Sunday, August 9, 2020

سب سے بڑی قربانی

سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ آپ وہ بن کے دکھا دیں جو پروردگار نے آپ کو بننے کے لئے پیدا کیا ہے.


اپنے مقصد کو چھوٹی چھوٹی پریشانیوں اور لوگوں کے طعنوں پر قربان نہ کریں۔ 

قربانی یہ نہیں کہ آپ دوسروں کو خوش کرنے کے لئے اپنے ہدف سے ہٹ گئے۔ قربانی یہ ہے کہ آپ نے ہدف کو پانے کے لئے اپنی جھوٹی انا اور بہانوں کو اپنے مقصد پر قربان کر دیا۔ 

قربانی یہ نہیں کہ میں نے پڑھائی چھوڑ دی تاکہ میرا چھوٹا بھائی پڑھ سکے۔ قربانی یہ ہے کہ آپ چھوٹے بھائی کی پڑھائی کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ بھائی بہنوں کی زندگی بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی بھی زندگی سنوار لیں۔ 

دوسروں کے کئے اپنی آرزوؤں کو پامال کرنا قربانی نہیں۔ اپنے خوابوں سے دستبردار ہو جانا قربانی نہیں بلکہ بزدلی ہے، فرار ہے۔ 

کئی لوگوں کو محض اپنے خواب سے ہٹنے کا بہانہ چاہئے ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کے کندھوں پہ قربانی کی بندوق چلاتے ہیں اور جامِ شہادت نوش کر لیتے ہیں۔ یہ جعلی شہادت انہیں عمر بھر جعلی دلاسہ دیتی رہتی ہے۔ ایسے لوگ ساری زندگی اپنی بہانوں کی داستان سناتے رہتے ہیں کہ میں بھی کچھ بن سکتا تھا مگر میں نے فلاں فلاں کے لئے اپنے کیرئیر کی قربانی دے دی۔ 

اپنے مقاصد کی جستجو کرتے ہوئے دوسروں کا سہارا بننا اصل قربانی ہے۔ 

قربانی دینی ہی ہے تو اپنے آرام، سکون اور نیند کی قربانی دیجئے اور اس وقت میں اپنا شاندار مستقبل تراشئیے۔ خود کو پُش کرنا، اپنی صلاحیت کی حدوں کو چھو لینا اصل قربانی ہے۔ کسی فرسودہ بہانے کی خاطر اپنے ٹیلنٹ سے منہ موڑ لینا، اپنی خداداد ذہانت اور ہنر کی ناقدری کرنا کونسی قربانی ہے؟ 

اپنے پروردگار کی طرف سے ملنے والے مقصد کو لوگوں کی باتوں میں آکر قربان کر دینے والا شخص اندر سے جانتا ہے کہ اس نے زندگی کو اپنا بہترین نہیں دیا۔ اس نے کمال تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ایسا شخص کبھی اندر سے اطمینان نہیں پا سکتا۔ اور بھلا ایک نامکمل اور ناخوش شخص کی قربانی دوسروں کو کیا خوشی دے گی؟

آپ کا دوسروں کی خدمت کا جذبہ سر آنکھوں پہ۔ لیکن اگر واقعی آپ دوسروں کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے مقصد، اپنے ہدف کو پالیں۔ اس نیت کے ساتھ کہ آپ کی ذاتی کامیابی مزید کتنے لوگوں کے لئےایک بڑی کامیابی کی راہ ہموار کر دے گی۔ 

یاد رکھئے، اپنے خوابوں کی قربانی نہیں دینی۔ کچھ بن کے دکھانا ہے۔ 

*(-کامیابی مبارک,*
 *~قیصر_عباس)*

والدین کی دعا کا اثر

اللہ تعالٰی نے ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ سمندر کے کنارے جائیں اور قدرت الٰہیہ کا تماشا دیکھیں۔

 حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے مصاحبین کے ساتھ تشریف لے گئے؛مگر انھیں کوئی ایسی شے نظر نہیں آئی۔

 آپ نے ایک جن کو حکم دیا کہ سمندر میں غوطہ لگا کر اندر کی خبر لاؤ۔ عفریت نے غوطہ لگایا مگر کچھ نہ پایا، اور واپس آکر عرض کیا:
 اے اللہ کےنبی!
میں نے غوطہ لگایا مگر سمندر کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا، اور نہ کوئی شے دیکھی۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس سے قوی جن کو غوطہ خوری کا حکم فرمایا۔ مگر وہ بھی نامراد واپس آیا، اگرچہ یہ اس سے دوگنی مسافت تک اندر گیا تھا۔

 اب آپ نے اپنے وزیر *آصف بن برخیا* کو سمندر میں اُترنے کا حکم دیا۔
انہوں نے تھوڑی دیر میں ایک سفید کافوری قبہ لاکر حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر کیا، جس میں چار دروازے تھے۔ ایک دروازہ موتی کا، دوسرا یاقوت کا، تیسرا ہیرے کا اور چوتھا زمرد کا۔ چاروں دروازے کھلے ہونے کے باوجود اندر سمندر کے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں داخل ہوا تھا حالانکہ قبہ سمندر کی تہہ میں تھا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملاحظہ فرمایا کہ اس کے اندر *ایک خوبصورت نوجوان* صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے نماز میں مشغول ہے۔

 آپ قبہ کے اندر تشریف لے گئے اور اس سے سلام کر کے دریافت فرمایا کہ اس سمندر کی تہہ میں تم کیسے پہنچ گئے؟

 اس نے جواب دیا:

اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ معذور تھے اور میری ماں نابینا تھی، میں نے ان دونوں کی ستر سال تک خدمت کی۔ میری ماں کا جب انتقال ہونے لگا تو اس نے دعا کی: خداوندا! اپنی طاعت میں میرے فرزند کو عمر دراز عطا فرما۔
اسیطرح جب میرے باپ کا وصال ہونے لگا تو انہوں نے دعا کی: پروردگار میرے بیٹے کو ایسی جگہ عبادت میں لگا جہاں شیطان کا دخل نہ ہو سکے۔ میں اپنے والد کو دفن کرکے جب اس ساحل پر آیا تو مجھے یہ قبہ نظر آیا۔ اس کی خوبصورتی کا مشاہدہ کرنے کے لیے میں اس کے اندر چلا گیا۔ اتنے میں ایک فرشتہ وارد ہوا اور اس نے قبہ کو سمندر کی تہہ میں اُتار دیا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نےاس سے دریافت کیا: تم کس زمانے میں یہاں آئے؟

نوجوان نے جواب دیا: سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے جان لیا کہ اسے دو ہزار سال ہو گئے ہیں مگر وہ اب تک بالکل جوان ہے اور اس کا بال بھی سفید نہیں ہوا ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: تم وہاں کھاتے کیاہو؟

نوجوان نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی!ایک سبز پرندہ روزانہ اپنی چونچ میں سر برابر کی ایک زرد چیز لے کر آتا ہے میں اسے کھا لیتا ہوں اور اس میں دنیا کی تمام نعمتوں کا لطف ہوتا ہےـ اس سے میری بھوک بھی مٹ جاتی ہے اور پیاس بھی رفع ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ گرمی، سردی، نیند، سستی، غنودگی اور نامانوسی و وحشت یہ تمام چیزیں مجھ سے دور رہتی ہیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: اب تم ہمارے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہو یا تمہیں تمہاری جگہ پہنچا دیاجائے؟

نوجوان: حضور! مجھے میری ہی جگہ بھجوا دیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت آصف بن برخیاؓ کو حکم فرمایا تو انھوں نے قبہ اٹھا کر پھر سمندر کی تہہ میں پہنچادیا۔

اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
اللہ تم پر رحم کرے دیکھو والدین کی دعا کتنی مقبول ہوتی ہے۔ لہٰذا اُن کی نافرمانی سے بچو۔

📗 _نوجوانوں کی حکایات کا انسائیکلوپیڈیا، صفحہ215/214۔_

جہیز لعنت ہے

کل ایک لڑکی کا میسج آیا کہ کوئی اچھی سی جاب بتا سکتے ہیں ؟؟ جب میں نے وجہ پوچھی تو حیران کے ساتھ خاموش سا ہوگیا۔۔۔ 
ہوا یوں کچھ دن پہلے اک فیملی لڑکی کو دیکھنے آئی ۔۔ لڑکی ماشااللہ پیاری ہے اور ماسٹر کیا ہوا ہے۔۔چائے دینے کے بعد لڑکی روم میں چلی گئی۔
کچھ تعریفوں کے بعد بات پکی ہونے لگی تو سوال جہیز کا آگیا ۔ لڑکے کی ماں نے کہا کے ہمارے خاندان میں یہ رواج ہے کہ 15 تولہ سونا 10 مرلے کا پلاٹ اور فلاں فلاں سامان فرنیچر ہوتا اور ساتھ بیٹھا بیٹا چائے کے سپ لیتا رہا۔۔ کچھ دیر پہلے جہاں لڑکی کی بات اور ہنسی مزاق ہو رہا تھا اب وہاں سناٹا تھا۔۔۔ 
آخر کار جواب نا ہو گیا۔ لڑکی ڈر کے مارے کمرے سے نا نکل رہی تھی۔ آخر برتن اٹھانے کے لیے آئی تو غیرت مند (پڑھا لکھا بےروزگار )بھائی بولا " جتنا اس کو پڑھانے پر پیسا لگایا اس سے اچھا تھا جہیز بنا لیتے۔۔ پھر غصہ سے بہن کی طرف مخاطب ہوا کہ اتنا باپ نے پڑھایا ہے کوئی اچھی جاب کر اور جہیز بنا۔۔. وہاں بیٹھا باپ خاموش تھا اور ماں آنسو بہا رہی تھی۔۔۔۔
میں اکثر جو لکھتا ہوں کہانی نہیں حقیقت لکھتا ہوں۔۔ 
باقی اگر جہیز کی پوسٹ کردو تو ہر مرد یہاں "جہیز لعنت ہے" کہنے لگتا ہے اور حقیقت میں خاموش بیٹھے چائے پیتے ہیں۔۔

اصـــــــلاحـــــــی تحـــــــریر

آج آپ زندہ ہیں مگر تھوڑی دیر کے لیے اپنے آپکو قبر والوں میں شمار کریں کیونکہ قبر والا اپنے عمل کو ذرہ برابر زیادہ نہیں کر سکتا اور اسکا مہلت عمل ختم ہو جاتا ہے

فراغت اور صحت سے خوب فائدہ اٹھائیں

صبح ہو تو عمل کیلئے شام کا انتظار نہ کریں اور شام ہو تو صبح کا انتظار نہ کریں کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ کب موت آجائے اور یہ قیمتی وقت ختم ہو جائے

یہ ضائع کیا ہوا وقت ایک تکلیف دہ حسرت اور پچھتاوا بن جائیگا

 یہ ضائع کرنے اور فضول کاموں میں گزارنے کا وقت نہیں ہے
یہ کمائی کا وقت ہے

دیکھئے کہ کل کی زندگی کیلئے،آخرت کیلئے کیا بھیجا،کیا سامان کیا

اصل زندگی آخرت کا گھر ہے
دنیا کی زندگی، زندگی نہیں۔۔۔آزمائش ہے،کام کا وقت ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تلقین کی کہ قبر کے گڑھے کیلئے تیاری کرلو، یہاں کوئی روشنی نہیں ہوگی،
      اپنے اعمال کی روشنی ہوگی
صرف عمل ساتھ دیں گے

اپنے آپ کو گناہوں سے بچائیں۔۔یہ سوچ کر کہ میں نے آخرت کی تیاری کرنی ہے۔۔۔گناہوں سے صبر کرنا ہے نفس کو روکنا ہے

عقلمند وہ ہے جو موت کو زیادہ یاد کرے اور اسکے بعد کے مراحل کی تیاری کرنے والے ہوں

قیامت کے روز پہلا سوال نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا
نماز سے دن شروع کریں، 
نماز کو پہلی ترجیح بنائیں اور 
نمازوں کے اوقات کے مطابق ہی اپناٹائم ٹیبل بنائیں

آخرت کو بہت یاد کریں

فرائض کو ترجیح دیں

اللہ ہمیں پانچ وقت کا نمازی بنا دے اور ہمیں اپنی آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائیں
آمین ثم آمین

مرد ذات.....



کئی دفعہ کئی لڑکیوں کی پوسٹ دیکھی جہاں لکھا تھا مرد ذات ہی گھٹیا ہے،، پہلے تو مسکرایا پھر سوچنے لگا یار مرد بھی کیا چیز ہے؟ 
آج میں بتانے والا ہوں مرد کیا چیز ہے؟ 
مجھے مرد بننے کا پتہ تب چلا جب میں لاہور میں از آ لیبر کام کررہا تھا یعنی مزدوری کرتا تھا میرے ساتھ کمرے میں ایک پختون سترہ سالہ لڑکا تھا وہ صبح سویرے 5 بجے دہاڑی ڈونڈھنے نکلتا اور شام کو جب آتا تقریباً 7 یا 8 بجے تو فوراً کہتا چلو کھانا کھانے، میں روز کہتا ابھی تو وقت نہیں 10 بجے چلیں گے وہ روز کہتا نہیں یار بھوک لگی ہے ۔۔۔
ہر روز اس کا یہی معمول تھا میں ہر روز پوچھتا تھا تمہیں اتنی بھوک کیوں لگتی ہے لیکن ہمیشہ وہ میری بات ٹال دیتا تھا ایک دن میں بھی ضدی بن گیا اور ان سے کہا تب تک نہیں چھوڑوں گا جب تک مجھے صاف صاف بتا نہیں دیتے، اسے جب پتہ چلا یہ پیچھا نہیں چھوڑنے والا تو مجھے آخر کار جواب دے ہی دیا جسے سننے کے بعد میری انکھوں میں آنسو آگئے اور اس جوان کو سلوٹ کرنے کا من کیا اس کا جواب یہ تھا،، 
میں دن میں دو دو دہاڑی کرتا ہوں صبح اٹھتا ہوں تو ایک کپ چائے پی کر کام پر جاتا ہوں 3 بجے کام ختم کرکے دوسری جگہ چلا جاتا ہوں اور پھر آٹھ بجے تک وہی رکتا ہوں،، میں نے کہا کھانا کب کھاتے ہو،، کہا بس شام کو ہی،، میں نے غصے سے کہا اتنا بھی کیا پیسے کا لالچ کے اپنا پیٹ بھی نا بھر سکو،، کہنے لگا میری ایک بہن ہے جو بہری بھی ہے اور گونگی بھی، میں دن رات محنت کرکے پسینہ بہا کے پیسے اکھٹا کررہا ہوں مجھے ان کا آپریشن کروانا ہے میرے بابا اکیلے یہ خرچہ نہیں اٹھا پائیں گے،، میں ہر دن لگ بھگ 2 ہزار کماتا ہوں جس میں صرف ستر روپے کھانے کے لئے رکھتا ہوں باقی جمع کررہا ہوں،، میری انکھیں لبریز ہوگئیں ۔۔۔
پھر ایک دن میں ان کے ساتھ کام پر گیا جانتے ہو وہ کام کیا کرتا تھا،، 16 منزل تک ہر روز تقریباً آدھا ڈمپر ریتی چڑھاتا تھا اپنے پییٹ پر میں نے تب سیکھا مرد کیا ہے اور کیا کرسکتا ہے، اور کیا سہہ سکتا ہے، میں صرف 50 یا 60 ٹائلز چڑھا کر رات کو پیٹ سیدھا نہیں کرسکتا تھا سوچا اس بیچارے لڑکے کا کیا حال ہوگا جو محض 17 سال کا ہے اور اتنا بوجھ اٹھا رہا ہے آج تقریباً 4 سال بعد ان سے رابطہ کیا تو کہنے لگا بہن کا آپریشن ہوگیا اب وہ سن تو سکتی ہے پر بول نہیں سکتی لیکن میں خوش ہوں ان کے شادی کرادی ہے میں نے اور لڑکا بہت اچھا ہے، بہن کا ہر طرح سے خیال رکھ رہا ہے ۔۔۔
میں نے کہا آپ نے کتنے پیسے لگائے شادی اور آپریشن پر کہا بارہ لاکھ میرے دس لاکھ بابا نے ۔
میں نے کہا بہن کو تو آباد کرلیا لیکن خود کو برباد کردیا وہ مسکرایا اور کہنے لگا میں نے جو سودا کیا ہے فائدے کا ہے لیکن آپ نے کیا کیا اتنے سالوں میں خاموش رہ گیا کیونکہ میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔
سو امید ہے آپ جان گئے ہوں گے مرد کیا ہوتا ہے مرد وہ ہستی ہے جو ماں کے گود سے لے لر تختہ غسل تک اپنوں کے خاطر جیتا ہے نا کہ اپنی خاطر اور پھر بھی کچھ لوگ اس مقدس ذات کو گالیاں دیتے ہیں،، ہاں ہوں گے ایک دو ہر جنس میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں آپ پوری ذات کو بدنام کردو ۔۔۔۔

مثبت اور منفی لوگ

میں نے ایک بات محسوس کی ہے، جیسے لوگ ہمارے ارد گِرد ہوتے ہیں ہماری زندگیوں پر ویسا اثر ہونا شروع ہو جاتا ہے، ہماری پرسنلیٹی، ہماری سوچ، ہمارا اٹھنا بیٹھنا، ہماری ڈیلنگز، ہمارے الفاظ، یہاں تک کہ ہمارے اللہ پر توکل پر بھی اثر ہوتا ہے، منفی لوگ ہر طرح سے منفی شعاعیں پھیلانے کے عادی ہوتے ہیں وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں میں بھی مایوسی کا زہر انجیکٹ کر رہے ہوتے ہیں، مثبت سوچ و کردار کے مالک لوگ آپ کی زندگی میں مزید رنگ بھر دیتے ہیں، آپ کو گرنے نہیں دیتے، آپ کو خود اعتمادی کا فن سکھاتے ہیں، آپ کو محبت بانٹنا سکھاتے ہیں، ایسے لوگوں سے ملنے اور بات کرنے کے بہانے ڈھونڈیں، ان کے قریب رہیں، ان کی مثبت شعاعیں آپ کو مشکل زندگی میں مثبت رہ کر جینا سکھا دیں گی، اللہ پر توکل سکھا دیں گی

یسے تھے ہمارے امام

امام ابوحنیفہ کے کپڑے کی دکان تھی ۔ آپ مدرسے کے بعد وہاں تجارت کرتے تھے ۔امت محمدی کو اگر تجارت کسی نے سکھائی ہے وہ یا تو خلیفہ اول ابو بکر صدیق تھے یا پھر امام ابو حنیفہ ۔ایک دن ظہر کی نماز کے بعد اپنی دکان بند کردی اور جانے لگےتو ساتھی دکاندار نے کہا " ابو حنیفہ آج تو جلدی نکل لیے کہاں جارہے ہیں آپ آج اتنی جلدی "امام ابو حنیفہ نے فرمایا " آپ دیکھ نہیں رہے کہ آسمان پہ کالے بادل آچکے ہیں "اس شخص نے کہا " یا نعمان آسمان کے بادلوں کا دکان سے کیا لینا دینا"امام ابو حنیفہ نے فرمایا " جب بادل گہرے ہوجاتے ہیں تو چراغ کی روشنی اندھیرا ختم کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے گاہک کو کپڑے کی ورائیٹی کا پتہ نہیں چلتا اسکو کوالٹی کی پہچان نہیں ہوتی ۔ میں نے اس وجہ سے دکان جلدی بند کردی کہ میرے پاس آیا ہوا گاہک کم قیمت کپڑے کو قیمتی سمجھ کر زیادہ پیسے نہ دے ۔"آج کے دکانداروں کے پاس جاکر پتہ چلتا ہے کہ جب انکے پاس کوئی معصوم گاہک آجاے تو وہ انکو ایسی قینچی سے زبح کرلیتے ھے کہ دو نمبری کپڑا بھی ایک نمبر کی قیمت پہ فروخت کرلیتے ھے۔ بلکہ آجکل تو باقاعدہ سے گاہک کو لوٹنے کے عجیب وغریب طریقے آرہے ھے۔

اپنی اہمیت

‏کبھی کبھی ہماری بہت زیادہ چاہت دوسرے کے لیے گھٹن بن جاتی ہے کسی کو خود سے بڑھ کر چاہنے، ہر وقت اس کو سوچتے رہتے ہیں ہر وقت میسر رہتے ہیں تو ہم اپنی وقعت کھو دیتے ہیں اس لیے کسی کو اتنی اہمیت بھی نہ دیں کہ اپنی کوئی اہمیت ہی نہ رہے ہر وقت لوگوں کو میسر ہونا خاص سے عام کر دیتا ہے.

Saturday, August 8, 2020

ایک یا دو کام

میں نہیں یقین کرتا کہ بندے کو ایک کام کرنا چاہیے۔ کامیابی صرف ایک کام کرنے سے نہیں ملتی۔ کامیابی کے لیے دوڑ لگانی پڑتی ہے۔ 
جیسے آپ ایم اے کسی مضمون میں یا کسی اور چیز میں کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی کرتے رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ۔ چھوٹے چھوٹے کورس بھی کرتے جائیں۔ اس طرح کیا ہوگا؟ کہ آپ کا ذہن بھی مصروف رہے گا ۔ اور اس کے پاس ہر وقت کوئی نہ کوئی چیلنج ہو گا۔ آپ جب تک اپنا ایم اے مکمل کرتے ہیں اس کے ساتھ آپ کے پاس دوسرے ہنر بھی ہوں گے۔
بالکل اسی طرح آپ ایک بزنس کرتے جائیں گے تو اس میں کامیابی کی ایک حد ہو گی یا شاید آپ کی اس بزنس کےلیے ایک حد ہو ۔ اگر آپ اس کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے چھوٹے بزنس کو بھی ساتھ ہی ہینڈل کرتے ہیں بلکہ کئی دوسرے بزنس ساتھ ساتھ ہینڈل کرتے ہیں تو کامیابی دس گنا ہوگی۔
میرے نزدیک زندگی آرام کرنے کےلیے نہیں ہے۔ صرف کام کرنے کےلیے ہے۔ 
آپ اگر آرام کا ہی مقصد لے کر زندگی کے میدان میں اترتے ہیں تو آپ آرام ہی کر رہے ہوں گے۔ اور آرام تو مُردے کرتے ہیں کوئی زندہ انسان نہیں۔

اگر وقت ملے تو سوچئے گا

ایک بازار سے ایک مغرور بندہ گذر رہا تھا کہ اس کی نظر سر پر ایک ڈول اٹھائے عورت پر پڑی، اس نے اسے آواز دیکر روکا اور نخوت سے پوچھا: اے مائی، کیا بیچ رہی ہو؟
عورت نے کہا: جی میں گھی بیچ رہی ہوں۔
اس شخص نے کہا: اچھا دکھاؤ تو، کیسا ہے؟
گھی کا وزنی ڈول سر سے اتارتے ہوئے کچھ گھی اس آدمی کی قمیض پر گرا تو یہ بہت بگڑ گیا اور دھاڑتے ہوئے بولا: نظر نہیں آتا کیا، میری قیمتی قمیض*خراب کر دی ہے تو نے؟ میں جب تک تجھ سے اس قمیض کے پیسے نا لے لوں، تجھے تو یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔
عورت نے بیچارگی سے کہا؛ میں مسکین عورت ہوں، اور میں نے آپ کی قمیض پر گھی جان بوجھ کر نہیں گرایا، مجھ پر رحم کرو اور مجھے جانے دو۔
اس آدمی نے کہا؛ جب تک تجھ سے دام نا لے لوں میں تو تجھے یہاں سے ہلنے بھی نہیں دونگا۔
عورت نے پوچھا: کتنی قیمت ہے آپ کی قمیض کی؟
اس شخص نے کہا: ایک ہزار درہم۔
عورت نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا: میں فقیر عورت ہوں، میرے پاس سے ایک ہزار درہم کہاں سے آئیں گے؟
اس شخص نے کہا: مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔
عورت نے کہا: مجھ پر رحم کرو اور مجھے یوں رسوا نا کرو۔* *ابھی یہ آدمی عورت پر اپنی دھونس اور دھمکیاں چلا ہی رہا تھا کہ وہاں سے کہ ایک نوجوان کا گزر ہوا۔ نوجوان نے اس سہمی ہوئی عورت سے ماجرا پوچھا تو عورت نے سارا معاملہ کہہ سنایا۔
نوجوان نے اس آدمی سے کہا؛ جناب، میں دیتا ہوں آپ کو آپ کی قمیض کی قیمت۔ اور جیب سے ایک ہزار درہم نکال کر اس مغرور انسان کو دیدیئے۔
یہ آدمی ہزار درہم جیب میں ڈال کر چلنے لگا تو نوجوان نے کہا: جاتا کدھر ہے؟
آدمی نے پوچھا: تو تجھے کیا چاہیئے مجھ سے؟
نوجوان نے کہا: تو نے اپنی قمیض کے پیسے لے لیئے ہیں ناں؟
آدمی نے کہا: بالکل، میں نے ایک ہزار درہم لے لیئے ہیں۔
نوجون نے کہا: تو پھر قمیض کدھر ہے؟
آدمی نے کہا: وہ کس لیئے؟
نوجوان نے کہا: ہم نے تجھے تیری قمیض کے پیسے دیدیئے ہیں، اب اپنی قمیض ہمیں دے اور جا۔
آدمی نے گربڑاتے ہوئے کہا: تو کیا میں ننگا جاؤں؟
نوجوان نے کہا: ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔
آدمی نے کہا: اور اگر میں یہ قمیض نا دوں تو؟
نوجوان نے کہا: تو پھر ہمیں اس کی قیمت دیدے۔
اس آدمی نے پوچھا: ایک ہزار درہم؟
نوجوان نے کہا: نہیں، قیمت وہ جو ہم مانگیں گے۔
اس آدمی نے پوچھا: تو کیا قیمت مانگتے ہو؟
نوجوان نے کہا: دو ہزار درہم آدمی نے کہا؛ تو نے تو مجھے ایک ہزار درہم دیئے تھے۔
نوجوان نے کہا: تیرا اس سے کوئی مطلب نہیں۔
آدمی نے کہا: یہ بہت زیادہ قیمت ہے۔
نوجوان نے کہا؛ پھر ٹھیک ہے، ہماری قمیض اتار دے۔
اس آدمی نے کچھ روہانسا ہوتے ہوئے کہا: تو مجھے رسوا کرنا چاہتا ہے؟
نوجوان نے کہا: اور جب تو اس مسکین عورت کو رسوا کر رہا تھا تو!!
آدمی نے کہا: یہ ظلم اور زیادتی ہے۔
نوجوان نے حیرت سے کہا: کمال ہے کہ یہ تجھے ظلم لگ رہا ہے۔
اس آدمی نے مزید شرمندگی سے بچنے کیلئے، جیب سے دو ہزار نکال کر نوجوان کو دیدیئے۔
اور نوجوان نے مجمعے میں اعلان کیا کہ دو ہزار اس عورت کیلئے میری طرف سے ہدیہ ہیں۔
ہمارے ہاں بھی اکثریت کا حا ل ایسا ہی ہے۔ ہمیں دوسروں کی تکلیف اور توہین سے کوئی*مطلب نہیں ہوتا لیکن جب بات خود پر آتی ہے تو ظلم محسوس ہوتا ہے۔اگر معاشرتی طور پر ہم دوسروں کی تکلیف کو اپنا سمجھنا شروع کر دیں تو دنیا کی بہترین قوموں میں ہمارا شمار ہو۔ اگر وقت ملے تو سوچئے گا۔