امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے شاگردوں کے ساتھ درس و تدریس میں مشغول تھے کہ اچانک ان کا ایک خادم پریشان حال کمرے میں داخل ہوا اور کہا کہ “حضرت! جس جہاز میں آپ کا تجارتی سامان آ رہا تھا وہ راستے میں ڈوب گیا ہے۔”
امام صاحب مسکرائے، پورے اطمینان کے ساتھ فرمایا “الحمدللہ” اور دوبارہ درس و تدریس میں لگ گئے۔ کچھ دیر بعد وہ خادم دوبارہ اندر آیا اور کہنے لگا “حضرت! خبرجھوٹی تھی، جہاز بندرگاہ پر صحیح سلامت لنگر انداز ہو گیا ہے۔” امام صاحب مسکرائے “الحمدللہ” کہا
اور پھر تعلیم و تعلم کا سلسلہ وہیں سے جوڑ دیا جہاں سے رُکا تھا۔ایک شاگرد نے حیرانی کے عالم میں دریافت کیا “امام صاحب! یہ کیا ماجرہ ہے؟ جہاز ڈوب گیا تو الحمدللہ، بچ گیا تو پھر الحمد للہ؟ آپ کی تو مسکراہٹ میں بھی کوئی فرق نہیں آیا؟”
امام صاحب نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور بولے “بیٹے! وہ ڈوبا تھا تو اللہ کی مرضی تھی، اب بچ گیا ہے تو یہ بھی اللہ کی مرضی سے ہوا ہے، ہمیں تو ہر حال میں اس کا شکر گزار رہنا ہے۔”
اس دنیا میں ایک قانون موجود ہے اور اسکو “Law of attraction” (قانون کشش) کہتے ہیں۔ اس کی مثال بڑی سادہ ہے ہمارے اردگرد ہر جگہ “لہریں” موجود ہیں۔
یقین کرنا ہے تو ریڈیو آن کریں اور فریکوئنسی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کر دیں، آپ کو کسی چینل پر کوئی “غمزدہ خبر” سننے کو ملے گی۔
آپ کا اختیار ہے کہ آپ فریکوئنسی تبدیل کردیں کسی دوسرے چینل پر کوئی “خوشگوار بات” سننے کو مل جائے گی۔ آپ کا موڈ اور آپ کا مزاج بھی اس خبر اور اس کے اثرات کے ساتھ ساتھ تبدیل ہونا شروع ہو جائے گا ۔
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ “غمزدہ خبر” والی لہریں کمرے سے چلی گئی ہیں یا اس فریکوئنسی پر “غمزدہ خبر” موجود ہی نہیں رہی
بلکہ آپ نے اپنی فریکوئنسی کو “خوشگوار باتوں” کی طرف موڑ دیا ہے اسلئیے ہر طرف سے لہریں آپ کو “خوشگوار باتیں” سنانے پر مجبور ہیں۔
بالکل یہی معاملہ “قانون کشش” کا ہے۔ جب آپ شکر گزار ہوتے ہیں تو پوری کائنات حرکت میں آجاتی ہے
اللہ تعالی ہر چیز کو آپ کی سیٹ کی ہوئی فریکوئنسی پر لگا دیتے ہیں۔ انتخاب اور مرضی آپ کی اپنی ہے۔ آپ “شکر گزاری” کا چینل سیٹ کرتے ہیں یا خود کو “شکوے شکایتوں” کی فریکوئنسی پر ٹیون کرتے ہیں۔
آپ جو حاصل کرنا چاہتے ہیں، جیسا بننا چاہتے ہیں، ویسا سوچنا شروع کر دیں۔ اگر آپ شکر گزار ہیں تو پھر آپ کو صبح سے شام تک شکر گزار لوگ ہی ٹکرائیں گے اور اگر کوئی ناشکرا مل بھی گیا تو آپ اس کے بھی شکر گزار ہو جائیں گے۔
اپنے پیسے، رشتے، روزگار، بچے، بیوی تعلقات اور پڑوس وغیرہ ،جس چیز کی زیادتی آپ کی زندگی میں ہوگی اور آپ اس سے خوش ہوں گے تو دراصل اس کے بارے میں آپ زیادہ شکر گزار رہتے ہیں اور جس چیز میں کمی اور کوتاہی ہے دراصل وہ آپ کے” کم شکر گزار” ہونے یا “نا شکری” کا نتیجہ ہے۔
بلوں کے بروقت ادا ہوجانے، تنخواہ وقت پر مل جانے، بچوں کی فیسیں ادا ہو جانے، تین وقت کا کھانا پیٹ بھر کر کھا لینے، جسم پر صاف ستھرے کپڑے، ہاتھ میں موبائل، گھر میں خیال کرنے والی ماں، بیوی، بہن، بیٹی۔ آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والے بچے اور نہ جانے کیا کیا نعمتیں ہیں جن پر آپ دن رات صبح شام شکر ادا کرنا شروع کر دیں تو بھی کم ہے۔
یاد رہے شکر دل سے ادا ہونا چاہئے۔آپ کے احساسات اور دل کی دھڑکنوں تک سے شکرگزاری کے جذبات پھوٹ رہے ہوں، آپ بات بات پر پورے خلوص دل کے ساتھ “الحمدللہ” کہہ رہے ہوں۔
صبح کوڑا لینے آنے والے سے لے کر شام کو گھر چھوڑنے والے ڈرائیور تک کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ایک دفعہ تھینکس، شکریہ، جزاک اللہ تو بول کر دیکھیں۔ نہ آپ کا انگ انگ جھوم اٹھے تو بات کریں۔ اللہ تعالی اس کائنات کو، اسکی ساری قوتوں کو آپ کی خدمت میں لگا دے گا۔
نہایت ہی کم ظرف اور ناشکرے ہیں ہم لوگ۔ سارا دن ہم اپنی فریکوئنسی کو “گلے شکوں” پر ٹکا کر رکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ہر طرف سے شکر گزاری کی لہریں آتی رہیں۔
اللہ تعالی قرآن میں واضح الفاظ میں فرماتے ہیں کہ “اللہ کو کیا پڑی ہے، کہ تمھیں شکر گزار ہونے اور ایمان لے آنے کے بعد بھی عذاب دے؟ اللہ تو بڑا قدردان اور ہر چیز کا جاننے والا ہے”۔
اپنی زندگی کو اگر دنیا میں جنت بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہر کسی کے لیے اپنے دل اور دماغ سے گلے، شکوے اور شکایتیں نکال کر پھینک دیں۔ ہر انسان کا، ہر چیز کا، اس کائنات کا اور اللہ تعالی کا ہر لمحہ شکر ادا کرتے رہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا “جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ دراصل اللہ تعالی کا شکر ادا نہیں کرتا”۔
ایک دفعہ آپ “شُکر” کو اپنی زندگی میں لے آئیں یہ کائنات آپ پر ایسے ایسے راز کھولے گی کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔
No comments:
Post a Comment