"مَیں" مر جائے تو عشق(حقیقی) پختہ ھوتا ھے؛؛
عاشق اپنے محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کی غرض سے اس کے در پر پہنچا دستک دی تو اندر سے آواز آئی " کون ھے؟ "
عاشق نے پُرنم آنکھوں اور دلِ بے قرار کے ساتھ جواب دیا: " مَیں ھوں، دید کو ترس گیا ھوں۔ " اندر سے جواب ملا !
"واپس چلا جا، میرے چاھنے والوں میں "مَیں" کوئی نہیں ھے۔ ابھی تجھ سے غرور و تکبّر کی بُو آتی ھے۔ تیری "انا" باقی ھے۔ جا کچھ عرصہ اور ھجر و فراق کی آگ میں جل۔"
عاشق نامراد مایوس ھو کر واپس لوٹ گیا۔ کچھ ماہ و سال اور گزرے محبوب کی جدائی میں جلا، صدمہ فراق سہتا رھا۔ جب پھر محبوب کے دروازے پر سودائی اور دیوانہ بنا حاضر ھوا تو محبوب نے اس بار پھر پچھلا سوال دھرایا۔
"دروازے پر کون ہے؟"
عاشق نے عجز و انکساری اور ادب سے جواب دیا۔
"میری جاں! دروازے پر بھی تُو ھی ھے۔"
محبوب نے یہ الفاظ سنے تو کہا:
"اب تیری مَیں ختم ھو گئی ھے جب من و تُو کا جھگڑا ھی ختم ھوا تو پھر دوری کیسی آ جاؤ اجازت ھے۔"
من تو شُدم تو من شُدی، من تن شُدم تو جاں شُدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری
(امیر خسرو دہلوی)
میں تُو بن گیا ھوں اور تُو میں بن گیا ھے، میں تن ھوں اور تو جان ھے۔ پس اس کے بعد کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اور ھوں اور تو اور ھے۔
نفی ذات کے بغیر منزل نہیں ملتی "عشق ابتدا میں محبوب کو ڈھونڈتا ھے اور انتہا میں خود کو"
حکایاتِ مولانا رومی رحمتہ اللّہ علیہ
No comments:
Post a Comment