Saturday, July 11, 2020

مادہ پرستی کی بجائے شخصیت....!

نمرود جب تک طاقت کے نشے میں تھا سب کو کہتا مجھے سجدہ کرو اور جب دماغ میں مچھر گھسا تو کہتا تھا مجھے ایک جوتا مارو ۔۔۔۔
                 زندگی میں بھت ساری چیزیں وقتی ھوتی ھیں آج جو کچھ ہمارے پاس ھے یہ کل کسی اور کا تھا اور آنے والے وقت میں کسی اور کا ھو گا ،اگر کوئی چیز باقی رھنے والی ھے تو صرف انسان کا کردار ھے اس لیے مادہ پرستی کے بجائے شخصیت کی تعمیر پہ توجہ دیں، کسی بھی غلط فہمی میں اتنا آگے نہ جائیں کہ جہاں سے واپسی مشکل ھو جائے ۔۔۔

قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے



دادی جان نے آواز دی: ''کب سے نہائے جا رہے ہو، کتنا نہاؤ گے؟ اب بس بھی کرو!''

بس کچھ دیر اور دادی اماں! صفدر اور ثاقب دونوں نے ملکر کہا۔ گرمیوں کی شام تھی اس لئے دونوں بھائی صحن میں پودوں کو پانی دینے والے پائپ کے ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے نہانے میں مگن تھے۔

یہ اچانک پانی کو کیا ہو گیا، کیوں بند ہو گیا؟ صفدر نے بڑے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔

پانی بند نہیں ہوا بلکہ میں نے ٹونٹی بند کی ہے، جواب ثاقب کے بجائے ان کے ابو سلمان صاحب کی طرف سے آیا تھا۔ پھر سلمان صاحب نے سخت لہجے میں کہا: آپ دونوں جلدی کپڑے تبدیل کر کے میرے پاس آئیں، ضروری بات کرنی ہے، اور اندر چلے گئے۔

ثاقب: لگتا ہے ابو ناراض ہیں، چلو جلدی کرو اس سے پہلے کہ ابو کا غصہ اور بڑھ جائے۔ کچھ ہی دیر میں دونوں بھائی کپڑے بدل کر ڈائننگ روم میں ابو کے سامنے بیٹھے تھے۔

حیرت کے ساتھ ساتھ دونوں کے چہرے پر تھوڑی پریشانی کے آثار بھی ظاہر تھے کہ پتہ نہیں ابو جان کون سی بات پر ناراض ہیں۔

سلمان صاحب: پانی! اللّٰه پاک کی بہت بڑی نعمت ہے، اگر ہم اس کی قدر نہیں کریں گے اور اس کو ضائع کریں گے تو اس نعمت سے محروم ہو سکتے ہیں۔

ثاقب نے فوراً  کہا: مگر ابو! ہم نے تو پانی نہیں ضائع کیا، ہم تو بس نہا رہے تھے۔

سلمان صاحب: بیٹا! نہانا، صفائی کا خیال رکھنا اچھی بات ہے لیکن جس طرح آپ لوگ آج تفریحاً نہا رہے تھے اس طرح پانی بہت ضائع ہوتا ہے، آپ نے یہ جملہ تو سنا ہی ہو گا "قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے۔" دونوں نے ایک ساتھ کہا: جی! سنا ہے۔ تو بچّو! جس طرح پانی کا خیال کرنے سے اور قطرے قطرے کی حفاظت کرنے سے دریا بنتا ہے یوں ہی قطرہ قطرہ ضائع کرنے سے پانی ختم بھی ہو سکتا ہے۔ لہذا ہمیں پانی کا اتنا ہی استعمال کرناچاہئے جتنی ہماری ضرورت ہو، بلاوجہ پانی ضائع نہیں کرنا چاہئے۔

ثاقب نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا: ابو! اسکول سے آتے وقت میرے تھرماس میں کچھ پانی بچ جاتا ہے تو میں اسے پھینک دیتا ہوں، اسی طرح گلاس میں پانی رہ جاتا ہے تو اسے بھی گرا دیتا ہوں، یہ غلط ہے کیا؟

سلمان صاحب نے جواب دیا: ہاں! بیٹا یہ غلط ہے۔

صفدر نے بھی ہمت کی اور پوچھا: جب میں دانت بُرش کرتا ہوں یا نہانے کے لئے صابن لگاتا ہوں تو نل کھلا چھوڑ دیتا ہوں، تو کیا یہ بھی پانی ضائع کرنا ہو گا؟

سلمان صاحب نے اسے بھی سمجھایا: جی بیٹا! ان سب صورتوں میں پانی ضائع ہو رہا ہوتا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ برش کرتے، ہاتھ منہ دھوتے یونہی نہاتے ہوئے بعض اوقات جتنا پانی ہم ضائع کرتے ہیں اس کا حساب لگایا  جائے تو کئی گیلن بنتے ہیں اور دوسری طرف ہماری دنیا میں  ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں لوگوں کو پینے کے لئے بھی صاف پانی میسّر نہیں ہوتا، ہمیں اگر نعمت ملی ہے تو کیا ایسے ضائع کرنی چاہئے؟

بالکل نہیں ابو جان! دونوں بچوں نے جواب دیا۔

سلمان صاحب کی نصیحت بچوں کو نہ صرف سمجھ  آ گئی تھی بلکہ وہ اس پر عمل کے لئے بھی تیار نظر آ رہے تھے یہ دیکھ کر انہوں نے خوشی سے دونوں بیٹوں کو سینے سے لگا لیا۔

بالٹی بھر کوڑا

ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﺎ ﻣﮑﺎﻥ ﺧﺮﯾﺪﺍ !
ﺍس میں پھلوں کا ﺑﺎﻍ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ. ﭘﮍﻭﺱ ﮐﺎ ﻣﮑﺎﻥ ﭘﺮﺍﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ .
ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﮍﻭﺱ ﮐﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺑﺎﻟﭩﯽ ﺑﮭﺮ ﻛﻮﮌﺍ ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ .
ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻟﭩﯽ ﻟﯽ ، ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺯﮦ ﭘﮭﻞ ﺭﮐﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﯽ ﮔﮭﻨﭩﯽ ﺑﺠﺎﺋﯽ. ﺍﺱ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻟﮕﮯ، ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺻﺒﺢ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻟﮍﻧﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ !..

ﻟﮩﺬﺍ ﻭﮦ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺍ ﺑﮭﻼ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﻟﮕﮯ ، ﻣﮕﺮ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻻ، ﻭﮦ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﮔﺌﮯ . رسیلے ﺗﺎﺯﮦ ﭘﮭﻞ ﮐﯽ ﺑﮭﺮﯼ ﺑﺎﻟﭩﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ، ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﻟﺌﮯ ﻧﯿﺎ ﭘﮍﻭﺳﯽ ، ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ !...
ﺳﺐ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ

ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ -

" ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺗﮭﺎ " ، ﻭﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻻ ﺳﮑﺎ. "
ﺳﭻ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﻮ ہوتا ﮨﮯ ،ﻭﮨﯽ ﻭﮦ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ !..
" ﺫﺭﺍ ﺳﻮﭼﯿﮟ، ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ کو " دینے " ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ .. ؟ "

Thursday, June 25, 2020

میں باوضو نہیں تھا

کلاس ٹیچر حیران و پریشان تھے
سوال بہت آسان تھا مگر کلاس کا سب سے ذہین اور فرمانبردار طالبِ علم گذشتہ آدھے گھنٹے سے اسکا جواب نہیں دے رہا تھا
 ٹیچر نے سوال پھر دہرایا
"بتاؤ ہمارے پیارے نبی صلی الله عليه وآلہ وسلم کا کیا نام ہے؟ "
دوسری جانب مکمل خاموشی تھی ٹیچر کا بس نہیں چل رہا تھا 
اسلامیات کے ٹیچر بھی آ چکے تھے 
اب دونوں اساتذہ نے سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کی مگر بےسود
بچہ مکمل خاموش تھا پٹائی اور ڈراوا بھی اس پر اپنا اثر نہیں دکھا سکے تھے بچے کے گال مار کھا کھا کر سرخ ہو چکے تھے اور سوج گئے تھے ایک ہونٹ پھٹ گیا تھا اور اس سے خون بہہ رہا تھا 
ہیڈ ماسٹر صاحب کو بلایا گیا اور انکی کوششیں بھی رائیگاں جانے لگیں  تھک کر انہوں نے کہا کہ بریک کا وقت ہے بریک کے بعد اگر اس نے بتا دیا تو ٹھیک ورنہ اسے سکول سے نکال دیا جائے گا 
بریک کے بعد سارے سکول کو اکٹھا کیا گیا اور اس طالبعلم کو بلایا گیا 
اسکا چہرہ دھلا ہوا تھا اور چہرے پر نور کی جیسے لہریں دوڑ رہی تھیں 
ہیڈ ماسٹر نے سوال دہرایا
"بتاؤ ہمارے پیارے نبی صلی الله عليه وآلہ وسلم کا کیا نام ہے؟ "
"حضرت محمد صلی الله عليه وآلہ وسلم "
 بچے نے انتہائی سکون اور احترام سے جواب دیا 
سب حیران تھے کہ یہ جواب تو بچہ پہلے بھی دے سکتا تھا پھر اس نے اتنی مار اور سختی کیوں برداشت کی 
"تم یہ جواب پہلے بھی دے سکتے تھے؟ "
 آخر ہیڈ ماسٹر صاحب نے پوچھا  بچے کا جواب سب کے اعصاب پر کسی بجلی کی طرح گرا
" اس وقت میں باوضو نہیں تھا ۔"❤✌

ڈرنے والے

ایک بہت ہی قیمتی بات ایک بار پھر آپ سب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.. مجھے بچپن سے ہی قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کا بہت شوق تھا....میں نماز کے بعد مسجد میں ایسے قرآن پاک کی تلاش میں رھتا جس کے آدھے صفحے پر آیات اور ان کا ترجمہ لکھا ھوتا اور باقی آدھے صفحے پر تفسیر لکھی ھوتی تھی.. میں گھنٹوں تک اس میں کھویا رھتا. حتی کہ روزانہ مجھے بنا ناشتے کے اسکول جانا پڑتا تھا. کیونکہ نماز فجر کے بعد سے لیکر اسکول جانے کے وقت تک مسجد میں بیٹھا ترجمہ و تفسیر پڑھتا رھتا. وہ سب میرے لیے بہت دلچسپ ھوتا تھا.. یہ فطری بات تھی... کیونکہ یہ کتاب اتاری ہی پڑھنے کے لیے گئی ھے اس لیے پڑھنے والے کو اپنی طرف کھینچتی ھے. میں اس کے سحر میں گرفتار ہو گیا تھا.. مجھے امتوں کے حال پڑھنے کا بہت شوق تھا.. اس دوران میں نے کچھ چیزیں نوٹ کی کہ اللہ تعالیٰ ایک لفظ بہت زیادہ قرآن پاک میں بیان فرماتا ھے.. وہ لفظ تھا ڈر.... اس لفظ کی قرآن پاک میں بہت بار تکرار کی گئی ہے.. ڈرنے والوں سے محبت کا اظہار کیا گیا ہے. ڈرنے والوں کے لیے جنت ھے، ڈرنے والوں کے لیے جہنم کی آگ سے آزادی ھے. ڈرنے والوں کے لیے دنیا میں عزت کا اعلان بھی قرآن پاک میں موجود ہے.. ڈرنے والوں کے لیے روٹی روزی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے. ڈرنے والوں کے لیے عذاب سے بھی نجات تھی. ڈرنے والوں کے لیے ھر ڈر ختم کر دیا گیا تھا یعنی ڈرنے والا دنیا میں کسی سے نہیں ڈرتا. ڈرنے والا قبر میں بھی نہیں ڈرتا، ڈرنے  والے کو نہ ہی حشر کا ڈر اور ڈرنے والے کو حساب کتاب کا بھی کوئی ڈر نہیں تھا...

مجھے یہ بات بہت دلچسپ لگی اور بہت ہی قیمتی گر کی بات لگی.. مجھے ایک بہت بڑا شارٹ کٹ مل گیا تھا.. عام طور پر مثال دی جاتی ہے کہ جو ڈر گیا وہ مر گیا.لیکن یہاں معاملہ تھا جو ڈر گیا وہ بچ گیا... یہ بہت گہری راز کی بات تھی جس نے بچپن سے ہی میرے زھن کو جکڑ لیا.. مجھے یہ سمجھ آ گئی کہ ڈر میں سب کچھ ھے. ڈر میں عزت ھے ڈر میں دولت ھے ڈر میں رزق ھے ڈر میں عافیت ھے ڈر میں محبت ھے ڈر میں خوشی ھے ڈر میں جیت ھے ڈر میں سکون ھے ڈر میں شفا ھے ڈر می میں رد بلا ھے ڈر قبر کا سکون ھے ڈر موت کی آسانی ھے ڈر جنت کی ضمانت ھے ڈر جہنم سے آزادی ھے. یہ تو سمجھ آ گئی کہ اللہ کو ڈرنے والے بہت پسند ہیں لیکن اب ایک اور الجھن آ پڑی تھی. مجھے یہ نہیں پتہ چل رہا تھا کہ اللہ سے ڈرنا کیسے چاہیے؟ اس کی دوزخ سے ڈرنا چاہئے یا قبر کے سانپوں اور بچھوؤں سے، کڑکتی بجلیوں میں اس کا ڈر تلاش کرنا چاہیے یا پہاڑوں کو پھاڑ دینے والے زلزلوں کو ڈر کی وجہ بنانا چاہیے.. مجھے اس بات نے چکرا دیا. میں نے بابا چراغ سے مدد لینے کا فیصلہ کیا بابا چراغ اس چھوٹی سی مسجد کا امام تھا جس میں میں نماز پڑھتا تھا. میں نے بچپن سے لیکر تیرہ سال کی عمر تک مسلسل پانچ وقت کی نماز بابا چراغ کی امامت میں پڑھی تھی. بابا چراغ کا تعلق ھلکی قوم سے تھا. یعنی جن کو گاؤں میں کمی کہتے ہیں میں زمینداروں کا منڈا تھا. میرے کچھ ھم عمر دوست مجھے اس بات پر مذاق کا نشانہ بناتے کہ میں بابا چراغ کی امامت میں نماز کیوں پڑھتا ہوں جبکہ چودھریوں کی مسجد دوسری تھی وہ بہت بڑی مسجد تھی..لیکن مجھے یہ چھوٹی مسیت ہی اچھی لگتی تھی.. کیونکہ اس چھوٹی مسیت سے مجھے اللہ سے محبت ھوئی تھی. بندا اپنی پہلی محبت اور وہ جگہ جہاں محبوب سے محبت ھوتی ھے کبھی نہیں بھلا سکتا.. بات مختصر کروں گا. میں نے بابا چراغ سے ایک دن ڈرتے ڈرتے سوال کیا. بابا جی یہ اللہ سے کیسے ڈرتے ہیں؟ اس وقت مسیت میں ھم دونوں موجود تھے. بابا چراغ آنکھیں بند کیے تسبیح کے دانوں پر کچھ پڑھ رہا تھا. میری آواز سن کر بولا کہ تو گیا نہیں؟ میں نے کہا بس یہ گل پوچھنی تھی اس لیے رک گیا.. وہ مسکرانے لگا. مجھے بابا کی یہ مسکراہٹ بہت پسند تھی. پورے پنڈ میں اتنا پیارا کوئی نہیں مسکراتا تھا.. کہنے لگا. تو مجھ سے ڈرتا ھے؟ میں نے کہا ھاں. کہتا کس بات کی وجہ سے مجھ سے ڈرتا ھے کیا تو میری مار سے ڈرتا ھے؟ میں سوچ میں پڑ گیا. میں نے کہا بابا تم نے کبھی بھی مجھے مارا اور جھڑکا نہیں. لیکن میں ڈرتا ھوں کہ اب تو اتنی شفقت اور محبت سے پیش آتا ھے مسکرا کر بات کرتا ھے میری کسی غلطی پر تو محبت اور شفقت نہ ختم کر دے.. بس یہی ڈر آتا ھے... اس نے میرے سر پر پیار سے ھاتھ پھیرا. مسکراتے ہوئے کہنے لگا اللہ کا ڈر بھی ایسا ھونا چاہیے... یہ ڈر ھونا چاہیے کہ کہیں وہ ناراض نہ ھو جائے. شفقت اور محبت واپس نہ لے لے.. ھر وہ کام کر جس سے اس کی محبت بڑھ جائے اور ھر وہ کام چھوڑ دے جس سے ڈر ھو کہ اس کی محبت کم ھو جائے گی شفقت ناراضگی میں بدل جائے گی.. بس اللہ کا یہی ڈر ہے جس کے بدلے سب کچھ مل جاتا ہے . اگر غلطی سے کبھی ایسا کچھ ھو جائے جس سے محبت کم ھو جانے کا خطرہ ھو تو فوراً معافی مانگ لو.. میں ڈر کا مطلب سمجھ گیا تھا.. میں جب تیرا سال کا ھوا تو بابا چراغ اچانک فوت ھو گیا میں چھوٹا تھا لیکن بڑے یہ بتاتے تھے کہ مرنے کے بعد بھی بابا چراغ کے چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی.. وہ مسکراہٹ میرے لیے پیغام تھی کہ ڈرنے والے ھمیشہ مسکراتے رھتے ہیں... کیونکہ ڈرنے والے کا ھر خوف ختم ہو جاتا ہے... 

Monday, June 22, 2020

موسم بہار کےمنظر

ایک ڈرائینگ ٹیچر کہتی ہیں: 
"ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں نے  پرائمری گریڈ کی ایک کلاس کے بچوں سے کہا کہ وہ موسم بہار کے منظر کی ڈرائینگ بنائیں ۔
 
ایک چھوٹی سی بچی اپنی ڈرائینگ لے کر آئی ، 
اس نے *قرآن مجید* کا اسکیچ بنایا ہوا تھا ۔۔۔ 
اس کی اس ڈرائینگ پر مجھے بڑا تعجب ہوا۔
 
میں نے کہا: 
موسم بہار کی ڈرائینگ بناؤ ، قرآن مجید کی نہیں ۔
 
 سمجھیں؟ ؟

اس بچی کا معصوم سا جواب میرے منہ پر ایک طمانچہ کی طرح پڑا ۔۔۔
اس نے کہا: *قرآن مجید* میرے دل کی ربیع (بہار) ہے میری أمی نے تو مجھے یہی بتایا تھا۔ ۔ ۔ 

کیسی عمدہ تعلیم تھی وہ۔۔۔

Thursday, June 18, 2020

لوگوں کے درمیان پل بنائیں

دوسگے بھائیوں کے بڑے بڑے زرعی فارم ساتھ ساتھ واقع تھے دونوں چالیس سال سے ایک دوسرے سے اتفاق سے رہ رہے تھے اگر کسی کو اپنے کھیتوں کیلئے کسی مشینری یا کام کی زیادتی کی وجہ سے زرعی مزدوروں کی ضرورت پڑتی تو وہ بغیر پوچھے بلا ججھک ایک دوسرے کے وسائل استعمال کرتے تھے .
لیکن ایک دن کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ان میں کسی بات پر اختلاف ہو گیا اور کسی معمولی سی بات سے پیدا ہونے والا یہ اختلاف ایسا بڑھا کہ ان میں بول چال تک بند ہو گئی اور چند ہفتوں بعد ایک صبح ایسی بھی آ گئی کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے گالی گلوچ پر اتر آ ئے اور پھر چھوٹے بھائی نے غصے میں اپنا بلڈوزر نکالا اور شام تک اس نے دونوں گھروں کے درمیان ایک گہری اور لمبی کھاڑی کھود کر اس میں دریا کا پانی چھوڑ دیا
․․․․اگلے ہی دن ایک ترکھان کا وہاں سے گزر ہوا تو بڑے بھائی نے اسے آواز دے کر اپنے گھر بلایا اور کہا کہ وہ سامنے والا فارم ہاؤس میرے بھائی کا ہے جس سے آج کل میرا جھگڑا چل رہا ہے اس نے کل بلڈو زر سے میر ے اور اپنے گھروں درمیان جانے والے راستے پر ایک گہری کھاڑی بنا کر اس میں پانی چھوڑ دیا ہے.
میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اس کے فارم ہاؤس کے درمیان تم آٹھ فٹ اونچی باڑ لگا دو کیونکہ میں اس کا گھر تو دور کی بات ہے اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا اور دیکھو مجھے یہ کام جلد از جلد مکمل کر کے دو جس کی میں تمہیں منہ مانگی اجرت دوں گا ۔
ترکھان نے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ مجھے پہلے آپ وہ جگہ دکھائیں جہاں سے میں نے باڑھ کو شروع کرنا ہے تاکہ ہم پیمائش کے مطابق ساتھ والے قصبہ سے ضرورت کے مطابق مطلوبہ سامان لا سکیں .
موقع دیکھنے کے بعد ترکھان اور بڑا بھائی ساتھ واقع ایک بڑے قصبہ میں گئے اور تین چار متعلقہ مزدوروں کے علا وہ ایک بڑی پک اپ پر ضرورت کا تمام سامان لے کر آ گئے ترکھان نے اسے کہا کہ اب آپ آرام کریں اور اپنا کام ہم پر چھوڑ دیں․․․ترکھان اپنے مزدوروں کاریگروں سمیت سارا دن اور ساری رات کام کرتا رہا ۔
صبح جب بڑے بھائی کی آنکھ کھلی تو یہ دیکھ کر اس کا منہ لٹک گیا کہ وہاں آٹھ فٹ تو کجا ایک انچ اونچی باڑھ نام کی بھی کوئی چیز نہیں تھی ،وہ قریب پہنچا تو یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ وہاں ایک بہترین پل بنا ہوا تھا جہاں اسکے چھوٹے بھائی نے گہری کھاڑی کھود دی تھی.
جونہی وہ اس پل پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ پل کی دوسری طرف کھڑا ہوا اس کا چھوٹا بھائی اسکی طرف دیکھ رہا تھا چند لمحے وہ خاموشی سے کھڑا کبھی کھاڑی اور کبھی اس پر بنے ہوئے پل کو دیکھتا رہا اور پھر اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری چند سیکنڈ بعد دونوں بھائی نپے تلے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے پل کے درمیان آمنے سامنے کھڑے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور پھر دونوں بھائیوں نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے ایک دوسرے کو پوری شدت سے بھینچتے ہوئے گلے لگا لیا۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے دونوں بھائیوں کے بیوی بچے بھی اپنے گھروں سے نکل کر بھاگتے اور شور مچاتے ہوئے پل پر اکٹھے ہو گئے اور دور کھڑا ہوا ترکھان یہ منظر دیکھ دیکھ کر مسکرا رہا تھا .
بڑے بھائی کی نظر جونہی ترکھان کی طرف اٹھی جو اپنے اوزار پکڑے جانے کی تیاری کر رہا تھا تو وہ بھاگ کر اس کے پاس پہنچا اورکہا کہ وہ کچھ دن ہمارے پاس ٹھہر جائے لیکن ترکھان یہ کہہ کر چل دیا کہ اسے ابھی اور بہت سے"پُل " بنانے ہیں۔
برائے مہربانی کوشش کریں کہ لوگوں کے درمیان پل بنائیں دیواریں نہ بنائیں...

چار موسم

آپ نے کبھی سوچا ہے کہ چار موسموں *(گرمی سردی، خزاں بہار)*  کا کیا مطلب ہے، 
اور یہ موسم ہمیں کیا پیغام دیتے ہیں؟ 

آئیے اِن کو پَرکھیں! 

*موسمِ گرما* 
ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ، اے اِنسان! اگر دُنیا میں یہ موسم تُم برداشت نہیں کر سکتے تَو، جَہَنَّم کی آگ کیسے برداشت کرو گے؟

*موسمِ سَرما*
گرمی میں اِنسان سوچتا ہے کہ، کاش یہ موسم کُچھ ٹھنڈا ہو، اور موسمِ سرما میں، سردی بھی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے، لہٰذا یاد رکھ اے اِنسان کہ جَہَنَّم کا ایک درجہ اِنتہائی سَرد ہے، وہ کیسے برداشت کرو گے؟

*موسمِ خِزاں*
یہ موسم ہمیں بتا رہا ہے کہ، اے اِنسان! ننگے درختوں کو بغور دیکھ، کہ کیسے اِن پہ کونپلیں پھوٹتی ہیں، اور چند دِنوں میں وہ درخت پتوں سے ڈھک جاتا ہے، لیکن! وہ پتے سدا اُس پہ نہیں رہتے، آخِر جَھڑ جاتے ہیں، کیونکہ دُنیا میں سدا کِسی نے نہیں رہنا۔

*موسمِ بہار*
یہ موسم ہمیں سبق دیتا ہے کہ، دُکھ کے بعد سُکھ بھی ہے، اور اپنا آپ *(اَخلاق)* اتنا اچھا کر لے کہ، لوگ تمہارے پاس دوڑے چلے آئیں۔

Sunday, June 14, 2020

تین کی کسوٹی

*3 کی کسوٹی!*

افلاطون اپنے اُستاد سقراط کے پاس آیا اور کہنے لگا
*"آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں غلط بیانی کر رہا تھا"*
سقراط نے مسکرا کر پوچھا
*"وہ کیا کہہ رہا تھا۔۔۔؟"*
افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا
*"آپ کے بارے میں کہہ رہا تھا...۔۔!"*
اُس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا
*"تم یہ بات سنانے سے پہلے اِسے تین کی کسوٹی پر رکھو،*
اس کا تجزیہ کرو، اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمہیں یہ بات مجھے بتانی چاہیے، یا نہیں"
*افلاطون نے عرض کیا "یا استاد! تین کی کسوٹی کیا ہے؟"*
1_*سقراط بولا "کیا تمہیں یقین ہے تم مجھے جو یہ بات بتانے لگے ہو یہ بات سو فیصد سچ ہے۔۔۔؟"*
افلاطون نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔
سقراط نے ہنس کر کہا "پھر یہ بات بتانے کا تمہیں اور مجھے کیا فائدہ ہو گا؟"
اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں۔
2_*"مجھے تم جو یہ بات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے۔۔۔؟"*
افلاطون نے انکار میں سر ہلا کر جواب دیا۔ "جی! نہیں یہ بُری بات ہے۔۔۔!"
سقراط نے مسکرا کر کہا "کیا تم یہ سمجھتے ہو تمہیں اپنے اُستاد کو بُری بات بتانی چاہیے۔۔؟"
افلاطون نے پھر انکار میں سر ہلا دیا۔
سقراط نے ذرا سا رُک کر کہا
3_*"اور آخری کسوٹی، یہ بتاؤ یہ جو بات تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لیے فائدہ مند ہے۔۔؟"*
افلاطون نے انکار میں سر ہلایا اور عرض کیا "یا اُستاد! یہ بات ہرگز ہرگز آپ کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔۔!"
سقراط نے ہنس کر کہا "اگر یہ بات میرے لیے فائدہ مند نہیں، تو پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے۔۔؟"
افلاطون پریشان ہو کر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔
*سقراط نے گفتگو کے یہ تین اصول آج سے ہزاروں سال قبل وضع کر دیے تھے،*

*1۔ "کیا یہ بات سو فیصد درست ہے؟"،*
*2۔ "کیا یہ بات اچھی ہے؟"* اور
*3۔ "کیا یہ بات سننے والے کے لیے مفید ہے؟"*

آج ہمارے معاشرے کو بھی اِس "3 کی کسوٹی" کی بہت ضرورت ہے۔
*جہاں نقطہ چینی، چغل خوری، تہمت بیانی اور گمراہ کن باتوں کا دور دورہ ہے اور ہر فرد دوسرے کے لیے زبان کے تیر چلانے کی تاک میں بیٹھا ہوا ہے۔*

Saturday, June 13, 2020

وقت تو گزر جاتا ہے:-

وقت تو گزر جاتا ہے:-

لیکن آپ وقت کو روک بھی سکتے ہیں، اگر آپ وقت کو اپنی مرضی سے گزاریں تو آپ اُس سے وہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں جو چاہتے ہیں، اس طرح وقت آپ کے لئے رک جاتا ہے۔
اگر آپ اپنی مرضی سے وقت گزاریں گے تو وقت آپ کے کام آئے گا وگرنہ وقت اپنی مرضی سے گزرے گا تو وہ آپ کے کام نہیں آئے گا۔
تو پھر کیا کیا جائے؟ کہ وقت خود نہ گزرے بلکہ اُس کو ہم خود گزاریں۔ اس کا بہترین طریقہ تو یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم اُن خواہشات کو لکھیں جن کے لئے ہم تڑپتے ہیں اور اللہ کے آگے دُعا گزار ہوتے ہیں۔ وہ خواہشات کچھ بھی ہو سکتی ہیں، کسی بھی نوعیت کی ہو سکتی ہیں۔ جیسے ، کسی کو پیسے کی ضرورت ہے، کسی کو صحت کی ضرورت ہے، کسی کو اپنے بچے کو ڈاکٹر بنانا ہے، کسی نے اپنی بیٹی کی شادی کرنی ہے یا پھر کسی نے حج کرنا ہے۔ضرورت یا خواہش کچھ بھی ہو سکتی ہے اور کسی عمر میں بھی ہو سکتی ہے۔
ایک موٹی ویشنل سپیکر ایک سیمینار میں اپنی تقریر میں یہ کہہ رہا تھا کہ آپ کو کامیابی کے لئے کم از کم پانچ سال کے لئے کوئی گول یعنی مقصد یا ہدف بنانا چاہیے۔ سننے والے لوگوں میں سے ایک شخص نے تقریر کے خاتمے کے بعد اُس سے پوچھا کہ کوئی اور طریقہ نہیں ہے کامیابی کا؟ پانچ سال تو بہت زیادہ ہوتے ہیں، کوئی جلدی کا طریقہ نہیں ہے آپ کے پاس؟ ۔
اُس سپیکر نے جواب دیا کہ ہاں ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کوئی گول نہ بنائیں۔ زندگی کو اُس کی مرضی سے چلنے دیں۔ سپیکر نے دوسرے لوگوں کو اس سوال کے بعد وضاحت سے بتایا کہ آج اگر آپ تیس سال کے ہیں اور آپ اپنی زندگی کےلیے کوئی گول یا مقصد نہیں بناتے تو جب آپ پینتیس سال کے ہوں گے تو پانچ سال تو گزر چکے ہوں گے مگر آپ اُس طرح ہی زندگی گزار رہے ہوں گے جیسے تیس سال کے ہوتے ہوئے گزار رہے تھے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ وقت نے گزر جانا ہوتا ہے۔ ہمیں وقت کو روکنا ہے تو وقت کے ساتھ نہ چلیں بلکہ وقت کو اپنے ساتھ چلائیں۔