مجھے اپینڈکس کی پرابلم ہوئی اسی وقت
میری ماں گرُدے کی تکلیف میں مبتلا تھی۔,۔ میں نے اپنی ماں کے چہرے کو دیکھا, اس پر پھیلے آثار کو دیکھا۔۔ اس کو اپنے گردوں کی تکلیف بھول گئی اور اپنے بیٹے کی فکر پڑ گئی, جلدی سے مجھے ہسپتال لے گئیں۔ آپریشن ٹھیٹر میں لے جایا گیا تو ڈاکڑر تو دروازہ بند کرنے لگے تو میری نظر میری ماں پر پڑی۔ وہ منظر کیسا منظر تھا۔۔۔۔۔۔۔
وہ میری آنکھوں میں نقش ہو گیا۔ میں نے اپنی ماں پر ایک نظر ڈالی تو اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ ایسے چکر لگا رہی تھیں جیسے کوئی پرندہ اپنے بچوں کے لئے خطرہ محسوس کرے تو بے چینی اور کرب میں گھونسلے کے گرد منڈلاتا ہے۔ میری ماں نے ڈاکڑ سے کچھ بولا تو ہچکی سے آواز بند ہو گئی۔ حالانکہ یہ ایک مائنر آپریشن تھا لیکن اپنی ماں کی وہ کیفیت یاد آتی ہے تو آنسو پانی کی طرح آنکھوں سے جاری ہو جاتے ہیں۔
آپریشن کے بعد جب میری ماں میرے پاس بیٹھی اور ماتھے پر ہاتھ رکھا تو سب بھول گیا۔۔۔۔۔ آدھی تکلیف ختم ہو گئی۔۔ ساری رات ایک پل کو نہیں سوئیں۔۔ صبح کے وقت کچھ پل کے لئے مجھے تھوڑا بہتر محسوس ہوا تو اپنی ماں کو دیکھا۔ وہ اٹھیں اپنے درد کی وجہ سے کراہ رہی تھیں لیکن میرے لئے فوراً ڈاکڑ کی ہدایت پر دوسرے فلور سے نیچے گئیں اور میرے لئے جوس اور کچھ کھانے کو لے کر آئیں۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ہر چیز کا مشاہدہ کر رہا تھا۔۔ ماں کو اپنی فکر نہ تھی۔۔ وہ اپنا درد بھول کر اپنی ساری توجہ مجھ پر مرکوز کیئے ہوئے تھی۔۔ اور وہ سارے مناظر میری آنکھوں میں جامد ہو کر رہ گئے۔۔
سوچتا ہوں اللہ تعالٰی نے ماں کو کیسی محبت عطا کر دی کہ اولاد دُکھ دیتی ہے پر وہ ایک لفظ نہیں بولتی۔ بس اُس کے لئے اپنی اولاد کی تکلیف اپنی تکلف پر غالب آ جاتی ہے۔۔
لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسی ماں کی اتنی بڑی بڑی قربانیان ہم بھلا دیتے ہیں۔ ہم تو یہ بھی نہیں سوچھتے کہ اس کو ہماری کسی بات کا دیکھ ہو گا۔۔ جو زخم اولاد دیتی ہے ماں انھیں بھی اپنے سینے سے لگا لیتی ہے۔۔ مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔۔ کاش ہم اپنی ماں کی قربانیاں سمجھ پائیں لیکن جب سمجھنا شروع کرتے ہیں تو اُس وقت ماں نہیں ہوتی!