ہم اکثر سنتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے اچھے وقت دیکھے ہیں اور اچھی خوراک کھائی ہے جس کی وجہ سے ان کی صحت اچھی ہے۔وہ ہم سے زیادہ باہمت ہیں۔ آپ کے خاندان میں جو بزرگ ہوں گے کہیں نہ کہیں وہ بھی ایسے ہی ہوں گے۔ میں نے کچھ بزرگ خواتین کو دیکھا ہے کہ ساٹھ ستر سال کی عمر کے باوجود ان کے بال گھنے اور سیاہ ہیں۔
وجہ پوچھیں تو کہتی ہیں کہ کبھی فکر یں نہیں پالیں، راضی بہ رضا رہے۔اتنی ہی عمر کے بہت سے افراد کی نظر ٹھیک ہے، سماعت قائم ہے، وہ کئی کئی میل پیدل چل لیتے ہیں۔ اگر گاؤں دیہات میں جائیں تو اتنی عمروں کے بزرگ وزن اٹھاتے ہیں، اور بالکل تندرست ہوتے ہیں۔میں نے اکثر سوچا کہ ایسا کیوں ہے۔مجھے خیال آتا ہے کہ یہ صرف”اچھی خوراک“کا نتیجہ نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے خواہ مخواہ کے جھگڑے نہیں پالے تھے۔ انہیں کسی دوسرے کی کامیابی بے چین نہیں کرتی تھی۔ حسد کا جذبہ ہمیشہ انسان کے ساتھ رہاہے لیکن وہ لوگ اللہ کے خوف سے حسد سے پناہ مانگتے رہے تھے۔ مقابلہ بازی انہوں نے کبھی کی نہیں۔ درگزر کر دیتے تھے۔ انہیں یہ فکر نہیں ستاتی تھی کہ کئی دنوں سے سبزی ہی کھا رہے ہیں۔ عرصہ ہوا ”مٹن کڑاہی“ نہیں کھائی۔ہوٹلنگ نہیں کی۔ لوگ پیٹ بھرتے تھے، پیاز کھایا، یا پھر چٹنی، انہیں پرواہ نہیں ہوتی تھی۔گھر میں گنی چنی چیزیں ہوتی تھیں لیکن محبت اور سکون بہت ہوتا تھا۔ خیر و برکت کا یہ عالم تھا کہ پانی اور نمک گھول لیتے تو بھی ذائقہ دار لگتا تھا۔وہ دوسروں کے عیبوں پر پردے ڈالتے تھے۔ وہ بد کلامی کو برا سمجھتے تھے۔ خاندان یا پھر دور، دور تک کوئی ایک بد زبان ہوتا تھا۔ اور لوگ اس بد زبان کی بد زبانی سے پناہ مانگتے تھے۔
ان کی لمبی عمروں، اچھی صحت کا راز، صرف کھانے پینے میں نہیں ہے۔ یہ دل و دماغ تھا جس نے انہیں مثبت طاقت دی تھی۔اس طاقت نے ان کی زندگی خوش گوار بنا دی ۔ یہ جو دماغ کے وبال ہیں، وہ اس سے دُور تھے۔ یہ جو دل کے فساد ہے وہ اس سے پناہ مانگتے تھے۔ وہ کبھی مقابلے کی دوڑمیں شامل نہیں ہوئے۔ علم والوں کی عزت کرتے تھے،مہمان کو سر پر بٹھاتے تھے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہم نے اپنے اندر کے احساس ختم کر دیے ہیں، بس اسی لیے ہماری زندگیوں، اور عمروں سے برکت، اور خوشیاں رخصت ہو گئی ہیں۔
No comments:
Post a Comment