی کا نتیجہ ہے۔
ایک صاحب دل نے اس کا ایک معنی خیز جواب دیا ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ کعبہ کے تقدس اور جاہ و جلال کو قائم رکھنے کے لئے بے حرمتی کرنے والوں کو فوراً سزا اس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور سے پہلے دی جاتی تھی کیونکہ اس کی حرمت کا پاسبان اور علانیہ دفاع کرنے والا کوئی نہ تھا۔ پس قدرت کا نادیدہ ہاتھ فوراً حرکت میں آتا اور بے حرمتی کے مرتکب کو آہنی گرفت میں لے لیتا تھا تاکہ دلوں پر اس کی ہیبت قائم رہے اور اس کی شوکت و عظمت کے سب قائل رہیں۔ اب یہ پاسبانی کا فریضہ امت کو سونپ دیا گیا ہے، اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاسبانی کے فرائض انجام دے اور اس کی عظمت پر آنچ نہ آنے دے اور اگر کوئی بے حرمت کا ارتکاب کرے تو ایسی کڑی سزا دے کہ وہ عبرت کا نشان بن جائے اور اس ذمہ داری اور خدمت و نگرانی کے عوض خود اسے دنیا کی امامت عطا کی جائے اور اقتدار و جہاں بانی کے لئے منتخب کر لیا جائے، یہ اس امت کی توہین ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے یہ فریضہ ابابیلوں کو سونپا جائے۔
مسلمان دیگر فرائض کی طرح اپنے اس فرض اور ذمہ داری سے بھی غافل ہوگئے ہیں اور اس کی پاسبانی کا فرض ادا نہیں کر رہے، نتیجہ یہ ہے کہ اس نے بھی ہماری پاسبانی سے منہ موڑ لیا ہے اور ہم ہر محاذ پر پٹ رہے ہیں۔ ابھرنے، پنپنے اور سرخرو ہونے کی ایک ہی راہ ہے کہ ہم از سر نو اس کے خدمت گار اور پاسبان بن جائیں۔ وہ ہمارا پاسبان بن جائے گا اور عہد کہن کی یاد تازہ اور شوکت رفتہ بحال ہو جائے گی۔
دنیا کے بتکدے میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم پاسباں ہیں اس کے وہ پاسباں ہمارا

دولت، محبت اور فتح

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاؤں میں ایک کسان کے گھر کے باہر 3 پردیسی بُوڑھے مرد آرام کی غرض سے بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے تھے، کسان کی بیوی نے 3 پردیسی افراد کو دیکھا تو اُس کے دل میں آیا کہ یہ تینوں لمبے سفر سے آئے لگتے ہیں اور بھوکے ہوں گے چنانچہ وہ انہیں کھانے کی دعوت دینے گئی۔

کسان کی بیوی نے تینوں کو کھانے کی دعوت دی تو ایک بُوڑھا بولا " کیا آپ کے گھر میں آپکا شوہر یا رشتہ دار کوئی اور مرد موجود ہے؟" کسان کی بیوی بولی " میرا شوہر کھیتوں میں ہل چلانے گیا ہے اور وہ شام کو واپس لوٹے گا"، بُوڑھے نے عورت کی بات سُن کر جواب دیا " پھر ہم آپکے گھر کھانا کھانے نہیں آ سکتے کیونکہ ہم صرف اُسی گھر میں کھانا کھانے جاتے ہیں جہاں کوئی مرد موجود ہو"۔

بُوڑھے کے جواب پر کسان کی بیوی واپس گھر لوٹ آئی اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول ہو گئی، شام کا کسان کھیتوں سے واپس لوٹا تو اُس نے تینوں بُوڑھوں کو گھر کے قریب بیٹھا پایا تو اپنی بیوی سے پُوچھا " یہ تینوں پردیسی مہمان لگتے ہیں کیا تُم نے ان سے کھانے کا پُوچھا"۔

بیوی بولی "میں ان سے پُوچھنے گئی تھی مگر یہ تینوں کسی ایسے گھر میں کھانا نہیں کھاتے جہاں کوئی مرد موجود نہ ہو"، یہ سُن کر کسان بولا "تم ان کو دوبارہ دعوت دو اور بتاؤ کے میرا شوہر واپس لوٹ آیا ہے"۔

کسان کی بیوی دوبارہ تینوں کے پاس گئی اور بولی کہ گھر میں میرا شوہر لوٹ آیا ہے اب آپ تشریف لے آئیں اور کھانے پر ہمارے مہمان بنیں اس سے ہمیں بہت خُوشی ہوگی، کسان کی بیوی کی بات سُن کر بُوڑھا بولا " ہم تینوں اکھٹے تمہارے گھر کھانا کھانے نہیں آ سکتے تمہیں چاہیے ہم تینوں میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھ لیجاؤ اور کھانا کھلا دو"۔

کسان کی بیوی بُوڑھے کے عجیب جواب کو سُن کر بولی " آپ تینوں اکھٹے تشریف کیوں نہیں لاتے"، اس بات پر بوڑھے نے جواب دیا ہم تینوں میں سے کوئی ایک جہاں موجود ہو باقی دونوں وہاں سے چلے جاتے ہیں پھر اپنے ایک ساتھ کی طرف اشارہ کیا اور بولا یہ دولت ہے اور یہ جس گھر میں جاتا ہے وہاں کے افراد کو دولت کی ریل پیل ہو جاتی ہے، پھر دوسرے ساتھ کی طرف اشارہ کر کے بولا یہ یہ فتح ہے اور یہ جس گھر میں جائے اُس گھر کے افراد ہر میدان میں کامیاب ہو جاتے ہیں، پھر بولا میں محبت ہُوں میں جہاں چلا جاؤں وہاں کے مکینوں کے دل محبت سے لبریز ہوجاتے ہیں اس لیے تُم گھر جاؤ اور مشورہ کرو کے تمہیں ہم میں سے کس کی ضرورت ہے۔

کسان کی بیوی گھر لوٹی اور کسان کو بُوڑھوں کے جواب سے آگاہ کیا اور بولی ہمیں چاہیے کہ ہم دولت کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کریں تاکہ ہماری پیسے کی مشکلات حل ہو جائیں، یہ سُن کر کسان بولا ہمیں پیسے سے زیادہ کامیابی کی ضرورت ہے اسے لیے ہمیں فتح کو اپنے گھر بُلانا چاہیے، کسان کی بیٹی جو قریب بیٹھی دونوں کی گفتگو سُن رہی تھی بولی" اگر ہم محبت کو اپنے گھر بُلائیں تو وہ ہمارے دلوں میں اتنا اطمینان بھر دے گا کہ ہم دولت اور کامیابی کی پروا نہیں رہے گی" دونوں میاں بیوی بیٹی کی بات سے متفق ہو گئے اور کسان کی بیوی کو بھیجا کے محبت کو بُلا لاؤ۔

بیوی گئی اور بُوڑھوں سے کہا آپ میں سے محبت میرے ساتھ تشریف لے آئے تاکہ ہم اُس کی مہمان نوازی کر سکیں، یہ سُن کرخطاب کرنے والا بُوڑھا اُٹھا اور کسان کی بیوی کے ساتھ چل پڑا، جب وہ کسان کے گھر کے دروازے پر پہنچا تو کسان کی بیوی نے دیکھا کے باقی 2 بُوڑھے بھی پیچھے ہی چلے آرہے ہیں۔

کسان کی بیوی نے پُوچھا آپ تینوں تو اکھٹے نہیں جاتے اب کیا ہُوا کے آپ تینوں اکھٹے آگئے، آنے والے بُوڑھوں نے جواب دیا فقط محبت ہم میں سے ایک ایسا فرد ہے جسکے بارے میں ہمیں حُکم ہے کہ جہاں مُحبت تنہا جائے وہاں اُس کے پیچھے پیچھے چلے جاؤ۔

ہمارا توکل

شدید بارش کے سبب ٹیکسی لینا ہی بہتر تھا، چنانچہ میں نے ایک ٹیکسی کو اشارہ کیا۔۔۔!
"ماڈل کالونی چلو گے۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "جی بالکل جناب۔۔۔!"
"کتنے پیسے لو گے۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "جو دل کرے دے دینا سرجی۔۔۔۔!"
"پھر بھی۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "سر! ایک بات کہوں برا مت ماننا۔ میں ایک جاہل آدمی ہوں۔ پر اتنا جانتا ہوں کہ جو الله نے میرے نام کا آپکی جیب میں ڈال دیا ہے، وہ آپ رکھ نہیں سکتے اور اس سے زیادہ دے نہیں سکتے، توکل اسی کا نام ہے۔۔۔!"
اس ٹیکسی والے کی بات میں وہ ایمان تھا جس سے ہم اکثر محروم رہتے ہیں۔
خیر میں ٹیکسی میں بیٹھ گیا، ابھی ہم تھوڑا ہی آگے گئے تھے کہ مسجد دکھائی دی۔
ٹیکسی والا: "سر جی! نماز پڑھ لیں پھر آگے چلتے ہیں، کیا خیال ہے۔۔۔؟" اس نے ٹیکسی مسجد کی طرف موڑ لی۔
ٹیکسی والا: "آپ نماز ادا کریں گے۔۔۔؟"
"کس مسلک کی مسجد ہے یہ۔۔۔؟"
میرا سوال سن کر اس نے میری طرف غور سے دیکھا، "باؤ جی! مسلک سے کیا لینا دینا، اصل بات سجدے کی ہے، الله کے سامنے جھکنے کی ہے۔ یہ الله کا گھر سب کا ہے۔۔۔!"
میرے پاس کوئی عذر باقی نہیں تھا۔ نماز سے فارغ ہوئے اور اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے۔
"سر جی! آپ نماز باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔۔۔؟"
"کبھی پڑھ لیتا ہوں، کبھی غفلت ہو جاتی ہے۔۔۔!" یہی سچ تھا۔
ٹیکسی والا: "سر جی! جب غفلت ہوتی ہے تو کیا یہ احساس ہوتا ہے کہ غفلت ہو گئی اور نہیں ہونی چائیے تھی۔۔۔؟ معاف کرنا، میں آپکی ذات پر سوال نہیں کر رہا۔ لیکن اگر احساس ہوتا ہے تو الله ایک دن آپ کو ضرور نمازی بنا دے گا، اور اگر احساس نہیں ہوتا تو----!!"
اُس نے دانستہ طور پر جملہ ادھورا چھوڑ دی اور خاموش ہو گیا- اسکی خاموشی مجھے کاٹنے لگی۔
"تو کیا۔۔۔؟" میرا لہجہ بدل گیا۔
ٹیکسی والا: "اگر آپ ناراض نہ ہوں تو کہوں۔۔۔؟"
"ہاں بولیں۔۔۔!ً"
ٹیکسی والا: "اگر غفلت کا احساس نہیں ہو رہا تو آپ اپنی آمدن کے وسائل پر غور کریں، اور اپنے الله سے معافی مانگیں، کہیں نہ کہیں ضرور الله آپ سے ناراض ہے۔۔۔!"
ہم منزل پہ آ چکے تھے۔ میں نے اسکے توکل کا امتحان لینے کیلئے جیب سے پچاس کا نوٹ نکالا اور اس کے ہاتھ پہ رکھ دیا۔ اس نے بسم الله کہا اور نوٹ جیب میں رکھ کر کار موڑنے لگا۔
میں نے آواز دی، وہ رک گیا۔
ٹیکسی والا: "حکم سر جی۔۔۔؟"
"تم ان پیسوں میں خوش ہو۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "سر جی! مشکل سے بیس روپے کا پٹرول جلا ہو گا۔ الله نے اس خراب موسم میں بھی میرے بچوں کی روٹی کا انتظام کر دیا ہے۔۔۔!"
میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں نے جیب سے مزید دو سو نکالے اور اسے دینے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔
وہ مسکراتے ہوئے بولا، " سر جی! دیکھا آپ نے، میرا حق پچاس روپے تھا، اور الله کے توکل نے مجھے دو سو دیا۔۔۔!"
وہ ٹیکسی والا تو چلا گیا، لیکن جاتے جاتے اللہ پر میرے ایمان اور توکل کو جھنجھوڑ گیا_

ایک لونڈی درکار ہے

ہارون الرشید کو ایک لونڈی کی ضرورت تھی، اس نے اعلان کیا کہ مجهے ایک لونڈی درکار ہے،اس کا یه اعلان سن کر اس کے پاس دو لونڈیاں آئیں اور کہنے لگیں ہمیں خرید لیجیے! ان دونوں میں سے ایک کا رنگ کالا تها ایک کا گورا.
هارون الرشید نے کہا مجهے ایک لونڈی چاهیے دو نہیں.
گوری بولی تو پهر مجهے خرید لیجیے حضور! کیونکہ گورا رنگ اچها ہوتا ہے...
کالی بولی حضور رنگ تو کالا ہی اچها ہوتا هے آپ مجهے خریدیے.
ہارون الرشید نے ان کی یہ گفتگو سنی تو کہا. اچها تم دونوں اس موضوع پر مناظرہ کرو کہ رنگ گورا اچها ہے یا کالا؟
جو جیت جائے گی میں اسے خرید لونگا..
دونوں نے کہا بہت اچها! چنانچہ دونوں کا مناظرہ شروع ہوا
اور کمال یہ ہوا کہ دونوں نے اپنے رنگ کے فضائل و دلائل عربی زبان میں فی البدیہ شعروں میں بیان کیے. یہ اشعار عربی زبان میں هیں مگر مصنف نے ان کا اردو زبان میں منظوم ترجمہ کیا ہے، لیجئے آپ بهی پڑهئے اور غور کیجئے کہ پہلے زمانے میں لونڈیاں بهی کس قدر فہم و فراست کی مالک ہوا کرتی تهیں
گوری بولی:
''موتی سفید ہے اور قیمت ہے اس کی لاکهوں،
اور کوئلہ ہے کالا پیسوں میں ڈهیر پالے''
(بادشاہ سلامت ! موتی سفید ہوتا ہے، اور کس قدر قیمتی هوتا ہے، اور کوئلہ جو کہ کالا ہوتا ہے کس قدر سستا ہوتا ہے کہ چند پیسوں میں ڈهیر مل جاتا ہے)
اور سنیے؛
''اللہ کے نیک بندوں کا منہ سفید ہوگا،
اور دوزخی جو ہونگے،منہ ان کے هونگے کالے''
بادشاه سلامت اب آپ ہی انصاف کیجیے گا کہ رنگ گورا اچها ہے یا نہیں؟
بادشاہ ''گوری'' کے یہ اشعار سن کر بڑا خوش ہوا
اور پهر کالی سے مخا طب ہوکر کہنے لگا. سنا تم نے؟؟ اب بتاو کیاکہتی ہو؟؟
کالی بولی حضور!
''ہےمشک نافہ کالی قیمت میں بیش عالی،
ہے روئی سفید اور پیسوں میں ڈهیر پالی''
(کستوری کالی ہوتی ہے، مگر بڑی گراں قدر اور بیش قیمت مگر روئی جع کہ سفید ہوتی ہے، بڑی سستی مل جاتی ہے اور چند پیسوں میں ڈهیر مل جاتی ہے)
اور سنیے؛
''آنکهوں کی پتلی کالی ہے نور کا وہ چشمہ،
اور آنکهہ کی سفیدی ہے نور سے وہ خالی''
بادشاه سلامت اب آپ ہی انصاف کیجیے کہ رنگ کالا اچها ہے یا نہیں؟؟ کالی کے یہ اشعار سن کر بادشاہ اور بهی زیادہ خوش ہوا اور پهر گوری کی طرف دیکها تو فورا بولی:
''کاغذ سفید ہیں سب قرآن پاک والے''
کالی نے جهٹ جواب دیا:
''اور ان پہ جو لکهے ہیں قرآں کے حرف کالے''
گوری نے پهر کہا کہ:
''میلاد کا جو دن ہے روشن وہ بالیقیں ہے''
کالی نے جهٹ جواب دیا کہ:
''معراج کی جو شب هے کالی هے یا نہیں ہے؟؟''
گوری بولی کہ:
''انصاف کیجیے گا، کچهہ سوچیے گا پیارے!
سورج سفید روشن، تارے سفید سارے''
کالی نے جواب دیا کہ:
''ہاں سوچیے گا آقا! ہیں آپ عقل والے،
کالا غلاف کعبہ، حضرت بلال کالے''
گوری کہنے لگی کہ
''رخ مصطفے ہے روشن دانتوں میں ہے اجالا''
کالی نے جواب دیا
''اور زلف ان کی کالی کملی کا رنگ کالا''
بادشاہ نے ان دونوں کے یہ علمی اشعار سن کر کہا. کہ مجهے لونڈی تو ایک درکار تهی مگر میں تم دونوں ہی کو خرید لیتا ہوں،

رشتوں کی خوشبو ماں

سارے رشتے پیدا ہونے کے بعد بنتے ہیں ، اس زمین پر ایک واحد ایسا رشتہ ہے جو ہمارے پیدا ہونے سے نو ماہ پہلے بن جاتا ہے۔وہ بس وہی کھاتی ہے جس سے ہمیں نقصان نہ ہو ،، وہ بڑے سے بڑے درد میں بھی عذاب بھگت لیتی ہے مگر درد ختم کرنے کی دوا نہیں کھاتی کہ کہیں وہ دوا ہم کو نہ مار دے ،، ہم اس کی پسند کے کھانے چھڑا دیتے ہیں ،، ہم اس کی نیندیں بےچین کردیتے ہیں ،، وہ کسی ایک طرف ہو کر چین سے سو نہیں سکتی ، وہ سوتے میں بھی جاگتی رہتی ھے ، 9مہینے ایک عذاب سے گزرتی ہے ، گرتی ہے تو پیٹ کے بل نہیں گرتی پہلو کے بل گر کر ہڈی تڑوا لیتی ہے تجھے بچا لیتی ہے۔ 

اس نے ابھی تیری شکل نہیں دیکھی ،، لوگ شکل دیکھ کر پیار کرتے ہیں وہ غائبانہ پیار کرتی ہے ،، لوگ تصویر مانگ کر سلیکٹ کرتے ہیں ،،، دنیا کا کوئی رشتہ اس خلوص کی مثال پیش نہیں کرسکتا ،، اللہ کو اس پر اتنا اعتبار ہے کہ اس کو اپنی محبت کا پیمانہ بنا لیا ،، اور جٙنْتی ہے تو قیامت سے گزر کر جٙنْتی ہے اور ہوش آتا ہے تو پہلا سوال تیری خیریت کا ہی ہوتا ہے۔

اللہ کے بعد وہ واحد ہستی ہے جو عیب چھپا چھپا کر رکھتی ہے ، تیری حمایت میں وہ عذر تراشتی ہے کہ تیرے باپ کو مطمئن اور تجھے حیران کر دیتی ہے ،، باپ کھانا بند کرے تو وہ اپنے حصے کا کھلا دیتی ہے ، باپ گھر سے نکال دے تو وہ دروازہ چوری سے کھول دیتی ہے،، اللہ کے بعد کوئی تیرا اتنا خیال نہیں رکھتا جتنا ماں رکھتی ہے ،،، تبھی اللہ نے جنت ماں کے خدمتوں کے تلے رکھا ہے۔

سُبحَانَ اللّهِ وَ بِحَمْدِهِ سُبحَانَ اللّهِ الْعَظِيمِ ..........!!

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ  وَُ  رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا " يَا ودود , يَا مجيب الدعاء , آمِيّنْ... آمِيّنْ... يَا رَبَّ العَـــالَمِيْن ۔

اللہ تعالیٰ ہر بچے کو اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 آمین_ثم_آمین

صدقہ بلاؤں کو ٹال دیتا ہے

ایک نوجوان نے کسی تنگدست بوڑھے کی مدد کی تھی۔ گردش زمانہ سے یہ نوجوان کسی سنگین جرم میں گرفتار ہوا، اور اس کو قتل کی سزا سنائی گئی، سپاہی اس کو لے کر قتل گاہ کی طرف روانہ ہوئے تو تماشہ دیکھنے کے لئے سارا شہر امنڈ آیا ۔ ان میں وہ بوڑھا بھی تھا جس کی مدد اس نوجوان نے کی تھی، بوڑھے نے اپنے محسن کو اس حال میں دیکھا تو اس کا دل زخمی ہوا، وہ زور زور سے رو کر دھائی دینے لگا،
" ہائے لوگو ! ہمارا نیک دل بادشاہ آج وفات پا گیا، افسوس آج دنیا تاریک ہو گئی۔"

سپاہیوں اور لوگوں نے جب یہ خبر سنی تو مارے پریشانی کے نوجوان کو وہی چھوڑ کر محل کی طرف بھاگے ۔ بوڑھے نے فورا اس نوجوان کی زنجریں کھولیں اس کو بھگا کر خود وہاں بیٹھ گیا۔ سپاہی محل میں پہنچے تو بادشاہ وہیں موجود تھا، کھسیانے سے ہو کر وہ وہاں سے کھسک لئے، قتل گاہ میں آئے تو دیکھا سامنے بوڑھا بیٹھا ہے، جب کہ نوجوان نو دو گیارہ ہو گیا تھا ۔

سپاہی ساری صورتحال سمجھ گئے بوڑھے کو گرفتار کر کے بادشاہ کے پاس لے گئے اور سارا ماجرا سنا دیا، بادشاہ نے جو اپنے مرنے کی جھوٹی حبر سنی تو غضبناک ہو کر تحت سے اٹھ کھڑا ہوا اور گرج کر بولا؛
" اے بوڑھے تیری اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ تو نے میری موت کی جھوٹی خبر لوگوں میں پہنچا دی، آخر میں نے تیرا بگاڑا ہی کیا تھا۔ 
بوڑھے نے نرم لہجے میں کہاعالیجاہ ! میرے ایک جھوٹ بولنے پہ آپ پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ لیکن میرے محسن نوجوان کی جان بچ گئی، جس کو بے گناہ قتل کیا جا رہا تھا۔ جس وقت میں بھوکوں مر رہا تھا، تب اسی نوجوان کے دیئے ہوئے صدقے سے میں نے اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے غذا کا بندوبست کیا تھا ۔ آج اس کو بے گناہ مصیبت میں دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا، مجھ میں موجود انسانیت اور جوان مردی نے سر اٹھایا کہ میں اس کی جان بچاؤں، اسی مدد کی خاطر میں نے یہ حیلہ اپنایا"

بادشاہ نے جب یہ سنا تو اس نے اس نوجوان کی تعریف کی اور اس مقدمے کی از سر نو تحقیقات کا حکم دیا ۔ خوش ہو کر اس بوڑھے فقیر کو انعام و اکرام دیا۔ اس نوجوان سے جب کوئی پوچھتا کہ تیری جان کیسے بچی؟وہ جواب دیتا۔
"ایک حقیر سی رقم میرے کام آئی جو اس سائل کو ضرورت کے وقت میں نے دی تھی

آغوش تھراپی

اشفاق احمد اکثر کہا کرتے تھے کہ آدمی عورت سے محبت کرتا ہے جبکہ عورت اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے, اس بات کی مکمل سمجھ مجھے اس رات آئی, یہ گزشتہ صدی کے آخری سال کی موسمِ بہار کی ایک رات تھی. میری شادی ہوئے تقریباً دوسال ہو گئے تھے۔ اور بڑا بیٹا قریب ایک برس کا رہا ہوگا.
     
 
اس رات کمرے میں تین لوگ تھے, میں, میرا بیٹا اور اس کی والدہ! تین میں سے دو لوگوں کو بخار تھا, مجھے کوئی ایک سو چار درجہ اور میرے بیٹے کو ایک سو ایک درجہ. اگرچہ میری حالت میرے بیٹے سے کہیں زیادہ خراب تھی۔ تاہم میں نے یہ محسوس کیا کہ جیسے  کمرے میں صرف دو ہی لوگ ہیں, میرا بیٹا اور اسکی والدہ بری طرح نظر انداز کیے جانے کے احساس نے میرے خیالات کو زیروزبر تو بہت کیا لیکن ادراک کے گھوڑے دوڑانے پر عقدہ یہی کھلا کہ عورت نام ہے اس ہستی کا کہ جب اسکو ممتا دیت کر دی جاتی ہے تو اس کو پھر اپنی اولادکے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا. 
حتیٰ کہ اپنا شوہر بھی اور خاص طورپر جب اسکی اولاد کسی مشکل میں ہو.اس نتیجہ کے ساتھ ہی ایک نتیجہ اور بھی نکالا میں نے اور وہ یہ کہ اگر میرے بیٹے کے درد کا درمان اسکی کی والدہ کی آغوش ہے تو یقینا میرا علاج میری ماں کی آغوش ہو گی.
 
   ‍ 
اس خیال کا آنا تھا کہ میں بستر سے اٹھا اور ماں جی کے کمرہ کی طرف چل پڑا. رات کے دو بجے تھے پر جونہی میں نے انکے کمرے کا دروازہ کھولا وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئیں جیسے میرا ہی انتظار کر رہی ہوں. 
پھر کیا تھا, بالکل ایک سال کے بچے کی طرح گود میں لے لیا۔ 
اور توجہ اور محبت کی اتنی ہیوی ڈوز سے میری آغوش تھراپی کی کہ میں صبح تک بالکل بھلا چنگا ہو گیا.
         
  
پھر تو جیسے میں نے اصول ہی بنا لیا جب کبھی کسی چھوٹے بڑے مسئلے یا بیماری کا شکار ہوتا کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے سیدھا مرکزی ممتا شفا خانہ برائے توجہ اور علاج میں پہنچ جاتا.
وہاں پہنچ کر مُجھے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ بس میری شکل دیکھ کر ہی مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ لگا لیا جاتا. 
میڈیکل ایمرجنسی ڈیکلئر کر دی جاتی. 
مجھے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ماں جی ) کے ہی بستر پر لٹا دیا جاتا اور انکا ہی کمبل اوڑھا دیا جاتا, کسی کو یخنی کا حکم ہوتا تو کسی کو دودھ لانے کا, خاندانی معالج کی ہنگامی طلبی ہوتی, الغرض توجہ اور محبت کی اسی ہیوی ڈوز سے آغوش تھراپی ہوتی اور میں بیماری کی نوعیت کے حساب سے کبھی چند گھنٹوں اور کبھی چند پہروں میں روبہ صحت ہو کر ڈسچارج کر دیا جاتا.
     
یہ سلسلہ تقریباً تین ماہ قبل تک جاری رہا۔ 
وہ وسط نومبر کی ایک خنک شام تھی, جب میں فیکٹری سے گھر کیلئے روانہ ہونے لگا تو مجھے لگا کہ مکمل طور پر صحتمند نہیں ہوں, تبھی میں نے  آغوش تھراپی کروانے کا فیصلہ کیا اور گھر جانے کی بجائے ماں جی کی خدمت میں حاضر ہو گیا, لیکن وہاں پہنچے پر اور ہی منظر دیکھنے کو ملا. ماں جی کی اپنی حالت کافی ناگفتہ بہ تھی پچھلے کئی روز سے چل رہیے پھیپھڑوں کے عارضہ کے باعث بخار اور درد کا دور چل رہا تھا۔

    
میں خود کو بھول کر انکی تیمارداری میں جت گیا, مختلف ادویات دیں, خوراک کے معروف ٹوٹکے آزمائے. 
مٹھی چاپی کی,مختصر یہ کہ کوئی دو گھنٹے کی آؤ بھگت کے بعد انکی طبیعت سنبھلی اور وہ سو گئیں. 
میں اٹھ کر گھر چلا آیا. 
ابھی گھر پہنچے آدھ گھنٹہ ہی بمشکل گذرا ہوگا کہ فون کی گھنٹی بجی, دیکھا تو چھوٹے بھائی کا نمبر تھا, سو طرح کے واہمے ایک پل میں آکر گزر گئے. جھٹ سے فون اٹھایا اور چھوٹتے ہی پوچھا, بھائی سب خیریت ہے نا, بھائی بولا سب خیریت ہے وہ اصل میں ماں جی پوچھ رہی ہیں کہ آپکی طبیعت ناساز تھی اب کیسی ہے……

   ........ اوہ میرے خدایا…
     
     
اس روزمیرے ذہن میں ماں کی تعریف مکمل ہو گئی تھی۔ ماں وہ ہستی ہے جو اولاد کو تکلیف میں دیکھ کر اپنا دکھ,اپنا آپ  بھی بھول جاتی ہے

Monday, March 22, 2021

روز نیا کنواں نہ کھودیں

آج سے کوئی دس سال پہلے کی بات ہے کہ میں ایک نئے مکان میں شفٹ ہوا۔ شفٹ ہونے کے بعد میں نے اس گھر میں اپنا گیزر لگانا تھا۔ یہ سردیوں کے دن تھے اور گرم پانی کے بغیر گذارہ ممکن نہیں تھا۔ میں نے ایک پلمبر کو بلایا ۔ اس نے کام دیکھا اور پھر مجھے کہا کہ آپ کا یہ کام پندرہ سور روپے میں ہو گا۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ آپ ایک ہزار میں کام کر دیں۔ لیکن اس نے کہا کہ اس کا باٹا ریٹ ہے۔ وہ لوگوں کے ساتھ بارگین نہیں کرتا۔

خیر میری مجبوری تھی ۔ میں چپ رہا۔ میں نے اسے کہا کہ آپ گیزر لگا دیں۔ مجھے اس کا رویہ اچھا نہیں لگا ۔ کیونکہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ جان بوجھ کر ڈیل خراب کرنا چاہتا ہے۔ اسے میری مجبوری کا علم تھا اس لئے وہ اپنی بات پر قائم رہا۔

اس نے آدھے گھنٹے کے اندر گیزر لگا دیا۔ اس کے بعد پندرہ سو لئے اور چل دیا۔ گیزر بھی اس نے جس طرح لگایا وہ مجھے پتہ ہے، ایک ایک چیز میں اس کو پکڑا رہا تھا۔ سارے معاملے میں اس کی مدد کرتا رہا۔ خیر اس نے اپنے پیسے لئے اور چلا گیا۔ مجھے بھی بات بھول بھال گئی۔
کچھ عرصہ بعد میں دو چار گلی چھوڑ کر ایک کشادہ مکان میں شفٹ ہو گیا۔ لیکن یہاں بھی گیزر لگانے کا مسئلہ درپیش تھا۔ پہلے میرے دل میں خیال آیا کہ اسی پلمبر کو بلاؤں جس نے پہلے فٹ کیا تھا۔ لیکن اس کا رویہ یاد آیا تو میں نے اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور کسی اور بندے کو ڈھونڈنے نکل پڑا۔ خیر تھوڑی سی کوشش کے بعد مجھے ایک پلمبر مل گیا۔ وہ میرے ساتھ آیا ۔ کام کا جائزہ لیا اور کہا میں آپ سے اس کام کے ایک ہزار لوں گا۔
میں نے کہا کہ میں تنخواہ دار آدمی ہوں کوئی مہربانی کریں۔ جس پر اس نے مسکرا کر کہا کہ بھائی جان کوئی بات نہیں آپ مجھے آٹھ سو روپے دے دینا۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ کام شروع کریں۔ وہ آیا اور اپنے ساتھ ایک اور لڑکا بھی لایا۔ ان دونوں نے آدھے گھنٹے میں گیزر لگایا۔ چائے پینے کے بعد میں نے آٹھ سو اس بندے کو دیئے ۔ اس نے پیسے لئے۔ شکر الحمداللہ کہا۔ تین سو ساتھ لائے لڑکے کو دیئے ، پانچ سو اپنی جیب میں ڈالے، میرا شکریہ ادا کیا اور جاتے جاتے فیڈ بیک بھی لیا کہ بھائی آپ کام سے تو مطمئن ہیں ۔ جس پر میں نے اس کے کام کی تعریف کی اور اس کا نمبر بھی لے لیا۔

دو چار دن بعد ایک دوست کی کال آئی کہ یار آپ نے گیزر جس بندے سے لگوایا ہے اس کا نمبر تو دے دیں۔ کیونکہ میں نے نیا گیزر لیا ہے۔ میں نے فوراً سے اس بندے کا نمبر ڈائل کیا اور اسے اپنے دوست کے گھر پہنچنے کا کہا۔ اس نے آٹھ سو میں اس کا بھی کام کر دیا۔ اس کے بعد اس پلمبر کو میں نے اپنے ریفرنس سے کوئی دس جگہ نلوں، پائپوں اور گیزر کے کام کے لئے بھیجا۔ ہر جگہ اس نے اپنا تعلق بنایا، لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی اور نئے ریفرنس بھی ڈھونڈے۔

آج اس بندے کی مارکیٹ میں سینٹری کی سب سے بڑی دکان ہے۔ اس کے پاس دس کے قریب اسٹاف ہے جس میں پلمبر، الیکٹریشن اور پینٹرز موجود ہیں۔ آج بھی اس کا رویہ یہی ہے۔ خوش اخلاقی ، فیڈ بیک، جس کے ساتھ ایک بار کام کرتا ہے وہ بندہ اسے یاد رکھتا ہے۔ اس کے پاس آتا ہے، اس سے مشورہ لیتا ہے۔
اس کی کامیابی کے پیچھے ایک ہی راز ہے کہ یہ جو کنواں کھودتا ہے اسے دوبارہ اپنے غلط اور لالچی رویے سے بند نہیں کرتا۔ یہ ہر نئے کنویں سے تھوڑا سا پانی لیتا ہے اور آئندہ کے لئے دوبارہ پانی لینے کا راستہ کھلا چھوڑتا ہے۔ یہ ایک ہی بار میں پیسہ نہیں کمانا چاہتا ۔ یہ اپنے کسٹمرز کے دل میں اپنی جگہ بناتا ہے۔ ان کے تعلقات کی وجہ سے مزید آگے جاتا ہے اور مزید اچھا کام کر کے اپنا سرکل بڑا کرتا جا رہا ہے۔
مجھے وہ پہلا بندہ بھی یاد ہے۔ میں نےاسے کچھ عرصہ پہلے دیکھا ہے۔ وہ آج بھی انہی حالوں میں ہے۔ اس کی آج بھی کوشش ہوتی ہے کہ جو بھی کنواں وہ کھودے اسے فوراً بند بھی کر دے۔ لیکن اس کے اس رویے کی وجہ سے اس کا اپنا بخت بند ہو چکا ہے۔ یہ ایک بندے سے ایک ہی بار میں جو لے سکتا ہے لے لیتا ہے اور پھر نئے بندے کی تلاش میں نکل جاتا ہے ۔ زندگی اس کی بھی چل رہی ہے لیکن اس میں ترقی نہیں، عزت نہیں ، ریفرنس نہیں، فیڈ بیک نہیں، مہربانی نہیں اور آگے بڑھنے کا جذبہ نہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ یہ بندہ جب اکیلا ہو گا تو یہی سوچتا ہو گا کہ میری قسمت ہی خراب ہے یا یہ لوگ ہی خراب ہیں۔

یاد رکھیں اگر زندگی میں آگے بڑھنا ہے تو محنت سے کھودے کنویں کو فوراً اپنے لالچ اور غلط رویے کی وجہ سے بند نہ کریں۔ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اپنے کسمٹرز کو اچھا کام دیں۔ ان کا اعتماد جیتیں۔ ان سے عزت لیں۔ ان کو عزت دیں۔ اگر پیسے کم بھی بچ رہے ہیں تو کوئی بات نہیں۔ لیکن تعلق بچنا چاہیئے ، آگے کے رابطے کی وجہ رہنی چاہیئے۔ اس زمین پر لوگ بستے ہیں اور لوگ ہی لوگوں کے کام آتے ہیں۔

(نقل وچسپاں)

ظلم کے خلاف آواز

قانون کی کلاس میں استاد نے ایک طالب کو کھڑا کر کے اُس کا نام پوچھا اور بغیر کسی وجہ کے اُسے کلاس سے نکل جانے کا کہہ دیا۔ طالبعلم نے وجہ جاننے اور اپنے دفاع میں کئی دلیلیں دینے کی کوشش کی مگر اُستاد نے ایک بھی نہ سنی اور اپنے فیصلے پر مُصِّر رہا۔ طالبعلم شکستہ دلی سے اورغمزدہ باہر  تو نکل گیا مگر وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ظلم جیسا سمجھ رہا تھا۔ حیرت باقی طلباء پر تھی جو سر جُھکائے اور خاموش بیٹھے تھے۔
لیکچر دینے کا آغاز کرتے ہوئے استاد نے طلباء سے پوچھا: قانون کیوں وضع کیئے جاتے ہیں؟ ایک طالب علم نے کھڑے ہوکر کہا: لوگوں کے رویوں پر قابو رکھنے کیلئے۔
دوسرے طالب علم نے کہا: معاشرے پر لاگو کرنے کیلئے۔
تیسرے نے کہا؛ تاکہ کوئی طاقتور کمزور پر زیادتی نہ کر سکے۔
استاد نے کئی ایک جوابات سننے کے بعد کہا: یہ سب جواباتُ ٹھیک تو ہیں مگر کافی نہیں ہیں۔ 
ایک طالب علم نے کھڑے ہو کر کہا: تاکہ عدل و انصاف قائم کیا جا سکے۔
استاد نے کہا: جی، بالکل یہی جواب ہے جو میں سننا چاہتا تھا۔ تاکہ عدل کو غالب کیا جا سکے۔
استاد نے پھر پوچھا: لیکن عدل اور انصاف کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟
ایک طالب علم نے جواب دیا: تاکہ لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی جا سکے اور کوئی کسی پر ظلم نہ کر سکے۔
اس بار استاد نے ایک توقف کے بعد کہا: اچھا، مجھ سے ڈرے بغیر اور بلا جھجھک میری ایک بات کا جواب دو، کیا میں نے تمہارے ساتھی طالبعلم کو کلاس روم سے نکال کر کوئی ظلم یا زیادتی کی ہے؟
سارے طلباء نے بیک زبان جواب دیا؛ جی ہاں سر، آپ نے زیادتی کی ہے۔
اس بار استاد نے غصے سے اونچا بولتے ہوئے کہا: ٹھیک ہے کہ ظلم ہوا ہے۔ پھر تم سب خاموش کیوں بیٹھے رہے؟ کیا فائدہ ایسے قوانین کا جن کے نفاذ کیلئے کسی کے اندر ھمت اور جراءت ہی نہ ہو؟ 
جب تمہارے ساتھی طالبعلم کے ساتھ زیادتی ہو رہی تھی اور تم اس پر خاموش بیٹھے تھے، اس کا بس ایک ہی مطلب تھا کہ تم اپنی انسانیت کھوئے بیٹھے تھے۔ اور یاد رکھو جب انسانیت گرتی ہے تو اس کا کوئی بھی نعم البدل نہیں ہوا کرتا۔
اس کے ساتھ ہی استاد نے کمرے سے باہر کھڑے ہوئے
 طالب علم کو واپس اندر بلایا، سب کے سامنے اس سے اپنی زیادتی کی معافی مانگی، اور باقی طلباء کی طرف اپنا رخ کرتے ہوئے کہا: یہی تمہارا آج کا سبق ہے۔ اور جاؤ، جا کر معاشرے میں ایسی نا انصافیاں تلاش کرو اور ان کی اصلاح کیلئے قانون نافذ کرانے کے طریقے سوچو۔۔۔