Thursday, June 11, 2020

اگر محمد رسول اللّٰه صَلَّى اللہ علیہ وآلہ وسلم اک دن...

اگر محمد رسول الله صَلَّى اللہ علیہ وآلہ وسلم اک دن تم سے ملنے آجائیں
انگریزی زبان کی یہ نظم جس نے بھی لکھی ہے الله تعالیٰ اسے جزائے خیر دیں، نہایت فکر انگیز اور ایمان سے بھر پور کلام ہے،
 یہ اس کا اردو ترجمہ ہے۔
اگر محمد رسول الله تعالیٰ صَلَّى اللّٰهُ  عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم  اک دن تم سے ملنے آ جائیں
 بالکل اچانک تشریف لائیں
میں حیران ہوں کہ تم کیا کرو گے _ کیا کرو گے؟
ہاں میں جانتا ہوں _ تم اپنا سب سے بہترین کمرہ _ اپنے محترم مہمان کو پیش کرو گے.

سب سے عمدہ سب سے اعلیٰ __ طعام (کھانا) کا اہتمام کرو گے۔ اپنی ہر بات سے انہیں احساس دلاؤ گے
کہ ان کی آمد سے تم بہت خوش بہت دلشاد ہو۔ _ ان کی آمد تمہارے لئے اعزاز ہے
اک ناقابل مسرت بیان __ اور مسلمان کا اک حسین خواب ہے۔

لیکن! جب تم انہیں آتا دیکھو گے __ کیا ان سے دوڑ کے دروازے پہ مل پاؤ گے؟
ان کے استقبال میں اپنے بازو وا کر سکو گے؟ 
یا ان کی اندر آمد سے پہلے ہی تمہیں
اپنا لباس تبدیل کرنے دوڑ جانا پڑے گا؟
ان کی نظروں سے چھپا کے تمام رسائل ہٹا کے
قرآنِ مجید پاک سجانا پڑے گا __ پھر کیا تم اپنے ٹی وی پر وہی لباس _ وہی مناظر دیکھ سکو گے؟
یا ان کی نظر پڑنے سے پہلے ہی
دوڑ کر اپنا ٹی وی بند کرو گے؟
کیا اس خواہش پر کہ ان کی سماعت سے
تمہارا ریڈیو، تمہارا ٹی وی، تمہاری سی ڈیز، تمہاری ڈی وی ڈیز دور رہیں؟
ان سب کو کہیں چھپا دو گے؟ 
اور پچھتاؤ گے کہ کاش __ تم نے اس وقت اس اونچی آواز میں _ کبھی بات ہی نہ کی ہوتی
کیا نغمہ و موسیقی کے آلات چھپا کر
ان پر احادیث کی کتابیں ڈھانپ دو گے؟
اور پھر کیا تم انہیں اپنے گھر کے ہر گوشے میں ہر جگہ ہر حصے میں بلا جھجھک لے جاؤ گے؟
یا پھر انہیں اپنا گھر دکھانے سے پہلے ہی
یہ سب چھپانے دوڑ جاؤ گے؟ 

میں حیران ہوں __ اگر
محمدصَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم  ایک یا دو دن تمہارے ساتھ رہنا چاہیں۔۔
تمہاری ذات تمہارے خاندان کو یہ اکرام دینا چاہیں
کیا تم اپنے معمول کے مطابق کام کر پاؤ گے
وہی الفاظ جو کہتے ہو کہہ پاؤ گے؟
کیا تمہاری زندگی کے روز و شب بر قرار رہ سکیں گے؟ 
کیا تمہارے گھر کی روزمرہ کی گفتگو __ ویسے ہی جاری رہ سکے گی؟ یا تمہارے لیے ان کے ساتھ
کھانا کھاتے ہوئے کھانے کی دعائیں پڑھنا بھی مشکل ہو جائیں گی؟ __
تمہیں نمازیں ٹال کر سو جانا یاد رہے گا؟ 
کیا تمہیں خوشی کے ساتھ رب کے دربار میں بار بار جھکنا یاد رہے گا؟ 
جو گیت اور نغمے اکثر گنگناتے ہو؟ ان کے سامنے وہی گنگنا پاؤ گے؟
وہی کتابیں وہی رسالے جو پڑھتے ہو پڑھ پاؤ گے؟ 
اُنہیں بتا سکو گے کہ تمہاری سوچ
اور تمہارے خیالات اور تمہاری نگاہیں۔کہاں کہاں کس کس کو کہاں کہاں ٹٹولتی ہیں؟ 
اُنہیں بتا پاؤ گے؟ کہ جو سب کچھ __ تمہاری روح تمہارے وجود میں سمایا ہوا ہے؟ کیا ہر اس جگہ جہاں تم جاتے ہو
محمد صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم کو اپنے ہمراہ لے جا سکو گے؟ 
اپنے ہر ساتھی ہر ملنے والے سے اُنہیں ملوا پاؤ گے؟ 
یا چاہو گے کہ ان کے قیام تک یہ سب تم سے دور ہی رہیں؟ 
اور اگر وہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم ساری عمر تمہارے ساتھ رہنا چاہیں__ تو کیا تم تمام عمر کے لئے
اُنہیں ( صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم ) اپنا مہمان بنا پاؤ گے؟ 

ِیا پھر ایک آزادی اور اطمینان کا سانس لو گے؟ جب آخرکار وہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم  اک دن آئے
تمہارے گھر سے وہ واپس لوٹ جائیں کیا یہ تصور یہ خیال خوشگوار نہیں ہو گا؟ 
اگر میں جاننا چاہوں کہ تم اس وقت کیا کرو گے؟ 
جب محمدصَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّم کچھ دن کچھ وقت تمہارے ساتھ گزارنے کے لئے __اپنی امت کے احوال کی آگہی کے لئے اپنی امت کی خیر خواہی کے لئے __تمہارے گھر مہمان رہیں! 

دوسروں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں

اشفاق احمد صاحب کہتے ہیں:
میں نے اپنے بابا جی کو بہت ہی فخرسے بتایا کہ میرے پاس دو گاڑیاں ہیں اور بہت اچھا بینک بیلنس ہے۔ اس کے علاوہ میرے بچے اچھے انگریزی سکول میں پڑھ رہے ہیں۔ عزت شہرت سب کچھ ہے، دنیا کی ہر آسائش ہمیں میسر ہے، اس کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون بھی ہے۔ 
میری یہ بات سننی تھی کہ انہوں نے جواب میں مجھے کہا کہ یہ کرم اس لیے ہوا کے تو نے اللّہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑ دیں۔ 
میں نے جب اس بات کی وضاحت چاہی۔۔۔ 
تو بابا جی نے کہا: 
" اشفاق احمد، میری اماں نے ایک اصیل ککڑ پال رکھا تھا۔ اماں کو اس مرغے س خصوصی محبت تھی۔ اماں اپنی بک (مٹھی) بھر کے، مرغے کی چونچ کے عین نیچے رکھ دیا کرتی تھیں اور ککڑ چونچ جھکاتا اور جھٹ پٹ دو منٹ میں پیٹ بھر کے مستیوں میں لگ جاتا۔ 
میں روز یہ ماجرا دیکھا کرتا اور سوچتا کہ یہ ککڑ کتنا خوش نصیب ہے۔ کتنے آرام سے بِنا محنت کیے، اس کو اماں دانے ڈال دیتی ہیں۔ 
ایک روز میں صحن میں بیٹھا پڑھ رہا تھا، حسب معمول اماں آئی اور دانوں کی بک بھری کہ مرغے کو رزق دے۔ اماں نے جیسے ہی مُٹھی آگے کی، مرغے نے اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ (چونچ) مار دی۔ اماں نے تکلیف سے ہاتھ کو جھٹکا تو دانے پورے صحن میں بکھر گئے۔ اماں ہاتھ سہلاتی اندر چلی گئی اور ککڑ (مرغا) جو ایک جگہ کھڑا ہو کر آرام سے پیٹ بھرا کرتا تھا، اب وہ پورے صحن میں بھاگتا پھر رہا تھا۔ کبھی دائیں جاتا، کبھی بائیں۔ کبھی شمال، کبھی جنوب۔
سارا دن مرغا بھاگ بھاگ کے دانے چگتا رہا۔ تھک بھی گیا اور اُسکا پیٹ بھی نہیں بھرا۔"

 بابا دین مُحمد نے کچھ توقف کے بعد پوچھا:
" بتاؤ مرغے کے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟"
 میں نے فٹ سے جواب دیا:
" نہ مرغا اماں کے ہاتھ پر ٹھونگ مارتا، نہ ذلیل ہوتا۔"
 بابا بولا :
" بالکل ٹھیک، یاد رکھنا اگر اللہ کے بندوں کو حسد، گمان، تکبر، تجسس، غیبت اور احساس برتری کی ٹھونگیں مارو گے، تو اللّہ تمھارا رزق مشکل کر دے گا اور اس اصیل ککڑ کی طرح مارے مارے پھرو گے۔ تُو نے اللّہ کے بندوں کو ٹھونگیں مارنا چھوڑیں، رب نے تیرا رزق آسان کر دیا۔"

 بابا عجیب سی ترنگ میں بولا، *" پیسہ، عزت، شہرت، آسودگی حاصل کرنے اور دکھوں سے نجات کا آسان راستہ سن لے۔ اللہ کے بندوں سے محبت کرنے والا، ان کی تعریف کرنے والا، ان سے مسکرا کے بات کرنے والا اور دوسروں کو مُعاف کرنے والا کبھی مفلس نہیں رہتا۔ آزما کر دیکھ لو، اب بندوں کی محبت کے ساتھ ساتھ شُکر کے آنسو بھی اپنی منزل میں شامل کرلو، تو امر ہو جاؤ گے۔"*

 یہ کہہ کر بابا دین مُحمد تیزی سے مین گیٹ سے باہر نکل گیا اور میں سرجُھکائے زارو قطار رو رہا تھا اور دل ہی دل میں رب العزت کا شُکر ادا کر رہا تھا کہ بابا دین محمد نے مُجھے کامیابی کا راز بتا دیا تھا۔ اللہ ہمیں آسانیاں عطاء فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے۔۔

لوگوں کو معاف کرو

اس نے جیسے ہی کیل کو لکڑی کے اوپر رکھا ساتھ دوسرے ہاتھ میں ہتھوڑی اُٹھائی تو اپنے کندھے کے پاس سے لاتے ہوئے بہت شدت کے ساتھ کیل پے دے ماری. 

جیسے ہی ہتھوڑی کیل پے لگی تو کیل لکڑی کو چیرتے ہوئے دوسری طرف کو جا نکلا، 

لکڑی نے کیل سے کہا کے تمہیں ذرا سا بھی احساس نہیں ہوا میرا؟ 

تو اس پر کیل نے جواب دیا کہ اگر تمہیں پتہ چل جائے نہ کے میرے سر پہ کس شدت سے وار ہوا ہے تو تم اپنی تکلیف کو بھول جاؤ گی اور یقیناً مجھے معاف کر دو گی. 

کیا ہی اچھا ہو نہ کے ہم ایک دوسرے کو اسی طرح معاف کر دیں یہ سمجھ کر شاید اگلا ہم سے بھی زیادہ تکلیف میں ہو. 

تم لوگوں کو معاف کرو اللہ تمہیں معاف کرے گا.. 

بے شک بدلہ لینے سے زیادہ معاف کرنے کا اجر ہے..

Friday, May 29, 2020

ایک کے بعد دوسرا

مسافر اسٹیشن پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کی ٹرین جاچکی ہے۔ اس کی گھڑی صحیح نہ تھی اس لئے وہ دس منٹ لیٹ ہوگیا۔ اتنی دیر میں ٹرین آکر چلی گئی۔ "بابوجی، فکر نہ کیجئے" قلی نے کہا "دو گھنٹے بعد ایک اور گاڑی آرہی ہے، اس سے آپ چلے جائیں۔ اتنی دیر پلیٹ فارم پر آرام کرلیجئے"۔ مسافر نے قلی کا مشورہ مان لیا اور دو گھنٹے انتظار کے بعد اگلی ٹرین میں سوار ہو کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ 
ہر مسافر جانتا ہے کہ ایک ٹرین چھوٹ جائے تو جلد ہی دوسری ٹرین مل جاتی ہے جس سے وہ اپنا سفر جاری رکھ سکے۔ یہ پلیٹ فارم کا سبق ہے۔ مگر اکثر لوگ اس معلوم سبق کو اس وقت بھول جاتے ہیں جبکہ زندگی کی دوڑ میں ایک موقع ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہو۔ پہلی بار ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد وہ مایوس ہوجاتے ہیں یا احتجاج و فریاد کے مشغلہ میں لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ اپنے مقصد کے لئے نیا منصوبہ بنائیں، وہ "اگلی ٹرین" سے چل کر اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔ 
ایک شخص جس سے آپ کی مخالفت ہوگئی ہو اور ٹکراو٘ کا طریقہ جس کو "درست" کرنے میں ناکام ثابت ہوا ہو، آپ اس کے بارے میں اپنا رویہ بدل دیجئے۔ اس کو نرمی کے طریقہ سے متاثر کرنے کی کوشش کیجئے۔ عین ممکن ہے کہ پرانے طریقے نے جس کو آپ کا دشمن بنا رکھا تھا، نئے طریقہ کے بعد وہ آپ کا ایک کارآمد دوست ثابت ہو۔ آپ کہیں ملازم ہیں اور وہاں آپ کی ملازمت ختم کردی جاتی ہے، آپ اس کے پیچھے نہ پڑئے بلکہ دوسرے کسی میدان میں اپنے لئے ذریعہ معاش تلاش کرنے کی کوشش کیجئے۔ ہوسکتا ہے کہ نیا کام آپ کے لئے پہلے سے زیادہ نفع بخش ثابت ہو۔ کوئی آپ کا ھق نہیں دیتا۔ اس سے آپ کی لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔ سالوں گزر جاتے ہیں اور آپ اپنے حقوق کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ آپ اس کا خیال چھوڑ دیجیئے اور اپنی محنت پر بھروسہ کیجئے۔ بہت ممکن ہے کہ اپنی محنت کا کام میں لاکر آپ خود وہ چیز حاصل کرلیں جس کو آپ دوسروں سے مانگ کر پانا چاہتے ہیں۔ 

انسان کی شخصیت

ایک برتن میں پانی ہے۔ اس سے ایک قطرہ ٹپکا۔ یہ قطرہ اگر بدبودار ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ برتن کا سارا پانی بدبودار ہے۔ پانی کا قطرہ پانی کے پورے ذخیرے کا نمائندہ ہے۔ پانی کا ایک قطرہ جیسا ہے، سمجھ لیجئے کہ سارا پانی ویسا ہی ہوگا، یہی معاملہ انسان کا بھی ہے۔ ہر انسان گویا پانی کا ایک ذخیرہ ہے اس ذخیرہ سے بار بار اس کی بوندیں ٹپکتی رہتی ہیں۔ ان ظاہر ہونے والی بوندوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اندر کا انسان کیسا ہوگا۔ کسی آدمی سے آپ بات کریں اور بات چیت کے دوران اس کی زبان سے ایک ہلکی بات نکل جاءے، کسی آدمی سے آپ معاملہ کریں اور معاملہ میں وہ کمزوری دکھائے، کسی ادمی کے ساتھ آپ کا سفر پیش آءے اور سفر میں اس کی طرف سے کوئی برا سلوک ظاہر ہو تو یہ اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ وہ آدمی اچھا نہیں۔ 
آدمی ایک مکمل مجموعہ ہے، جیسے برتن کا پانی ایک مجموعہ ہوتا ہے۔ کسی آدمی سے ایک کمزور ظاہر ہو تو وہ اس کی شخصیت کا انفرادی یا استثنائی واقعہ نہ ہوگا بلکہ وہ اس کی پوری شخصیت کا اظہار ہوگا۔ وہ ایک عکس ہوگا جس میں اس کی پوری شخصیت جھلک رہی ہوگی۔ کوئی آدمی کسی معاملہ میں کمزور ثابت ہوتو سمجھ لیجئیے کہ وہ ہر معاملہ میں کمزور ہے۔ آدمی ایک معاملہ میں ناقابل اعتماد ثابت ہونے کے بعد ہر معاملے میں اپنے آپ ک ناقابل اعتماد ثابت کردیتا ہے۔ اس کلیہ میں صرف اس ایک استثناء ہے اور وہ اس انسان کا ہے جو اپنے محاسبہ کرتا ہو۔ جس کے اندر احتساب کی صلاھیت زندہ ہو۔ جو بار بار اپنے اندر جھانک کر دیکھتا ہو کہ اس نے کیا صحیح کیا اور کیا غلط کیا۔ اس کی زبان کس موقع پر انصاف کی بات بولی اور کس موقع پر وہ انصاف سے ہٹ گئی۔ 
ایک شخص تجربہ میں غلط ثابت ہو۔ اس کے بعد کو اس اپنی غلطی کا احساس ہو اور وہ آپ سے معافی مانگے تو سمجھ لیجئیے کہ وہ صحیح انسان ہے۔ وہ غلطی کرکے اس کی تصحیح کرنا جانتا ہے۔ مگر جس کا حال یہ ہو کہ اس سے قول یا فعل کی غلطی صادر ہو اس کے بعد اس کا ضمیر اسے نہ تڑپائے۔ اس کے اندر احتساب کی کیفیت نہ جاگے اور اس کی زبان معافی مانگنے کے لیے نہ کھلے تو ایسا انسان بالکل بے قیمت انسان ہے وہ اس قابل نہیں کہ اس پر کسی معاملہ میں بھروسہ کیا جاسکے۔ 

بنیاد


مکان کی تعمیر کا آغاز بنیاد سے ہوتا ہے۔ ایک انجینئر کو "اسکائی اسکریپر" بنانا ہوتو تب بھی وہ بنیاد ہی سے آغاز کرے گا۔ بنیاد سے آغاز کرنا دوسرے لفظوں میں اس حقیقت واقعہ کا اعتراف کرنا ہے کہ آدمی کہاں کھڑا ہوا ہے اور وہ کون سا نقطہ ہے جہاں سے وہ اپنے سفر کا آغاز کرسکتا ہے۔ 
اس دنیا میں ہم اکیلے نہیں ہیں۔ یہاں ایک طرف قدرت ہے جو ہم سے الگ خود اپنے قوانین پر قائم ہے۔ اس کے ساتھ یہاں دوسرے انسان ہیں۔ ان میں سے ہر انسان کے سامنے اپنا مقصد ہے اور ہر شخص اپنے مقصد کر حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایسی حالت میں ضروری ہے کہ ہم ان حقیقتوں کو جانیں اور ان کی رعایت کرتے ہوئے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ 
زندگی کا سب سے بڑا راز حقیقت واقعہ کا اعتراف ہے۔ اعتراف کرنے والا آدمی اس بات کو ثبوت دیتا ہے کہ جو جس طرح اپنے "ہے" کو جانتا ہے اسی طرح وہ اپنے "نہیں" سے بھی واقف ہے۔ وہ ایک طرف اگر یہ جانتا ہے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول ہے تو اسی کے ساتھ وہ اس سے بھی باخبر ہے کہ کیا چیز اس کے لیے قابل حصول نہیں۔ وہ آغاز اور انجام کے فرق کو جانتا ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ اپنا پہلا قدم اسے کہاں سے اٹھانا ہے اور وہ کون سا مقام ہے جہاں وہ آخر کار اپنے کو پہنچانا چاہتا ہے۔ 
اعتراف بزدلی نہیں، اعتراف سب سے بڑی بہادری ہے۔ اعتراف کرکے آدمی بے عزت نہیں ہوتا، وہ عزت کے سب سے بڑے مقام کو پالیتا ہے۔ جو شخص اعتراف نہ کرے وہ گویا فرضی خیالات میں جی رہا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اعتراف کرے وہ اس بات کو ثبوت دیتا ہے کہ اس نے فرضی تخیلات کے طلسم کو توڑ دیا ہے۔ وہ حقائق کی دنیا میں سانس لے رہا ہے۔ وہ چیزوں کو ویسا ہی دیکھ رہا ہے جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔ 
چیزوں کو ان کی اصل صورت میں دیکھنا دانش مندی ہے کا آغاز ہے۔ جس آدمی کے اندر یہ صلاحیت ہو وہی کامیابی کے آخری زینہ پر پہنچتا ہے۔ جس آدمی کے اندر یہ صلاحیت نہ ہو وہ یا تو اپنا سفر شروع نہ کرسکے گا اور اگر سفر شروع ہوگیا تب بحی وہ درمیان میں اٹک کر رہ جائے گا۔ وہ کبھی آخری منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ 

جواب کا طریقہ

ایک آدمی نے ایک بزرگ کی تعریف کی۔ اس نے کہا کہ وہ ایسے پہنچے ہوئے بزرگ تھے کہ وہ نماز کی حالت میں مرے۔ گویا ان کی موت خدا کی گود میں ہوئی۔ سننے والا کچھ دیر چپ رہا، اس کے بعد بولا: خدا کے رسول صلعم کی وفات ہوئی تو وہ اپنی اہلیہ کی گود میں تھے اور بزرگ کی وفات خدا کی گود میں ہوئی۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ بزرگ خدا کے رسول سے بھی زیادہ پہنچے ہوئے تھے۔ یہ جواب اتنا وزنی تھا کہ اس کو سن کر آدمی خاموش ہوگیا۔ 
سننے والے نے مذکورہ بزرگ کے حالات پڑھے تھے۔ اس میں اس کو کہیں یہ بات نہیں ملی تھی کہ بزرگ کی موت نماز کی حالت میں ہوئی۔ تاہم اس نے نے سوچا کہ اگر میں یہ کہتا ہوں کہ یہ بات کہاں لکھی ہے یا کس ذریعہ سے ثابت ہوتی ہے تو خوامخواہ کی بحث شروع ہوجائے گی اور وہ کہیں ختم نہ ہوگی۔ چنانچہ اس نے اس سوال کو نہیں چھیڑا۔ اس نے ایسی بات کہی جو نہ صرف یقینی تھی بلکہ اپنے عمومی پہلو کی بنا پر وہ آدمی کو چپ کردینے والی تھی۔ چنانچہ لمبی بحث کی نوبت نہ آئی اور ایک یہ جملہ سارے سوال کا جواب بن گیا۔ 
یہی ایسے معاملات میں جواب دینے کا صحیح طریقہ ہے۔ اگر آدمی ایسا کرے کہ وہ مخاطب کی بات سنتے ہی فوراً اس سے الجھ نہ جائے بلکہ تھم کر سوچے کہ اس کا صحیح اور موثر جواب کیا ہوسکتا ہے تو یقینی طور پر وہ ہر سوال کا ایسا جواب پالے گا جو اس قدر فیصلہ کن ہو کہ لمبی بحث و تکرار کی نوبت نہ آئے اور صرف ایک جملہ پورے سوال کے لئے فیصلہ کن بن جائے۔ 
سب سے برا جواب وہ ہے جس میں سوال کرنے والا اور جواب دینے والا دونوں الجھ جائیں اور بالآخر اس طرح الگ ہوں کہ دونوں میں سے کوئی ہار ماننے کے لئے تیار نہ ہوا تھا۔ اور سب سے اچھا جواب وہ ہے جب کہ جواب دینے والا ایسا سوچا سمجھا ہوا وزنی جواب دے جس کے بعد سوال کرنے والے کی سمجھ ہی میں نہ آئے کہ اس کے آگے وہ کیا کہہ سکتا ہے۔ 

مسائل اور مواقع


یہ ایک بہت بامعنی بات ہے۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہی موجود دنیا میں کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔ جو شخص اس گہری حکمت کو جانے اور اس کو استمعال کرے وہی اس دنیا میں کامیاب ہوتا ہے جو شخص اس حکمت کو نہ جانے اور اس کو استعمال نہ کرسکے اس کے لیے ناکامی کے سوا اور کوئی چیز مقدر نہیں۔ 
اصل یہ ہے کہ موجود دنیا میں آدمی ہمیشہ دو قسم کی چیزوں کے درمیان رہتا ہے۔ ایک مسائل اور دوسرے مواقع۔ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کچھ مسائل میں گھرا ہوا ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ ہمیشہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آدمی کے قریبی ماحول میں کچھ قیمتی مواقع موجود ہوتے ہیں جن کو بھرپور استعمال کرکے وہ ایک کامیابی کی منزل کو پہنچ سکتا ہے۔ یہ صورتحال ایک فرد کے ساتھ بھی پیش آتی ہے اور پوری قوم کے ساتھ بھی۔ 
یہی وہ مقام ہے جہاں موجودہ دنیا لوگوں کا امتحان لے رہی ہے۔ جو شخص صرف اپنے مسائل کو دیکھے اور اس میں الجھ جائے وہ اپنے مواقع کھو دے گا۔ اس کے برعکس جو شخص مواقع کو دیکھے اور ان کو بھرپور استعمال کرے وہ مسائل میں زیادہ توجہ نہ دے سکے گا۔ مسائل کو کھلانا مواقع کو بھوکا رکھنے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ اسی طرھ جو شخص مواقع کو کھلائے گا وہ اس قیمت پر ہوگا کہ اس کے مسائل بھوکے رہ جائیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مواقع کو استعمال کرنے کے لیے ہمیشہ مسائل کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ 
تجربہ بتاتا ہے کہ مسائل میں الجھنا کبھی کسی کے لیے مفید نہیں ہوتا۔ آخری نتیجہ کے طور پر وہ صرف وقت کو ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ مگر جو شخص اپنے آپ کو مواقع کے استعمال میں لگاتا ہے وہ نہ صرف مواقع کا فائدہ حاصل کرتا ہے بلکہ اس کی کامیابی بالواسطہ طور پر اس چیز کو بھی حل کردیتی ہے جس کو مسائل کہتے ہیں۔ 

برتر کامیابی


موجودہ دنیا میں اعلٰی درجہ کا کام انجام دینے والا بننے کے لیے کسی طلسماتی صلاحیت کی ضرورت نہیں۔ ایک اوسط درجہ کا آدمی بھی انتہائی اعلٰی درجہ کی کارکردگی کا ثبوت دے سکتا ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ آدمی زندگی کی سادہ حقیقتوں کو جانے اور ان کو استعمال کرے۔ 
[ریڈرز ڈائجسٹ، اکتوبر ۱۹۸۶]

ایک امریکی مصنف نے باقاعدہ طور پر اس کی تحقیق کی۔ اس کا کہنا ہے کہ تجارت، سیاست اسپورٹ اور آرٹ کے میدان میں اس نے ۹۰ ممتاز افراد سے رابطہ قائم کیا۔ ان کی اکثریت نے ناکامی کو "غلط آغاز" کا نتیجہ قرار دیا۔ مایوسیاں ان کے لیے زیادہ طاقتور ارادہ کا سبب بن گئیں۔ حالات خواہ کتنے ہی خراب ہوں، اعلٰی درجے کا کام انجام دینے والے ہمیشہ محسوس کرتے ہیں کہ یہاں کچھ نئے گوشے ہیں جن کو وہ دریافت کرسکتے ہیں۔ ان کے پاس ہمیشہ کوئی نیا تصور ہوتا ہے جس کا وہ دوبارہ تجربہ کریں۔ 
اگر آپ ناکامی سے دوچار ہوں اور اس ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دیں تو آپ کے اندر عمل کا جذبہ ٹھنڈا پڑجائے گا۔ آپ صرف دوسروں کے خلاف احتجاج اور شکایت میں مشغول رہیں گے اور خود کچھ نہ کرسکیں گے۔ لیکن اگر آپ اپنی ناکامی کو خود اپنی غلط کارکردگی کا نتیجہ سمجھیں تو آپ کا ذہن نئی زیادہ بہتر تدبیر سوچنے میں لگ جائے گا۔ آپ سست پڑنے کے بجائے مزید پہلے سے زیادہ متحرک ہوجائیں گے۔ آپ ازسرنو جدوجہد کرکے ہاری ہوئی بازی کو دوبارہ شاندار تر شکل میں جیتنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ 
ناکامی کی ذمہ داری خود قبول کیجئے۔ ایک تدبیر کارگر نہ ہورہی ہو تو دوسری تدبیر کا تجربہ کیجئے۔ آپ یقیناً اعلٰی کامیابی تک پہنچ جائیں گے۔ 

شکایت


شکایت ایسی چیز ہے جس کی کوئی حد نہیں۔ نہ صرف عام انسان بلکہ پیغمبروں کے بارے میں بھی بڑی بڑی شکایتیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ حتی کہ نعوذ باللہ خود خدا بھی شکایتوں سے مستثنی نہیں۔ بے شمار لوگ ہیں جو اپنی مصیبتوں کے لیے خدا کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ فلسفہ میں ایک مستقل بحث ہے جس کو بگاڑ کا مسئلہ کہا جاتا ہے۔ اس کے دعویدار کہتے ہیں کہ یا تو خدا کا وجود نہیں ہے۔ اور اگر خدا ہے تو وہ کامل معیار والا نہیں۔ خدا اگر کامل معیار والا ہوتا تو دنیا میں بگاڑ کیوں ہوتا۔ 
شکایت کبھی واقعہ ہوتی ہے اور کبھی محض شکایت کرنے والے شخص کے اپنے ذہن کا نتیجہ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ جب تم کسی کے خلاف کوئی بات سنو تو اس کی تحقیق کرو [الحجرات ۶]۔  تحقیق سے معلوم ہوجائے گا کہ وہ بات صحیح تھی یا نہیں۔ 
شکایت کی بہت سے قسمیں ہیں۔ ان میں سے سے بری قسم وہ ہے جو احساس کمتری کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ ایک شخص اپنے کو بطور خود بڑا سمجھ لیتا ہے۔ اب اگر اس کا سابقہ کسی ایسے شخص سے پڑے جس کو خدا نے اس سے اوپر کردیا ہو تو یہ اول الذکر شخص کے لیےبڑا سخت لمحہ ہوتا ہے۔ عام طور پر وہ تسلیم نہیں کرپاتا کہ دوسرا شخص بڑا ہے اور وہ چھوٹا۔  وہ اپنی بڑائی کے ٹوٹنے کو برداشت نہیں کرپاتا۔ اس کی شخصیت پھٹ جاتی ہے وہ اپنی بڑائی کو باقی رکھنے کے لیے دوسرے شخص کو غلط ثابت کرنا شروع کردیتا ہے۔ وہ اس پر جھوٹا الزام لگاتا ہے۔ وہ اس کی تحقیر کرتا ہے تاکہ اپنے جذبہ برتری کی تسکین حاصل کرے۔ وہ اس کی عزت پر حملہ کرتا ہے تاکہ اس کو بے عزت کرکے اپنے متکبرانہ نفسیات کو غذا فراہم کرے۔ وہ خود ساختہ طور پر طرح طرح کی باتیں نکال کر اس کو چھوٹا ظاہر کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے یہ اطمینان حاصل کرسکے کہ وہ بڑا ہے ہی نہیں۔ آدمی اگر حقیقت واقعہ کے اعتراف کے لیے تیار رہے تو تمام شکایتوں کی جڑ کٹ جائے۔ آدمی چونکہ حقیقت کا اعتراف نہیں کرتا، اس لیے وہ اپنے آپ کو شکایت سے اوپر اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔