Wednesday, February 24, 2021

تقدیر کے فیصلے

تقدیر بگڑ جائے تو کوئی ہنر کام نہیں آتا
حضرت شیخ سعدیؒ بیان کرتےہیں کہ ایران کے ایک شہر اردبیل کا ایک پہلوان فنون سپہ گری میں اس قدر ماہر اور شہ زور تھا کہ لوہے کے بیلچے کو تیر سے چھید دیا کرتا تھا۔ اس پہلوان کے مقابلے میں آنے کی جرات کسی کو نہ تھی۔

خلفاء راشدین

حضرت عمر بن خطابؓ خلافت سنبھالنے کے بعد بیت المال میں آئے تو لوگوں سے پوچھا کہ :
حضرت ابوبکر ؓ کیا، کیا کیا کرتے تھے، تو لوگوں نے  بتایا کہ :
" وہ نماز سے فارغ ہو کر کھانے کا تھوڑا سا سامان لے کر ایک طرف کو نکل جایا کرتے تھے ...! "

آپ نے پوچھا کہ کہاں جاتے تھے :

Tuesday, February 23, 2021

نسبت سے تعلق

نسبت کی وجہ سے رتبے میں فرق !!

ایک آدمی نے دو اینٹیں لیں. ایک اینٹ کو مسجد میں لگا دیا..
اور ایک اینٹ بیت الخلا میں لگا دی....
اینٹیں ایک جیسی ....

نفس کی سات اقسام

نفس کی سات اقسام ہیں جنکے نام درج ذیل ہیں :

1۔ نفس امارہ
2۔ نفس لوامہ
3۔ نفس ملھمہ
4۔ نفس مطمئنہ
5۔ نفس راضیہ
6۔ نفس مرضیہ
7۔ نفس کاملہ

Monday, February 22, 2021

اللہ کی جستجو

محمود غزنوی آپ نے اعلان کیا کہ آج شہر میں سب لوگوں کو اجازت ہے کہ جو بھی جس چیز کو ہاتھ لگائے گا اس کی ہو جائے گی۔۔۔ پھر وہ ہی ہوا سب کوئی سونے کے پیچھے کوئی چاندی کے پیچھے ۔۔۔وغیرہ۔۔

تقــدیــربگــڑ جــائــے تــو....

تقــدیــربگــڑ جــائــے تــوکــوئــی ہنــرکام نہیــں آتــا

حضرت شیخ سعدیؒ بیان کرتےہیں کہ ایران کے ایک شہر اردبیل کا ایک پہلوان فنون سپہ گری میں اس قدر ماہر اور شہ زور تھا کہ لوہے کے بیلچے کو تیر سے چھید دیا کرتا تھا۔ اس پہلوان کے مقابلے میں آنے کی جرات کسی کو نہ تھی۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ایسے شخص نے اُسےمقابلے کی دعوت دی جو نمدہ پہنے ہوئے تھا۔

Sunday, February 21, 2021

نورا ڈاکو

میں ڈاکو ضرور آں پر بےغيرت نئی آں

مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمۃ الله علیہ نےاپنی کتاب میں لکھا، فرماتے ہیں:
مجھے وہاڑی کے ایک گاؤں سے بڑا محبت بھرا خط لکھا گیا کہ مولانا صاحب ہمارے گاؤں میں آج تک سیرة النبى صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بیان نہیں ہوا۔

Saturday, February 20, 2021

نصیب اپنا اپنا

میں کل فرنیچر والی دکان پر گیا کچھ صوفہ اور بیڈ سیٹ پسند آئے تو سوچا تصویر لے لیتا ھُوں گھر والوں کو دِکھانے کے واسطے تصویر لینے لگا تو دکاندار غصہ ھو گیا اور منع کر دیا، وہاں سے نکلا اور جس بھی فرنیچر والے کے پاس گیا

گھڑی کی سوئیاں

گھڑی میں تین سوئیاں  ہوتی ھے جن میں ایک سوئی سیکنڈ والی کی نام سے مشہور ھے یہ سیکنڈ والی سوئی اپنا وجود تو رکھتی ھے پر اس کا زکر نہیں کیا جاتا 
سب یہی کہتے ھے کہ دس بج کر 15 منٹ ہوگئے ہیں 

ٹوٹا ہوا گلاس

" یہ ایک سعودی طالبعلم کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہے جو حصول تعلیم کے لیے برطانیہ میں مقیم تھا 

وہ طالبعلم بیان کرتا ہے کہ مجھے ایک ایسی انگریز فیملی کے ساتھ ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہنے کا اتفاق ہوا جو ایک میاں بیوی اور ایک چھوٹے بچے پر مشتمل تھی۔ 

ایک دن وہ دونوں میاں بیوی کسی کام سے باہر جا رہے تھے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر آپ گھر پر ہی ہیں تو ہم اپنے بچے کو کچھ وقت کے لیے آپ کے پاس چھوڑ دیں ؟

قـــابــل رشــک تــربیت

ایک شخص کہتا ھے:
میری امی جب بھی مجھے نماز پڑھنے کا کہتیں
 ساتھ ہی میرے لئے دعا بھی کرتی جاتیں اور کہتیں :
 

سلوک اور فطرت

ایک شخص جنگل میں راستہ بھول گیا، وه بهوک و پیاس کی حالت میں کسی ایسی جگہ کی تلاش میں تھا کہ کوئی گھر یا کوئی جھونپڑی نظر آ جائے تاکہ کم از کم کچھ کھانے کو مل جائے۔
چنانچہ کچھ دیر بعد اس کو دور سے ایک گھر نظر آیا امید کی کرن نظر آئی وه شخص جلدی جلدی اس گھر کے دروازے پر پہنچا دروازے پر دستک دی

اپنــے آپ پــر بھــروســہ کــرو

کسی باغ میں ایک کبوتر نے اپنا آشیانہ بنایا ہوا تھا۔ جس میں وہ دن بھر اپنے بچوں کو دانہ چگاتا۔ بچوں کے بال و پر نکل رہے تھے۔ ایک دن کبوتر دانہ چونچ میں دبائے باہر سے آیا تو سارے بچوں نے انہیں تشویش سے بتایا کہ اب ہمارے آشیانے کی بربادی کا وقت آ گیا ہے۔ آج باغ کا مالک اپنے بیٹے سے کہہ رہا تھا۔
"پھل توڑنے کا زمانہ آ گیا ہے۔ کل میں اپنے دوستوں کو ساتھ لاؤں گا اور ان سے پھل توڑنے کا کام لوں گا۔ خود میں اپنے بازو کی خرابی کی وجہ سے یہ کام نہ کر سکوں گا۔"
کبوتر نے اپنے بچوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ " باغ کا مالک کل اپنے دوستوں کے ساتھ نہیں آئے گا۔ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں۔"
اور حقیقتاً ایسا ہی ہوا۔ باغ کا مالک دوسرے روز اپنے دوستوں کے ہمراہ پھل توڑنے نہ آیا۔ کئی روز بعد باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ باغ میں آیا اور کہنے لگا۔
"میں اس دن پھل توڑنے نہ آ سکا کیونکہ میرے دوست وعدے کے باوجود نہ آئے لیکن میرے دوبارہ کہنے پر انہوں نے پکا وعدہ کیا ہے کہ کل وہ ضرور آئیں گے اور پھل توڑنے باغ میں جائیں گے۔"
کبوتر نے یہ بات بچوں کی زبانی سن کر کہا۔ "گھبراؤ نہیں، باغ کا مالک اب بھی پھل توڑنے نہیں آئے گا۔ یہ کل بھی گزر جائے گی۔"
اسی طرح دوسرا روز بھی گزر گیا اور باغ کا مالک اور اس کے دوست باغ نہ آئے۔ آخر ایک روز باغ کا مالک اپنے بیٹے کے ساتھ پھر باغ میں آیا اور بولا۔
" میرے دوست تو بس نام کے ہمدرد ہیں۔ ہر بار وعدہ کرکے بھی ٹال مٹول کرتے ہیں اور نہیں آتے۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر بھروسہ کرنے کی بجائے اپنا کام میں خود کروں گا اور کل باغ سے پھل توڑوں گا۔"
کبوتر نے یہ بات سن کر پریشانی سے کہا۔" بچو! اب ہمیں اپنا ٹھکانہ کہیں اور تلاش کرنا چاہیے۔ باغ کا مالک کل یہاں ضرور آئے گا کیونکہ اس نے دوسروں پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔"

🌻حـــاصــــل کـــــلام:🌻
دوسروں پر بھروسہ ہمیشہ نقصان کا باعث بنتا ہے۔ اپنا کام خود کرنا چاہیے۔

قران کے 101 مختصر پیغامات


1 گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو، سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 83
2  غصے کو قابو میں رکھو، سورۃ آل عمران ، آیت نمبر 134
3  دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو،  سورۃ القصص، آیت نمبر 77
4  تکبر نہ کرو، سورۃ النحل، آیت نمبر 23 
5  دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو، سورۃ النور، آیت نمبر 22
6  لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو، سورۃ لقمان، آیت نمبر 19
7  اپنی آواز نیچی رکھا کرو، سورۃ لقمان، آیت نمبر 19
8  دوسروں کا مذاق نہ اڑایا کرو، سورۃ الحجرات، آیت نمبر 11
9  والدین کی خدمت کیا کرو، سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23
‏10  والدین سے اف تک نہ کرو،  سورۃ الإسراء، آیت نمبر 23
11  والدین کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو،  سورۃ النور، آیت نمبر 58
12  لین دین کا حساب لکھ لیا کرو،  سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 282
13  کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو،  سورۃ الإسراء، آیت نمبر 36
14  اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کے لیے مزید وقت دے دیا کرو،  سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 280
15  سود نہ کھاؤ،  سورۃ البقرة ، آیت نمبر 278
16  رشوت نہ لو،  سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 42
17  وعدہ نہ توڑو،  سورۃ الرعد، آیت نمبر 20
‏18  دوسروں پر اعتماد کیا کرو،  سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12
19  سچ میں جھوٹ نہ ملایاکرو،  سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 42
20  لوگوں کے درمیان انصاف قائم کیا کرو،  سورۃ ص، آیت نمبر 26
21  انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو،  سورۃ النساء، آیت نمبر 135
22  مرنے والوں کی دولت خاندان کے تمام ارکان میں تقسیم کیاکرو، سورۃ النساء، آیت نمبر 8
23  خواتین بھی وراثت میں حصہ دار ہیں، سورۃ النساء، آیت نمبر 7
24  یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو، سورۃ النساء، آیت نمبر 2
‏25  یتیموں کی حفاظت کرو،  سورۃ النساء، آیت نمبر 127 
26  دوسروں کا مال بلا ضرورت خرچ نہ کرو، سورۃ النساء، آیت نمبر 6
27  لوگوں کے درمیان صلح کراؤ، سورۃ الحجرات، آیت نمبر 10
28  بدگمانی سے بچو، سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12
29  غیبت نہ کرو، سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12
30  جاسوسی نہ کرو، سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12
31  خیرات کیا کرو، سورۃ البقرة، آیت نمبر 271
32  غرباء کو کھانا کھلایا کرو سورة المدثر، آیت نمبر 44
33  ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کیا کرو، سورة البقرۃ، آیت نمبر 273
34  فضول خرچی نہ کیا کرو،سورۃ الفرقان، آیت نمبر 67
‏35  خیرات کرکے جتلایا نہ کرو، سورة البقرۃ، آیت 262
36  مہمانوں کی عزت کیا کرو، سورۃ الذاريات، آیت نمبر 24-27
37  نیکی پہلے خود کرو اور پھر دوسروں کو تلقین کرو،  سورۃ البقرۃ، آیت نمبر44
38  زمین پر برائی نہ پھیلایا کرو، سورۃ العنكبوت، آیت نمبر 36
39  لوگوں کو مسجدوں میں داخلے سے نہ روکو، سورة البقرة، آیت نمبر 114
40  صرف ان کے ساتھ لڑو جو تمہارے ساتھ لڑیں، سورة البقرة، آیت نمبر 190
41  جنگ کے دوران جنگ کے آداب کا خیال رکھو، سورة البقرة، آیت نمبر 190
‏42  جنگ کے دوران پیٹھ نہ دکھاؤ، سورة الأنفال، آیت نمبر 15
43  مذہب میں کوئی سختی نہیں، سورة البقرة، آیت نمبر 256
44  تمام انبیاء پر ایمان لاؤ، سورۃ النساء، آیت نمبر 150
45  حیض کے دنوں میں مباشرت نہ کرو، سورة البقرة، آیت نمبر، 222
46  بچوں کو دو سال تک ماں کا دودھ پلاؤ، سورة البقرة، آیت نمبر، 233
47  جنسی بدکاری سے بچو، سورة الأسراء، آیت نمبر 32
48  حکمرانوں کو میرٹ پر منتخب کرو،  سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 247
49  کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو، سورة البقرة، آیت نمبر 286
50  منافقت سے بچو، سورۃ البقرۃ، آیت نمبر  14-16
‏51  کائنات کی تخلیق اور عجائب کے بارے میں گہرائی سے غور کرو، سورة آل عمران، آیت نمبر 190
52  عورتیں اور مرد اپنے اعمال کا برابر حصہ پائیں گے، سورة آل عمران، آیت نمبر 195
53  بعض رشتہ داروں سے  شادی حرام ہے،  سورۃ النساء، آیت نمبر 23
54  مرد خاندان کا سربراہ ہے،  سورۃ النساء، آیت نمبر 34
55  بخیل نہ بنو، سورۃ النساء، آیت نمبر  37
56  حسد نہ کرو، سورۃ النساء، آیت نمبر 54
57  ایک دوسرے کو قتل نہ کرو، سورۃ النساء، آیت نمبر  29
58  فریب (فریبی) کی وکالت نہ کرو، سورۃ النساء، آیت نمبر  135
‏59  گناہ اور زیادتی میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرو، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  2
60  نیکی میں ایک دوسری کی مدد کرو، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 2
61  اکثریت سچ کی کسوٹی نہیں ہوتی، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  100
62  صحیح راستے پر رہو، سورۃ الانعام، آیت نمبر  153
63  جرائم کی سزا دے کر مثال قائم کرو، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  38
64  گناہ اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے رہو، سورۃ الانفال، آیت نمبر  39
65  مردہ جانور، خون اور سور کا گوشت حرام ہے، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر 3
‏66  شراب اور دوسری منشیات سے پرہیز کرو، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  90
67  جوا نہ کھیلو، سورۃ المائدۃ، آیت نمبر  90
68  ہیرا پھیری نہ کرو، سورۃ الاحزاب، آیت نمبر  70
69  چغلی نہ کھاؤ، سورۃ الھمزۃ، آیت نمبر  1
70  کھاؤ اور پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو، سورۃ الاعراف، آیت نمبر  31
71  نماز کے وقت اچھے کپڑے پہنو، سورۃ الاعراف، آیت نمبر  31
72  آپ سے جو لوگ مدد اور تحفظ مانگیں ان کی حفاظت کرو، انھیں مدد دو، سورۃ التوبۃ، آیت نمبر  6
73  طہارت قائم رکھو، سورۃ التوبۃ، آیت نمبر  108
74  اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو،  سورۃ الحجر، آیت نمبر  56
‏75  اللہ نادانستگی میں کی جانے والی غلطیاں معاف کر دیتا ہے، سورۃ النساء، آیت نمبر  17
76  لوگوں کو دانائی اور اچھی ہدایت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاؤ، سورۃ النحل، آیت نمبر  125
77  کوئی شخص کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، سورۃ فاطر، آیت نمبر  18
78  غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو، سورۃ النحل، آیت نمبر  31
79  جس چیز کے بارے میں علم نہ ہو اس پر گفتگو نہ کرو، سورۃ النحل، آیت نمبر  36
‏80  کسی کی ٹوہ میں نہ رہا کرو (تجسس نہ کرو)، سورۃ الحجرات، آیت نمبر  12
81  اجازت کے بغیر دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو، سورۃ النور، آیت نمبر 27
82  اللہ اپنی ذات پر یقین رکھنے والوں کی حفاظت کرتا ہے، سورۃ یونس، آیت نمبر 103
83  زمین پر عاجزی کے ساتھ چلو، سورۃ الفرقان، آیت نمبر 63
84  اپنے حصے کا کام کرو۔ اللہ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین تمہارا کام دیکھیں گے۔ سورة توبہ، آیت نمبر 105
85  اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، سورۃ الکہف، آیت نمبر  110 
‏86  ہم جنس پرستی میں نہ پڑو، سورۃ النمل، آیت نمبر 55
‏87  حق (سچ) کا ساتھ دو، غلط (جھوٹ) سے پرہیز کرو، سورۃ توبہ، آیت نمبر 119
88  زمین پر ڈھٹائی سے نہ چلو، سورۃ الإسراء، آیت نمبر 37
89  عورتیں اپنی زینت کی نمائش نہ کریں، سورۃ النور، آیت نمبر 31
90  اللّٰه شرک کے سوا تمام گناہ معاف کر دیتا ہے، سورۃ النساء، آیت نمبر 48
91 اللّٰه کی رحمت سے مایوس نہ ہو، سورۃ زمر، آیت نمبر  53
92  برائی کو اچھائی سے ختم کرو، سورۃ حم سجدۃ، آیت نمبر 34
93  فیصلے مشاورت کے ساتھ کیا کرو، سورۃ الشوری، آیت نمبر 38
‏94 تم میں وہ زیادہ معزز ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے، سورۃ الحجرات، آیت نمبر 13
95 اسلام میں ترک دنیا نہیں ہے۔ سورۃ الحدید، آیت نمبر 27
96 اللہ علم والوں کو مقدم رکھتا ہے، سورۃ المجادلۃ، آیت نمبر 11
97 غیر مسلموں کے ساتھ مہربانی اور اخلاق کے ساتھ پیش آؤ، سورۃ الممتحنۃ، آیت نمبر 8
98 خود کو لالچ سے بچاؤ، سورۃ النساء، آیت نمبر 32
99  اللہ سے معافی مانگو  وہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے ، سورۃ البقرۃ، آیت نمبر  199
100 جو دست سوال دراز کرے اسے نہ جھڑکو بلکہ حسب توفیق کچھ دے دو، سورۃ الضحی، آیت نمبر  10
101  مجرموں پر ترس نہ کھاؤ. انہیں سر عام سزائیں دیا کرو۔ سورة نور، آیت نمبر 2

اللّہ اس پر ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔

آئینہ برآمدے والا!

وہ بڑے غور سے اپنے قدموں کی جانب دیکھ رہا تھا کہ یک دم دروازہ کھلنے کی آواز پر  چونک کر مڑا۔  اسی لمحے اس کے قدموں کے نیچے ایک دھماکا ہوا  اور وہ اچھل کر کئی قدم دور ہٹتا چلا گیا۔ زمین پر موجود آئینہ کرچی کرچی ہوچکا تھا۔
آج اتوار کا دن تھا۔  امی ابو کواچانک کسی سلسلے میں گاؤں جانا پڑا تھا، اس لیے سعد آج صبح سے ارسلان بھائی کا دماغ چاٹ رہا تھا۔ عمر میں کافی فرق ہونے کی وجہ سے ان کا زیادہ وقت اکٹھے نہیں گزرتا تھا۔ ارسلان بھائی عام طور پر اپنی چھوٹی سی لائبریری میں کمپیوٹر پر  مصروف رہتے ۔ لیکن آج امی نے ان کے ذمے سعد کو سنبھالنے کا کام لگایا تھا، چنانچہ سعد کو بھی بھائی جان سے خوب باتیں کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ 
"بھائی ایک بات تو بتائیے، ہم آئینے میں الٹے دکھتے ہیں نا؟ یعنی دائیں کی جگہ بایاں اور بائیں کی جگہ دایاں؟"  وہ صحن میں کرکٹ کھیل رہے تھے جب اس نے سوال کیا۔
"ہاں، دکھتے تو الٹے ہی ہیں۔" ارسلان بھائی نے کچھ سوچنے کے بعد جواب دیا۔ 
"تو پھر دائیں بائیں کا فرق کیوں ہے؟  پاؤں کی جگہ سر اور سر کی جگہ پاؤں کیوں نہیں   نظر آتے؟" اس نے بال ان کی طرف پھینکتے ہوئے اگلا سوال کیا۔
 اس بار سوچ کا وقفہ لمبا تھا۔
"بات تو تمہاری ٹھیک ہے یار۔۔۔  چلو آؤ دیکھتے ہیں۔"    وہ برامدے میں لگے آئینے کے سامنے آکر رکے اور مختلف زاویوں سے اس کے اندر جھانکنا شروع کیا، لیکن کچھ بھی سمجھ نہ آیا۔
"اچھا تم ایسا کرو، پودوں کو پانی دو۔۔۔ میں اتنی دیر اس کا جواب تلاش کرتا ہوں۔" انہوں نے چند منٹ بعد سعد سے کہا اور وہ سر ہلاتا ہوا بالٹی اٹھا کر صحن میں رکھے گملوں کی جانب بڑھ گیا۔
سعد پودوں کو پانی دے کر واپس آیا تو ارسلان بھائی اپنی لائبریری سے نکل رہے تھے۔  ان کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ اس سوال کا جواب تلا ش کر چکے تھے۔
"بھائی جان ، دے دیا پودوں کو پانی۔۔۔ اب بتائیے نا جواب؟!" اس نے انہیں دیکھتے ہی بے تاب لہجے میں کہا۔
"ہاں ہاں، بتاؤں گا۔۔۔ لیکن پہلے تمہیں تین عدد تجربے کرنے ہوں گے ۔ ان تجربات کی مدد سے ہی تم اس جواب کو سمجھ سکتے ہو۔  تجربات کی تفصیل میں نے لکھ  دی ہے۔ بہت آسان سا کام ہے۔ تم یہ تینوں تجربات مکمل کر کے ان کے نتائج نوٹ کر لو، میں اتنی دیر میں کھانے کے لیے کچھ لے آتا ہوں۔" ارسلان بھائی نے  ایک کاغذ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا اور خود دروازے کی جانب بڑھ گئے۔
اب  سعد کے تجربات شروع ہوئے۔ پہلا کام آسان تھا۔ صرف ایک ہلکے کاغذ پر بال پوائنٹ پین سے اپنا نام لکھ کر آئینے میں ان کا عکس دیکھنا تھا۔
 دوسرے تجربے میں اس نے اپنے  دائیں ہاتھ پر "دایاں" اور بائیں ہاتھ پر "بایاں" لکھا اور پھر آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ہاتھوں کی مختلف سمتوں میں حرکت کو نوٹ کیا۔ ارسلان بھائی کی ہدایات کے مطابق وہ ساتھ ساتھ اپنے موبائل سے تصویریں بھی لے رہا تھا۔
 اس کے بعد باری آئی تیسرے تجربے کی۔ اس نے آئینے کو دیوار سے اتار کر زمین پر رکھا اور اس پر کھڑا ہوکر  اپنے پاؤں کی طرف دیکھنے لگا۔ ۔۔  یہی وہ لمحہ تھا جب دروازہ دھڑ سے کھلا تھا اور  ارسلان بھائی کھانے کا سامان اٹھائے اندر داخل ہوئے تھے ۔ اور اسی لمحےسعد کے  ایک دم مڑنے سے اس کے پاؤں کے نیچے موجود آئینہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا۔
"ارے واہ ! اسے کہتے ہیں علم حاصل کرنے کے لیے خون پسینہ بہانا۔" ارسلان بھائی نے س کے پاؤں کی طرف دیکھتے ہوئے انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہا۔
"خخ۔۔۔خون  ؟ کہاں بہہ رہا ہے خون ؟ " سعد نے بوکھلا کر  اپنے پاؤں کی جانب دیکھا۔ 
"ہاہاہا۔۔۔ابھی نہیں، لیکن شاید جلد ہی بہے گا جب امی ابو کو پتا چلے گا  ۔ابھی پچھلے ہفتے ہی تو خریدا تھا یہ آئینہ۔۔۔ اور امی کو بہت پسند بھی تھا ۔" ان کا لہجہ اچانک شرارتی ہوگیا تھا۔
"لیکن یہ تو غلط بات ہے۔ آپ نے ہی مجھے یہ تجربہ کرنے کے لیے کہا تھا۔" سعد نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
"ہاں، لیکن آئینے پر کھڑے ہوکر اچھلنے کے لیے تو میں نے نہیں کہا تھا۔یہ تو تمہارے ہی کرتوت ہیں۔اب شام کو امی کو بھی تم خود ہی بتانا۔۔۔ اچھا چلو آؤ کھانا تو کھائیں۔ جو ہونا تھا وہ تو ہوگیا۔"  ارسلان بھائی نے فرش سے کرچیاں اکٹھے کرتے ہوئے سعد کی روہانسی حالت دیکھ کربات بدل دی۔ 
"اچھا یہ بتاؤ تینوں تجربات مکمل ہو گئے تھے؟ اور کوئی نتیجہ نکالا تم نے؟" کھانے کے دوران انہوں نے پوچھا۔
"جی تجربات تو ہوگئے تھے، میں نے تصاویر بھی لے لی تھیں، لیکن مجھے ان کی کوئی خاص سمجھ نہیں آئی۔" سعد کے لہجے میں الجھن تھی۔
"اچھاچلو، میں سمجھاتا ہوں۔۔۔ پہلے تجربے میں تم نے  ایک کاغذ پر اپنا نام لکھ کر آئینے میں اس کا عکس دیکھنا تھا۔ میں نے جان بوجھ کر ہلکا کاغذ استعمال کرنے اور بال پوائنٹ سے لکھنے کا کہا تھا۔ اب تم ایک کام کرو، اس کاغذ کو الٹا کر کے پیچھے سے نظر آنے والی تحریر کا آئینے میں نظر آنے والے عکس سے موازنہ کرو۔ " سعد نے الٹا  کاغذ  اور عکس کی تصویر کو سامنے رکھا تو دونوں میں اس کا نام بالکل ایک جیسا نظر آرہا تھا۔
"  اب دوسرے تجربے پر آتے ہیں۔۔۔  تم نے دائیں ہاتھ پر "دایاں" اور بائیں پر "بایاں" لکھا اور اور کے بعد آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ہاتھوں کی مختلف سمت میں حرکت کا موازنہ کیا۔ یہاں اگر تم غور سے دیکھو تو پتا چلے گا کہ تمہارے دونوں ہاتھ اپنی جگہ پر ہی ہیں۔ اور جب ہم ہاتھوں کو اوپر نیچے یا دائیں بائیں حرکت دیتے ہیں تو عکس میں بھی ہاتھ اسی سمت میں حرکت کرتے ہیں۔  لیکن کیا تم نے ایک فرق نوٹ کیا؟ جب ہم ہاتھوں کو آئینے کی طرف لے جاتے ہیں تو عکس میں موجود ہاتھ مخالف سمت میں (یعنی ہماری طرف) حرکت کرتے ہیں۔ اور اسی طرح جب ہم ہاتھ کو پیچھے کی طرف حرکت دیتے ہیں تو بھی عکس کی حرکت الٹی ہوجاتی ہے۔ تمہیں کیا لگتا ہے ایسا کیوں ہے؟" وہ بولتے بولتے رک کر سعد کی طرف دیکھنے لگے، جو شاید پہلے سے بھی زیادہ الجھن کا شکار  تھا۔
"ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ آئینے میں ہمارا عکس واقعی الٹا ہوتا ہے۔۔۔  لیکن یہ الٹا جیسے کے مشہور ہے دائیں بائیں، یا آگے پیچھے یا  اوپر نیچے کی طرف نہیں بلکہ آئینے  کی سمت میں ہوتا ہے۔" انہوں نے چند لمحے رک کر خود ہی جواب دینا شروع کیا۔
" اور یہی بات سمجھانے کے لیے میں نے تمہیں تیسرا  تجربہ کرنے کو کہا تھا۔  جب تم زمین پر آئینہ رکھ کر اس پر کھڑے ہوئے تو تم نے دیکھا ہو گا کہ کچھ چیزیں بدل گئی تھیں۔ تمہیں ایسا لگ رہا ہو گا کہ   عکس میں  تم سر کے  بل کھڑے ہو ۔ یعنی اب آگے پیچھے  کی بجائے اوپر نیچے کا فرق آگیا تھا، کیونکہ تم آئینے کے اوپر کھڑے تھے۔۔۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ  تم نے اسے آئینے پر چھلانگیں لگانے والا کوئی اور ہی تجربہ سمجھ لیا تھا۔ " انہوں نے سعد کو مصنوعی آنکھیں دکھائیں۔
"یعنی اس کا مطلب ہم میں اور عکس میں صرف   آئینے کی سمت میں الٹاؤ آتا ہے۔ باقی سب کچھ بالکل ویسا ہی رہتا ہے؟" سعد اب تک اپنی بنائی ہوئی تصاویر میں کھویا ہوا تھا۔ 
" بالکل!اب تم ٹھیک سمجھے ہو۔ اور  ہاں ، اگلی بار نواز بھائی کی دکان پر   بال کٹوانے جاؤ تو وہاں بھی ایک تجربہ کرنا۔ ان کی دکان میں آمنے سامنے دو آئینے لگے ہوئے ہیں، اور دونوں میں ایک دوسرے کا عکس نظر آتا ہے۔ اب یہ غور کرنا تمہار کام ہے کہ ان دونوں میں تمہارا عکس کیسا نظر آتا ہے۔ اس کے بعد مجھے بتانا ضرور!  ۔۔۔ اچھا چلو اب تم اپنا ہوم ورک وغیرہ  مکمل کر لو ، مجھے بازار کے ایک دو کام نپٹانے ہیں۔" انہوں نے کھانے کے برتن  سمیٹتے ہوئے  بات مکمل کی، اور سعد سر ہلاتا ہوا اپنے کمرے میں آگیا۔
"امی! مجھے آپ کو ایک بات بتانی ہے۔" شام کا سورج غروب ہونے تک امی ابو کی واپسی ہو گئی تھی، اور کافی سوچنے کے بعد سعد نے فیصلہ کیا تھا کہ  امی کو آئینے کے بارے میں   پتا چلنے سے پہلے اسے خود ہی بتا دینا چاہیے۔
"ہاں بیٹا! بولو کیا بات ہے؟"   وہ کام چھوڑ کر اس کی جانب متوجہ ہو گئیں۔
"جی امی! وہ۔۔۔ وہ جو آئینہ تھا نا برامدے والا۔۔۔ وہ میں نے ناں۔۔۔!" انہیں اپنی طرف دیکھتا پا کر وہ بوکھلا سا  گیا تھا۔
 تبھی اس کی نظر سامنے برامدے کی دیوار پر پڑی ۔  اور اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
آئینہ تو پوری آب و تاب سے وہاں آویزاں  تھا۔
"ہاں  سعد ! کیا ہوا برامدے والے آئینے کو؟" ارسلان بھائی، جو ابھی اپنے کمرے سے  نکلے تھے، انہوں نے  امی سے نظریں بچا کر آنکھ سے اسے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ امی کی نظریں بھی سعد پر ہی جمی تھیں۔ 
"جج۔۔۔ جی وہ۔۔۔ دراصل" اب وہ اور بوکھلا گیا تھا ۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کہے۔
 لیکن پھر اچانک اسے ایک خیال سوجھا۔
"جی وہ  دراصل میں نے یہ پتا چلا لیا کہ ہمارے برآمدے والے آئینے  پر چڑیاں ٹھونگے کیوں مارتی ہیں۔ ہم نے سکول میں پڑھا کہ چڑیاں اوراکثر دوسرے پرندے دراصل اپنے عکس کو پہچان نہیں پاتے، اس لیے کئی دفعہ اسے دشمن سمجھتے ہوئے اس سے لڑائی کرنے لگتے ہیں۔  صرف چند ایک جانور اور پرندے ہی آئینے میں خود کو پہچان پاتے ہیں،  اور کچھ پرندوں جیسے کبوتر وغیرہ کو خود کی پہچان کرنے کی تربیت دی جا سکتی ہے۔" وہ مسکراتے ہوئے بولتا چلا گیا۔
"ارے! یہ تو تم نے بہت دلچسپ بات سیکھی ہے۔ شاباش!" امی یہ کہتے ہوئے واپس اپنے کام میں مصروف ہو گئیں۔
  سعد نے ارسلان بھائی کو  جوابی  اشارہ کیا اور اپنے کمرے  کی طرف بڑھ گیا۔ 
برآمدے والے آئینے کا راز، راز ہی رہ گیا تھا!

ڈاکٹر اسامہ زاہد

احساس کی انتہا

ایک ریڑھی والے سے گول گپے کھانے کے بعد میں نے پوچھا ۔۔"بھائی !! لاہور کو جانے والی بسیں کہاں کھڑی ہوتی ہیں؟"
تو انہوں نے سامنے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "سامنے اس ہوٹل کے پاس ۔"
میں جلدی جلدی وہاں پہنچا تو ہوٹل پہ چائے پینے والوں کا بہت رش تھا۔ہم نے بھی یہ سوچ کر چائے کا آرڈر دے دیا کہ چائے میں کوئی خاص بات ہو گی ۔چائے واقعی بڑی مزیدار تھی ۔جب ہم چائے کا بل دینے لگے تو یاد آیا کہ گول گپے والے کو تو پیسے دیے ہی نہیں ۔واپس دوڑتے ہوئے گول گپے والے کے پاس پہنچے اور انہیں بتایا کہ بھائی شاید آپ بھول گئے ہیں ،میں نے آپ سے گول گپے تو کھائے ہیں لیکن پیسے نہیں دیے؟"
تو گول گپے والا مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔"بھائی جس کے بچوں کی روزی انہی گول گپوں پہ لگی ہے ،وہ پیسے کیسے بھول سکتا ہے؟"
"تو پھر آپ نے پیسے مانگے کیوں نہیں؟"
میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔۔
تو کہنے لگے"بھائی یہ سوچ کر نہیں مانگے کہ آپ مسافر ہیں، شاید آپ کے پاس پیسے نہ ہوں،اگر مانگ لیے تو کہیں آپ کو شرمساری نہ اٹھانا پڑے۔۔۔۔

جب تک مسلمان اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اللہ اسکی مدد میں لگا رہتا ہے۔ (مفہوم الحدیث)

ریاست مدینہ

عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے پاس زکوة کا مال آتا ہے
فرمانے لگے : غریبوں میں تقسیم کردو
بتلایا گیا اسلامی حکومت میں کوئی بھی فقیر نہیں رہا (اللہ اکبر)
فرمایا : اسلامی لشکر تیار کرو
بتلایا گیا اسلامی لشکر ساری دنیا میں گھوم رہے ہیں
فرمایا : نوجوانوں کی شادیاں کر دو
بتلایا گیا کہ شادی کے خواہش مندوں کی شادیوں کے بعد بھی مال بچ گیا ہے
فرمایا : اگر کسی کے ذمہ قرض ہے تو ادا کر دو ، قرض ادا کرنے
کے بعد بھی مال بچ جاتا ہے
فرمایا : دیکھو ( یہودی اور عیسائیوں ) میں سے کسی پر قرض ہے تو ادا کردو
یہ کام بھی کر دیا گیا مال پھر بھی بچ جاتا ہے
فرمایا : اھل علم کو مال دیا جائے ، 
اُن کو دیا گیا مال پھر بھی بچ جاتا ہے
فرمایا : اس کی گندم خرید کر پہاڑوں کے اوپر ڈال دو
کہ مسلم حکومت میں کوئی پرندہ بھی بھو کا نہ رہے..

_(عربی کتاب "عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ از عبدالستار الشیخ الدمشقی "┅┄

کاش! میں اس قبر میں دفن کِیا جاتا



وہ ایک یتیم بچہ تھا۔اس کے چچا نے اس کی پرورش کی۔جب وہ بچہ جوان ہُوا تو چچانے اونٹ، بکریاں غلام دے کر اس کی حیثیت مستحکم کردی۔اس نے اسلام کے متعلق سنا تو دل میں توحید کا شوق پیدا ہوا لیکن چچا سے اس قدر ڈرتا تھا کہ اظہار نہ کرسکا۔
جب نبی کریم صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم فتح مکہ سے واپس گئے تو اس نے چچا سے کہا "مجھے برسوں انتظار کرتے گزر گئے کہ کب آپ کے دل میں اسلام کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور آپ کب مسلمان ہوتے ہیں لیکن آپ کا حال وہی پہلے کا سا چلا آرہا ہے۔میں اپنی عمر پر زیادہ اعتماد نہیں کرسکتا۔مجھے اجازت دیجئے کہ میں مسلمان ہو جاؤں"
چچا نے جواب دیا "دیکھ! اگر تو محمّد(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) کا دین قبول کرنا چاہتا ہے تو میں سب کچھ تجھ سے چھین لوں گا۔تیرے بدن پر چادر اور تہبند تک باقی نہ رہنے دوں گا"
اس نے جواب دیا "چچا جان! میں مسلمان ضرور ہوں گا اور محمّد(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) کی اتباع قبول کروں گا۔شرک اور بت پرستی سے بیزار ہو چکا ہوں۔اب آپ کا جو منشاء ہے کریں اور جو کچھ میرے قبضہ میں مال و زر وغیرہ ہے سب کچھ سنبھال لیجئے۔میں جانتا ہوں کہ ان چیزوں کو آخر ایک روز یہیں دنیا میں چھوڑ جانا ہے اس لیے میں ان کیلئے سچے دین کو ترک نہیں کرسکتا"
اس نے یہ کہہ کر چچا کے دِیے کپڑے بھی لوٹا دیے اور ایک پھٹی پرانی چادر اوڑھ لی پھر اپنی ماں کی خدمت میں حاضر ہُوا اور کہا "میں مومن اور مسلمان ہوگیا ہوں، محمّد (صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) کی خدمت میں جانا چاہتا ہوں۔ستر پوشی کیلئے کپڑے کی ضرورت ہے مہربانی کرکے کچھ دے دیجیے"
ماں نے ایک کمبل دے دِیا۔اس نے کمبل پھاڑا آدھے کا تہبند بنالیا آدھا اوپر کر لِیا اور مدینہ کو روانہ ہو گیا۔
علی الصبح مسجدِ نبوی میں پہنچ گیا اور ٹیک لگا کر انتظار کرنے لگا۔نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) جب مسجد میں آئے تو اسے دیکھ کر پوچھا "کون ہو؟"
کہا "میرا نام عبدالعزٰی ہے۔فقیر و مسافر ہوں طالبِ ھدایت ہو کر آپ کے در پر آپہنچا ہوں"
نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) نے فرمایا "آج سے تمہارا نام عبداللہ ہے "ذوالبجادین" لقب ہے۔تم ہمارے قریب ہی ٹھہرو اور مسجد میں ہی رہا کرو"
یوں عبداللہ رضی اللہ عنہ اصحابِ صُفّہ میں شامل ہو گئے۔نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) سے قرآن پاک سیکھتے اور دن بھر عجب ذوق وشوق اور خوشی و نشاط سے پڑھا کرتے۔
ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ تو نفل نماز پڑھ رہے ہیں اور یہ اعرابی اس قدر بلند آواز سے ذکر کررہا ہے کہ دوسروں کی قرآت میں مزاحمت ہوتی ہے۔
نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) نے فرمایا "عمر! اسے کچھ نہ کہو۔یہ تو اللہ اور اس کے رسول کیلئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آیا ہے"
عبداللہ رضی اللہ عنہ کے سامنے غزوۂ تبوک کی تیاری ہونے لگی تو نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) نے انہیں دعا دیتے ہوئے فرمایا "الٰہی! میں کفار پر اس کا خون حرام کرتا ہوں"
عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا "یارسول اللہ ﷺ میں تو شہادت کا طالب ہوں"
نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم نے فرمایا "جب اللہ کے راستے میں نکلو اور پھر بخار آئے اور مرجاؤ تب بھی تم شہید ہی ہو گے"
تبوک پہنچ کر یہی ہُوا کہ بخار چڑھا اور انتقال کرگئے۔
بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کے دفن کی کیفیت دیکھی ہے۔رات کا وقت تھا۔پہلے وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اترے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما ان کی لاش لحد میں رکھ رہے تھے۔نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) بھی ان کی قبر میں اترے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما سے فرما رہے تھے "اپنے بھائی کو میرے قریب کرو"
نبی اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلّم) نے قبر میں اینٹیں بھی اپنے ہاتھ سے رکھیں اور پھر دعا فرمائی "اے اللہ! میں ان سے راضی ہُوا، تُو بھی ان سے راضی ہو جا"
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "کاش! اس قبر میں، مَیں دفن کِیا جاتا...!! 
{بحوالہ مدارج النبوۃ(جلد 2صفحہ 90۔91)}

بنک اور کریڈٹ کارڈ


ایک لڑکا بڑے غصے میں گھر سے چلا آیا .

اتنا غصہ تھا کہ غلطی سے پاپا کے جوتے پہن کے نکل گیا
میں آج بس گھر چھوڑ دوں گا!! اور تبھی لوٹوں گا جب بہت بڑا آدمی بن جاؤں گا۔!!

جب موٹر سائیکل نہیں دلوا سکتے تھے، تو کیوں انجینئر بنانے کے خواب دیکھتے ہیں ؟!!

آج میں پاپا کا پرس بھی اٹھا لایا تھا .... جسے کسی کو ہاتھ تک نہ لگانے دیتے تھے .

مجھے پتہ ہے اس پرس میں ضرور پیسوں کے حساب کی ڈائری ہوگی ....

پتہ تو چلے کتنا مال چھپا ہے ماں سے بھی .

اسے ہاتھ نہیں لگانے دیتے کسی کو .

جیسے ہی میں عام راستے سے سڑک پر آیا، مجھے لگا جوتوں میں کچھ چبھ رہا ہے ....
میں نے جوتا نکال کر دیکھا .
میری ایڑھی سے تھوڑا سا خون رس آیا تھا .
جوتے کی کوئی کیل نکلی ہوئی تھی، درد تو ہوا پر غصہ بہت تھا .

اور مجھے جانا ہی تھا گھر چھوڑ کر .

جیسے ہی کچھ دور چلا ....
مجھے پاؤں میں گیلا گیلا سا لگا، سڑک پر پانی پھیلا ہوا تھا .
پاؤں اٹھا کے دیکھا تو جوتے کی تلی پھٹی ہوئی تھی .

جیسے تیسے لنگڑا كر بس سٹاپ پر پہنچا پتہ چلا ایک گھنٹے تک بس نہیں آئے گی.

میں نے سوچا کیوں نہ پرس کی تلاشی لی جائے .

میں نے پرس کھولا، ایک پرچی دکھائی دی، لکھا تھا .

لیپ ٹاپ کے لئے 40 ہزار قرضے لئے پر !!!

لیپ ٹاپ تو گھر میں میرے پاس ہے؟

دوسرا ایک جوڑ مڑا دیکھا، اس میں ان کے آفس کی کسی شوق ڈے کا لکھا تھا
انہوں نے شوق لکھا: اچھے جوتے پہننا .
اوہ .... اچھے جوتے پہننا ؟؟؟
پر انکے جوتے تو . !!!!

ماں گذشتہ چار ماہ سے ہر پہلی کو کہتی ہے: نئے جوتے لے لو ...
اور وہ ہر بار کہتے: "ابھی تو 6 ماہ جوتے اور چل جائیں گے .."
میں اب سمجھا کتنے چل جائیں گے؟؟؟

تیسری پرچی .
پرانا سکوٹر دیجئے ایکسچینج میں نئی موٹر سائیکل لے جائیں .
پڑھتے ہی دماغ گھوم گیا .
پاپا کا سکوٹر .
اوہ ہ ہ ہ ہ

میں گھر کی طرف بھاگا .
اب پاؤں میں وہ کیل نہیں چبھ رہی تھی .
میں گھر پہنچا .
نہ پاپا تھے نہ سکوٹر .
اوههه!!
نہیں!!
میں سمجھ گیا کہاں گئے؟ .

میں بھاگا .
اور
ایجنسی پر پہنچا .
پاپا وہیں تھے .

میں نے ان کو گلے سے لگا لیا، اور آنسؤوں سے ان کا کندھا بھیگ گیا .

نہیں ... پاپا نہیں ........ مجھے نہیں چاہئے موٹر سائیکل .

بس آپ نئے جوتے لے لو اور مجھے اب بڑا آدمی بننا ہے .

وہ بھی آپ کے طریقے سے .

"ماں" ایک ایسی بینک ہے جہاں آپ ہر احساس اور دکھ جمع کر سکتے ہیں .

اور

"پاپا" ایک ایسا کریڈٹ کارڈ ہے جن کے پاس بیلنس نہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے خواب پورے کرنے کی کوشش ہے..!!

*خدارا اپنے والدین کی قدر کریں❤❤*

غلطی اور اللّٰہ سے معافی

*💕 کبھی کبھی ہم اتنے شرمسار ہوتے ہیں اپنی غلطیوں پر کہ اللہ کی طرف پلٹ جانے سے بھی ڈرتے ہیں
، اس سے معافی مانگتے ہوئے بھی ڈرنے لگتے ہیں.
 کیا وہ معاف کرے گا بھی یا نہیں..؟ 
خود کو اس بچے کی جگہ رکھ کر سوچو جو غصے میں اپنی ماں پر چلایا ہو اور چلاتے ہی منہ کے بل زمین پر آ گرا ہو بس اس ٹھوکر کی دیر ہے تمہارے پکارنے کی دیر ہے، 
تمہاری آنکھ سے نکل کر رخسار تک آنسو کے آنے کی دیر ہے،
ماں اپنی تکلیف بھول کر، تمہاری چلاتی ہوئی آواز کو بھول کر تمہیں سینے سے لگا لیتی ہے، 
اب بھی تمہیں ایسا لگتا ہے کہ اللہ تمہیں نہیں تھامے گا..؟
 اب بھی تمہیں لگتا ہے وہ تمہاری تکلیف دور نہیں کرے گا..؟ 
وہ جس کی محبت عرش اور فرش سے کہیں وسیع ہے وہ جس کی محبت اس کے غضب پر بھاری ہے..* 💕

کلمہ اورطوطے کی موت

ایک بزرگ نوجوانوں کو جمع  کرتے اور انہیں ''لا الہ الا اللہ '' کی دعوت دیا کرتے تھے ۔
انہوں نے ایک مسجد کو اپنا مرکز بنایا ہوا تھا، چھوٹے بچوں سے لے کر نوجوانوں تک میں ان کی یہ دعوت چلتی تھی۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ۔۔۔ اللہ تعالیٰ جس کو بھی اس مبارک دعوت کی توفیق دے دے، اس کے لئے یہ بڑی سعادت کی بات ہے۔

ایک نوجوان جو ان بزرگوں کی مجلس میں آ کر کلمہ طیبہ کا شیدائی بن گیا تھا، ایک دن ایک خوبصورت طوطا اپنے ساتھ لایا اور اپنے استاذ کو ہدیہ کر دیا۔ طوطا بہت پیارا اور ذہین تھا۔ بزرگ اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ جب سبق کے لئے آتے تو وہ طوطا بھی ساتھ لے آتے۔ دن رات '' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' کی ضربیں سن کر اس طوطے نے بھی یہ کلمہ یاد کر لیا۔
وہ سبق کے دوران جب'' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' پڑھتا تو سب خوشی سے جھوم جاتے۔

ایک دن وہ بزرگ سبق کے لئے تشریف لائے تو طوطا ساتھ نہیں تھا، شاگردوں نے پوچھا تو وہ رونے لگے۔ بتایا کہ کل رات ایک بلی اسے کھا گئی۔ یہ کہہ کر وہ بزرگ سسکیاں لے کر رونے لگے۔ شاگردوں نے تعزیت بھی کی، تسلی بھی دی، مگر ان کے آنسو اور ہچکیاں بڑھتی جا رہی تھیں ۔
ایک شاگرد نے کہا؛ حضرت میں کل اس جیسا ایک طوطا لے آؤں گا، تو آپ کا صدمہ کچھ کم ہو جائے گا۔ بزرگ نے فرمایا! بیٹے میں طوطے کی موت پر نہیں رو رہا، میں تو اس بات پر رات سے رو رہا ہوں کہ وہ طوطا دن رات '' لا الہ الاا للہ ، لا الہ الا اللہ '' پڑھتا تھا، جب بلی نے اس پر حملہ کیا تو میرا خیال تھا کہ طوطا
لا الہ الا اللہ پڑھے گا، مگر اس وقت وہ خوف سے چیخ رہا تھا اور طرح طرح کی آوازیں نکال رہا تھا۔ اس نے ایک بار بھی '' لا الہ الا اللہ '' نہیں کہا، وجہ یہ کہ اس نے '' لا الہ الا اللہ '' کا رٹا تو زبان سے لگا رکھا تھا، مگر اسے اس کلمے کا شعور نہیں تھا۔ اسی وقت سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کہیں ہمارے ساتھ بھی موت کے وقت ایسا نہ ہو جائے۔ موت کا لمحہ تو بہت سخت ہوتا ہے۔ اس وقت زبان کے رٹے بھول جاتے ہیں اور وہی بات منہ سے نکلتی ہے جو دل میں اُتری ہوئی ہو ۔

ہم یہاں دن رات '' لا الہ الا اللہ '' کی ضربیں لگاتے ہیں، مگر ہمیں اس کے ساتھ ساتھ یہ فکر کرنی چاہیئے کہ یہ کلمہ ہمارا شعور بن جائے، ہمارا عقیدہ بن جائے۔ یہ ہمارے دل کی آواز بن جائے۔ اس کا یقین اور نور ہمارے اندر ایسا سرایت کر جائے کہ ہم موت کے وقت جبکہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہونے والی ہوتی ہے ہم یہ کلمہ پڑھ سکیں۔ یہی تو جنت کی چابی اور اللہ تعالیٰ سے کامیاب ملاقات کی ضمانت ہے۔

بزرگ کی بات سن کر سارے نوجوان بھی رونے لگے اور دعاء مانگنے لگے کہ یا اللہ یہ کلمہ ہمیں طوطے کی طرح نہیں، حضرات صحابہ کرام اور حضرات صدیقین و شہداء کی طرح دل میں نصیب فرما دیجیئے۔" ۔۔۔

ماں دوائیوں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں...!!

ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ كا ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮕﻮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮨﻔﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺟﺎﻭﮞ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ،ﺩﯾﺮ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ  ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺗﯿﻦ ﮨﻔﺘﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﮨﯽ ﻟﻮﮞ ﺗﻮ ﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﭩﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺑﺎﺭ ﭼﻼ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﺳﻮﭺ ﺑﭽﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﮈ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﻮﻟﮧ ‏ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﭘﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﺵ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﭘﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﺟﺐ ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﻮ 1000 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎ ﻧﻮﭦ ﺩﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ 100 
 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﮐﺮ ﺟﻮﻧﮩﯽ 
 ﻭﺍﭘﺲ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﮍﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﺎ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ :

 " ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﺁﺝ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﯽ ﺁﭖ  ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﺩﮮ ﺩﯾﮟﮔﮯ" ؟؟

 ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﭩﺘﯽ ﺳﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮈﺍﻟﯽ، ﺳﺎﺩﮦ ﺳﺎ ﻟﺒﺎﺱ، ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﺗﯿﻞ ﺳﮯ ﭼﭙﮑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻝ، ﭘﺎﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﻤﻨﭧ ﺑﮭﺮﺍ ﺟﻮﺗﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﺳﭽﺎ ﻟﮕﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎتھ ﭘﺮ ﺭﮐھ ﺩﺋﯿﮯ ،ﻭﮦ ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﯿﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، "ﺳﻨﻮ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ؟" 

 ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ 
 ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯾﮯ۔ ﻭﮦ ﮨﭽﮑﭽﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭩﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ 

 " ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﻥ ! ﻣﯿﺮﺍ ﮔﮭﺮ ﻣﻨﮉﮬﺎﻟﯽ ﺷﺮﯾﻒ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ دو تین گھنٹے میں ﭘﯿﺪﻝ ﺑﮭﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﮐﻞ ﺳﮯ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ 
 ﻟﮕﯽ، ﺳﻮﭼﺎ ﺁﺝ ﺟﻠﺪﯼ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ".

 ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
 " ﭼﮭﺎ ﯾﮧ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ" 

 ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ :
 " ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﻞ ﮨﯽ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ  ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ، ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﭨﮭﯿﮏ ہوﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﺑﻮﺟﯽ"۔۔😓😓

 ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ  " ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟" 

 ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺲ ﺑﮭﯽ ﺁ ﮔﺌﯽ، ﻭﮦ ﺑﺲ ﮐﯽ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﻟﭙﮏ ﮐﺮ ﭼﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ 

 "ﮔﻠﻮ " ۔ 

 ﮔﻠﻮ ﮐﯽ ﺑﺲ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﻠﻮ ﮐﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﺮ ﭘﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺋﯽ ﺳﭩﺮﯾﭧ ﮐﮯ ﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ کو یکدﻡ ﺑﮩﺖ ﺍﮐﯿﻼ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﻮﭨﺮﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﺎ ﺭﺥ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻮﮌ ﻟﯿﺎ۔ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﻮ ﺍﺳﭩﯿﻨﮉ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭨﻮﮐﻦ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﮑﭧ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ 700 ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ساہیوﺍﻝ ﮐﺎ ﭨﮑﭧ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻨﭻ ﭘﺮ ﺑﯿﭩھ ﮔﯿﺎ۔ ﮐﺐ ﮔﺎﮌﯼ ﺁﺋﯽ، ﮐﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ، ساہیوال ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﭘﺮ ﺍﺗﺮ ﮐﮯ  ﭘﮭﺎﭨﮏ ﺳﮯ اپنے گاؤں کی وین ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ، ﺁﺧﺮﯼ ﺑﭽﮯ ﮨﻮﺋﮯ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺟﺐ ﺷﺎﻡ ﮈﮬﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﺳﺮ ﭘﺮ ﮐﭙﮍﺍ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ ﻧﯿﻢ ﺩﺍﺭﺯ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮍﺍ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﭼﻤﭻ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﻼ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔

ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﺍﭨھ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ‏ﻣﯿﺮﺍ ﭘﺘﺮ ﺧﯿﺮ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ! ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮﮞ " ۔ 😍

میں آﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻭﮌ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﺎ ﻟﮕﺎ۔😓 ﺑﺲ ﮐﮯ ﮔﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ "ﮔﻠُﻮ" ﮐﺎ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﭼﮩﺮﮦ ﯾﮏ ﺩﻡ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ 800 ﺭﻭﭘﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﮯ ﺗﮭﮯ۔ 

 والدین کی جان اپنے بچوں میں ہوتی اس بات کا خیال رکھا کریں۔ والدین کا کوئی نعم البدل نہیں، اگر آپ انہیں کچھ نہیں دے سکتے تو خیر ھے لیکن انہیں اپنی زندگی میں سے وہ قیمتی وقت ضرور دیں جن سے انہیں احساس ہو گے وہ آپ کے لئے انتہائی اہم ہیں۔ 
!!!۔۔ماں دوائیوں سے کہاں ٹھیک ہوتی ہیں۔۔۔۔!!!!

ماں باپ کو آپکے پیسوں کی نہیں آپکی بھیجی دواؤں کی نہیں آپ کی ضرورت ہوتی ہے.

خوش رہیں۔۔💞

شایان شان

کہتے ہیں محمود غزنوی کا دور تھا
ايک شخص کی طبیعت ناساز ہوئی تو  طبیب کے پاس گیا
اور کہا کہ  مجھے دوائی بنا کے دو طبیب نے کہا کہ دوائی کے لیے جو چیزیں درکار ہیں سب ہیں سواء شہد کے تم اگر شہد کہیں سے لا دو تو میں دوائی تیار کیے دیتا ہوں اتفاق سے موسم شہد کا نہیں تھا ۔۔
اس شخص نے حکیم سے ایک ڈبا لیا  اور چلا گیا لوگوں کے دروازے  کھٹکھٹانے لگا 
 مگر ہر جگہ مایوسی ہوئی
جب مسئلہ حل نہ ہوا  تو وہ محمود غزنوی کے دربار میں حاضر ہوا 
کہتے ہیں وہاں ایاز نے دروازہ  کھولا اور دستک دینے والے کی رواداد سنی اس نے وہ چھوٹی سی ڈبا دی اور کہا کہ مجھے اس میں شہد چاہیے ایاز نے کہا آپ تشریف رکھیے میں  بادشاھ سے پوچھ کے بتاتا ہوں 
ایاز وہ ڈبیا لے کر  بادشاھ کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کی کہ بادشاھ سلامت ایک سائل کو شہد کی ضرورت ہے 
بادشاہ نے وہ ڈبا لی  اور سائیڈ میں رکھ دی ایاز کو کہا کہ تین کین شہد کے اٹھا کے اس کو دے دیے جائیں 
ایاز نے کہا حضور اس کو تو تھوڑی سی چاہیے 
آپ  تین کین  کیوں دے رہے ہیں 
بادشاھ نے ایاز   سے کہا ایاز 
وہ مزدور آدمی ہے اس نے اپنی حیثیت کے مطابق مانگا ہے 
ہم بادشاہ ہیں  ہم اپنی حیثیت کے مطابق دینگے ۔
مولانا رومی فرماتے ہیں 
آپ اللہ پاک سے اپنی حیثیت کے مطابق مانگیں وہ اپنی شان کے مطابق عطا کریگا شرط یہ ہے کہ مانگیں تو صحیح ۔

کامیابی کا راز

آپ کسی کو کامیابی کا راستہ تو دکھا سکتے ہو مگر  کامیاب نہیں کروا سکتے

مجھے ایک عظیم بزنس مین کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ھوا۔
اس انٹرویو میں اس نے دلچسپ باتیں کہیں۔
"دنیا میں نوکری کرنے والا کوئی شخص خوشحال نہیں ھو سکتا۔"

"انسان کی معاشی زندگی تب شروع ھوتی ھے جب وہ اپنے کام کا آغاز خود کرتا ھے۔"

👈اسکی دوسری بات
"کامیابی اور ترقی کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔"

"اگر تعلیم سے روپیہ کمایا جا سکتا تو آج دنیا کا ھر پروفیسر ارب پتی ھوتا۔"

اس وقت دنیا میں ساڑھے نو سو ارب پتی ہیں۔
"ان میں سے کوئی بھی پروفیسر ، ماہر تعلیم شامل نہیں۔"

"دنیا میں ھمیشہ درمیانے پڑھے لکھے لوگوں نے ترقی کی۔"
یہ لوگ وقت کی قدروقیمت سمجھتے ہیں اور یہ لوگ ڈگریاں حاصل کرنے کی بجائے طالب علمی کے دور میں ھی کاروبار شروع کر دیتے ہیں۔
"کامیابی ان کو کالج یا یونیورسٹی کی بجائے کارخانے یا منڈی میں لے جاتی ھے۔"

میں زندگی میں کبھی کالج نہیں گیا۔
"میری کمپنی میں اسوقت اعلی تعلیم یافتہ 30 ھزار مرد اور خواتین کام کرتے ہیں
یہ تعلیم یا فتہ لوگ مجھ سے وژن ، عقل اور دماغ میں بہت بہتر ہیں لیکن ان میں نوکری چھوڑنے کا حوصلہ نہیں۔
انہیں اپنے اور اپنی صلاحیتوں پر اعتبار نہیں۔

"اگرکوئی شخص میرے لیے کام کر سکتا ھے تو وہ اپنے لئے بھی کر سکتا ھے۔"
👈بس اس کے لئے زرا سا حوصلہ چاھئیے۔

"دنیا میں ھر چیز کا متبادل موجود ھے لیکن محنت کا نہیں۔"

"دنیا میں نکمے لوگوں کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں لیکن کام کرنے والوں کے لئے ساری دنیا کھلی پڑی ھے۔"
 
👈اس کی باتیں سن کے میں نے سوچا
👈جو خود کچھ نہیی کر سکتے وہ دوسروں کو بھی روکتے ھیں اور جو کچھ کرتے ھیں وہ دوسروں کو بھی کہتے ھیں آؤمل کر کریں ناکامی کام میں نہیی نااہل لوگوں میی ھوتی ھے  اب فیصلہ آپکا ناکام کی ماننی ھے یا جو کام کرنے کی ہمت کرنے میں لگا ھے اسکی

کاش کاش کاش۔ ۔ ۔
میں اس کی باتیں ان تمام پڑھے لکھے بےروزگار نوجوانوں تک پہنچا سکوں جو دن رات بےروزگاری کا رونا روتے ہیں۔
مگر اب بھی فیصلہ آپ کا ہے کا آپ اس پوسٹ کو اپنی کامیابی کا راز سمجھیں یا ہوا میں اڑا دیں۔


پختہ ایمان....

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عیسائیوں کے ایک قلعہ کا محاصرہ کیا تو ان کا سب سے بوڑھا پادری آپ کے پاس آیا اس کے ہاتھ میں انتہائی تیز زھر کی ایک پڑیا تھی اس نے حضرت خالد بن ولید سے عرض کیا کہ آپ ھمارے قلعہ کا محاصرہ اٹھا لیں اگر تم نے دوسرے قلعے فتح کر لئے تو اس قلعہ کا قبضہ ھم بغیر لڑائی کے تم کو دے دیں گے۔ 

حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا 
نہیں ہم پہلے اس قلعہ کو فتح کریں گے  بعد میں کسی دوسرے قلعے کا رخ کریں گے یہ سن کر بوڑھا پادری بولا  اگر تم اس قلعے کا محاصرہ نہیں اٹھاؤ گے تو میں یہ زھر کھا کر خودکشی کر لوں گا اور میرا خون تمہاری گردن پر ھوگا حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمانے لگے 
یہ ناممکن ہے کہ تیری موت نہ آئی ھو اور تو مر جائے
بوڑھا پادری بولا اگر تمہارا یہ یقین ہے تو لو پھر یہ زھر کھا لوحضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وہ زھر کی پڑیا پکڑی اور یہ دعا بسم الله وبالله رب الأرض ورب السماء الذي لا يضر مع اسمه داء  پڑھ کر وہ زھر پھانک لیا اور اوپر سے پانی پی لیا۔ 

بوڑھے پادری کو مکمل یقین تھا کہ یہ چند لمحوں میں موت کی وادی میں پہنچ جائیں گے مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چند منٹ آپ کے بدن پر پسینہ آیا اس کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پادری سے مخاطب ھو کر فرمایا دیکھا  اگر موت نہ آئی ھو تو زھر کچھ نہیں بگاڑتا پادری کوئی جواب دئیے بغیر اٹھ کر بھاگ گیا اور قلعہ میں جا کر کہنے لگا۔

اے لوگو میں ایسی قوم سے مل کر آیا ہوں کہ خدا تعالٰی کی قسم اسے مرنا تو آتا ہی نہیں وہ صرف مارنا ہی جانتے ھیں جتنا زِہر ان کے ایک آدمی نے کھا لیا اگر اتنا پانی میں ملا کر ہم تمام اہلِ قلعہ کھاتے تو یقیناً مر جاتے مگر اس آدمی کا مرنا تو درکنار  وہ بیہوش بھی نہیں ہوا۔ میری مانو تو قلعہ اس کے حوالے کر دو اور ان سے لڑائی نہ کرو چنانچہ وہ قلعہ بغیر لڑائی کے صرف حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قوت ایمانی سے فتح ہو گیا۔

(تاریخ ابن عساکر)

موت سے سبق

مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیــــــــں :

ایک مرتبہ ایک شیر شکار پر نکلا تو اپنے ساتھ لومڑی اور ریچھ کو بھی لے لیا ، شیر نے تین شکار کیے ،

ایک ہرن
ایک گائے
اور ایک خرگوش کا ۔

واپسی پر ریچھ بڑا اترا کر چلنے لگا کہ شکار میں ہمارا حصہ بھی ہے ، شیر بھانپ گیا اس نے ریچھ سے کہا کہ :

شکار کے متعلق کیا کہتے ہو ؟؟؟

اس نے کہا کہ شکار تین حصوں میں بٹے گا ۔

شیر نے کہا : اچھا ۔۔۔۔۔!!!!

پھر کرو تین حصے ۔

ریچھ کہتا ہے کہ :

شیر تو جنگل کا بادشاہ ہے بڑا ہے اسلئے گائے تیرے حصے میــــں ... میــــــــں درمیانہ ہوں اسلئے ہرن میرا اور خرگوش لومڑی کا ۔

شیر اس کی چالاکی کو سمجھ گیا اس نے پنجہ مارا اور ریچھ کو بھی مار دیا اب لومڑی سمجھ گئی ، چالاک جو ٹھہری ، اس نے سارا معاملہ سمجھ لیا ۔

اب شیر نے اس سے پوچھا کہ بتا :

تو کیسے حصہ کرے گی ؟

لومڑی نے کہا کہ :

شیر تو جنگل کا بادشاہ ہے ، خرگوش ناشتے میں کھائیں اور گائے دوپہر کو اور ہرن رات کو تناول فرمائیں ۔

شیر بڑا خوش ہوا اس نے لومڑی سے پوچھا کہ :


تو نے یہ تقسیم کہاں سے سیکھی ہے ؟؟؟

إس نے کہا : ریچھ کی موت سے ۔

مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیــــں :

اے غافل انسان ! تو بھی کچھ موت سے سیکھ جا جب تیرے پاس تیرے اپنے ( عزیز و اقارب ) موت کی نیند سو جاتے ہیــــــــں ... تُو تو بھی سمجھ اور دھیان کر ......!!!

ﺑﯿﭩﯽ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﯾﺎ ﺯﻣﯿﻦ ؟ ؟


 ﺳﺎﺭﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﺁﺱ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﮯ ۔ ۔ ۔
 ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺑﺎﭖ ﻧﮯ ﺗﻼﻭﺕ ﺧﺘﻢ ﮐﯽ ، ﻗﺮﺁﻥ ﮐﻮ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ، ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ ، ﭼﻮﻣﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﺳﮯ ﺳﺮﮨﺎﻧﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ۔ ۔ ۔
 ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ ﺳﺐ ﭘﺮ ﮈﺍﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ :
 " ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ ، ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮧ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ، ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﺋﯿﺪﺍﺩ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺟﺎﻭﻧﮕﺎ ۔ ۔ ۔
 ﺳﺐ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﺧﺎﺻﮧ ﺣﺼﮧ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮩﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮐﺮﻭ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﻖ ﺳﮯ ﺩﺳﺖ ﺑﺮﺩﺍﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ۔ ۔ ۔ ﻭﺭﻧﮧ ۔ ۔ ۔
" ﻭﺭﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ؟ "
ﺳﺐ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﭘﻮﭼﮫ ﺑﯿﭩﮭﺎ ۔ ۔ ۔
 ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﮐﺌﯽ ﺗﻠﺦ ﻟﮩﺮﯾﮟ ﺁﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﯿﮟ ، ﺧﺸﮏ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﺯﺑﺎﻥ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ :
 " ﻭﺭﻧﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ۔ ۔ ۔ "
ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺫﺭﺍ ﺧﻮﺩ ﺳﺮ ﺳﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ۔ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ ،
 ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ !
ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺟﺎﺋﯿﺪﺍﺩ ﺳﮯ ﺣﻖ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺗﻮ ﺧﺪﺍ ﮐﺎ ﮨﮯ ، ﮐﯿﺎ ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﯾﮧ ﻋﻠﻢ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺣﺼﮧ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ؟؟ ۔ ۔ ۔
 ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﭼﮭﺎ ﮔﺌﯽ ۔ ۔ ۔
 ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﭘﮭﺮ ﺑﻮﻝ ﺍﭨﮭﺎ ،
 ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺯﻣﯿﻦ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﺯﻣﯿﻦ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﻣﮕﺮ ﺩﺍﻣﺎﺩ ﮐﻮ ﺑﯿﭩﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ
" ﺑﯿﭩﯽ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ💞💞

انسان خطا کا پتلا

خطا کا پتلا ہونا انسان کا وصف ٹھہرا تو اللہ نے بھی  اپنے رحم و کرم اور غافر الذنب کے وصف کو فوقیت دی، اللہ نے انسان کو ایسے معاف کرنے کا وعدہ کیا ہے جیسے وہ نومولود بچہ ہو، جس سے کبھی کوئی گناہ سرزد ہوا ہی نہ ہو، معافی مانگی جائے تو وہ مانگنا دل سے ہو، توبہ کی جائے تو وہ حقیقی ہو، اور ایسی ہو کہ دوبارہ اس عمل کا خیال بھی دل میں نہ لایا جائے جس سے توبہ کی ہے، پھر بھی ہم دل کے ہلکے ہیں ہماری توبہ ٹوٹتی جڑتی رہتی ہے، لیکن یاد رکھیں بار بار معافی مانگتے ہوئے شرمندہ نہیں ہونا چاہیے، کبھی بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ پتہ نہیں اب کی بار معافی ملے یا نہ ملے توبہ قبول ہو یا نہ ہو، اللہ کی طرف جانے والے راستے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں، یہ اربابِ اقتدار کے وہ دروازے نہیں ہیں جو "میں'' پرستی میں ڈوبے، غرور و تکبر میں مبتلا ہیں کہ کسی سے کوئی غلطی ہوئی تو دروازوں کے کواڑوں اسقدر سختی سے بھینچ ڈالتے ہیں کہ کوئی صدائیں لگاتا مر بھی جائے تو رحم کی کوئی کلی انکے پتھروں سے سخت دلوں میں نہیں کھلتی، یہ تو میرے اللہ کے دروازے ہیں جو بڑے سے بڑے گناہگار کے لیے بھی کبھی بند نہیں ہوئے، جب وہ معافی اور توبہ ویسے کرے جیسا اوپر بیاں ہو چکا ہے۔

چیزیں مل جاتی ہیں

یقین جانیں کہ کھوئ ہوئی چیزوں کی جگہ اچھی اور بہترین چیزیں لے لیتی ہیں۔ انسان کا گھر ، انسان کی دنیا نت نئی چیزوں سے بھرتی ہی رہتی ہے۔

جبکہ ہميں دنیاوی چیزوں کی نہیں"خوبیوں"کی ضرورت ہے ۔
ایمان کی، اخلاص کی اور اخلاق کی کہ ہم بہت اچھے نہ بھی بن سکیں تو بہت برے بھی نہ ہوجائیں۔

ہم کسی کے لیے سیڑھی نہ بن سکیں کہ اسے اوپر تک نہ لے جاسکیں تو اسے کھینچ کر نیچے بھی نہ پٹخ دیں۔

ہم گڑھے کھودنے والوں میں سے نہ ہوں بلکہ ان گڑھوں کو بھرنے والے ہوں۔

*آسانیاں پیداکرنا ظرف ہے، اور یہ بھی نیکی ہے کہ راستے کی رکاوٹ نہ بنا جائے۔

ماں اور پھول

ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﺭ ﺭﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺍﺗﺮ ﮐﺮ ﺩﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮬﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮔﻞ ﻓﺮﻭﺵ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﮔﻠﺪﺳﺘﮧ ﺧﺮﯾﺪ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﮉﺭﯾﺲ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﯾﺘﺎ ﮬﻮﮞ ﺁﭖ ﺑﺮﺍﺋﮯ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﺍﺱ ﮔﻠﺪﺳﺘﮯ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﮟﭘﯿﺴﮯ ﺍﺩﺍ ﮐﺌﮯ ﺍﻭﺭ دکان سے ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ۔۔
ﺩﮐﺎﻥ ﮐﮯ ﺗﮭﮍﮮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﻢ ﻋﻤﺮ ﻟﮍﮐﯽ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺭﻭ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽﺍﺱ ﻧﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ : " ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮬﮯ, ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭ ﺭﮬﯽ ﮬﻮ؟ "
ﻟﮍﮐﯽ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ " : ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﭘﮭﻮﻝ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﺴﮯ ﭘﻮﺭﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮯ"
ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ " : ﺑﯿﭩﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﺅ ﺩﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ, ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮔﻠﺪﺳﺘﮧ ﺧﺮﯾﺪﺗﺎ ﮬﻮﮞ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺗﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺗﺤﻔﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﻮ"
ﺟﺐ ﻟﮍﮐﯽ ﮔﻠﺪﺳﺘﮧ ﮬﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻠﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺒﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﺴﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﺗﺸﮑﺮ ﮐﮯ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﻣﺴﮑﺮﺍﮬﭧ ﮐﮭﯿﻞ ﺭﮬﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ"ﺑﯿﭩﯽ ﺍﮔﺮ ﭼﺎﮬﻮ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﻭﮞ؟ "
ﻟﮍﮐﯽ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ : ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺤﺘﺮﻡ ! ﺟﺲ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﮬﮯ ﻭﮦ ﯾﮩﺎﮞ ﻗﺮﯾﺐ ﮬﯽ ﮬﮯ"
ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﺳﮑﺘﮧ ﮬﻮ ﮔﯿﺎﺯﺑﺎﻥ ﻧﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮔﻼ ﺭﻧﺪﮪ ﮔﯿﺎﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﯽ ﺗﺎﺧﯿﺮ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺲ ﮔﯿﺎ۔۔ﮔﻞ ﻓﺮﻭﺵ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺧﺮﯾﺪﺍ ﮬﻮﺍ ﮔﻠﺪﺳﺘﮧ ﻭﺍﭘﺲ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺩﻭ ﺳﻮ ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﺩﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﯿﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﮔﻠﺪﺳﺘﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮬﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﻧﺬﺭ ﮐﺮ ﺩﮮ
(اللہ تعالیٰ سب کے والدین کواپنے حفظ و امان میں رکھے۔آمین)
( تاریخ اسلام کے واقعات )

غور و فکر

ایک آدمی سے ملنے اس کے کچھ دوست آۓ وه اپنے دوستوں کے لئے کافی لے آیا۔ کافی کپ ایک جیسے نہیں تھے کوئی کرسٹل کا کوئی پلاسٹک کا تو کوئی ماربل کا تھا اس آدمی کا کہنا ہے، کہ میں نے بغیر سوچے سمجھے ایک ایک کپ سب کو تھما دیا اور مجھے نہیں پتا کہ کس کے حصے میں کونسا کپ آیا لیکن میں نے کچھ دیر بعد غور کیا کہ سب لوگ کافی انجواۓ کرنے کے بجاۓ ایک دوسرے کے کپ کو حسرت سے دیکھ رہے ہیں، جبکہ اصل چیز جس کو انجواۓ کرنا تھا وه کافی تھی جو سب کپ کے اندر ایک جیسی تھی۔

یہی حال زندگی کا ہے، جو سب کو ایک جیسی ملی ہے دکھ, اور سکھ کے ساتھ لیکن, ہم دوسروں کی زندگی کو حسرت کی نگاه سے دیکھتے ہیں اور اپنی زندگی انجواۓ نہیں کر پاتے۔

Sunday, February 14, 2021

بدشگونی یا نیک شگون

اکثر و بیشتر آپ لوگوں نے مشاہدہ کیا ہوگا، تجربہ بھی ہوا ہوگا کہ دن اچھا نا گزرنے پر یا کوئی کام الٹ ہو جانے پر لوگ مخلتف چیزوں کو کوس رہے ہوتے ہیں مثلاً 

" آج صبح فلاں شخص میرت متھے لگا، میرا تو سارا دن ہی برا گزرا ۔۔۔
آج صبح ہی صبح فلاں کام الٹ ہو گیا جس کی وجہ سے آج میں سارا دن مصیبت میں رہا۔۔۔ 
آج فلاں شخص نے یہ بات مجھ سے کہہ دی جس کی وجہ میرا سے سارا دن خراب گزرا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ " 

اسے بدفالی کہتے ہیں اور بدفالی بھلے مذاق میں ہی کیوں نہ ہو یہ صریح گناہ ہے_اسلام میں بدفالی اور بدشگونی کی حد درجے ممانعت کی گئ ہے، بدشگونی سے مراد تو یہی ہے کہ العیاذ باللہ ہمارا رب پہ اعتقاد کمزور پڑ گیا ہے اور ہم اللہ سے بدگمانی کر رہے ہیں_

ایک بات اور قابلِ ذکر ہے کہ بدفالی یا بدشگونی تو منع ہے لیکن نیک شگون اور نیک فالی ہرگز منع نہیں_ اگر ایک کام اچھا ہوتا ہے تو آپ اللہ پہ نیک گمان کر سکتے ہیں کہ جیسے اللہ تعالی نے میرا یہ کام آسان بنایا وہ باقی کے سارے کام بھی اپنی رحمتِ واسعہ سے اچھے کرے گا_ واثق امید ہے کہ یقیناً اللہ تعالی اپنے بندے کی اس امیدِ رحمت کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت بخشے گا__

صحیح مسلم، سنن ابی داود اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: 

" ان عند ظن عبدی بی ان ظن بی خیر فلہ وان ظن شر فلہ " 

" میرا بندہ میرے بارے میں جیسا گمان رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں، وہ اگر میرے بارے میں اچھا گمان کرتا ہے تو میرا اس کے ساتھ معاملہ ویسا ہی ہے، اور وہ میرے بارے میں برا گمان رکھتا ہے تو میرا معاملہ اس کے ساتھ ویسا ہی ہے۔۔۔"

حدیثِ قدسی میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
میں اپنے بندے کیساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے۔میں اسکے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، اگر وہ مجھے خلوت میں یاد کرے تو میں اسے خلوت میں یاد کرتا ہوں ،جلوت میں کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں اسکا ذکر کرتا ہوں ،وہ میری جانب ایک بالشت آگے بڑھے تو میں ایک گز بڑھتا ہوں ،وہ میرے پاس چل کر آئے تو میں دوڑ کر اسکی جانب جاتا ہوں 
(صحیح بخاری 6856،صحیح مسلم 4834)
اللہ کے بارے میں حسنِ ظن ایمان کی بنیاد ہے اسکی رحمت، اسکی قدرت اور اسکے مختارِ کل ہونے کا یقین ہمارے عقیدے کا لا زمی جز ہے__

جو اللہ تعالی کے بارے اچھا گمان رکھتا ہے اللہ تعالی اسکی دستگیری فرماتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بندہ اپنے تئیں نیک کام میں مصروفِ عمل رہتا ہے تو اللہ تعالی اس کے ظن کو پورا کر دکھائے گا_ اس کے برعکس جو اللہ تعالی کے بارے زبان سے یا عمل کے ذریعے بدگمان ہوگا تو اللہ تعالی بھی اس کے ساتھ ناراض ہوں گے اور اس کے ظن کے مطابق ویسا ہی فیصلہ فرمائیں گے کیوں کہ اس کی رحمت سے مایوس تو وہی ہوتے ہیں جو کفر کرتے ہیں_
 
پس ثابت ہوا کہ اللہ تعالی سے بدگمانی ایک مومن مسلمان کو زیب نہیں دیتی، البتہ حسنِ ظن باللہ ایک مسلمان کا حقیقی شیوہ ہے__
منقول

انسان نما کرونا

بات آج کی 
نعیم ثاقب 

انسان کے لیے صرف کرونا وائرس ہی مہلک نہیں بلکہ اس اردگرد چلتے پھرتے باتیں کرتے انسان نما کرونے وائرس اصل سے کہیں زیادہ جان لیوا ھوتے ہیں    
"ورجینیاوولف " کا کہنا ھے کہ وہ جو آپ کے خواب چھینتا ہے ، آپ کی زندگی چھین لیتا ھے۔ 
"مارک ٹوین نے کہا: "ان لوگوں سے دور رہیں جو آپ کے ارادوں کو کمزور 
کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
یہ چھوٹے اور پست ذہن کےلوگ ہوتے ہیں اگر آپ بڑا بننا چاہتے ہیں اور اپنے بڑے خوابوں کی تعبیر چاہتے ہیں  تو یہ ضرور دیکھ لیں کہ آپ کے ارد گرد کون لوگ ہیں اور آپ کن سے اپنے خواب شئیر کرتے ہیں بڑے خواب دیکھنے کے بعد سب سے اہم چیزلوگوں کا انتخاب ہے جن کو آپ اپنے خواب بتاتے ہو درست انتخاب عزائم کی تکمیل اور خوابوں کی تعبیر کو آسان بنا دیتا ہے 
جب آپ چھوٹے اور منفی  لوگوں کواپنا  بڑا خواب بتائیں گے، تو وہ آپ کی حوصلہ شکنی کریں گے، اس میں فضول نقص نکالیں گے آئیڈیا چوری کرکے آپ کے مقابلے پہ آ جائیں گے آپ کا خواب ہر ایک کے ساتھ ، خاص طور پر چھوٹے ذہنوں کے ساتھ شئیر کرنے کے لیے نہیں ہے ، جو آپ کو ناکامی کی متعدد وجوہات دیکھنے پر مجبور کردے گا کہ خواب کیوں ناقابل عمل ہے لیکن وہ پوائنٹس نہیں بتاۓگا جو آپ کے خواب کی تعبیر کو ممکن بنا سکتے ہیں. 
جان سی میکسویل نے کہا: "جتنا بڑا خواب ھو ، اس کے حصول کے لیے آپ کو اتنا ہی بڑا آدمی بننا چاہئے۔" 
ایک چھوٹے  ذہن والا شخص بڑے مستقبل کا تصور کرنے سے قاصر ہے۔ وہ ہمیشہ بڑے خواب کا گلا گھونٹ دیتاہے ۔اپنے خوابوں میں ان لوگوں کو  کبھی بھی شریک نہ کریں جو بڑی تصویر دیکھنے کے قابل نہیں ہیں۔
بہت سے خواب اس لیے بھی مر جاتے ہیں کہ کچھ لوگ اپنی زندگی کا منصوبہ ان لوگوں  کے ساتھ بناتے جن میں 'بڑی تصویر' کے نظریہ کی کمی ہوتی ہے۔ ان لوگوں کے آس پاس رہو جو آپ کی سوچ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اسے تحریک دیتے ہیں ، نہ کہ وہ لوگ جو آپ کے بڑے خوابوں کو اپنی چھوٹی سوچ سے مسل دیتے ہیں ۔
ایلون مسک جس کے اثاثوں کی مالیت تقریباً پینتیس بلین ڈیلرز ہے ناسا وغیرہ میں تحقیق کررہا ہوتا، لیکن اس نے ملازمت کی بجائے ایک ایسی کمپنی کا آغاز کیا جو سپیس کے میدان میں  ناسا کا مقابلہ کرتی ہے۔ رچرڈ برانسن ٹریول ایجنٹ ہوتا، لیکن ورجن گروپ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایمیزون کے باس ، جیف بیزوس ، کتاب بیچنے والی دکان میں جنرل منیجر ہوتے ، لیکن اس کے بجائے اب تک کی سب سے بڑی آن لائن فروخت  کا آغاز کیا۔
بل گیٹس کا خواب تھا ہر گھر میں ایک ذاتی کمپیوٹر ہو اور آج ، کچھ گھروں میں ایک سے زیادہ  کمپیوٹرز بھی ہیں۔ اسٹیو جاب کا سب سے بڑا خواب یہ تھا کہ وہ پورے کمپیوٹر کو فون میں بند کر دے  اور آج آئی فون میں پرسنل کمپیوٹر سے بھی زیادہ فنکشن ہیں۔
ان عظیم لوگوں کی کامیابی  کا راز یہ تھا کہ انہوں نے خود کو چھوٹی سوچ رکھنے والے لوگوں سے دور رکھا۔ 
ہینری فورڈ کی کہانی کہ اس نے کس طرح اپنے مالک اور سرپرست ، تھامس ایڈیسن کے ساتھ پٹرول موٹر کے بارے میں اپنے خیالات شیئر کیے ، بڑے ذہنوں  کی ایک انتہائی دلکش مثال ہے۔ 
1896 میں ، الیکٹرک بلب ایجاد کرنے والا عظیم موجد ایڈیسن کار ڈیزائن کرنے کے خیال پر کام کر رہا تھا جب اس نے سنا کہ اس کی کمپنی میں کام کرنے والے ایک نوجوان نے تجرباتی کار بنائی ہے۔ ایڈیسن نے اس نوجوان سے نیویارک میں کمپنی کی پارٹی میں ملاقات کر کے کار کے بارے میں انٹرویو کیاوہ اس نوجوان سے بہت متاثر ہوا۔ 
اس نے نوجوان کا آئیڈیا سنا جو کہ ایڈیسن سے بہتر تھا وہ خوشی سے اچھل پڑا اور کہنے لگا " یہ ہے اصل چیز " ویلڈن 
امریکہ کےانتہائی معزز موجد کی حوصلہ افزائی کے ان الفاظ کے ساتھ ، فورڈ نے اپنا کام جاری رکھا ، ایک کار ایجاد کی اور دولت مند بن گیا۔
9 دسمبر 1914 کو ، ایڈیسن کی لیبارٹری اور فیکٹری جل گئی۔ ان کی عمر 67 سال تھی اور انشورنس کور سے نقصان زیادہ تھا آگ کی راکھ سرد ہونے سے پہلے فورڈ نے ایڈیسن کو 750،000 ڈالر کا چیک دیا ، جس میں نوٹ لکھا ھوا تھا کہ ایڈیسن کو ضرورت پڑنے پر اور بھی مل سکتا ہے۔
1916 میں ، فورڈ نے اپنا گھر ایڈیسن کے گھر کے ساتھ والی عمارت میں منتقل کردیا اور جب ایڈیسن چل نہیں سکتا تھا بلکہ صرف وہیل چیئر تک محدود تھا تو فورڈ نے اپنے گھر میں  بھی وہیل چیئر رکھ لی  ، تاکہ وہ اپنے دوست کے ساتھ وہیل چیئر ریس لگاسکے۔
ایڈیسن نے فورڈ کو اعتماد دیا اور حوصلہ دیا اور اسے زندگی بھر کا دوست بنالیا۔ کبھی بھی دوسرے لوگوں کی کامیابیوں اور خوابوں سے حسد نہ کریں۔ جب آپ دوسروں کے خوابوں کی حمایت کرتے ہیں تو آپ ان کوزندگی بھر کے لئے اپنا  مداح بنا لیتے ہیں ۔اگر آپ اپنے بڑے خوابوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو چھوٹے لوگوں سے دور رہنا ھو گا.جب آپ کامیاب ہوجاتے ہیں تو کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تھوڑے سے مر جاتے ہیں۔ حسد اصل میں آپ کی کامیابی کے لیے چھوٹے ذہنوں کی طرف سے خراج تحسین ھوتا ہے۔ ارسطو نے کہا: "حسد دوسروں کی خوش قسمتی سے تکلیف کا نام ہے۔" حسد سے بھرا ھوا دماغ ہر اچھی اور بری چیز کو ناپسند کرتا ھے ۔
نپولین بوناپارٹ کا کہنا ھے: "حسد کمتری کا اعلامیہ ہے۔" حاسد لوگوں کو اپنے قریبی سرکل میں نہ لائیں۔ وہ آپ کے خواب کو دیوالیہ کردیں گے۔
والٹ ڈزنی نے کہا: " ہمارے تمام خواب سچ ہوسکتے ہیں اگر ہمارے اندر ان کے لیے محنت کرنے کا حوصلہ ھو ۔"
بڑے خواب دیکھیں، مگر اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے چھوٹے چھوٹے اقدامات ضرور کریں ۔ بڑے خواب دیکھنے کے لئے جوان ہونا شرط نہیں ارادے کی مضبوطی اور خود پر یقین بنیادی شرط ہے اپنی صلاحیتوں کو آزمائیں اور عزائم کی تکمیل کے لیے کمر کس لیں پھر منزل زیادہ دور نہیں رہتی۔ مستقبل ان لوگوں کا ہوتا ھے جو اپنے خوابوں پر یقین رکھتے ہیں ۔
کبھی بھی اپنے خوابوں سے دستبردار نہ ہوں اور جب کوئی آپ سے کہے کہ ، "یہ نہیں ہوسکتا" تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ یہ نہیں کرسکتے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ آپ ان کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے ہیں۔ کسی کو کبھی بھی مت بتانے دیں ، "آپ کچھ نہیں کر سکتے۔" آپ کےخواب ہیں اور آپ نے ان کی حفاظت کرنی ہے اور آپ کے خوابوں کی زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے ۔
البرٹ آئن اسٹائن نے کہا: "میں ان تمام لوگوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھ سے کہا کہ "یہ نہیں کیا جاسکتا۔ میں آج ان کی وجہ سے ہی یہ سب کر پایا ہوں "
اور آخری بات !انسان کو کرونا وائرس کے ساتھ ساتھ انسان نما کرونوں سے بچنے کی بھی اشد ضرورت ھے کیونک اصل کی علامتیں تو ظاہر ھو جاتیں ہیں لیکن یہ چالاک کرونے کوئی نشان نہیں چھوڑتے ۔

مٹی اور قیمت

لوہے کی ایک بار کی قیمت120 روپے ہے
اس سے اگر آپ گھوڑوں کے لئے نعل بنا دیں تو اسکی قیمت 1000روپے ہو گی۔
اس سے سوئیاں بنا دیں تو اسکی قیمت3000روپے ہو گی۔ اور اگر اس سے آپ گھڑیوں کے لئے بیلنس سپرنگ بنا دیں تو اسکی قیمت تین لاکھ روپے ہو گی۔
آپ نے اپنے آپ کو کیا بنایا ہے یہ امر آپکی قیمت طے کرتا ہے

مٹی کو بازار میں بیچیں تو قیمت بہت کم ہوگی
لیکن اینٹیں بنا کر بیچیں تو کچھ زیادہ قیمت ہوگی
اسی  مٹی سے برتن  بنا کر بیچیں تو دس گنا قیمت ہوگی۔

اگر مٹی کو خوبصورت مورتی یا مجسمہ بنا کر بیچیں تو وہ لاکھوں میں بکے گی۔

آپ خود کو دنیا میں کیا بنا کر پیش کرتے ہیں؟

ایک عام،روایتی اور منفی سوچ سے بھر پور انسان یا پھر
ایک بہترین،مثبت اور پر امن محبت پھیلانے والا فائدہ مند قیمتی ترین انسان ؟

فیصلہ آپ نے کرنا ہے

Sunday, February 7, 2021

تاریخ کے جھروکے __!!


مالدیپ جو صرف 2 ماہ میں بدھ مت چھوڑ کر پورا مسلمان ملک ہوا !
مالدیپ🇲🇻 بحر ھند میں واقع ایک سیاحتی ملک ہے، یہ ملک 1192 چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے جن میں سے صرف 200 جزیروں پر انسانی آبادی پائی جاتی ہے۔

مالدیب کی ٪100 آبادی مسلمان ہے جب کہ یہاں کی شہریت لینے کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے۔

عجیب بات یہ ہےکہ مالدیب بدھ مت کے پیروکاروں کا ملک تھا صرف 2 ماہ کے اندر اس ملک کا بادشاہ،عوام اور خواص سب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔

مگر یہ معجزہ کب اور کیسے ہوا ؟

یہ واقعہ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے مالدیب کی سیاحت کے بعد اپنی کتاب میں لکھا ہے ابن بطوطہ ایک عرصے تک مالدیب میں بطور قاضی کام کرتے بھی رہے ہیں۔

وہ اپنی کتاب ' تحفة النظار في غرائب الأمصار وعجائب الأمصار ' میں لکھتے ہیں کہ 

مالدیب کے لوگ بدھ مت کے پیروکار تھے اور حد درجہ توہم پرست بھی اسی بدعقیدگی کے باعث ان پر ایک عفریت (جن) مسلط تھا، وہ عفریت ہر مہینہ کی آخری تاریخ کو روشنیوں اور شمعوں کے جلو میں سمندر کی طرف سے نمودار ہوتا تھا اور لوگ سمندر کے کنارے بنے بت خانہ میں ایک دوشیزہ کو بناؤ سنگھار کرکے رکھ دیتے وہ عفریت رات اس بت خانے میں گزارتا اور صبح وہ لڑکی مردہ پائی جاتی اور لوگ اس کی لاش کو جلاتے.

عفریت کے لئے دوشیزہ کا انتخاب بذریعہ قرعہ اندازی ہوتا تھا اس بار قرعہ اندازی میں ایک بیوہ بڈھیا کی بیٹی کا نام نکل آئی اس پر رو رو کر بڈھیا نڈھال ہوچکی تھی گاؤں کے لوگ بھی بڈھیا کے گھر جمع تھے ،دور سے آئے اس مسافر نے بھی 
بڈھیا کے گھر کا رخ کیا اس کے استفسار پر اسے سب کچھ بتایا گیا کہ عفریت کے مظالم کتنے بڑھ گئے ہیں۔

مسافر نے بڈھیا کو دلاسہ دیا اور عجیب خواہش کا اظہار کیا کہ آج رات آپ کی بیٹی کی جگہ بت خانے میں مجھے بٹھایا جائے، پہلے تو وہ لوگ خوف کے مارے نہ مانے کہ عفریت غصہ ہوئے تو ان کا انجام بد ہوسکتا ہے لیکن مرتا کیا نہ کرتا وہ راضی ہوگئے، مسافر نے وضو کیا اور بت خانے میں داخل ہو کر قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دی 
عفریت آیا اور کبھی واپس نہ آنے کے لئے چلا گیا، لوگ صبح نہار بت خانہ کے باہر جمع ہوئے تاکہ لاش جلائی جا سکے لیکن مسافر کو زندہ دیکھ کر وہ سکتے میں آ گئے۔

یہ مسافر مشہور مسلم داعی مبلغ اور سیاح ابو البرکات بربری تھے، ابو برکات کی آمد اور عفریت سے دو دو ہاتھ ہونے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی، بادشاہ نے شیخ کو شاہی اعزاز کے ساتھ اپنے دربار میں بلایا شیخ ابو برکات نے بادشاہ کو اسلام کی دعوت دی بادشاہ نے اسلام قبول کیا اور صرف 2 ماہ کے اندر مالدیب کے سب لوگ بدھ مت سے تائب ہو کر مسلمان ہوچکے تھے۔

یہ 1314ء کی بات ہےاس مبلغ اور داعی نے مالدیب کو اپنا مسکن بنایا لوگوں کو قرآن وحدیث کی تعلیم دی، ہزاروں مسجدیں تعمیر کیں، اور مالدیب میں ہی فوت ہوئے اسی مٹی پر ہی دفن ہوئے۔

کہنے کو ابو البرکات بربری ایک شخص لیکن تنہا ایک امت کا کام کر گئے، آج بھی ان کو برابر اجر مل رہا ہوگا۔"

خوش رہنا

ماہرین کہتے ہیں آپ کے آس پاس کے حالات پر آپ کا اختیار صرف ١٠ فیصد ہوتا ہے لیکن خوش رہنے کا ٩٠ فیصد اختیار
آپ کے اپنے پاس ہے, خوش رہنا ایک آرٹ ہے .اس آرٹ کو سکھانے والے ماہرین چند سائنسی تحقیق پر ثابت شدہ ٹپس بتاتے ہیں، ضروری نہیں سب آپ کے کام کی ہوں مگر ٹرائی ضرور کیجئے کوئی ایک ضرور کام کرے گی

1.دن میں ایک بار اپنی دستیاب نعمتیں شمار کر کے لکھ لیں

2. رات میں چھ سے آٹھ گھنٹے بھرپور نیند لیں اور دوپہر میں بیس سے تیس منٹ آرام ضروری ہے

3. ہفتے میں کم از کم تین بار گھر کے سب افراد کے ساتھ
بیٹھ کر کھانا کھائیں

4. گھر کے اندر کچن گارڈن بنائیں دن کا کچھ وقت پودوں کے ساتھ گزاریں

5. پانچ سے سات منٹ ہلکی ورزش کیجیئے

6. دن میں کسی نہ کسی کی مدد ضرور کریں

7. زرا سی اداسی آنے پر وضو کر لیں

8. اپنی پسند کی خوشبو لگائیں

9. پانی زیادہ پئیں کم از کم تین لیٹر جب اداس ہوں تو دو گلاس پئیں

10. " نو کمپلین ڈے " بنائیں, آج کسی سے کوئی شکایت نہیں پھر دن بڑھاتے جائیں, نو کمپلین ویک, نو کمپلین منتھ

11. گھر میں دفتر میں جدت ترازی کی مہم چلائیں, ہر روز ماحول میں کچھ تبدیلی کی کوشش کریں, گھر میں موجود سامان کی ترتیب بدلتے رہا کریں

12. خاندان، دوست احباب، رشتہ داروں کو فون کریں ان کے دکھ درد میں حوصلہ دیں اور خوشیوں پر کھل کر مبارکباد پیش کریں

13. مہینے میں دو بار دعوت کریں, کبھی رشتے داروں کو، کبھی دوست احباب کو کبھی اپنے بچوں کے دوستوں کو دعوت پر بلائیں

14. لوگ کیا کہیں گے..! یہ سوچنا چھوڑ دیں

15. اپنی زندگی کا سب سے خوشگوار دن یاد کیجئے اور ایسا زندگی بھر ہر روز کیا کیجیئے, چھوٹی سی چھوٹی خوشی کو یاد کریں, یہ یادیں آپ کو سارا دن خوش رکھیں گی

16. صدقہ دیں اور سب سے آسان صدقہ مسکراہٹ ہے, ہلکی سی ایک مسکراہٹ تیز دھوپ میں بادل کے ٹکڑے کی طرح دل کو ترو تازہ کردیتی ہے, خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں

17:اور پانچوں نمازیں وقت پر ادا کریں۔"

خلیفۂ وقت اور بڑھیا

خلیفہ وقت بُڑھیا کو سلام کرتا ہے !! السلام علیکم اماں جی !!!
بُڑھیا اپنا شکن آلود چہرہ اُٹھا کر اجنبی کا جائزہ لیتی ہے !!
وعلیکم السلام بیٹا !!!
فاروق کے پاس وقت بہت کم ہوا کرتا تھا !! اُسے لمبی چوڑی تقریروں کی عادت نہیں تھی !!
دو جُملوں میں حال بتاتا تھا !! اور دو جُملوں سے حال جان بھی لیتا تھا !!
اماں کیسی گُزر رہی ہے !! ؟؟؟؟؟؟؟ خطاب کے بیٹے کا پہلا سوال !!!
بیٹا عُمر کی خلافت میں کیسی گزر سکتی ہے دیکھ لے میرا حال !!! وہ اپنی بادشاہت میں مست ہے اور میں یہاں عُسرت میں کسی طور وقت کا چرخہ کاتے جا رہی ہوں !!
عُمر جلالی تھا !! اُس کے جلال ہی کے آسمانوں پر چرچے تھے !!! غُصے میں آ گیا !!
اماں مدینہ سے ہزاروں میل دُور اس ویرانے میں کون کس حال میں ہے !! عُمر کیسے جان سکتا ہے !! ؟؟؟ کیا تیرا شِکوہ بے جا نہیں !!! ؟؟؟؟
بُڑھیا بھی عُمر ہی کی رعایا تھی !! تڑپ کر بولی !!
تو بیٹا عُمر سے مُلاقات ہو تو اُسے میری طرف سے ایک پیغام دے دینا !!
"" کہ جس علاقے کی تُو خبر نہیں رکھ سکتا اُسے اپنی خلافت میں کیوں شامل کر رکھا ہے !!! ؟؟ ""
عُمر سکتے میں آ جاتا ہے !!
نیلا آسمان !! صحرا میں اُڑتی ریت !! جُگالی کرتے دو اُونٹ اور پاس کھڑا ہمسفر عجیب منظر دیکھتے ہیں !!!
عُمر مسکرا رہا تھا !! مُسکراتا ہی چلا جا رہا تھا !!!! 
اور پھر چند ہی لمحوں میں ہچکیوں سے رونے لگتا ہے !!!
آنسو داڑھی میں ہیروں کی طرح چمک رہے تھے !!!
ہمراہی پُوچھتا ہے !! 
یا امیر المؤمنین کیا ماجرا ہے !!! ؟؟
اِتنی پیاری مسکراہٹ اور عجیب و غریب گِریہ !!
عُمر کا سادہ سا جواب !! خوش اس لیے ہوا کہ اِس بُڑھیا تک پہنچ گیا !!
اور رو اِس لیے رہا ہوں کہ پتا نہیں میری خلافت میں ایسے اور کتنے ویرانے آباد ہوں گے !! اپنی زندگی میں وہاں تک کبھی پہنچ سکوں گا یا نہیں !!!!!!
ــــ

Saturday, February 6, 2021

یقین رکھو

صحرا میں بھٹکا ہوا مسافر پیاس سے مرنے کے قریب تھا جب دور اسے ایک کمرے کا ہیولا سا نظر آیا.



 وہ اسے نظر کا دھوکا سمجھ رہا تھا. چونکہ سمت تو وہ کھو چکا تھا اس لئے اس دھوکے کی طرف نڈھال بڑھنے لگا.

 وہ کمرہ دھوکا نہ تھا بلکہ اس میں ایک ہینڈ پمپ لگا ہوا تھا. 
مسافر نے جلدی جلدی ہینڈ پمپ چلانا شروع کیا.

 لیکن عرصے سے استعمال نہ ہوا ہینڈ پمپ پانی اٹھانے سے قاصر تھا.

وہ مایوس ہو کر بیٹھ گیا. 
اچانک ایک کونے میں اسے ایک بوتل نظر آئی پانی سے بھری ہوئی بہت اچھے سے بند یہ بوتل اس نے اٹھائی اور بیتاب ہو کر پینے کو ہی تھا کہ بوتل کے نیچے ایک پرچہ نظر آیا.


 کھول کر دیکھا تو اس پر لکھا تھا

 یہ پانی پمپ میں ڈال کر اسے چلائیں اور برائے مہربانی استعمال کے بعد اسے واپس بھر کر یہاں رکھ دیں. 

 مسافر ایک امتحان سے دوچار ہوگیا. ایک طرف شدت پیاس تھی دوسری طرف خطرہ تھا.

 پتہ نہیں پمپ کام کرے یا نہیں..؟ ایسے نہ ہو یہ پانی بھی کھو دوں.؟

 مسافر نے لیکن رسک لیا اور پمپ میں پانی ڈال دیا.

 کچھ دیر میں ہی پمپ نے کام شروع کردیا. مسافر نے جی بھر کر پانی پیا نہایا دھویا اور بوتل بھر کر واپس پرچے پر رکھ دی لیکن ساتھ ہی ایک لکیر اور لکھ دی   " یقین رکھو" 


 زندگی کے صحرا میں ہینڈ پمپ کی طرح ہمیں بھی موقع ملتا ہے.
اس پانی کی بوتل کی طرح ہمیں بھی رسک لینے کا امتحان درپیش ہوتا ہے. ہم بھی اسی مسافر کی طرح تذبذب کا شکار ہوتے ہیں.

ہم بھی چاہتے ہیں کوئی ہمیں دلاسہ دے کندھے پر تھپتھپا کر کہے تم کرسکتے ہو.

 اس تسلی دلاسوں میں لیکن سب سے اہم ہمارا یقین ہوتا ہے.
 اللہ رب العزت کی ذات پر یقین ہی اس سفر کی ضمانت بنتی ہے.  

Friday, February 5, 2021

اللہ جس کو ہدایت دے

ایک شخص تھا جو بڑا امیر و کبیر تھا ، بہت بڑا اس کا کاروبار تھا ، جس میں درجنوں ملازمین تھے ، اس کا گھر بھی کافی بڑا تھا اس میں بھی نوکر چاکر کام کرتے تھے ، دن بھر وہ اپنے بزنس میں مگن رہتا شام کو گھر واپس آتا ، اس کا جو اپنا بیڈروم تھا اس کی صفائی ایک جوان العمر لڑکی کرتی تھی ، ایک دن وہ اتفاق سے وقت سے پہلے گھر آگیا جب یہ اپنے کمرے میں آیا اور نوجوان لڑکی کو صفائی کرتے ہوئے دیکھا ،بس شیطان نے اس کے دل میں خیال ڈالا کہ میں اس لڑکی کو روک لوں تو اس کی آواز کوئی نہیں سنے گا ، اگر یہ میری کسی سے شکایت بھی کرے گی تو کوئی اس کی بات کو نہیں مانے گا ، میں تو پورے پولیس اسٹیشن خرید سکتا ہوں ، ملازمین سب میری بات مانیں گے ، لڑکی نے دیکھا کہ مالک وقت سے پہلے آگئے ہیں تو اس نے جلدی سے جانا چاہا تو مالک نے فوراً ایک زور دار آواز میں کہا ٹھہر جاؤ ، وہ مالک کے تیور دیکھ کر گھبرا گئی ، مالک نے کہا سب کھڑکیاں دروازے بند کردو اب لڑکی پریشان کہ میں کروں تو کیا کروں ۔ لیکن اس کے دل تقوی تھا اَللّہ کا خوف تھا ، آنسوں بہہ رہے ہیں اور اَللّہ سے دعاء بھی کر رہی ہے ،چنانچہ اس نے ایک ایک کر کے سب کھڑکیاں دروازے بند کرنا شروع کر دیئے، کافی دیر ہوگئی لیکن وہ آ نہیں رہی تھی مالک نے ڈانٹ کر کہا کتنی دیر ہوگئی اب تک دروازے کھڑکیاں بند نہیں کی اور تو میرے پاس آئی نہیں ؟ تو اس لڑکی نے روتے ہوئے کہا مالک میں نے سارے دروازے بند کردیئے ساری کھڑکیاں بند کر دی مگر ایک کھڑکی کو بہت دیر سے بند کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن مجھ سے بند نہیں ہوپا رہی ہے ، تو اس نے غصے سے کہا وہ کونسی کھڑکی ہے جو تجھ سے بند نہیں ہورہی ہے ؟ تو لڑکی نے کہا میرے مالک جس کھڑکیوں سے انسان دیکھتے ہیں جن کھڑکیوں سے مخلوق دیکھتی ہے،میں نے وہ ساری کھڑکی بند کر دی لیکن جس کھڑکی سے رب العالمین دیکھتا ہے۔ اس کھڑکی کو بہت دیر سے بند کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن مجھ سے بند نہیں ہو پارہی ہے اگر آپ سے بند ہوسکتی ہے تو آکر بند کر دیں فوراً بات سمجھ میں آ گئی کہ واقعی میں اپنے گناہوں کو کو انسانوں سے چھپا سکتا ہوں لیکن رب العالمین سے نہیں چھپا سکتا وہ اٹھا جلدی سے وضو کیا نماز پڑھی اَللّہ سے معافی مانگی۔ ہم میں سے ہر شخص غور کریں کوئی اس کھڑکی کو بند کر سکتا ہےجس سے رب العالمین دیکھتا ہے تو پھر ہم جرآت کے ساتھ گناہ کیوں کرتے ہیں تو پھر ڈٹائی کے ساتھ گناہ کیوں کرتے ہیں ؟ وقتی طور پر نفس کا غالب آجانا یہ الگ بات ہے لیکن ہم گناہ کرتے ہیں اور گناہ پر گناہ کرتے جاتے ہیں عادت ہوتی ہے ہمارے گناہ کرنے کی ہم گناہ کو مکھی کی طرح سمجھتے ہیں پھونک ماری یوں اڑا دی اسی لئے نا کہ ہم کو اس کھڑکی کا یقین نہیں ہے۔اَللّہ پاک ہم سب کو یقین کی دولت سے مالا مال فرمائے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے ( آمین.

ﺍﭼﮭﮯ ﺍﺧﻼﻕ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺑﻮﻝ

ایک ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﯽ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﻭ ﻣﺮﻣﺖ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﻣﻄﻠﻮﺑﮧ ﺭﻗﻢ ﺍکٹھی ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺮ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔
ﮐﻤﯿﭩﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻣﯿﮧ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺤﻠﮯ کے ﺍﺱ کونے ﻭﺍﻻ ﺑﻨﺪﮦ ﮨﮯ ﺗﻮ بہت ﺑﮍا ﺗﺎﺟﺮ ﻣﮕﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺴﻖ ﻭ ﻓﺠﻮﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ
ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺖ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ ﻣﻤﮑﻦ ﻫﮯ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺣﺎﻣﯽ ﺑﮭﺮ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﭩﮑﮭﭩﺎﯾﺎ۔
ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﺎﺟﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﻧﻤﻮﺩﺍﺭ ﮨﻮﺋﮯ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺑﺘﺎئی ﺗﻮ ﺻﺎﺣﺐ خانہ ﺳﭩﭙﭩﺎ ﮔﺌﮯ، ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﺳﭙﯿﮑﺮﻭﮞ ﮐﮯ بار بار ﭼﻠﻨﮯ ﺳﮯ ہمارا ﺳﮑﻮﻥ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺗﻢ میرے گھر تک ﺁ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﻫﻮ۔
ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭ ﻣﺮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭼﻨﺪﮦ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺁﻥ ﭘﮩﻨﭽﯽ۔۔۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: 
ﺻﺎﺣﺐ، ﺍلله ﮐﺎ ﺩﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﻮﻗﻊ ﮨﮯ ﺁﭖ کے لیئے، ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﺳﺖِ ﺗﻌﺎﻭﻥ کی اشد ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ، ﺍلله تعالٰی ﺁﭖ ﮐﮯ ﻣﺎﻝ ﻭ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﮐﺖ ﺩﮮ ﮔﺎ۔۔۔
تاجر ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﻻﺅ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﻨﺪﮦ ﺩﻭﮞ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﮨﺎﺗﮫ آگے ﺑﮍﮬﺎﯾﺎ۔
ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﻧﮯ ﺍﻣﺎﻡ صاحب ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﺮ ﺗﮭﻮﮎ ﺩﯾﺎ۔
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺑﺴﻢ الله ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﯾﮧ ﺗﮭﻮﮎ ﻭﺍﻻ ﮨﺎﺗﮫ ﺍپنے ﺳﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﻞ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ہوئے کہا:
ﯾﮧ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ لیئے ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔
ﺍﺏ ﺍﺱ ﮨﺎﺗﮫ پر ﺍلله ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﻣﺪﺍﺩ ﺭﮐھ دیجیئے
ﺍﺱ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻟﮕﯽ ﮐﮧ اس کی آنکھوں میں آنسووں آ گئے اور ﻣﻨﮧ سے ﺍﺳﺘﻐﻔﺮﺍلله ﺍﺳﺘﻐﻔﺮﺍلله نکلنا ﺷﺮﻭﻉ ہو گیا
ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ہوا ﺍﻭر اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے ﺩﮬﯿﻤﮯ ﺳﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ:
بتایئے ﮐﺘﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ...؟
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، ابھی ﺗﯿﻦ ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ سے کام چل جائے گا۔
ﺗﺎﺟﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ نہیں یہ بتایئے ﺁﭖ ﮐو مکمل ﭘﺮﻭﺟﯿﮑﭧ ﮐﯿﻠﺌﮯ ٹوٹل ﮐﺘﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ؟
ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ: 
ﮨﻤﯿﮟ ﻣﮑﻤﻞ ﻃﻮر پر 8 ﻻﮐﮫ ﺭﻭﭘﮯ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﯿﮟ
ﺗﺎﺟﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎ ﮐﺮ 8 لاکھ روپے کا ﺍﯾﮏ ﭼﯿﮏ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺎﻡ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ: 
ﺁﺝ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﺎ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺧﺮﭼﮧ ﮨﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ لے ﻟﯿﺠﯿﮱ ﮔﺎ اور آج سے اس مسجد کی تمام ذمہ داری میری ہے
یہ سن کر امام صاحب بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیتے ہوئے واپس آ گئے

ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﺍﺯ، ﺳﻠﯿﻘﮧ، ﺗﻤﯿﺰ اور ادب ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺑﮍﮮ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻣﺘﮑﺒﺮ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﺳﻖ ﺷﺨﺺ بھی ﮨﺪﺍﮨﺖ ﭘﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ مگر افسوس ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮐﺘﻨﮯ ہی ﺑﮯ ﺗﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﻃﻨﺰﯾﮧ ﺟﻤﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﻧﻤﺎﺯ، ﻗﺮﺁﻥ ﺍﻭﺭ ﺩین ﺳﮯ پیچھے رہ گئے ﮨﯿﮟ

*ﺍﺳﻼﻡ ﭘﮭﯿﻼﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﭼﮭﮯ ﺍﺧﻼﻕ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺑﻮﻝ کی ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮈﺍلنی ہوگی*

ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻃﻮﻃﺎ ﻣﺮﭺ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ بھی میٹھی بولی ﺑﻮﻟﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ بھی ﮐﮍﻭﮮ ﺑﻮﻝ ﺑﻮﻟﺘﺎ یے۔

دلچسپ و عجیب

ایک عورت اپنے تین ماہ کا بچہ ڈاکٹر کو دکھانے آئی،کہ ڈکٹر صاحب میرے بچے کے کان میں درد ہیں،ڈاکٹر نے بچے کا معائینہ کیا اور کہا واقع اس کے کان میں انفیکشن ہوا ہے اور نوٹ پیڈ اٹھا کر کچھ دوائی لکھی اور رخصت کیا،میں حیران تھا،عورت جانے لگی تو میں نے آواز دے کر انہیں روکا، وہ رک کر پیچھے دیکھنے لگی جیسے کچھ بھول گئی ہو۔
میں نے کہا بہن جی آپ کا بچہ تین ماہ اور سات دن کا ہے جو بول بھی نہیں سکتا،تو آپ کو کیسے پتا چلا کہ اس کے کان میں تکلیف ہے، وہ مسکرائی اور میری طرف رخ کرکے کہنے لگی، بھائی جی، آپ کان کی تکلیف پہ حیران ہیں میں اس کے رگ رگ سے واقف ہوں،یہ کب روتا ہے،کب جاگتا ہے، کب سوتا ہے،مجھے اس کے سارے دن کا شیڈول پتہ ہے کیوں کہ میں ماں ہوں اس کی، انسان کو جب کوئی تکلیف ہو تو اس کے دن بھر کا شیڈول بدل جاتا ہے،اور کھانے پینے سونے جاگنے کے اوقات بدل جاتے،طبیعت خراب ہونے سے انسان ھر وقت بے چین رہتا ہے،کل رات سے میرا بچہ بھی خلاف معمول روئے جا رہا روئے جارہا ہے،رات جاگ کہ گزاری میں نے اس کے ساتھ، صبح کو میں نے غور کیا تو بچہ جب رو رہا تھا تو ساتھ ہی اپنا ننھا ہاتھ اپنے ننھی سی کان کی طرف لے جا رہا تھا،میں بچے کو اس کے باپ کے پاس لے گئی،کہ اس کہ کان میں درد ہے،وہ مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے کہ مجھے کیسے پتا چلا، اس نے بچے کے کان پہ ھاتھ رکھا تو بچہ اور زور سے رونے لگا،اور میں بھی بچے کی تکلیف دیکھ کے رونے لگی،اپنے بچے کی تکلیف برداشت نہیں کرسکی،کیوں کہ میں ماں ہوں، عورت چلی گئی اور میں نم آنکھوں سے دیر تک کھڑا سوچتا رہا کہ ماں تین ماہ کے بچے کا دکھ درد سمجھ سکتی ہیں اور میں روزانہ ماں سے کتنی دفعہ جھوٹ بولتا ہوں اور وہ یقینًا میرے سارے جھوٹ جانتی ہیں کیوں کہ وہ ماں ہیں،،،تب سے میں نے کبھی ماں سے جھوٹ نہیں بولا،
اللہ سب ماؤں کو زندہ سلامت رکھیں اور جن کی ماں دنیا سے پردہ کر گئیں ہوں " اللہ " انہیں جنت الفردوس میں داخل کریں، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔