*حسنين عليہما السلام* نے اپنے بچپن كے زمانے ميں ايک بوڑھے شخص كو وضو كرتے ديكھا اور سمجھ گئے كہ اس كا وضو درست نہيں۔
ان دونوں آقا زادوں نے جو احكامات اسلام اور نفسيات كے اصولوں سے واقف تھے فوراً يہ سوچا كہ ايک جانب تو اس بوڑھے شخص كو بتانا ضرورى ہے كہ اس كا وضو باطل ہے اور دوسرى جانب اگر اسے براہ راست كہا جاۓ كہ جناب آپ كا وضو باطل ہے تو اس كى شخصيت مجروح ہوگى اور اسے برا لگے گا!!۔
اس صورت ميں اس كى جانب سے پہلا رد عمل يہ ہوگا كہ وہ كہے گا كہ نہيں جناب ميرا وضو ٹھيک ہے!!پھر اسے جتنا بھى سمجھا جاۓ گا وہ ايک نہيں سنے گا!!
لہذہ انہوں نے آگے بڑھ كر كہا!! ہم دونوں چاہتے ہيں كہ آپ كے سامنے وضو كريں اور آپ ہميں ديكھيں كہ ہم ميں سے كون بہتر وضو كرتا ہے!! چنانچہ بوڑھے شخص نے كہا!! آپ وضو كريں تاكہ ميں اس بارے ميں فيصلہ كرسكوں؛؛
امام حسنؓ نے اس كے سامنے مكمل وضو كيا اور بعد ميں امام حسينؓ نے بھى ايسا ہى كيا!! اب بوڑھا سمجھ گيا كہ اس كا اپنا وضو صحيح نہيں تھا لہذہ اس نے كہا!! آپ دونوں كا وضو صحيح ہے!! ميرا وضو درست نہيں تھا!! يوں انہوں نے اس شخص سے اس كى غلطى كا اعتراف كرواليا!!
اب اگر اس موقع پر وہ فوراً اسے كہہ ديتے!! بڑے مياں! تمہيں شرم نہيں آتى!! اس سفيد داڑھى كے باوجود تمہيں ابھى تک وضو كرنا بھى نہيں آتا؟ تو وہ نماز پڑھنے سے بھى بيزار ہوجاتا۔
حوالہ: _"اسلامى داستانيں، شہيد مرتضى مطہرىؒ، ص، ۲۴۹"_
No comments:
Post a Comment