Sunday, November 8, 2015

دوست ہوں تو ابسے


وہ دونوں ہم نام بھی تھے اور ہم وطن بھی ،دونوں کا نام ابراہیم تھا،دونوں اپنے وقت کے جلیل القدر امام تھے اور لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں کا شہر بھی ایک تھا،دونوں کوفہ کے باشندے تھے۔۔۔
حجاج کی گورنری کا زمانہ تھا،حکومت کے خلاف لب ہلانا اپنی موت کو دعوت دینا تھا،ہزاروں کے سر اس جرم کی پاداش میں قلم کیے جاچکے تھے۔لیکن اہل حق کی زبانیں خوف تلوار سے کب چپ رہنے والی تھیں۔
چنانچہ ان دو ابراہیموں میں سے ایک کی زبان حجاج کے خلاف چلی۔۔۔اور شدہ شدہ خبر حکومت کے ایوانوں تک پجنچ گي۔۔
حجاج کے شرطے (پولیس) اس ابراہیم کو گرفتار کرنے نکلے جس نے حکومت کے خلاف زبان کھولی تھی لیکن نام ایک ہونے کی وجہ سے اس ابراہیم کے گھر پہنچے جو ان کے دوست تھے۔۔۔
یہ ابراہیم اگرچاہتے تو یہ کہ کر جان چھڑاسکتے تھے کہ وہ ابراہیم میں نہیں ہوں،،وہ تو فلاں محلے میں رہایش رکھتے ہیں۔۔۔
لیکن ان کے ضمیر نے گوارا نہیں کیا کہ وہ اپنے دوست کو گرفتار کرواۓ چنانچہ شوق سے گرفتاری دے دی۔۔۔شرطے انہیں لیکر جیل میں ڈال گۓ۔۔۔
وہاں ان پر جو گزری سو گزری۔۔۔قید قید ہوتی ہے اور پھر قید پھی وہ جو حجاج جیسے جابر کے کے زیر انتظام ہو۔۔۔۔۔
ایک دن اس قیدی ابراہیم کی ماں ان سے ملنے آي تو دیکھا کہ بجاۓ ان کے لخت جگرکے سامنے ہڈبوں کا ایک ڈھانچہ کھڑا ہے۔۔۔پہچان نہ سکی۔۔بیٹے کو اپنی پہچان کرانی پڑی۔۔۔۔۔۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ابراہیم نے اپنی بقبیہ زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنی قبول کی لیکن اپنے دوست کو آزمایش میں ڈالنا گوارا نہیں کیا۔۔۔
یہاں تک کہ جیل ہی سے اس کا جنازہ اٹھا۔۔۔۔۔۔
جیل کی صعوبتیں قبول کرنے والے اپنے وقت کے امام ابراہیم تیمی رح تھے اور
اور جس دوست کی خاطر یہ سب کچھ کیا گیا اس کو تاریخ امام ابراہیم نخعی رح کے نام سے جانتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ بندے کو سزا کیوں دیتا ہے؟

‫‏اللہ‬ بندے کو‏سزا‬ کیوں دیتا ہے؟
مجھے اس سوال کا ایسا جواب ملا کہ آج تک مطمئن ہوں
ہمارے ویٹنری ڈپارٹمٹ کے پروفیسر ہوا کرتے تھے
میرے اُن سے اچھے مراسم تھے 
یہ یو نیورسٹی میں میرا تیسرا سال تھا
اک دفعہ میں انکے دفتر گیا۔ 
مجھ سے کہنے لگے: مہران اک مزے کی بات سناؤں تمہیں؟ ؟
جی سر ضرور
پچھلے ہفتے کی بات ہے 
میں اپنے دفتر می‍ں بیٹھا تھا 
اچانک اک غیر معمولی نمبر سے مجھے کال آئ:
"پندرہ منٹ کے اندر اندر اپنی سراونڈگنز کی کلیئرنس دیں!""
ٹھیک پندرہ منٹ بعد پانچ بکتر بند گاڑیاں گھوم کے میرے آفس کے اطراف میں آکر رکیں 
سول وردی میں ملبوس تقریباً حساس اداروں کے لوگ دفتر می‍ں آئے
ایک آفیسر آگے بڑھا
امریکہ کی سفیر آئ ہیں 
انکے کتے کو پرابلم ہے اسکا علاج کریئے
تھوڑی دیر بعد اک فرنگی عورت 
انکے ساتھ انکا ایک عالی نسل کا کتا بھی تھا __
کہنے لگیں 
میرے کتے کے ساتھ عجیب و غریب مسئلہ ہے 
میرا کتا نافرمان ہوگیا ہے _
اسے میں پاس بلاتی ہوں یہ دور بھاگ جاتا ہے 
خدارا کچھ کریے یہ مجھے بہت عزیز ہے اسکی بے عتنائ مجھ سے سہی نہیں جاتی
میں نے کتے کو غور سے دیکھا ___
پندرہ منٹ جائز لینے کے بعد میں نے کہا
میم!!
یہ کتا ایک رات کے لیے میرے پاس چھوڑ دیں میں اسکا جائزہ لے کے حل کرتا ہوں 
اس نے بے دلی سے حامی بھرلی 
سب چلے گئے.
میں نے کمدار کو آوز لگائ
فیضو اسے بھینسوں والے بھانے میں باندھ کے آ۔۔۔ 
سن اسے ہر آدھے گھنٹے بعد چمڑے کے لتر مار۔۔ 
ہر آدھے گھنٹے بعد صرف پانی ڈالنا.
جب پانی پی لے تو پھر لتر مار______!!!
کمدار جٹ آدمی تھا۔ ساری رات کتے کے ساتھ لتر ٹریٹ منٹ کرتا رہا.
صبح پورا عملہ لئے میرے آفس کے باہر
سفیر زلف پریشاں لئے آفس میں آدھمکی
________Sir what about my pup ?
I said ___Hope your pup has missed you too .....
کمدار کتے کو لے آیا.
جونہی کتا کمرے کے دروازے میں آیا 
چھلانگ لگا کے سفیر کی گود میں آبیٹھا 
لگا دم ہلانے منہ چاٹنے ________!!!
کتا مُڑ مڑ تشکر آمیز نگاہوں سے مجھے تکتا رہا.
میں گردن ہلا ہلا کے مسکراتا رہا_____
سفیر کہنے لگی: سر آپ نے اسکے ساتھ کیا کیا کہ اچانک اسکا یہ حال ہے _____؟؟؟
میں نے کہا: 
ریشم و اطلس ، ایئر کنڈیشن روم، اعلی پائے کی خوراک کھا کھا کے یہ خودکو مالک سمجھ بیٹھا تھا اور اپنے مالک کی پہچان بھول گیا.
بس 
اسکا یہ خناس اُتارنے کے لیے اسکو ذرا سائیکولوجیکل پلس فیزیکل ٹریٹمنٹ کی اشد ضروت تھی ____وہ دیدی۔۔۔ ناؤ ہی از اوکے
Apart from the humour, Now read the first sentence again to understand the message
#اللہ بندے کو سزا کیوں دیتا ہے؟ 
مجھے اس سوال کا ایسا جواب ملا کہ آج تک مطمئن ہوں.
سمجھنے والے اپنے ضمیر کی عدالت میں اپنے آپ کو ضرور کھڑا کرے گے. 
اللہ پاک تو ہمیں 70 ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے اور ہم ایک دن میں کتنی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن اس دن میں استعمال کرنے والی نعمتوں کا شکر ایک دن بھی نہیں کرتے.
غفلتوں میں ڈوبے ہوئے جب وہ مالک اپنی یاد دلاتا ہے تو تھوڑی دیر کے لئے ہم اسکو مان لیتے ہیں اور پھر وہی دنیا کی دور بھاگ وہی نہ شکری وہی نافرمانی
ایک دن تو اسکے پاس ہی جانا ہے ہم نے اور کچھ نہیں تو نماز کو اپنی عادت بنا لیجیے .
اللہ پاک مجھے اور آپ سب کو اپنی اصلاح کی توفیق عطا فرماۓ آمین

Friday, November 6, 2015

ایک نصیحت

میں ٹیکسی میں بیٹھا تو وقت گزاری کیلئے ڈرائیور سے بات چیت شروع کردی، اس سے انٹرویو لینے لگا۔
اس نے بتایا کہ وہ پہلے ایمبولینس چلاتا تھا۔ یہ سُن کر مجھے بڑا تجسس ہوا۔
میں نے پوچھا آپ نے تو بہت مشکل مشکل حالات میں کام کیا ہوگا۔
اس نے بتایا کہ جب کراچی کے حالات بہت خراب ہوا کرتے تھے تو اپنی جانوں پر کھیل کر زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا کرتا تھا۔
میں نے اس سے پوچھا کہ زندگی کا کوئی ایسا تجربہ جو بھیانک ترین ہو؟
ہونہہ!!!! تھوڑی دیر سوچنے کے بعد کہنے لگا: بھیانک تو نہیں یاد لیکن ایک ایسا واقعہ یاد ہے جو بہت سبق آموز ہے۔
پھر اس نے بتایا: ایک دفعہ مجھے اطلاع دی گئی کہ صدر میں پارکنگ پلازہ کے پاس فائرنگ ہوئی ہے، کوئی زخمی ہوا ہے اسے ہسپتال پہنچانا ہے۔
میں قریب تھا، وہاں جانے لگا تو پارکنگ پلازہ پر ٹریفک جام ملا، سائرن آن کرکے جب راستہ بنانے کی کوشش کی تو اس دوران ایک انکل نے ایمبولینس کے سامنے گاڑی لاکر روک دی اور مجھے اتر کر کھری کھری سنائیں کہ ایمبولینس میں کوئی نہیں ہے اور تم بلاوجہ سائرن بجا کر ہمارے کانوں میں درد کر رہے ہو۔ میں نے انکو لاکھ سمجھایا کہ یہاں فائرنگ سے کوئی زخمی ہوا ہے اس کو لیکر جانا ہے، لیکن وہ سناتے رہے، میں انکو چھوڑ کر ایمبولینس لیکر گیا اور زخمی کو ہسپتال پہنچایا۔
زخمی کی حالت نازک تھی لیکن اب تک کوئی جاننے والا نہیں آیا تھا ، اطلاع کردی گئی تھی۔
جب میں ہسپتال کے اندر سے باہر آرہا تھا تو دیکھا کہ وہی انکل بھاگے چلے آرہے ہیں جنہوں نے مجھے سنائی تھیں، زخمی شخص انکا بھائی تھا۔
وہ مجھ سے مل کر بہت شرمندہ تھے، لیکن اس موقع پر میں انکو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اسلیئے جلدی سے باہر نکل گیا۔
وپ پورا قصہ سُنا کر کانوں کو ہاتھ لگانے لگا۔
میں نے بھی ایک نصیحت حاصل کرلی تھی!!!

Thursday, November 5, 2015

محبت الٰہی

امریکہ میں ایک نوجوان کلمہ گو مسلمان تھا، دفترمیں کام کرتا تھا، دفتر میں کام کرنے والی ایک امریکن لڑکی سے محبت ہوگئی، اس نے یہ محسوس کیا کہ اب وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا، چنانچہ اس نے اس کے والدین کو پیغام بھیجا کہ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں....
اس کے والدین نے شرط رکھی کے تمہیں عیسائی بننا پڑے گا، والدین سے قطع تعلق کرنا پڑے گا، اپنے ملک وآپس نہیں جاوٴگے.... وغیرہ وغیرہ....
یہ جذبات میں اتنے مغلوب تھا کہ تمام شرائط مان لیں ، ماں باپ ، بہن بھائیوں، قریب رشتہ داروں سے ،ملک سے اور جس کمیونٹی میں رہتا تھا ، سب سے ناطہ توڑ لیا.اور عیسائیوں کے طریقے کے مطابق عیسائی بن کر شادی کرلی... تین چار سال اسی طرح گذر گئے،یہاں تک کے دوست احباب سبھی دور ہوتے چلے گئے،تین چار سال اسی حال میں گذر گئے، یہاں تک کے دوست احباب سب کی یاداشت سے بھی نکلنے لگ گیا، بھولی بسری چیز بنتا چلا گیا...
ایک دن امام صاحب نے فجر کی نماز کیلئے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ یہ نوجوان آیا اس نے وضو کیا اور مسجد میں نماز کی صف میں بیٹھ گیا۔ امام صاحب بڑے حیران ، خیر انھوں نے نماز پڑھائی اور اس کے بعد اس کو سلام کیا پھر اسکو اپنے حجرے میں لے گئے، اور محبت پیار سے ذرا پوچھا کہا: " آج بڑی مدت کے بعد زیارت نصیب ہوئی۔" اسوقت اس نے اپنی حالت بتائی کہ ......!
"میں نے اس لڑکی کی محبت میں اپنا سب کچھ قربان کردیا، لیکن جس گھر میں رہتا تھا میرے اس گھر میں اللّٰہ کا کلام "قرآن" رکھا ہوتا تھا، میں جب کبھی آتا جاتا، اس پر میری نظر پڑتی ، تو میں دل میں سوچتا کہ یہ میرے مولا کا کلام ہے، یہ میرے اللّٰہ کا قرآن ہے اور میرے گھر میں موجود ہے میں اپنے نفس کو ملامت کرتا.."
اعمال تو میرے برے تھے لیکن دل مجھے کہا کرتا تھا کہ نہیں جس کا کلمہ پڑھا میں اس سے محبت ضرور کرتا ہوں ، اس کی نشانی میرے گھر میں موجود ہے، اس طرح کئی سال گذر گئے، ایک دن میں آفس سے گھر وآپس آیا اور حسب معمول میں نے گذرتے ہوئے اس جگہ پر نظر ڈالی مجھے قرآن وہاں نظر نہ آیا، میں نے بیوی سے پوچھا کہ یہاں جو کتاب رکھی تھی وہ کہاں ہے؟
"اس نے کہا :" میں نے گھر کی صفائی کی تھی اس میں غیر ضروری چیزوں کو میں نے پھینک دیا ہے،۔"
میں نے پوچھا: "اس کتاب کو بھی ؟
اس نے کہا:" ہاں"
"میں فوراً وہاں سے اٹھ کر آیا اور کوڑے پھینکنے کی جگہ سے اس کتاب کو اٹھا کر لے آیا۔"
جب میری بیوی نے دیکھا کے میں وہ کتاب وآپس لے آیا ہوں اور اس کتاب کا بہت احساس کررہا ہوں تو اس نے کہا:" اگر اس کتاب کا تعلق اسلام سے ہے تو دیکھو یا تو یہ کتاب اس گھر میں رہے گی یا پھر میں اس گھر میں رہونگی۔تمہیں اسمیں سے کسی ایک کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوگا۔"
وہ کہنے لگا:" میرے لئے زندگی میں عجیب وقت تھا میں نے اپنے دل سے پوچھا کہ تونے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے وہ کچھ کرلیا جو تجھے نہیں کرنا چاہیے تھا ۔"
آج تیرا رشتہ پروردگار سے ہمیشہ کے لئے ٹوٹ جائے گا، اب تو فیصلہ کرلے کے کس کے ساتھ رہنا چاہتاہے؟
جب میں نے یہ سوچا تو دل سے آواز آئی کہ نہیں میں اپنے رب سے کبھی بھی نہیں کٹنا چاہتا، میں نے اسی وقت وقت فیصلہ کرلیا کہ میں اب اپنے رب کو نہیں چھوڑونگا، اور میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔
"میں نے دوبارہ کلمہ پڑھا، اپنے مولا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور دل سے توبہ کی ، اب میں سچا پکا مسلمان بن چکا ہوں۔"
سوچئے اتنے غافل کے دل میں بھی اللّٰہ رب العزت کی محبت کا بیج موجود تھا۔ مسلمان کبھی نفس اور کبھی شیطان کے دھوکے میں آکر اپنے رب کی یاد سے غافل ہوجاتا ہے، لیکن اگر اللّٰہ کی محبت کا ادراک ہوجائے تو پھر رب کے لئے اس دنیا کو بھی چھوڑ دیتاہے۔
اللّٰہ تعالٰی سے ہر وقت اسکی محبت اور ایمان پر استقامت سے چلنے کی دعا کرتے رہنا چاہیے، پتہ نہیں کب نفس کا شر اور شیطان کا دھوکا اللّٰہ کی محبت پر حاوی ہوجائے۔
محبت الٰہی سے ماخوذ...

برقی مواصلات

ان برقی مواصلات نے رشتوں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ جونہی ذہن میں خیال آیا ٹکسٹ مسج کی صورت میں زو کرکے ہوا کے دوش پر فریق مخالف تک پہنچ گیا۔ نہ نظر ثانی کا موقع نہ اس سے مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ۔
اگر یہ مسج مثبت ہو تب تو ٹھیک ہے مگر عام طور پر ایسا کم ہوتا ہے۔ اب گھریلو لڑائیاں ٹکسٹ مسجز پر لڑی جاتی ہیں۔
میاں بیوی سارا دن مسجز کا تبادلہ کرکے دل کی بھڑاس نکالتے رہتے ہیں۔ جو بات منہ پر نہیں کہی جاسکتی وہ بسہولت ٹکسٹ ہوجاتی ہے۔ گالیاں، کوسنے، طعن و تشنیع ، گلے شکوے برقی رفتار سے سفر کرتے ہیں اور برق رفتاری سے نفرتوں کو ہوا دیتے ہیں۔
میاں بیوی کو ایک اصول بنانا چاہئے کہ انکے درمیان ٹکسٹ کا تبادلہ صرف مثبت ہوگا۔ منفی باتیں ساری روبرو بیٹھ کر کی جائیں گی تاکہ دل آزاری کم سے کم ہو اور رشتوں کو بکھرنے سے بچایا جا
سکے۔

میاں بیوی

بس میاں بیوی کے درمیاں محبت ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی سب خیر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جتنی مرضی چھک چھک ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جتنی مرضی ڈفرنس آف اپینئین ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جتنی مرضی طعن و تشنیع ہو ۔۔۔۔۔۔۔ محبت سب کھا جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محبت مینڈنگ فورس ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ سیمینٹنگ فورس ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر جوڑ دیتی ہے سب کچھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نشان تک باقی نہیں رہتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا تو یہی اائیڈیل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے شروع میں ہی دیکھ لیا تھا کہ چھوٹی چھوٹی بک بک ہوتی ہی رہیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہوتی ہی رہے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے محبت کا اظہار اور بڑھا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تعریفیں اور زیادہ کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحفے تحائف اور زیادہ کر دیے ۔۔۔۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ سینس آف ہیومر بڑھا دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچوں کو انوالو کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر لڑائی بے معنی ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر اختلاف اپنی موت مارا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں جو یہ چاہتے ہیں کہ کبھی لڑائی نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شائد غلط سوچ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ لڑائی ہونے دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اسے ختم کرنا سیکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے کا احساس ختم نہ ہونے دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن میاں بیوی کے درمیان لڑائی نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔ ان میں یقیناً محبت بھی نہیں ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مستقل طور پر ایک دوسرے سے روٹھ چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے نہیں چاہئے ایسی روکھی پھیکی زندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے ریلیشنز میں جوش اور گرمی پسند کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہ پر بات کرنا پسند کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن دوسرے کو مارنے کے لئے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے کو توڑنے کے لئے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے نیچا دکھانے کے لئے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انڈرسٹینڈنگ پیدا کرنے کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب تو ہم کسی بات پر بحث شروع کریں تو بچے پوائنٹ سکور کرنے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہنس ہنس کے ان کا برا حال ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میرا بیٹا کہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار پاپا آج تم ٹھیک نہیں کھیلے ۔۔۔۔۔۔۔ میری بیٹی کہتی ہے آج ماما کچھ فارم میں نہیں ہیں پاپا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کل بتائیں گی آپ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ بھی چائے پینے لگے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ساتھ چمٹ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں بھی اسی کپ میں چسکیاں لینے لگوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی نہ کوئی پروگرام لگا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم اس پر بات چیت شروع کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ بالکل اور ہی انداز میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ایک بات ہنڈرڈ پرسنٹ وثوق سے کہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ کہ میری بیوی انجوائے کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تھوڑی بہت لڑائی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ کئی بار درمیان میں ہنس پڑتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں میں نے یہ بات نہیں کہنی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل میں میں نے یہ بات کرنی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ میرے منہ سے نکل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو آئیندہ میں اس طرح کہوں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں کہتا ہوں میں تمہیں کبھی مایوس نہیں کروں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس وقت چاہے لڑ لو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی لڑائی کیا لڑائی ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے یہ شرٹ نہیں پہننی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے بھی ہزار بار کہہ چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔ کیوں کرتی ہو پرس اسی کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو آگے سے نہیں کروں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس اب خاموش ہو جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھے معلوم ہوتا ہے وہ پھر کرے گی ۔۔۔۔۔۔۔

بھاؤ تاؤ

کئی سال پہلے کالج میں میری ایک ٹیچر نے ایک بات سمجھائی کہ گلی میں پھیری لگانے والوں سے کبھی بھاؤ تاؤ نہ کریں۔ چلچلاتی گرمی ہو یا ٹھٹھرا دینے والی سردی۔ برستی بارش ہو یا تیز آندھی طوفان، یہ غریب ریڑھی بان صبح سے شام تک محنت کرتے ہیں اور بمشکل اتنا کماتے ہیں کہ اپنے بیوی بچوں کو روکھی سوکھی کھلا سکیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ بڑے سپر سٹورز سے بخوشی مہنگے داموں چیز خرید لیں گے لیکن سبزی والے سے دھنیا اور مرچ پر بھی بحث شروع کر دیں گے۔ اس بات کو اپنی عادت بنا لیں کہ ان غریب محنت کشوں سے بھاؤ تاؤ نہ کریں۔ صدقہ کی نیت کر لیں کہ اگر وہ زیادہ بھی لے رہا ہے تو اللہ تعالی اسے آپکی طرف سے صدقہ قبول فرما لیں۔ اشفاق احمد کی بات یاد آ رہی ہے کہ "دتّے وچوں دینا اے" یعنی اللہ کے دیئے سے ہی آگے دینا ہے۔ جو لوگ دینے کے لئے ہاتھ کھلا رکھتے ہیں، دنیا میں بھی اللہ پاک انکے مال میں برکت ڈالتے ہیں۔ اللہ پاک ہر ایک کے مال میں برکت ڈالے اور ہر طرح کی مالی و معاشی محتاجی سے اپنی امان میں رکھے۔ آمین

یہ تصویر

جب میں نے یہ تصویر دیکھی ' پھر کتنی دیر میں بس اسے دیکھتا ھی رہ گیا.. دکھ اور بے بسی کی ایک عجیب ھی کیفیت نے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا.. گھٹنوں میں سر دئیے اس شخص کا دکھ اور بے بسی جیسے مین نے خود اپنی ذات میں گھلتی محسوس کی.. میرے دل سے ایک ھی حسرت پکارتی رہ گئی.. کاش کہ میں اس کی مدد کر سکتا.. اسکے دکھ جتنا بھی کم کرتا مگر کاش کہ میں ایسا کر سکتا.. مگر میں نہیں جانتا کہ یہ کون ھے اور کہاں ھے..
تب میرے بوجھل دل میں ایک اور خیال پیدا ھوا.. ایک سوال..
کیا واقعی میں اسے نہیں جانتا..؟ کیا واقعی میں نہیں جانتا کہ یہ شخص کہاں ھے..؟
اور پھر میں نے اس شخص کو اپنے آس پاس "چاچا غلام حسین" کی صورت میں.. "محمد یونس ' حبیب اللہ ' عمر حیات " اور نجانے کس کس کی شکل میں دیکھا..
یہ شخص اکیلا تو نہیں ھے.. اس جیسے مجبور اور غریب بےبس انسان تو پاکستان کے چپے چپے میں ھیں..
میں اس شخص کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تو کیا "چاچا غلام حسین، محمد یونس، حبیب اللہ کی بھی مدد نہیں کر سکتا..؟
خدارا آپ بھی اس شخص کی خاطر آنسو مت بہائیں ' اسکی خاطر دلگرفتہ مت ھوں بلکہ اپنے آس پاس اس ھی جیسے کسی بےبس کی مدد کو پہنچیں..
ایک اپنی ھی خاطر جیے تو کیا خاک جیے.. اور پھر کسی کی مدد کرکے تو دیکھیں ' روح طمانیت سے بھر جاۓ گی..
میری آپ سب سے اپیل ھے.. پلیز پلیز اپنے آس پاس ایسا ھی کوئی شخص ڈھونڈیے اور اس کی مدد کو پہنچیے.. ان شاءاللہ یہ عمل آپ کی آخرت ھی نہیں دنیا بھی سنوار دے گا.. خدارا سوچیے گا ضرور.. آج کسی کے کام آجائیں ' روز قیامت یہ عمل آپ کے کام آۓ گا..
اللہ ھم سب کو ایک دوسرے کے دکھ بانٹنے کی توفیق بخشے آمین..

گزشتہ تیس سال سے ...

ایک بیٹا اپنے بوڑھے والد کو یتیم خانے میں چھوڑ کر واپس لوٹ رہا تھا؛اس کی بیوی نے اسے یہ یقینی بنانے کے لئے فون کیا کہ والد تہوار وغیرہ کی چھٹی میں بھی وہیں رہیں گھر نہ چلے آیا کریں!بیٹا پلٹ کے گیا تو پتہ چلا کہ اس کے والد یتیم خانے کے سربراہ کے ساتھ ایسے گھل مل کر بات کر رہے ہیں کہ بہت پرانے اور قریبی تعلق ہوں ...تبھی اس کے باپ اپنے کمرے کا بندوبست دیکھنے کے لئے وہاں سے چلے گئے ..اپنا تجسس ٹھنڈا کرنے کے لئے بیٹے نے یتیم خانے سربراہ سے پوچھ ہی لیا ..."آپ میرے والد کو کب سےجانتے ہیں؟ "انہوں نے مسکراتے ہوئے نے جواب دیا ..."گزشتہ تیس سال سے ... جب وہ ہمارے پاس ایک یتیم بچے کو گود لینے آئے تھے!"