اکنامکس کا ایک قانون ہے جو
"Law of Opportunity Cost"
کہلاتا ہے۔
جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ذرائع کی کمی کی وجہ سے ایک ہی وقت میں دو کام نہیں کیئے جاسکتے
جیسے کوئی طالب علم صبح اٹھے تو اس کے سامنے دو آپشن ہوتے ہیں 1) نیند 2) سکول یا کالج
اب یہ بندے بندے پر ڈیپینڈ کرتا ہے کہ اس کے نزدیک کیا چیز قیمتی ہے؟
وہ کس کو اختیار کرتا ہے۔
جس کو اختیار کرتا ہے وہ چیز "اوپرچونٹی" کہلاتی ہے۔
جس کو چھوڑ دیتا ہے وہ "کوسٹ" کہلاتی ہے۔
اسی طرح اگر آپ کو کہیں جانا ہو تو ایک آپشن پبلک ٹرانسپورٹ کا ہوتا ہے دوسرا رکشہ کا ہوتا ہے یا ٹیکسی وغیرہ۔
آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آپ کو کیا اختیار کرنا ہے؟ بس یا رکشہ، ٹیکسی؟
ایسا نہیں ہوسکتا کہ آُپ ایک ہی وقت میں دونوں میں سفر کرلیں!!!
چلیں ایک اور مثال لیں۔
میٹرک کے بعد آپ کے پاس دو چوائس ہیں
میڈیکل یا انجینرنگ
دونوں میں سے ایک چیز لینی ہوگی
ایسا نہیں کہ ایک ہی وقت میں ڈاکٹر بھی بن جائیں اور انجینئر بھی
بالکل سیدھی سی بات ہے۔
اب میں آگے چلتا ہوں۔
دین اسلام کی واجبی معلومات حدیث کے مطابق ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
لیکن اگر اسلام کو گہرائی کے ساتھ سیکھا اور پڑھا جائے تو اس کیلیئے ایک عمر بھی ناکافی ہے۔
جو لوگ اسلام کو گہرائی سے پڑھتے ہیں وہ اسی
"Law of Opportunity Cost"
کی وجہ سے سائنس یا ٹیکنالوجی میں گہرائی کے ساتھ غوطہ خوری نہیں کرپاتے۔
(واضح ہو کہ مسلمان سائنس دانوں کی بڑی دھوم رہی ہے لیکن علمی حلقوں میں ان سائنس دانوں کے فتاویٰ جات وغیرہ موجود نہیں ہیں۔)
اسی طرح جو سائنسی ماہرین ہیں وہ اسلامی معلومات کا احاطہ اتنا نہیں کرسکتے جتنا ایک معتبر مفتی کرتا ہے۔
ہمارے لوگ مولوی کو سائنس دان بنانے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں
لیکن سائنس دان کو مولوی بنانے کی کوشش نہیں کرتے؟
ارے بھائی فرق کو سمجھو!
مولوی کا کام ہے قران و سنت میں غور وخوض، لوگوں کو جدید مسائل کا شرعی حل بتانا وغیرہ، اس کو اپنا کام کرنے دو۔
اور جو مسلمان اسلام کی فرض معلومات حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کی کامیابی وترقی کیلیئے سائنس ہر کام کرہے ہیں انہیں بھی کام کرنے دیا جائے۔
اگرچہ امور کے لحاظ سے لوگوں کی انکی صلاحتوں اور مصروفیتوں کی حساب سے تقسیم ہوگی
جو کہ فطری بات ہے
لیکن یہ لوگ آپس میں انٹر کنیکٹڈ ہونگے۔
سائنس دان ، مولوی کے ساتھ، مولوی ڈاکٹر کے ساتھ رابطے میں ہوگا۔
جیسی تقسیم کار کی طرف سورہ مزمل کی آخری آیت میں بھی اشارہ ہے
"Law of Opportunity Cost"
کہلاتا ہے۔
جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ذرائع کی کمی کی وجہ سے ایک ہی وقت میں دو کام نہیں کیئے جاسکتے
جیسے کوئی طالب علم صبح اٹھے تو اس کے سامنے دو آپشن ہوتے ہیں 1) نیند 2) سکول یا کالج
اب یہ بندے بندے پر ڈیپینڈ کرتا ہے کہ اس کے نزدیک کیا چیز قیمتی ہے؟
وہ کس کو اختیار کرتا ہے۔
جس کو اختیار کرتا ہے وہ چیز "اوپرچونٹی" کہلاتی ہے۔
جس کو چھوڑ دیتا ہے وہ "کوسٹ" کہلاتی ہے۔
اسی طرح اگر آپ کو کہیں جانا ہو تو ایک آپشن پبلک ٹرانسپورٹ کا ہوتا ہے دوسرا رکشہ کا ہوتا ہے یا ٹیکسی وغیرہ۔
آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آپ کو کیا اختیار کرنا ہے؟ بس یا رکشہ، ٹیکسی؟
ایسا نہیں ہوسکتا کہ آُپ ایک ہی وقت میں دونوں میں سفر کرلیں!!!
چلیں ایک اور مثال لیں۔
میٹرک کے بعد آپ کے پاس دو چوائس ہیں
میڈیکل یا انجینرنگ
دونوں میں سے ایک چیز لینی ہوگی
ایسا نہیں کہ ایک ہی وقت میں ڈاکٹر بھی بن جائیں اور انجینئر بھی
بالکل سیدھی سی بات ہے۔
اب میں آگے چلتا ہوں۔
دین اسلام کی واجبی معلومات حدیث کے مطابق ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
لیکن اگر اسلام کو گہرائی کے ساتھ سیکھا اور پڑھا جائے تو اس کیلیئے ایک عمر بھی ناکافی ہے۔
جو لوگ اسلام کو گہرائی سے پڑھتے ہیں وہ اسی
"Law of Opportunity Cost"
کی وجہ سے سائنس یا ٹیکنالوجی میں گہرائی کے ساتھ غوطہ خوری نہیں کرپاتے۔
(واضح ہو کہ مسلمان سائنس دانوں کی بڑی دھوم رہی ہے لیکن علمی حلقوں میں ان سائنس دانوں کے فتاویٰ جات وغیرہ موجود نہیں ہیں۔)
اسی طرح جو سائنسی ماہرین ہیں وہ اسلامی معلومات کا احاطہ اتنا نہیں کرسکتے جتنا ایک معتبر مفتی کرتا ہے۔
ہمارے لوگ مولوی کو سائنس دان بنانے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں
لیکن سائنس دان کو مولوی بنانے کی کوشش نہیں کرتے؟
ارے بھائی فرق کو سمجھو!
مولوی کا کام ہے قران و سنت میں غور وخوض، لوگوں کو جدید مسائل کا شرعی حل بتانا وغیرہ، اس کو اپنا کام کرنے دو۔
اور جو مسلمان اسلام کی فرض معلومات حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کی کامیابی وترقی کیلیئے سائنس ہر کام کرہے ہیں انہیں بھی کام کرنے دیا جائے۔
اگرچہ امور کے لحاظ سے لوگوں کی انکی صلاحتوں اور مصروفیتوں کی حساب سے تقسیم ہوگی
جو کہ فطری بات ہے
لیکن یہ لوگ آپس میں انٹر کنیکٹڈ ہونگے۔
سائنس دان ، مولوی کے ساتھ، مولوی ڈاکٹر کے ساتھ رابطے میں ہوگا۔
جیسی تقسیم کار کی طرف سورہ مزمل کی آخری آیت میں بھی اشارہ ہے