Monday, July 20, 2020

زندگی کے سفر میں.....

آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ گند پر بیٹھا کتا 🐕 یا روڈ کنارے سویا ہوا کتا گاڑی 🚗 کے پیچھے کچھ فاصلے تک بھونکتا اور دوڑتا ہے 
نہ یہ کتا 🐕 آپ سے گاڑی چھین سکتا ہے نہ گاڑی میں بیٹھ سکتا ہے، اور نہ ہی یہ گاڑی چلا سکتا ہے، بس خامخواہ
بھوکنا اس کی عادت ہے 
ایسے ہی زندگی کے سفر میں جب آپ اپنی منزل کی طرف رواں دواں 🚶🏃 ہوتے ہو تو  کچھ اسی عادت کے لوگ بنا کسی مقصد آپ کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں  
اسی لیے جب آپ اپنی منزل پر رواں دواں ہوں اور لوگ آپ کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کریں، تو ان سے الجھنے کی بجائے، اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہیں ان شاء الله تعالیٰ کامیابیاں آپ کی منتظر رہیں گی۔ ۔ ۔

خوش رہیں خوشیاں بانٹیں

یہ واقعہ مصر میں پیش آیا:

"ایک چھوٹی سی 6 سالہ معصوم بچی سڑکوں پر ٹشو پیپرز بیچ رہی تھی، چہرے پر مسکراہٹ لئے یہ اِدھر سے اُدھر پھدکتی پھر رہی ہے، گاہکوں کو آتے دیکھ کر اپنی چھوٹی سی ٹوکری ان کے سامنے کرتی ہوئی کہتی: آپ کو ٹشو پیپرز چاہئیں؟

وہ ایک خاتون کے سامنے سے گزرتی ہے تو دیکھتی ہے کہ وہ رو رہی ہے، معصوم بچی اس کے پاس رک جاتی ہے، خاتون نے بھی اشک بار آنکھوں سے اس پیاری سی بچی کو دیکھا جو چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ لیے اسے ٹشو پیپر کا پیکٹ پیش کر رہی تھی، اس نے انجانے میں ٹشو پیپر نکالا اور اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھنے لگی۔ اس نے اپنے پرس سے ٹشو پیپرز کی قیمت نکالی اور بچی کو دینے کے لیے دیکھا تو وہ جا چکی تھی۔ وہ چھوٹی سی مسکراتی ہوئی بچی اسے بہت اچھی لگی۔ تھوڑی دور ایک خالی بنچ پڑا تھا، وہ خاتون وہاں جا کر بیٹھ گئی، کچھ سوچا اور پھر اپنے موبائل سے اپنے خاوند کو میسیج کیا:
"میں اپنے کیے پر نادم ہوں، جو کچھ ہوا، مجھے اس پر افسوس ہے، آپ جانے دیں، آپ کا موٴقف درست ہے۔"

اس کا خاوند ایک ہوٹل میں پریشان حال بیٹھا تھا کہ اسے بیوی کا یہ خوشگوار پیغام ملا، اس کے چہرے پر پرسکون مسکراہٹ چھا گئی۔ ان میاں بیوی کے مابین کسی بات پر جھگڑا ہوگیا تھا۔ اس خوشی میں اس نے ویٹر کو بلوایا اور بڑی خوشی سے اسے پچاس مصری پونڈ پکڑا کر کہا کہ یہ تمہارے ہیں، ویٹر کو اعتبار نہ آیا اور کہنے لگا: چائے کی قیمت تو صرف 5 پونڈ تھی؟! باقی تمہاری ٹپ ہے، وہ گویا ہوا…

اب ویٹر کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، ویٹر کو اتنی بڑی رقم کا ملنا کوئی معمولی بات نہ تھی، اس نے ایک فیصلہ کیا اور اس بوڑھی فقیر عورت کے پاس جا پہنچا، جو فٹ پاتھ پر کپڑا بچھائے چاکلیٹ اور ٹافیاں بیچ رہی تھی، اس نے ایک پونڈ کی چاکلیٹ خریدی اور اسے مسکراتے ہوئے دس پونڈ پکڑا دےئے۔ باقی پونڈ تمہارے لیے، اس نے کہا اور اپنے کام پر واپس چل دیا۔

بوڑھی خاتون بار بار اس 10 پونڈ کے نوٹ کی طرف دیکھ رہی تھی، جو اسے بغیر کسی محنت اور صلے کے مل گئے تھے۔ اس کے چہرے پر بے حد مسکراہٹ تھی۔ اس کا دل مارے خوشی کے بلیوں اچھل رہا تھا، اس نے زمین پر بچھائے ہوئے اپنے سامان کو سمیٹا اور سیدھی قصاب کی دکان پر جا پہنچی، اسے اور اس کی پوتی کو گوشت کھائے کتنی مدت گزر چکی تھی۔ ان کا گوشت کھانے کو جی چاہتا تھا، مگر ان کے وسائل اجازت نہیں دیتے تھے، آج ان کی خواہش پوری ہو رہی تھی۔
اس نے مسکراتے ہوئے گوشت خریدا اور گھر چل دی۔ بوڑھی اماں نے بڑی محنت اور شوق سے گوشت پکایا اور ننھی سی پیاری سی پوتی کا انتظار کرنے لگی کہ وہی تو اس کی کل کائنات تھی، آج وہ گوشت کھا کر کتنی خوش ہوگی؟ 
وہ سوچوں میں گم تھی کہ ٹشو پیپرز بیچنے والی اس کی پوتی مسکراتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی، آج اس کے چہرے پر عام دنوں سے زیادہ مسکراہٹ تھی۔

اے عاشقان رسول!
 کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم بھی اس ٹشو پیپر بیچنے والی بچی کی طرح مسکراہٹیں تقسیم کریں، لوگوں میں خوشیاں بانٹیں،
حدیث پاک کا مفہوم ھے کہ تمہارا اپنے بھائی کے ساتھ مسکراتے ہوئے چہرے سے پیش آنا بھی صدقہ ہے۔
خوش رہیں خوشیاں بانٹیں

Sunday, July 19, 2020

ذاتی منافقت

رات کو میں موبائل چارجنگ لگا کر سوگیا۔

صبح اٹھا تو  بیٹری لو ہونے کی وجہ سے موبائل بند ہوچکا تھا۔ بہت  زیادہ غصہ آیا کہ موبائل کو کس نے ہلایا تھا۔
۔
ابھی میں زور سے چلا کر پورے گھر کو سر پر اٹھانے ہی والا تھا کہ میری نظر سامنے لگے سوئچ بورڈ پر پڑی اور یہ دیکھ کر میں نے اپنی آواز  حلق میں ایسے ہی دبا لی جیسے کسی نے غریب کے پیسے دبا لئے ہوں. کیونکہ میں نے موبائل تو چارجنگ لگا دیا البتہ سوئچ کا بٹن دبانا بھول گیا. 
اپنی اس غلطی کو میں نے گردے پھپھڑوں پر نا لاتے ہوئے نظر انداز کرکے موبائل کو دوبارہ چارجنگ لگا دیا البتہ اس دن میں نے ایک سبق سیکھا کہ
۔
۔
یہی ہماری منافقت ہے کہ اگر کسی اور سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو ہم اس پر سیخ پا کباب ہوجاتے ہیں 

البتہ 

وہی غلطی ہم سے ہوجائے تو ہم بالکل برعکس رویے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
۔
"کوئی نہیں قسمت میں ایسا ہی ہونا لکھا تھا"۔۔

تین نصیحتیں....

️ایک شخص نے چڑیا پکڑنے کیلئے جال بچھایا،اتفاق سے ایک چڑیا اس میں پھنس گئی اور شکاری نے اسے پکڑ لیا،چڑیا نے اس سے کہا ''اے انسان! تم نے کئی ہرن، بکرے اور مرغ وغیرہ کھائے ہیں،ان چیزوں کے مقابلے میں میری کیا حیثیت ہے ،ذرا سا گوشت میرے جسم میں ہے اس سے تمہارا کیا بنے گا؟ تمہارا تو پیٹ بھی نہیں بھرے گا لیکن اگر تم مجھے آزاد کردو تو میں تمہیں تین نصیحتیں کرونگی جن پر عمل کرنا تمہارے لئے بہت مفید ہوگا،ان میں سے ایک نصیحت تو میں ابھی کروں جب تم مجھے چھوڑ دو گے اور میں دیوار پر جا بیٹھوں گی،اس کے بعد تیسری اور آخری نصیحت اس وقت کروں گی جب دیوار سے اڑکرسامنے درخت کی شاخ پر جا بیٹھونگی،اس شخص کے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ نہ جانے چڑیا کیا فائدہ مند نصیحتیں کرے۔۔۔
اس نے چڑیا کی بات مانتے ہوئے اس سے پوچھا، تم مجھے پہلی نصیحت کرو، پھر میں تمہیں چھوڑ دونگاچنانچہ چڑیا نے کہا،میری پہلی نصیحت یہ ہے کہ جو بات کبھی نہیں ہو سکتی اسکا یقین مت کرنا،یہ سن کر اس آدمی نے چڑیا کو چھوڑ دیا اور وہ سامنے دیوار پر جا بیٹھی، پھر بو لی، میری دوسری نصیحت یہ ہے کہ جو بات ہو جائے اس کا غم مت کرنااور پھر کہنے لگی،اے بھلے مانس! تم نے مجھے چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کی کیونکہ میرے پیٹ میں پاؤ بھر کا انتہائی نایاب پتھر ہے اگر تم مجھے ذبح کرتے اور میرے پیٹ سے اس موتی کو نکال لیتے تو اس کے فروخت کرنے سے تمہیں اس قدردولت حاصل ہوتی کہ تمہاری آنے والی کئی نسلوں کے لئے کافی ہوتی اور تم بہت بڑے رئیس ہو جاتے۔۔۔

اس شخص نے جو یہ بات سنی تو لگا افسوس کرنے اور پچھتایا کہ اس چڑیا کو چھوڑ کراپنی زندگی کی بہت بڑی غلطی کی اگر اسے نہ چھوڑتا تو میری نسلیں سنور جاتیں،چڑیا نے اسے اس طرح سوچ میں پڑے دیکھا تو اڑ کر درخت کی شاخ پرجا بیٹھی اور بولی،اے بھلے مانس! ابھی میں نے تمہیں پہلی نصیحت کی جسے تم بھول گئے کہ جو بات نہ ہوسکنے والی ھو اسکا ھر گز یقین نہ کرنا لیکن تم نے میری اس بات کا اعتبار کرلیا کہ میں چھٹاک بھر وزن رکھنے والی چڑیا اپنے پیٹ میں پاؤ وزن کا موتی رکھتی ہوں، کیا یہ ممکن ہے؟۔۔۔
میں نے تمہیں دوسری نصیحت یہ کی تھی کہ جو بات ہو جائے اسکا غم نہ کرنا مگر تم نے دوسری نصیحت کا بھی کوئی اثر نہ لیا اور غم و افسوس میں مبتلا ہو گئے کہ خواہ مخواہ مجھے جانے دیا،تمہیں کوئی بھی نصیحت کرنا بالکل بیکار ہے، تم نے میری پہلی دو نصیحتوں پر کب عمل کیا جو تیسری پر کرو گے، تم نصیحت کے قابل نہیں،یہ کہتے ہوئے چڑیا پھر سے اڑی اورہوا میں پرواز کر گئی، وہ شخص وہیں کھڑا چڑیا کی باتوں پر غور و فکر کرتے ہوئے سوچوں میں کھو گیا۔۔۔
وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں کوئی نصیحت کرنے والا ہو،ہم اکثر خود کو عقلِ کل سمجھتے ہوئے اپنے مخلص ساتھیوں اور بزرگوں کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرتے اور اس میں نقصان ہمارا ہی ہوتا ہے،یہ نصیحتیں صرف کہنے کی باتیں نہیں ہوتیں کہ کسی نے کہہ لیا، ہم نے سن لیابلکہ دانائی اور دوسروں کے تجربات سے حاصل ہونے والے انمول اثاثے ہیں جو یقیناًہمارے لئے مشعل راہ ثابت ہو سکتے ہیں اگر ہم ان نصیحتوں پر عمل بھی کریں۔۔۔

Saturday, July 11, 2020

مادہ پرستی کی بجائے شخصیت....!

نمرود جب تک طاقت کے نشے میں تھا سب کو کہتا مجھے سجدہ کرو اور جب دماغ میں مچھر گھسا تو کہتا تھا مجھے ایک جوتا مارو ۔۔۔۔
                 زندگی میں بھت ساری چیزیں وقتی ھوتی ھیں آج جو کچھ ہمارے پاس ھے یہ کل کسی اور کا تھا اور آنے والے وقت میں کسی اور کا ھو گا ،اگر کوئی چیز باقی رھنے والی ھے تو صرف انسان کا کردار ھے اس لیے مادہ پرستی کے بجائے شخصیت کی تعمیر پہ توجہ دیں، کسی بھی غلط فہمی میں اتنا آگے نہ جائیں کہ جہاں سے واپسی مشکل ھو جائے ۔۔۔

قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے



دادی جان نے آواز دی: ''کب سے نہائے جا رہے ہو، کتنا نہاؤ گے؟ اب بس بھی کرو!''

بس کچھ دیر اور دادی اماں! صفدر اور ثاقب دونوں نے ملکر کہا۔ گرمیوں کی شام تھی اس لئے دونوں بھائی صحن میں پودوں کو پانی دینے والے پائپ کے ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے نہانے میں مگن تھے۔

یہ اچانک پانی کو کیا ہو گیا، کیوں بند ہو گیا؟ صفدر نے بڑے بھائی کی طرف دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔

پانی بند نہیں ہوا بلکہ میں نے ٹونٹی بند کی ہے، جواب ثاقب کے بجائے ان کے ابو سلمان صاحب کی طرف سے آیا تھا۔ پھر سلمان صاحب نے سخت لہجے میں کہا: آپ دونوں جلدی کپڑے تبدیل کر کے میرے پاس آئیں، ضروری بات کرنی ہے، اور اندر چلے گئے۔

ثاقب: لگتا ہے ابو ناراض ہیں، چلو جلدی کرو اس سے پہلے کہ ابو کا غصہ اور بڑھ جائے۔ کچھ ہی دیر میں دونوں بھائی کپڑے بدل کر ڈائننگ روم میں ابو کے سامنے بیٹھے تھے۔

حیرت کے ساتھ ساتھ دونوں کے چہرے پر تھوڑی پریشانی کے آثار بھی ظاہر تھے کہ پتہ نہیں ابو جان کون سی بات پر ناراض ہیں۔

سلمان صاحب: پانی! اللّٰه پاک کی بہت بڑی نعمت ہے، اگر ہم اس کی قدر نہیں کریں گے اور اس کو ضائع کریں گے تو اس نعمت سے محروم ہو سکتے ہیں۔

ثاقب نے فوراً  کہا: مگر ابو! ہم نے تو پانی نہیں ضائع کیا، ہم تو بس نہا رہے تھے۔

سلمان صاحب: بیٹا! نہانا، صفائی کا خیال رکھنا اچھی بات ہے لیکن جس طرح آپ لوگ آج تفریحاً نہا رہے تھے اس طرح پانی بہت ضائع ہوتا ہے، آپ نے یہ جملہ تو سنا ہی ہو گا "قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے۔" دونوں نے ایک ساتھ کہا: جی! سنا ہے۔ تو بچّو! جس طرح پانی کا خیال کرنے سے اور قطرے قطرے کی حفاظت کرنے سے دریا بنتا ہے یوں ہی قطرہ قطرہ ضائع کرنے سے پانی ختم بھی ہو سکتا ہے۔ لہذا ہمیں پانی کا اتنا ہی استعمال کرناچاہئے جتنی ہماری ضرورت ہو، بلاوجہ پانی ضائع نہیں کرنا چاہئے۔

ثاقب نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا: ابو! اسکول سے آتے وقت میرے تھرماس میں کچھ پانی بچ جاتا ہے تو میں اسے پھینک دیتا ہوں، اسی طرح گلاس میں پانی رہ جاتا ہے تو اسے بھی گرا دیتا ہوں، یہ غلط ہے کیا؟

سلمان صاحب نے جواب دیا: ہاں! بیٹا یہ غلط ہے۔

صفدر نے بھی ہمت کی اور پوچھا: جب میں دانت بُرش کرتا ہوں یا نہانے کے لئے صابن لگاتا ہوں تو نل کھلا چھوڑ دیتا ہوں، تو کیا یہ بھی پانی ضائع کرنا ہو گا؟

سلمان صاحب نے اسے بھی سمجھایا: جی بیٹا! ان سب صورتوں میں پانی ضائع ہو رہا ہوتا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ برش کرتے، ہاتھ منہ دھوتے یونہی نہاتے ہوئے بعض اوقات جتنا پانی ہم ضائع کرتے ہیں اس کا حساب لگایا  جائے تو کئی گیلن بنتے ہیں اور دوسری طرف ہماری دنیا میں  ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں لوگوں کو پینے کے لئے بھی صاف پانی میسّر نہیں ہوتا، ہمیں اگر نعمت ملی ہے تو کیا ایسے ضائع کرنی چاہئے؟

بالکل نہیں ابو جان! دونوں بچوں نے جواب دیا۔

سلمان صاحب کی نصیحت بچوں کو نہ صرف سمجھ  آ گئی تھی بلکہ وہ اس پر عمل کے لئے بھی تیار نظر آ رہے تھے یہ دیکھ کر انہوں نے خوشی سے دونوں بیٹوں کو سینے سے لگا لیا۔

بالٹی بھر کوڑا

ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﺎ ﻣﮑﺎﻥ ﺧﺮﯾﺪﺍ !
ﺍس میں پھلوں کا ﺑﺎﻍ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ. ﭘﮍﻭﺱ ﮐﺎ ﻣﮑﺎﻥ ﭘﺮﺍﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﺭﮨﺘﮯ ﺗﮭﮯ .
ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﭘﮍﻭﺱ ﮐﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺑﺎﻟﭩﯽ ﺑﮭﺮ ﻛﻮﮌﺍ ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ .
ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﻟﭩﯽ ﻟﯽ ، ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺯﮦ ﭘﮭﻞ ﺭﮐﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﯽ ﮔﮭﻨﭩﯽ ﺑﺠﺎﺋﯽ. ﺍﺱ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻟﮕﮯ، ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺻﺒﺢ ﮐﮯ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻟﮍﻧﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ !..

ﻟﮩﺬﺍ ﻭﮦ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺍ ﺑﮭﻼ ﺑﻮﻟﻨﮯ ﻟﮕﮯ ، ﻣﮕﺮ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻻ، ﻭﮦ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﮔﺌﮯ . رسیلے ﺗﺎﺯﮦ ﭘﮭﻞ ﮐﯽ ﺑﮭﺮﯼ ﺑﺎﻟﭩﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ، ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﻟﺌﮯ ﻧﯿﺎ ﭘﮍﻭﺳﯽ ، ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﺗﮭﺎ !...
ﺳﺐ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺗﮭﮯ

ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ -

" ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺗﮭﺎ " ، ﻭﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻻ ﺳﮑﺎ. "
ﺳﭻ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﻮ ہوتا ﮨﮯ ،ﻭﮨﯽ ﻭﮦ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ !..
" ﺫﺭﺍ ﺳﻮﭼﯿﮟ، ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ کو " دینے " ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ .. ؟ "

Thursday, June 25, 2020

میں باوضو نہیں تھا

کلاس ٹیچر حیران و پریشان تھے
سوال بہت آسان تھا مگر کلاس کا سب سے ذہین اور فرمانبردار طالبِ علم گذشتہ آدھے گھنٹے سے اسکا جواب نہیں دے رہا تھا
 ٹیچر نے سوال پھر دہرایا
"بتاؤ ہمارے پیارے نبی صلی الله عليه وآلہ وسلم کا کیا نام ہے؟ "
دوسری جانب مکمل خاموشی تھی ٹیچر کا بس نہیں چل رہا تھا 
اسلامیات کے ٹیچر بھی آ چکے تھے 
اب دونوں اساتذہ نے سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کی مگر بےسود
بچہ مکمل خاموش تھا پٹائی اور ڈراوا بھی اس پر اپنا اثر نہیں دکھا سکے تھے بچے کے گال مار کھا کھا کر سرخ ہو چکے تھے اور سوج گئے تھے ایک ہونٹ پھٹ گیا تھا اور اس سے خون بہہ رہا تھا 
ہیڈ ماسٹر صاحب کو بلایا گیا اور انکی کوششیں بھی رائیگاں جانے لگیں  تھک کر انہوں نے کہا کہ بریک کا وقت ہے بریک کے بعد اگر اس نے بتا دیا تو ٹھیک ورنہ اسے سکول سے نکال دیا جائے گا 
بریک کے بعد سارے سکول کو اکٹھا کیا گیا اور اس طالبعلم کو بلایا گیا 
اسکا چہرہ دھلا ہوا تھا اور چہرے پر نور کی جیسے لہریں دوڑ رہی تھیں 
ہیڈ ماسٹر نے سوال دہرایا
"بتاؤ ہمارے پیارے نبی صلی الله عليه وآلہ وسلم کا کیا نام ہے؟ "
"حضرت محمد صلی الله عليه وآلہ وسلم "
 بچے نے انتہائی سکون اور احترام سے جواب دیا 
سب حیران تھے کہ یہ جواب تو بچہ پہلے بھی دے سکتا تھا پھر اس نے اتنی مار اور سختی کیوں برداشت کی 
"تم یہ جواب پہلے بھی دے سکتے تھے؟ "
 آخر ہیڈ ماسٹر صاحب نے پوچھا  بچے کا جواب سب کے اعصاب پر کسی بجلی کی طرح گرا
" اس وقت میں باوضو نہیں تھا ۔"❤✌

ڈرنے والے

ایک بہت ہی قیمتی بات ایک بار پھر آپ سب کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.. مجھے بچپن سے ہی قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کا بہت شوق تھا....میں نماز کے بعد مسجد میں ایسے قرآن پاک کی تلاش میں رھتا جس کے آدھے صفحے پر آیات اور ان کا ترجمہ لکھا ھوتا اور باقی آدھے صفحے پر تفسیر لکھی ھوتی تھی.. میں گھنٹوں تک اس میں کھویا رھتا. حتی کہ روزانہ مجھے بنا ناشتے کے اسکول جانا پڑتا تھا. کیونکہ نماز فجر کے بعد سے لیکر اسکول جانے کے وقت تک مسجد میں بیٹھا ترجمہ و تفسیر پڑھتا رھتا. وہ سب میرے لیے بہت دلچسپ ھوتا تھا.. یہ فطری بات تھی... کیونکہ یہ کتاب اتاری ہی پڑھنے کے لیے گئی ھے اس لیے پڑھنے والے کو اپنی طرف کھینچتی ھے. میں اس کے سحر میں گرفتار ہو گیا تھا.. مجھے امتوں کے حال پڑھنے کا بہت شوق تھا.. اس دوران میں نے کچھ چیزیں نوٹ کی کہ اللہ تعالیٰ ایک لفظ بہت زیادہ قرآن پاک میں بیان فرماتا ھے.. وہ لفظ تھا ڈر.... اس لفظ کی قرآن پاک میں بہت بار تکرار کی گئی ہے.. ڈرنے والوں سے محبت کا اظہار کیا گیا ہے. ڈرنے والوں کے لیے جنت ھے، ڈرنے والوں کے لیے جہنم کی آگ سے آزادی ھے. ڈرنے والوں کے لیے دنیا میں عزت کا اعلان بھی قرآن پاک میں موجود ہے.. ڈرنے والوں کے لیے روٹی روزی کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے. ڈرنے والوں کے لیے عذاب سے بھی نجات تھی. ڈرنے والوں کے لیے ھر ڈر ختم کر دیا گیا تھا یعنی ڈرنے والا دنیا میں کسی سے نہیں ڈرتا. ڈرنے والا قبر میں بھی نہیں ڈرتا، ڈرنے  والے کو نہ ہی حشر کا ڈر اور ڈرنے والے کو حساب کتاب کا بھی کوئی ڈر نہیں تھا...

مجھے یہ بات بہت دلچسپ لگی اور بہت ہی قیمتی گر کی بات لگی.. مجھے ایک بہت بڑا شارٹ کٹ مل گیا تھا.. عام طور پر مثال دی جاتی ہے کہ جو ڈر گیا وہ مر گیا.لیکن یہاں معاملہ تھا جو ڈر گیا وہ بچ گیا... یہ بہت گہری راز کی بات تھی جس نے بچپن سے ہی میرے زھن کو جکڑ لیا.. مجھے یہ سمجھ آ گئی کہ ڈر میں سب کچھ ھے. ڈر میں عزت ھے ڈر میں دولت ھے ڈر میں رزق ھے ڈر میں عافیت ھے ڈر میں محبت ھے ڈر میں خوشی ھے ڈر میں جیت ھے ڈر میں سکون ھے ڈر میں شفا ھے ڈر می میں رد بلا ھے ڈر قبر کا سکون ھے ڈر موت کی آسانی ھے ڈر جنت کی ضمانت ھے ڈر جہنم سے آزادی ھے. یہ تو سمجھ آ گئی کہ اللہ کو ڈرنے والے بہت پسند ہیں لیکن اب ایک اور الجھن آ پڑی تھی. مجھے یہ نہیں پتہ چل رہا تھا کہ اللہ سے ڈرنا کیسے چاہیے؟ اس کی دوزخ سے ڈرنا چاہئے یا قبر کے سانپوں اور بچھوؤں سے، کڑکتی بجلیوں میں اس کا ڈر تلاش کرنا چاہیے یا پہاڑوں کو پھاڑ دینے والے زلزلوں کو ڈر کی وجہ بنانا چاہیے.. مجھے اس بات نے چکرا دیا. میں نے بابا چراغ سے مدد لینے کا فیصلہ کیا بابا چراغ اس چھوٹی سی مسجد کا امام تھا جس میں میں نماز پڑھتا تھا. میں نے بچپن سے لیکر تیرہ سال کی عمر تک مسلسل پانچ وقت کی نماز بابا چراغ کی امامت میں پڑھی تھی. بابا چراغ کا تعلق ھلکی قوم سے تھا. یعنی جن کو گاؤں میں کمی کہتے ہیں میں زمینداروں کا منڈا تھا. میرے کچھ ھم عمر دوست مجھے اس بات پر مذاق کا نشانہ بناتے کہ میں بابا چراغ کی امامت میں نماز کیوں پڑھتا ہوں جبکہ چودھریوں کی مسجد دوسری تھی وہ بہت بڑی مسجد تھی..لیکن مجھے یہ چھوٹی مسیت ہی اچھی لگتی تھی.. کیونکہ اس چھوٹی مسیت سے مجھے اللہ سے محبت ھوئی تھی. بندا اپنی پہلی محبت اور وہ جگہ جہاں محبوب سے محبت ھوتی ھے کبھی نہیں بھلا سکتا.. بات مختصر کروں گا. میں نے بابا چراغ سے ایک دن ڈرتے ڈرتے سوال کیا. بابا جی یہ اللہ سے کیسے ڈرتے ہیں؟ اس وقت مسیت میں ھم دونوں موجود تھے. بابا چراغ آنکھیں بند کیے تسبیح کے دانوں پر کچھ پڑھ رہا تھا. میری آواز سن کر بولا کہ تو گیا نہیں؟ میں نے کہا بس یہ گل پوچھنی تھی اس لیے رک گیا.. وہ مسکرانے لگا. مجھے بابا کی یہ مسکراہٹ بہت پسند تھی. پورے پنڈ میں اتنا پیارا کوئی نہیں مسکراتا تھا.. کہنے لگا. تو مجھ سے ڈرتا ھے؟ میں نے کہا ھاں. کہتا کس بات کی وجہ سے مجھ سے ڈرتا ھے کیا تو میری مار سے ڈرتا ھے؟ میں سوچ میں پڑ گیا. میں نے کہا بابا تم نے کبھی بھی مجھے مارا اور جھڑکا نہیں. لیکن میں ڈرتا ھوں کہ اب تو اتنی شفقت اور محبت سے پیش آتا ھے مسکرا کر بات کرتا ھے میری کسی غلطی پر تو محبت اور شفقت نہ ختم کر دے.. بس یہی ڈر آتا ھے... اس نے میرے سر پر پیار سے ھاتھ پھیرا. مسکراتے ہوئے کہنے لگا اللہ کا ڈر بھی ایسا ھونا چاہیے... یہ ڈر ھونا چاہیے کہ کہیں وہ ناراض نہ ھو جائے. شفقت اور محبت واپس نہ لے لے.. ھر وہ کام کر جس سے اس کی محبت بڑھ جائے اور ھر وہ کام چھوڑ دے جس سے ڈر ھو کہ اس کی محبت کم ھو جائے گی شفقت ناراضگی میں بدل جائے گی.. بس اللہ کا یہی ڈر ہے جس کے بدلے سب کچھ مل جاتا ہے . اگر غلطی سے کبھی ایسا کچھ ھو جائے جس سے محبت کم ھو جانے کا خطرہ ھو تو فوراً معافی مانگ لو.. میں ڈر کا مطلب سمجھ گیا تھا.. میں جب تیرا سال کا ھوا تو بابا چراغ اچانک فوت ھو گیا میں چھوٹا تھا لیکن بڑے یہ بتاتے تھے کہ مرنے کے بعد بھی بابا چراغ کے چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی.. وہ مسکراہٹ میرے لیے پیغام تھی کہ ڈرنے والے ھمیشہ مسکراتے رھتے ہیں... کیونکہ ڈرنے والے کا ھر خوف ختم ہو جاتا ہے... 

Monday, June 22, 2020

موسم بہار کےمنظر

ایک ڈرائینگ ٹیچر کہتی ہیں: 
"ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں نے  پرائمری گریڈ کی ایک کلاس کے بچوں سے کہا کہ وہ موسم بہار کے منظر کی ڈرائینگ بنائیں ۔
 
ایک چھوٹی سی بچی اپنی ڈرائینگ لے کر آئی ، 
اس نے *قرآن مجید* کا اسکیچ بنایا ہوا تھا ۔۔۔ 
اس کی اس ڈرائینگ پر مجھے بڑا تعجب ہوا۔
 
میں نے کہا: 
موسم بہار کی ڈرائینگ بناؤ ، قرآن مجید کی نہیں ۔
 
 سمجھیں؟ ؟

اس بچی کا معصوم سا جواب میرے منہ پر ایک طمانچہ کی طرح پڑا ۔۔۔
اس نے کہا: *قرآن مجید* میرے دل کی ربیع (بہار) ہے میری أمی نے تو مجھے یہی بتایا تھا۔ ۔ ۔ 

کیسی عمدہ تعلیم تھی وہ۔۔۔