Friday, October 23, 2020

عیب اور انکار

#لڑکی_دیکھنے_کے_بعد_ریجیکٹ_نہ_کیجئے

میں ڈاکٹر فاطمہ ہوں کل میں ڈیوٹی پر معمور تھی کہ ایک خودکشی کا ایمر جنسی کیس آ گیا خود کشی کرنے والی لڑکی کا نام منتہیٰ تھا اور میں نے اپنے آٹھ سالہ کیرئیر اور گزری زندگی میں پہلی بار اتنی خوبصورت لڑکی دیکھی تھی ۔۔۔۔
مریضہ حالت بیہوشی میں تھی اس کو اٹھا کر ہسپتال پہنچانے والے اسکے والدین تھے والدین بھی ماشاءاللہ بہترین پرسنیلٹی کے مالک تھے مگر اس وقت بیٹی کے عمل نے ان کی حالت کو قابل رحم بنا رکھا تھا پتہ نہیں کیوں مجھے لڑکی پر پیار اور اس کے والدین کی بے بسی دیکھ کر بے انتہا کا ترس آ رہا تھا ۔۔۔۔۔ 
لڑکی کو آپریشن تھیٹر لایا گیا آپریٹ کے بعد اس کو وارڈ میں منتقل کر دیا گیا تھا اور والدین کو بتا دیا گیا تھا کہ لڑکی کی حالت خطرے سے باہر ہے لڑکی کی خیریت کا پتہ چلتے لڑکی کا والد غرباء میں کچھ تقسیم کرنے کے لئیے نکل گیا تو لڑکی کی ماں کو میں نے اپنے آفس میں بلوا لیا ۔۔۔۔۔ 
مختصراً لڑکی کی ماں نے جو کہانی سنائی وہ کچھ یوں تھی 

لڑکی کا نام منتہیٰ ہے اور منتہیٰ نے ٹیکسٹائل انجینیرنگ کر رکھی ہے پڑھائی کے بعد تمام والدین کی طرح منتہیٰ کے والدین کی بھی خواہش تھی کہ وہ اپنے گھر کی ہو جائے اس لئیے انہوں نے منتہیٰ سے اس کی پسند کے متعلق پوچھا تو منتہیٰ نے مشرقی لڑکیوں کی طرح فیصلے کا اختیار ماں باپ کو دے دیا والدین نے منتہیٰ کو کے رشتے کی بات چلائی تو منتہیٰ کو دیکھنے ایک فیملی آئی لوازمات اور خدمات سے مستفید ہونے کے بعد عورتیں منتہیٰ کے کمرے میں آئیں کسی نے منتہیٰ سے چل کر دکھانے کی فرمائش کی کسی نے بولنے اور کسی نے منتہیٰ کے ہاتھ کی چائے پینے کی فرمائش کی اس کے بعد اجازت لے کر چلے گئیے اور چند دن بعد بنا کوئی بات بتائے رشتے سے انکار کر دیا ۔۔۔۔۔۔

منتہیٰ کے لئیے پہلی بار تھی جب وہ ریجیکٹ ہوئی مگر ماں باپ کی تسلی نے منتہیٰ کو حوصلہ دیا اور ایک بار پھر منتہیٰ کو دیکھنے کے لئیے فیملی آئی ۔۔۔۔ 
انہوں نے بھی کھانے سے فارغ ہونے کے بعد منتہیٰ کے ہاتھ سے۔ چائے پینے کی فرمائش کی اور چائے کے بعد اجازت چاہی تین دن انتظار میں رکھنے کے بعد یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا لڑکی کو مہمان نوازی نہیں آتی کیونکہ اس نے لڑکے کی ماں کو ٹیبل سے اٹھا کر ہاتھ میں چائے پیش نہیں کی بلکہ عام مہمانوں کی طرح ٹیبل پر رکھ دی ۔۔۔۔ 

اس انکار پر منتہیٰ کے ساتھ ساتھ اس مے والدین بھی اندر ٹوٹ پھوٹ گئیے مگر اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کر رہے پھر ایک نئی فیملی آئی ۔۔۔ 
اس فیملی کی خواتین کے بیٹھتے ہی منتہیٰ نے ان کے جوتے تک اپنے ہاتھوں سے اتارے وہیں بیٹھے بیٹھے ہاتھ دھلوائے  اور پھر چائے پیش کی ۔۔۔۔ 

اس فیملی نے ہفتے بعد یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ آپ کی بیٹی پر جنات کا سایہ ہے ورنہ کوئی میزبان پہلی بار گھر آئے مہمان کی اتنی خدمت کہاں کرتا ہے 

پچھلے آٹھ سالوں میں سو سے زائد لوگ رشتے دیکھنے آئے مگر کوئی نہ کوئی عیب نکال کر چلے گئے  کل ایک فیملی آئی انہوں نے لڑکی کو باقی ہر لحاظ سے ٹھیک قرار دیا مگر یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ منتہیٰ کی عمر زیادہ ہو گئی ہے اور احسان جتاتے ہوئے کہا کہ اگر آپ زیادہ مجبور ہیں تو ہمارا ایک اڑتالیس سالہ بیٹا جس کی اپنی دوکان ہے اس کے لئیے منتہیٰ قبول کر لیتے ہیں  ۔۔۔۔۔ 

اتنا کہتے ہوئے منتہیٰ کی ماں سسکیاں لے کر رونے لگی اور کہا آپ بھی تو ماں ہیں سوچیں ماں جتنی بھی مجبور ہو غیروں کے سامنے کیسے کہہ سکتی ہے ؟

اور میری بیٹی کل سارا دن میرے سینے سے لگ کر روتی رہی ہے کہتی رہی ہے ان لوگوں کے معیار تک آتے آتے میری عمر زیادہ ہو گئی ہے ماں اور پھر نہ جانے کب اس نے دنیا کو الوداع کہنے کا فیصلہ کر لیا کیوں کہ وہ کہتی تھی میرا منحوس سایا میری بہن کو بھی والدین کی دہلیز پر بوڑھا کر دے گا  ۔۔۔۔۔ 

میں (ڈاکٹر)  نے منتہیٰ کی والدہ کو پانی پلایا اتنے میں اس کا والد اور پیچھے وارڈ بوائے داخل ہوا آ کر بتایا کہ منتہیٰ ہوش میں آ گئی ہے ۔۔۔۔۔۔

منتہیٰ کی ماں بجلی کی تیزی سے وارڈ میں پہنچی منتہیٰ کا سر اٹھا کر سینے لگا کر میں(ڈاکٹر) اور اور منتہیٰ کا والد ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئے منتہیٰ ماں کو چھوڑ کر باپ کے گلے لگی اور سسکتے ہوئے کہا پاپا بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں پاپا آپ نے کیوں بچایا مجھے ؟
مجھے مرنے دیتے میرا منحوس سایا اس گھر سے نکلے گا تو گڑیا کی شادی ہو گی نہیں تو وہ بھی آپ کی دہلیز پر پڑھی پڑھی بوڑھی ہو جائے گی ۔۔۔۔۔ 

منتہیٰ کا باپ چپ چاپ آنسو بہا رہا تھا جب میں نے حالات آؤٹ آف کنٹرول ہوتے دیکھے تو منتہیٰ کو سکون اور انجیکشن دے دیا اور منتہیٰ کے والدین کو لے کر آفس  میں آگئی میں نے منتہیٰ اور اس کی چھوٹی بہن کو اپنے دونوں بھائیوں کے لئیے مانگ لیا اور منتہیٰ کے والدین کی آنکھیں اچانک برسنے لگیں مگر اس بار آنسو خوشی کے تھے ۔۔۔۔ ۔

میرے دونوں بھائی ڈاکٹر ہیں میں نے ان کو اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور وہ قبول کر چکے ہیں ۔۔۔۔

آخر میں آپ لوگوں سے التجا کرتی ہوں آپ شادی عورت سے کر رہے ہوتے ہیں حور سے نہیں خدارا کسی کی بیٹی کو ریجیکٹ کرنے سے پہلے اس کی جگہ اپنی بیٹی رکھ کر سوچیں میں ڈاکٹر ہونے کی حثیت سے کہتی ہوں اگر عیب کی بنا ریجیکٹ کرنا ہو لڑکیوں سے دوگنی تعداد میں لڑکے ریجیکٹ ہوں مجھ سے دنیا کے کسی بھی فورم پر کوئی بھی بندہ بحث کر لے میں ثابت کر دوں گی مرد میں عیب عورت سے زیادہ ہیں میں ہاتھ جوڑ کر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ دے کر التجا کرتی کسی کو بلا وجہ عیب زدہ کہہ کر ریجیکٹ نہ کرو آپ اللہ کی مخلوق کے عیبوں پر پردہ ڈالیں اللہ آپ کے عیبوں پر پردہ ڈالے گا  ۔۔۔۔ 
آپ کے نکالے عیب اور انکار لڑکیوں کو قبر میں دھکیل دیتے ہیں 

ٹرینڈ آف سٹیٹس

گریجوایشن کے بعد یو دوران تعلیم ایک اور مسلہ جو خاص طور پر خواتین کو پیش آتا ہے وہ "سٹیٹس" کا۔ہماری بہت ساری طالبات دوران تعلیم ہی "ٹرینڈ آف سٹیٹس" کی دوڑ میں سینکڑوں پریشانیاں مول لےلیتی ہیں اور گریجوایشن کے فوری بعد ہی دھڑام سے گرتی ہیں۔آج کی تحریر میں میرا مرکزی نقطہ طالبات یا گریجوایشن کے بعد"گرلز" کی طرف ہے۔تاہم اس میں لڑکوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔
ٹرینڈ آف سٹیٹس کا مطلب ہے وہ ظاہر کرنا یا بتانا جو آپ حقیقت میں نہیں ہوتے یونیورسٹی میں یہ سب چلتا ہے اور بہت سارے لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں مثلاً یونیورسٹی میں ہماری ایک دوست تھیں جو ہمیشہ سے اپنے آپ کو ایسا پیش کرتی تھیں کہ
 "شی بیلانگز ٹو اے ہائ پروفائل فیملی"
پوری ڈگری میں بجائے لیکچر تیار کرنے کے اس کو یہی فکر ہوتی تھی تو کہ آج کون سی ڈریسنگ کرکے اپنی ساتھی فیلوز کو جلانا ہے مگر جیسے ہی ڈگری مکمل ہوئ تو ابھی مجھے پتہ چلا ہے کہ سٹیٹس کی جس دوڑ کا وہ یونیورسٹی میں شکار ہوئ اب وہ اس کے گلے پڑ گیا ہے اور اسے عادت سی ہوگئ ہے چونکہ دوران سٹڈی تو خرچہ گھر سے آتا ہے تو فکر نہیں ہوتی 5 یا دس ہزار اوپر نیچے کرکے کام چلایا جاسکتا ہے مگر ڈگری کے بعد پیسے بند ہوجاتے ہیں اور جاب بھی نہیں ہوتی اس بنا پر اب وہ ہماری دوست مینٹل ڈپریشن کا شکار ہوچکی ہے اور مجھے یہ کہانی سن کر رحم اور افسوس دونوں ہوئے۔
ہمارے نوجوان بھی تقریباً سارے تو نہیں تاہم ایسے ہی بہت سارے ہیں جو اسی کشمکش کا شکار ہوکر کئ پریشانیاں مول لے لیتے ہیں۔
ایک سے ایک بڑھ کے ایک پریشانی جب آپ کو محض 24 سال کی عمر میں لگے گی تو اگلے 20 سال جو مستقبل کی پلاننگز کے ہیں اس میں تو ہمارا زہن باکل ماوف ہوچکا ہوگا وہ سال جس میں آپ نے جاب ڈھونڈنی ہے پھر گھر بسانے کے لیے پلاننگز کرنی ہیں شادی کرنی ہے تو یہ سب چل نہیں سکتا جب کچی عمر میں ہی دوران تعلیم جہاں اتنی پریشانیاں ہوں وہاں فضول پریشانیاں پالنے کی بجائے تھوڑے کو حاصل کرکے شکر ادا کرنے کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔
بدقسمتی یہ ہے دوران لیکچر بھی ہم ایسی نصیحتیں کم ہی سننے کو ملتی ہیں اور باہر کنٹین پر جب نوجوان یا لڑکیاں مل کر بیٹھی ہوں تو وہاں بھی ایسی باتوں کا کلچر کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔یہ تحریر محض تحریر نہیں بلکہ چند الفاظ میں شئیر کردہ وہ تجربات اور آنکھوں دیکھے حال ہیں۔
جھوٹ موٹ کا سٹیٹس درد سر بنتا ہے۔دوران تعلیم جب یونیورسٹی میں ہوں تو وہاں اگر سیکھنے کو بڑھایا جائے چاہے وہ خود اعتمادی ہو، گرومنگ ہو،  مستقبل کی پلاننگز ہو مگر یہاں میں گریڈز کی بات نہیں کروں گا کیونکہ گریڈز کا ٹرینڈ بھی سب سے خطرناک ٹرینڈ ہے۔
شکر اور صبر وہ سواری ہے جو اپنے سوار کو کبھی گرنے نہیں دیتی جس کے دیر پا اثرات ہوتے ہیں ٹرینڈ آف سٹیٹس میں زہنی سکون نہیں کیونکہ ہر اگلے دن اس ٹرینڈ کو جاری رکھنے کے لیے رات کو منصوبہ بندی کرکے سونا پڑتا ہے۔
آپ جینز میں ہوں یا سادہ شلوار قمیض میں کبھی مایوس مت ہوں اور سفر کو خوبصورتی سے جاری رکھیں سادگی وہ گُر ہے جس کو کوئ گرہن نہیں ہاں جب اللہ توفیق دے اور آپ بہترین جگہ پر پہنچ جائیں ضرورت کے مطابق خوب سے خوب پہنیے، زیب تن کیجیے کیونکہ وہ آپ کا حق ہے آپ کی پروفیشنل زندگی ہے
جو ملتا ہے اس کو خوشی سے قبول کیجیے جتنی خوشی محسوس کریں گے اتنے ہی اندر سے پرسکون ہونگے جتنے اندر سے پرسکون ہونگے اتنا ہی تیزی سے سیکھیں گے اور بہت جلدی منزل تک پہنچیں گے ان شاءاللہ

رشتے جب بار بار تکلیف دیں

سوال:  دل سے بندھے رشتے جب بار بار تکلیف دیں تو ان کو ہر بار کیسے معاف کریں ؟
محترم سرفراز شاہ صاحب 
فرض کریں کہ آپ کا گھر دو کمروں کا ہے جہاں پر آپ کے ساس سسر نے بھی رہنا ہے ،آپ دونوں میاں بیوی اور بچوں نے بھی رہنا ہے۔آپ تنگی سے زندگی گزار رہے ہیں تو آپ کی سب سے پہلی کوشش ہو گی کہ بڑا گھر لے لیا جائے۔ جب ہمیں معلوم ہے کہ یہ سب ہمارے دل چھوٹاہو نے کی وجہ سے ہو رہا ہے تو دل کو بڑا کر لیں ،یہ بڑا سادہ سا جواب ہے ۔ایک بات یاد رکھیں کہ ہمارے امام اعظم حضرت محمد وﷺنے کبھی کسی کی زیادتی یا ظلم کا بدلہ نہیں لیا توہمیں بھی ان کی تقلید کرنی چاہیے ۔تقلید کا مطلب ہے کہ ایک انسان گیلی زمین پر پاؤں رکھتے ہو ئے خشک قطعہ پر پہنچ جائے تو گیلی زمین پر اس کے قدموں کے نشان پر اپنا پاوں رکھتے ہو ئے آپ بھی وہاں پہنچ جائیں گی ۔اس کو اس طرح بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جب ہم اپنی زرعی زمین سے بہت اچھی فصل لینا چاہتے ہیں تو زمین پر بہت گہرا ہل چلاتے ہیں ،اس کے بعد بیج ڈالتے ہیں ۔زمین کو گہرائی سے پھاڑتے ہیں بہ ا لفاظ دیگر زمین کو زخمی کرتے ہیں ۔یہ بات سمجھ لیں کہ دِل جب خلق خدا کی باتوں سے زخمی ہو تا ہے تووہاں گھاؤ لگتے ہیں۔رب کے قریب وہی آدمی ہوتا ہے جس کے دل میں گھاؤ زیادہ لگے ہو تے ہیں ۔جتنے بھی ولی اللہ گزرے ہیں کیوں کہ ان کی بیویاں بہت تند خو اور سخت مزاج تھیں تو ان کے دل پر گھاؤ لگتے رہے ،وہ صبر کرتے رہے تو اللہ پاک نے انہیں انعام دیااور اسی لیے وہ اللہ کے قریب ہو گئے۔جب بھی کو ئی آپ کے ساتھ ایسا سلوک کرے تو بس مسکرائیے۔آپ دیکھیں گے کہ وہی لوگ کچھ عرصے میں آپ کے مرید ہو جا ئیں گے ۔

معاشرے میں بہتری کیسے

مچھلی پانی میں پیدا ہوتی ہے اسے کیا معلوم کہ یوں پانی میں رہنا ڈوب کر مرنے کا باعث ہے،
جنات آگ کے بنے ہیں انھیں کیا معلوم کہ آگ جسم کو جلا دیتی ہے،
کیڑے مکوڑے زیر زمین رہتے ہیں وہ بھی بے خبر ہیں کہ زیر زمین مردے دفن کئے جاتے ہیں،
اسی طرح جب ہم برائی کے ماحول میں پلتے بڑھتے ہیں
تو ہمیں اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ اچھائی کی سفارشات کیا ہیں،
مجھے یاد ہے کہ ایک وقت تھا جب ٹی وی پہ کسی اشتہار میں کسی جراثیم کش صابن پر بھروسے کی بات کی جاتی تھی
تو مجھے بڑا عجیب لگتا تھا کہ بھروسا تو صرف اللہ پر ہوتا ہے کسی صابن پر کیونکر بے فکر بھروسا ممکن ہے،
لیکن آج کیونکہ پرورش ہی ٹیلیویژن کے سامنے ہوئی ہے
تو ایسا کوئی بیان محض ایک فقرہ محسوس ہوتا ہے،
آپ نے یقیناً محسوس کیا ہوگا کہ جب ابتدا میں ہم نے ڈرامے دیکھنا شروع کئے تھے
تب ہمیں بہنوں بیٹیوں کی موجودگی کی وجہ سے ڈرامے کے کئی مراحل پر ناگواری محسوس ہوتی تھی...
لیکن آج کسی صابن کے اشتہار میں
جب ایک خاتون کو نہاتے ہوئے جسم پر صابن لگاتے دکھایا جاتا ہے تو جنبش بھی پیدا نہیں ہوتی
کیونکہ مچھلی کی طرح پانی میں رہ رہ کے ہم یہ بھول چکے ہیں
کہ یوں پانی میں رہنا ڈوبنے کا باعث ہے،
آج فلمی انداز کے نیم برہنہ لباس جب ہم اپنی معصوم بچیوں کو پہناتے ہیں تو درحقیقت ہم اس ناری ماحول کی طرف انھیں لے کے جا رہے ہوتے ہیں جو جسم کو جلا دیتا ہے،
یونیورسٹی میں کسی لڑکی کے ساتھ مل بیٹھنا اب والدین کو بھی برا نہیں لگتا
کیونکہ ہم مینڈک کی طرح گرم پانی میں خود کو ڈھالتے جا رہے ہیں،
تہذیب جو کسی مذہب اور خطے کا لباس ہوتی ہے اسے ہم تاریخ کی کتابوں میں بند کرتے جا رہے ہیں
ٹیلیویژن کی سکرین سے لے شادی بیاہ اور منگنی کی تقاریب تک ہم ایک جس ماحول کی طرف بڑھ رہے ہیں
یہ ماحول کل تک ہمارے آباؤ اجداد کے سامنے حد درجہ قابل نفرت تھا،
میرے عزیز ہم وطنو، اپنے آپ کو دیکھو اور اپنی آنے والی نسلوں کو بچاو کہیں ہم اس آگ کے تو نہیں بنتے جا رہے جو کل تک ہمیں جلاتی رہی تھی؟
شرم و حیا جو مسلمان کے لیے کئی برائیوں کے خلاف ایک ڈھال کی حیثیت رکھتی ہے کہیں ہم یہ ڈھال پھینک تو نہیں رہے؟
کہیں ہم وہ بیج تو نہیں بو رہے جس کی جڑیں کل کو ہماری عمارت ہی اکھاڑ پھینکیں گی.... ؟؟؟؟؟
اک چھوٹی سی کوشش اپنی آنکھیں کھولنے کی۔

بیوی اور شوہر

. 👈 *شوہر کا خراب رویہ اور ہر بیوی کے سامنے تین راستے*. 👉

 شوہر کا خراب رویہ دیکھ کر ہر بیوی کے سامنے تین راستے ہوتے ہیں، اور ہر بیوی ان تین راستوں میں سے کوئ ایک راستہ ضرور چُنتی ہے۔ *اگر شوہر بیوی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا، اسے وقت نہیں دیتا، موبائل، ٹیلیوژن اور دوستوں میں مصروف رہتا یے، اسے عزت و پیار نہیں دیتا، ہر وقت جھگڑے کرتا ہے، گالیاں دیتا یے، ماں بہن کی باتوں میں آکر بے عزت کرتا ہے، مطلب کسی بھی اعتبار سے بیوی کو راحت کی بجاۓ تکلیف پہنچاتا یے تو اس غلیظ انسان کی بیوی تین راستوں میں سے ایک راستہ اختیار کرتی ہے*"::۔

1- " *پہلا راستہ*" کچھ بیویاں جو ایمان کی کمزور ہوتی ہیں وہ شوہر کے خراب رویہ کو دیکھ کر غیر محرم سے رابطہ بنا لیتی ہیں، پھر اسکے ساتھ اپنے سکھ دکھ شیئر کرنے لگتی ہیں، اور وہ شخص بھی اسکے ساتھ بہت زیادہ ہمدردی سے پیش آتا ہے، ہمدردی والا یہ تعلق دوستی میں تبدیل ہوکر دونوں کو کبیرہ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے، ایسی صورت میں شوہر، بیوی اور اسکا ہمدرد تینوں ہی سخت سزا کے حقدار ٹھہریں گے۔

2- " *دوسرا راستہ*" کچھ بیویاں ایمان کی مظبوط ہوتی ہیں لیکن *ہمت کی کمزور* ہوتی ہیں، اگر انکا شوہر انکے ساتھ خراب رویہ رکھتا ہے جیسا کہ اوپر لکھ چکا ہوں تو یہ بیویاں اپنی عزت و آبرو کی تو ہر دم ہر پل حفاظت کرتی ہیں لیکن اندر سے مکمل ٹوٹ جاتی ہیں، انکا ہنسنا رسمی ہوتا ہے، انکا بولنا رسمی ہوتا ہے، انکی مسکراہٹیں رسمی ہوتی ہیں، انکا لوگوں سے ملنا جلنا رسمی ہوتا یے، یہ دن کی روشنی میں اندر ہی اندر گھٹتی ہیں اور رات کے اندھیروں میں خون کے آنسو روتی ہیں، یہ بیویاں زندہ لاش بن کر اپنی زندگی گذارتی ہیں، اور بروز محشر اس عورت کا شوہر اس وقت تک جنت میں داخل نا ہوسکے گا جب تک بیوی کے ایک ایک آنسو کا حساب نا دیدے۔

3- " *تیسرا راستہ*" اس راستے پر چلنے والی بیویوں کا ایمان تو مضبوط ہوتا ہی ہے لیکن یہ *ہمت اور استقلال کی پہاڑ* بھی ثابت ہوتی ہیں، یہ مایوس نہیں ہوتی، اندھیروں میں آنسو نہیں بہاتی، بلکہ فکر کرتی ہیں، بُرے حالات کو انگلی دکھاتے ہوۓ چیلنج کرتی ہیں، پختہ عزم و ارادہ کرتی ہیں کہ میں اپنے شوہر کو اندھیروں سے نکال کر لاؤں گی، میں انکی خامیوں کو خوبیاں بناؤں گی، میں انکی برایئوں کو اپنی اچھایئوں سے ختم کروں گی، رب تعالی بھی اپنی اس بندی کے عزم و ارادے پر خوشی سے مسکرا رہے ہوتے ہیں۔ *اپنے مقصد کی تکمیل کی صورت میں یہ شوہر کی گالیاں، طنز و طعنے اور ہر کڑوی بات خاموشی سے برداشت کیۓ مسکراہٹ سے جواب دیتی ہیں، شوہر کی طرف سے بدسلوکیوں پر اپنے اچھے اخلاق اور خوبصورت اعمال کو ہتھیار بناتی ہیں، شوہر کے آنے سے پہلے خود کو سجاۓ محبوبہ بن کر سامنے آتی ہیں کہ شوہر کو سکون و راحت پہنچانا فرض ہے*۔ یہ جانتی ہیں کہ شوہر کے والدین کی خدمت فرض نہیں لیکن پھر بھی خود کو ساس سسر میں جھونک دیتی ہیں، انکے آگے پیچھے گھومتی ہے، انکی خدمت کو خود کے لیۓ شرف سمجھتی ہیں تاکہ بذرگوں کی دعاؤں سے انکا گھر بسا رہے، یہ تکیوں میں منہ چھپا کر رونے کی بجاۓ سجدوں میں رونے کو ترجیح دیتی ہیں، یہ پانچ وقت دعاؤں میں ہاتھ اٹھاۓ آنسو بہا کر رب کے حضور شوہر کی قربت، شوہر کی توجہ، شوہر کا دھیان، شوہر کی محبت کا سوال کرتی ہیں، اتنا ہی نہیں یہ تہجد میں اٹھ کر پھر سے رب کی بارگاہ میں حاضری لگاتی ہیں اور آنکھیں نم کیے اپنی آہ اس رب کے سامنے رکھ کر اپنی خوشیاں مانگتی ہیں، رب تعالی بھی انہیں انکے صبر و ہمت اور مدد واسطے پکارنے پر انہیں مایوس نہیں کرتا، انکی برداشت کی گئ تکالیف پر صبر کا پھل دیتے ہوۓ انکے شوہر کا دل انکی بیویوں کی طرف پھیر دیتا ہے۔ شوہر کا دل بیوی کی محبتوں سے بھر دیتا ہے۔

 *اگر بیوی پہلا راستہ اختیار کرتی ہے تو دنیا میں زلت و رسوائ اور آخرت میں شوہر اور ہمدرد سمیت سخت عذاب کی حقدار ٹھہرے گی*۔

 *اگر بیوی دوسرا راستہ اختیار کرتی یے تو غلیظ شوہر کی وجہ سے اپنا ہی دل جلاتی ہے اپنا ہی خون جلاتی ہے، اپنے آپ کو تکلیف دینے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا لیکن اسے اللہ کے یہاں اس صبر اور عزت و آبرو کی حفاظت کا بے تحاشہ اجر ملے گا*۔

 *اگر بیوی تیسرا راستہ اختیار کرتی ہے، شوہر کی بےغیرتی کو خود کے لیۓ چیلنج تصور کیۓ ہمت اور غور و فکر سے کام لیتی ہے جیسا کہ اوپر لکھ چکا ہوں تو 80 فیصد بیویاں اللہ کے حکم سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر ایک خوشگوار ازدواجی زندگی گزارتی ہیں*۔

 لہذا بہنوں سے کہوں گا کہ *کبھی شوہر کی بے رخی سے، بد سلوکیوں سے، برایئوں سے مایوس نا ہونا بلکہ پختہ عزم و ارادے کے ساتھ اپنے اچھے اخلاق، خوبصورت اعمال اور مدد باری تعالی کے ذریعے اپنے شوہر کی ان برایئوں کو اچھایئوں میں تبدیل کرنا۔ رب تعالی آپ کا مددگار ہوگا*۔.

دوسروں کے عیب نہ ڈھونڈیں

لوگوں کی عاقبت کے حوالے سے ہمیں کوئی بات نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ جانے اور وہ بندہ جانے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے، ''وہ شخص جنت میں نہیں جاسکتا جس کے شر کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑنا شروع کردیں۔'' دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جن میں اور تو کوئی خامی نہیں پائی جاتی، لیکن یہ خامی پائی جاتی ہے کہ ان کے شر سے لوگ محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں نے اپنی طرف سے خود ساختہ اصول وضوابط بنائے ہوتے ہیں۔ تعلقات کے احساسات ہوتے ہیں۔ ان کا زبان سے پتا نہیں چلتا، صرف محسوس ہوتا ہے۔ کسی کے ساتھ کتنا تعلق ہے، اس کا آسان سا حل یہ ہے کہ اپنے اندر سے پوچھا جائے تو جواب مل جائے گا۔ یہ گھاٹے کا رویہ ہے۔ کوئی بھی شخص گھاٹے کا سودا نہیں کرنا چاہتا۔ کوئی بھی شخص اپنی چیز کسی ایسے بینک میں نہیں رکھوانا چاہتا ہے جہاں چوری ہونے کا گمان ہو۔ کوئی ایسی گاڑی نہیں خریدنا چاہتا جس کے بارے میں گمان ہو کہ اس کا لازماً ایکسیڈنٹ ہونا ہے۔ کوئی ایسا کپڑا خریدنا نہیں چاہتا جس کے بارے میں گمان ہو کہ یہ پھٹ جائے گا۔ اور کوئی ایسی شادی نہیں کرنا چاہے گا جس کے بارے میں گمان ہو کہ اس کا انجام اچھا نہیں ہے۔ اگر کسی کو دوست بنانے کیلئے یہ شرط رکھ د یں کہ اپنے آپ کو تھوڑا ٹھیک کرو تو وہ کبھی بھی دوست نہیں بن سکتا۔ دوستی کیلئے وہ جیسا بھی ہے، اس کو ویسا ہی قبول کرنا پڑے گا۔ سمجھ دار انسان دوست بنا کر اس پر مثبت انداز میں اثرانداز ہوسکتا ہے۔
 جو دوسروں میں عیب تلاش کرتا ہے اس کے ماضی میں جا کر دیکھیں تو پتاچلتا ہے کہ یہ رویہ اس میں شروع سے بنا ہوا تھا۔ ویسے یہ رویہ زیادہ تر تنگ دل لوگوں کا ہوتا ہے۔ بہت سارے رویے ایسے ہوتے ہیں جو ہم نے لاشعوری طور پر نقل کیے ہوتے ہیں۔ جس گھر کے بڑے سب سے چھوٹے کے بارے میں احساس کر رہے ہوں تو   اللہ تعالیٰ انھیں بہت نوازتا ہے۔ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اچھے بھلے بندے کو چھوٹا کر دیتے ہیں، جبکہ اللہ کے ہاں اس کا مقام بڑا ہوتا ہے۔
ہر انسان اہم ہوتا ہے۔ کسی کی اہمیت جاننے کیلئے گھر میں کام کرنے والی خادمہ کو دس دن کی چھٹی دے دیں، اوقات یاد آجائے گی۔جو شخص کسی کو قدر نہیں دیتا، وہ خود بے قدرا ہو جاتا ہے۔جب بندہ دوسروں کی قدر کرتا ہے تو اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ اس کی قدر کراتا ہے۔ یہ وہ شے ہے جو دی کہیں جاتی ہے اور ملتی کہیں اور سے ہے۔ ہم بندے کی قدر کرتے ہیں اور اسی سے صلہ چاہ رہے ہوتے ہیں۔ جب کسی کی قدر کی جاتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں چلی جاتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسی جگہ پر صلہ دیتا ہے جس کی توقع نہیں ہوتی۔ 
رویہ زیادہ تر ریفلیکشن سے بنتا ہے اور یہ زیادہ تر گھروں سے بنتا ہے۔ دوسرے نمبر پر منبر سے بنتا ہے۔ تیسرے نمبر پر استادوں سے بنتا ہے۔ چوتھے نمبر پر معاشرے سے بنتا ہے۔ شرعی طور پر لوگ ٹھیک ہوتے ہیں، لیکن لوگ انھیں سماجی طور پر برا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک شخص کی عمر پچاس برس ہے۔ اس کی بیوی کا انتقال ہوجاتا ہے۔ اب شرعی طور پر وہ ایک لڑکی سے شادی کرلیتا ہے جس کی عمر اٹھائیس بر س ہے۔ اس کے اس عمل پر پورا معاشرہ باتیں کرے گا۔ لوگ اتنے گندے نہیں ہوتے، لیکن ان کا ذہن بہت گندا ہوتا ہے۔ جب بندہ اپنے اندر غلاظت تلاش کرتاہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ سب سے زیادہ غلاظت تو میرے ہی اندر ہے۔ جب پتا لگ جائے کہ میرا یہ رویہ غلط زاویہ نظر پر قائم ہے تو پھر جتنی جلدی ممکن ہوسکے، اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کیجیے۔ لوگوں کے دلوں کے اندر گھس کر نہ دیکھئے۔ بندہ جانے اور اللہ جانے۔ صرف نصیحت ہوسکتی ہے، ہاتھ سے روکا جاسکتا ہے ، دل میں برا کہاجا سکتا ہے، لیکن مہر نہیں لگا ئی جاسکتی۔ کیا پتا، وہ توبہ کرکے بخشا جائے اور جو فتویٰ لگانے والا ہے، وہ رہ جائے۔
(قاسم علی شاہ کی کتاب انچی اڑان سے ماخذ)

بیوی کا شوہر سے حسن اخلاق

میں اپنے شوہر کو پچھلے چھ ماہ سے اپنے قریب نہیں آنے دے رہی انیلہ نے فخر سے اپنی دوست کو بتاتے ہوئے کہا وہ میری منتیں کرتے ہیں مجھے اپنے پاس بلاتے ہیں مگر میں حقارت سے انکو دھتکار دیتی ہوں
اچھا کیا وہ لڑائی جھگڑا نہیں کرتے؟
ہونہہ انکی جرآت ہے جو مجھ سے اونچی آواز میں بات کریں جینا حرام نہ کر دوں میں انکا۔۔

آج انیلا بستر مرگ پر پڑی ہے موت بھی اس کو قبول نہیں کرتی اس کو کینسر ہو گیا ہے جس جسم کو وہ شوہر سے دور رکھتی تھی آج اسی جسم میں جگہ جگہ گلٹیاں بنی ہیں جو گندے مواد سے بھرتی ہیں اور پھر پھٹ جاتی ہیں شدید بدبو اور تکلیف سے چیختی انیلا موت کی بھیک مانگتی نظر آتی ہے اسکے شوہر نے بھی اسکو معاف کر دیا ہے وہ ہی اس کی دیکھ بھال بھی کرتا ہے مگر شاید قدرت اسکو نشان عبرت بنانا چاہتی ہے

یہ سچا واقعہ لاہور کا ہے جب مرد و عورت نکاحِ کرتے ہیں تو وہ صرف دو افراد کا ملاپ نہیں ہوتا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر اس بات کا عہد کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی دکھ تکلیف میں خوشی غمی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اللہ کے احکامات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی روشنی میں پورا کریں گے مگر ھمارے معاشرے میں ہوتا اس کے برعکس ہے ایک دوسرے پر فتح حاصل کی جدو جہد شروع کی جاتی ہے مرد چاہتا ہے عورت اسکے تابع ہو عورت چاہتی ہے کہ اس کی راجدھانی قائم ہو جس میں وہ اکیلی حکومت کرے اللہ تعالیٰ کے احکامات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کو یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے وہ عورت جس کو شوہر کے بلانے پر نماز تک چھوڑ دینے کا حکم ہے وہ شوہر کے بلانے پر ہونہہ کہہ کر سو جاتی ہے اور بعد میں فخر محسوس کرتی ہے تو ایسی عورت پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں ساری رات مسلسل بغیر کسی شرعی عذر کے دوری اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنتی ہے اس دوران اگر شوہر کوئی گناہ کرتا ہے تو اس میں بھی برابر کی حصہ دار بننتی ہے اللہ تعالیٰ ایسی عورت پر دنیا میں ہی عذاب نازل فرما دیتا ہے اللہ تعالیٰ ھماری عورتوں کو دین کی سمجھ عطا فرمائے آمین کیونکہ نکاح دین کو مکمل کرتا ہے شیطان کو غرق کرتا ہے نکاح میاں بیوی کی محبت شیطان کو آگ لگا دیتی ہے. اللہ تعالیٰ ھم سب کو دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

سچی محبت

ایک بار ایسا ہوا کہ ہم میاں بیوی میں چھوٹی سی بات پر لڑائ ہو گئ, گرمیوں کی رات تھی ہم دونوں اپنی اپنی جگہ پر سو گئے. آدھی رات کو مجھے پیاس لگی واٹر کولر پاس ہی میز پہ پڑا ہوا تھا میں نے خود اٹھ کر پانی پیا. اچانک میں نے مڑ کے دیکھا تو وہ مجھے غصے سے دیکھ رہی تھی اور بولی کہ آپ نے پانی خود کیوں پیا...؟ میں نے بھی غصے اور اکڑپن سے جواب دیا ہاتھ,پاؤں سلامت ہیں خود پی سکتا ہوں مفلوج نہی ہوں......
وہ قریب آ کر میرا گریبان پکڑ کر بولی کہ ایک بات غور سے سنو لڑائ اپنی جگہ لیکن میں اپنا حق اور خوشی نہیں چھیننے دوں گی. پتہ ہے آپ کو پانی دیتے ہوئے مجھے کتنی خوشی ہوتی بھلے ہی بات چیت بند کیوں نہ ہو لیکن پانی آپ خود نہیں پئیں گے..... اس کی آنکھیں نم اور نازک سرخ تھیں اسے گلے لگایا اور جھگڑا ختم کر دیا.
 اور اب دس سال بعد
 جب رات کو تین بجے پانی پینے کیلیے اٹھتا ہوں تو دیوار پہ لگی اس کی خوبصورت تصویر بھیگ جاتی ہے یا شاید میں اسے بھیگی ہوئ آنکھوں سے دیکھتا ہوں اور یاد آتا ہے وہ کہتی تھی کہ "محبت" مر نہیں سکتی..
اپنے قریب لوگوں کی زندگی میں ہی قدرکیجئے

جی لو اپنی زندگی

یہ عادتیں ہی ہیں جو ہمیں بگاڑتی ہیں، سنوارتی ہیں یا جیتا رکھتی اور مارتی ہیں. یہ عادتیں ہی ہیں جن کے ہاتھوں ہم کم کم جیتے ہیں، یا پھر اپنی زندگی کا نقش چٹانوں پر چھوڑ جاتے ہیں. ہم وہی کچھ بن جاتے ہیں جو ہم مسلسل کرتے ہیں. 

کیا آپ اپنی کسی ایسی عادت کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جو پچھلے دس برس سے آپ کے ساتھ ہے؟ اگر آپ وہاں تک پہنچ چکے ہیں تو آپ کو یہ احساس بھی ہوجائے گا کہ وہ عادت آپ کی زندگی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکی ہے، چاہے اسے گاڑی چلانی آتی ہے، یا نہیں. 

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر اپنی عادتوں کے بارے میں کم اور ہمیں جاننے والے ان عادتوں سے زیادہ واقف ہوتے ہیں. اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر عادتوں کے ہاتھوں ہپناٹائز ہوچکے ہوتے ہیں. اور آٹو پر چل رہے ہوتے ہیں. 

عادتوں کی نفسیات پر پچھلے تیس برسوں میں بہت کام ہوا. انہی دنوں سٹیون کووے کی سات عادتوں کی کتاب بہت مقبول ہوئی. اب بات اس سے بہت آگے جاچکی ہے. مثال کے طور نفسیات نے حال ہی میں دریافت کیا کہ اگر آپ کوئی بھی کام، یہ جانتے ہوئے کریں کہ وہ آپ اپنے بجائے کسی اور کے لیے کر رہے ہیں تو وہ کام زیادہ جذبے اور تندہی سے انجام دیا جاتا ہے.

مثال کے طور پر اگر دو لوگ دوڑ رہے ہیں. ایک اپنی جان بنانے کے لیے اور دوسرا اپنی والدہ کے علاج کے لیے فنڈ ریزنگ کرنا چاہتا ہے تو وہ زیادہ انرجی کے ساتھ زیادہ دیر تک بھاگ سکے گا. 

اکثر لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ وہ آسمانوں پر کمند ڈالنے کے بجائے چھوٹے موٹے کاموں میں خرچ ہورہے ہیں، جب کہ ان کی منزل آسمانوں میں ہے. ایسے افراد عموماً اپنی عادات کے ہاتھوں ایک اوسط درجے کی زندگی گھسیٹ رہے ہوتے ہیں. ہائی پرفارمر بننے کے لئے اپنی عادتوں کو نتھ ڈالنی پڑتی ہے. 

نفسیات نے بڑا دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہیں، فرق اس سے پڑتا ہے کہ آپ کر کیا رہے ہیں؟ اور کرنے والی عادتیں خود نہیں بنتیں بلکہ ان کے لیے پسینہ بہانا پڑتا ہے. 

دلچسپ امر یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر، اپنے آپ کو اور اپنی زندگی کو ہر روز دوہرا کر خوش رہتے ہیں. اکثر افراد کا بیس سالہ تجربہ ایک جیسی حرکتیں، مسلسل بیس برس تک کرتے رہنا ہوتا ہے. ایسا رویہ کچھ سیکھنے اور اپنی نشوونما کے لیے سم قاتل ہے. آپ نے اپنے دوستوں میں کچھ ایسے لوگ بھی دیکھے ہوں گے جنہوں نے گزشتہ بیس، پچیس برس میں مجال ہے اپنے آپ کو بدلا ہو. یہ رویہ اوسط درجے کی زندگی گزارنے کے لیے تیر بہدف نسخہ ہے. 

عادتوں کے حوالے سے ایک وارننگ دیتا چلوں کہ دنیا میں آپ کی عادتوں کے حوالے کر سب سے بڑا ایکسرے مشین آپ کی اہلیہ یا خاتون دوست کے اندر لگی ہوئی ہوتی ہے. 

عادتوں کے حوالے سے مشہور ہے کہ کوئی بھی کام اگر 21 دن مسلسل کرلیا جائے تو اس کو عادت میں بدلا جاسکتا ہے. ماسٹر ہیبٹ کے لیے تقریباً دس ہزار کے آس پاس گھنٹے درکار ہوتے ہیں. اگر آپ بولنے کو لکھنے کو پڑھنے کو، بھاگنے کو، یا کسی بھی مہارت کو دس ہزار گھنٹے دیں توانائی اس میں ماسٹری پیدا کرسکتے ہیں. 

بدقسمتی سے سیلف ڈسپلن، یعنی اپنے آپ سے الجھنا اور اپنے آپ سے کشتی کرنا، کسی بھی نئی عادت کے جنم لینے کے لیے سب سے بڑی شرط ہے. اکثر لوگ یہیں کھیت رہتے ہیں. مثال کے طور اپنے نیو ائیر ریزولیوشن ذہن میں لے کر آئیں؟  یا جب آپ نے آخری بار اپنا وزن کم کرنے کی نیت کی تھی؟ یا صبح کی سیر کے لئے الارم لگایا تھا؟ یا میٹھے سے پرہیز کا وچن کیا تھا؟ تبھی دنیا میں ٹیلنٹ کا سب سے بڑا مرکز قبرستان کو کہا جاتا ہے جہاں طرح طرح کے تان سین، ارطغرل، ٹییپو سلطان، محمد علی کلے، ساچن ٹنڈولکر اور دیگر ہیرو اپنے دل کے ارمان دل ہی میں لیے سو رہے ہوتے ہیں. 

چلیں ایک اور ٹیسٹ کرلیتے ہیں، آپ اپنی زندگی میں کتنے لوگوں کو جانتے ہیں جو اپنی دھن کے پکے ہیں اور کوئی موسم، گرمی، سردی انہیں ان کے معمول یا فوکس سے باز نہیں رکھ سکتی؟ آپ انہیں بمشکل اپنی دس انگلیوں پر گن پائیں گے. 

ایک اور ٹیسٹ کر لیں، آپ کے خاندان یا دوستوں میں سے کس نے پچھلے پانچ برس میں وزن کم کیا اور پھر پانچ برس سے وہی کمی برقرار بھی رکھی ہے؟ اب صرف ایک ہاتھ کی انگلیاں ہی کافی ہورہیں گی. 

نفسیات کی تازہ ترین تحقیقات کے مطابق کامیاب سی ای او صرف اپنے بزنس میں ہی نہیں بلکہ جسمانی طور پر بھی فٹ ہوتے ہیں اور ان کا انرجی لیول ایتھلیٹس کے مقابلے کا ہوتا ہے. اور یہ لیول صرف ورزش کی عادت پختہ ہونے کا نتیجہ ہوتا ہے. 

تحقیقات کے مطابق دیکھا گیا ہے کہ ہر نئے دن کے آغاز پر اس دن یا دن میں ہونے والے کاموں کے بارے میں اپنی نیت واضح کرنے والے افراد زیادہ کامیاب رہتے ہیں. بس کوئی بھاری بھرکم کام نہیں. صرف یہی سوچنا ہے کہ آپ آج کے دن سے کیا چاہتے ہیں، کوئی بھی کام کیوں کررہے ہیں، اور کسی بھی ملاقات، فون کال یا سرگرمی سے کیا نکالنا چاہتے ہیں. سننے میں تو یہ عام سی بار لگتی ہے، آج سے کرنا شروع کریں تو اثرات معجزاتی ہوسکتے ہیں. 

تحقیقات میں یہ بھی دیکھنا گیا کہ اپنے کام سے پیچھے رہنے والے افراد ای میل لکھنے میں اپنے وقت جا ایک تہائی خرچ کر دیتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے آپ کو ڈیڈ لائن دینے میں کمال رکھتے ہیں، تاہم چونکہ نیت میں کھوٹ ہوتا ہے سو صرف بیس فیصد نتائج حاصل ہوتے ہیں اور باقی ڈیڈ لائن مس ہوجاتی ہیں.

عادات کے حوالے سے ایک کمال کا سبق یہ سیکھا ہے کہ اگر دو عادتیں ہوں جن میں ایک عادت سے نشوونما ہوتی ہو، جب کہ دوسری عادت صرف تسلسل لے کر آتی ہو تو تسلسل والی عادت زیادہ بہتر ہے چاہے اس کے فوری نتائج سامنے نظر نہ آتے ہوں. تسلسل سے بڑی طاقت دنیا میں کوئی نہیں. ہم وہی بن جاتے ہیں جو ہم ہر روز کرتے ہیں. غصے والے، نفرت والے، پریشانی میں مہارت رکھے والے، ایکسپرٹ ڈیپریسر، آج کا کام کل پر چھوڑنے والے ان کاموں میں دس ہزار گھنٹوں سے زیادہ وقت صرف کر چکے ہوتے ہیں اور ان کی مہارت اوج کمال تک پہنچی ہوئی ہوتی ہے، اپنے حساب اے آپ انہیں ڈاکٹر کہ سکتے ہیں. 

حوصلہ بھی بڑی عادتوں میں سے ایک ہے. ایک بہت بڑی بدقسمتی، ایک ایسی زندگی گزارنا ہے، جو آپ گزارنا نہیں چاہتے. یہ تو عمر قید ہوئی جس میں آپ اپنے ساتھ ہی بند رہ جائیں. تاہم بہت سے لوگ ایسا حوصلہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی کا نقش نہیں چھوڑ پاتے. مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب میں ایک پینڈو بچے کے طور پر شہر میں آیا تھا تو کلاس میں سوال پوچھنے سے لے کر ہاتھ کھڑا کرنے جیسی چھوٹی چیز پر بھی گلے میں پھندا لگ جایا کرتا تھا. صنف نازک سے بات کرتے وقت تو باقاعدہ تھرتھلی چھوٹ جایا کرتی تھی،خیر ابھی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے. تاہم حوصلے کے حوالے سے یہی شئیر کروں گا کہ حوصلہ سیکھا جاسکتا ہے، حتیٰ کہ حوصلے کی اداکاری بھی کرلی جائے تو کام بن جاتا ہے. 

ساری کہانی کا لب لباب یہ ہے لوگ غیر معمولی پیدا نہیں ہوتے، بلکہ اچھوتی عادتیں سیکھ کر اپنے آپ سے بڑے ہوجاتے ہیں. آپ اپنی عادتوں پر نظر رکھیں کہ آپ کی زندگی کا بڑا حصہ ان کے ہاتھوں لکھا جائے گا. جو لوگ جانتے ہیں کہ وہ کیوں زندہ ہیں اور ہر روز واضح نیت کے ساتھ دن کا آغاز کرتے ہیں ان میں سے اکثر موت سے پہلے اپنی کچھ نہ کچھ زندگی جینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں. 

ایک مثبت عادت، دینے یا بانٹنے کی عادت ہے. یہ عادت بہت سی عادتوں کی سردار عادت ہے. سچی بات تو یہی ہے کہ وہی ہمارے کام آتا ہے جو ہم بانٹ چکے ہوتے ہیں. 

( نئی کتاب 'صبح بخیر زندگی' سے اقتباس )

صبر اور برداشت میں فرق

سوال: فقیر کی نظر میں صبر اور برداشت میں کیا فرق ہے ؟
سرفراز شاہ صاحب 
فقیری میں برداشت اور صبر کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ہم جب مشکلات کو ،کسی کے دیے ہو ئے دکھ کو یا پھر مصیبتوں کو ہائے ہائے کرتے ہو ئے گزرتے ہیں تو اس کو ہم برداشت کہتے ہیں لیکن اسی کو خوش دلی اور مسکراہٹ کے ساتھ برداشت کرنا صبر کہلاتا ہے ۔
برداشت کا اجر نہیں ہے بلکہ ایک رسک ہو تا ہے کہ انسان کہیں ناشکرا پن تو نہیں کر رہا ہے ۔صبر کا اجر بے پناہ ہے کہ رب کا ساتھ مل جاتا ہے. 
فقیر اس معاملے میں واضح نقطہ نظر رکھتے ہیں اس لیے آپ کو کبھی بھی کوئی فقیر شکوہ شکایت کرتے نظر نہیں آئے گا ۔فقیر ہمیشہ سچ بولتا ہے لیکن تین معاملے میں فقیر جھوٹ بولتا ہے ایک تو جب بھوکا ہو تا ہے تو پیٹ بھرا ہوا ظاہر کرتا ہے ،دوسرا جب مشکل میں ہو تا ہے تواپنے آپ کو خوش ظاہر کرتا ہے اور جب وہ غم زدہ ہو تا ہے تو وہ اپنے غم کو چھپاتا ہے، درحقیقت وہ صبر کا مظاہر ہ کر رہا ہو تا ہے ۔