Thursday, October 23, 2014

شوہر کی غیرت

وه مکمل پردے کے عالم میں قاضی کے سامنے کهڑی تهی. اس نے اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ دائر کر رکها تها. مقدمے کی نوعیت بڑی عجیب تهی کہ میرے شوہر کے ذمہ مہر کی 500 دینار رقم واجب الاداء ہے وه ادا نہیں کر رہا.لہذا مجهے مہر کی رقم دلائی جائے
.. قاضی نے خاوند سے پوچها تو اس نے انکار کر دیا. عدالت نے عورت سے گواه طلب کیے.. عورت نے چند گواه عدالت میں پیش کر دیے...
گواہوں نے کہا:" ہم اس عورت کا چہره دیکه کر ہی بتا سکتے ہیں کہ یہ واقعی وه عورت ہے جس کی گواہی دینے ہم آئے ہیں. لہذا عورت کو حکم دیا جائے کہ وه اپنے چہرے سے نقاب ہٹائے۔"
عدالت نے حکم دیا کہ عورت اپنے چہرے سے نقاب اتارے تاکہ گواه شناخت کر سکیں.ادهر عورت تذبذب کا شکار تهی کہ وه نقاب اتارے یا نہیں....گواه اپنے موقف پر مصر تهے...
اچانک اس کے شوہر نے غیرت میں آکر کہا" مجهے قطعا یہ برداشت نہیں کہ کوئی غیر محرم میری بیوی کا چہره دیکهے... لہذا گواہوں کو چہره دیکهنے کی ضرورت نہیں .. واقعی اس کے مہر کی رقم میرے ذمہ واجب الاداء ہے...
عدالت ابهی فیصلہ دینے والی ہی تهی کہ وه عورت بول اٹهی..!!
"اگر میرا شوہر کسی کو میرا چہره دکهلانا برداشت نہیں کرتا تو میں بهی اسکی توہین برداشت نہیں کر سکتی. میں اپنا مہر معاف کرتی ہوں. میں غلطی پر تهی جو ایسے شخص پر کے خلاف مقدمہ دائر کیا.."
______________________________________________
[یہ واقعہ ابن جوزی کی کتاب "المنتظم فی تاریخ الامم والملوک" 403/12 میں دیکها جا سکتا ہے... ماخوذ از سنہری کرنیں]

Tuesday, January 1, 2013

اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟


اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟


اے نئے سال بتا، تُجھ ميں نيا پن کيا ہے؟
ہر طرف خَلق نے کيوں شور مچا رکھا ہے

روشنی دن کی وہي تاروں بھري رات وہی
آج ہم کو نظر آتي ہے ہر ايک بات وہی

آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زميں
ايک ہندسے کا بدلنا کوئي جدت تو نہيں

اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرينے تيرے
کسے معلوم نہيں بارہ مہينے تيرے

جنوري، فروري اور مارچ ميں پڑے گي سردي
اور اپريل، مئي اور جون ميں ہو گي گرمي

تيرا مَن دہر ميں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی ميعاد بَسر کر کے چلا جائے گا

تو نيا ہے تو دکھا صبح نئي، شام نئی
ورنہ اِن آنکھوں نے ديکھے ہيں نئے سال کئی

بے سبب لوگ ديتے ہيں کيوں مبارک باديں
غالبا بھول گئے وقت کی کڑوي ياديں

تيری آمد سے گھٹی عمر جہاں سے سب کی
فيض نے لکھی ہے يہ نظم نرالے ڈھب کی

(فیض احمد فیض)