Thursday, June 11, 2020

لوگوں کو معاف کرو

اس نے جیسے ہی کیل کو لکڑی کے اوپر رکھا ساتھ دوسرے ہاتھ میں ہتھوڑی اُٹھائی تو اپنے کندھے کے پاس سے لاتے ہوئے بہت شدت کے ساتھ کیل پے دے ماری. 

جیسے ہی ہتھوڑی کیل پے لگی تو کیل لکڑی کو چیرتے ہوئے دوسری طرف کو جا نکلا، 

لکڑی نے کیل سے کہا کے تمہیں ذرا سا بھی احساس نہیں ہوا میرا؟ 

تو اس پر کیل نے جواب دیا کہ اگر تمہیں پتہ چل جائے نہ کے میرے سر پہ کس شدت سے وار ہوا ہے تو تم اپنی تکلیف کو بھول جاؤ گی اور یقیناً مجھے معاف کر دو گی. 

کیا ہی اچھا ہو نہ کے ہم ایک دوسرے کو اسی طرح معاف کر دیں یہ سمجھ کر شاید اگلا ہم سے بھی زیادہ تکلیف میں ہو. 

تم لوگوں کو معاف کرو اللہ تمہیں معاف کرے گا.. 

بے شک بدلہ لینے سے زیادہ معاف کرنے کا اجر ہے..

Friday, May 29, 2020

ایک کے بعد دوسرا

مسافر اسٹیشن پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کی ٹرین جاچکی ہے۔ اس کی گھڑی صحیح نہ تھی اس لئے وہ دس منٹ لیٹ ہوگیا۔ اتنی دیر میں ٹرین آکر چلی گئی۔ "بابوجی، فکر نہ کیجئے" قلی نے کہا "دو گھنٹے بعد ایک اور گاڑی آرہی ہے، اس سے آپ چلے جائیں۔ اتنی دیر پلیٹ فارم پر آرام کرلیجئے"۔ مسافر نے قلی کا مشورہ مان لیا اور دو گھنٹے انتظار کے بعد اگلی ٹرین میں سوار ہو کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ 
ہر مسافر جانتا ہے کہ ایک ٹرین چھوٹ جائے تو جلد ہی دوسری ٹرین مل جاتی ہے جس سے وہ اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ یہ پلیٹ فارم کا سبق ہے۔ مگر اکثر لوگ اس معلوم سبق کو اس وقت بھول جاتے ہیں جبکہ زندگی کی دوڑ میں ایک موقع ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہو۔ پہلی بار ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد وہ مایوس ہوجاتے ہیں یا احتجاج و فریاد کے مشغلہ میں لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد کے لئے نیا منصوبہ بنائیں، وہ "اگلی ٹرین" سے چل کر اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔ 
ایک شخص جس سے آپ کی مخالفت ہوگئی ہو اور ٹکراو٘ کا طریقہ جس کو "درست" کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہو، آپ اس کے بارے میں اپنا رویہ بدل دیجئے۔ اس کو نرمی کے طریقہ سے متاثر کرنے کی کوشش کیجئے۔ عین ممکن ہے کہ پرانے طریقے نے جس کو آپ کا دشمن بنا رکھا تھا، نئے طریقہ کے بعد وہ آپ کا ایک کارآمد دوست ثابت ہو۔ آپ کہیں ملازم ہیں اور وہاں آپ کی ملازمت ختم کردی جاتی ہے، آپ اس کے پیچھے نہ پڑئے بلکہ دوسرے کسی میدان میں اپنے لئے ذریعہ معاش تلاش کرنے کی کوشش کیجئے۔ ہوسکتا ہے کہ نیا کام آپ کے لئے پہلے سے زیادہ نفع بخش ثابت ہو۔ کوئی آپ کا ھق نہیں دیتا۔ اس سے آپ کی لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔ سالوں گزر جاتے ہیں اور آپ اپنے حقوق کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ آپ اس کا خیال چھوڑ دیجیئے اور اپنی محنت پر بھروسہ کیجئے۔ بہت ممکن ہے کہ اپنی محنت کا کام میں لاکر آپ خود وہ چیز حاصل کرلیں جس کو آپ دوسروں سے مانگ کر پانا چاہتے ہیں۔ 

انسان کی شخصیت

ایک برتن میں پانی ہے۔ اس سے ایک قطرہ ٹپکا۔ یہ قطرہ اگر بدبودار ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ برتن کا سارا پانی بدبودار ہے۔ پانی کا قطرہ پانی کے پورے ذخیرے کا نمائندہ ہے۔ پانی کا ایک قطرہ جیسا ہے، سمجھ لیجئے کہ سارا پانی ویسا ہی ہوگا، یہی معاملہ انسان کا بھی ہے۔ ہر انسان گویا پانی کا ایک ذخیرہ ہے اس ذخیرہ سے بار بار اس کی بوندیں ٹپکتی رہتی ہیں۔ ان ظاہر ہونے والی بوندوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اندر کا انسان کیسا ہوگا۔ کسی آدمی سے آپ بات کریں اور بات چیت کے دوران اس کی زبان سے ایک ہلکی بات نکل جاءے، کسی آدمی سے آپ معاملہ کریں اور معاملہ میں وہ کمزوری دکھائے، کسی ادمی کے ساتھ آپ کا سفر پیش آءے اور سفر میں اس کی طرف سے کوئی برا سلوک ظاہر ہو تو یہ اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ وہ آدمی اچھا نہیں۔ 
آدمی ایک مکمل مجموعہ ہے، جیسے برتن کا پانی ایک مجموعہ ہوتا ہے۔ کسی آدمی سے ایک کمزور ظاہر ہو تو وہ اس کی شخصیت کا انفرادی یا استثنائی واقعہ نہ ہوگا بلکہ وہ اس کی پوری شخصیت کا اظہار ہوگا۔ وہ ایک عکس ہوگا جس میں اس کی پوری شخصیت جھلک رہی ہوگی۔ کوئی آدمی کسی معاملہ میں کمزور ثابت ہوتو سمجھ لیجئیے کہ وہ ہر معاملہ میں کمزور ہے۔ آدمی ایک معاملہ میں ناقابل اعتماد ثابت ہونے کے بعد ہر معاملے میں اپنے آپ ک ناقابل اعتماد ثابت کردیتا ہے۔ اس کلیہ میں صرف اس ایک استثناء ہے اور وہ اس انسان کا ہے جو اپنے محاسبہ کرتا ہو۔ جس کے اندر احتساب کی صلاھیت زندہ ہو۔ جو بار بار اپنے اندر جھانک کر دیکھتا ہو کہ اس نے کیا صحیح کیا اور کیا غلط کیا۔ اس کی زبان کس موقع پر انصاف کی بات بولی اور کس موقع پر وہ انصاف سے ہٹ گئی۔ 
ایک شخص تجربہ میں غلط ثابت ہو۔ اس کے بعد کو اس اپنی غلطی کا احساس ہو اور وہ آپ سے معافی مانگے تو سمجھ لیجئیے کہ وہ صحیح انسان ہے۔ وہ غلطی کرکے اس کی تصحیح کرنا جانتا ہے۔ مگر جس کا حال یہ ہو کہ اس سے قول یا فعل کی غلطی صادر ہو اس کے بعد اس کا ضمیر اسے نہ تڑپائے۔ اس کے اندر احتساب کی کیفیت نہ جاگے اور اس کی زبان معافی مانگنے کے لیے نہ کھلے تو ایسا انسان بالکل بے قیمت انسان ہے وہ اس قابل نہیں کہ اس پر کسی معاملہ میں بھروسہ کیا جاسکے۔ 

بنیاد


مکان کی تعمیر کا آغاز بنیاد سے ہوتا ہے۔ ایک انجینئر کو "اسکائی اسکریپر" بنانا ہوتو تب بھی وہ بنیاد ہی سے آغاز کرے گا۔ بنیاد سے آغاز کرنا دوسرے لفظوں میں اس حقیقت واقعہ کا اعتراف کرنا ہے کہ آدمی کہاں کھڑا ہوا ہے اور وہ کون سا نقطہ ہے جہاں سے وہ اپنے سفر کا آغاز کرسکتا ہے۔ 
اس دنیا میں ہم اکیلے نہیں ہیں۔ یہاں ایک طرف قدرت ہے جو ہم سے الگ خود اپنے قوانین پر قائم ہے۔ اس کے ساتھ یہاں دوسرے انسان ہیں۔ ان میں سے ہر انسان کے سامنے اپنا مقصد ہے اور ہر شخص اپنے مقصد کر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایسی حالت میں ضروری ہے کہ ہم ان حقیقتوں کو جانیں اور ان کی رعایت کرتے ہوئے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ 
زندگی کا سب سے بڑا راز حقیقت واقعہ کا اعتراف ہے۔ اعتراف کرنے والا آدمی اس بات کو ثبوت دیتا ہے کہ جو جس طرح اپنے "ہے" کو جانتا ہے اسی طرح وہ اپنے "نہیں" سے بھی واقف ہے۔ وہ ایک طرف اگر یہ جانتا ہے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول ہے تو اسی کے ساتھ وہ اس سے بھی باخبر ہے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول نہیں۔ وہ آغاز اور انجام کے فرق کو جانتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ اپنا پہلا قدم اسے کہاں سے اٹھانا ہے اور وہ کون سا مقام ہے جہاں وہ آخر کار اپنے کو پہنچانا چاہتا ہے۔ 
اعتراف بزدلی نہیں، اعتراف سب سے بڑی بہادری ہے۔ اعتراف کرکے آدمی بے عزت نہیں ہوتا، وہ عزت کے سب سے بڑے مقام کو پالیتا ہے۔ جو شخص اعتراف نہ کرے وہ گویا فرضی خیالات میں جی رہا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اعتراف کرے وہ اس بات کو ثبوت دیتا ہے کہ اس نے فرضی تخیلات کے طلسم کو توڑ دیا ہے۔ وہ حقائق کی دنیا میں سانس لے رہا ہے۔ وہ چیزوں کو ویسا ہی دیکھ رہا ہے جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔ 
چیزوں کو ان کی اصل صورت میں دیکھنا دانش مندی ہے کا آغاز ہے۔ جس آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہو وہی کامیابی کے آخری زینہ پر پہنچتا ہے۔ جس آدمی کے اندر یہ صلاحیت نہ ہو وہ یا تو اپنا سفر شروع نہ کرسکے گا اور اگر سفر شروع ہوگیا تب بحی وہ درمیان میں اٹک کر رہ جائے گا۔ وہ کبھی آخری منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ 

جواب کا طریقہ

ایک آدمی نے ایک بزرگ کی تعریف کی۔ اس نے کہا کہ وہ ایسے پہنچے ہوئے بزرگ تھے کہ وہ نماز کی حالت میں مرے۔ گویا ان کی موت خدا کی گود میں ہوئی۔ سننے والا کچھ دیر چپ رہا، اس کے بعد بولا: خدا کے رسول صلعم کی وفات ہوئی تو وہ اپنی اہلیہ کی گود میں تھے اور بزرگ کی وفات خدا کی گود میں ہوئی۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ بزرگ خدا کے رسول سے بھی زیادہ پہنچے ہوئے تھے۔ یہ جواب اتنا وزنی تھا کہ اس کو سن کر آدمی خاموش ہوگیا۔ 
سننے والے نے مذکورہ بزرگ کے حالات پڑھے تھے۔ اس میں اس کو کہیں یہ بات نہیں ملی تھی کہ بزرگ کی موت نماز کی حالت میں ہوئی۔ تاہم اس نے نے سوچا کہ اگر میں یہ کہتا ہوں کہ یہ بات کہاں لکھی ہے یا کس ذریعہ سے ثابت ہوتی ہے تو خوامخواہ کی بحث شروع ہوجائے گی اور وہ کہیں ختم نہ ہوگی۔ چنانچہ اس نے اس سوال کو نہیں چھیڑا۔ اس نے ایسی بات کہی جو نہ صرف یقینی تھی بلکہ اپنے عمومی پہلو کی بنا پر وہ آدمی کو چپ کردینے والی تھی۔ چنانچہ لمبی بحث کی نوبت نہ آئی اور ایک یہ جملہ سارے سوال کا جواب بن گیا۔ 
یہی ایسے معاملات میں جواب دینے کا صحیح طریقہ ہے۔ اگر آدمی ایسا کرے کہ وہ مخاطب کی بات سنتے ہی فوراً اس سے الجھ نہ جائے بلکہ تھم کر سوچے کہ اس کا صحیح اور موثر جواب کیا ہوسکتا ہے تو یقینی طور پر وہ ہر سوال کا ایسا جواب پالے گا جو اس قدر فیصلہ کن ہو کہ لمبی بحث و تکرار کی نوبت نہ آئے اور صرف ایک جملہ پورے سوال کے لئے فیصلہ کن بن جائے۔ 
سب سے برا جواب وہ ہے جس میں سوال کرنے والا اور جواب دینے والا دونوں الجھ جائیں اور بالآخر اس طرح الگ ہوں کہ دونوں میں سے کوئی ہار ماننے کے لئے تیار نہ ہوا تھا۔ اور سب سے اچھا جواب وہ ہے جب کہ جواب دینے والا ایسا سوچا سمجھا ہوا وزنی جواب دے جس کے بعد سوال کرنے والے کی سمجھ ہی میں نہ آئے کہ اس کے آگے وہ کیا کہہ سکتا ہے۔ 

مسائل اور مواقع


یہ ایک بہت بامعنی بات ہے۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہی موجود دنیا میں کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔ جو شخص اس گہری حکمت کو جانے اور اس کو استمعال کرے وہی اس دنیا میں کامیاب ہوتا ہے جو شخص اس حکمت کو نہ جانے اور اس کو استعمال نہ کرسکے اس کے لیے ناکامی کے سوا اور کوئی چیز مقدر نہیں۔ 
اصل یہ ہے کہ موجود دنیا میں آدمی ہمیشہ دو قسم کی چیزوں کے درمیان رہتا ہے۔ ایک مسائل اور دوسرے مواقع۔ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کچھ مسائل میں گھرا ہوا ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہمیشہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آدمی کے قریبی ماحول میں کچھ قیمتی مواقع موجود ہوتے ہیں جن کو بھرپور استعمال کرکے وہ ایک کامیابی کی منزل کو پہنچ سکتا ہے۔ یہ صورتحال ایک فرد کے ساتھ بھی پیش آتی ہے اور پوری قوم کے ساتھ بھی۔ 
یہی وہ مقام ہے جہاں موجودہ دنیا لوگوں کا امتحان لے رہی ہے۔ جو شخص صرف اپنے مسائل کو دیکھے اور اس میں الجھ جائے وہ اپنے مواقع کھو دے گا۔ اس کے برعکس جو شخص مواقع کو دیکھے اور ان کو بھرپور استعمال کرے وہ مسائل میں زیادہ توجہ نہ دے سکے گا۔ مسائل کو کھلانا مواقع کو بھوکا رکھنے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ اسی طرھ جو شخص مواقع کو کھلائے گا وہ اس قیمت پر ہوگا کہ اس کے مسائل بھوکے رہ جائیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مواقع کو استعمال کرنے کے لیے ہمیشہ مسائل کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ 
تجربہ بتاتا ہے کہ مسائل میں الجھنا کبھی کسی کے لیے مفید نہیں ہوتا۔ آخری نتیجہ کے طور پر وہ صرف وقت کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ مگر جو شخص اپنے آپ کو مواقع کے استعمال میں لگاتا ہے وہ نہ صرف مواقع کا فائدہ حاصل کرتا ہے بلکہ اس کی کامیابی بالواسطہ طور پر اس چیز کو بھی حل کردیتی ہے جس کو مسائل کہتے ہیں۔ 

برتر کامیابی


موجودہ دنیا میں اعلٰی درجہ کا کام انجام دینے والا بننے کے لیے کسی طلسماتی صلاحیت کی ضرورت نہیں۔ ایک اوسط درجہ کا آدمی بھی انتہائی اعلٰی درجہ کی کارکردگی کا ثبوت دے سکتا ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ آدمی زندگی کی سادہ حقیقتوں کو جانے اور ان کو استعمال کرے۔ 
[ریڈرز ڈائجسٹ، اکتوبر ۱۹۸۶]

ایک امریکی مصنف نے باقاعدہ طور پر اس کی تحقیق کی۔ اس کا کہنا ہے کہ تجارت، سیاست اسپورٹ اور آرٹ کے میدان میں اس نے ۹۰ ممتاز افراد سے رابطہ قائم کیا۔ ان کی اکثریت نے ناکامی کو "غلط آغاز" کا نتیجہ قرار دیا۔ مایوسیاں ان کے لیے زیادہ طاقتور ارادہ کا سبب بن گئیں۔ حالات خواہ کتنے ہی خراب ہوں، اعلٰی درجے کا کام انجام دینے والے ہمیشہ محسوس کرتے ہیں کہ یہاں کچھ نئے گوشے ہیں جن کو وہ دریافت کرسکتے ہیں۔ ان کے پاس ہمیشہ کوئی نیا تصور ہوتا ہے جس کا وہ دوبارہ تجربہ کریں۔ 
اگر آپ ناکامی سے دوچار ہوں اور اس ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دیں تو آپ کے اندر عمل کا جذبہ ٹھنڈا پڑجائے گا۔ آپ صرف دوسروں کے خلاف احتجاج اور شکایت میں مشغول رہیں گے اور خود کچھ نہ کرسکیں گے۔ لیکن اگر آپ اپنی ناکامی کو خود اپنی غلط کارکردگی کا نتیجہ سمجھیں تو آپ کا ذہن نئی زیادہ بہتر تدبیر سوچنے میں لگ جائے گا۔ آپ سست پڑنے کے بجائے مزید پہلے سے زیادہ متحرک ہوجائیں گے۔ آپ ازسرنو جدوجہد کرکے ہاری ہوئی بازی کو دوبارہ شاندار تر شکل میں جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ 
ناکامی کی ذمہ داری خود قبول کیجئے۔ ایک تدبیر کارگر نہ ہورہی ہو تو دوسری تدبیر کا تجربہ کیجئے۔ آپ یقیناً اعلٰی کامیابی تک پہنچ جائیں گے۔ 

شکایت


شکایت ایسی چیز ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ نہ صرف عام انسان بلکہ پیغمبروں کے بارے میں بھی بڑی بڑی شکایتیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ حتی کہ نعوذ باللہ خود خدا بھی شکایتوں سے مستثنی نہیں۔ بے شمار لوگ ہیں جو اپنی مصیبتوں کے لیے خدا کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ فلسفہ میں ایک مستقل بحث ہے جس کو بگاڑ کا مسئلہ کہا جاتا ہے۔ اس کے دعویدار کہتے ہیں کہ یا تو خدا کا وجود نہیں ہے۔ اور اگر خدا ہے تو وہ کامل معیار والا نہیں۔ خدا اگر کامل معیار والا ہوتا تو دنیا میں بگاڑ کیوں ہوتا۔ 
شکایت کبھی واقعہ ہوتی ہے اور کبھی محض شکایت کرنے والے شخص کے اپنے ذہن کا نتیجہ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ جب تم کسی کے خلاف کوئی بات سنو تو اس کی تحقیق کرو [الحجرات ۶]۔  تحقیق سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ بات صحیح تھی یا نہیں۔ 
شکایت کی بہت سے قسمیں ہیں۔ ان میں سے سے بری قسم وہ ہے جو احساس کمتری کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ ایک شخص اپنے کو بطور خود بڑا سمجھ لیتا ہے۔ اب اگر اس کا سابقہ کسی ایسے شخص سے پڑے جس کو خدا نے اس سے اوپر کردیا ہو تو یہ اول الذکر شخص کے لیےبڑا سخت لمحہ ہوتا ہے۔ عام طور پر وہ تسلیم نہیں کرپاتا کہ دوسرا شخص بڑا ہے اور وہ چھوٹا۔  وہ اپنی بڑائی کے ٹوٹنے کو برداشت نہیں کرپاتا۔ اس کی شخصیت پھٹ جاتی ہے وہ اپنی بڑائی کو باقی رکھنے کے لیے دوسرے شخص کو غلط ثابت کرنا شروع کردیتا ہے۔ وہ اس پر جھوٹا الزام لگاتا ہے۔ وہ اس کی تحقیر کرتا ہے تاکہ اپنے جذبہ برتری کی تسکین حاصل کرے۔ وہ اس کی عزت پر حملہ کرتا ہے تاکہ اس کو بے عزت کرکے اپنے متکبرانہ نفسیات کو غذا فراہم کرے۔ وہ خود ساختہ طور پر طرح طرح کی باتیں نکال کر اس کو چھوٹا ظاہر کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے یہ اطمینان حاصل کرسکے کہ وہ بڑا ہے ہی نہیں۔ آدمی اگر حقیقت واقعہ کے اعتراف کے لیے تیار رہے تو تمام شکایتوں کی جڑ کٹ جائے۔ آدمی چونکہ حقیقت کا اعتراف نہیں کرتا، اس لیے وہ اپنے آپ کو شکایت سے اوپر اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ 

Saturday, May 16, 2020

بامقصد ذندگی


ایکسپریس ٹرین پوری رفتار سے اپنی منزل کی طرف بھاگی چلی جارہی ہے۔ راستہ میں دونوں طرف سرسبز کھیتوں اور ڈبڈبائے ہوئے نالوں اور ندیوں کا مسلسل منظر اپنی طرف کھینچتا ہے۔ مگر تیز دوڑتی ہوئی ٹرین کو ان خوش نما مناظر سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پستی اور بلندی، خشکی اور پانی اس کی رفتار میں کوئی فرق پیدا نہیں کرتے۔ راستہ میں چھوٹے چھوٹے اسٹیشن آتے ہیں مگر وہ ان کو چھوڑتی ہوئی اس طرح بھاگی چلی جاتی ہے گویا اسے کہیں ٹھہرنا نہیں ہے۔

بامقصد زندگی کا معاملہ بھی کچھ اسی قسم کا ہے۔ جس آدمی نے اپنی زندگی کا ایک مقصد بنارکھا ہو، اس کی ساری توجہ اپنے مقصد میں لگ جاتی ہے۔ ادھر ادھر کے مسائل میں وہ اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔

بامقصد زندگی گزارنے والا آدمی ایک ایسے مسافر کی طرح ہوتا ہے جو اپنا ایک ایک لمحہ اپنی منزل کی طرف بڑھنے میں لگادینا چاہتا ہے۔ دنیا کے خوش نما مناظر ایسے مسافر کو لبھانے کیلئے سامنے آتے ہیں، مگر وہ ان سے آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ سائے اور اقامت گاہیں اس کو ٹھہرنے اور آرام کرنے کی ترغیب دیتی ہیں مگر وہ ان کو چھوڑتا ہوا اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔ دوسری چیزوں کے تقاضے اس کا راستہ روکتے ہیں مگر وہ ہر ایک سے دامن بچاتا ہوا بڑھتا چلا جاتا ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز اس سے ٹکراتے ہیں مگر اس کے باوجود اس کے عزم اور اس کی رفتار میں کوئی فرق نہیں آتا۔

بامقصد آدمی کی زندگی ایک بھٹکے ہوئے آدمی کی مانند نہیں ہوتی جو سمت سفر متعین نہ ہونے کی وجہ سے کبھی ایک طرف چلنے لگتا ہے اور کبھی دوسری طرف۔ بلکہ اس کے ذہن میں راستہ اور منزل کا واضح شعور ہوتا ہے۔ اس کے سامنے ایک متعین نشانہ ہوتا ہے۔ ایسا آدمی کیسے کہیں رک سکتا ہے۔ کیسے وہ دوسری چیزوں میں الجھ کر اپنا وقت ضائع کرنے کے پسند کرسکتا ہے۔ اس کو تو ہر طرف سے اپنی توجہ ہٹا کر ایک متعین رخ پر بڑھنا ہے اور بڑھتے رہنا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مقصد کو پالے، یہاں تک وہ اپنی منزل پر پہنچ جائے۔

زندگی کو بامعنی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ آدمی کے سامنے ایک سوچا ہوا نشانہ ہو۔ جس کی صداقت پر اس کا ذہن مطمئن ہو۔ جس کے سلسلے میں اس کا ضمیر پوری طرح اس کا ساتھ دے رہا ہو، جو اس کے رگ و پے میں خون کی طرح اترا ہوا ہو۔ یہی مقصدی نشانہ کسی انسان کو جانور سے الگ کرتا ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں۔ اور جس آدمی کے اندر مقصدیت آجائے اس کی زندگی لازماً ایک اور زندگی بن جائے گی۔ وہ چھوٹی چھوٹی غیر متعلق باتوں میں الجھنے کے بجائے اپنی منزل پر رکھے گا۔ وہ یک سوئی کے ساتھ اپنے مقررہ نشانہ پر چلتا رہے گا یہاں تک کہ منزل پر پہنچ جائے گا۔

مولانا وحید الدین خان

 

 


Tuesday, May 12, 2020

بھرم ھی تو ھے ....

کل فیکے کمہار کے گھر کے سامنے ایک نئی چمکتی ہوئی گاڑی کھڑی تھی۔۔
سارے گاؤں میں اس کا چرچا تھا۔۔
جانے کون ملنے آیا تھا۔۔
میں جانتا تھا فیکا پہلی فرصت میں آ کر مجھے سارا ماجرا ضرور سناۓ گا۔۔۔
وھی ھوا شام کو تھلے پر آ کر بیٹھا ھی تھا کہ فیکا چلا آیا۔۔۔ حال چال پوچھنے کے بعد کہنے لگا۔۔۔ صاحب جی کئی سال پہلے کی بات ھے آپ کو یاد ھے ماسی نوراں ہوتی تھی وہ جو بٹھی پر دانڑیں بھونا کرتی تھی۔۔۔ جس کا اِکو اِک پُتر تھا وقار۔۔۔
 میں نے کہا ہاں یار میں اپنے گاؤں کے لوگوں کو کیسے بھول سکتا ھوں۔۔۔

اللہ آپ کا بھلا کرے صاحب جی، وقار اور میں پنجویں جماعت میں پڑھتے تھے۔۔۔ 
سکول میں اکثر وقار کے ٹِڈھ میں پیڑ ھوتی تھی۔۔۔ 
صاحب جی اک نُکرے لگا روتا رہتا تھا۔۔۔ 
ماسٹر جی ڈانٹ کر اسے گھر بھیج دیتے تھے کہ جا حکیم کو دکھا اور دوائی لے۔۔۔ 
اک دن میں ادھی چھٹی کے وقت وقار کے پاس بیٹھا تھا۔۔۔ میں نے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھا اور اچار کھولا۔۔۔ 
صاحب جی اج وی جب کبھی بہت بھوک لگتی ھے نا۔۔۔ تو سب سے پہلے اماں کے ہاتھ کا بنا پراٹھا ھی یاد آتا ھے۔۔۔اور سارے پنڈ میں اُس پراٹھے کی خوشبو کھنڈ جاتی ھے۔۔۔ 
پتہ نئیں صاحب جی اماں کے ہاتھ میں کیا جادو تھا۔۔۔

صاحب جی وقار نے پراٹھے کی طرف دیکھا اور نظر پھیر لیں ۔۔۔ اُس ایک نظر نے اُس کی ٹِڈھ پیڑ کے سارے راز کھول دیئے۔۔۔ میں نے زندگی میں پہلی بار کسی کی آنکھوں میں آندروں کو بھوک سے بلکتے دیکھا۔۔۔ صاحب جی وقار کی فاقوں سے لُوستی آندریں۔۔۔ آنسوؤں کے سامنے ہاتھ جوڑے بیٹھی تھیں جیسے کہتی ھوں۔۔۔ اک اتھرو بھی گرا تو بھرم ٹوٹ جاۓ گا۔۔۔ 
وقار کا بھرم ٹوٹنے سے پہلے ھی میں نے اُس کی منتیں کر کے اُس کو کھانے میں ساتھ ملا لیا۔۔۔ 
پہلی بُرکی ٹِڈھ میں جاتے ہی وقار کی تڑپتی آندروں نے آنکھوں کے ذریعہ شکریہ بھیج دیا۔۔۔ 
میں نے چُپکے سے ہاتھ روک لیا اور وقار کو باتوں میں لگاۓ رکھا۔۔۔
اس نے پورا پراٹھا کھا لیا۔۔۔ اور فر اکثر ایسا ہونڑے لگا۔۔۔ میں کسی نہ کسی بہانے وقار کو کھانے میں ملا لیتا ۔۔۔ 
وقار کی بھوکی آندروں کے ساتھ میرے پراٹھے کی پکی یاری ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔ اور میری وقار کے ساتھ۔۔۔  
خورے کس کی یاری زیادہ پکی تھی۔۔۔؟
 میں سکول سے گھر آتے ھی بھوک بھوک کی کھپ مچا دیتا ۔۔۔ ایک دن اماں نے پوچھ ھی لیا۔۔۔ پُتر تجھے ساتھ پراٹھا بنا کے دیتی ھوں کھاتا بھی ھے کہ نہیں۔۔۔ اتنی بھوک کیوں لگ جاتی ھے تجھے۔۔۔؟ میرے ہتھ پیر پھول جاتے ہیں تو آتے ھی بُھوک بُھوک کی کھپ ڈال دیتا ھے ۔۔۔ جیسے صدیوں کا بھوکا ھو ۔۔۔
میں کہاں کُچھ بتانے والا تھا صاحب جی۔۔۔ پر اماں نے اُگلوا کے ھی دم لیا۔۔۔ ساری بات بتائی اماں تو سن کر بلک پڑی اور کہنے لگی۔۔۔ کل سے دو پراٹھے بنا دیا کروں گی۔۔۔ میں نے کہا اماں پراٹھے دو ھوۓ تو وقار کا بھرم ٹوٹ جاۓ گا۔۔۔ میں تو گھر آ کر کھا ھی لیتا ھوں۔۔۔ صاحب جی اُس دن سے اماں نے پراٹھے کے ول بڑھا دیئے اور مکھن کی مقدار بھی۔۔۔  
کہنے لگی وہ بھی میرے جیسی ماں کا پتر ھے۔۔۔ 
مامتا تو وکھری وکھری نہیں ہوتی پھیکے۔۔۔ 
مائیں وکھو وَکھ ہوئیں تو کیا۔۔۔؟

میں سوچ میں پڑ گیا۔۔۔ پانچویں جماعت میں پڑھنے والے فیکے کو بھرم رکھنے کا پتہ تھا۔۔۔ 
بھرم جو ذات کا مان ہوتا ہے۔۔۔ اگرایک بار بھرم ٹوٹ جاۓ تو بندہ بھی ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔ ساری زندگی اپنی ہی کرچیاں اکٹھی کرنے میں گزر جاتی ہے۔۔۔ اور بندہ پھر کبھی نہیں جُڑ پاتا۔۔۔ فیکے کو پانچویں جماعت سے ہی بھرم رکھنے آتے تھے۔۔۔ اِس سے آگے تو وہ پڑھ ہی نہیں سکا تھا۔۔۔ اور میں پڑھا لکھا اعلی تعلیم یافتہ۔۔۔ مجھے کسی سکول نے بھرم رکھنا سکھایا ہی نہیں تھا۔۔۔

صاحب جی اس کے بعد امّاں بہانے بہانے سے وقار کے گھر جانے لگی۔۔۔ "دیکھ نوراں ساگ بنایا ھے چکھ کر بتا کیسا بنا ھے" وقار کی اماں کو پتہ بھی نہ چلتا اور اُن کا ایک ڈنگ ٹپ جاتا۔۔۔ 
صاحب جی وقار کو پڑھنے کا بہت شوق تھا پھر اماں نے مامے سے کہہ کر ماسی نوراں کو شہر میں کسی کے گھر کام پر لگوا دیا۔۔۔ تنخواہ وقار کی پڑھائی اور دو وقت کی روٹی طے ہوئی۔۔۔ اماں کی زندگی تک ماسی نوراں سے رابطہ رہا۔۔۔ اماں کے جانے کے چند ماہ بعد ہی ماسی بھی گزر گئی۔۔۔ اُس کے بعد رابطہ ہی کُٹ گیا۔۔۔

کل وقار آیا تھا۔۔۔ ولایت میں رہتا ھے جی۔۔۔۔ واپس آتے ہی ملنے چلا آیا۔۔۔ پڑھ لکھ کر بڑا وڈا افسر بن گیا ھے جی۔۔۔ مجھے لینے آیا ھے صاحب جی۔۔۔ کہتا تیرے سارے کاغزات ریڈی کر کے پاسپورٹ بنڑوا کر تجھے ساتھ لینے آیا ہوں

اور ادھر میری اماں کے نام پر لنگر کھولنا چاہتا ھے جی۔۔۔

صاحب جی میں نے حیران ہو کر وقار سے پوچھا۔۔۔ یار لوگ سکول بنڑواتے ہیں ہسپتال بنڑواتے ہیں تو لنگر ھی کیوں کھولنا چاہتا ھے اور وہ بھی امّاں کے نام پر۔۔۔؟

کہنے لگا۔۔۔ فیکے بھوک بڑی ظالم چیز ھے، چور ڈاکو بنڑا  دیتی ھے۔۔۔۔خالی پیٹ پڑھائی نہیں ہوتی۔۔۔۔ ٹِڈھ پیڑ سے جان نکلتی ھے۔۔۔۔۔۔ تیرے سے زیادہ اس بات کو کون جانتا ھے فیکے ۔۔۔ سارے آنکھیں پڑھنے والے نہیں ھوتے۔۔۔ اور نہ ہی تیرے ورگے بھرم رکھنے والے۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔۔ یار فیکے تجھے آج ایک بات بتاؤں۔۔۔ جھلیا میں سب جانتا ہوں۔۔۔ چند دنوں کے بعد جب پراٹھے کے ول بڑھ گئے تھے اور مکھن بھی۔۔۔ آدھا پراٹھا کھا کے ھی میرا پیٹ بھر جاتا تھا۔۔۔ اماں کو ھم دونوں میں سے کسی کا بھی بھوکا رہنا منظور نہیں تھا فیکے  ۔۔۔ وقار پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔۔ 
اماں یہاں بھی بازی لے گئی صاحب جی۔۔۔

اور میں بھی اس سوچ میں ڈُوب گیا کہ 
لُوستی آندروں اور پراٹھے کی یاری زیادہ پکی تھی یا ۔۔۔
فیکے اور وقار کی۔۔۔ 
بھرم کی بنیاد پر قائم ہونے والے رشتے کبھی ٹوٹا نہیں کرتے۔۔۔
فیکا کہہ رہا تھا مُجھے امّاں کی وہ بات آج بھی یاد ھے صاحب جی۔۔۔ اُس نے کہا تھا۔۔۔ مامتا تو وکھری وکھری نہیں ہوتی فیکے۔۔۔ مائیں وکھو وَکھ ہوئیں تو کیا۔۔۔

 بھرم ھی تو ھے جو رشتے اور دوستیاں قائم رکھتا ھے 

We can discuss politics but caring selfesteem and respecting each other. In a civilized way with rationale deliberations....  بھرم!