" خانہ کعبہ کی تاریخ " اور فضیلت …
خانہ کعبہ کی تعمیر کب ہوئی ؟
جب حضرت ابراہیمؑ کو حکم الٰہی ہوا کہ مکہ کی طرف جاؤ تو آپ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ کو لے کر روانہ ہوگئے اور اس مقام پر پہنچے جہاں اب مکہ واقع ہے۔
یہاں نہ کوئی عمارت تھی اور نہ پانی تھا اور نہ یہاں کوئی رہتا تھا۔ درختوں کے نام پر صرف ببول وغیرہ کی جھاڑیاں تھیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے بیوی بچے دونوں کو یہاں بٹھا دیا۔ ایک مشکیزہ پانی کا اور کھجوریں پاس رکھ دیں اور پھر آپؑ شام کی طرف چلے گئے۔
حضرت ابراہیمؑ دوسری بار مکہ آئے تو قیام نہ کیا لیکن جب تیسری بار تشریف لائے تو حضرت اسماعیلؑ سے فرمایا کہ ''بیٹا! اﷲ تعالیٰ نے مجھے ایک حکم دیا ہے''۔ حضرت اسماعیلؑ نے کہا: ''تو اطاعت کیجیے''۔ پوچھا: ''کیا تُو میری مدد کرے گا؟'' کہا: ''کیوں نہیں''۔ حضرت ابراہیمؑ نے کہا: ''اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہاں ایک گھر بناؤں''۔
گھر کی تعمیر شروع ہوئی، حضرت اسماعیلؑ پتھر لاتے جاتے اور حضرت ابراہیمؑ بناتے جاتے تھے۔ جب تعمیر ذرا بلند ہوگئی تو حضرت اسماعیلؑ ایک پتھر اٹھاکر لائے تاکہ حضرت ابراہیمؑ اس پر کھڑے ہوکر تعمیر کریں۔
(یہی مقام ابراہیمؑ ہے) دونوں باپ بیٹے دیوار اٹھاتے جاتے تھے اور دعا کرتے جاتے تھے۔''اے پروردگار! ہم سے قبول فرما، تُو سننے اور جاننے والا ہے۔'
'انھوں نے اس گھر کی تعمیر نہ مٹی سے کی اور چونے سے، بس پتھر پر پتھر رکھتے چلے گئے، نہ اس کی چھت بنائی نہ دروازہ۔.
بعد میں مختلف ایام میں پھر بیت اﷲ کی تعمیر ہوئی۔ قریش نے بھی تعمیر کی اور ان کے بعد بھی ہوئی۔کہتے ہیں اس وقت حضرت اسماعیلؑ کی عمر بیس سال تھی، حضرت ابراہیمؑ نے بیت اﷲ کے پہلو میں حجر کو حضرت اسماعیلؑ کی بکریوں کا باڑہ بنایا تھا اور اس پر پیلو کی چھت ڈالی تھی۔ پہلے بیت اﷲ کی جگہ ایک سرخ ٹیلہ تھا۔
اکثر سیلاب ادھر ادھر سے اسے کاٹتا رہتا تھا۔ جب حضرت ابراہیمؑ تعمیر کعبہ سے فارغ ہوگئے تو حضرت اسماعیلؑ سے ایک ایسا پتھر لانے کو کہا جو آغاز طواف کے لیے نشانی کے طور پر استعمال ہوسکے۔
یہ پتھر حضرت جبرئیل ابوقبیس کی پہاڑی سے لائے۔ حضرت ابراہیمؑ نے اسے اس مقام پر رکھ دیا جہاں وہ اب قائم ہے۔ روایت ہے یہ بہت روشن تھا۔حضرت جبرئیل نے انھیں تمام مقامات دکھائے اور پھر اﷲ نے حکم دیا کہ لوگوں کو حج کے لیے پکاریں۔
حضرت ابراہیمؑ نے کہا: ''پروردگار! میری آواز لوگوں تک کیسے پہنچ سکتی ہے؟'' اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ''آپ پکاریے، ہم آپ کی پکار لوگوں تک پہنچادیں گے۔
'' تفسیر جلالین میں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے ابو قبیس پہاڑی پر چڑھ کر پکارا: ''لوگو! اﷲ تعالیٰ نے ایک گھر بنایا ہے اور تم پر حج فرض کیا ہے لہٰذا تم اپنے پروردگار کی آواز پر لبیک کہو۔''حضرت ابراہیمؑ نے شمال جنوب، دائیں اور بائیں منہ کرکے آواز دی اور لوگوں نے لبیک کہا۔
۔''طاہر الکروی لکھتے ہیں خانہ کعبہ گیارہ بار تعمیر ہوا ہے۔ فرشتوں نے بنایا، حضرت آدمؑ نے بنایا،
حضرت شیثؑ نے تعمیر کیا، حضرت ابراہیمؑ نے تعمیر کیا، عمالقہ نے بنایا،
جرہم نے تعمیر کیا، قصی نے تعمیر کیا، قریش نے بنایا، عبداﷲ بن زبیرؓ نے تعمیر کیا،
حجاج نے بنایا، پھر سلطان مراد رابع نے بنایا جو آل عثمان میں سے تھا۔قریش کی جانب سے تعمیر نو رسول اﷲ ؐ کے زمانے میں ہوئی تھی۔ قریش نے تعمیر کے لیے جو حلال مال جمع کیا تھا وہ کافی نہیں تھا اس لیے حجر کی طرف چھ ہاتھ ایک بالشت جگہ کم کردی گئی تھی۔
حجر کے پیچھے ایک چھوٹی سی گول دیوار بنادی تھی تاکہ لوگ اس کے باہر طواف کریں، کعبہ کے اندر انھوں نے دو صفوں میں چھ ستون رکھے تھے جس پر چھت تھی۔ اس سے پہلے کعبہ پر چھت نہیں تھی۔
دروازہ ایک رکھا تھا، چھت کی بلندی اٹھارہ ہاتھ تھی۔حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی تعمیر بیت اﷲ کے بارے میں طاہر الکروی بتاتے ہیں ''انھوں نے تین دن تک استخارہ کرنے کے بعد کعبہ کو بالکل زمین کے برابر کردیا اور حضرت ابراہیمؑ کی بنیاد کو بھی کھدوایا تو دیکھا کہ وہ چھ ہاتھ اور ایک بالشت حجر اسماعیل میں داخل ہے لہٰذا آپ نے انھی بنیادوں پر تعمیر کی۔
ایسا انھوں نے حضرت عائشہؓ کی ایک حدیث کی بنا پر کیا۔حضرت زبیرؓ نے کعبہ کی بلندی ستائیس ہاتھ رکھی .
ایک دروازہ داخلے کے لیے اور ایک باہر جانے کے لیے بنایا۔ دونوں دروازے سطح زمین کے برابر تھے، ہر دروازے کی لمبائی گیارہ ہاتھ تھی اور دو پٹ تھے۔
آپ نے کعبہ کے چار ستون بنائے۔آپ کے زمانے میں یہ چاروں ستون چومے جاتے تھے۔ اپ نے رکن شامی کی جانب ایک زینہ اوپر جانے کے لیے بنایا تھا اور اسے سونے سے مزین کیا تھا۔
چھت پر پرنالہ رکھا تھا جو حجر میں گرتا تھا۔جس دن کعبہ شریف کی تعمیر مکمل ہوئی وہ دن عجیب تھا۔ اس دن بہت سے غلام آزاد کیے گئے اور بہت سی بکریاں ذبح کی گئیں۔
کہتے ہیں کہ ابن زبیر کی تعمیر کی وجہ یہ تھی کہ ایک شخص نے محاصرے کے زمانے میں مسجد حرام کے کسی خیمے میں آگ جلائی۔ خیمے میں آگ لگ گئی جو بڑھتے بڑھتے کعبہ تک پہنچ گئی اور اس نے غلاف کعبہ اور رکن یمانی جلا ڈالا۔
یہ واقعہ 64 ہجری کا ہے۔ دس سال بعد 74 ہجری میں حجاج نے اس بنا پر کہ ابن زبیر نے کعبہ میں اضافہ کیا تھا اور ایک دروازہ مزید بنادیا تھا، اسے گرا کر قریش کی تعمیر کے مطابق کردیا۔
عثمانی سلطان مراد رابع کے زمانے میں 19 شعبان 1039 ہجری کو صبح 8 بجے مکہ اور اس کے اطراف میں شدید بارش ہوئی۔
بارش سے سیلاب حرم شریف میں داخل ہوگیا اور کعبہ شریف کے دروازے کی چوکھٹ سے بھی بلند ہوگیا۔
دوسرے دن جمعرات کو عصر کے وقت کعبہ کی شامی دیوار دونوں طرف سے گر گئی اور اس کے ساتھ مشرقی دیوار کا کچھ حصہ بھی۔ مغربی دیوار بھی دونوں طرف سے چھٹے حصے کے بقدر گرگئی، چھت کا کچھ حصہ بھی گر گیا، چنانچہ سلطان مراد نے دوبارہ کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا۔
- آخری مرتبہ خلافتِ عثمانیہ کے سلطان مراد چہارم نے 1630ء میں اس کی تعمیر کروائی۔ یہ ہی خانہ کعبہ کی موجودہ شکل ہے, ایک سال میں یہ تعمیر مکمل ہوئی۔ سلطان مراد کی تعمیر ہمارے اس دور تک باقی ہے.
آج خانہ کعبہ کی اونچائی 15 میٹر ہے تاہم اس کی چوڑائی ہر جانب مختلف پیمائش رکھتی ہے۔ مغربی جانب اس کی چوڑائی 12 میٹر اور گیارہ سینٹی میٹر ہے۔ مشرقی جانب اس کی چوڑائی 12 میٹر اور 84 سینٹی میٹر ہے۔ جنوبی جانب خانہ کعبہ کی چوڑائی 11 میٹر اور 52 سینٹی میٹر اور شمالی جانب 11 میٹر اور 20 سینٹی میٹر ہے۔
خانہ کعبہ کی موجودہ شکل بھی وہ نہیں ہے جس شکل میں یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں تعمیر ہوا تھا۔ مختلف زمانوں کے دوران بیت اللہ نئے سِرے سے تعمیر کیا گیا۔ ان میں درجِ ذیل مواقع سامنے آتے ہیں
اسی طرح خانہ کعبہ کے چار کونے ہیں جن میں ہر کونے کے نام کی ایک دلیل ہے۔ رکن یمانی کی جانب رُکنِ عراقی اور شامی ہے۔ رکن حجرِ اسود اُس کونے کو کہا جاتا ہے جس میں جنّت کا یہ مبارک پتھر نصب ہے۔ اسی کے قریب بیت اللہ کا دروازہ ہے جو سال میں دو بار کھولا جاتا ہے۔ ہمیں حطیم کو بھی نہیں بُھولنا چاہیے جو خانہ کعبہ کا ہی حصّہ شمار کیا جاتا ہے۔
بعد ازاں خانہ کعبہ کی تاریخ میں بعض دیگر امور کا اضافہ ہوا۔ ان میں اُس کا غلاف (کِسوہ) جو سال میں دو مرتبہ تبدیل ہوتا ہے، میزابِ رحمت اور شاذروان (خانہ کعبہ کے چاروں جانب نچلی دیوار) شامل ہے۔
خانہ کعبہ کے دروازے کو ماضی میں طویل عرصے تک کسی منظّم ترتیب کے بغیر کھولا جاتا رہا۔ تاہم شدید بھیڑ کے باعث اس طرح لوگوں کی جانوں کو خطرہ درپیش ہوا۔ لہذا یہ امر اس بات کا متقاضی ہوا کہ اس دروازے کو سال میں صرف دو مرتبہ کھولے جانے تک محدود کر دیا جائے۔
پہلی مرتبہ شعبان میں غُسلِ کعبہ کے موقع پر اور دوسری مرتبہ اس کے غُسل اور نئے غلاف کی تبدیلی کے موقع پر ذوالحجہ کے مہینے میں.
تاہم اس حوالے سے متعدد روایات ملتی ہیں کہ اللہ کے اس گھر کو پہلی مرتبہ کس نے تعمیر کیا۔ قرآن کریم خلیل اللہ حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہما السلام کے بارے میں تصدیق کرتا ہے کہ ان باپ بیٹے نے اللہ کے حکم کو پورا کرتے ہوئے خانہ کعبہ کی دیواریں تعمیر کیں.
خانہ کعبہ کتنی بار تعمیر کیا گیا؟
--------------------------------------
حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ''تاریخ مکہ'' میں تحریر فرمایا ہے کہ ''خانہ کعبہ'' دس مرتبہ تعمیر کیا گیا:
(۱)سب سے پہلے فرشتوں نے ٹھیک ''بیت المعمور'' کے سامنے زمین پر خانہ کعبہ کو بنایا۔
(۲)پھر حضرت آدم علیہ السلام نے اس کی تعمیر فرمائی۔
(۳)اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے فرزندوں نے اس عمارت کو بنایا۔
(۴)اس کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسمٰعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام نے اس مقدس گھر کو تعمیر کیا۔ جس کا تذکرہ قرآن مجید میں ہے۔
(۵) قوم عمالقہ کی عمارت۔
(۶)اس کے بعد قبیلہ جرہم نے اس کی عمارت بنائی۔
(۷)قریش کے مورث اعلیٰ ''قصی بن کلاب'' کی تعمیر ۔
(۸)قریش کی تعمیر جس میں خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی شرکت فرمائی اور قریش کے ساتھ خود بھی اپنے دوش مبارک پر پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے۔(۹)حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تجویز کردہ نقشہ کے مطابق تعمیر کیا۔ یعنی حطیم کی زمین کو کعبہ میں داخل کر دیا۔ اور دروازہ سطح زمین کے برابر نیچا رکھا اورایک دروازہ مشرق کی جانب اور ایک دروازہ مغرب کی سمت بنا دیا۔
(۱۰)عبدالملک بن مروان اموی کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا۔ اور ان کےبنائے ہوئے کعبہ کو ڈھا دیا ۔اور پھر زمانۂ جاہلیت کے نقشہ کے مطابق کعبہ بنا دیا۔ جو آج تک موجود ہے۔
لیکن حضرت علامہ حلبی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی سیرت میں لکھا ہے کہ نئے سرے سے کعبہ کی تعمیر جدید صرف تین ہی مرتبہ ہوئی ہے:
(۱)حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی تعمیر
(۲)زمانۂ جاہلیت میں قریش کی عمارت اور ان دونوں تعمیروں میں دو ہزار سات سو پینتیس (۲۷۳۵) برس کا فاصلہ ہے
(۳)حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعمیر جو قریش کی تعمیر کے بیاسی سال بعد ہوئی۔
حضرات ملائکہ اور حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے فرزندوں کی تعمیرات کے بارے میں علامہ حلبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ یہ صحیح روایتوں سے ثابت ہی نہیں ہے۔ باقی تعمیروں کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ یہ عمارت میں معمولی ترمیم یا ٹوٹ پھوٹ کی مرمت تھی۔ تعمیر جدید نہیں تھی۔(1) واللہ تعالیٰ اعلم۔
(حاشیہ بخاری ج۱ ص۲۱۵ باب فضل مکہ)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد
………… الحدیث : حرمت کعبہ اور اس کے آداب …………
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے۔
ان عبدا اصححت جسمه، واوسعت عليه فی الرزق فی الدنيا فلا يعد الی فی خمسة اعوام أو أربعة اعوام، محروم.
''جس بندے کو میں نے دنیا میں جسمانی صحت اور رزق کی فراوانی عطا کی، پھر بھی وہ چار یا پانچ سال کے اندر میرے پاس نہ آیا، وہ بڑا ہی محروم ہے''۔
شرح و تفصیل
اس حدیث پاک میں مالی و جسمانی قوت و طاقت رکھنے والے افرادِ امت کو کعبہ کی زیارت کے لئے باقاعدہ آنے اور حج کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور نہ آنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔ یہ پر جلال اسلوب و انداز اس بات کا متقاضی ہے کہ پہلے کعبہ شریف کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جائیں تاکہ اس حکم کی حکمت سمجھ میں آئے اور پھر اس کی روشنی میں علی وجہ البصیرت اس حدیث کو سمجھا جائے۔ اس لئے ہم پہلے کعبہ کا مکمل تعارف پیش کرتے ہیں۔
کعبہ کی پرشکوہ عمارت
کعبہ معظمہ ایک پرشکوہ، بلند و بالا اور فلک بوس چوکور عمارت کا نام ہے جو مکہ مکرمہ میں مسجد حرام کے وسیع و عریض اور خوبصورت شفاف صحن کے وسط میں واقع ہے۔ اس کی جلالتِ شان اور شرف و عظمت کے پیش نظر، اظہارِ محبت و عقیدت کے طور پر ہر سال، اس پر ایک نہایت قیمتی، قالین نما غلاف چڑھایا جاتا ہے، جس پر سونے کے تاروں سے قرآنی آیات کندہ ہوتی ہیں، کالے غلاف میں ملبوس کعبہ معظمہ بڑا پرشکوہ دکھائی دیتا ہے جیسے کوئی بارعب بادشاہ پورے جاہ و جلال کے ساتھ کھڑا ہو، یہ رعب و جلال اس کو سجتا بھی ہے کیونکہ وہ بادشاہ حقیقی کے جاہ وجلال کا مظہر ونمائندہ ہے اور اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ بندے وہاں عجز ونیاز کے ساتھ حاضری دیں اور اظہارِ بندگی کریں اور محبوب حقیقی اور خالق ومالک کے لئے دلوں میں جو جذباتِ محبت رکھتے ہیں ان کا کھل کر مظاہرہ کریں اور اس مظاہرہ میں دیوانگی کی حدوں کو چھولیں، دیکھنے والا پہلی ہی نظر میں جان لے کہ یہ سچے عاشق ہیں، جنہوں نے لباسِ جنوں پہنا ہوا ہے اور مجنوں بن کر اپنے محبوب کے گھر کا طواف کر رہے ہیں۔
دولت مندوں پر لازم کیا گیا ہے کہ جب وہ حالات کو سازگار اور راستے کو پرامن پائیں تو اس کا حج کرنے کے لئے آئیں اور اس کی زیارت اور اس کے طواف کا شرف حاصل کریں۔
''بیت اللہ'' اور ''پہلا گھر ''
قرآن پاک میں بتایا گیا ہے کہ کعبہ شریف پہلا گھر ہے جو لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے، وہ مکہ مکرمہ میں ہے اور بڑی ہی برکت والا ہے، اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ تمام عالم کے لئے مرکز رشد وہدایت ہے۔
اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَکَّةً مُّبَارَکًا وَّهُدًی لِّلْعَالَمِيْنَ.
پہلا سوال :
یہ چوتھے پارے کے پہلے رکوع کی پانچویں آیت ہے، اس میں کعبہ شریف کو ''اَوَّلَ بَيْتٍ'' یعنی پہلا گھر قرار دیا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ پہلا گھر ہونے کا مطلب کیا ہے۔
دوسرا سوال :
اسی طرح پہلے پارے کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسے ''بَيْتِيْ'' فرمایا ہے یعنی میرا گھر دوسرے لفظوں میں اسے ''بیت اللہ'' قرار دیا ہے، یعنی ''اللہ کا گھر'' یہاں دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر مسجد اور عبادت گاہ ''بیت اللہ'' ہوتی ہے، پھر کعبہ شریف ہی کو ''بیت اللہ'' کیوں فرمایا؟
دونوں سوالوں کا جواب :
ان دونوں سوالوں کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مختلف انداز ہیں، بندے ذکر و فکر، تسبیح ومناجات، تلاوت ونماز وغیرہ کی صورت میں عبادت کرتے ہیں، یہ عبادات کسی بھی جگہ اور کسی بھی مسجد میں ادا کی جا سکتی ہیں، ان کے لئے کوئی عبادت گاہ یا کوئی مسجد مخصوص نہیں ہے۔ لیکن کعبہ شریف کی انفرادی شان یہ ہے کہ اس میں ہر قسم کی عبادات کے علاوہ ایک ایسی عبادت بھی کی جاتی ہے جو کسی اور عبادت گاہ یا مسجد میں جائز نہیں اور وہ عبادت طواف ہے۔ اس عبادت کے لئے خاص طور پر اس گھر کو سب سے پہلے بنایا گیا ہے اس لئے یہ ''پہلا گھر'' بھی ہے اور سب سے زیادہ ''بیت اللہ'' کہلانے کا مستحق بھی، کیونکہ اس میں وہ عبادت کی جاتی ہے جو کسی اور جگہ ممکن ہی نہیں۔
کعبہ کیا ہے؟
کعبہ ایک بلند و بالا، سیاہ غلاف میں ملبوس پرشکوہ چوکور عمارت کا نام ہے، جس کے درو دیوار اور چار کونے ہیں اور وہ حرم شریف کے صحن کے درمیان بنا ہوا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اصل کعبہ وہ نہیں ہے جو ظاہر بین آنکھوں کو نظر آتا ہے بلکہ اصل کعبہ وہ ہے جسے اہل حقیقت دیکھتے ہیں۔ اصل کعبہ اس مقام یا جگہ کا نام ہے جہاں یہ کعبہ کھڑا ہے۔ یہ جگہ شروع ہی سے مرکز انوار ہے، اگر یہاں موجودہ عمارت اور اس کے در ودیوار نہ ہوتے تو بھی یہ جگہ کعبہ ہوتی اور لوگوں کو حکم ہوتا کہ وہ اس کا حج کریں۔
یہی وجہ ہے کہ جب طوفان نوح کے بعد یہ جگہ ریت میں دب گئی اور اس جگہ صرف ایک سرخ ٹیلہ رہ گیا تھا اور لوگوں کے لئے جگہ کا تعین مشکل تھا، تو اس وقت بھی یہاں کا حج کرنے کے لئے آتے تھے، انبیاء کرام کو یہ حکم تھا کہ وہ خصوصی طور پر یہاں پہنچیں اور حج کے مناسک ادا کریں۔ مظلوم فریاد لے کر یہاں پہنچتے اور دعا کرتے تو وہ قبول ہوتی تھی۔ خواص کو یہاں کعبہ کی خوشبو آجاتی تھی، اس لئے درودیوار اور عمارت نہ ہونے کے باوجود کعبہ یہاں موجود تھا۔ جو لوگ نور ولایت سے سرفراز ہیں اور عرف عام میں انہیں اولیاء اللہ کہتے ہیں، وہ اصل کعبہ ہی کی زیارت کے لئے آتے ہیں، اگر وہ اسے نہ دیکھ سکیں تو سراپا فریاد بن جاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اس کا دیدار کرایا جائے۔
آدابِ کعبۃ اللہ
کعبۃ اللہ کی شان و شوکت کے چرچے سن کر اور اس کی زیارت کے لئے مقرر کئے گئے زبردست آداب و ضوابط کی تفصیلات پڑھ کر اور اس کے حیرت انگیز فضائل وکمالات سے آگاہ ہو کر، انسان دنگ رہ جاتا ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ راوی ہیں :
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِذَا اَتَيْتُمْ الْغائِطَ فَلاَ تَسْتَقْبِلُوْا الْقِبْلَةَ وَ لاَ تَسْتَدْ بِرُوْهاَ.
''جب تم پیٹ کا فضلہ پھینکنے کے لئے کہیں جاؤ تو اس حالت میں قبلہ کی طرف نہ منہ کرو، نہ پشت کرو''۔
کعبہ معظمہ، انوار الہٰیہ کے نزول کی مرکزی جگہ ہے اس لئے عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کے لئے قابل احترام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان خواہ زمین کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں، وہ اپنی حیثیت اور سمجھ کے مطابق اس کا ضرور احترام کرتے ہیں، اس کی طرف پاؤں نہیں پھیلاتے، ادھر منہ کر کے نہیں تھوکتے اور پیشاب وغیرہ کرتے وقت اپنا رخ پھیر لیتے ہیں اور اس حالت میں اس کی طرف پشت بھی نہیں کرتے۔ یہ عام مسلمانوں کی حالت ہے لیکن جو اہل نظر ہیں اور کعبہ شریف کے صرف در ودیوار ہی کو نہیں دیکھتے بلکہ اس میں انوار وتجلیات کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں، ان کا معاملہ ہی کچھ اور ہے، وہ اس انداز سے احترام کرتے ہیں اور ایسے آداب و ضوابط ملحوظ رکھتے ہیں جو عوام کی سمجھ سے بھی بالا تر ہوتے ہیں اور ان کا ذہن ان آداب کی پابندی کی طرف نہیں جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام حج کرنے کے بعد، فوراً اپنے شہروں کی طرف واپس چلے جاتے تھے تاکہ کوئی ایسی غلطی سرزد نہ ہو جائے جو حرمتِ کعبہ کے منافی ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرمایا کرتے تھے، مکہ مکرمہ کے علاوہ کسی مقام پر مجھ سے ستر غلطیاں سر زد ہو جائیں میں یہ تو گوارا کر سکتا ہوں، لیکن یہ گوارا نہیں کرتا کہ مکہ مکرمہ میں ایک غلطی بھی سرزد ہو، اسی لئے آپ طائف میں رہتے تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا سرکاری حکم
جب لوگ حج سے فارغ ہو جاتے تو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ، سرکاری حکم جاری فرما دیتے تھے۔ اے اہل یمن! تم یمن چلے جاؤ، اے اہلِ شام! تم شام چلے جاؤ! اے اہل عراق! تم عراق چلے جاؤ۔ اب مکہ مکرمہ میں زیادہ دیر ٹھہرنے کی کوشش نہ کرو، ایسا نہ ہو کہ زیادہ قیام سے ادب کے تقاضے پورے کرنے میں سستی ہو جائے، اس لئے قیام سے بہتر یہی ہے کہ اپنے وطن کی طرف لوٹ جاؤ تاکہ کعبہ کی حرمت و محبت دلوں میں برقرار رہے۔
اپنے وطن میں رہ کر، جسمانی طور پر کعبہ سے دور ہوتے ہوئے بھی محبت و عقیدت کی بنیاد پر، روحانی طور پر کعبہ سے قریب رہنا، اس قرب سے بہتر ہے جس میں انسان جسمانی طور پر تو کعبہ کے پاس ہو، مگر ذہنی طور پر اس سے دور ہو، اس کیفیت سے کعبہ شریف کی بے حرمتی ہوتی ہے، جس کی وہ بارگاہ خداوندی میں شکایت بھی کرتا ہے اور اہل مشاہدہ وہ شکایت سن بھی لیتے ہیں۔
کعبۃ اللہ کی شکایت
ایک مرتبہ حضرت وھب بن ورد نے سنا، کعبہ کہہ رہا تھا :
اِلَی اللّٰهِ اَشْکُوْ ثُمَّ اِلَيْکَ يَاجِبْرِيْلُ مَااَلْقٰی مِنَ الطَّائِفِيْنَ حَوْلِيْ مِنْ تَفَکُّرِ هِمْ فِی الْحَدِيْثِ وَلَغْوِهِمْ وَلَهْوِهِمْ لئِنْ لَمْ يَنْتَهُوْا عَنْ ذَالِکَ لَاَنْتَفِضَنَّ اِنْتِفَاضَةً يَرْجِعُ کُلُّ حَجَرٍ اِلَی الْجَبَلِ الَّذِيْ قُطِعَ مِنْهُ.
''اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں فریاد کرتا ہوں، اے جبریل! تیرے حضور بھی شکایت کرتا ہوں، یہ طواف کرنے والے مجھ پر ستم ڈھاتے ہیں، طواف کے دوران دلوں میں بے کار اور نامناسب باتیں سوچتے رہتے ہیں، اگر وہ اس حرکت سے باز نہ آئے تو میں اتنی زور سے کانپوں گا کہ ہر پتھر اڑ جائے گا اور اسی پہاڑ پر چلا جائے گا، جہاں سے اسے لیا گیا تھا''۔
(احياء العلوم، : 243)
اولیاء کرام کی دربارِ کعبہ میں حاضری
کعبہ معظمہ، حقیقی حاکم اعلیٰ کا دربار خاص ہے، شاہی دربار میں اس کے ارکان اور اہل دربار کی حاضری لازمی ہوتی ہے، دربارِ مکہ کے خاص درباری اولیاء کرام ہیں، اس لئے اولیاء کرام یہاں ضرور حاضری دیتے ہیں اور طواف و زیارت سے فیض یاب ہوتے ہیں، اس مقصد کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں، وہ جب چاہیں روحانی یا جسمانی طور پر یہاں پہنچ جاتے ہیں، مگر اوقات فاضلہ میں یا جمعہ کی رات کو وہ ضرور حاضری دیتے ہیں، کیونکہ ان خصوصی اوقات میں کعبہ شریف کے نوری فیضان میں خاص تموج اور جوش پیدا ہوتا ہے، جس سے وہ اپنے قلب ونظر اور ظاہر وباطن کو منور کرتے ہیں۔ اہل بصیرت فرماتے ہیں۔
وَلاَ شَکَّ فِيْ تَرَدُّدِ الْاَوْلِيَائِ اِلَيْهَا فِی الْاَوْقَاتِ الْفَاضِلَةِ وَيَحْضُرُوْنَ الْجُمُعَةُ وَالْاَوْقَاتِ الشَرِيْفَةَ وَ يَحُجُّوْنَ کُلَّ عَامٍ.
(تاريخ القطبی، 28)
''اس میں کوئی شک نہیں کہ اولیاء کرام، فضیلت والے خاص اوقات میں اور جمعہ کو کعبہ شریف میں پہنچتے ہیں اور ہر سال حج کرتے ہیں''۔
اولیاء کرام کے ایک عالی پایہ گروہ کو ''اوتاد'' اور ''ابدال'' کہتے ہیں، اس عظیم گروہ کا کوئی نہ کوئی فرد، سورج کے طلوع و غروب کے وقت یعنی صبح و شام وہاں ضرور موجود ہوتا ہے، گویا وہ دونوں وقت کی حاضری ضروری سمجھتا ہے۔
يُقَالُ لاَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ مِنْ يَوْمٍ اِلاَّ وَيَطُوْفُ بِهٰذَا الْبَيْتِ رَجُلٌ مِنْ الْاَبْدَالِ وَلاَ يَطْلُعُ الْفَجْرُ مِنْ لَيْلَةٍ اِلاَّ طَافَ بِهِ وَاحِدٌ مِنَ الْاَوْتَادِ وَاِذَا انْقَطَعَ ذَالِکَ کَانَ سَبَبُ رَفْعِهِ مِنَ الْاَرْضِ فَيُصْبِحُ النَّاسُ وَقَدْ رُفِعَتِ الْکَعْبَةُ لاَ يَرَی النَّاسُ لَهَا اَثْرًا.
(احياء العلوم، 1 : 242)
''کہا جاتا ہے، جب سورج غروب ہونے لگتا ہے تو ابدال میں سے کوئی نہ کوئی شخص ضرور اس کا طواف کرتا ہے اور جب فجر طلوع ہونے لگتی ہے تو اوتاد میں سے کوئی نہ کوئی ضرور اس کا طواف کرتا ہے، جب یہ سلسلہ منقطع ہو جائے گا، یعنی اولیاء کرام میں سے کوئی اس کا طواف کرنے والا نہیں رہے گا تو یہ کعبہ شریف کے اٹھائے جانے کا سبب بن جائے گا، چنانچہ لوگ صبح کو اٹھیں گے تو کعبہ کا کوئی نشان دکھائی نہیں دے گا، وہ اٹھایا جا چکا ہوگا''۔
حضرت عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ۔
لَا تَزَالُ هٰذِهِ الْاُمَّةُ بِخَيْرٍ مَاعَظَّمُوْا هٰذِهِ الْحُرْمَةَ حَقَّ تَعْظِيْمِهَا فَاِذَا ضَيَعُوْا ذَالِکَ هَلَکُوْا.
''جب تک یہ امت ''حرم کعبہ'' کی اس طرح تعظیم کرتی رہے گی جیسی تعظیم کرنے کا حق ہے، تو خیر و برکت سے بہرہ ور رہے گی، جب وہ یہ معمول ترک کر دے گی تو تباہ و برباد ہو جائے گی''۔
(ابن ماجة)
قرآن پاک میں ہے۔
وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ.
(الْحَجّ ، 22 : 25)
''اور جو شخص حرم کعبہ میں گناہ کا ارادہ بھی کرے گا تو ہم اسے المناک عذاب چکھائیں گے''۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں حرمت کعبہ کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ کعبہ شریف کی طرف جانے والے قربانی کے جانوروں اور حج کے ارادے سے سفر کرنے والے انسانوں کی بے حرمتی سے بھی روکا گیا ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللّهِ وَلاَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلاَ الْهَدْيَ وَلاَ الْقَلآئِدَ وَلاَ آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ.
(الْمَآئِدَة ، 5 : 2)
گویا حکم ہے کہ ان کا احترام ملحوظ رکھو اور کوئی ایسی حرکت نہ کرو جو ان کی شان کے منافی ہو اور ان کی موجودہ حیثیت کے لحاظ سے بے ادبی کے زمرے میں آتی ہو کیونکہ وہ اس وقت راہِ کعبہ پر گامزن ہیں اور اس کی زیارت کے لئے جا رہے ہیں۔
کعبہ کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے، جس دور میں بھی کسی نے اس کی بے حرمتی کا ارادہ کیا اور اس کی عزت و تکریم کو پامال کرنے کے درپے ہوا بلکہ اگر اس کی توہین کی نیت بھی کی، تو وہ اپنے جاہ و جلال سمیت پیوندِ زمین کر دیا گیا، اس کا شاہی دبدبہ، لاؤ لشکر، زر و مال اور جنگی سازو سامان کچھ کام نہ آیا اور اس کا حشر قیامت تک کے لئے عبرت کا نشان بن گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے کی بات ہے، سرزمین عرب پر تُبَّع بادشاہ حکمران تھا۔ جس کی حکومت ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی تھی اور اس نے بزور شمشیر تمام قبائل کو اپنا مطیع بنایا ہوا تھا۔ اسے فتوحات کا بہت شوق تھا، چونکہ فوجی لحاظ سے طاقتور تھا اس لئے جدھر کا رخ کرتا، فتح و نصرت اور کامیابی اس کے قدم چومتی اور مقامی آبادی اس کے زیر نگین آ جاتی۔
بنو ھذیل ایک جنگ جو قبیلہ تھا، مگر تُبَّع کی فوجی قوت کے سامنے اس کی بھی پیش نہ گئی اور اس نے اطاعت قبول کر لی، بنو ھذیل کی قریش سے لگتی تھی وہ چاہتے تھے کسی طرح قریش کا زور ٹوٹے اور تُبَّع ان پر حملہ کر کے انہیں شکست دیدے، جب انہوں نے تُبَّع کی فوجی طاقت دیکھی تو انہیں امید کی کرن نظر آئی وہ تُبَّع کے پاس آئے اور اسے پٹی پڑھائی کہ یہاں مکہ میں ایک گھر ہے لوگ دور، دور سے اس کی زیارت کے لئے آتے ہیں اگر تم اسے منہدم کر دو اور قریش کو اپنا غلام بنا لو، جو اس گھر کے متولی ہیں تو پورا عرب تمہارا غلام بن جائے گا۔
بنو ھذیل نے چکنی چپڑی باتیں کر کے تُبَّع بادشاہ کو شیشے میں اتار لیا اور بادشاہت اور شان و شوکت کے سبز باغ دکھا کر کعبہ شریف منہدم کرنے پر آمادہ کر لیا۔ جب اس نے یہ خوفناک ارادہ کیا، اسی وقت اس کے سر میں شدید درد شروع ہوگیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے ناقابل برداشت ہوگیا۔ ناک، منہ اور جسم کے مختلف حصوں سے سخت بدبودار پانی بہنے لگا، لوگوں کو اس کے قرب سے ابکائیاں آنے لگیں، ہم نشینوں کے لئے اس کے نزدیک بیٹھنا مشکل ہوگیا، وہ ناک پہ کپڑا رکھ کر آنکھیں بند کر کے دور بھاگ گئے۔
وزیر کو بڑی فکر لاحق ہوئی، اس نے حکماء اور اطباء کو بلایا سب نے بادشاہ کی حالت دیکھ کر کہا، یہ کوئی زمینی بیماری نہیں بلکہ امرِ سماوی اور عذاب الہٰی ہے ہم اس کا علاج نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے کوئی ایسا شخص تلاش کیا جائے جو صاحب روحانیت اور باطنی امراض و اسرار کا ماہر ہو، وہی اس بیماری کو سمجھ سکتا اور علاج کر سکتا ہے۔ اس کی تہہ تک پہنچنا ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ وزیر نے اعلان کرا دیا کہ جو شخص اس عجیب و غریب بیماری کو سمجھنے اور اس کا علاج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ مہربانی کر کے خود ہی سامنے آ جائے۔
ایک شخص وزیر کے پاس آیا اور کہا وہ بادشاہ کے روگ کا علاج کر سکتا ہے، وزیر اسے بادشاہ کے پاس لے گیا حکیم نے بادشاہ سے پوچھا
اَيُهَا الْمَلِکَ! هَلْ اَنْتَ نَوَيْتَ لِهٰذَا الْبَيْتِ سُوْءًا.
''اے بادشاہ! کیا تو نے اس بیت اللہ شریف کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا تھا''؟
بادشاہ نے اعتراف کیا : ہاں! میں نے اسے گرانے کا ارادہ کیا تھا۔ حکیم نے کہا :
اَيُهَاالْمَلِکُ! نِيَتُکَ اَحْدَثَتْ لَکَ هٰذَا الدَّاءَ وَرَبُّ هٰذَا الْبَيْتِ عَالِمٌ بِالْاَسْرَارِ، فَبَادِرْ وَارْجِعْ عَمَّا نَوَيْتَ.
''اے بادشاہ : یہ سب صورت حال اور بیماری، اسی بدنیتی کی پیداوار اور برے ارادے کا نتیجہ ہے، اس گھر کا ایک رب ہے، جو دلوں کے بھید جانتا ہے، اس لئے اگر تو عافیت چاہتا ہے تو فوراً اس ارادے سے باز آ، اور جو بری نیت کی ہے، اس سے توبہ کر اور عقیدت مند بن کر اس گھر کی زیارت کے لئے جا اور اس کا طواف کر، تیرے تمام روگ دور ہو جائیں گے''۔
جونہی بادشاہ نے اپنا پہلا ارادہ بدلا اور کعبہ شریف کی حرمت و تعظیم کا ارادہ کیا اسی وقت اس کے ناک منہ سے پانی بہنا بند ہوگیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ٹھیک ہوگیا، جیسے اسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا، وہ یہ اعجازی شان اور حیرت انگیز کرامت دیکھ کر دنگ رہ گیا، عملی طور پر جو کچھ بیتا اس نے اس کی آنکھیں کھول دیں، اس کا دل کعبہ شریف کے لئے عقیدت و محبت سے لبریز ہوگیا۔ وہ پہلو میں شوق فراواں لئے بڑی چاہت کے ساتھ کعبہ کے سامنے حاضر ہوا، اسے دیکھ کر سراپا نیاز بن گیا اس کا پورا وجود عقیدت میں ڈھل گیا، کوئی ہوش نہ رہا کہ کہاں ہے، اسی عالم بے خودی میں اس نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ کعبہ معظمہ کا طواف کیا۔ اس کے دل نے چاہا کہ ایسے انداز سے اظہار محبت کرے، جس میں انفرادیت ہو، اظہار عقیدت کا وہ طریقہ کسی نے نہ اپنایا ہو، عشق سچا ہو تو ہر مشکل آسان کر دیتا ہے اور چاہت کے اظہار کے لئے نئی نئی راہیں تلاش کر لیتا ہے۔ تُبَّع کی سچی محبت نے بھی پیار کی ایک راہ تلاش کر لی۔
اس نے حکم دیا، کعبہ شریف پر چڑھانے کے لئے ایک بہت بڑا قیمتی غلاف بنایا جائے، کام شروع ہوا اور شاہی حکم کے مطابق ایک شاندار غلاف تیار ہوگیا، تُبَّع نے دھڑکتے دل کے ساتھ عقیدت میں ڈوب کر کعبہ معظمہ کو یہ غلاف پہنایا، تاریخ انسانی کا یہ پہلا غلاف تھا جو کعبہ کو پہنایا گیا۔
یہ سب کچھ کر کے بھی تُبَّع کی محبت کو قرار نہ آیا، اس نے چاہا کہ اور ذرائع سے بھی وہ اپنی عقیدت کا اظہار کرے۔ چنانچہ اس نے ''مطابخ'' یعنی باورچی خانے تعمیر کرنے کا حکم دیا، جب ''شاہی مطابخ'' تیار ہوگئے، تو اس نے اپنے کارندوں سے کہا ہر روز ایک سو اونٹ ذبح کر کے اہل مکہ کو کھلائے جائیں یہ لوگ مقدس گھر کے پڑوسی ہیں ان کی شاندار ضیافت کی جائے۔
تُبَّع بادشاہ جب تک وہاں رہا، اہل مکہ کی ضیافت کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہا۔
آج کے جدید ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ماضی قریب و بعید میں ایسے واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں جو بے حرمتی کے زمرے میں آتے ہیں مگر شواہد موجود ہیں کہ خلاف حرمت غلط حرکت کرنے والوں کی کوئی گرفت نہ ہوئی اور کسی کو ایسی سزا نہ ملی جو انہیں نشان عبرت بنا دیتی اور جس کی غیر معمولی اذیت رسانی کو دیکھ کر یہ رائے قائم کی جا سکتی کہ یہ بے حرمتی کا نتیجہ ہے۔
ایک صاحب دل نے اس کا ایک معنی خیز جواب دیا ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ کعبہ کے تقدس اور جاہ و جلال کو قائم رکھنے کے لئے بے حرمتی کرنے والوں کو فوراً سزا اس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور سے پہلے دی جاتی تھی کیونکہ اس کی حرمت کا پاسبان اور علانیہ دفاع کرنے والا کوئی نہ تھا۔ پس قدرت کا نادیدہ ہاتھ فوراً حرکت میں آتا اور بے حرمتی کے مرتکب کو آہنی گرفت میں لے لیتا تھا تاکہ دلوں پر اس کی ہیبت قائم رہے اور اس کی شوکت و عظمت کے سب قائل رہیں۔ اب یہ پاسبانی کا فریضہ امت کو سونپ دیا گیا ہے، اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاسبانی کے فرائض انجام دے اور اس کی عظمت پر آنچ نہ آنے دے اور اگر کوئی بے حرمت کا ارتکاب کرے تو ایسی کڑی سزا دے کہ وہ عبرت کا نشان بن جائے اور اس ذمہ داری اور خدمت و نگرانی کے عوض خود اسے دنیا کی امامت عطا کی جائے اور اقتدار و جہاں بانی کے لئے منتخب کر لیا جائے، یہ اس امت کی توہین ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے یہ فریضہ ابابیلوں کو سونپا جائے۔
مسلمان دیگر فرائض کی طرح اپنے اس فرض اور ذمہ داری سے بھی غافل ہوگئے ہیں اور اس کی پاسبانی کا فرض ادا نہیں کر رہے، نتیجہ یہ ہے کہ اس نے بھی ہماری پاسبانی سے منہ موڑ لیا ہے اور ہم ہر محاذ پر پٹ رہے ہیں۔ ابھرنے، پنپنے اور سرخرو ہونے کی ایک ہی راہ ہے کہ ہم از سر نو اس کے خدمت گار اور پاسبان بن جائیں۔ وہ ہمارا پاسبان بن جائے گا اور عہد کہن کی یاد تازہ اور شوکت رفتہ بحال ہو جائے گی۔
دنیا کے بتکدے میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم پاسباں ہیں اس کے وہ پاسباں ہمارا