Tuesday, August 4, 2020

والدین کی دعا کا اثر دیکھیں


اللہ تعالٰی نے ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ سمندر کے کنارے جائیں اور قدرت الٰہیہ کا تماشا دیکھیں۔

 حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے مصاحبین کے ساتھ تشریف لے گئے؛مگر انھیں کوئی ایسی شے نظر نہیں آئی۔

 آپ نے ایک جن کو حکم دیا کہ سمندر میں غوطہ لگا کر اندر کی خبر لاؤ۔ عفریت نے غوطہ لگایا مگر کچھ نہ پایا، اور واپس آکر عرض کیا:
 اے اللہ کےنبی!
میں نے غوطہ لگایا مگر سمندر کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا، اور نہ کوئی شے دیکھی۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس سے قوی جن کو غوطہ خوری کا حکم فرمایا۔ مگر وہ بھی نامراد واپس آیا، اگرچہ یہ اس سے دوگنی مسافت تک اندر گیا تھا۔

 اب آپ نے اپنے وزیر *آصف بن برخیا* کو سمندر میں اُترنے کا حکم دیا۔
انہوں نے تھوڑی دیر میں ایک سفید کافوری قبہ لاکر حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر کیا، جس میں چار دروازے تھے۔ ایک دروازہ موتی کا، دوسرا یاقوت کا، تیسرا ہیرے کا اور چوتھا زمرد کا۔ چاروں دروازے کھلے ہونے کے باوجود اندر سمندر کے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں داخل ہوا تھا حالانکہ قبہ سمندر کی تہہ میں تھا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملاحظہ فرمایا کہ اس کے اندر *ایک خوبصورت نوجوان* صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے نماز میں مشغول ہے۔

 آپ قبہ کے اندر تشریف لے گئے اور اس سے سلام کر کے دریافت فرمایا کہ اس سمندر کی تہہ میں تم کیسے پہنچ گئے؟

 اس نے جواب دیا:

اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ معذور تھے اور میری ماں نابینا تھی، میں نے ان دونوں کی ستر سال تک خدمت کی۔ میری ماں کا جب انتقال ہونے لگا تو اس نے دعا کی: خداوندا! اپنی طاعت میں میرے فرزند کو عمر دراز عطا فرما۔
اسیطرح جب میرے باپ کا وصال ہونے لگا تو انہوں نے دعا کی: پروردگار میرے بیٹے کو ایسی جگہ عبادت میں لگا جہاں شیطان کا دخل نہ ہو سکے۔ میں اپنے والد کو دفن کرکے جب اس ساحل پر آیا تو مجھے یہ قبہ نظر آیا۔ اس کی خوبصورتی کا مشاہدہ کرنے کے لیے میں اس کے اندر چلا گیا۔ اتنے میں ایک فرشتہ وارد ہوا اور اس نے قبہ کو سمندر کی تہہ میں اُتار دیا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نےاس سے دریافت کیا: تم کس زمانے میں یہاں آئے؟

نوجوان نے جواب دیا: سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے جان لیا کہ اسے دو ہزار سال ہو گئے ہیں مگر وہ اب تک بالکل جوان ہے اور اس کا بال بھی سفید نہیں ہوا ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: تم وہاں کھاتے کیاہو؟

نوجوان نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی!ایک سبز پرندہ روزانہ اپنی چونچ میں سر برابر کی ایک زرد چیز لے کر آتا ہے میں اسے کھا لیتا ہوں اور اس میں دنیا کی تمام نعمتوں کا لطف ہوتا ہےـ اس سے میری بھوک بھی مٹ جاتی ہے اور پیاس بھی رفع ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ گرمی، سردی، نیند، سستی، غنودگی اور نامانوسی و وحشت یہ تمام چیزیں مجھ سے دور رہتی ہیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: اب تم ہمارے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہو یا تمہیں تمہاری جگہ پہنچا دیاجائے؟

نوجوان: حضور! مجھے میری ہی جگہ بھجوا دیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت آصف بن برخیاؓ کو حکم فرمایا تو انھوں نے قبہ اٹھا کر پھر سمندر کی تہہ میں پہنچادیا۔

اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
اللہ تم پر رحم کرے دیکھو والدین کی دعا کتنی مقبول ہوتی ہے۔ لہٰذا اُن کی نافرمانی سے بچو۔

📗 _نوجوانوں کی حکایات کا انسائیکلوپیڈیا، صفحہ215/214۔_

   

جہیز لعنت ہے

کل ایک لڑکی کا میسج آیا کہ کوئی اچھی سی جاب بتا سکتے ہیں ؟؟ جب میں نے وجہ پوچھی تو حیران کے ساتھ خاموش سا ہوگیا۔۔۔ 
ہوا یوں کچھ دن پہلے اک فیملی لڑکی کو دیکھنے آئی ۔۔ لڑکی ماشااللہ پیاری ہے اور ماسٹر کیا ہوا ہے۔۔چائے دینے کے بعد لڑکی روم میں چلی گئی۔
کچھ تعریفوں کے بعد بات پکی ہونے لگی تو سوال جہیز کا آگیا ۔ لڑکے کی ماں نے کہا کے ہمارے خاندان میں یہ رواج ہے کہ 15 تولہ سونا 10 مرلے کا پلاٹ اور فلاں فلاں سامان فرنیچر ہوتا اور ساتھ بیٹھا بیٹا چائے کے سپ لیتا رہا۔۔ کچھ دیر پہلے جہاں لڑکی کی بات اور ہنسی مزاق ہو رہا تھا اب وہاں سناٹا تھا۔۔۔ 
آخر کار جواب نا ہو گیا۔ لڑکی ڈر کے مارے کمرے سے نا نکل رہی تھی۔ آخر برتن اٹھانے کے لیے آئی تو غیرت مند (پڑھا لکھا بےروزگار )بھائی بولا " جتنا اس کو پڑھانے پر پیسا لگایا اس سے اچھا تھا جہیز بنا لیتے۔۔ پھر غصہ سے بہن کی طرف مخاطب ہوا کہ اتنا باپ نے پڑھایا ہے کوئی اچھی جاب کر اور جہیز بنا۔۔. وہاں بیٹھا باپ خاموش تھا اور ماں آنسو بہا رہی تھی۔۔۔۔
میں اکثر جو لکھتا ہوں کہانی نہیں حقیقت لکھتا ہوں۔۔ 
باقی اگر جہیز کی پوسٹ کردو تو ہر مرد یہاں "جہیز لعنت ہے" کہنے لگتا ہے اور حقیقت میں خاموش بیٹھے چائے پیتے ہیں۔۔

اصـــــــلاحـــــــی تحـــــــریر

آج آپ زندہ ہیں مگر تھوڑی دیر کے لیے اپنے آپکو قبر والوں میں شمار کریں کیونکہ قبر والا اپنے عمل کو ذرہ برابر زیادہ نہیں کر سکتا اور اسکا مہلت عمل ختم ہو جاتا ہے

فراغت اور صحت سے خوب فائدہ اٹھائیں

صبح ہو تو عمل کیلئے شام کا انتظار نہ کریں اور شام ہو تو صبح کا انتظار نہ کریں کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ کب موت آجائے اور یہ قیمتی وقت ختم ہو جائے

یہ ضائع کیا ہوا وقت ایک تکلیف دہ حسرت اور پچھتاوا بن جائیگا

 یہ ضائع کرنے اور فضول کاموں میں گزارنے کا وقت نہیں ہے
یہ کمائی کا وقت ہے

دیکھئے کہ کل کی زندگی کیلئے،آخرت کیلئے کیا بھیجا،کیا سامان کیا

اصل زندگی آخرت کا گھر ہے
دنیا کی زندگی، زندگی نہیں۔۔۔آزمائش ہے،کام کا وقت ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تلقین کی کہ قبر کے گڑھے کیلئے تیاری کرلو، یہاں کوئی روشنی نہیں ہوگی،
      اپنے اعمال کی روشنی ہوگی
صرف عمل ساتھ دیں گے

اپنے آپ کو گناہوں سے بچائیں۔۔یہ سوچ کر کہ میں نے آخرت کی تیاری کرنی ہے۔۔۔گناہوں سے صبر کرنا ہے نفس کو روکنا ہے

عقلمند وہ ہے جو موت کو زیادہ یاد کرے اور اسکے بعد کے مراحل کی تیاری کرنے والے ہوں

قیامت کے روز پہلا سوال نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا
نماز سے دن شروع کریں، 
نماز کو پہلی ترجیح بنائیں اور 
نمازوں کے اوقات کے مطابق ہی اپناٹائم ٹیبل بنائیں

آخرت کو بہت یاد کریں

فرائض کو ترجیح دیں

اللہ ہمیں پانچ وقت کا نمازی بنا دے اور ہمیں اپنی آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائیں
آمین ثم آمین

مرد ذات ہوتی ہی گھٹیا ہے


کئی دفعہ کئی لڑکیوں کی پوسٹ دیکھی جہاں لکھا تھا مرد ذات ہی گھٹیا ہے،، پہلے تو مسکرایا پھر سوچنے لگا یار مرد بھی کیا چیز ہے؟ 
آج میں بتانے والا ہوں مرد کیا چیز ہے؟ 
مجھے مرد بننے کا پتہ تب چلا جب میں لاہور میں از آ لیبر کام کررہا تھا یعنی مزدوری کرتا تھا میرے ساتھ کمرے میں ایک پختون سترہ سالہ لڑکا تھا وہ صبح سویرے 5 بجے دہاڑی ڈونڈھنے نکلتا اور شام کو جب آتا تقریباً 7 یا 8 بجے تو فوراً کہتا چلو کھانا کھانے، میں روز کہتا ابھی تو وقت نہیں 10 بجے چلیں گے وہ روز کہتا نہیں یار بھوک لگی ہے ۔۔۔
ہر روز اس کا یہی معمول تھا میں ہر روز پوچھتا تھا تمہیں اتنی بھوک کیوں لگتی ہے لیکن ہمیشہ وہ میری بات ٹال دیتا تھا ایک دن میں بھی ضدی بن گیا اور ان سے کہا تب تک نہیں چھوڑوں گا جب تک مجھے صاف صاف بتا نہیں دیتے، اسے جب پتہ چلا یہ پیچھا نہیں چھوڑنے والا تو مجھے آخر کار جواب دے ہی دیا جسے سننے کے بعد میری انکھوں میں آنسو آگئے اور اس جوان کو سلوٹ کرنے کا من کیا اس کا جواب یہ تھا،، 
میں دن میں دو دو دہاڑی کرتا ہوں صبح اٹھتا ہوں تو ایک کپ چائے پی کر کام پر جاتا ہوں 3 بجے کام ختم کرکے دوسری جگہ چلا جاتا ہوں اور پھر آٹھ بجے تک وہی رکتا ہوں،، میں نے کہا کھانا کب کھاتے ہو،، کہا بس شام کو ہی،، میں نے غصے سے کہا اتنا بھی کیا پیسے کا لالچ کے اپنا پیٹ بھی نا بھر سکو،، کہنے لگا میری ایک بہن ہے جو بہری بھی ہے اور گونگی بھی، میں دن رات محنت کرکے پسینہ بہا کے پیسے اکھٹا کررہا ہوں مجھے ان کا آپریشن کروانا ہے میرے بابا اکیلے یہ خرچہ نہیں اٹھا پائیں گے،، میں ہر دن لگ بھگ 2 ہزار کماتا ہوں جس میں صرف ستر روپے کھانے کے لئے رکھتا ہوں باقی جمع کررہا ہوں،، میری انکھیں لبریز ہوگئیں ۔۔۔
پھر ایک دن میں ان کے ساتھ کام پر گیا جانتے ہو وہ کام کیا کرتا تھا،، 16 منزل تک ہر روز تقریباً آدھا ڈمپر ریتی چڑھاتا تھا اپنے پییٹ پر میں نے تب سیکھا مرد کیا ہے اور کیا کرسکتا ہے، اور کیا سہہ سکتا ہے، میں صرف 50 یا 60 ٹائلز چڑھا کر رات کو پیٹ سیدھا نہیں کرسکتا تھا سوچا اس بیچارے لڑکے کا کیا حال ہوگا جو محض 17 سال کا ہے اور اتنا بوجھ اٹھا رہا ہے آج تقریباً 4 سال بعد ان سے رابطہ کیا تو کہنے لگا بہن کا آپریشن ہوگیا اب وہ سن تو سکتی ہے پر بول نہیں سکتی لیکن میں خوش ہوں ان کے شادی کرادی ہے میں نے اور لڑکا بہت اچھا ہے، بہن کا ہر طرح سے خیال رکھ رہا ہے ۔۔۔
میں نے کہا آپ نے کتنے پیسے لگائے شادی اور آپریشن پر کہا بارہ لاکھ میرے دس لاکھ بابا نے ۔
میں نے کہا بہن کو تو آباد کرلیا لیکن خود کو برباد کردیا وہ مسکرایا اور کہنے لگا میں نے جو سودا کیا ہے فائدے کا ہے لیکن آپ نے کیا کیا اتنے سالوں میں خاموش رہ گیا کیونکہ میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔
سو امید ہے آپ جان گئے ہوں گے مرد کیا ہوتا ہے مرد وہ ہستی ہے جو ماں کے گود سے لے لر تختہ غسل تک اپنوں کے خاطر جیتا ہے نا کہ اپنی خاطر اور پھر بھی کچھ لوگ اس مقدس ذات کو گالیاں دیتے ہیں،، ہاں ہوں گے ایک دو ہر جنس میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں آپ پوری ذات کو بدنام کردو ۔۔۔۔

مثبت اور منفی لوگ



میں نے ایک بات محسوس کی ہے، جیسے لوگ ہمارے ارد گِرد ہوتے ہیں ہماری زندگیوں پر ویسا اثر ہونا شروع ہو جاتا ہے، ہماری پرسنلیٹی، ہماری سوچ، ہمارا اٹھنا بیٹھنا، ہماری ڈیلنگز، ہمارے الفاظ، یہاں تک کہ ہمارے اللہ پر توکل پر بھی اثر ہوتا ہے، منفی لوگ ہر طرح سے منفی شعاعیں پھیلانے کے عادی ہوتے ہیں وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں میں بھی مایوسی کا زہر انجیکٹ کر رہے ہوتے ہیں، مثبت سوچ و کردار کے مالک لوگ آپ کی زندگی میں مزید رنگ بھر دیتے ہیں، آپ کو گرنے نہیں دیتے، آپ کو خود اعتمادی کا فن سکھاتے ہیں، آپ کو محبت بانٹنا سکھاتے ہیں، ایسے لوگوں سے ملنے اور بات کرنے کے بہانے ڈھونڈیں، ان کے قریب رہیں، ان کی مثبت شعاعیں آپ کو مشکل زندگی میں مثبت رہ کر جینا سکھا دیں گی، اللہ پر توکل سکھا دیں گی۔

Sunday, August 2, 2020

آزمائش

جب کوئی آزمائش آتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے ہم ٹوٹ گئے ہیں اب آگے کچھ نہیں رہا اور اس اذیت سے بڑی کوئی اذیت ہو ہی نہیں سکتی۔اب ہم پہلے جیسے نہیں ہو سکتے۔اور زندگی جیسے رک سی جاتی ہے۔ 

بتاؤ ایسا کیوں لگتا ہے ؟

ہاں ہم پہلے جیسے تو بلکل نہیں رہتے آزمائش کچھ سیکھانے ہی آتی ہے۔جیسے اللہ مردہ زمین پہ بارش برساتا ہے اور وہاں پھول کھل اٹھتے ہیں تو کیا یہ ممکن نہیں کہ تمہارے مردہ دلوں پہ کسی اذیت سے آنسو ٹپکیں اور وہاں پھول نہ کھلیں۔
اور آزمائش پتا ہے کیوں آتی ہے۔
یا تو کسی چھوٹی مصبیت میں ڈال کے اللہ بڑے نقصان سے بچا لیتا ہے۔
یا تمہارا درجہ بلند کر دیا جاتا ہے جس کے تم اہل بھی نہیں ہوتے آزمائش بس اس درجے کو بڑھانے آتی ہے
یا تمہاری اپنی کوتاہی کے سبب تم کسی آمائش میں جکڑے جاتے ہو۔
آزمائش کے بعد انسان کو اللہ پھر سے بناتا ہے جوڑتا ہے پہلے سے بہت اچھا۔جیسے مردہ زمین میں بارش سے جان ڈالتا ہے ناویسے ہی تمہیں پھر سے خوشیاں دیتا ہے تمہارے دل میں سکون اتارتا ہے تمہیں اپنی رحمت سے پہلے سے بہت اچھا انسان بنا دیتا ہے

الحمد للہ ان تمام آزمائشوں پر جو مجھے اس سے جوڑنے کا سبب بنی۔

Saturday, August 1, 2020

سب سے بڑی قربانی......

سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ آپ وہ بن کے دکھا دیں جو پروردگار نے آپ کو بننے کے لئے پیدا کیا ہے.


اپنے مقصد کو چھوٹی چھوٹی پریشانیوں اور لوگوں کے طعنوں پر قربان نہ کریں۔ 

قربانی یہ نہیں کہ آپ دوسروں کو خوش کرنے کے لئے اپنے ہدف سے ہٹ گئے۔ قربانی یہ ہے کہ آپ نے ہدف کو پانے کے لئے اپنی جھوٹی انا اور بہانوں کو اپنے مقصد پر قربان کر دیا۔ 

قربانی یہ نہیں کہ میں نے پڑھائی چھوڑ دی تاکہ میرا چھوٹا بھائی پڑھ سکے۔ قربانی یہ ہے کہ آپ چھوٹے بھائی کی پڑھائی کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ بھائی بہنوں کی زندگی بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی بھی زندگی سنوار لیں۔ 

دوسروں کے کئے اپنی آرزوؤں کو پامال کرنا قربانی نہیں۔ اپنے خوابوں سے دستبردار ہو جانا قربانی نہیں بلکہ بزدلی ہے، فرار ہے۔ 

کئی لوگوں کو محض اپنے خواب سے ہٹنے کا بہانہ چاہئے ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کے کندھوں پہ قربانی کی بندوق چلاتے ہیں اور جامِ شہادت نوش کر لیتے ہیں۔ یہ جعلی شہادت انہیں عمر بھر جعلی دلاسہ دیتی رہتی ہے۔ ایسے لوگ ساری زندگی اپنی بہانوں کی داستان سناتے رہتے ہیں کہ میں بھی کچھ بن سکتا تھا مگر میں نے فلاں فلاں کے لئے اپنے کیرئیر کی قربانی دے دی۔ 

اپنے مقاصد کی جستجو کرتے ہوئے دوسروں کا سہارا بننا اصل قربانی ہے۔ 

قربانی دینی ہی ہے تو اپنے آرام، سکون اور نیند کی قربانی دیجئے اور اس وقت میں اپنا شاندار مستقبل تراشئیے۔ خود کو پُش کرنا، اپنی صلاحیت کی حدوں کو چھو لینا اصل قربانی ہے۔ کسی فرسودہ بہانے کی خاطر اپنے ٹیلنٹ سے منہ موڑ لینا، اپنی خداداد ذہانت اور ہنر کی ناقدری کرنا کونسی قربانی ہے؟ 

اپنے پروردگار کی طرف سے ملنے والے مقصد کو لوگوں کی باتوں میں آکر قربان کر دینے والا شخص اندر سے جانتا ہے کہ اس نے زندگی کو اپنا بہترین نہیں دیا۔ اس نے کمال تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ایسا شخص کبھی اندر سے اطمینان نہیں پا سکتا۔ اور بھلا ایک نامکمل اور ناخوش شخص کی قربانی دوسروں کو کیا خوشی دے گی؟

آپ کا دوسروں کی خدمت کا جذبہ سر آنکھوں پہ۔ لیکن اگر واقعی آپ دوسروں کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے مقصد، اپنے ہدف کو پالیں۔ اس نیت کے ساتھ کہ آپ کی ذاتی کامیابی مزید کتنے لوگوں کے لئےایک بڑی کامیابی کی راہ ہموار کر دے گی۔ 

یاد رکھئے، اپنے خوابوں کی قربانی نہیں دینی۔ کچھ بن کے دکھانا ہے۔ 

بیویاں اپنے شوھروں کی .....



پرانے زمانے کی بات ھے، کہ ایک دن بادشاہ کا  گزر ایک راستے سے ھو رھا تھا۔ 
راستے پر جاتے ھوئے بادشاہ کی نظر ایک مزدور پر پڑی۔ 
مزدور زمین سے ایک اونچے مقام تک بغیر کسی پریشانی اور تھکاوٹ کے بڑے بڑے پتھر اوپر پھینک رھا تھا۔
بادشاہ یہ منظر دیکھ کر حیران ھو جاتا ھے اور اپنے وزیر سے پوچھتا ھے۔
*" ایسی کیا خاص بات ھے اس آدمی میں، جو یہ اتنا توانا، مضبوط اور طاقتور ھے؟ "*

وزیر کچھ دیر غور سے سوچ میں پڑ جاتا ھے اور پھر قدرے وثوق سے جواب دینا شروع کرتا ھے۔۔۔

*"عالم پناہ!! جان کی امان چاھتے ھوئے۔۔۔ بالکل یقین سے کہہ سکتا ھوں، کہ یہ مزدور گھریلو ناچاقیوں سے بالکل بے خبر ھے۔ اس کی بیوی اسے دل و جان سے پیار کرتی ھے اور ھر وہ کام کرتی ھے، جس سے مزدور کو خوشی ملتی ھے، اور اس کام سے دور رھتی ھے، جس سے مزدور کو ٹیس پہنچتا ھو۔۔۔"*

دربار میں آتے ھی بادشاہ نے اپنے دو تین درباریوں کو حکم دیا کہ جا کر مزدور کی زندگی کی بارے میں سب کچھ معلوم کر کے آو۔۔۔

درباری مزدور کے گھر کے پاس پہنچ گئے۔ اور مزدور کی زندگی کا ایک ایک لمحہ نوٹ کرتے گئے۔ ھفتہ بھر درباریوں نے مزدور کے بارے میں کافی معلومات اکٹھے کئے، اور واپس دربار پہنچ گئے۔ بادشاہ نے بنفس النفیس سب سے پوچھنا شروع کیا۔ سب سے پہلے بادشاہ نےطاقت اور مضبوطی کا راز جاننے کے لئے پوچھا کہ وہ کیا کھاتا ھے۔ ان میں  سے ایک درباری نے جواب دیا،
*" بادشاہ سلامت!! ھم نے ایسی کوئی خوراک گھر میں جاتے ھوئے نہیں دیکھی جو مضبوطی اور طاقت پیدا کرئے، بادشاہ سلامت!! عام سا کھانا ھی وہ گھر لے کر آتا ھے۔۔۔"*

بادشاہ نے اس کی زندگی کے بارے میں سب کچھ دریافت کیا قیام وطعام، عبادات، معاملات لیکن کچھ بھی خاص نظر نہیں آ رھا تھا۔۔۔ 

آخر میں وزیر نے درباریوں سے دریافت کیا 
*" آپ لوگوں نے کبھی مزدور کو گھر میں تیز آواز سے بات کرتے ھوئے سُنا ھے؟"*
سب درباریوں نے یک زبان ھو کر نفی میں جواب دیا۔
 پھر پوچھا گیا 
*"کبھی ھنسی کی آواز سنی؟"*
 سب درباریوں نے ایک بار پھر یک زبان ھو کر ھاں میں جواب دیا۔۔۔

وزیر نے بادشاہ سے اجازت مانگی کہ میں کچھ وقت لے کر مزدور کی بیوی کو اس سے بدظن کرنا چاھوں گا،
 اس کے بعد آپ دیکھ لینا وہ کام تو کیا، صحیح طرح چلنا بھی بھول جائے گا،
بادشاہ نے اجازت دی۔۔۔

*وزیر نے رویپہ پیسہ دے کر ایک خوبصورت نوجوان کو مزدور کی بیوی کو ورغلا نے کے لئے بھیجا۔۔۔*
  مزدور جب مزدوری کرنے جاتا تو خوبرو نوجوان مختلف قسم کے تحفے تحائف لے کر مزدور کی بیوی کو دیا کرتا تھا۔ مزدور کی بیوی بے راہ روی اختیار کر گئی۔۔۔ 

اب مزدور کی بیوی مزدور سے میٹھے منہ بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتی۔
 دونوں میاں بیوی کے درمیان اَن بَن شروع ھوئی۔
 مزدور پر جیسے غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اب وہ محنت مزدوری اچھی طرح سے نہیں کر سکتا تھا۔ اب وہ کمر پکڑ کر کام کرتا تھا۔۔۔

وزیر نے اب بادشاہ سے کہا کہ اب مزودر کی حالت دیکھنے چلتے ھیں۔ دونوں اس جگہ چلے جہاں مزدور کام کر رھا تھا۔ بادشاہ اس کی حالت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اب وہ ایک پتھر اٹھانے میں دِقت محسوس کر رھا تھا۔ ایک پتھر اٹھا کر وہ آھستہ آھستہ چلتا ھوا پتھر رکھ کر آتا۔ بادشاہ سے اس کی حالت دیکھی نہیں جا رھی تھی۔ اس نے فورا حکم دیا، کہ اب اس بے چارے مزدور کی جان چھوڑ بخش دی جائے۔۔۔

وزیر نے مزدور کو بلا کر سب کچھ سمجھا دیا، کہ دراصل آپ کی بیوی آپ سے بہت پیار کرتی ھے، لیکن بادشاہ سلامت کو یہ بات ثابت کرنے کے لئے ھم نے چال چلی اور آپ کی بیوی آپ سے بے وفائی کر گئی۔۔۔

مزدور سمجھدار آدمی تھا گھر آیا، جب مغرب کی آذان ھونے لگی، مزدور  لوٹا اٹھا کر طہارت کے لئے چلا گیا۔ راستے میں جان بوجھ کر اس نے لوٹا گرا دیا، لوٹا ٹوٹ گیا مزدور دھاڑیں مار کر رونے لگا۔۔۔

بیوی نے جب شوھر کے رونے کی آواز سنی تو فورا وھاں پہنچی۔ شوھر سے پوچھنے لگی، 
*"کیوں رو رھے ھو"؟*

شوھر نے جواب دیا، 
*"لوٹا ٹوٹ گیا ھے۔۔۔"*

بیوی حیرانی سے کہنے لگی،
*" اس میں رونے کی کیا بات ھے؟ نیا لوٹا لے لینا۔۔۔ "*

شوھر اب لوٹے کے ٹکڑوں کے طرف اشارہ کرتے ھوئے کہنے لگا،
*"میرا اس لوٹے سے پردہ ختم ھو گیا تھا، اب دوسرے لوٹے کے سامنے خود کو بے پردہ ہونے کی وجہ سے رو رھا ھوں۔"*
*" بیشک لوٹے اتنے مہنگے نہیں ھیں، پر میری عزت تو مہنگی ھے ناں۔"*

بیوی بھی سمجھدار تھی۔ فورا اپنے میاں کا اشارہ سمجھ گئی۔ اور اپنے میاں کے قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگی۔
 اور یوں مزدور اب دوبارہ توانا، مضبوط اور طاقتور بن گیا۔۔۔

*👈🏻نوٹ:-* 
بیویاں اپنے شوھروں کی طاقت ھوا کرتی ھیں آپ سب شادی شدہ بہنوں سے گزارش ھے کہ آج سے اپنے شوھر کے ساتھ ھر دکھ درد میں برابر کی شریک سمجھ کر ان کا حوصلہ بنیں۔ اور جو بہنیں غیر شادی شدہ ھیں، اللہ ان کی نصیب اچھے کر دے۔۔۔
اور جن بھائیوں کی شادی نہیں ھوئی، اللہ ان کو نیک سیرت، خوبصورت اور ایسی بیوی عطا فرمائے، جو ان کی طاقت اور حوصلہ ثابت ھو۔۔۔
*🌷🌹آمین ثم آمین یارب العالمین🌹🌷*

🤲🤲🤲🤲🤲🤲🤲🤲🤲🤲🤲

بہترین گمان

🌼 - ایک عربی کو کہا گیا کہ تم مر جاؤ گے -

اس نے کہاں پھر کہاں جائیں گے ؟

کہا گیا کہ اللہ کے پاس -

عربی کہنے لگا آج تک جو خیر بھی پائی ھے اللہ کے یہاں سے پائی ھے پھر اس سے ملاقات سے کیا ڈرنا ،،

کس قدر بہترین حسنِ ظن ھے اپنے اللہ سے -

🌼 ایک بزرگ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کسی ایسے شخص کو جانتے ھیں جس کی دعا قبول کی جاتی ھے ؟

بزرگ نے جواب دیا نہیں ، مگر میں اس کو جانتا ھوں جو دعائیں قبول کرتا ھے -

کیا ھی بہترین حسنِ ظن ھے -

🌼- ابن عباسؓ سے ایک بدو نے پوچھا کہ حساب کون لے گا ؟

آپ نے فرمایا کہ " اللہ "

رب کعبہ کی قسم پھر تو ھم نجات پا گئے ،بدو نے خوشی سے کہا -

کیا ھی بہترین حسنِ ظن ھے اپنے رب سے -

🌼- ایک نوجوان کا آخری وقت آیا تو اس کی ماں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی -

نوجوان نے ماں کا ہاتھ پکڑ کر سوال کیا کہ امی جان اگر میرا حساب آپ کے حوالے کر دیا جائے تو آپ میرے ساتھ کیا کریں گی ؟

ماں نے کہا کہ میں تجھ پر رحم کرتے ھوئے معاف کردونگی -

اماں جان اللہ پاک آپ سے بڑھ کر رحیم ھے پھر اس کے پاس بھیجتے ھوئے یہ رونا کیسا ؟

کیا ھی بہترین گمان ھے اپنے رب کے بارے میں -

اللہ پاک نے حشر کی منظر کشی کرتے ھوئے فرمایا ھے ،

{ وخشعت الأصوات للرّحمٰن } اور اس دن آوازیں دب جائیں گی رحمان کے سامنے -

اس حشر کی گھڑی میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ " جبار " کے سامنے بلکہ اپنی صفتِ رحمت کا ہی آسرا دیا ہے ۔

صحت ایک اعلیٰ نعمت

یہ واقعہ حیران کن بھی ہے اور دماغ کو گرفت میں بھی لے لیتا ہے' 
 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بار اللہ تعالیٰ سے پوچھا 
'' یا باری تعالیٰ انسان آپ کی نعمتوں میں سے کوئی ایک نعمت مانگے تو کیا مانگے؟'' 
اللہ تعالیٰ نے فرمایا 
'' صحت''۔ 
میں نے یہ واقعہ پڑھا تو میں گنگ ہو کر رہ گٸ۔
صحت اللہ تعالیٰ کا حقیقتاً بہت بڑا تحفہ ہے اور قدرت نے جتنی محبت 
اور 
منصوبہ بندی انسان کو صحت مند رکھنے کے لیے کی اتنی شاید پوری کائنات بنانے کے لیے نہیں کی-
' ہمارے جسم کے اندر ایسے ایسے نظام موجود ہیں کہ ہم جب ان پر غور کرتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے
' ہم میں سے ہر شخص ساڑھے چار ہزار بیماریاں ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔
یہ بیماریاں ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں' مگر ہماری قوت مدافعت' ہمارے جسم کے نظام ان کی ہلاکت آفرینیوں کو کنٹرول کرتے رہتے ہیں'
 مثلا
ً ہمارا منہ روزانہ ایسے جراثیم پیدا کرتا ہے جو ہمارے دل کو کمزور کر دیتے ہیں 
مگر 
ہم جب تیز چلتے ہیں' 
جاگنگ کرتے ہیں یا واک کرتے ہیں تو ہمارا منہ کھل جاتا ہے'
 ہم تیز تیز سانس لیتے ہیں'
 یہ تیز تیز سانسیں ان جراثیم کو مار دیتی ہیں اور
 یوں ہمارا دل ان جراثیموں سے بچ جاتا ہے'
 مثلاً
 دنیا کا پہلا بائی پاس مئی 1960ء میں ہوا مگر
 قدرت نے اس بائی پاس میں استعمال ہونے والی نالی لاکھوں' کروڑوں سال قبل ہماری پنڈلی میں رکھ دی' یہ نالی نہ ہوتی تو شاید دل کا بائی پاس ممکن نہ ہوتا'
 مثلاً گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن 17 جون 1950ء میں شروع ہوئی مگر قدرت نے کروڑوں سال قبل ہمارے دو گردوں کے درمیان ایسی جگہ رکھ دی جہاں تیسرا گردہ فٹ ہو جاتا ہے' 
ہماری پسلیوں میں چند انتہائی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں ہیں۔
یہ ہڈیاں ہمیشہ فالتو سمجھی جاتی تھیں مگر آج پتہ چلا دنیا میں چند ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے نرخرے جڑے ہوتے ہیں' یہ بچے اس عارضے کی وجہ سے اپنی گردن سیدھی کر سکتے ہیں' نگل سکتے ہیں اور نہ ہی عام بچوں کی طرح بول سکتے ہیں
' سرجنوں نے جب ان بچوں کے نرخروں اور پسلی کی فالتو ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا پسلی کی یہ فالتو ہڈیاں اور نرخرے کی ہڈی ایک جیسی ہیں چنانچہ سرجنوں نے پسلی کی چھوٹی ہڈیاں کاٹ کر حلق میں فٹ کر دیں اور یوں یہ معذور بچے نارمل زندگی گزارنے لگے' 
مثلاً ہمارا جگر جسم کا واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے
' ہماری انگلی کٹ جائے' بازو الگ ہو جائے یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ کٹ جائے تو یہ دوبارہ نہیں اگتا جب کہ جگر واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ اگ جاتا ہے
' سائنس دان حیران تھے قدرت نے جگر میں یہ اہلیت کیوں رکھی؟ آج پتہ چلا جگر عضو رئیس ہے'
 اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں اور اس کی اس اہلیت کی وجہ سے یہ ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے' 
آپ دوسروں کو جگر ڈونیٹ کر سکتے ہیں
' یہ قدرت کے چند ایسے معجزے ہیں جو انسان کی عقل کو حیران کر دیتے ہیں جب کہ ہمارے بدن میں ایسے ہزاروں معجزے چھپے پڑے ہیں اور یہ معجزے ہمیں صحت مند رکھتے ہیں۔
ہم روزانہ سوتے ہیں' 
ہماری نیند موت کا ٹریلر ہوتی ہے' انسان کی اونگھ' نیند' گہری نیند' بے ہوشی اور موت پانچوں ایک ہی سلسلے کے مختلف مراحل ہیں' 
ہم جب گہری نیند میں جاتے ہیں تو ہم اور موت کے درمیان صرف بے ہوشی کا ایک مرحلہ رہ جاتا ہے' ہم روز صبح موت کی دہلیز سے واپس آتے ہیں مگر ہمیں احساس تک نہیں ہوتا' 
صحت دنیا کی ان چند نعمتوں میں شمار ہوتی ہے یہ جب تک قائم رہتی ہے ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی
 مگر
 جوں ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑتی ہے' 
ہمیں فوراً احساس ہوتا ہے یہ ہماری دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی' 
ہم اگر کسی دن میز پر بیٹھ جائیں اور سر کے بالوں سے لے کر پاوں کی انگلیوں تک صحت کا تخمینہ لگائیں تو ہمیں معلوم ہو گا ہم میں سے ہر شخص ارب پتی ہے
' ہماری پلکوں میں چند مسل ہوتے ہیں۔
یہ مسل ہماری پلکوں کو اٹھاتے اور گراتے ہیں' اگر یہ مسل جواب دے جائیں تو انسان پلکیں نہیں کھول سکتا
' دنیا میں اس مرض کا کوئی علاج نہیں
' دنیا کے 50 امیر ترین لوگ اس وقت اس مرض میں مبتلا ہیں اور یہ صرف اپنی پلک اٹھانے کے لیے دنیا بھر کے سرجنوں اور ڈاکٹروں کو کروڑوں ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں' 
ہمارے کانوں میں کبوتر کے آنسو کے برابر مائع ہوتا ہے' یہ پارے کی قسم کا ایک لیکوڈ ہے' ہم اس مائع کی وجہ سے سیدھا چلتے ہیں
' یہ اگر ضائع ہو جائے تو ہم سمت کا تعین نہیں کر پاتے' 
ہم چلتے ہوئے چیزوں سے الجھنا اور ٹکرانا شروع کر دیتے ہیں ' 
دنیا کے سیکڑوں' ہزاروں امراء آنسو کے برابر اس قطرے کے لیے کروڑوں ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں'
 لوگ صحت مند گردے کے لیے تیس چالیس لاکھ روپے دینے کے لیے تیار ہیں' 
آنکھوں کا قرنیا لاکھوں روپے میں بکتا ہے'
 دل کی قیمت لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے'
 آپ کی ایڑی میں درد ہو تو آپ اس درد سے چھٹکارے کے لیے لاکھوں روپے دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں' 
دنیا کے لاکھوں امیر لوگ کمر درد کا شکار ہیں۔
گردن کے مہروں کی خرابی انسان کی زندگی کو اجیرن کر دیتی ہے'
 انگلیوں کے جوڑوں میں نمک جمع ہو جائے تو انسان موت کی دعائیں مانگنے لگتا ہے
' قبض اور بواسیر نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی مت مار دی ہے' 
دانت اور داڑھ کا درد راتوں کو بے چین بنا دیتا ہے'
 آدھے سر کا درد ہزاروں لوگوں کو پاگل بنا رہا ہے'
 شوگر'
 کولیسٹرول
 اور
 بلڈ پریشر کی ادویات بنانے والی کمپنیاں ہر سال اربوں ڈالر کماتی ہیں
 اور
 آپ اگر خدانخواستہ کسی جلدی مرض کا شکار ہو گئے ہیں تو آپ جیب میں لاکھوں روپے ڈال کر پھریں گے مگر آپ کو شفا نہیں ملے گی' 
منہ کی بدبو بظاہر معمولی مسئلہ ہے مگر لاکھوں لوگ ہر سال اس پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں'
 ہمارا معدہ بعض اوقات کوئی خاص تیزاب پیدا نہیں کرتا اور ہم نعمتوں سے بھری اس دنیا میں بے نعمت ہو کر رہ جاتے ہیں۔
ہماری صحت اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے مگر 
ہم لوگ روز اس نعمت کی بے حرمتی کرتے ہیں' 
ہم اس عظیم مہربانی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے'
 ہم اگر روز اپنے بستر سے اٹھتے ہیں
' ہم جو چاہتے ہیں ہم وہ کھا لیتے ہیں اور یہ کھایا ہوا ہضم ہو جاتا ہے'
 ہم سیدھا چل سکتے ہیں'
 دوڑ لگا سکتے ہیں' 
جھک سکتے ہیں
 اور
 ہمارا دل' دماغ' جگر اور گردے ٹھیک کام کر رہے ہیں
' ہم آنکھوں سے دیکھ' 
کانوں سے سن' 
ہاتھوں سے چھو' 
ناک سے سونگھ
 اور منہ سے چکھ سکتے ہیں
 تو پھر ہم سب اللہ تعالیٰ کے فضل'
 اس کے کرم کے قرض دار ہیں
 اور 
ہمیں اس عظیم مہربانی پر اپنے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے
 کیونکہ 
صحت وہ نعمت ہے جو اگر چھن جائے تو ہم پوری دنیا کے خزانے خرچ کر کے بھی یہ نعمت واپس نہیں لے سکتے' 
ہم اپنی ریڑھ کی ہڈی سیدھی نہیں کر سکتے۔
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ —
اگر آپ نے شکر ادا نہیں کیا تو جلدی شکر ادا کرلیں۔