Sunday, August 9, 2020

اصـــــــلاحـــــــی تحـــــــریر

آج آپ زندہ ہیں مگر تھوڑی دیر کے لیے اپنے آپکو قبر والوں میں شمار کریں کیونکہ قبر والا اپنے عمل کو ذرہ برابر زیادہ نہیں کر سکتا اور اسکا مہلت عمل ختم ہو جاتا ہے

فراغت اور صحت سے خوب فائدہ اٹھائیں

صبح ہو تو عمل کیلئے شام کا انتظار نہ کریں اور شام ہو تو صبح کا انتظار نہ کریں کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ کب موت آجائے اور یہ قیمتی وقت ختم ہو جائے

یہ ضائع کیا ہوا وقت ایک تکلیف دہ حسرت اور پچھتاوا بن جائیگا

 یہ ضائع کرنے اور فضول کاموں میں گزارنے کا وقت نہیں ہے
یہ کمائی کا وقت ہے

دیکھئے کہ کل کی زندگی کیلئے،آخرت کیلئے کیا بھیجا،کیا سامان کیا

اصل زندگی آخرت کا گھر ہے
دنیا کی زندگی، زندگی نہیں۔۔۔آزمائش ہے،کام کا وقت ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تلقین کی کہ قبر کے گڑھے کیلئے تیاری کرلو، یہاں کوئی روشنی نہیں ہوگی،
      اپنے اعمال کی روشنی ہوگی
صرف عمل ساتھ دیں گے

اپنے آپ کو گناہوں سے بچائیں۔۔یہ سوچ کر کہ میں نے آخرت کی تیاری کرنی ہے۔۔۔گناہوں سے صبر کرنا ہے نفس کو روکنا ہے

عقلمند وہ ہے جو موت کو زیادہ یاد کرے اور اسکے بعد کے مراحل کی تیاری کرنے والے ہوں

قیامت کے روز پہلا سوال نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا
نماز سے دن شروع کریں، 
نماز کو پہلی ترجیح بنائیں اور 
نمازوں کے اوقات کے مطابق ہی اپناٹائم ٹیبل بنائیں

آخرت کو بہت یاد کریں

فرائض کو ترجیح دیں

اللہ ہمیں پانچ وقت کا نمازی بنا دے اور ہمیں اپنی آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائیں
آمین ثم آمین

مرد ذات.....



کئی دفعہ کئی لڑکیوں کی پوسٹ دیکھی جہاں لکھا تھا مرد ذات ہی گھٹیا ہے،، پہلے تو مسکرایا پھر سوچنے لگا یار مرد بھی کیا چیز ہے؟ 
آج میں بتانے والا ہوں مرد کیا چیز ہے؟ 
مجھے مرد بننے کا پتہ تب چلا جب میں لاہور میں از آ لیبر کام کررہا تھا یعنی مزدوری کرتا تھا میرے ساتھ کمرے میں ایک پختون سترہ سالہ لڑکا تھا وہ صبح سویرے 5 بجے دہاڑی ڈونڈھنے نکلتا اور شام کو جب آتا تقریباً 7 یا 8 بجے تو فوراً کہتا چلو کھانا کھانے، میں روز کہتا ابھی تو وقت نہیں 10 بجے چلیں گے وہ روز کہتا نہیں یار بھوک لگی ہے ۔۔۔
ہر روز اس کا یہی معمول تھا میں ہر روز پوچھتا تھا تمہیں اتنی بھوک کیوں لگتی ہے لیکن ہمیشہ وہ میری بات ٹال دیتا تھا ایک دن میں بھی ضدی بن گیا اور ان سے کہا تب تک نہیں چھوڑوں گا جب تک مجھے صاف صاف بتا نہیں دیتے، اسے جب پتہ چلا یہ پیچھا نہیں چھوڑنے والا تو مجھے آخر کار جواب دے ہی دیا جسے سننے کے بعد میری انکھوں میں آنسو آگئے اور اس جوان کو سلوٹ کرنے کا من کیا اس کا جواب یہ تھا،، 
میں دن میں دو دو دہاڑی کرتا ہوں صبح اٹھتا ہوں تو ایک کپ چائے پی کر کام پر جاتا ہوں 3 بجے کام ختم کرکے دوسری جگہ چلا جاتا ہوں اور پھر آٹھ بجے تک وہی رکتا ہوں،، میں نے کہا کھانا کب کھاتے ہو،، کہا بس شام کو ہی،، میں نے غصے سے کہا اتنا بھی کیا پیسے کا لالچ کے اپنا پیٹ بھی نا بھر سکو،، کہنے لگا میری ایک بہن ہے جو بہری بھی ہے اور گونگی بھی، میں دن رات محنت کرکے پسینہ بہا کے پیسے اکھٹا کررہا ہوں مجھے ان کا آپریشن کروانا ہے میرے بابا اکیلے یہ خرچہ نہیں اٹھا پائیں گے،، میں ہر دن لگ بھگ 2 ہزار کماتا ہوں جس میں صرف ستر روپے کھانے کے لئے رکھتا ہوں باقی جمع کررہا ہوں،، میری انکھیں لبریز ہوگئیں ۔۔۔
پھر ایک دن میں ان کے ساتھ کام پر گیا جانتے ہو وہ کام کیا کرتا تھا،، 16 منزل تک ہر روز تقریباً آدھا ڈمپر ریتی چڑھاتا تھا اپنے پییٹ پر میں نے تب سیکھا مرد کیا ہے اور کیا کرسکتا ہے، اور کیا سہہ سکتا ہے، میں صرف 50 یا 60 ٹائلز چڑھا کر رات کو پیٹ سیدھا نہیں کرسکتا تھا سوچا اس بیچارے لڑکے کا کیا حال ہوگا جو محض 17 سال کا ہے اور اتنا بوجھ اٹھا رہا ہے آج تقریباً 4 سال بعد ان سے رابطہ کیا تو کہنے لگا بہن کا آپریشن ہوگیا اب وہ سن تو سکتی ہے پر بول نہیں سکتی لیکن میں خوش ہوں ان کے شادی کرادی ہے میں نے اور لڑکا بہت اچھا ہے، بہن کا ہر طرح سے خیال رکھ رہا ہے ۔۔۔
میں نے کہا آپ نے کتنے پیسے لگائے شادی اور آپریشن پر کہا بارہ لاکھ میرے دس لاکھ بابا نے ۔
میں نے کہا بہن کو تو آباد کرلیا لیکن خود کو برباد کردیا وہ مسکرایا اور کہنے لگا میں نے جو سودا کیا ہے فائدے کا ہے لیکن آپ نے کیا کیا اتنے سالوں میں خاموش رہ گیا کیونکہ میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔
سو امید ہے آپ جان گئے ہوں گے مرد کیا ہوتا ہے مرد وہ ہستی ہے جو ماں کے گود سے لے لر تختہ غسل تک اپنوں کے خاطر جیتا ہے نا کہ اپنی خاطر اور پھر بھی کچھ لوگ اس مقدس ذات کو گالیاں دیتے ہیں،، ہاں ہوں گے ایک دو ہر جنس میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں آپ پوری ذات کو بدنام کردو ۔۔۔۔

مثبت اور منفی لوگ

میں نے ایک بات محسوس کی ہے، جیسے لوگ ہمارے ارد گِرد ہوتے ہیں ہماری زندگیوں پر ویسا اثر ہونا شروع ہو جاتا ہے، ہماری پرسنلیٹی، ہماری سوچ، ہمارا اٹھنا بیٹھنا، ہماری ڈیلنگز، ہمارے الفاظ، یہاں تک کہ ہمارے اللہ پر توکل پر بھی اثر ہوتا ہے، منفی لوگ ہر طرح سے منفی شعاعیں پھیلانے کے عادی ہوتے ہیں وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں میں بھی مایوسی کا زہر انجیکٹ کر رہے ہوتے ہیں، مثبت سوچ و کردار کے مالک لوگ آپ کی زندگی میں مزید رنگ بھر دیتے ہیں، آپ کو گرنے نہیں دیتے، آپ کو خود اعتمادی کا فن سکھاتے ہیں، آپ کو محبت بانٹنا سکھاتے ہیں، ایسے لوگوں سے ملنے اور بات کرنے کے بہانے ڈھونڈیں، ان کے قریب رہیں، ان کی مثبت شعاعیں آپ کو مشکل زندگی میں مثبت رہ کر جینا سکھا دیں گی، اللہ پر توکل سکھا دیں گی

یسے تھے ہمارے امام

امام ابوحنیفہ کے کپڑے کی دکان تھی ۔ آپ مدرسے کے بعد وہاں تجارت کرتے تھے ۔امت محمدی کو اگر تجارت کسی نے سکھائی ہے وہ یا تو خلیفہ اول ابو بکر صدیق تھے یا پھر امام ابو حنیفہ ۔ایک دن ظہر کی نماز کے بعد اپنی دکان بند کردی اور جانے لگےتو ساتھی دکاندار نے کہا " ابو حنیفہ آج تو جلدی نکل لیے کہاں جارہے ہیں آپ آج اتنی جلدی "امام ابو حنیفہ نے فرمایا " آپ دیکھ نہیں رہے کہ آسمان پہ کالے بادل آچکے ہیں "اس شخص نے کہا " یا نعمان آسمان کے بادلوں کا دکان سے کیا لینا دینا"امام ابو حنیفہ نے فرمایا " جب بادل گہرے ہوجاتے ہیں تو چراغ کی روشنی اندھیرا ختم کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے گاہک کو کپڑے کی ورائیٹی کا پتہ نہیں چلتا اسکو کوالٹی کی پہچان نہیں ہوتی ۔ میں نے اس وجہ سے دکان جلدی بند کردی کہ میرے پاس آیا ہوا گاہک کم قیمت کپڑے کو قیمتی سمجھ کر زیادہ پیسے نہ دے ۔"آج کے دکانداروں کے پاس جاکر پتہ چلتا ہے کہ جب انکے پاس کوئی معصوم گاہک آجاے تو وہ انکو ایسی قینچی سے زبح کرلیتے ھے کہ دو نمبری کپڑا بھی ایک نمبر کی قیمت پہ فروخت کرلیتے ھے۔ بلکہ آجکل تو باقاعدہ سے گاہک کو لوٹنے کے عجیب وغریب طریقے آرہے ھے۔

اپنی اہمیت

‏کبھی کبھی ہماری بہت زیادہ چاہت دوسرے کے لیے گھٹن بن جاتی ہے کسی کو خود سے بڑھ کر چاہنے، ہر وقت اس کو سوچتے رہتے ہیں ہر وقت میسر رہتے ہیں تو ہم اپنی وقعت کھو دیتے ہیں اس لیے کسی کو اتنی اہمیت بھی نہ دیں کہ اپنی کوئی اہمیت ہی نہ رہے ہر وقت لوگوں کو میسر ہونا خاص سے عام کر دیتا ہے.

Saturday, August 8, 2020

ایک یا دو کام

میں نہیں یقین کرتا کہ بندے کو ایک کام کرنا چاہیے۔ کامیابی صرف ایک کام کرنے سے نہیں ملتی۔ کامیابی کے لیے دوڑ لگانی پڑتی ہے۔ 
جیسے آپ ایم اے کسی مضمون میں یا کسی اور چیز میں کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی کرتے رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ۔ چھوٹے چھوٹے کورس بھی کرتے جائیں۔ اس طرح کیا ہوگا؟ کہ آپ کا ذہن بھی مصروف رہے گا ۔ اور اس کے پاس ہر وقت کوئی نہ کوئی چیلنج ہو گا۔ آپ جب تک اپنا ایم اے مکمل کرتے ہیں اس کے ساتھ آپ کے پاس دوسرے ہنر بھی ہوں گے۔
بالکل اسی طرح آپ ایک بزنس کرتے جائیں گے تو اس میں کامیابی کی ایک حد ہو گی یا شاید آپ کی اس بزنس کےلیے ایک حد ہو ۔ اگر آپ اس کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے چھوٹے بزنس کو بھی ساتھ ہی ہینڈل کرتے ہیں بلکہ کئی دوسرے بزنس ساتھ ساتھ ہینڈل کرتے ہیں تو کامیابی دس گنا ہوگی۔
میرے نزدیک زندگی آرام کرنے کےلیے نہیں ہے۔ صرف کام کرنے کےلیے ہے۔ 
آپ اگر آرام کا ہی مقصد لے کر زندگی کے میدان میں اترتے ہیں تو آپ آرام ہی کر رہے ہوں گے۔ اور آرام تو مُردے کرتے ہیں کوئی زندہ انسان نہیں۔

اگر وقت ملے تو سوچئے گا

ایک بازار سے ایک مغرور بندہ گذر رہا تھا کہ اس کی نظر سر پر ایک ڈول اٹھائے عورت پر پڑی، اس نے اسے آواز دیکر روکا اور نخوت سے پوچھا: اے مائی، کیا بیچ رہی ہو؟
عورت نے کہا: جی میں گھی بیچ رہی ہوں۔
اس شخص نے کہا: اچھا دکھاؤ تو، کیسا ہے؟
گھی کا وزنی ڈول سر سے اتارتے ہوئے کچھ گھی اس آدمی کی قمیض پر گرا تو یہ بہت بگڑ گیا اور دھاڑتے ہوئے بولا: نظر نہیں آتا کیا، میری قیمتی قمیض*خراب کر دی ہے تو نے؟ میں جب تک تجھ سے اس قمیض کے پیسے نا لے لوں، تجھے تو یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔
عورت نے بیچارگی سے کہا؛ میں مسکین عورت ہوں، اور میں نے آپ کی قمیض پر گھی جان بوجھ کر نہیں گرایا، مجھ پر رحم کرو اور مجھے جانے دو۔
اس آدمی نے کہا؛ جب تک تجھ سے دام نا لے لوں میں تو تجھے یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔
عورت نے پوچھا: کتنی قیمت ہے آپ کی قمیض کی؟
اس شخص نے کہا: ایک ہزار درہم۔
عورت نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا: میں فقیر عورت ہوں، میرے پاس سے ایک ہزار درہم کہاں سے آئیں گے؟
اس شخص نے کہا: مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔
عورت نے کہا: مجھ پر رحم کرو اور مجھے یوں رسوا نا کرو۔* *ابھی یہ آدمی عورت پر اپنی دھونس اور دھمکیاں چلا ہی رہا تھا کہ وہاں سے کہ ایک نوجوان کا گزر ہوا۔ نوجوان نے اس سہمی ہوئی عورت سے ماجرا پوچھا تو عورت نے سارا معاملہ کہہ سنایا۔
نوجوان نے اس آدمی سے کہا؛ جناب، میں دیتا ہوں آپ کو آپ کی قمیض کی قیمت۔ اور جیب سے ایک ہزار درہم نکال کر اس مغرور انسان کو دیدیئے۔
یہ آدمی ہزار درہم جیب میں ڈال کر چلنے لگا تو نوجوان نے کہا: جاتا کدھر ہے؟
آدمی نے پوچھا: تو تجھے کیا چاہیئے مجھ سے؟
نوجوان نے کہا: تو نے اپنی قمیض کے پیسے لے لیئے ہیں ناں؟
آدمی نے کہا: بالکل، میں نے ایک ہزار درہم لے لیئے ہیں۔
نوجون نے کہا: تو پھر قمیض کدھر ہے؟
آدمی نے کہا: وہ کس لیئے؟
نوجوان نے کہا: ہم نے تجھے تیری قمیض کے پیسے دیدیئے ہیں، اب اپنی قمیض ہمیں دے اور جا۔
آدمی نے گربڑاتے ہوئے کہا: تو کیا میں ننگا جاؤں؟
نوجوان نے کہا: ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔
آدمی نے کہا: اور اگر میں یہ قمیض نا دوں تو؟
نوجوان نے کہا: تو پھر ہمیں اس کی قیمت دیدے۔
اس آدمی نے پوچھا: ایک ہزار درہم؟
نوجوان نے کہا: نہیں، قیمت وہ جو ہم مانگیں گے۔
اس آدمی نے پوچھا: تو کیا قیمت مانگتے ہو؟
نوجوان نے کہا: دو ہزار درہم آدمی نے کہا؛ تو نے تو مجھے ایک ہزار درہم دیئے تھے۔
نوجوان نے کہا: تیرا اس سے کوئی مطلب نہیں۔
آدمی نے کہا: یہ بہت زیادہ قیمت ہے۔
نوجوان نے کہا؛ پھر ٹھیک ہے، ہماری قمیض اتار دے۔
اس آدمی نے کچھ روہانسا ہوتے ہوئے کہا: تو مجھے رسوا کرنا چاہتا ہے؟
نوجوان نے کہا: اور جب تو اس مسکین عورت کو رسوا کر رہا تھا تو!!
آدمی نے کہا: یہ ظلم اور زیادتی ہے۔
نوجوان نے حیرت سے کہا: کمال ہے کہ یہ تجھے ظلم لگ رہا ہے۔
اس آدمی نے مزید شرمندگی سے بچنے کیلئے، جیب سے دو ہزار نکال کر نوجوان کو دیدیئے۔
اور نوجوان نے مجمعے میں اعلان کیا کہ دو ہزار اس عورت کیلئے میری طرف سے ہدیہ ہیں۔
ہمارے ہاں بھی اکثریت کا حا ل ایسا ہی ہے۔ ہمیں دوسروں کی تکلیف اور توہین سے کوئی*مطلب نہیں ہوتا لیکن جب بات خود پر آتی ہے تو ظلم محسوس ہوتا ہے۔اگر معاشرتی طور پر ہم دوسروں کی تکلیف کو اپنا سمجھنا شروع کر دیں تو دنیا کی بہترین قوموں میں ہمارا شمار ہو۔ اگر وقت ملے تو سوچئے گا۔

Thursday, August 6, 2020

خدمت خلق کا جذبہ


نیویارک کی ایک سڑک کے فٹ پاتھ سے ٹکرا کر ایک بوڑھا آدمی گر پڑا۔ ایمبولینس آئی اور اسے اٹھا کر ہسپتال لے گئی۔ راستے میں نرس نے اس بوڑھے کی جیب سے بٹوا نکال کر تلاشی لی تو اسے ایک نام اور پتہ ملا جو شاید اس کے بیٹے کا تھا۔ نرس نے اسے پیغام بھیجا جلدی پہنچو اور یہ نوجوان فوراً ہی ہسپتال پہنچ گیا۔ نرس نے بوڑھے سے جس کے منہ پر آکسیجن ماسک لگا ہوا تھا سے کہا تمہارا بیٹا تم سے ملنے آیا ہے۔ تیز اثر دواؤں کے زیر اثر ہوش میں آئے ہوئے بوڑھے نے ہاتھ بڑھایا اور نوجوان نے بڑھ کر تھام لیا۔ یہ نوجوان مسلسل چار گھنٹے تک اس بوڑھے کے پاس رہا اور شفقت سے بوڑھے کا ہاتھ تھامے بار بار گلے لگاتا اور بوڑھے کی تیمار داری اور حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ نرس نے اس دوران کئی بار نوجوان سے آرام کرنے یا ادھر ادھر چل پھر لینے کو بھی کہا مگر اس نے انکار کیا اور بوڑھے کے پاس موجود رہا۔ صبح کے وقت اس بوڑھے کی وفات ہو گئی۔ اس نوجوان نے نرس سے پوچھا؛ یہ بوڑھا آدمی کون تھا؟ نرس نے حیرت سے کہا؛ کیا یہ تیرا باپ نہیں تھا؟ اس نے کہا؛ نہیں، مگر میں نے محسوس کیا تھا کہ اسے اپنے بیٹے کی اشد ضرورت تھی جو اس کے قریب رہ کر اس کی تیمار داری کرے اور اسکی محرومیوں کا ازالہ کرے اس لیے میں اس کے پاس رہا محتاج اور ضرورتمند کے ساتھ اچھائی ضرور کیجیئے، یہ اچھائی ایک دن آپ کے پاس ایسی جگہ سے واپس لوٹ کر آئے گی جو آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگی۔

زندگی کی حقیقت

آج طبیعت کچھ افسردہ سی تھی…معلوم نہیں کیوں؟اور شاید اسی بوجھل طبیعت کو دیکھ کر نماز فجر کے بعد بہن زبردستی گھر سے قریب پارک میں لے آئی تھی' جہاں پر سورج کی کرنوں کا استقبال کہیں چڑیوں کی چہچہاہٹ تھی تو کہیں پھول اپنی مہک کو فضا میں گھولتے ہوئے اس کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ غرض چہار جانب بادِصبا صبح کی آمد کی خوشی میں موسم کو تازگی بخش رہی تھی۔
انسان جب قدرت سے اتنا قریب ہوتا ہے تو اس کی مشاہدے کی آنکھ خود بخود کھل جاتی ہے۔۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ قدرتی زندگی، انسانی زندگی کا عکس ہوتا ہے جو بھٹکے ہوئے کے لیے راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔
پھر خدا بھی کہتا ہے''سو کیا تم غور و فکر نہیں کرتے۔''
غور کرنے کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں اور آج ایک عجیب پہلو پہ میری سوچیں اٹک گئیں۔
میری نگاہوں کے حصار میں سامنے کھڑا سرسبز درخت تھا جسے موسم بہار نے پھولوں سے سجا دیا تھا یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ آج کل اس باغ کی خوب صورتی انہیں رنگ برنگے پھولوں سے تھی۔
مگر میں اس خوب صورتی کو نہیں دیکھ رہی تھی۔ ایک دوسرے نظام قدرت نے میری توجہ کو اپنی قبضے میں لے رکھا تھا۔
کوے کی ایک جوڑی نہ جانے کس پریشانی میں درخت کے اطراف منڈلا رہی تھی… زور زور سے آوازیں بھی نکال رہی تھی۔ شاید دانہ تلاش کررہے ہوں!؟
کہیں ان کا بچے کو سانپ نے تو نہیں کھا لیا… یا ہوسکتا ہے کھانا نہ مل رہا ہو اور بچہ بھوکا ہو!؟ میں بھی طرح طرح کے اندازے لگا رہی تھی۔
ابھی تھوڑا وقت ہی گزرا کہ دونوں خاموش ہوگئے… شاید دانہ مل گیا جو پریشانی لاحق تھی وہ دور ہوگئی!!
دونوں اب اپنے گھونسلے کی جانب پرواز کررہے تھے جہاں ان کے بچے ان کے منتظر تھے۔ چونچ میں دانہ پھنسائے اب بچوں کو کھلا رہے تھے۔
سوچوں نے رخ بدلا… ان پرندوں کی زندگی ہی یہی ہے۔
اٹھو' کھانے کی تلاش کے لیے نکلو… کھاؤ' پھر کسی دن کسی دوسری مخلوق کی غذا بن جاؤ۔یہ بھی نظام قدرت ہی ہے ویسے۔
مگر یہاں پر ایک الجھن نے جنم لیا۔ہم انسان بھی تو یہی کرتے ہیں۔کھالے، پی لے، جی لے' اسی کواپنی زندگی کا منشور بنالیا ہے… ہم تو اشرف المخلوقات ہیں ہماری زندگی کا مقصد ہر گز ہرگز یہ نہیں ہوسکتا!!
پھر کیا ہے انسان کی زندگی کا مقصد؟ اس الجھن کو سلجھانے کے لیے بہن کی مدد لی۔۔تو وہ بولی ''کھانا انسانی زندگی کا مقصد نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ انسانی زندگی کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہے… کہ اس کا جینا بھی اللہ کے لیے ہو اور مرنا بھی…غرض ہر عمل اس لیے ہو کہ اس کا رب راضی ہوجائے۔ جیسے قرآن میں ہے''اللہ کی رضا کے لیے عمل کیسا ہو!؟'' کتاب اللہ اور نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق۔ اور جو کوئی اللہ کے لیے عملِ صالح کرے گا تو وہ کامیاب ہوجائے گا۔ وہ منزل یعنی جنت پالے گا۔''
الجھن رفع ہوئی… مزید سوچوں کو ذہن میں جگہ ملی اور عمل صالح بغیر ایمان کے کیوں بے فائدہ ہے۔ اس لیے کہ جو عمل خالصتاً اللہ کے لیے کیا جاتا ہے وہی قبول ہوتا ہے اور منزل تک پہنچانے کے لیے بہرہ مند ثابت ہوتا ہے۔
طبیعت اب قدرے بہتر محسوس ہورہی تھی شاید اس لیے کہ اس بھٹکے ہوئے مسافر کو منزل کا راستہ معلوم ہوگیا تھا۔ دل یہی عہد باندھ رہا تھا رب کے ساتھ کہ زندگی کے آخری لمحات تک اسی راستے پر چلتے جانا ہے… اور یہ دعا بھی لب پہ جاری تھی ''اے اللہ ! بے شک' میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، عفت اورلوگوں سے بے پروائی مانگتا ہوں۔

Wednesday, August 5, 2020

حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ

حضرت خالد بن ولیدؓ کے انتقال کی خبر جب مدینہ منورہ پہنچی تو ہر گھر میں کہرام مچ گیا ۔ 
جب حضرت خالد بن ولیدؓ کو قبر میں اتارا جارہا تھا تو لوگوں نے یہ دیکھا کہ آپؓ کا گھوڑا ''اشکر'' جس پر بیٹھ کے آپ نے تمام جنگیں لڑیں ، وہ بھی آنسو بہارہا تھا ۔ 
حضرت خالد بن ولیدؓ کے ترکے میں صرف ہتھیار ، تلواریں ، خنجر اور نیزے تھے ۔ 
ان ہتھیاروں کے علاوہ ایک غلام تھا جو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا تھا ،،اللہﷻ کی یہ تلوار جس نے دو عظیم سلطنتوں (روم اور ایران) کے چراغ بجھائے ۔
وفات کے وقت ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا ، آپؓ نے جو کچھ بھی کمایا، وہ اللہﷻ کی راہ میں خرچ کردیا۔
ساری زندگی میدان جنگ میں گزار دی ۔
صحابہؓ نے گواہی دی کہ ان کی موجودگی میں ہم نے شام اور عراق میں کوئی بھی جمعہ ایسا نہیں پڑھا جس سے پہلے ہم ایک شہر فتح نہ کرچکے ہوں یعنی ہر دو جمعوں کے درمیانی دنوں میں ایک شہر ضرور فتح ہوتا تھا۔
بڑے بڑے جلیل القدر صحابہؓ نے حضورؐ سے حضرت خالدؓ کے روحانی تعلق کی گواہی دی ۔

خالد بن ولیدؓ کا پیغام مسلم امت کے نام :

موت لکھی نہ ہو تو موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے ۔جب موت مقدر ہو تو زندگی دوڑتی ہوئی موت سے لپٹ جاتی ہے ، زندگی سے زیادہ کوئی نہیں جی سکتا اور موت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا ،، 
دنیا کے بزدل کو میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ اگر میدانِ جہاد میں موت لکھی ہوتی تو اس خالد بن ولیدؓ کو موت بستر پر نہ آتی۔
     رضی اللہ تعالٰی عنہُ