Thursday, November 5, 2015

محبت الٰہی

امریکہ میں ایک نوجوان کلمہ گو مسلمان تھا، دفترمیں کام کرتا تھا، دفتر میں کام کرنے والی ایک امریکن لڑکی سے محبت ہوگئی، اس نے یہ محسوس کیا کہ اب وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا، چنانچہ اس نے اس کے والدین کو پیغام بھیجا کہ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں....
اس کے والدین نے شرط رکھی کے تمہیں عیسائی بننا پڑے گا، والدین سے قطع تعلق کرنا پڑے گا، اپنے ملک وآپس نہیں جاوٴگے.... وغیرہ وغیرہ....
یہ جذبات میں اتنے مغلوب تھا کہ تمام شرائط مان لیں ، ماں باپ ، بہن بھائیوں، قریب رشتہ داروں سے ،ملک سے اور جس کمیونٹی میں رہتا تھا ، سب سے ناطہ توڑ لیا.اور عیسائیوں کے طریقے کے مطابق عیسائی بن کر شادی کرلی... تین چار سال اسی طرح گذر گئے،یہاں تک کے دوست احباب سبھی دور ہوتے چلے گئے،تین چار سال اسی حال میں گذر گئے، یہاں تک کے دوست احباب سب کی یاداشت سے بھی نکلنے لگ گیا، بھولی بسری چیز بنتا چلا گیا...
ایک دن امام صاحب نے فجر کی نماز کیلئے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ یہ نوجوان آیا اس نے وضو کیا اور مسجد میں نماز کی صف میں بیٹھ گیا۔ امام صاحب بڑے حیران ، خیر انھوں نے نماز پڑھائی اور اس کے بعد اس کو سلام کیا پھر اسکو اپنے حجرے میں لے گئے، اور محبت پیار سے ذرا پوچھا کہا: " آج بڑی مدت کے بعد زیارت نصیب ہوئی۔" اسوقت اس نے اپنی حالت بتائی کہ ......!
"میں نے اس لڑکی کی محبت میں اپنا سب کچھ قربان کردیا، لیکن جس گھر میں رہتا تھا میرے اس گھر میں اللّٰہ کا کلام "قرآن" رکھا ہوتا تھا، میں جب کبھی آتا جاتا، اس پر میری نظر پڑتی ، تو میں دل میں سوچتا کہ یہ میرے مولا کا کلام ہے، یہ میرے اللّٰہ کا قرآن ہے اور میرے گھر میں موجود ہے میں اپنے نفس کو ملامت کرتا.."
اعمال تو میرے برے تھے لیکن دل مجھے کہا کرتا تھا کہ نہیں جس کا کلمہ پڑھا میں اس سے محبت ضرور کرتا ہوں ، اس کی نشانی میرے گھر میں موجود ہے، اس طرح کئی سال گذر گئے، ایک دن میں آفس سے گھر وآپس آیا اور حسب معمول میں نے گذرتے ہوئے اس جگہ پر نظر ڈالی مجھے قرآن وہاں نظر نہ آیا، میں نے بیوی سے پوچھا کہ یہاں جو کتاب رکھی تھی وہ کہاں ہے؟
"اس نے کہا :" میں نے گھر کی صفائی کی تھی اس میں غیر ضروری چیزوں کو میں نے پھینک دیا ہے،۔"
میں نے پوچھا: "اس کتاب کو بھی ؟
اس نے کہا:" ہاں"
"میں فوراً وہاں سے اٹھ کر آیا اور کوڑے پھینکنے کی جگہ سے اس کتاب کو اٹھا کر لے آیا۔"
جب میری بیوی نے دیکھا کے میں وہ کتاب وآپس لے آیا ہوں اور اس کتاب کا بہت احساس کررہا ہوں تو اس نے کہا:" اگر اس کتاب کا تعلق اسلام سے ہے تو دیکھو یا تو یہ کتاب اس گھر میں رہے گی یا پھر میں اس گھر میں رہونگی۔تمہیں اسمیں سے کسی ایک کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا۔"
وہ کہنے لگا:" میرے لئے زندگی میں عجیب وقت تھا میں نے اپنے دل سے پوچھا کہ تونے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے وہ کچھ کرلیا جو تجھے نہیں کرنا چاہیے تھا ۔"
آج تیرا رشتہ پروردگار سے ہمیشہ کے لئے ٹوٹ جائے گا، اب تو فیصلہ کرلے کے کس کے ساتھ رہنا چاہتاہے؟
جب میں نے یہ سوچا تو دل سے آواز آئی کہ نہیں میں اپنے رب سے کبھی بھی نہیں کٹنا چاہتا، میں نے اسی وقت وقت فیصلہ کرلیا کہ میں اب اپنے رب کو نہیں چھوڑونگا، اور میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔
"میں نے دوبارہ کلمہ پڑھا، اپنے مولا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور دل سے توبہ کی ، اب میں سچا پکا مسلمان بن چکا ہوں۔"
سوچئے اتنے غافل کے دل میں بھی اللّٰہ رب العزت کی محبت کا بیج موجود تھا۔ مسلمان کبھی نفس اور کبھی شیطان کے دھوکے میں آکر اپنے رب کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے، لیکن اگر اللّٰہ کی محبت کا ادراک ہوجائے تو پھر رب کے لئے اس دنیا کو بھی چھوڑ دیتاہے۔
اللّٰہ تعالٰی سے ہر وقت اسکی محبت اور ایمان پر استقامت سے چلنے کی دعا کرتے رہنا چاہیے، پتہ نہیں کب نفس کا شر اور شیطان کا دھوکا اللّٰہ کی محبت پر حاوی ہوجائے۔
محبت الٰہی سے ماخوذ...

برقی مواصلات

ان برقی مواصلات نے رشتوں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ جونہی ذہن میں خیال آیا ٹکسٹ مسج کی صورت میں زو کرکے ہوا کے دوش پر فریق مخالف تک پہنچ گیا۔ نہ نظر ثانی کا موقع نہ اس سے مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ۔
اگر یہ مسج مثبت ہو تب تو ٹھیک ہے مگر عام طور پر ایسا کم ہوتا ہے۔ اب گھریلو لڑائیاں ٹکسٹ مسجز پر لڑی جاتی ہیں۔
میاں بیوی سارا دن مسجز کا تبادلہ کرکے دل کی بھڑاس نکالتے رہتے ہیں۔ جو بات منہ پر نہیں کہی جاسکتی وہ بسہولت ٹکسٹ ہوجاتی ہے۔ گالیاں، کوسنے، طعن و تشنیع ، گلے شکوے برقی رفتار سے سفر کرتے ہیں اور برق رفتاری سے نفرتوں کو ہوا دیتے ہیں۔
میاں بیوی کو ایک اصول بنانا چاہئے کہ انکے درمیان ٹکسٹ کا تبادلہ صرف مثبت ہوگا۔ منفی باتیں ساری روبرو بیٹھ کر کی جائیں گی تاکہ دل آزاری کم سے کم ہو اور رشتوں کو بکھرنے سے بچایا جا
سکے۔

میاں بیوی

بس میاں بیوی کے درمیاں محبت ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی سب خیر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جتنی مرضی چھک چھک ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جتنی مرضی ڈفرنس آف اپینئین ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جتنی مرضی طعن و تشنیع ہو ۔۔۔۔۔۔۔ محبت سب کھا جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت مینڈنگ فورس ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ سیمینٹنگ فورس ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر جوڑ دیتی ہے سب کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نشان تک باقی نہیں رہتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا تو یہی اائیڈیل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے شروع میں ہی دیکھ لیا تھا کہ چھوٹی چھوٹی بک بک ہوتی ہی رہیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہوتی ہی رہے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے محبت کا اظہار اور بڑھا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تعریفیں اور زیادہ کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحفے تحائف اور زیادہ کر دیے ۔۔۔۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ سینس آف ہیومر بڑھا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچوں کو انوالو کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر لڑائی بے معنی ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر اختلاف اپنی موت مارا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں جو یہ چاہتے ہیں کہ کبھی لڑائی نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شائد غلط سوچ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ لڑائی ہونے دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اسے ختم کرنا سیکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے کا احساس ختم نہ ہونے دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن میاں بیوی کے درمیان لڑائی نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔ ان میں یقیناً محبت بھی نہیں ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مستقل طور پر ایک دوسرے سے روٹھ چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے نہیں چاہئے ایسی روکھی پھیکی زندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے ریلیشنز میں جوش اور گرمی پسند کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہ پر بات کرنا پسند کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن دوسرے کو مارنے کے لئے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے کو توڑنے کے لئے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے نیچا دکھانے کے لئے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انڈرسٹینڈنگ پیدا کرنے کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب تو ہم کسی بات پر بحث شروع کریں تو بچے پوائنٹ سکور کرنے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہنس ہنس کے ان کا برا حال ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میرا بیٹا کہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار پاپا آج تم ٹھیک نہیں کھیلے ۔۔۔۔۔۔۔ میری بیٹی کہتی ہے آج ماما کچھ فارم میں نہیں ہیں پاپا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کل بتائیں گی آپ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ بھی چائے پینے لگے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ساتھ چمٹ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں بھی اسی کپ میں چسکیاں لینے لگوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی نہ کوئی پروگرام لگا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم اس پر بات چیت شروع کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ بالکل اور ہی انداز میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ایک بات ہنڈرڈ پرسنٹ وثوق سے کہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ کہ میری بیوی انجوائے کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تھوڑی بہت لڑائی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ کئی بار درمیان میں ہنس پڑتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں میں نے یہ بات نہیں کہنی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل میں میں نے یہ بات کرنی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ میرے منہ سے نکل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو آئیندہ میں اس طرح کہوں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں کہتا ہوں میں تمہیں کبھی مایوس نہیں کروں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس وقت چاہے لڑ لو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی لڑائی کیا لڑائی ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے یہ شرٹ نہیں پہننی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے بھی ہزار بار کہہ چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔ کیوں کرتی ہو پرس اسی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو آگے سے نہیں کروں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اب خاموش ہو جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھے معلوم ہوتا ہے وہ پھر کرے گی ۔۔۔۔۔۔۔

بھاؤ تاؤ

کئی سال پہلے کالج میں میری ایک ٹیچر نے ایک بات سمجھائی کہ گلی میں پھیری لگانے والوں سے کبھی بھاؤ تاؤ نہ کریں۔ چلچلاتی گرمی ہو یا ٹھٹھرا دینے والی سردی۔ برستی بارش ہو یا تیز آندھی طوفان، یہ غریب ریڑھی بان صبح سے شام تک محنت کرتے ہیں اور بمشکل اتنا کماتے ہیں کہ اپنے بیوی بچوں کو روکھی سوکھی کھلا سکیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ بڑے سپر سٹورز سے بخوشی مہنگے داموں چیز خرید لیں گے لیکن سبزی والے سے دھنیا اور مرچ پر بھی بحث شروع کر دیں گے۔ اس بات کو اپنی عادت بنا لیں کہ ان غریب محنت کشوں سے بھاؤ تاؤ نہ کریں۔ صدقہ کی نیت کر لیں کہ اگر وہ زیادہ بھی لے رہا ہے تو اللہ تعالی اسے آپکی طرف سے صدقہ قبول فرما لیں۔ اشفاق احمد کی بات یاد آ رہی ہے کہ "دتّے وچوں دینا اے" یعنی اللہ کے دیئے سے ہی آگے دینا ہے۔ جو لوگ دینے کے لئے ہاتھ کھلا رکھتے ہیں، دنیا میں بھی اللہ پاک انکے مال میں برکت ڈالتے ہیں۔ اللہ پاک ہر ایک کے مال میں برکت ڈالے اور ہر طرح کی مالی و معاشی محتاجی سے اپنی امان میں رکھے۔ آمین

یہ تصویر

جب میں نے یہ تصویر دیکھی ' پھر کتنی دیر میں بس اسے دیکھتا ھی رہ گیا.. دکھ اور بے بسی کی ایک عجیب ھی کیفیت نے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا.. گھٹنوں میں سر دئیے اس شخص کا دکھ اور بے بسی جیسے مین نے خود اپنی ذات میں گھلتی محسوس کی.. میرے دل سے ایک ھی حسرت پکارتی رہ گئی.. کاش کہ میں اس کی مدد کر سکتا.. اسکے دکھ جتنا بھی کم کرتا مگر کاش کہ میں ایسا کر سکتا.. مگر میں نہیں جانتا کہ یہ کون ھے اور کہاں ھے..
تب میرے بوجھل دل میں ایک اور خیال پیدا ھوا.. ایک سوال..
کیا واقعی میں اسے نہیں جانتا..؟ کیا واقعی میں نہیں جانتا کہ یہ شخص کہاں ھے..؟
اور پھر میں نے اس شخص کو اپنے آس پاس "چاچا غلام حسین" کی صورت میں.. "محمد یونس ' حبیب اللہ ' عمر حیات " اور نجانے کس کس کی شکل میں دیکھا..
یہ شخص اکیلا تو نہیں ھے.. اس جیسے مجبور اور غریب بےبس انسان تو پاکستان کے چپے چپے میں ھیں..
میں اس شخص کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تو کیا "چاچا غلام حسین، محمد یونس، حبیب اللہ کی بھی مدد نہیں کر سکتا..؟
خدارا آپ بھی اس شخص کی خاطر آنسو مت بہائیں ' اسکی خاطر دلگرفتہ مت ھوں بلکہ اپنے آس پاس اس ھی جیسے کسی بےبس کی مدد کو پہنچیں..
ایک اپنی ھی خاطر جیے تو کیا خاک جیے.. اور پھر کسی کی مدد کرکے تو دیکھیں ' روح طمانیت سے بھر جاۓ گی..
میری آپ سب سے اپیل ھے.. پلیز پلیز اپنے آس پاس ایسا ھی کوئی شخص ڈھونڈیے اور اس کی مدد کو پہنچیے.. ان شاءاللہ یہ عمل آپ کی آخرت ھی نہیں دنیا بھی سنوار دے گا.. خدارا سوچیے گا ضرور.. آج کسی کے کام آجائیں ' روز قیامت یہ عمل آپ کے کام آۓ گا..
اللہ ھم سب کو ایک دوسرے کے دکھ بانٹنے کی توفیق بخشے آمین..

گزشتہ تیس سال سے ...

ایک بیٹا اپنے بوڑھے والد کو یتیم خانے میں چھوڑ کر واپس لوٹ رہا تھا؛اس کی بیوی نے اسے یہ یقینی بنانے کے لئے فون کیا کہ والد تہوار وغیرہ کی چھٹی میں بھی وہیں رہیں گھر نہ چلے آیا کریں!بیٹا پلٹ کے گیا تو پتہ چلا کہ اس کے والد یتیم خانے کے سربراہ کے ساتھ ایسے گھل مل کر بات کر رہے ہیں کہ بہت پرانے اور قریبی تعلق ہوں ...تبھی اس کے باپ اپنے کمرے کا بندوبست دیکھنے کے لئے وہاں سے چلے گئے ..اپنا تجسس ٹھنڈا کرنے کے لئے بیٹے نے یتیم خانے سربراہ سے پوچھ ہی لیا ..."آپ میرے والد کو کب سےجانتے ہیں؟ "انہوں نے مسکراتے ہوئے نے جواب دیا ..."گزشتہ تیس سال سے ... جب وہ ہمارے پاس ایک یتیم بچے کو گود لینے آئے تھے!"

Thursday, October 23, 2014

Law of Opportunity Cost

اکنامکس کا ایک قانون ہے جو
"Law of Opportunity Cost" 
کہلاتا ہے۔
جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ذرائع کی کمی کی وجہ سے ایک ہی وقت میں دو کام نہیں کیئے جاسکتے
جیسے کوئی طالب علم صبح اٹھے تو اس کے سامنے دو آپشن ہوتے ہیں 1) نیند 2) سکول یا کالج
اب یہ بندے بندے پر ڈیپینڈ کرتا ہے کہ اس کے نزدیک کیا چیز قیمتی ہے؟
وہ کس کو اختیار کرتا ہے۔
جس کو اختیار کرتا ہے وہ چیز "اوپرچونٹی" کہلاتی ہے۔
جس کو چھوڑ دیتا ہے وہ "کوسٹ" کہلاتی ہے۔
اسی طرح اگر آپ کو کہیں جانا ہو تو ایک آپشن پبلک ٹرانسپورٹ کا ہوتا ہے دوسرا رکشہ کا ہوتا ہے یا ٹیکسی وغیرہ۔
آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آپ کو کیا اختیار کرنا ہے؟ بس یا رکشہ، ٹیکسی؟
ایسا نہیں ہوسکتا کہ آُپ ایک ہی وقت میں دونوں میں سفر کرلیں!!!
چلیں ایک اور مثال لیں۔
میٹرک کے بعد آپ کے پاس دو چوائس ہیں
میڈیکل یا انجینرنگ
دونوں میں سے ایک چیز لینی ہوگی
ایسا نہیں کہ ایک ہی وقت میں ڈاکٹر بھی بن جائیں اور انجینئر بھی
بالکل سیدھی سی بات ہے۔
اب میں آگے چلتا ہوں۔
دین اسلام کی واجبی معلومات حدیث کے مطابق ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
لیکن اگر اسلام کو گہرائی کے ساتھ سیکھا اور پڑھا جائے تو اس کیلیئے ایک عمر بھی ناکافی ہے۔
جو لوگ اسلام کو گہرائی سے پڑھتے ہیں وہ اسی
"Law of Opportunity Cost"
کی وجہ سے سائنس یا ٹیکنالوجی میں گہرائی کے ساتھ غوطہ خوری نہیں کرپاتے۔
(واضح ہو کہ مسلمان سائنس دانوں کی بڑی دھوم رہی ہے لیکن علمی حلقوں میں ان سائنس دانوں کے فتاویٰ جات وغیرہ موجود نہیں ہیں۔)
اسی طرح جو سائنسی ماہرین ہیں وہ اسلامی معلومات کا احاطہ اتنا نہیں کرسکتے جتنا ایک معتبر مفتی کرتا ہے۔
ہمارے لوگ مولوی کو سائنس دان بنانے کے چکر میں پڑے رہتے ہیں
لیکن سائنس دان کو مولوی بنانے کی کوشش نہیں کرتے؟
ارے بھائی فرق کو سمجھو!
مولوی کا کام ہے قران و سنت میں غور وخوض، لوگوں کو جدید مسائل کا شرعی حل بتانا وغیرہ، اس کو اپنا کام کرنے دو۔
اور جو مسلمان اسلام کی فرض معلومات حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کی کامیابی وترقی کیلیئے سائنس ہر کام کرہے ہیں انہیں بھی کام کرنے دیا جائے۔
اگرچہ امور کے لحاظ سے لوگوں کی انکی صلاحتوں اور مصروفیتوں کی حساب سے تقسیم ہوگی
جو کہ فطری بات ہے
لیکن یہ لوگ آپس میں انٹر کنیکٹڈ ہونگے۔
سائنس دان ، مولوی کے ساتھ، مولوی ڈاکٹر کے ساتھ رابطے میں ہوگا۔
جیسی تقسیم کار کی طرف سورہ مزمل کی آخری آیت میں بھی اشارہ ہے