Monday, June 14, 2021

متوازن زندگی

موجودہ دور کی شاندار گاڑیوں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں کمال کے شاکس ابزوربر لگے ہوتے ہیں جن کا کام یہ ہے کہ وہ راستے کی توڑ پھوڑ اور اونچ نیچ کی تکلیفوں سے مسافروں کو بچاتے ہیں ۔ جب گاڑی ان سپیڈ بریکر سے گزرتی ہے تو کوئی جمپ محسوس نہیں ہوتا ۔

Thursday, June 10, 2021

زندگی کے طوفان

ایک صاحب ایک نیم صحرائی علاقے میں تانگے پر سفر کر رہے تھے کہ اتنے میں آندھی کے آثار ظاھر ہوئے۔ تانگے والے نے بتایا کہ اس علاقے میں بڑی ہولناک قسم کی آندھی آتی ہے۔ وہ اتنی تیز ہوتی ہے کہ بڑی بڑی چیزوں کو اڑا کر لیجاتی ہے، اور آثار بتا رہے ہیں کہ اسوقت اسی قسم کی آندھی آرہی ہے اسلئے آپ تانگے سے اتر کر اپنے بچاؤ کی تدبیر کریں۔

ہمارے والدین

قدیم زمانے میں سیب کا ایک بڑا درخت تھا۔ اس درخت کے قریب ہی ایک چھوٹا لڑکا رہتا تھا۔ اس لڑکے کو روزانہ اس درخت کے پاس آنا اور کھیلنا اچھا لگتا تھا۔وہ اس درخت کے اوپر چڑھ جاتا اور اس کے پھل توڑ توڑ کر کھاتا اور پھر اس کے سائے میں سوجاتا۔ وہ لڑکا اس درخت کو بہت چاہتا تھا اور اسی طرح اس درخت کو بھی اس لڑکے کے ساتھ کھیلنا اچھا لگتا تھا۔ وقت گزرتا رہا اور لڑکا بڑا ہو گیا۔ اب وہ پہلے کی طرح روزانہ اس درخت کے پاس کھیلنے نہیں آتا تھا۔ ایک روز وہ نو جوان درخت کے پاس آیا۔وہ مایوس لگ رہا تھا۔

خفیہ راستے

استاد کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ طلباء نے شور مچایا کہ سر ہم آپ کا لیکچر نہیں لیں گے ۔ کیونکہ ذمہ داران نے اس کا پیپر ہی منسوخ کردیا ہے ۔
استاد نے طلباء کی حمایت کی کہ بالکل میں آپ کو کوئی زور نہیں دوں گا کہ آپ کوئی ٹیسٹ دیں یا کوئی امتحانی نقطہ نگاہ سے کام کریں ۔ میری طرف سے آپ ریلیکس ہوجائیں ۔ کوئی فکر نہ کریں کہ کوئی مشقتی کام نہ ہوگا ۔ 

Monday, June 7, 2021

مہمان نوازی

عرب کے لوگ قافلوں اور مسافروں کو لوٹنے میں بہت مشہور تھے۔ اُن کا یہ وطیرہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے علاقے کے کسی جنگل یا باغ کی آڑ میں چھپ کر بیٹھ جاتے، اور راہ گزرتے لوگوں کو لوٹتے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے۔

پرانے وقتوں کی بات ہے ایک قافلہ عرب کے کسی ایسے ہی علاقے سے گزر رہا تھا، جہاں اہل علاقہ ڈاکوؤں کے روپ میں پہلے سے اُن کی گھات لگائے بیٹھے تھے۔ جیسے ہی عورتوں، مردوں، بزرگوں اور بچوں پر مشتمل یہ قافلہ اُن کے قریب پہنچا، اُنہوں نے اِن پر حملہ کر دیا، اور تمام سامان لوٹنے کے بعد جاتے جاتے قافلے والوں کی طرف سے مزاحمت کرنے کی پاداش میں اُن کے دو نہتے لوگوں کو قتل کر دیا اور تلواریں لہراتے فتح کا جشن مناتے فرار ہو گئے۔ غریب قافلے کے لوگ اپنے پیاروں کی موت کا دُکھ مناتے روتے پیٹتے اپنے قافلہ سالار کے نقشِ قدم پر آگے بڑھتے گئے۔ لیکن کسی نے اُن کی داد رسی نہ کی اور نہ ہی اُن کے حق میں کسی نے آواز اُٹھائی۔

Saturday, June 5, 2021

حوصلوں کے مالک

جرات مندی کے بغیر نہیں

ایک بار ارشد جو کہ صرف اٹھ جماعت پاس تھا۔۔ کو کسی سرکاری دفتر میں جانا ھوا وہاں جانے لگا تو اس کا دوست کامران جو B Aپاس تھا وہ بھی ساتھ چلا گیا جب وہاں پہنچے تو کامران نے دیکھا کہ ارشد مسلسل انگریزی بول رہا ھے

حضرت رابعہ بصری

رابعہ بصری اپنے والدین کی چوتھی بیٹی تھیں، اسی لیے آپ کا نام رابعہ یعنی ”چوتھی“ رکھاگیا۔

وہ ایک انتہائی غریب لیکن معزز گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ رابعہ بصری کے والدین کی غربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے

Thursday, May 27, 2021

خوش رہنے کا عجیب انداز

ایک خاتون کی عادت تھی کہ وہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے اپنی دن بھر کی خوشیوں کو ایک کاغذ پر لکھ لیا کرتی تھی۔

ایک شب اس نے لکھا کہ: 

Tuesday, May 25, 2021

درد اور غضب کی کیفیت

 ایک بزرگ کہتے ھیں کہ سرِ بازار چلتے ھوئے کسی نے میرے ٹخنے پر ڈنڈے سے چوٹ لگائی درد اور غضب کی کیفیت میں  پلٹ کر جو مارنے والے کو دیکھا

رویے

 رویے جھلک جاتے ہیں۔

انسان ہر وقت اچھے موڈ میں نہیں ہوتا.. کبھی وہ دوسروں کے رویئوں سے بہت پریشان بھی ہوسکتا ھے.. خیال رکھیئے گا !!! 

آپ کے اکھڑے ہوۓ رویے کو محسوس کرنے کے باوجود جو اظہار نہ کرے

وہ اعلی ظرف ہے بے وقوف نہیں۔

اپنوں کی قدر کیا کریں یہ ہمیشہ میسر نہیں رہتے.. قسمت کی کرنی سے یہ مل تو باآسانی جاتے ھیں مگر' اگر یہ گم ہوجائیں تو آپ إنہیں بمشکل ہی تلاش کرپائیں گے.. پلیز ہمیشہ خیال رکھیئے گا !!۔   

حاتم تائی کی جگہ

 کہا جاتا ہے کہ حاتم تائی نے ایک جگہ ستر دروازے بنوائے تھے

   جو جس دروازے سے چاہتا داخل ہوتا اور اُس سے کچھ طلب کرتا  اور حاتم  اُسے دے دیتا۔  

زندگی کی ٹھوکریں

 یہ جو زندگی کی ٹھوکریں ہوتی ہیں ناں یہ رب کی طرف سے بلاوے کا پیغام لیکر آتی ہیں۔۔۔۔

آپ نے دیکھا ہوگا ہم اپنی  غفلت سے بھری زندگی میں حقیقت سے بےخبر جی رہے ہوتے ہیں ایک دم سے ایسی ٹھوکر لگتی ہے

ایک امید

ایک نوجوان لڑکے کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بوڑھے ماں باپ کو کسی مہنگے ہوٹل میں کھانا کھلائے ماں باپ تو نہیں چاہتے تھے لیکن اپنے بیٹے کے ضد کرنے پر وہ راضی ہوگئے پھر ایک دن اُس نوجوان لڑکے نے شہر کے ایک مہنگے ہوٹل میں لنچ کرنے کا پروگرام بنایا

اچھا اخلاق

پانچ چھ بچے گلی میں کھیل رہے تھے. جب میں ان بچوں کے پاس سے گزرا تو میں نے رک کر مسکراتے ہوئے کہا: "پیارے بچو! السلام علیکم"

بچے اپنا کھیل چھوڑ کر حیرانگی سے مجھے دیکھنے لگے لیکن سلام کا جواب نہیں دیا.

Monday, May 24, 2021

جیسی نیت ویسی مراد

 ریلوے اسٹیشن پر ٹرین رکی. مسافر اترے اور کئی سوار ھوئے۔ جب بالکل ٹرین چلنے کا وقت ھوا ہلکی سی ٹرین کھسکنے لگی تو ٹرین میں بیٹھے ایک مسافر نے دوسرے سے کہا کہ دیکھو تماشہ....

اس نے جلدی سے چلتی ٹرین سے ھاتھ باھر نکال کر اخبار والے کو آواز دی کہ اخبار دیدو اور اپنا جعلی سکہ اسکو تھما دیا اور اس سے اخبار لے لیا...

ٹرین تیزی سے پلیٹ فارم کراس کر گئی اس نے خوب قہقہے لگائے اور ساتھی سے کہا دیکھا میرا کمال..؟

کچھ منٹ بعد جب اخبار کھول کر پڑھنے لگا تو کچھ خبریں پرانی سی محسوس ھوئیں... غور سے دیکھا تو... اوہ یہ تو پچھلے ھفتہ کا اخبار ھے.

اب کی دفعہ قہقہے لگانے کی باری ساتھی مسافر کی تھی اور مسافر بولا؛ واقعی آج تماشہ دیکھا.

جیسی نیت ویسی مراد . جو دو گے لوٹ کر آئیگا دھوکہ چاھے دیانت داری ..

Wednesday, May 19, 2021

چھتری

 ایک عدد چھتری کا بندوبست کرلیں جو قیامت کے روز ہمیں عذاب کی بارش سے بچاۓ

ایک دفعہ پاکستان اور انڈیا کے میچ کے دوران جب اچانک بارش شروع ہوئی تو آپ لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ سٹیڈیم میں موجود ہر شخص نے اپنی چھتری کھول کر سر پر رکھ لی تھی ۔ 

جب اس وقت کیمرہ تماشائیوں کے سٹینڈ پر گیا تو رنگ برنگی چھتریوں کا ایک حسین منظر تخلیق پا چکا تھا، شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس کے چھتری یا بارش کی برساتی نہ پہنی ہو ۔ 

Monday, May 17, 2021

قدرت کا ہاتھ

میں نے زندگی میں اتنی بڑی گاڑی نہیں دیکھی تھی گاڑی کی چمک دمک سج دھج بتاتی تھی وہ ابھی ابھی کارخانے سے نکلی ہے میرا اندازہ بڑی حد تک درست نکلا کیونکہ گاڑی کے سامنے ’’اپلائیڈ فار‘‘ لکھا تھا اور سیٹوں کے اوپر پلاسٹک کے کور چڑھے تھے‘ گاڑی رکی‘ پہلے باوردی شوفرباہر نکلا‘ اس نے جلدی سے پچھلا دروازہ کھولا

Sunday, May 16, 2021

پریشان نہ ہوں

کچھ لوگ اپنی تعلیم 22 سال کی عمر میں مکمل کر لیتے ہیں۔ مگر ان کو پانچ پانچ سال تک کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی۔

کچھ لوگ 25 سال کی عمر میں کسی کپمنی کے CEO بن جاتے ہیں اور 50 سال کی عمر میں ہمیں پتہ چلتا ہے انکا انتقال ہو گیا ہے۔

Saturday, May 15, 2021

پردہ پوشی

ایک مصری عالم کا کہنا تھا کہ مجھے زندگی میں کسی نے لاجواب نہیں کیا سوائے ایک عورت کے جس کے ہاتھ میں ایک تھال تھا جو ایک کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا میں نے اس سے پوچھا تھال میں کیا چیز ہے
وہ بولی اگر یہ بتانا ہوتا تو پھر ڈھانپنے کی کیا ضرورت تھی

Tuesday, May 11, 2021

حقیقی خوشی

 تیرے چہرے کے خدوخال یاد کرتا ہوں، تاکہ جنت میں ملتے ہی تجھے پہچان سکوں!

کسی ٹی وی ٹاک شو میں اینکر نے اپنے کروڑ پتی مہمان سے سوال پوچھا : زندگی میں آپ کو حقیقی خوشی

Monday, May 10, 2021

روزی کا وکیل

‏حضرت سلیمان عليه السلام  نہر کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کی نگاہ ایک چیونٹی پر پڑی جو گیہوں کا ایک دانہ لیے نہر کی طرف جا رہی تھی، 
حضرت سلیمان عليه السلام اس کو بہت غور سے دیکھنے لگے، 

گناہ جاریہ

 ہم پیسے کی محبت میں اتنے اندھے ہو چکے ہیں کے جائز و نا جائز کی کوئی تمیز باقی نہیں رہی ہم میں۔ ایک تازہ مثال snack video app ہے ہر وقت اس کی تشہیر کی جا رہی ہے اور اب تو یہ آفر آگئی ہے کے ایپ انسٹال کریں اور پیسے حاصل کریں اور اب تو یہ آفر Tiktok بھی دے رہا ہے 

محنت کی قدر

ایک یہودی کے پاس ایک مسلمان ہیرے تراشنے کا کام کرتا تھا۔ جو اپنے کام میں ہنر مند اور حد سے زیادہ ایماندار تھا۔ یہودی اس سنار کی کاریگری سے بے تحاشہ نفع کمانے کے باوجود اُسے مناسب معاوضہ ادا نہ کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ بمشکل اپنے گھر کا خرچہ پورا کر پاتا تھا۔

اللہ کی پکڑ

ایک بادشاہ بہت ظالم تھا سبھی لوگ اُس سے سخت نفرت کرتے تھے کوئی ایسا ظلم نہ تھا جو اُس نے لوگوں پر نہ کیا ہو ہر کوئی اُسے بددعا دیتا اُسکی موت کی تمنّا کرتا۔۔۔۔۔۔۔ایک دِن بادشاہ شکار سے لوٹ کر آیا اور آتے ہی حکم جاری کیا

Friday, May 7, 2021

عمر فاروقؓ کی عدالت

حضرت عمر فاروقؓ کو ایک شخص کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ ماں کو گالیاں دیتا ھے۔

آپ نے اس شخص کو بلوایا اور حکم دیا کہ پانی سے بھری ھو مشک لائی جائے

والدین کی قدر کریں

 گھر جانے کے لئے  گاڑی میں بیھٹا ھی تھا کہ نظر ایک بزرگ پر پڑی جو ایک کاغذ ہاتھ میں لیے علی حسنین کا پتہ پوچھ رہے تھے. مجھ پر نظر پڑتے ہی ہاتھ سے روکنے کا اشارہ کیا اور پاس آئے.کپڑوں کی خستہ حالی اور چہرے پر جھریاں بہت کچھ بتا رہی تھی.

بولے بیٹا یہ میرے پتر کا نام ہے.

میں ایک شوہر ہوں

میں سوتے وقت بیڈ پر موبائل کے استعمال سے پرہیز کرتا ہوں اگر ضرورت پڑجائے تو روشنی کم کرتا ہوں تاکہ بیگم کی نیند خراب نہ ہو۔

کھانے میں نمک مرچ کم زیادہ ہونے پر کبھی بیگم کو برا بھلا نہیں کہا کیوں کہ اتنی سی بات کے لئے میں شریک حیات کی تذلیل کیسے کر سکتا ہوں۔

دنیا کا نظام

 رات کا آخری پہر تھا.. سردی تھی کہ ھڈیوں کے اندر تک گھسی جارھی تھی.. بارش بھی اتنی تیز تھی جیسے آج اگلی پچھلی کسر نکال کر رھے گی..

میں اپنی کار میں دوسرے شہر کے ایک کاروباری دورے سے واپس آرھا تھا اور کار کا ھیٹر چلنے کے باوجود میں سردی محسوس کررھا تھا..

حلال حرام کا فرق

 نمازِ فجر کی جماعت میں جیسے ہی نبی رحمت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم سلام پھیرتے، حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ اٹھ کر جلدی جلدی چل دیتے. باقی صحابہ کرام محفل نبوی میں کچھ دیر بیٹھے رہتے.

جب تواتر سے یہ ہوا تو نبی رحمت کی توجہ کچھ صحابہ کرام نے ابو دجانہ کی طرف کرائی.

Thursday, May 6, 2021

اللّٰہ کا تابع

جب مجھے جنات، ہمزادوں اور ستاروں کو تابع کرنے کا شوق تھا اور میں دو برس تک اسی شوق میں مبتلا رہا۔ اس زمانے کا ذکر ہے کسی نے مجھ سے کہا کہ پیلی بھیت میں ایک بزرگ رہتے ہیں جن کا نام میاں محمد شیر صاحب ہے اور وہ ایسا عمل جانتے ہیں جس سے جنات اور ہمزاد آدمی کے تابع ہو جاتے ہیں۔

Tuesday, May 4, 2021

شوہر کی طاقت

پرانے زمانے کی بات ھے، کہ ایک دن بادشاہ کا  گزر ایک راستے سے ھو رھا تھا۔ 
راستے پر جاتے ھوئے بادشاہ کی نظر ایک مزدور پر پڑی۔ 
مزدور زمین سے ایک اونچے مقام تک بغیر کسی پریشانی اور تھکاوٹ کے بڑے بڑے پتھر اوپر پھینک رھا تھا۔

Monday, May 3, 2021

اللہ کے سپرد

یہ شور شرابا صرف خواب کی کیفیت کا ہے، در اصل آنکھ تب کھلتی ہے جب بند ہونے والی ہو.
تم جوانی میں سروس تلاش کر رہے تھے ماں باپ کی خدمت کے لیے اور کچھ عرصے  بعد اس سے بھی بہتر سروس کی تلاش میں نظر آو گے کہ اب بچوں کی خدمت کر لی جاے.

مکھی اور غلام

اللہ تعالی نے مکھی کو کیوں پیدا فرمایا؟ 

کہتے ہیں کہ خراسان کا ایک بادشاہ شکار کھیلنے کے بعد واپس آکر اپنے تخت پر براجمان تھا ، تھکاوٹ کی وجہ سے اس کی آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں ، بادشاہ کے عقب میں اس کا ایک غلام بھی کھڑا تھا۔

انسانیت کی معراج

استاد صاحب نے کلاس میں موجود جسمانی طور پر ایک مضبوط بچے کو بُلایا اُسے اپنے سامنے کھڑا کیا اپنا ہاتھ اُس کے کندھے پر رکھا اور بولے تگڑا ہوجا پھر اُسے نیچے کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا یا - یوں کہہ لیجیے کہ دبانا شروع کردیا -

وفا اور وفادار

کہتے ہیں کہ منگول جنگجو چنگیز خان نے بخارا پر حملہ کیا تو وہ اس شہر کو فتح نہ کر سکا ، اس وقت چنگیز خان کو ایک ترکیب سوجی اور اس نے بخارا کے لوگوں کو پیغام بھیجا کہ تم میں سے جو اسلحہ ترک کر کے ہمارے ساتھ دینگے ،ہم ان کو امان دینگے اور جو اسلحہ نہیں چھوڑیں گے وہ بہت بچھتائیں گے ۔ 

ایمان کی حفاظت

ایک جہاز مغربی ملک کی طرف محو پرواز تھا۔ اس میں ایک پڑھا لکھا مسلمان بھی سفر کر رھا تھا۔ جب ائیر ھوسٹس نے دوسرے مسافروں کے ساتھ اس کو بھی شراب پیش کی تو اس نے شراب پینے سے انکار کر دیا جس پر ائیر ھوسٹس نے اپنے سپروائیزر کو مطلع کیا۔

ﺭﺳﻮﻝ ﷺ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻤﺎﺕﻭﺗﺮﺑﯿﺖ

ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺭﺳﻮﻝ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺁﺩﻣﯽ ﮨﻮﮞ :
ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺟﺮﻣﻦ ﺑﺤﺮﯾﮧ ﮐﮯ ﺳﺮ ﺑﺮﺍﮦ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ : " ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺭﺳﻮﻝ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺁﺩﻣﯽ ﮨﻮ۔

ظلم و زیادتی

ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﮐﻮ ﮐﺎﻓﯽ ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ
ﺟﺐ ﻧﯿﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﻼﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﻟﮕﺘﺎ ہے کہ ﮐﺴﯽ مظلوم ﭘﺮ ﺁﺝ ﮐﻮﺋﯽ ﻇﻠﻢ ہوا ہے۔ ﺗﻢ ﻟﻮﮒ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﯾﺎﺩﯼ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺍُﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻟﮯ ﺁﺅ۔

Sunday, May 2, 2021

کردار مولانا مودودی

5 منٹ اس تحریر کو ضرور دے پلزز !!!!!
جب مجھے لاہور سے ملتان جیل لے جایا گیا تو دوپہر کا وقت تھا۔ جو کمرہ دیا گیا تھا اس میں چھت کا پنکھا نہیں تھا اور نلکے کی جگہ ہینڈ پمپ تھا۔ یہ اے کلاس قیدی کا کوارٹر تھا۔ سی کلاس کا ایک مشقتی (قیدی ملازم) دیا گیا تھا، جو بیٹھا انتظار کر رہا تھا۔ تقریبا 40 سال کا خوب تنومند آدمی تھا۔ پہلے تو اس نے مجھ کو غور سے دیکھا اور پھر یکدم اٹھ کھڑا ہوا۔

علم کے بغیر

سنار ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ اُسکی فیملی ﻣﺼﯿﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮍ گئی گھر کے خرچے کا انتظام کرنا بھی بہت مُشکِل ہو گیا جب حالات حد سے زیادہ بے قابو ہو گئے تو۔۔۔۔۔۔۔ﺍﯾﮏ ﺩﻥ سنار کی ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺭ ﺩﮮ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ چاچا ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﺅ ﮐﮩﻨﺎ اِس ہار کی جو قیمت آئے وہ ہمیں ﺩﮮ ﺩﯾﮟ بیٹا ﻭﮦ ﮨﺎﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ اپنے چاچا ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, May 1, 2021

خوش نصیب لوگ

بادشاہ نے اپنی بیٹی کی شادی مسجد میں چوری کرنے والے سے کیوں کر دی ؟
.
ﺣﮑﺎﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﻮﺍﻥﺳﺎﻟﮧ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﻮ  ﻟﯿﮑﺮ ﺑﮩﺖ ﻓﮑﺮﻣﻨﺪ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﻭﮦ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﯿﮏ ﺍﻭﺭ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮔﺰﺍﺭ ﺩﺍﻣﺎﺩ ﮐﯽ ﺗﻼﺵﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ۔
.

ہمارے وینٹی لیٹرز

ھم جب دنیا میں آئے تھے تو ھمارے جسم کے وینٹی لیٹرز یعنی ھمارے پھیپھڑے بالکل تیار حالت میں تھے لیکن ابھی آن نھیں ھوئے ۔ 
 ھم نے گھبراکر ایک چیخ ماری اور رونا شروع کردیا ۔
اس چیخ کے ساتھ ھی ھمارے وینٹی لیٹرز نے آن ھو گئے اور  آج تک آن ھیں اور ھماری آحری سانس تک آن رہیں گے

کون سی روٹی

اہل عرب جب شادی بیاہ کرتے تھے تو قدیم رواج کے مطابق دعوت کی تقریب میں شامل مہمانوں کی تواضع کے لیے بھنے ہوئے گوشت کے ٹکڑے کو روٹی کے اندر لپیٹ کر پیش کرتے تھے .
اگر کسی تقریب میں گھر کے سربراہ کو پتا چلتا کہ اس شادی میں شریک افراد کی تعداد دعوت میں تیار کیے گوشت کے ٹکڑوں کی تعداد سے زیادہ ہے

مسکراھٹ اور خوش مزاجی

ماھرین نفسیات کا کہنا ھے کہ مسکرانا صحت مند زندگی کی علامت ھے ۔ خوش اخلاق لوگوں کا حلقہ احباب ان سے مطمئن اور خوش ھوتا ھے

Monday, April 26, 2021

امید کی کرن

  احمد بس سے اترا اور اینٹوں سے بنی چھوٹی سی سڑک پر چلتے ہوئے، اپنی قسمت کو کوسنے لگا۔ آج مختلف اداروں میں انٹرویو دیتے ہوئے کافی دن گزر گئے تھے، مگر اسے ہر بار کامیابی کے بجائے، ناکامی

ننھی دکان

------ ننھی دکان -----
میں ایک گھر کے قریب سے گزر رہا تھا کہ اچانک مجھے گھر کے اندر سے ایک دس سالہ بچے کے رونے کی آواز آئی۔ آواز میں اتنا درد تھا کہ مجھے مجبوراً گھر میں داخل ہو کر معلوم کرنا پڑا کہ یہ دس سالہ بچا کیوں رو رہا ہے۔

Sunday, April 25, 2021

قرآن کی دوا

ایک مسلمان سائنسدان نے آنکھوں کیلیئے موتیا کے قطرے ایجاد کئے ہیں
سویٹزر لینڈ کی ایک دوا بنانے والی فیکٹری نے یہ نئی دوا تیار کی ہے جسے "قرآن کی دوا" کا نام دیا گیا ہے- جو آنکھوں کے موتیا کیلئے ہے اس سے موتیا سرجری کے بغیر  ٹھیک ہو جاٸے گا-

عشق حقیقی کی پختگی

"مَیں" مر جائے تو عشق(حقیقی) پختہ ھوتا ھے؛؛

عاشق اپنے محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کی غرض سے اس کے در پر پہنچا دستک دی تو اندر سے آواز آئی " کون ھے؟ "

عاشق نے پُرنم آنکھوں اور دلِ بے قرار کے ساتھ جواب دیا: 

ملنگ درویش کی محبت

ایک ملنگ درویش بارش کے پانی میں عشق و مستی سے لبریز چلا جارہا تھا کہ اُس درویش نے ایک مٹھائی فروش کو دِیکھا جو ایک کڑھائی میں گرما گرم دودھ اُبال رہا تھا تُو موسم کی مُناسبت سے دوسری کڑھائی میں گرما گرم جلیبیاں تیار کررہا تھا ملنگ کچھ لمحوں کیلئے وہاں رُک گیا شائد بھوک کا احساس تھا یا موسم کا اثر تھا۔

Saturday, April 24, 2021

ایک نہر۔۔۔۔۔۔۔

یہ ﺳﻌﻮﺩﯼ ﻋﺮﺏ ﮐﮯ ﺩﺍﺭﺍﻟﺤﮑﻮﻣﺖ ﺭﯾﺎﺽ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ سچہ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﮯ جو میں نے ایک اخبار میں پڑھا تھا۔
ﺍﯾﮏ ﻧﯿﮏ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﺍﻟﻤﺒﺎﺭﮎ ﮐﮯ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﺍﻓﻄﺎﺭ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﮐﭩﮭﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﯽ ﮐﮧ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﻭﮞ، ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﮐﮩﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﻧﺎ، ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﺩﻋﺎ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﯽ۔۔۔ ! " ﯾﺎ ﺍﻟﮩٰﯽ ! ﮨﻤﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﮭﺮ ﻋﻄﺎ ﮐﺮ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﮩﺮ ﮨﻮ۔۔۔ "!

نصیب....

ہم لوگ سب سے زیادہ اپنے نصیب کے بارے میں سوچتے ہیں
ہمارے نصیب میں ایسا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا!!! 
یوں نہیں تو یوں ہوتا!!! 
ایسا نہیں تو ویسا ہوتا!!! 
مگر یہ کیوں اور کیا نے ہی تو ہمارا دماغ خراب کیا ہوا ہے

Friday, April 23, 2021

تعارف

ایک دن چلتے چلتے معروف روسی مصنف و ناول نگار Leo Tolstoy "لیو ٹولسٹائی" کا پاؤں غلطی سے کسی شخص کے پاؤں پر آ گیا۔
اُس شخص نے ٹالسٹائی کو خوب گالیاں دیں، 

نقاب یا بے نقاب

غریب عورت راشن کا ڈبہ لے کر گھر پہنچی نقاب اتارا اور کھانا پکانے کی تیاری کرنے لگی بچے خاموشی سے دیکھ رہے تھے  بیٹی نے پوچھا ماں یہ راشن کہاں سے ملا.

Thursday, April 22, 2021

چھوٹی سی الجھن

ایک محفل میں ایک حضرت نے میری ایک بات پر سوال کیا کہ

" آپ کا مسلک کیا ہے؟ "

میں نے جواب دیا " کچھ نہیں"۔

کہنے لگے " پھر بھی"۔

شکر (Thanks) کی فریکوئنسی

امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے شاگردوں کے ساتھ درس و تدریس میں مشغول تھے کہ اچانک ان کا ایک خادم پریشان حال کمرے میں داخل ہوا اور کہا کہ “حضرت! جس جہاز میں آپ کا تجارتی سامان آ رہا تھا وہ راستے میں ڈوب گیا ہے۔”

اچھی خوراک

 ہم اکثر سنتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے اچھے وقت دیکھے ہیں اور اچھی خوراک کھائی ہے جس کی وجہ سے ان کی صحت اچھی ہے۔وہ ہم سے زیادہ باہمت ہیں۔ آپ کے خاندان میں جو بزرگ ہوں گے کہیں نہ کہیں وہ بھی ایسے ہی ہوں گے۔ میں نے کچھ بزرگ خواتین کو دیکھا ہے کہ ساٹھ ستر سال کی عمر کے باوجود ان کے بال گھنے اور سیاہ ہیں۔

رشتوں کی حقیقت

رشتوں کو برداشت سے چلایا جاتا ہے  نہ کہ رشتوں پر مسلط ہو کر کبھی بھی رشتے آباد نہیں ہوتے ہیں. جھکنا پڑتا ہے . سہنا پڑتا ہے. کبھی کبھی دوسروں کو خوشی دینے کے لیے اپنا دل دکھانا پڑتا ہے. جو بھی ہنسنا سیکھ جائے گا اس کی زندگی خوبصورت بن جائے گی. 

ماں کی خدمت

حضرتِ اویس قرنی رضی اللہ عنہ حضور نبی ﷺ کى زیارت نہیں کر سکے لیکن دل میں حسرت بہت تھى کے حضور کا دیدار کر لوں...

بوڑھى ماں تھیں اور ان ھی کى خدمت آپ کو حضور کے دیدار سے روکے ہوئے تھى...

شان کے مطابق

کہتے ہیں محمود غزنوی کا دور تھا

ايک شخص کی طبیعت ناساز ہوئی تو  طبیب کے پاس گیا

اور کہا کہ  مجھے دوائی بنا کے دو طبیب نے کہا کہ دوائی کے لیے جو چیزیں درکار ہیں سب ہیں سواء شہد

وسیلـہ

اللہ تعالی بھی کیا خوب خبر رکھتا ہے اپنے بندوں کی ، کل رات اپنے ایک چھوٹے سے آفس کی تیاری کیلئے ایک رنگ ساز کو لے کر آیا ۔ اس نے جگہ دیکھ کر اپنی مزدوری بتائی ۔ میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن آپ کام آج ہی شروع کر دیں تو اس نے کہا جی میں ابھی کچھ دیر میں ہی آپ کا کام شروع کر دوں

برداشت سے بڑھ کر نہیں

 جتنے بھی دکھ آئیں ہماری برداشت سے بڑھ کر نہیں ہوں گے 

ایک نوجوان اپنی زندگی کے معاملات سے کافی پریشان تھا ۔

اک روزایک درویش  سے ملا قات ہو گئی تواپنا حال  کہہ سنایا ۔ 

دنیاوآخرت میں کامیابی کاراز

میں نے پچھلے دنوں ایک شخص کا انٹرویو سنا 

انٹرویو دینے والا دنیا کی کسی بڑی یونیورسٹی یا کالج تو دور کی بات شاید مڈل سکول تک بھی نہ گیا ہو گا

فــلاح کی آواز

مؤذن نے اللہ اکبر کہا ۔ بابا جی نےپکوڑوں کی کڑاہی کے نیچے شورمچاتے چولہے کو بند کیا ۔ اور بولے

دوستو ! تھوڑا سا انتظار کر لو ، بلاوا آگیا ہے ۔ حاضری لگوا کے آتا ہوں

یقین رکھو

صحرا میں بھٹکا ہوا مسافر پیاس سے مرنے کے قریب تھا جب دور اسے ایک کمرے کا ہیولا سا نظر آیا. وہ اسے نظر کا دھوکا سمجھ رہا تھا. چونکہ سمت تو وہ کھو چکا تھا اس لئے اس دھوکے کی طرف نڈھال بڑھنے لگا.

صدقہ کرنا

وہ علاقے کا اکیلا دھوبی تھا لیکن انتہائی بد اخلاق بدتمیز اور چور تھا. لوگوں کے کپڑوں میں سے ساماں نکال کر واپس نہ کرتا بیچ کر کھا پی جاتا. لوگوں کے کپڑے رد و بدل کر دیتا. غیبتیں کرتا.

اللّٰہ کی خاص نظر

 ایک بُزرگ کسی راستے سے کہیں جا رہے تھے...

انہوں نے دیکھا کہ کچھ بچے آپس میں کسی بات پر بحث کر رہے تھے وہ اُن بچوں کے پاس گئے اور اُنسے پوچھا کیا بات ہے...!!

اُن بچوں نے بتایا کہ ہم اس بات پر بحث کر رہے ہے کہ جو انسان نیک ہو جو کبھی گناہ نہ کرتا ہو گناہوں

Wednesday, April 21, 2021

مقدر کی مہر

ایک الله والے سے کسی نے اپنے مقدر کی شکایت کرتے ہوئے کہا: جو کام کرتا ہوں اُلٹا ، جو کام کرتاہوں اُلٹا ، میرے تو سارے کام ہی اُلٹے پڑتے ہیں -
اُنھوں نے پوچھا : مُہر دیکھی ہے ؟

ایک مسکراہٹ

ﮐﮩﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﺷﺨﺺ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺑﺪﺗﻤﯿﺰﯼ، ﺑﺪﺯﺑﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺪ ﺍﺧﻼﻗﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ مشہور ﺗﮭﺎ۔

ﺑﮍﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﯿﻼ ﺭﮨﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺭﻭﯾﮧ ﮐﯿﻮﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﮦ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻏﺼﯿﻼ، ﭼﮍﭼﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺑﺪﺍﺧﻼﻕ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔

تکبر یا بڑائی کا احساس

تکبر یا اپنی بڑائی کا احساس انسانوں کے لیے ایک انتہائی غیر مطلوب رویہ ہے، مگر انسانوں کی دنیا میں یہ رویہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ تکبر میں مبتلا انسان خالق اور مخلوق دونوں کے معاملے میں انتہائی غلط رویہ اختیار کرتا ہے۔

ایک نصیحت

ایک آدمی دریا کے کنارے بیٹھا تھا
کچھ لوگوں نے پوچھا کیا کررہے ہو ؟
وہ بولا ! پانی کے ختم ہونے کا انتظار کررہا ہوں جب سارا پانی ختم ہوگا

Tuesday, April 20, 2021

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور خواہش

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی کوئی خواہش نہیں کی. ایک دن مچھلی کھانے کو دل چاہا تو اپنے غلام یرکا سے اظہار فرمایا۔۔
یرکا آپ کا بڑا وفادار غلام تھا ایک دن آپ نے فرمایا یرکا آج مچھلی کھانے کو دل کرتا ہے۔

ایک تلخ حقیقت

ایک چوہے نے ہیرے کو نگل لیا اور ہــیرے کے مالک نے چوہے کو مارنے کےلئے ایک شخص سے رابطہ کیا۔
جب شکاری چوہے کو مارنے کےلئے پہنچا تو وہاں ایک ہزار سے زیادہ چوہے اکھٹے تھے مگر ایک چوہا سب سے الگ بیٹھا ہوا تھا۔

یقین اور بھروسہ

ایک آدمی دو بہت اونچی عمارتوں کے درمیان تنی ہوئی رسی پر چل رہا تھا۔ وہ بہت آرام سے اپنے دونوں ہاتھوں میں ایک ڈنڈا پکڑے ہوۓ سنبھل رہا تھا۔
اسکے کاندھے پر اسکا بیٹا بیٹھا تھا۔ زمین پر کھڑے تمام لوگ دم سادھے کھڑے یک ٹک اسے دیکھ رہے تھے۔ جب وہ آرام سے دوسری عمارت تک پہنچ گیا تو لوگوں نے تالیوں کی بھرمار کر دی اور اسکی خوب تعریف کی۔

باتیں فرسٹ کلاس والی

پینسٹھ والی جنگ کے دنوں میں ہمارے والد صاحب بڑے بھائی کے لیے بہت پریشان تھے جو سندھ میں انسپکٹر پولیس تھے۔ والد صاحب نے مجھے زاد راہ دے کر وہاں بھیجا کہ کم از کم بھائی کے بیوی بچوں کو میانوالی لے آو۔ وہ سمجھتے تھے کہ میانوالی جنگی اثرات سے محفوظ رہے گا۔

Monday, April 19, 2021

زندگی ایسے گزاریں

 جب جب دل ٹوٹے ، شکر کرو ۔ کیوں کہ اسے ٹوٹنا ہی تھا۔ دل ٹوٹے گا نہیں تو تمہارا نیا وجود باہر کیسے نکلے گا؟ اس کا مقصد تمہاری ذات کو ہلا دینا ہے۔

اللہ کا حکم

ایک ڈاکٹر صاحب نے امام العصر سید ابوالاعلیٰ مودودی کے سامنے روزہ کے کئی طبی فائدے گنوانے کے بعد یہ نتیجہ بیان کیا کہ چونکہ روزہ کی کئی طبی فوائد ہیں ، اس لئے روزہ ضرور رکھنا چاہیئے -

چھوٹی سی نیکی اللہ کی رحمتیں

چاچا کمال ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے ہوئے سمیر کے آفس میں داخل ہوئے۔۔۔۔۔
صاحب جی آپ کی چائے ۔۔۔۔
سمیر نے چاچا کی طرف دیکھا ۔۔۔۔چاچا بیٹھ جائیں   ۔
چاچا سمیر کی طرف دیکھتے ہوئے کرسی پہ بیٹھ گئے 

قرآنی معجزے

"سورۃ الکوثر میں عددی معجزے نے ہی مجھے حیران کر رکھا ہے"
سورۃ الکوثر قرآن کی سب سے چھوٹی سورت ہے اور اس سورۃ کے جملہ الفاظ 10 ہیں۔
قرآن بذات خود ایک معجزہ ہے.

منافقت

راشن کی تقسیم کا سلسلہ شروع تھا۔
ایک پرانے مکان پہ نظر پڑی. اس کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہا ہی تھا کہ ساتھ میں آئے محلے کے ایک فرد نے منع کر دیا۔
پوچھنے پر وہ کہنے لگا:

انسانیت کی معراج

جب مشہور برطانوی بحری جہاز ٹائی ٹینک حادثے کا شکار ہوا تو اس کے آس پاس تین ایسے بحری جہاز موجود تھے جو ٹائی ٹینک کے مسافروں کو بچا سکتے تھے۔۔
سب سے قریب جو جہاز موجود تھا اسکا نام سیمسن (Samson) تھا اور وہ حادثے کے وقت ٹائی ٹینک سے صرف سات میل کی دوری پہ تھا۔

بزنس اور نوکری

چھپکلی
چھپکلی ہمیشہ لائٹ کی محتاج ھوتی ھے  اس کو لائیٹ کےعلاوہ کسی اور طرف خیال ہی نئ جاتاوہ ہر وقت لائیٹ کے انتظار میں رہتی ھے حتی کے  اس کا اثاثہ اور ذریعہ معاش بھی لائیٹ ھی ھوتی ھے  اگر لائیٹ ھے تو وہ اپنا پیٹ بھر سکتی ھے ورنہ وہ کچھ نہیں کر سکتی سیونگ والی اس میں سوچ ہی نہیں ھوتی لائیٹ ائ اور اس پر انے والے کیڑے مکوڑے کھائے اور سو گئی
نوکری کرنےوالے انسان کی مثال اس چھپکلی ہی کی طرح ھے جو اپنا اثاثہ اپناسب کچھ نوکری کو ہی سمجھتا ھے  اگر نوکری ھے تو گھر چلے گا نوکری گئ تو سب کچھ ختم

مکڑی
مکڑی سب سے پہلےدن رات محنت کر کے اپنا جالا بناتی ھے اس دوران وہ بھوک پیاس سب کچھ برداشت کرتی  ھےکیوں کے اس کو پتہ ھوتاھے کے میری زندگی کا گزر بسر اور میرا اثاثہ یہی جالا ھے  جب جالا تیار ھو جاتاھے تو وہ اس کے درمیان میں ارام سکون سے بیٹھ جاتی ھے پھر اس کے ارد گرد جالے میں  مچھر کیڑے مکوڑے ا کر  پھنس جاتے ھیں اور وہ بیٹھ کر مختلف قسم کے کھانوں سے مزے اڑاتی ھے 
بزنس کرنے والے انسان کی مثال بلکل اس مکڑی جیسی ھوتی ھے جو سب سے پہلے  حالات کتنے ھی برے کیوں نہ ھوں  پہلے وہ اپنا بزنس بناتا ھے  اثاثہ بناتا ھے پھر ساری  زندگی آرام سے بیٹھ کر کھاتا ھے  

مسلکی مناظرے

عباسیہ حکومت کے آخری دور میں ایک وقت وہ آیا جب مسلمانوں کے دارالخلافہ بغداد میں ہر دوسرے دن کسی نہ کسی دینی مسئلہ پر #مناظرہ ہونے لگا
جلد ہی وہ وقت بھی آ گیا جب ایک ساتھ ایک ہی دن بغداد کے الگ الگ چوراہوں پر الگ الگ #مناظرے ہو رہے تھے۔

الله کا چناؤ

الله کا چناؤ دنیا کے چناؤ جیسا تھوڑی ہے....
وہ اپنے دین کے لیے جب کسی کو چنتا ہے....
تو اس کی شکل و صورت، اس کا سٹیٹس ، اس کی ڈگریز نہیں دیکھتا....
کسی کی فصاحت اس کا حسن نہیں دیکھتا....
اس دین کی  تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں... الله نے موسیٰ علیه السلام کو چنا.... جن سے غلطی سے قتل ہو چکا.... جن کو اپنی بات سمجھانے میں مشکل ہوتی تھی۔ حالانکہ ان کے بھائی ہارون علیه السلام جو کہ فصیح اللسان تھے اور یہ ان کے چھوٹے بھائی تھے۔۔مگر الله نے انھیں ہی چنا اس دنیا کے سب سے متکبر شخص کے سامنے جا کر الله کا پیغام پہنچانے کے لیے....
یہ الله کا چناؤ تھا....
پھر اسلام کی تاریخ میں دیکھیں۔۔۔جنت میں نبی کے آگے چلنے والے کا دنیاوی سٹیٹس،اس کا حسن اس کا مال....کیا تھا....وہ ایک حبشی غلام تھے۔ مگر سبحان الله! میرے رب نے ان غلام کے آقا کی بجائے ان غلام کو ہدایت کے لیے چنا....
پتہ کیا....رب اندر دیکھتا ہے....دنیا باہر دیکھتی ہے....تو اگر الله نے تمھیں دین کے لیے چنا ہے نا۔۔۔تو کبھی خود کو دنیا کی نظر سے نہ دیکھنا....اس رب کی نظر سے دیکھنا....وہ تم سے محبت کرتا ہے اسی لیے تو اس دین کے لیے،اس ہدایت کے لیے، اس  قرآن کے لیے چنا....
ورنہ تمھارے آس پاس لوگوں کی کمی تھوڑی ہے.....
کبھی خود کو انڈر اسٹیمیٹ مت کرنا....
تم تو چناؤ ہو اس رب کائنات کا....
الحمدلله! ♥️
 

فنگر پرنٹس

انسانی جسم کی انگلیوں میں لکیریں تب نمودار ہونے لگتی ہیں، جب انسان شکم  مادر میں ابھی صرف 4 ماہ تک پہنچتا ہے،  یہ لکیریں ایک ریڈیائی لہر کی صورت میں گوشت پر بننا شروع ہوتی ہیں، ان لہروں کو بھی پیغامات DNA  دیتا ہے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ پڑنے والی لکیریں کسی صورت بھی اس بچے کے جد امجد اور دیگر روئے ارض پر موجود انسانوں سے میل نہیں کھاتیں، گویا لکیریں بنانے والا اس قدر دانا اور حکمت رکھتا ہے کہ وہ کھربوں کی تعداد میں انسان جو اس دنیا میں ہیں اور جو دنیا میں نہیں رہے ان کی انگلیوں میں موجود لکیروں کی شیپ اور ان کے ایک ایک ڈیزائن سے باخبر ہے
یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار ایک نئے انداز کا ڈیزائن اس کی انگلیوں پر نقش کر کے یہ ثابت کرتا ہے،،،،
کہ ہے کوئ مجھ جیسا ڈیزائنر ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا کاریگر ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا آرٹسٹ ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا مصور ؟؟؟
کوئ ہے مجھ جیسا تخلیق کار ؟؟؟
حیرانگی کی انتہاء تو اس بات پر ختم ہوجاتی ہے کہ اگر جلنے زخم لگنے یا کسی وجوہات کی بنیاد پر یہ فنگر 
پرنٹ مٹ بھی جائے تو دوبارہ ہو بہو وہی لکیریں جن میں ایک خلیے کی بھی
کمی بیشی نہیں ہوتی ظاہر ہو جاتی ہیں۔۔۔۔
پس ہم پر کھلتا ہے کہ پوری دنیا بھی جمع ہو کر انسانی انگلی پر کسی وجوہات کی بنیاد پر مٹ جانے والی ایک
فنگر پرنٹ نہیں بنا سکتی

کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے،
وہی خدا ہے وہی خدا ہے وہ ہی خدا ہے،

مال ودولت کی حقیقت

1۔لبنان کا سب سے مالدار آدمی ایمیل البستانی تھا۔
اس نے اپنے لئے ایک خوبصورت علاقے میں جوکہ بیروت کے ساحل پر تھا ، قبر بنوائی کہ مرنے کے بعد مجھے اس قبر میں دفن کیا جائے ۔
اس کے پاس اپنا ذاتی جہاز تھا اور جب دھماکہ ہوا تو وہ جہاز سمیت سمندر میں ڈوب گیا ۔ لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد اس کے جہاز کا پتہ تو چل گیا
 لیکن لاش نہیں ملی جسے اس قبر میں دفن کیا جائے جو اس نے اپنے لئے بنوائی تھی۔

2۔ برطانیہ کا ایک بہت زیادہ مالدار آدمی ایک یہودی "رود تشلر"تھا۔
وہ اتنا دولتمند تھا کہ کبھی کبھی حکومت اس سے قرض لیتی تھی ۔ اس نے اپنے عظیم الشان محل میں ایک کمرہ اپنی دولت رکھنے کے لئے مختص کیا تھا جو کہ ہر وقت سیم و زر سے بھرا رہتا تھا۔
ایک دفعہ وہ اس کمرے میں داخل ہوا اور غلطی سے دروازہ بند ہو گیا ۔
دروازہ صرف باہر سے کھل سکتا تھا اندر سے نہیں ۔
اس نے زور زور سے چیخ و پکار شروع کی لیکن محل بڑا ہونے کی وجہ سے کسی نے اس کی آواز نہ سنی۔
 اس کی عادت تھی کہ وہ کبھی کبھی بغیر کسی کو بتائے کئی کئی ہفتے گھر سے غائب رہتا تھا۔

جب وہ کسی کو نظر نہ آیا تو گھر والوں نے سوچا کہ حسب عادت کہیں گیا ہو گا۔

وہ برابر چیختا رہا یہاں تک کہ اسے سخت بھوک اور پیاس لگی۔ اس نے اپنی انگلی کو زخمی کیا اور کمرے کی دیوار پر لکھا 
"دنیا کا سب سے مالدار آدمی بھوک اور پیاس سے مر رہا ہے"

اس کی لاش کئی ہفتے بعد دریافت ہوئی۔

یہ پیغام ہے ان لوگوں کے لئے جو سمجھتے ہیں کہ
مال و دولت ہی ہر مشکل کا حل ہے اور دنیا کی ہر ضرورت اس سے پوری کی جا سکتی ہے۔

دنیا سے جانا ایک بڑا حادثہ ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ کب، کیسے اور کہاں جانا ہے

انسان سفر پر جاتا ہے اور پھر واپس آتا ہے،
گھر سے باہر جاتا ہے اور پھر  لوٹتا ہے
لیکن جب دم نکل جائے تو پھر کوئی لوٹتا نہیں ہے۔

مبارکباد کے قابل ہیں وہ لوگ جو کسی پر ظلم نہیں کرتے، نہ کسی سے نفرت کرتے ہیں ، نہ کسی کا دل زخمی کرتے ہیں اور نہ اپنے آپ کو کسی سے برتر سمجھتے ہیں اس لئے کہ سب کو جانا ہے۔

ایک آدمی ٹیکسی میں بیٹھا تو دیکھا کہ ڈرائیور قرآن سن رہا ہے اس نے پوچھا کیا کوئی آدمی مر گیا ہے؟ اس نے کہا ہاں ہمارے دل مر چکے ہیں۔

قیدی اس لئے قرآن مانگتا ہے کہ قید تنہائی میں اس کا ساتھی بنے۔

 مریض ہسپتال میں اس لئے قرآن مانگتا ہے تاکہ اللہ اس کے مرض کو دور کرے۔

اور مردہ قبر میں تمنا کرے گا کاش میں قرآن پڑھتا تو آج قبر میں میرا غمخوار ہوتا۔

 آج نہ ہم قیدی ہیں ، نہ مریض ہیں اور نہ مرے ہوئے ہیں کہ قبر میں قرآن کی تمنا کریں ،

*قرآن آج ہمارے ہاتھوں میں ہے ، آنکھوں کے سامنے ہے ، تو کیا ہمیں اس بات کا انتظار ہے کہ ہم ان مصیبتوں میں سے کسی ایک مصیبت میں گرفتار ہو جائیں اور پھر قرآن کو طلب کریں* 

اے اللہ قرآن کو ہمارے دلوں کی بہار، سینوں کا نور ، عیوب کا پردہ پوش ، نفوس کا مددگار ، قبر کا ساتھی اور روزمحشر میں سفارشی بنا دیجئے ۔

اور ہمیں قرآن پاک کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرما
اے ہمارے رب ہمیں قرآن پاک پر ایمان لانے پڑھنے اور اس کی زبان سیکھنے اور سمجھنے اور عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرما 

 آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔

"قرآن کی قدر کیجئے"

عزت کرنے والا شخص چنیں

💫جو یہ لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ بس محبوب مل جائے تو اور کچھ نہیں چاہیئے۔۔۔ 

محبوب کے ساتھ زندگی جیسی بھی ہوئی گذار لیں گے۔۔۔

جب پیٹ میں روٹی نا ہو۔۔۔ 

 کہیں جانے کے لیئے ڈھنگ کا سوٹ نا ہو۔۔۔ جب برسوں بھی پسند کا کھانے کو نا ملے۔۔۔ جب محبوب لاپرواہ ہو۔۔۔ جب وہ آپ کو لے جا کر سسرال والوں کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر بھول جائے۔۔۔ جب اولاد تکلیف سے تڑپ رہی ہو اور دوا کے پیسے نا ہوں۔۔۔ جب محبوب باہر مزید عورتوں پہ اپنی عاشق مزاجی کے سبب فدا ہو رہا ہو۔۔۔ جب شادی کے چند دن بعد ہی محبت کا سیاپا ختم ہو کر اصل زندگی شروع ہو جائے۔۔۔ جب رہنے کو گھر اچھا نا ہو۔۔۔ جب بات بات پر لڑائی ہونے لگے۔۔۔. 

ساری محبت غائب ہو جاتی ہے۔۔۔

میری ایک بات لکھ کر رکھ لیں۔۔۔ 

محبوب بدل سکتاہے۔۔۔ لیکن اچھا انسان نہیں بدلتا۔۔۔ 

 نکاح کرنے کے لیے اچھا شریف ذمےدار اور کمانے والا عزت کرنے والا شخص چنیں۔۔۔ محبوب نہیں۔۔۔ 

 جب شوہر پیٹ بھرنے والا اور عزت کرنے والا ہو تو محبت لازمی ہو جاتی ہے۔۔۔

آپ نہیں جانتیں کہ کون بہترین ہے۔۔۔ اللہ جانتے ہیں۔۔۔ 

اس لیے رب کے فیصلوں پہ سر جھکائیں۔۔۔ دل کے آگے نہیں۔۔۔

 ورنہ یہ دل آپ کو رلانے اور خوار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا...

ذرہ نہیں پورا سوچیں۔۔۔۔۔۔. 

Sunday, April 18, 2021

مخلص بندے

ایک حیرت انگیز اور سبق آموز واقعہ.
ابن عقیلؒ اپنا واقعہ لکھتے ہیں کہ میں بہت ہی زیادہ غریب آدمی تھا۔ ایک مرتبہ میں نے طواف کرتے ہوئے ایک ہار دیکھا جو بڑا قیمتی تھا۔ میں نے وہ ہار اٹھالیا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں اسے چھپالوں لیکن میرا ضمیر کہتا تھا، ہرگز نہیں، یہ چوری ہے، بلکہ دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ جس کا یہ ہار ہے اسے میں واپس کر دوں۔

اللہ تعالی کی بخشش

اللہ تعالی کی بخشش تمام گنہگاروں کے لئے ھے
بنی اسرائیل کا ایک جوان جو اللہ تعالی کی عبادت میں مصروف تھا. اس نے بیس ( 20 ) سال تک نماز ، روزہ اور اطاعت خداوندی میں گزارے اور بیس ( 20 ) سال تک اس جوان کا یہی کام تھا . 

انوکھی امداد ایسی بھی!

"محلے میں بچوں کو عربی و ناظرہ قرآن پڑھانے والی باجی کے گھر آٹا اور سبزی نہیں ہے، مگر وہ باپردہ خاتون باہر آکر مفت راشن والی لائن میں لگنے سے گھبرا رہی ہیں."
فری راشن تقسیم کرنے والے نوجوانوں کو جیسے ہی یہ بات پتا چلی، انہوں نے متاثرین میں فری سبزی و آٹا کی تقسیم فوراً روک دیا.

Thursday, April 1, 2021

رب کی رحمت اور اس کی مغفرت

امت کا سب سے بُرا اور سب سے اچھا انسان
حضرت موسٰی علیہ السلام نے ایک مرتبہ اللہ تعالی سے پوچھا :
یا اللہ میری امت کا سب سے بدترین شخص کون سا ھے ؟
اللہ تعالی نے فرمایا :

Sunday, March 28, 2021

حکمت الٰہی

ﺩﻭﺩﮪ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﮐﯿﺘﻠﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﭼﮭﻮﭦ ﮐﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﮔﺮﯼ، ﺳﺎﺭﮮ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻭﺩﮪ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﭘﮭﯿﻞ ﮔﯿﺎ -
ﻭﮦ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮ ﺩﯾﮑھ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ کے ﻠﺌﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺷﮑﻮﮦ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺍ -

نیکی پھیلائیں

مزیدار کھانا کھانے کے بعد اس نے بل منگوایا، پیسے نکالنے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا، بٹوا نہ پا کر نادیدہ خوف سے اس کی حالت ہی خراب ہو گئی۔ ہسٹیرائی انداز میں اوپر نیچے جیبوں کو ٹٹولا مگر بٹوہ کہاں سے ملتا، وہ تو دفتر سے نکلتے ہوئے میز پر ہی رہ گیا تھا۔ سر جھکائے آنے والی ممکنہ پریشانیوں اور انکے حل پر غور کرتا رہا۔

خوش حال اور کامیاب زندگی کا راز

جب کبھی خون کے رشتے دل دکھائیں تو حضرت یوسف علیہ السلام کو یاد کر لینا جن کے بھائیوں نے انھیں کنویں میں پھینک دیا تھا۔

جب کبھی لگے کہ تمہارا جسم بیماری کی وجہ سے درد میں مبتلا ہے تو ہائے کرنے سے پہلے صرف ایک بار حضرت ایوب علیہ السلام کو یاد کرنا جو تم سے زیادہ بیمار تھے.

جب کبھی کسی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا ہو تو شکوہ کرنے سے پہلے حضرت یونس علیہ السلام کو ضرور  یاد کرنا جو مچھلی کے پیٹ میں رہے اور وہ پریشانی تمہاری پریشانیوں سے زیادہ بڑی تھی ۔

اگر کبھی جھوٹا الزام لگ جائے یا بهتان لگ  جائے  تو ایک بار اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ضرور یاد کرنا۔

اگر کبھی لگے کہ اکیلے رہ گئے ہو تو ایک بار اپنے بابا آدم علیہ السلام کو یاد کرنا جن کو اللّٰہ پاک نےاکیلا پیدا کیا تھا اور پھر ان کو ساتھی عطا کیا۔ تو تم ناامید نہ ہونا تمہارا بھی کوئی ساتھی ضرور بنے گا۔

اور اگر کبھی تمھارے اپنے ہی رشتے دار ہی تمہارا مذاق اڑائیں تو نبیوں کے سردار حضرت محمّد مصطفیٰ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم  کو یاد کر لینا۔

تمام نبیوں کو اللہ تعالیٰ نے آزمائش میں ڈالا کہ ہم ان کی زندگیوں سے صبر و استقامت، ہمت وتقوٰی اور ڈٹے رہنے کا سبق حاصل کریں۔

اپنے نبیوں کی زندگیوں کو اپنا رول ماڈل بنائیں۔ انھیں اپنا آئیڈیل بنائیں اور ایک خوش حال اور کامیاب زندگی گزاریں۔

بہترین دوست

چھوٹی سدرہ :باجی کیا ہمیں کوئی ایسا دوست مل سکتا ہے جس سے ہم اپنے دل کی ہر بات شیئر کرسکیں ----- اپنا ہر راز اسی کو بتائیں اس خوف کے بغیر کہ وہ اسے فاش نہیں کرے گا------- مصیبت کی ہر گھڑی میں وہ ہماری مدد کریگا ----اور -----جب کبھی وہ ناراض ہوجاۓ تو ہمیں ہماری کمی اور کوتاہیوں کا طعنہ نہیں دیگا -----اسکی محبت بالکل ماں کے ممتا جیسی ہو ------ اور اس کا ساتھ ہمیشہ اور ہر جگہ کا ہو....!! ؟؟
میں :ہان میری پیاری اور ذہین گڑیا ہمیں ایسا دوست ضرور  مل سکتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھ کر ---------!!
تمہاری سوچ اور تخیل سے بھی بلند تر ہیں اسکی صفات ....!
کون ہے وہ جلدی بتائیں نا..... میں انکو پانا چاہتی ہوں..... اپنا بنانا چاہتی ہوں.... چھوٹی سدرہ فوراً آگے بڑھ کر میرے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر بیقراری سے بولی... 

"وہ بہترین دوست اللہ تعالی ہیں میری جان"

میں نے اسکی آنکھوں میں جھانک کر جواب دیا... تو اسکی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں...!!

Thursday, March 25, 2021

حق اور توکل

شدید بارش کے سبب ٹیکسی لینا ہی بہتر تھا، چنانچہ میں نے ایک ٹیکسی کو اشارہ کیا۔۔۔!
"ماڈل کالونی چلو گے۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "جی بالکل جناب۔۔۔!"
"کتنے پیسے لو گے۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "جو دل کرے دے دینا سرجی۔۔۔۔!"
"پھر بھی۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "سر! ایک بات کہوں برا مت ماننا۔ میں ایک جاہل آدمی ہوں۔ پر اتنا جانتا ہوں کہ جو الله نے میرے نام کا آپکی جیب میں ڈال دیا ہے، وہ آپ رکھ نہیں سکتے اور اس سے زیادہ دے نہیں سکتے، توکل اسی کا نام ہے۔۔۔!"
اس ٹیکسی والے کی بات میں وہ ایمان تھا جس سے ہم اکثر محروم رہتے ہیں۔
خیر میں ٹیکسی میں بیٹھ گیا، ابھی ہم تھوڑا ہی آگے گئے تھے کہ مسجد دکھائی دی۔
ٹیکسی والا: "سر جی! نماز پڑھ لیں پھر آگے چلتے ہیں، کیا خیال ہے۔۔۔؟" اس نے ٹیکسی مسجد کی طرف موڑ لی۔
ٹیکسی والا: "آپ نماز ادا کریں گے۔۔۔؟"
"کس مسلک کی مسجد ہے یہ۔۔۔؟"
میرا سوال سن کر اس نے میری طرف غور سے دیکھا، "باؤ جی! مسلک سے کیا لینا دینا، اصل بات سجدے کی ہے، الله کے سامنے جھکنے کی ہے۔ یہ الله کا گھر سب کا ہے۔۔۔!"
میرے پاس کوئی عذر باقی نہیں تھا۔ نماز سے فارغ ہوئے اور اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگے۔
"سر جی! آپ نماز باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں۔۔۔؟"
"کبھی پڑھ لیتا ہوں، کبھی غفلت ہو جاتی ہے۔۔۔!" یہی سچ تھا۔
ٹیکسی والا: "سر جی! جب غفلت ہوتی ہے تو کیا یہ احساس ہوتا ہے کہ غفلت ہو گئی اور نہیں ہونی چائیے تھی۔۔۔؟ معاف کرنا، میں آپکی ذات پر سوال نہیں کر رہا۔ لیکن اگر احساس ہوتا ہے تو الله ایک دن آپ کو ضرور نمازی بنا دے گا، اور اگر احساس نہیں ہوتا تو----!!"
اُس نے دانستہ طور پر جملہ ادھورا چھوڑ دی اور خاموش ہو گیا- اسکی خاموشی مجھے کاٹنے لگی۔
"تو کیا۔۔۔؟" میرا لہجہ بدل گیا۔
ٹیکسی والا: "اگر آپ ناراض نہ ہوں تو کہوں۔۔۔؟"
"ہاں بولیں۔۔۔!ً"
ٹیکسی والا: "اگر غفلت کا احساس نہیں ہو رہا تو آپ اپنی آمدن کے وسائل پر غور کریں، اور اپنے الله سے معافی مانگیں، کہیں نہ کہیں ضرور الله آپ سے ناراض ہے۔۔۔!"
ہم منزل پہ آ چکے تھے۔ میں نے اسکے توکل کا امتحان لینے کیلئے جیب سے پچاس کا نوٹ نکالا اور اس کے ہاتھ پہ رکھ دیا۔ اس نے بسم الله کہا اور نوٹ جیب میں رکھ کر کار موڑنے لگا۔
میں نے آواز دی، وہ رک گیا۔
ٹیکسی والا: "حکم سر جی۔۔۔؟"
"تم ان پیسوں میں خوش ہو۔۔۔؟"
ٹیکسی والا: "سر جی! مشکل سے بیس روپے کا پٹرول جلا ہو گا۔ الله نے اس خراب موسم میں بھی میرے بچوں کی روٹی کا انتظام کر دیا ہے۔۔۔!"
میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں نے جیب سے مزید دو سو نکالے اور اسے دینے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔
وہ مسکراتے ہوئے بولا، " سر جی! دیکھا آپ نے، میرا حق پچاس روپے تھا، اور الله کے توکل نے مجھے دو سو دیا۔۔۔!"
وہ ٹیکسی والا تو چلا گیا، لیکن جاتے جاتے اللہ پر میرے ایمان اور توکل کو جھنجھوڑ گیا_

پہلے سوچ لین....

ایک لومڑی ایک چیل کی سہیلی بن گئی۔ دونوں میں اتنا پیار ہوا کہ ایک دوسرے کے بغیر رہنا مشکل ہو گیا۔ ایک دن لومڑی نے چیل سے کہا:

کیوں نہ ہم پاس رہیں۔ پیٹ کی فکر میں اکثر مجھے گھر سے غائب رہنا پڑتا ہے۔ میرے بچے گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں اور میرا دھیان بچوں کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ کیوں نہ تم یہیں کہیں پاس ہی رہو۔

کم از کم میرے بچوں کا تو خیال رکھو گی۔ چیل نے لومڑی کی بات سے اتفاق کیا اور آخرکار کوشش کرکے رہائش کے لیے ایک پرانا پیڑ تلاش کیا جس کا تنا اندر سے کھوکھلا تھا۔ اس میں شگاف تھا۔ دونوں کو یہ جگہ پسند آئی۔ لومڑی اپنے بچوں کے ساتھ شگاف میں اور چیل نے پیڑ پر بسیرا کر لیا۔

کچھ عرصہ بعد لومڑی کی غیر موجودگی میں چیل جب اپنے گھونسلے میں بچوں کے ساتھ بھوکی بیٹھی تھی، اس نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے لومڑی کا ایک بچہ اٹھایا اور گھونسلے میں جا کر خود بھی کھایا اور بچوں کو بھی کھلایا۔

جب لومڑی واپس آئی تو ایک بچہ غائب پایا۔ اُس نے بچے کو ادھر ادھر بہت تلاش کیا مگر وہ نہ ملا۔ آنکھوں سے آنسو بہانے لگی۔ چیل بھی دکھاوے کا افسوس کرتی رہی۔

دوسرے دن لومڑی جب جنگل میں پھر شکار کرنے چلی گئی اور واپس آئی تو ایک اور بچہ غائب پایا۔ تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اُس کا ایک اور بچہ غائب ہو گیا۔ چیل لومڑی کے سارے بچے کھا گئی۔

لومڑی کو چیل پر شک جو ہوا تھا، وہ پختہ یقین میں بدل گیا کہ اُس کے تمام بچے چیل ہی نے کھائے ہیں مگر وہ چپ رہی۔ کوئی گلہ شکوہ نہ کیا۔ ہر وقت روتی رہتی اور خدا سے فریاد کرتی رہتی کہ اے خدا! مجھے اڑنے کی طاقت عطا فرما تاکہ میں اپنی دوست نما دشمن چیل سے اپنا انتقام لے سکوں۔

خدا نے لومڑی کی التجا سن لی اور چیل پر اپنا قہر نازل کیا۔ ایک روز بھوک کے ہاتھوں تنگ آ کر چیل تلاش روزی میں جنگل میں اڑی چلی جا رہی تھی کہ ایک جگہ دھواں اٹھتا دیکھ کر جلدی سے اُس کی طرف لپکی۔ دیکھا کچھ شکاری آگ جلا کر اپنا شکار بھوننے میں مصروف ہیں۔

چیل کا بھوک سے برا حال تھا۔ بچے بھی بہت بھوکے تھے۔ صبر نہ کرسکی۔ جھپٹا مارا اور کچھ گوشت اپنے پنجوں میں اچک کر گھونسلے میں لے گئی۔ ادھر بھنے ہوئے گوشت کے ساتھ کچھ چنگاریاں بھی چپکی ہوئی تھیں۔

گھونسلے میں بچھے ہوئے گھاس پھوس کے تنکوں کو آگ لگ گئی۔ گھونسلا بھی جلنے لگا۔ ادھر تیز تیز ہوا چلنے لگی۔ گھونسلے کی آگ نے اتنی فرصت ہی نہ دی کہ چیل اپنا اور اپنے بچوں کا بچاؤ کر سکے۔ وہیں تڑپ تڑپ کر نیچے گرنے لگے۔ لومڑی نے جھٹ اپنا بدلہ لے لیا اور انہیں چبا چبا کر کھا گئی۔
         
حاصل کلام:
جو کسی کے لیے کنواں کھودتا ہے، خود بھی اسی میں جا گرتا ہے۔ اسلئے سیانوں نے کہا ہے کہ برائی کرنے سے پہلے سوچ لے کہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔

اچھا اخلاق

پانچ چھ بچے گلی میں کھیل رہے تھے. جب میں ان بچوں کے پاس سے گزرا تو میں نے رک کر مسکراتے ہوئے کہا: "پیارے بچو! السلام علیکم"
بچے اپنا کھیل چھوڑ کر حیرانگی سے مجھے دیکھنے لگے لیکن سلام کا جواب نہیں دیا.
میں نے دوبارہ کہا:" السلام علیکم "
ایک دو بچے بولے:" وعلیکم السلام "

میں اگلے دن وہاں سے گزرا تو بچے حسب معمول کھیل رہے تھے. آج میں نے بغیر رکے سلام کیا. بچوں نے آج کم حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے سلام کا جواب دیا. آج جواب دینے والے بچے بھی دو سے زیادہ تھے. 

اسی طرح کرتے کرتے کئی دن گزر گئے. اب میں انہیں سلام کرتا تو سب یک زبان ہو کر میرے سلام کا جواب دیتے.

ایک دن ان کے ساتھ ایک نیا بچہ تھا. جب میں قریب پہنچا تو ایک بچہ اس نئے بچے سے کہنے لگا: "دیکھنا! یہ آدمی السلام علیکم بولے گا."
جب میں نے سلام کیا تو وہ بچہ ہنس پڑا اور مجھے جواب دے کر اس بچے سے کہنے لگا:" دیکھا ناں! "

میں اللہ کے آگے شکرگزار ہوا کہ ان بچوں نے میری پہچان سلامتی سے وابستہ کر دی. 
کچھ دن بعد عجیب کام ہوا. میرے سلام کرنے سے پہلے ہی ان بچوں نے مجھے دور سے دیکھتے ہی " السلام علیکم! السلام علیکم!" کہنا شروع کر دیا. میں نے اللہ کا خصوصی شکر ادا کیا.

چند دن بعد مزید ایک خلاف معمول واقعہ ہوا. میں ان بچوں کو سلام کر کے گزر گیا تو چند قدم آگے جانے پر مجھے ان بچوں کے السلام علیکم کہنے کی آواز سنائی دی. میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ بچے وہاں سے گزرنے والے ایک اور آدمی کو سلام کر رہے تھے. یہ میرے لیے نیا انکشاف تھا کہ اب وہ بچے ہر آتے جاتے آدمی کو سلام کرتے ہیں.
ان باتوں کو سالوں گزر گئے اور میں ان بچوں کے چہرے تک بھول گیا. 

چند دن پہلے کی بات ہے. میں اپنے گاؤں کی اسی گلی سے گزر رہا تھا. میرے محلے کے دو لڑکے بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے. میرے سلام کرنے سے قبل ہی ایک نے مجھے سلام کر دیا. مجھے بڑی خوشی ہوئی. میں نے جواب دے کر کہا:"ماشاءاللہ! آپ کی سلام میں پہل کرنے کی بہت اچھی عادت ہے. "

وہ مسکراتے ہوئے بولا:" بھائی! میں نے سلام کرنا آپ سے ہی سیکھا ہے اور الحمدللہ میں ہر ایک کو سلام میں پہل کرتا ہوں. خصوصاً کھیلتے ہوئے چھوٹے چھوٹے بچوں کو." آخری جملہ بولتے ہوئے اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی.

میری آنکھوں کے سامنے سالوں پہلے کے مناظر آ گئے اور میں مسکراتے ہوئے اس لڑکے کا شکریہ ادا کر کے آگے بڑھ گیا. اس لمحے میری آنکھیں خوشی اور اللہ کی شکرگزاری کے آنسوؤں سے لبریز تھیں.

Wednesday, March 24, 2021

خود پہ بھروسہ

بہت ساری جنگلی گائیں پانی پینے جاتی ہیں کہ ان پر مگرمچھ حملہ کر دیتا ہے سب بھاگ جاتی ہیں مگر ایک کا پاؤں مگرمچھ پکڑ لیتا ہے اب شروع ہوتا ہے زندگی اور موت کا کھیل۔ ایک زندگی بچانے کی جدوجہد شروع کر دیتا ہے تو دوسرا اپنی بھوک مٹانے کی۔وہ گائے مگرمچھ سے زندگی اور موت کی لڑائی لڑ رہی ہوتی ہے اور باقی اس کی ہم ذات و ہم قبیلہ گائیں دور کھڑی اس کشمکش کو دیکھ رہی ہوتی ہیں مگر اسکی مدد کو کوئی نہیں آتی۔ وہ مگرمچھ کو پانی سے باہر تک کھینچ لاتی ہے لیکن مگرمچھ نے بھی اسے ختم کرنے کا پختہ ارادہ کیا ہوتا ہے اور اس کی ٹانگ کو مضبوطی سے پکڑے رکھتا ہے۔ اسکی ہمت جواب دینے لگتی ہے وہ حسرت بھری نگاہوں سے اپنے ہم قبیلہ کو دیکھتی ہے اور گردن جھکا دیتی ہے مگرمچھ اسے گھسیٹ کر پھر پانی میں لے جاتا ہے وہ ایک بار پھر دور کھڑی اپنی ان دوستوں، رشتہ داروں کی طرف دیکھتی ہے جن کے ساتھ وہ پانی پینے آئی تھی لیکن وہ حسبِ معمول محو تماشہ ہوتی ہیں وہ پھر زور لگاتی ہے اور پانی سے نکلنے کی کوشش کرتی ہے لیکن مگرمچھ نے بہت مضبوطی سے پکڑا ہوتا ہے۔ گائے بھی ارادہ کر چکی ہوتی ہے کہ اس نے خود کو حالات کے رحم وکرم پہ نہیں چھوڑنا لیکن طاقتور مگرمچھ کے آگے وہ ہارنے لگتی ہے۔ وہ مگرمچھ آہستہ آہستہ گہرے پانی میں لے جانے لگا کہ یہاں قدرت اپنا کھیل شروع کرتی ہے اور دو دریائی گھوڑے اس کی مدد کو آ جاتے ہیں جو اسے مگرمچھ سے آزاد کراتے ہیں۔
یہ زندگی آپ کی ہے اور اسے آپ نے ہی گزارنا ھے لوگ صرف تماشائی ہوتے ہیں حالات سے لڑنا انسان نے خود ہوتا ہے۔ زندگی کی جنگ اکیلے لڑنا پڑتی ہے لوگ صرف فاتحہ خوانی کرنے یا مبارکباد دینے آتے ہیں جنہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ مرنے سے پہلے کن حالات سے گزر رہا تھا یا جیتنے سے پہلے وہ زندگی کی کتنی مشکل اور اذیت ناک لڑائی لڑ رہا تھا۔ 
اللہ کریم کے بعد خود پہ بھروسہ کیجئیے

Tuesday, March 23, 2021

ان پڑھ غلام

ایک بزرگ تھے، ملک میں قحط پڑا ہوا تھا، خلقت بھوک سے مر رہی تھی، ایک روز یہ بزرگ اس خیال سے کچھ خریدنے بازار جا رہے تھے کہ نہ معلوم بعد میں یہ بھی نہ ملے۔ بازار میں انھوں نے ایک غلام کو دیکھا جو ہنستا کھیلتا لوگوں سے مذاق کر رہا تھا،

بزرگ ان حالات میں غلام کی حرکات دیکھ کر جلال میں آ گئے، غلام کو سخت سست کہا کہ لوگ مر رہے ہیں اور تجھے مسخریاں سوجھ رہی ہیں۔ غلام نے بزرگ سے کہا ''آپ اللہ والے لگتے ہیں، کیا آپ کو نہیں پتا میں کون ہوں..؟''
بزرگ بولے ''تو کون ہے..؟''
غلام نے جواب دیا ''میں فلاں رئیس کا غلام ہوں جس کے لنگر سے درجنوں لوگ روزانہ کھانا کھاتے ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو غیروں کا اس قحط سالی میں پیٹ بھر رہا ہے وہ اپنے غلام کو بھوکا مرنے دے گا؟ جائیں، آپ اپنا کام کریں، آپ کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتی''۔

بزرگ نے غلام کی بات سنی اور سجدے میں گر گئے، بولے!
''یا اللہ ! مجھ سے تو یہ ان پڑھ غلام بازی لے گیا، اسے اپنے آقا پر اتنا بھروسہ ہے کہ کوئی غم اسے غم نہیں لگتا اور میں جو تیری غلامی کا دم بھرتا ہوں یہ مانتے ہوئے کہ تو مالک الملک اور ذولجلال ولااکرام ہے اور تمام کائنات کا خالق اور رازق ہے میں کتنا کم ظرف ہوں کہ حالات کا اثر لے کر ناامید ہو گیا ہوں۔ بے شک میں گناہ گار ہوں اور تجھ سے تیری رحمت مانگتا ہوں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں۔

استحکام پاکستان

ابابیل اپنا گھونسلہ کنویں میں بناتی ہے۔۔
اس لیے  اس کے پاس اپنے نومولود بچوں کو اڑنے کی تربیت دینے کے لیے کوئی دوسری جگہ نہیں ہوتی۔
 بچے اگر گر پڑیں تو اس کا مطلب پانی کی دردناک موت۔۔۔
 اس خطرناک جگہ پر کچی تربیت کا رسک نہیں لیا جاسکتا۔
  کسی نے کبھی ابابیل کے مرے ہوئے بچوں کو کنویں کے پانی پر تیرتے نہیں دیکھا ہو گا۔۔
کیوں؟؟؟
 اس لیے کہ ابابیل اپنے بچوں کی تربیت انتہائی سخت جانی سے کرتی ہے۔
 اگر انڈے سے بچے نکلنے سے پہلے وہ کنویں سے دن بھر میں معمول کی  25 اڑانیں بھرتی تھی تو بچے انڈوں سے نکلنے کے بعد دو گنا زائد اڑانے بھرنے لگتی ہے۔
 یوں نر اور مادہ روزانہ دن بھر اڑانیں بھر کر اپنے بچوں کو عملی تربیت دیتے ہیں اور ان کا دل و دماغ اس یقین سے بھر دیتے ہیں کہ یہاں سے اڑ کر سیدھا باہر ہی جانا ہے۔
بالکل اس طرح اڑان بھرنا ہے جیسے ہم بھرتے ہیں!!!
ننھے بچے جن کی پیدائش کنویں میں ہوئی ہے اپنے والدین کی پر مشقت زندگی سے لمحہ لمحہ پرواز کا درس لیتے ہیں۔
جس دن بچہ پہلی اڑان بھرتا ہے وہ کمان  سے نکلے ہوئے تیر کی طرح گھونسلے سے نکل کر سیدھا منڈیر پہ جا بیٹھتا ہے۔

 ہماری اولاد ہمارے یقین کے سرمائے سے اپنا حصہ پاتی ہے۔
 اگر ہم خود یقین اور عمل کی سخت کوشی سے تہی داماں ہوں گے تو اپنے بچوں کو کیا دیں گے۔
  بچے بڑے لوگوں کی بڑی بڑی  باتیں  سن کر نہیں بلکہ والدین کے عمل سے سیکھتے ہیں۔۔
وہ  والدین پر جتنا اعتماد کرتے ہیں دنیا کے کسی کتابی ہیرو پر نہیں۔۔
قابل مبارکباد ہیں وہ والدین  جو اپنی اولاد کے لیے آسائشیں نہیں ڈھونڈتے بلکہ انھیں زندگی گزارنے کا درس اپنی مجاھدانہ زندگی سے دیتے ہیں۔۔

خانہ کعبہ کی تاریخ اور فضیلت

" خانہ کعبہ کی تاریخ " اور فضیلت …
خانہ کعبہ کی تعمیر کب ہوئی ؟

جب حضرت ابراہیمؑ کو حکم الٰہی ہوا کہ مکہ کی طرف جاؤ تو آپ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیلؑ کو لے کر روانہ ہوگئے اور اس مقام پر پہنچے جہاں اب مکہ واقع ہے۔ 

یہاں نہ کوئی عمارت تھی اور نہ پانی تھا اور نہ یہاں کوئی رہتا تھا۔ درختوں کے نام پر صرف ببول وغیرہ کی جھاڑیاں تھیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے بیوی بچے دونوں کو یہاں بٹھا دیا۔ ایک مشکیزہ پانی کا اور کھجوریں پاس رکھ دیں اور پھر آپؑ شام کی طرف چلے گئے۔ 
حضرت ابراہیمؑ دوسری بار مکہ آئے تو قیام نہ کیا لیکن جب تیسری بار تشریف لائے تو حضرت اسماعیلؑ سے فرمایا کہ ''بیٹا! اﷲ تعالیٰ نے مجھے ایک حکم دیا ہے''۔ حضرت اسماعیلؑ نے کہا: ''تو اطاعت کیجیے''۔ پوچھا: ''کیا تُو میری مدد کرے گا؟'' کہا: ''کیوں نہیں''۔ حضرت ابراہیمؑ نے کہا: ''اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہاں ایک گھر بناؤں''۔

گھر کی تعمیر شروع ہوئی، حضرت اسماعیلؑ پتھر لاتے جاتے اور حضرت ابراہیمؑ بناتے جاتے تھے۔ جب تعمیر ذرا بلند ہوگئی تو حضرت اسماعیلؑ ایک پتھر اٹھاکر لائے تاکہ حضرت ابراہیمؑ اس پر کھڑے ہوکر تعمیر کریں۔
 (یہی مقام ابراہیمؑ ہے) دونوں باپ بیٹے دیوار اٹھاتے جاتے تھے اور دعا کرتے جاتے تھے۔''اے پروردگار! ہم سے قبول فرما، تُو سننے اور جاننے والا ہے۔'

'انھوں نے اس گھر کی تعمیر نہ مٹی سے کی اور چونے سے، بس پتھر پر پتھر رکھتے چلے گئے، نہ اس کی چھت بنائی نہ دروازہ۔.

 بعد میں مختلف ایام میں پھر بیت اﷲ کی تعمیر ہوئی۔ قریش نے بھی تعمیر کی اور ان کے بعد بھی ہوئی۔کہتے ہیں اس وقت حضرت اسماعیلؑ کی عمر بیس سال تھی، حضرت ابراہیمؑ نے بیت اﷲ کے پہلو میں حجر کو حضرت اسماعیلؑ کی بکریوں کا باڑہ بنایا تھا اور اس پر پیلو کی چھت ڈالی تھی۔ پہلے بیت اﷲ کی جگہ ایک سرخ ٹیلہ تھا۔

 اکثر سیلاب ادھر ادھر سے اسے کاٹتا رہتا تھا۔ جب حضرت ابراہیمؑ تعمیر کعبہ سے فارغ ہوگئے تو حضرت اسماعیلؑ سے ایک ایسا پتھر لانے کو کہا جو آغاز طواف کے لیے نشانی کے طور پر استعمال ہوسکے۔

 یہ پتھر حضرت جبرئیل ابوقبیس کی پہاڑی سے لائے۔ حضرت ابراہیمؑ نے اسے اس مقام پر رکھ دیا جہاں وہ اب قائم ہے۔ روایت ہے یہ بہت روشن تھا۔حضرت جبرئیل نے انھیں تمام مقامات دکھائے اور پھر اﷲ نے حکم دیا کہ لوگوں کو حج کے لیے پکاریں۔

 حضرت ابراہیمؑ نے کہا: ''پروردگار! میری آواز لوگوں تک کیسے پہنچ سکتی ہے؟'' اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ''آپ پکاریے، ہم آپ کی پکار لوگوں تک پہنچادیں گے۔

'' تفسیر جلالین میں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے ابو قبیس پہاڑی پر چڑھ کر پکارا: ''لوگو! اﷲ تعالیٰ نے ایک گھر بنایا ہے اور تم پر حج فرض کیا ہے لہٰذا تم اپنے پروردگار کی آواز پر لبیک کہو۔''حضرت ابراہیمؑ نے شمال جنوب، دائیں اور بائیں منہ کرکے آواز دی اور لوگوں نے لبیک کہا۔

۔''طاہر الکروی لکھتے ہیں خانہ کعبہ گیارہ بار تعمیر ہوا ہے۔ فرشتوں نے بنایا، حضرت آدمؑ نے بنایا، 
حضرت شیثؑ نے تعمیر کیا، حضرت ابراہیمؑ نے تعمیر کیا، عمالقہ نے بنایا، 
جرہم نے تعمیر کیا، قصی نے تعمیر کیا، قریش نے بنایا، عبداﷲ بن زبیرؓ نے تعمیر کیا، 
حجاج نے بنایا، پھر سلطان مراد رابع نے بنایا جو آل عثمان میں سے تھا۔قریش کی جانب سے تعمیر نو رسول اﷲ ؐ کے زمانے میں ہوئی تھی۔ قریش نے تعمیر کے لیے جو حلال مال جمع کیا تھا وہ کافی نہیں تھا اس لیے حجر کی طرف چھ ہاتھ ایک بالشت جگہ کم کردی گئی تھی۔ 

حجر کے پیچھے ایک چھوٹی سی گول دیوار بنادی تھی تاکہ لوگ اس کے باہر طواف کریں، کعبہ کے اندر انھوں نے دو صفوں میں چھ ستون رکھے تھے جس پر چھت تھی۔ اس سے پہلے کعبہ پر چھت نہیں تھی۔ 

دروازہ ایک رکھا تھا، چھت کی بلندی اٹھارہ ہاتھ تھی۔حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی تعمیر بیت اﷲ کے بارے میں طاہر الکروی بتاتے ہیں ''انھوں نے تین دن تک استخارہ کرنے کے بعد کعبہ کو بالکل زمین کے برابر کردیا اور حضرت ابراہیمؑ کی بنیاد کو بھی کھدوایا تو دیکھا کہ وہ چھ ہاتھ اور ایک بالشت حجر اسماعیل میں داخل ہے لہٰذا آپ نے انھی بنیادوں پر تعمیر کی۔
 ایسا انھوں نے حضرت عائشہؓ کی ایک حدیث کی بنا پر کیا۔حضرت زبیرؓ نے کعبہ کی بلندی ستائیس ہاتھ رکھی .
 ایک دروازہ داخلے کے لیے اور ایک باہر جانے کے لیے بنایا۔ دونوں دروازے سطح زمین کے برابر تھے، ہر دروازے کی لمبائی گیارہ ہاتھ تھی اور دو پٹ تھے۔ 

آپ نے کعبہ کے چار ستون بنائے۔آپ کے زمانے میں یہ چاروں ستون چومے جاتے تھے۔ اپ نے رکن شامی کی جانب ایک زینہ اوپر جانے کے لیے بنایا تھا اور اسے سونے سے مزین کیا تھا۔ 

چھت پر پرنالہ رکھا تھا جو حجر میں گرتا تھا۔جس دن کعبہ شریف کی تعمیر مکمل ہوئی وہ دن عجیب تھا۔ اس دن بہت سے غلام آزاد کیے گئے اور بہت سی بکریاں ذبح کی گئیں۔ 

کہتے ہیں کہ ابن زبیر کی تعمیر کی وجہ یہ تھی کہ ایک شخص نے محاصرے کے زمانے میں مسجد حرام کے کسی خیمے میں آگ جلائی۔ خیمے میں آگ لگ گئی جو بڑھتے بڑھتے کعبہ تک پہنچ گئی اور اس نے غلاف کعبہ اور رکن یمانی جلا ڈالا۔ 
یہ واقعہ 64 ہجری کا ہے۔ دس سال بعد 74 ہجری میں حجاج نے اس بنا پر کہ ابن زبیر نے کعبہ میں اضافہ کیا تھا اور ایک دروازہ مزید بنادیا تھا، اسے گرا کر قریش کی تعمیر کے مطابق کردیا۔

عثمانی سلطان مراد رابع کے زمانے میں 19 شعبان 1039 ہجری کو صبح 8 بجے مکہ اور اس کے اطراف میں شدید بارش ہوئی۔
 بارش سے سیلاب حرم شریف میں داخل ہوگیا اور کعبہ شریف کے دروازے کی چوکھٹ سے بھی بلند ہوگیا۔ 

دوسرے دن جمعرات کو عصر کے وقت کعبہ کی شامی دیوار دونوں طرف سے گر گئی اور اس کے ساتھ مشرقی دیوار کا کچھ حصہ بھی۔ مغربی دیوار بھی دونوں طرف سے چھٹے حصے کے بقدر گرگئی، چھت کا کچھ حصہ بھی گر گیا، چنانچہ سلطان مراد نے دوبارہ کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا۔
- آخری مرتبہ خلافتِ عثمانیہ کے سلطان مراد چہارم نے 1630ء میں اس کی تعمیر کروائی۔ یہ ہی خانہ کعبہ کی موجودہ شکل ہے, ایک سال میں یہ تعمیر مکمل ہوئی۔ سلطان مراد کی تعمیر ہمارے اس دور تک باقی ہے.

آج خانہ کعبہ کی اونچائی 15 میٹر ہے تاہم اس کی چوڑائی ہر جانب مختلف پیمائش رکھتی ہے۔ مغربی جانب اس کی چوڑائی 12 میٹر اور گیارہ سینٹی میٹر ہے۔ مشرقی جانب اس کی چوڑائی 12 میٹر اور 84 سینٹی میٹر ہے۔ جنوبی جانب خانہ کعبہ کی چوڑائی 11 میٹر اور 52 سینٹی میٹر اور شمالی جانب 11 میٹر اور 20 سینٹی میٹر ہے۔

خانہ کعبہ کی موجودہ شکل بھی وہ نہیں ہے جس شکل میں یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں تعمیر ہوا تھا۔ مختلف زمانوں کے دوران بیت اللہ نئے سِرے سے تعمیر کیا گیا۔ ان میں درجِ ذیل مواقع سامنے آتے ہیں 

اسی طرح خانہ کعبہ کے چار کونے ہیں جن میں ہر کونے کے نام کی ایک دلیل ہے۔ رکن یمانی کی جانب رُکنِ عراقی اور شامی ہے۔ رکن حجرِ اسود اُس کونے کو کہا جاتا ہے جس میں جنّت کا یہ مبارک پتھر نصب ہے۔ اسی کے قریب بیت اللہ کا دروازہ ہے جو سال میں دو بار کھولا جاتا ہے۔ ہمیں حطیم کو بھی نہیں بُھولنا چاہیے جو خانہ کعبہ کا ہی حصّہ شمار کیا جاتا ہے۔

بعد ازاں خانہ کعبہ کی تاریخ میں بعض دیگر امور کا اضافہ ہوا۔ ان میں اُس کا غلاف (کِسوہ) جو سال میں دو مرتبہ تبدیل ہوتا ہے، میزابِ رحمت اور شاذروان (خانہ کعبہ کے چاروں جانب نچلی دیوار) شامل ہے۔

خانہ کعبہ کے دروازے کو ماضی میں طویل عرصے تک کسی منظّم ترتیب کے بغیر کھولا جاتا رہا۔ تاہم شدید بھیڑ کے باعث اس طرح لوگوں کی جانوں کو خطرہ درپیش ہوا۔ لہذا یہ امر اس بات کا متقاضی ہوا کہ اس دروازے کو سال میں صرف دو مرتبہ کھولے جانے تک محدود کر دیا جائے۔

 پہلی مرتبہ شعبان میں غُسلِ کعبہ کے موقع پر اور دوسری مرتبہ اس کے غُسل اور نئے غلاف کی تبدیلی کے موقع پر ذوالحجہ کے مہینے میں.

تاہم اس حوالے سے متعدد روایات ملتی ہیں کہ اللہ کے اس گھر کو پہلی مرتبہ کس نے تعمیر کیا۔ قرآن کریم خلیل اللہ حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہما السلام کے بارے میں تصدیق کرتا ہے کہ ان باپ بیٹے نے اللہ کے حکم کو پورا کرتے ہوئے خانہ کعبہ کی دیواریں تعمیر کیں.

خانہ کعبہ کتنی بار تعمیر کیا گیا؟
--------------------------------------
حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ''تاریخ مکہ'' میں تحریر فرمایا ہے کہ ''خانہ کعبہ'' دس مرتبہ تعمیر کیا گیا:

(۱)سب سے پہلے فرشتوں نے ٹھیک ''بیت المعمور'' کے سامنے زمین پر خانہ کعبہ کو بنایا۔
(۲)پھر حضرت آدم علیہ السلام نے اس کی تعمیر فرمائی۔
(۳)اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام کے فرزندوں نے اس عمارت کو بنایا۔
(۴)اس کے بعد حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے فرزند ارجمند حضرت اسمٰعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام نے اس مقدس گھر کو تعمیر کیا۔ جس کا تذکرہ قرآن مجید میں ہے۔
(۵) قوم عمالقہ کی عمارت۔
(۶)اس کے بعد قبیلہ جرہم نے اس کی عمارت بنائی۔
(۷)قریش کے مورث اعلیٰ ''قصی بن کلاب'' کی تعمیر ۔
(۸)قریش کی تعمیر جس میں خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی شرکت فرمائی اور قریش کے ساتھ خود بھی اپنے دوش مبارک پر پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے رہے۔(۹)حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے تجویز کردہ نقشہ کے مطابق تعمیر کیا۔ یعنی حطیم کی زمین کو کعبہ میں داخل کر دیا۔ اور دروازہ سطح زمین کے برابر نیچا رکھا اورایک دروازہ مشرق کی جانب اور ایک دروازہ مغرب کی سمت بنا دیا۔
(۱۰)عبدالملک بن مروان اموی کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر دیا۔ اور ان کےبنائے ہوئے کعبہ کو ڈھا دیا ۔اور پھر زمانۂ جاہلیت کے نقشہ کے مطابق کعبہ بنا دیا۔ جو آج تک موجود ہے۔

لیکن حضرت علامہ حلبی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی سیرت میں لکھا ہے کہ نئے سرے سے کعبہ کی تعمیر جدید صرف تین ہی مرتبہ ہوئی ہے:
(۱)حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی تعمیر
(۲)زمانۂ جاہلیت میں قریش کی عمارت اور ان دونوں تعمیروں میں دو ہزار سات سو پینتیس (۲۷۳۵) برس کا فاصلہ ہے
(۳)حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعمیر جو قریش کی تعمیر کے بیاسی سال بعد ہوئی۔

حضرات ملائکہ اور حضرت آدم علیہ السلام اور ان کے فرزندوں کی تعمیرات کے بارے میں علامہ حلبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ یہ صحیح روایتوں سے ثابت ہی نہیں ہے۔ باقی تعمیروں کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ یہ عمارت میں معمولی ترمیم یا ٹوٹ پھوٹ کی مرمت تھی۔ تعمیر جدید نہیں تھی۔(1) واللہ تعالیٰ اعلم۔

(حاشیہ بخاری ج۱ ص۲۱۵ باب فضل مکہ)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی عَلٰی محمَّد

…………   الحدیث : حرمت کعبہ اور اس کے آداب …………

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے۔
ان عبدا اصححت جسمه، واوسعت عليه فی الرزق فی الدنيا فلا يعد الی فی خمسة اعوام أو أربعة اعوام، محروم.
''جس بندے کو میں نے دنیا میں جسمانی صحت اور رزق کی فراوانی عطا کی، پھر بھی وہ چار یا پانچ سال کے اندر میرے پاس نہ آیا، وہ بڑا ہی محروم ہے''۔

شرح و تفصیل

اس حدیث پاک میں مالی و جسمانی قوت و طاقت رکھنے والے افرادِ امت کو کعبہ کی زیارت کے لئے باقاعدہ آنے اور حج کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور نہ آنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔ یہ پر جلال اسلوب و انداز اس بات کا متقاضی ہے کہ پہلے کعبہ شریف کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کی جائیں تاکہ اس حکم کی حکمت سمجھ میں آئے اور پھر اس کی روشنی میں علی وجہ البصیرت اس حدیث کو سمجھا جائے۔ اس لئے ہم پہلے کعبہ کا مکمل تعارف پیش کرتے ہیں۔

کعبہ کی پرشکوہ عمارت

کعبہ معظمہ ایک پرشکوہ، بلند و بالا اور فلک بوس چوکور عمارت کا نام ہے جو مکہ مکرمہ میں مسجد حرام کے وسیع و عریض اور خوبصورت شفاف صحن کے وسط میں واقع ہے۔ اس کی جلالتِ شان اور شرف و عظمت کے پیش نظر، اظہارِ محبت و عقیدت کے طور پر ہر سال، اس پر ایک نہایت قیمتی، قالین نما غلاف چڑھایا جاتا ہے، جس پر سونے کے تاروں سے قرآنی آیات کندہ ہوتی ہیں، کالے غلاف میں ملبوس کعبہ معظمہ بڑا پرشکوہ دکھائی دیتا ہے جیسے کوئی بارعب بادشاہ پورے جاہ و جلال کے ساتھ کھڑا ہو، یہ رعب و جلال اس کو سجتا بھی ہے کیونکہ وہ بادشاہ حقیقی کے جاہ وجلال کا مظہر ونمائندہ ہے اور اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ بندے وہاں عجز ونیاز کے ساتھ حاضری دیں اور اظہارِ بندگی کریں اور محبوب حقیقی اور خالق ومالک کے لئے دلوں میں جو جذباتِ محبت رکھتے ہیں ان کا کھل کر مظاہرہ کریں اور اس مظاہرہ میں دیوانگی کی حدوں کو چھولیں، دیکھنے والا پہلی ہی نظر میں جان لے کہ یہ سچے عاشق ہیں، جنہوں نے لباسِ جنوں پہنا ہوا ہے اور مجنوں بن کر اپنے محبوب کے گھر کا طواف کر رہے ہیں۔
دولت مندوں پر لازم کیا گیا ہے کہ جب وہ حالات کو سازگار اور راستے کو پرامن پائیں تو اس کا حج کرنے کے لئے آئیں اور اس کی زیارت اور اس کے طواف کا شرف حاصل کریں۔

''بیت اللہ'' اور ''پہلا گھر ''

قرآن پاک میں بتایا گیا ہے کہ کعبہ شریف پہلا گھر ہے جو لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے، وہ مکہ مکرمہ میں ہے اور بڑی ہی برکت والا ہے، اس کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ تمام عالم کے لئے مرکز رشد وہدایت ہے۔
اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَکَّةً مُّبَارَکًا وَّهُدًی لِّلْعَالَمِيْنَ.

پہلا سوال :

یہ چوتھے پارے کے پہلے رکوع کی پانچویں آیت ہے، اس میں کعبہ شریف کو ''اَوَّلَ بَيْتٍ'' یعنی پہلا گھر قرار دیا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ پہلا گھر ہونے کا مطلب کیا ہے۔

دوسرا سوال :

اسی طرح پہلے پارے کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسے ''بَيْتِيْ'' فرمایا ہے یعنی میرا گھر دوسرے لفظوں میں اسے ''بیت اللہ'' قرار دیا ہے، یعنی ''اللہ کا گھر'' یہاں دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر مسجد اور عبادت گاہ ''بیت اللہ'' ہوتی ہے، پھر کعبہ شریف ہی کو ''بیت اللہ'' کیوں فرمایا؟

دونوں سوالوں کا جواب :

 ان دونوں سوالوں کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مختلف انداز ہیں، بندے ذکر و فکر، تسبیح ومناجات، تلاوت ونماز وغیرہ کی صورت میں عبادت کرتے ہیں، یہ عبادات کسی بھی جگہ اور کسی بھی مسجد میں ادا کی جا سکتی ہیں، ان کے لئے کوئی عبادت گاہ یا کوئی مسجد مخصوص نہیں ہے۔ لیکن کعبہ شریف کی انفرادی شان یہ ہے کہ اس میں ہر قسم کی عبادات کے علاوہ ایک ایسی عبادت بھی کی جاتی ہے جو کسی اور عبادت گاہ یا مسجد میں جائز نہیں اور وہ عبادت طواف ہے۔ اس عبادت کے لئے خاص طور پر اس گھر کو سب سے پہلے بنایا گیا ہے اس لئے یہ ''پہلا گھر'' بھی ہے اور سب سے زیادہ ''بیت اللہ'' کہلانے کا مستحق بھی، کیونکہ اس میں وہ عبادت کی جاتی ہے جو کسی اور جگہ ممکن ہی نہیں۔

کعبہ کیا ہے؟

کعبہ ایک بلند و بالا، سیاہ غلاف میں ملبوس پرشکوہ چوکور عمارت کا نام ہے، جس کے درو دیوار اور چار کونے ہیں اور وہ حرم شریف کے صحن کے درمیان بنا ہوا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اصل کعبہ وہ نہیں ہے جو ظاہر بین آنکھوں کو نظر آتا ہے بلکہ اصل کعبہ وہ ہے جسے اہل حقیقت دیکھتے ہیں۔ اصل کعبہ اس مقام یا جگہ کا نام ہے جہاں یہ کعبہ کھڑا ہے۔ یہ جگہ شروع ہی سے مرکز انوار ہے، اگر یہاں موجودہ عمارت اور اس کے در ودیوار نہ ہوتے تو بھی یہ جگہ کعبہ ہوتی اور لوگوں کو حکم ہوتا کہ وہ اس کا حج کریں۔
یہی وجہ ہے کہ جب طوفان نوح کے بعد یہ جگہ ریت میں دب گئی اور اس جگہ صرف ایک سرخ ٹیلہ رہ گیا تھا اور لوگوں کے لئے جگہ کا تعین مشکل تھا، تو اس وقت بھی یہاں کا حج کرنے کے لئے آتے تھے، انبیاء کرام کو یہ حکم تھا کہ وہ خصوصی طور پر یہاں پہنچیں اور حج کے مناسک ادا کریں۔ مظلوم فریاد لے کر یہاں پہنچتے اور دعا کرتے تو وہ قبول ہوتی تھی۔ خواص کو یہاں کعبہ کی خوشبو آجاتی تھی، اس لئے درودیوار اور عمارت نہ ہونے کے باوجود کعبہ یہاں موجود تھا۔ جو لوگ نور ولایت سے سرفراز ہیں اور عرف عام میں انہیں اولیاء اللہ کہتے ہیں، وہ اصل کعبہ ہی کی زیارت کے لئے آتے ہیں، اگر وہ اسے نہ دیکھ سکیں تو سراپا فریاد بن جاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اس کا دیدار کرایا جائے۔

آدابِ کعبۃ اللہ

کعبۃ اللہ کی شان و شوکت کے چرچے سن کر اور اس کی زیارت کے لئے مقرر کئے گئے زبردست آداب و ضوابط کی تفصیلات پڑھ کر اور اس کے حیرت انگیز فضائل وکمالات سے آگاہ ہو کر، انسان دنگ رہ جاتا ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ راوی ہیں :
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِذَا اَتَيْتُمْ الْغائِطَ فَلاَ تَسْتَقْبِلُوْا الْقِبْلَةَ وَ لاَ تَسْتَدْ بِرُوْهاَ.
''جب تم پیٹ کا فضلہ پھینکنے کے لئے کہیں جاؤ تو اس حالت میں قبلہ کی طرف نہ منہ کرو، نہ پشت کرو''۔
کعبہ معظمہ، انوار الہٰیہ کے نزول کی مرکزی جگہ ہے اس لئے عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کے لئے قابل احترام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان خواہ زمین کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں، وہ اپنی حیثیت اور سمجھ کے مطابق اس کا ضرور احترام کرتے ہیں، اس کی طرف پاؤں نہیں پھیلاتے، ادھر منہ کر کے نہیں تھوکتے اور پیشاب وغیرہ کرتے وقت اپنا رخ پھیر لیتے ہیں اور اس حالت میں اس کی طرف پشت بھی نہیں کرتے۔ یہ عام مسلمانوں کی حالت ہے لیکن جو اہل نظر ہیں اور کعبہ شریف کے صرف در ودیوار ہی کو نہیں دیکھتے بلکہ اس میں انوار وتجلیات کا مشاہدہ بھی کرتے ہیں، ان کا معاملہ ہی کچھ اور ہے، وہ اس انداز سے احترام کرتے ہیں اور ایسے آداب و ضوابط ملحوظ رکھتے ہیں جو عوام کی سمجھ سے بھی بالا تر ہوتے ہیں اور ان کا ذہن ان آداب کی پابندی کی طرف نہیں جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام حج کرنے کے بعد، فوراً اپنے شہروں کی طرف واپس چلے جاتے تھے تاکہ کوئی ایسی غلطی سرزد نہ ہو جائے جو حرمتِ کعبہ کے منافی ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرمایا کرتے تھے، مکہ مکرمہ کے علاوہ کسی مقام پر مجھ سے ستر غلطیاں سر زد ہو جائیں میں یہ تو گوارا کر سکتا ہوں، لیکن یہ گوارا نہیں کرتا کہ مکہ مکرمہ میں ایک غلطی بھی سرزد ہو، اسی لئے آپ طائف میں رہتے تھے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا سرکاری حکم

جب لوگ حج سے فارغ ہو جاتے تو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ، سرکاری حکم جاری فرما دیتے تھے۔ اے اہل یمن! تم یمن چلے جاؤ، اے اہلِ شام! تم شام چلے جاؤ! اے اہل عراق! تم عراق چلے جاؤ۔ اب مکہ مکرمہ میں زیادہ دیر ٹھہرنے کی کوشش نہ کرو، ایسا نہ ہو کہ زیادہ قیام سے ادب کے تقاضے پورے کرنے میں سستی ہو جائے، اس لئے قیام سے بہتر یہی ہے کہ اپنے وطن کی طرف لوٹ جاؤ تاکہ کعبہ کی حرمت و محبت دلوں میں برقرار رہے۔
اپنے وطن میں رہ کر، جسمانی طور پر کعبہ سے دور ہوتے ہوئے بھی محبت و عقیدت کی بنیاد پر، روحانی طور پر کعبہ سے قریب رہنا، اس قرب سے بہتر ہے جس میں انسان جسمانی طور پر تو کعبہ کے پاس ہو، مگر ذہنی طور پر اس سے دور ہو، اس کیفیت سے کعبہ شریف کی بے حرمتی ہوتی ہے، جس کی وہ بارگاہ خداوندی میں شکایت بھی کرتا ہے اور اہل مشاہدہ وہ شکایت سن بھی لیتے ہیں۔

کعبۃ اللہ کی شکایت

ایک مرتبہ حضرت وھب بن ورد نے سنا، کعبہ کہہ رہا تھا :
اِلَی اللّٰهِ اَشْکُوْ ثُمَّ اِلَيْکَ يَاجِبْرِيْلُ مَااَلْقٰی مِنَ الطَّائِفِيْنَ حَوْلِيْ مِنْ تَفَکُّرِ هِمْ فِی الْحَدِيْثِ وَلَغْوِهِمْ وَلَهْوِهِمْ لئِنْ لَمْ يَنْتَهُوْا عَنْ ذَالِکَ لَاَنْتَفِضَنَّ اِنْتِفَاضَةً يَرْجِعُ کُلُّ حَجَرٍ اِلَی الْجَبَلِ الَّذِيْ قُطِعَ مِنْهُ.
''اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں فریاد کرتا ہوں، اے جبریل! تیرے حضور بھی شکایت کرتا ہوں، یہ طواف کرنے والے مجھ پر ستم ڈھاتے ہیں، طواف کے دوران دلوں میں بے کار اور نامناسب باتیں سوچتے رہتے ہیں، اگر وہ اس حرکت سے باز نہ آئے تو میں اتنی زور سے کانپوں گا کہ ہر پتھر اڑ جائے گا اور اسی پہاڑ پر چلا جائے گا، جہاں سے اسے لیا گیا تھا''۔
(احياء العلوم، : 243)

اولیاء کرام کی دربارِ کعبہ میں حاضری

کعبہ معظمہ، حقیقی حاکم اعلیٰ کا دربار خاص ہے، شاہی دربار میں اس کے ارکان اور اہل دربار کی حاضری لازمی ہوتی ہے، دربارِ مکہ کے خاص درباری اولیاء کرام ہیں، اس لئے اولیاء کرام یہاں ضرور حاضری دیتے ہیں اور طواف و زیارت سے فیض یاب ہوتے ہیں، اس مقصد کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں، وہ جب چاہیں روحانی یا جسمانی طور پر یہاں پہنچ جاتے ہیں، مگر اوقات فاضلہ میں یا جمعہ کی رات کو وہ ضرور حاضری دیتے ہیں، کیونکہ ان خصوصی اوقات میں کعبہ شریف کے نوری فیضان میں خاص تموج اور جوش پیدا ہوتا ہے، جس سے وہ اپنے قلب ونظر اور ظاہر وباطن کو منور کرتے ہیں۔ اہل بصیرت فرماتے ہیں۔
وَلاَ شَکَّ فِيْ تَرَدُّدِ الْاَوْلِيَائِ اِلَيْهَا فِی الْاَوْقَاتِ الْفَاضِلَةِ وَيَحْضُرُوْنَ الْجُمُعَةُ وَالْاَوْقَاتِ الشَرِيْفَةَ وَ يَحُجُّوْنَ کُلَّ عَامٍ.
(تاريخ القطبی، 28)
''اس میں کوئی شک نہیں کہ اولیاء کرام، فضیلت والے خاص اوقات میں اور جمعہ کو کعبہ شریف میں پہنچتے ہیں اور ہر سال حج کرتے ہیں''۔
اولیاء کرام کے ایک عالی پایہ گروہ کو ''اوتاد'' اور ''ابدال'' کہتے ہیں، اس عظیم گروہ کا کوئی نہ کوئی فرد، سورج کے طلوع و غروب کے وقت یعنی صبح و شام وہاں ضرور موجود ہوتا ہے، گویا وہ دونوں وقت کی حاضری ضروری سمجھتا ہے۔
يُقَالُ لاَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ مِنْ يَوْمٍ اِلاَّ وَيَطُوْفُ بِهٰذَا الْبَيْتِ رَجُلٌ مِنْ الْاَبْدَالِ وَلاَ يَطْلُعُ الْفَجْرُ مِنْ لَيْلَةٍ اِلاَّ طَافَ بِهِ وَاحِدٌ مِنَ الْاَوْتَادِ وَاِذَا انْقَطَعَ ذَالِکَ کَانَ سَبَبُ رَفْعِهِ مِنَ الْاَرْضِ فَيُصْبِحُ النَّاسُ وَقَدْ رُفِعَتِ الْکَعْبَةُ لاَ يَرَی النَّاسُ لَهَا اَثْرًا.
(احياء العلوم، 1 : 242)
''کہا جاتا ہے، جب سورج غروب ہونے لگتا ہے تو ابدال میں سے کوئی نہ کوئی شخص ضرور اس کا طواف کرتا ہے اور جب فجر طلوع ہونے لگتی ہے تو اوتاد میں سے کوئی نہ کوئی ضرور اس کا طواف کرتا ہے، جب یہ سلسلہ منقطع ہو جائے گا، یعنی اولیاء کرام میں سے کوئی اس کا طواف کرنے والا نہیں رہے گا تو یہ کعبہ شریف کے اٹھائے جانے کا سبب بن جائے گا، چنانچہ لوگ صبح کو اٹھیں گے تو کعبہ کا کوئی نشان دکھائی نہیں دے گا، وہ اٹھایا جا چکا ہوگا''۔
حضرت عیاش بن ابی ربیعہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ۔
لَا تَزَالُ هٰذِهِ الْاُمَّةُ بِخَيْرٍ مَاعَظَّمُوْا هٰذِهِ الْحُرْمَةَ حَقَّ تَعْظِيْمِهَا فَاِذَا ضَيَعُوْا ذَالِکَ هَلَکُوْا.
''جب تک یہ امت ''حرم کعبہ'' کی اس طرح تعظیم کرتی رہے گی جیسی تعظیم کرنے کا حق ہے، تو خیر و برکت سے بہرہ ور رہے گی، جب وہ یہ معمول ترک کر دے گی تو تباہ و برباد ہو جائے گی''۔
(ابن ماجة)
قرآن پاک میں ہے۔
وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ.
(الْحَجّ ، 22 : 25)
''اور جو شخص حرم کعبہ میں گناہ کا ارادہ بھی کرے گا تو ہم اسے المناک عذاب چکھائیں گے''۔
اللہ تعالیٰ کے ہاں حرمت کعبہ کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ کعبہ شریف کی طرف جانے والے قربانی کے جانوروں اور حج کے ارادے سے سفر کرنے والے انسانوں کی بے حرمتی سے بھی روکا گیا ہے۔ قرآن پاک میں ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللّهِ وَلاَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلاَ الْهَدْيَ وَلاَ الْقَلآئِدَ وَلاَ آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ.
(الْمَآئِدَة ، 5 : 2)
گویا حکم ہے کہ ان کا احترام ملحوظ رکھو اور کوئی ایسی حرکت نہ کرو جو ان کی شان کے منافی ہو اور ان کی موجودہ حیثیت کے لحاظ سے بے ادبی کے زمرے میں آتی ہو کیونکہ وہ اس وقت راہِ کعبہ پر گامزن ہیں اور اس کی زیارت کے لئے جا رہے ہیں۔
کعبہ کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے، جس دور میں بھی کسی نے اس کی بے حرمتی کا ارادہ کیا اور اس کی عزت و تکریم کو پامال کرنے کے درپے ہوا بلکہ اگر اس کی توہین کی نیت بھی کی، تو وہ اپنے جاہ و جلال سمیت پیوندِ زمین کر دیا گیا، اس کا شاہی دبدبہ، لاؤ لشکر، زر و مال اور جنگی سازو سامان کچھ کام نہ آیا اور اس کا حشر قیامت تک کے لئے عبرت کا نشان بن گیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے کی بات ہے، سرزمین عرب پر تُبَّع بادشاہ حکمران تھا۔ جس کی حکومت ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی تھی اور اس نے بزور شمشیر تمام قبائل کو اپنا مطیع بنایا ہوا تھا۔ اسے فتوحات کا بہت شوق تھا، چونکہ فوجی لحاظ سے طاقتور تھا اس لئے جدھر کا رخ کرتا، فتح و نصرت اور کامیابی اس کے قدم چومتی اور مقامی آبادی اس کے زیر نگین آ جاتی۔
بنو ھذیل ایک جنگ جو قبیلہ تھا، مگر تُبَّع کی فوجی قوت کے سامنے اس کی بھی پیش نہ گئی اور اس نے اطاعت قبول کر لی، بنو ھذیل کی قریش سے لگتی تھی وہ چاہتے تھے کسی طرح قریش کا زور ٹوٹے اور تُبَّع ان پر حملہ کر کے انہیں شکست دیدے، جب انہوں نے تُبَّع کی فوجی طاقت دیکھی تو انہیں امید کی کرن نظر آئی وہ تُبَّع کے پاس آئے اور اسے پٹی پڑھائی کہ یہاں مکہ میں ایک گھر ہے لوگ دور، دور سے اس کی زیارت کے لئے آتے ہیں اگر تم اسے منہدم کر دو اور قریش کو اپنا غلام بنا لو، جو اس گھر کے متولی ہیں تو پورا عرب تمہارا غلام بن جائے گا۔
بنو ھذیل نے چکنی چپڑی باتیں کر کے تُبَّع بادشاہ کو شیشے میں اتار لیا اور بادشاہت اور شان و شوکت کے سبز باغ دکھا کر کعبہ شریف منہدم کرنے پر آمادہ کر لیا۔ جب اس نے یہ خوفناک ارادہ کیا، اسی وقت اس کے سر میں شدید درد شروع ہوگیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے ناقابل برداشت ہوگیا۔ ناک، منہ اور جسم کے مختلف حصوں سے سخت بدبودار پانی بہنے لگا، لوگوں کو اس کے قرب سے ابکائیاں آنے لگیں، ہم نشینوں کے لئے اس کے نزدیک بیٹھنا مشکل ہوگیا، وہ ناک پہ کپڑا رکھ کر آنکھیں بند کر کے دور بھاگ گئے۔
وزیر کو بڑی فکر لاحق ہوئی، اس نے حکماء اور اطباء کو بلایا سب نے بادشاہ کی حالت دیکھ کر کہا، یہ کوئی زمینی بیماری نہیں بلکہ امرِ سماوی اور عذاب الہٰی ہے ہم اس کا علاج نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے کوئی ایسا شخص تلاش کیا جائے جو صاحب روحانیت اور باطنی امراض و اسرار کا ماہر ہو، وہی اس بیماری کو سمجھ سکتا اور علاج کر سکتا ہے۔ اس کی تہہ تک پہنچنا ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ وزیر نے اعلان کرا دیا کہ جو شخص اس عجیب و غریب بیماری کو سمجھنے اور اس کا علاج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ مہربانی کر کے خود ہی سامنے آ جائے۔
ایک شخص وزیر کے پاس آیا اور کہا وہ بادشاہ کے روگ کا علاج کر سکتا ہے، وزیر اسے بادشاہ کے پاس لے گیا حکیم نے بادشاہ سے پوچھا
اَيُهَا الْمَلِکَ! هَلْ اَنْتَ نَوَيْتَ لِهٰذَا الْبَيْتِ سُوْءًا.
''اے بادشاہ! کیا تو نے اس بیت اللہ شریف کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا تھا''؟
بادشاہ نے اعتراف کیا : ہاں! میں نے اسے گرانے کا ارادہ کیا تھا۔ حکیم نے کہا :
اَيُهَاالْمَلِکُ! نِيَتُکَ اَحْدَثَتْ لَکَ هٰذَا الدَّاءَ وَرَبُّ هٰذَا الْبَيْتِ عَالِمٌ بِالْاَسْرَارِ، فَبَادِرْ وَارْجِعْ عَمَّا نَوَيْتَ.
''اے بادشاہ : یہ سب صورت حال اور بیماری، اسی بدنیتی کی پیداوار اور برے ارادے کا نتیجہ ہے، اس گھر کا ایک رب ہے، جو دلوں کے بھید جانتا ہے، اس لئے اگر تو عافیت چاہتا ہے تو فوراً اس ارادے سے باز آ، اور جو بری نیت کی ہے، اس سے توبہ کر اور عقیدت مند بن کر اس گھر کی زیارت کے لئے جا اور اس کا طواف کر، تیرے تمام روگ دور ہو جائیں گے''۔
جونہی بادشاہ نے اپنا پہلا ارادہ بدلا اور کعبہ شریف کی حرمت و تعظیم کا ارادہ کیا اسی وقت اس کے ناک منہ سے پانی بہنا بند ہوگیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ٹھیک ہوگیا، جیسے اسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا، وہ یہ اعجازی شان اور حیرت انگیز کرامت دیکھ کر دنگ رہ گیا، عملی طور پر جو کچھ بیتا اس نے اس کی آنکھیں کھول دیں، اس کا دل کعبہ شریف کے لئے عقیدت و محبت سے لبریز ہوگیا۔ وہ پہلو میں شوق فراواں لئے بڑی چاہت کے ساتھ کعبہ کے سامنے حاضر ہوا، اسے دیکھ کر سراپا نیاز بن گیا اس کا پورا وجود عقیدت میں ڈھل گیا، کوئی ہوش نہ رہا کہ کہاں ہے، اسی عالم بے خودی میں اس نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ کعبہ معظمہ کا طواف کیا۔ اس کے دل نے چاہا کہ ایسے انداز سے اظہار محبت کرے، جس میں انفرادیت ہو، اظہار عقیدت کا وہ طریقہ کسی نے نہ اپنایا ہو، عشق سچا ہو تو ہر مشکل آسان کر دیتا ہے اور چاہت کے اظہار کے لئے نئی نئی راہیں تلاش کر لیتا ہے۔ تُبَّع کی سچی محبت نے بھی پیار کی ایک راہ تلاش کر لی۔
اس نے حکم دیا، کعبہ شریف پر چڑھانے کے لئے ایک بہت بڑا قیمتی غلاف بنایا جائے، کام شروع ہوا اور شاہی حکم کے مطابق ایک شاندار غلاف تیار ہوگیا، تُبَّع نے دھڑکتے دل کے ساتھ عقیدت میں ڈوب کر کعبہ معظمہ کو یہ غلاف پہنایا، تاریخ انسانی کا یہ پہلا غلاف تھا جو کعبہ کو پہنایا گیا۔
یہ سب کچھ کر کے بھی تُبَّع کی محبت کو قرار نہ آیا، اس نے چاہا کہ اور ذرائع سے بھی وہ اپنی عقیدت کا اظہار کرے۔ چنانچہ اس نے ''مطابخ'' یعنی باورچی خانے تعمیر کرنے کا حکم دیا، جب ''شاہی مطابخ'' تیار ہوگئے، تو اس نے اپنے کارندوں سے کہا ہر روز ایک سو اونٹ ذبح کر کے اہل مکہ کو کھلائے جائیں یہ لوگ مقدس گھر کے پڑوسی ہیں ان کی شاندار ضیافت کی جائے۔
تُبَّع بادشاہ جب تک وہاں رہا، اہل مکہ کی ضیافت کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہا۔
آج کے جدید ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ماضی قریب و بعید میں ایسے واقعات ظہور پذیر ہوئے ہیں جو بے حرمتی کے زمرے میں آتے ہیں مگر شواہد موجود ہیں کہ خلاف حرمت غلط حرکت کرنے والوں کی کوئی گرفت نہ ہوئی اور کسی کو ایسی سزا نہ ملی جو انہیں نشان عبرت بنا دیتی اور جس کی غیر معمولی اذیت رسانی کو دیکھ کر یہ رائے قائم کی جا سکتی کہ یہ بے حرمتی کا نتیجہ ہے۔
ایک صاحب دل نے اس کا ایک معنی خیز جواب دیا ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ کعبہ کے تقدس اور جاہ و جلال کو قائم رکھنے کے لئے بے حرمتی کرنے والوں کو فوراً سزا اس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور سے پہلے دی جاتی تھی کیونکہ اس کی حرمت کا پاسبان اور علانیہ دفاع کرنے والا کوئی نہ تھا۔ پس قدرت کا نادیدہ ہاتھ فوراً حرکت میں آتا اور بے حرمتی کے مرتکب کو آہنی گرفت میں لے لیتا تھا تاکہ دلوں پر اس کی ہیبت قائم رہے اور اس کی شوکت و عظمت کے سب قائل رہیں۔ اب یہ پاسبانی کا فریضہ امت کو سونپ دیا گیا ہے، اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاسبانی کے فرائض انجام دے اور اس کی عظمت پر آنچ نہ آنے دے اور اگر کوئی بے حرمت کا ارتکاب کرے تو ایسی کڑی سزا دے کہ وہ عبرت کا نشان بن جائے اور اس ذمہ داری اور خدمت و نگرانی کے عوض خود اسے دنیا کی امامت عطا کی جائے اور اقتدار و جہاں بانی کے لئے منتخب کر لیا جائے، یہ اس امت کی توہین ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے یہ فریضہ ابابیلوں کو سونپا جائے۔
مسلمان دیگر فرائض کی طرح اپنے اس فرض اور ذمہ داری سے بھی غافل ہوگئے ہیں اور اس کی پاسبانی کا فرض ادا نہیں کر رہے، نتیجہ یہ ہے کہ اس نے بھی ہماری پاسبانی سے منہ موڑ لیا ہے اور ہم ہر محاذ پر پٹ رہے ہیں۔ ابھرنے، پنپنے اور سرخرو ہونے کی ایک ہی راہ ہے کہ ہم از سر نو اس کے خدمت گار اور پاسبان بن جائیں۔ وہ ہمارا پاسبان بن جائے گا اور عہد کہن کی یاد تازہ اور شوکت رفتہ بحال ہو جائے گی۔
دنیا کے بتکدے میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم پاسباں ہیں اس کے وہ پاسباں ہمارا