وہ دونوں ہم نام بھی تھے اور ہم وطن بھی ،دونوں کا نام ابراہیم تھا،دونوں اپنے وقت کے جلیل القدر امام تھے اور لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں کا شہر بھی ایک تھا،دونوں کوفہ کے باشندے تھے۔۔۔
حجاج کی گورنری کا زمانہ تھا،حکومت کے خلاف لب ہلانا اپنی موت کو دعوت دینا تھا،ہزاروں کے سر اس جرم کی پاداش میں قلم کیے جاچکے تھے۔لیکن اہل حق کی زبانیں خوف تلوار سے کب چپ رہنے والی تھیں۔
چنانچہ ان دو ابراہیموں میں سے ایک کی زبان حجاج کے خلاف چلی۔۔۔اور شدہ شدہ خبر حکومت کے ایوانوں تک پجنچ گي۔۔
حجاج کے شرطے (پولیس) اس ابراہیم کو گرفتار کرنے نکلے جس نے حکومت کے خلاف زبان کھولی تھی لیکن نام ایک ہونے کی وجہ سے اس ابراہیم کے گھر پہنچے جو ان کے دوست تھے۔۔۔
یہ ابراہیم اگرچاہتے تو یہ کہ کر جان چھڑاسکتے تھے کہ وہ ابراہیم میں نہیں ہوں،،وہ تو فلاں محلے میں رہایش رکھتے ہیں۔۔۔
لیکن ان کے ضمیر نے گوارا نہیں کیا کہ وہ اپنے دوست کو گرفتار کرواۓ چنانچہ شوق سے گرفتاری دے دی۔۔۔شرطے انہیں لیکر جیل میں ڈال گۓ۔۔۔
وہاں ان پر جو گزری سو گزری۔۔۔قید قید ہوتی ہے اور پھر قید پھی وہ جو حجاج جیسے جابر کے کے زیر انتظام ہو۔۔۔۔۔
ایک دن اس قیدی ابراہیم کی ماں ان سے ملنے آي تو دیکھا کہ بجاۓ ان کے لخت جگرکے سامنے ہڈبوں کا ایک ڈھانچہ کھڑا ہے۔۔۔پہچان نہ سکی۔۔بیٹے کو اپنی پہچان کرانی پڑی۔۔۔۔۔۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ابراہیم نے اپنی بقبیہ زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنی قبول کی لیکن اپنے دوست کو آزمایش میں ڈالنا گوارا نہیں کیا۔۔۔
یہاں تک کہ جیل ہی سے اس کا جنازہ اٹھا۔۔۔۔۔۔
جیل کی صعوبتیں قبول کرنے والے اپنے وقت کے امام ابراہیم تیمی رح تھے اور
اور جس دوست کی خاطر یہ سب کچھ کیا گیا اس کو تاریخ امام ابراہیم نخعی رح کے نام سے جانتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔