Friday, November 13, 2015

اللہ کی توفیق اور ہماری کوشش

میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں مگر دل نہیں کرتا،اس کے چہرے پر اداسی کے تاثرات نمایاں تھے،
میں نے توجہ کی تو ایک نوجوان مصلے کی دائیں جانب بیٹھا تھا،
کوئی بات نہیں آپ ہمت کریں اور کوشش کریں کہ نماز نہ چھوٹنے پائے،
میں نے سمجھایا۔
مگر اللہ کی توفیق ہو گی تو پڑھوں گا ناں، اس کے سوال پر میں چونک گیا،
میں نے پوچھا،
آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟
دیکھیں ناں! ہم جتنی بھی ہمت کر لیں مگر وہ توفیق دے گا تو ہم کھڑے ہوسکتے ہیں ناں،وہ توفیق ہی نہ دے تو ہم کیسے نماز کی عبادت ادا کریں گے۔۔
میں خاموشی سے اس کی بات سنتا رہا،
اس نے بات مکمل کی اور میری طرف دیکھا،
میں نے پوچھا،
آپ نے حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ پڑھا ہے؟
جی! مکمل تو نہیں مگر علم ہے ،اس نے جواب دیا
اچھا آپ کو پتہ ہے ناں کہ جب یوسف علیہ السلام کو عورت نے بہلایا تو آپ بھاگے ،میں نے پھر پوچھا،
جی بالکل! اور پھر دروازے بھی کھل گے تھے،اس نے قدرے دلچسپی سے جواب دیا،۔
میں خاموش ہوا،،
پھر مخاطب ہوا،
دیکھو!
ایک ہوتی ہے اللہ کی توفیق،اور ایک ہوتی ہے ہماری کوشش
توفیق اصل میں ایک نتیجہ ہے اور اس نتیجہ کو حاصل کرنے کا نام کوشش ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام جب بھاگے تو دروازے کھل گے،
اب ذرا غور سوچو!
کہ حضرت یوسف علیہ السلام تو نبی ہیں اور نبی کے پاس عام انسان سے زیادہ علم ہوتا ہے،تو آپ بھاگے ہیں دروازے کی طرف حالانکہ آپ کو علم ہے کہ دروازوں کو تالے لگے ہوئے ہیں ،آپ کو تو بھاگنا تھا چابی کی طرف تاکہ دروازے کھول سکیں،مگر آپ دروازے کی طرف ہی کیوں بھاگے ہیں؟
درحقیقت آپ علیہ السلام نے کوشش کی،اور آپ نے جب گناہ سے بچنے کی کوشش مکمل کی تو پھر اللہ کی "توفیق" متوجہ ہوئی اور دروازے کھل گے،اگر آپ نہ بھاگتے اور وہیں کھڑے رہتے تو کبھی بھی دروازے نہیں کھلتے،
وہ غور سے سب سن رہا تھا،
میں نے مزید بات جاری رکھی:
تو بھئی!
کوشش کرو،جب کوشش کرو گے تو اللہ کی توفیق ملے گی،یوں بیٹھے رہے تو نماز کی توفیق نہیں ملے گی۔
تو جتنا تمہارا کام ہے تم اتنا تو کرو،
باقی جو اللہ کا کام ہے وہ اس کو اچھی طرح کرنا جانتا ہے۔۔۔
میں خاموش ہوا،
وہ نوجوان سلام کرکے صف کی طرف چل پڑا۔۔۔

Wednesday, November 11, 2015

صدقہ یا قرض حسنہ


تنخواہ(پیسوں)کو مہینے کی آخری تاریخ تک بچانے کا نسخہ
(عربی سے ترجمہ شدہ)

یہ واقعہ ایک سعودی نوجوان کا ہے،یہ اپنی زندگی سے مطمئن نہیں تها،اس کی تنخواہ صرف چار ہزار ریال تهی،شادی شدہ ہونے کیوجہ سے اس کے اخراجات اس کی تنخواہ سے کہیں زیادہ تهے،مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی اس کی تنخواہ ختم ہو جاتی اور اسے قرض لینا پڑتا، یوں وہ آہستہ آہستہ قرضوں کی دلدل میں ڈوبتا جارہا تها ،اور اس کا یقین بنتا جا رہا تها کہ اب اس کی زندگی اسی حال میں ہی گزرے گی، باوجودیکہ اس کی بیوی اسکے مادی حالت کا خیال کرتی ،لیکن قرضوں کے بوجه میں تو سانس لینا بهی دشوار ہوتا ہے.
ایک دن وہ اپنے دوستوں میں مجلس میں گیا ،وہاں اس دن ایک ایسا دوست بهی موجود تها جو صاحب رائے آدمی تها اور اس نوجوان کا کہنا تها کہ میں اپنے اس دوست کے مشوروں کو قدر کی نگاہ سے دیکهتا تها،کہنے لگا میں نے اسے باتوں باتوں میں اپنی کہانی کہہ سنائی اور اپنی مالی مشاکل اس کے سامنے رکهیں ، اس نے میری بات سنی اور کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ تم اپنی تنخواہ میں سے کچه حصہ صدقہ کے لیے مختص کرو، اس سعودی نوجوان نے حیرت سے کہا : جناب مجهے گهر کے خرچے پورے کرنے لیے قرضے لینے پڑتے ہیں اور آپ صدقہ نکالنے کا کہہ رہے ہیں؟
خیر میں نے گهر آ کر اپنی بیوی کو ساری بات بتائی تو بیوی کہنے لگی : تجربہ کرنے میں کیا حرج ہے ؟ ہو سکتا ہے اللہ جل شانہ تم پر رزق کے دروازے کهول دے .
کہتا ہے میں نے ماہانہ 4 ہزار ریال میں سے 30 ریال صدقہ کے لیے مختص کرنے کا ارادہ کیا.اور مہینے کے آخر میں اسے ادا کرنا شروع کردیا.
سبحان اللہ ! قسم کها کر کہتا ہوں میری تو حالت ہی بدل گئی، کہاں میں ہر وقت مالی ٹینشوں میں اور سوچوں میں رہتا تها اور کہاں اب میری زندگی گویا پهول ہو گئی تهی ، ہلکی پهلکی آسان ،قرضوں کے باوجود میں خود کو آزاد محسوس کرتا تها ایک ایسا ذہنی سکون تها کہ کیا بتاوں.
پهر چند ماہ بعد میں نے اپنی زندگی کو سیٹ کرنا شروع کیا ، اپنی تنخواہ کو حصوں میں تقسیم کیا ، اور یوں ایسی برکت ہوئی جیسے پہلے کبهی نہی  ہوئی تهی.میں حساب لگا لیا اور مجهے اندازہ ہو گیا کہ کتنی مدت میں اِنشاءاللہ قرضوں کے بوجه سے میری جان چهوٹ جائی گی.
پهر اللہ جل شانہ نے ایک اور راستہ کهولا اور میں نے اپنے ایک عزیز کے ساته اس کے پراپرٹی ڈیلنگ کے کام میں حصہ لینا شروع کیا ، میں اسے گاہک لا کردیتا اور اس پر مجهے مناسب پرافٹ حاصل ہوتا.
الحمدللہ ! میں جب بهی کسی گاہک کے پاس جاتا وہ مجهے کسی دوسرے تک راہنمائی ضرور کرتا .
میں یہاں پر بهی وہی عمل دوہراتا کہ مجهے جب بهی پرافٹ ملتا میں اس میں سے اللہ کے لیے صدقہ ضرور نکالتا.

اللہ کی قسم صدقہ کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا سوائے اس کے جس نے اسے آزمایا ہو.
صدقہ کرو، اور صبر سے چلو ، اللہ کا فضل سے خیر و برکتیں اپنی آنکهوں برستے دیکهو گے.

نوٹ :
1. جب آپ کسی مسلمان کو تنخواہ میں سے صدقہ کے لیے رقم مختص کرنےکاکہیں گے اور وہ اس پر عمل کرےگا تو آپ کو بهی اتنا ہی اجرملے گا جتنا صدقہ کرنے والے کو ملے گا، اور صدقہ دینے والے کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی،

سوچیے !!!
 آپ اس دنیا سے چلے جائیں گے اور آپکے سبب آپکے پیچهے کوئی صدقہ کررہاہو گا

2. ایسے ہی اگر آپ نے یہ رسالہ (میسج) آگے نشرکیا اور کسی نے صدقہ دینے کا معمول بنا لیاآپ کے لیے بهی صدقہ دینے والے کے مثل اجرہے.
(جیسے میں نے اس میسج کو پڑه کر صدقہ کرنے کا معمول بنایا ، اور قسم کها کہتا ہوں مجهے سب سے زیادہ فرق میری ذہنی حالت پر پڑا ،ایک ایسا اطمئنان محسوس ہوتا ہے کہ جسکا جواب نہیں.مترجم)
میرے عزیز!!!
اگرچہ آپ طالب علم ہیں ، اور آپکو لگا بندها وظیفہ ملتاہے تب بهی آپ تهوڑا بہت جتناہوجائے کچه رقم صدقہ کے لیے ضرور مختص کریں.

اگر صدقہ کرنے والا جان لے اور سمجه لے کہ اس کا صدقہ فقیر کے ہاته میں جانے سے پہلے اللہ کے ہاته میں جاتا ہے تو یقینا دینے والے کو لذت لینے والے سے کہیں زیادہ ہو گی.

کیا آپ صدقہ کے فوائد معلوم ہیں؟
خاص طور پر 17، 18، 19 کو توجہ سے پڑهیے گآ

سن لیں !
صدقہ دینے والے بهی اور جو اس کا سبب بنتے ہیں وہ بهی!!!
1. صدقہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے
2. صدقہ اعمال صالحہ میں افضل عمل ہے ، اور سب سے افضل صدقہ کهانا کهلانا ہے.
3. صدقہ قیامت کے دن سایہ ہو گا، اور اپنے دینے والے کو آگ سے خلاصی دلائے گا
4. صدقہ اللہ جل جلالہ کے غضب کو ٹهنڈا کرتا ہے، اور قبر کی گرمی کی ٹهنڈک کا سامان ہے
5. میت کے لیے بہترین ہدیہ اور سب سے زیادہ نفع بخش چیز صدقہ ہے، اور صدقہ کے ثواب کو اللہ تعالی بڑهاتے رہتے ہیں
6. صدقہ مصفی ہے، نفس کی پاکی کا ذریعہ اور نیکیوں کو بڑهاتا ہے
7. صدقہ قیامت کے دن صدقہ کرنے والے کے چہرے کا سرور اور تازگی کا سبب ہے
8. صدقہ قیامت کی ہولناکی کے خوف سے امان ہے ، اور گزرے ہوئے پر افسوس نہیں ہونے دیتا.
9. صدقہ گناہوں کی مغفرت کا سبب اور سئیات کا کفارہ ہے.
10. صدقہ خوشخبری ہے حسن خاتمہ کی ، اور فرشتوں کی دعا کا سبب ہے
11. صدقہ دینے والا بہترین لوگوں میں سے ہے ، اور اس کا ثواب ہر اس شخص کو ملتا ہے جو اس میں کسی طور پر بهی شریک ہو.
12. صدقہ دینے والے سے خیر کثیر اور بڑے اجر کا وعدہ ہے
13. خرچ کرنا آدمی کو متقین کی صف میں شامل کردیتا ہے، اور صدقہ کرنے والے سے اللہ کے مخلوق محبت کرتی ہے.
14. صدقہ کرنا جود و کرم اور سخاوت کی علامت ہے
15. صدقہ دعاوں کے قبول ہونے اور مشکلوں سے نکالنے کا ذریعہ ہے
16. صدقہ بلاء )مصیبت( کو دور کرتا ہے ، اور دنیا میں ستر دروازے برائی کے بند کرتا ہے
17. صدقہ عمر میں اور مال میں اضافے کا سبب ہے.کام یابی اور رزق کا سبب ہے.
18.  صدقہ علاج بهی ہے دواء بهی اور شفاء بهی...
19. صدقہ آگ سے جلنے، غرق ہونے ، چوری  اور بری موت کو روکتا ہے
20. صدقہ کا اجرملتا ہے ، چاہے جانوروں اور پرندوں پر ہی کیوں ناہو..
آخری بات :
بہترین صدقہ اس وقت یہ ہے کہ آپ اس میسج کو صدقہ کی نیت سے آگے نشر کر دیں.

ہماری زندگی ہماری کارکردگی

ہماری زندگی ہماری کارکردگی کا عکس ہوتی ہے۔
ایک لڑکا اپنے باپ کے ہمراہ پہاڑوں کے درمیان ٹہل رہا تھا۔ اچانک وہ لڑکا اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور گر پڑا۔ اُسے چوٹ لگی تو بے ساختہ اُس کے حلق سے چیخ نکل گئی! ’’آہ… آ… آ… آ!‘‘
اُس لڑکے کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اُسے پہاڑوں کے درمیان کسی جگہ یہی آواز دوبارہ سنائی دی ’’آہ… آ… آ… آ!‘‘
تجسس سے وہ چیخ پڑا ’’تم کون ہو؟
اُسے جواب میں وہی آواز سنائی دی ’’تم کون ہو؟‘‘
اس جواب پر اُسے غصہ آگیا اور وہ چیختے ہوئے بولا، ’’بزدل!‘‘ اُسے جواب ملا ’’بزدل!‘‘
تب لڑکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘
اُس کا باپ مسکرا دیا اور بولا ’’میرے بیٹے! اب دھیان سے سنو!‘‘
اور پھر باپ نے پہاڑوں کی سمت دیکھتے ہوئے صدا لگائی ’’میں تمھیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔‘‘
آواز نے جواب دیا ’’میں تمھیں خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔‘‘
وہ شخص دوبارہ چیخ کر بولا ’’تم چیمپیئن ہو!‘‘
آواز نے جواب دیا ’’تم چیمپیئن ہو!‘‘
لڑکا حیران رہ گیا، لیکن اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
تب اُس کے باپ نے اُسے سمجھایا ’’لوگ اِسے’’بازگشت‘‘ کہتے ہیں،
لیکن حقیقت میں یہ زندگی ہے۔ یہ تمھیں ہر وہ چیز لوٹا دیتی ہے جو تم کہتے یا کرتے ہو۔ ہماری زندگی ہماری کارکردگی کا عکس ہوتی ہے۔
اگر تم دنیا میں زیادہ پیار چاہتے ہو تو اپنے دل میں زیادہ پیار پیدا کرو۔
اگر تم اپنی ٹیم میں زیادہ استعداد چاہتے ہو تو اپنی استعداد بہتر بنائو۔ یہ تعلق ہر وہ شے لوٹا دیتا ہے جو تم نے اُسے دی ہوتی ہے۔ تمھاری زندگی کوئی اتفاق نہیں، یہ تمھارا ہی عکس ہے۔

Monday, November 9, 2015

ماں کی محبت کا ایک احوال


مجھے اپینڈکس کی پرابلم ہوئی اسی وقت 
میری ماں گرُدے کی تکلیف میں مبتلا تھی۔,۔ میں نے اپنی ماں کے چہرے کو دیکھا, اس پر پھیلے آثار کو دیکھا۔۔ اس کو اپنے گردوں کی تکلیف بھول گئی اور اپنے بیٹے کی فکر پڑ گئی, جلدی سے مجھے ہسپتال لے گئیں۔ آپریشن ٹھیٹر میں لے جایا گیا تو ڈاکڑر تو دروازہ بند کرنے لگے تو میری نظر میری ماں پر پڑی۔ وہ منظر کیسا منظر تھا۔۔۔۔۔۔۔ 
وہ میری آنکھوں میں نقش ہو گیا۔ میں نے اپنی ماں پر ایک نظر ڈالی تو اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ ایسے چکر لگا رہی تھیں جیسے کوئی پرندہ اپنے بچوں کے لئے خطرہ محسوس کرے تو بے چینی اور کرب میں گھونسلے کے گرد منڈلاتا ہے۔ میری ماں نے ڈاکڑ سے کچھ بولا تو ہچکی سے آواز بند ہو گئی۔ حالانکہ یہ ایک مائنر آپریشن تھا لیکن اپنی ماں کی وہ کیفیت یاد آتی ہے تو آنسو پانی کی طرح آنکھوں سے جاری ہو جاتے ہیں۔
آپریشن کے بعد جب میری ماں میرے پاس بیٹھی اور ماتھے پر ہاتھ رکھا تو سب بھول گیا۔۔۔۔۔ آدھی تکلیف ختم ہو گئی۔۔ ساری رات ایک پل کو نہیں سوئیں۔۔ صبح کے وقت کچھ پل کے لئے مجھے تھوڑا بہتر محسوس ہوا تو اپنی ماں کو دیکھا۔ وہ اٹھیں اپنے درد کی وجہ سے کراہ رہی تھیں لیکن میرے لئے فوراً ڈاکڑ کی ہدایت پر دوسرے فلور سے نیچے گئیں اور میرے لئے جوس اور کچھ کھانے کو لے کر آئیں۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ہر چیز کا مشاہدہ کر رہا تھا۔۔ ماں کو اپنی فکر نہ تھی۔۔ وہ اپنا درد بھول کر اپنی ساری توجہ مجھ پر مرکوز کیئے ہوئے تھی۔۔ اور وہ سارے مناظر میری آنکھوں میں جامد ہو کر رہ گئے۔۔
سوچتا ہوں اللہ تعالٰی نے ماں کو کیسی محبت عطا کر دی کہ اولاد دُکھ دیتی ہے پر وہ ایک لفظ نہیں بولتی۔ بس اُس کے لئے اپنی اولاد کی تکلیف اپنی تکلف پر غالب آ جاتی ہے۔۔
لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسی ماں کی اتنی بڑی بڑی قربانیان ہم بھلا دیتے ہیں۔ ہم تو یہ بھی نہیں سوچھتے کہ اس کو ہماری کسی بات کا دیکھ ہو گا۔۔ جو زخم اولاد دیتی ہے ماں انھیں بھی اپنے سینے سے لگا لیتی ہے۔۔ مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔۔ کاش ہم اپنی ماں کی قربانیاں سمجھ پائیں لیکن جب سمجھنا شروع کرتے ہیں تو اُس وقت ماں نہیں ہوتی!

حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے معجزانہ تصرفات

صرف چند روٹیاں اور 70 سے 80 افراد ہو کھانے والے۔۔۔!
ایک دن حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے گھر میں آئے اور اپنی بیوی حضرت اُمِ سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ 
میں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی کمزور آواز سے یہ محسوس کیا کہ آپ بھو کے ہیں۔ 
اُمِ سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے "جو" کی چند روٹیاں دوپٹہ میں لپیٹ کر حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ آپ کی خدمت میں بھیج دیں۔ 
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب بارگاہِ نبوت میں پہنچے تو آپ صلی اللہعلیہ وسلم مسجد نبوی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مجمع میں تشریف فرما تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا ابو طلحہ نے تمہارے ہاتھ کھانا بھیجا ہے؟
انہوں نے کہا کہ ” جی ہاں ” یہ سن کر آپ اپنے اصحاب کے ساتھ اٹھے اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان پر تشریف لائے۔
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے دوڑ کر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس بات کی خبردی،
انہوں نے بی بی اُمِ سلیم سے کہا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ایک جماعت کے ساتھ ہمارے گھر پر تشریف لا رہے ہیں۔
حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مکان سے نکل کر نہایت ہی گرم جوشی کے ساتھ آپ کا استقبال کیا آپ نے تشریف لاکر حضرت بی بی اُمِ سلیم رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہو لاؤ ۔
انہوں نے وہی چند روٹیاں پیش کر دیں جن کو حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ بارگاہ رسالت میں بھیجا تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان روٹیوں کا چورہ بنایا گیا اور حضرت بی بی اُمِ سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس چورہ پر بطور سالن کے گھی ڈال دیا، ان چند روٹیوں میں آپ کے معجزانہ تصرفات سے اس قدر برکت ہوئی کہ آپ دس دس آدمیوں کو مکان کے اندر بلا بلا کر کھلاتے رہے اور وہ لوگ خوب شکم سیر ہو کر کھاتے اور جاتے رہے یہاں تک کہ ستر یا اسی آدمیوں نے خوب شکم سیر ہو کر کھا لیا۔
(بخاری جلد۱ ص ۵۰۵ علامات النبوة و بخاری جلد۲ ص ۹۸۹)

Sunday, November 8, 2015

دوست ہوں تو ابسے


وہ دونوں ہم نام بھی تھے اور ہم وطن بھی ،دونوں کا نام ابراہیم تھا،دونوں اپنے وقت کے جلیل القدر امام تھے اور لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں کا شہر بھی ایک تھا،دونوں کوفہ کے باشندے تھے۔۔۔
حجاج کی گورنری کا زمانہ تھا،حکومت کے خلاف لب ہلانا اپنی موت کو دعوت دینا تھا،ہزاروں کے سر اس جرم کی پاداش میں قلم کیے جاچکے تھے۔لیکن اہل حق کی زبانیں خوف تلوار سے کب چپ رہنے والی تھیں۔
چنانچہ ان دو ابراہیموں میں سے ایک کی زبان حجاج کے خلاف چلی۔۔۔اور شدہ شدہ خبر حکومت کے ایوانوں تک پجنچ گي۔۔
حجاج کے شرطے (پولیس) اس ابراہیم کو گرفتار کرنے نکلے جس نے حکومت کے خلاف زبان کھولی تھی لیکن نام ایک ہونے کی وجہ سے اس ابراہیم کے گھر پہنچے جو ان کے دوست تھے۔۔۔
یہ ابراہیم اگرچاہتے تو یہ کہ کر جان چھڑاسکتے تھے کہ وہ ابراہیم میں نہیں ہوں،،وہ تو فلاں محلے میں رہایش رکھتے ہیں۔۔۔
لیکن ان کے ضمیر نے گوارا نہیں کیا کہ وہ اپنے دوست کو گرفتار کرواۓ چنانچہ شوق سے گرفتاری دے دی۔۔۔شرطے انہیں لیکر جیل میں ڈال گۓ۔۔۔
وہاں ان پر جو گزری سو گزری۔۔۔قید قید ہوتی ہے اور پھر قید پھی وہ جو حجاج جیسے جابر کے کے زیر انتظام ہو۔۔۔۔۔
ایک دن اس قیدی ابراہیم کی ماں ان سے ملنے آي تو دیکھا کہ بجاۓ ان کے لخت جگرکے سامنے ہڈبوں کا ایک ڈھانچہ کھڑا ہے۔۔۔پہچان نہ سکی۔۔بیٹے کو اپنی پہچان کرانی پڑی۔۔۔۔۔۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ابراہیم نے اپنی بقبیہ زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنی قبول کی لیکن اپنے دوست کو آزمایش میں ڈالنا گوارا نہیں کیا۔۔۔
یہاں تک کہ جیل ہی سے اس کا جنازہ اٹھا۔۔۔۔۔۔
جیل کی صعوبتیں قبول کرنے والے اپنے وقت کے امام ابراہیم تیمی رح تھے اور
اور جس دوست کی خاطر یہ سب کچھ کیا گیا اس کو تاریخ امام ابراہیم نخعی رح کے نام سے جانتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔