Sunday, August 9, 2020

تربیت کے سات سال

تربیت کے 3 سات سال
(جہانزیب راضی)

یاد رکھنا! جب تک بچہ 7 سال کا نہیں ہو جاتا وہ چکنی مٹی کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے خیالات سے لیکر اس کے رویے سب کے سب معاشرے اور گھر کی طرف سے وجود میں آتے ہیں، وہ صرف "طوطے" ہوتے ہیں جو آپ سے سنیں گے اور جو آپ کو کرتا دیکھیں گے ویسا ہی بولنا اور ویسے ہی کرنا شروع کر دیں گے۔ بچے کے یہ 7 سال ماں کے پاس امانت ہیں، یہ ماں کی گود، اس کی آغوش اور اس کی ممتا کی گرمی کے سال ہیں۔ ماں کو خصوصا اور گھر میں موجود باقی لوگوں کو عموما اپنے روز و شب، معاملات اور معمولات بہت دیکھ بھال کر گزارنے چاہییں۔ بہت سے ایسے سرسری اور معمولی واقعات جو شاید آپ کے نزدیک سرے سے کوئی اہمیت ہی نہ رکھتے ہوں بچے ان کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں۔ 
ماں کی ایک ایک حرکت، باپ کی ہر ایک ادا، گھر میں موجود ہر فرد کا اس کے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ رویہ، ماں اور باپ کا آپس میں اور گھر میں موجود افراد کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق یہ سب ایک بچہ اچھی طرح نہ صرف نوٹ کرتا ہے بلکہ من و عن اس پر عمل کرنا اپنا فرض بھی سمجھتا ہے۔آپ کبھی غور کر لیں۔ کسی بچے کو جھوٹ، غیبت اور نقل اتارنے کی تلقین نہیں کی جاتی ہے، کوئی کتاب لاکر نہیں دی جاتی، جھوٹ اور غیبت کے حق میں لیکچرز نہیں دیے جاتے، "ایکٹیویٹی بیسڈ" جھوٹ اور غیبت کی مشقیں نہیں کروائی جاتیں۔ مگر وہ یہ سب کتنے آرام سے سیکھ لیتا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں سچ اور برائی سے روکنے کی تلقین اور لیکچرز بھی ہوتے ہیں، مشقیں بھی کروائی جاتی ہیں، کتابوں میں سے اچھے اچھے واقعات پڑھ کر بھی سنائے جاتے ہیں لیکن بچے پھر بھی جھوٹ اور برائی کی طرف رہی راغب ہوتے ہیں کیوں؟
ایک دفعہ ایک اسکول کی پرنسپل سے بچوں کے بات بے بات لڑنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کمال سادگی سے جواب دیا کہ "سر! اسلامیات ہی کیا اب تو اردو اور انگریزی تک کی کتابوں میں ہم وہ اسباق پڑھا رہے ہیں جس میں سیرت سے صلح صفائی کے واقعات مذکور ہیں". ذرا بتائیے؛
اس حادثہء وقت کو کیا نام دیا جائے؟
7 سال بچے کو پھول کی طرح رکھیں۔ آنکھوں سے لگا کر، سینے سے چمٹا کر اور اپنا بنا کر۔ اس عمر میں بچوں کو نصیحتیں نہیں کی جاتیں بلکہ نصیحتیں "دکھائی" جاتی ہیں۔ بول کر مت دکھائیے بلکہ کرکے بتائیے۔ بچے کے کسی بھی غلط عمل اور حرکت پر اسے آپ صحیح کرکے دکھائیے، بچہ اگر چھوٹی بہن یا بھائی کو مارتا ہے تو آپ اسے پیار کر لیجئے، یعنی چھوٹی بہن یا بھائی کو۔ بچہ کسی چیز کو کہیں ایسے ہی پھینکتا ہے تو آپ اس سے کچھ بھی بولے بغیر اسے جگہ پر رکھ دیجیے، بچہ پانی کے قریب نہیں جانا چاہتا اور ڈرتا ہے تو بس آپ پانی میں جائیے، پانی سے کھیلئیے، کھانا نہیں کھاتا تو اسے دسترخوان پر بٹھا کر آپ خود کھانا کھائیے۔ بچے کی یہ عمر آپ کے خاموش رہنے کی عمر ہے۔ بس غور سے دیکھیں کہ بچہ کیا اور کیوں کر رہا ہے؟ آپ کو نبی صلی اللہ وسلم کی سیرت سے بھی 7 سال تک کسی بھی قسم کی کوئی نصیحت اپنے نواسے نواسیوں کو نہیں ملے گی۔ بس کندھے پر اٹھا کر بازار میں نکل جانا، خود اپنی پیٹھ پر بٹھا کر زمین پر چلنا اور صرف پیار کرنا، حتی کہ نماز جیسی عظیم الشان عبادت میں بھی ان کے کھیل کو محبت اور پیار سے قبول کرنا، اپنی زبان کے بجائے محض عمل سے کرکے دکھانا، یہاں تک کے 7 سال سے پہلے فرض نماز کی بھی ترغیب سرے سے دین میں شامل نہیں ہے۔
اگلے سات سال یعنی 7 سے 14 یہ باپ کے پاس بچے کے امانت ہیں۔ ان سات سالوں میں بچے کو غلام کی طرح رکھئیے۔ بچے کی آدھی شخصیت اور لگ بھگ پچاس فیصد عادات اسی عمر میں کسی حد تک مکمل ہوچکی ہوتی ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ جب بچہ 7 سال کا ہوجائے تو اسے نماز کی ترغیب دو، نماز کی نصیحت کرو، جب 9 سال کا ہوجائے تو اس کا بستر الگ کر دو، 10 سال کا ہوجائے اور پھر بھی نماز نہ پڑھے تو اس پر سختی کرو، جب 12 سال کا ہوجائے تو اس کی نگرانی شروع کردو اور یہ نگرانی "چوکیدار اور ایجنسیوں" والی نہ ہو بلکہ اپنے پاس بچے کی پوری معلومات رکھیں۔ بچے کے شوق، اس کی دلچسپیاں، اس کے دوست، اس کے مطالعے میں رہنے والی کتابیں اور اس کی کتابوں میں بننے والی "تصویریں"۔ یہ سب کے سب آپ کے علم میں ہونا چاہیے اس عمر میں نصیحت شروع کی جائے گی لیکن محبت، ہمدردی اور تڑپ کے ساتھ، نہ کہ غصہ اور نفرت کے ساتھ۔ ذہن میں رہے کہ بچے کو ہاتھ لگانا، مارنا، بدتمیزی و بداخلاقی کرنا، بچے کو برا بھلا کہنا اور ذہنی ٹارچر کا نشانہ بنانا بہرحال اس عمر میں بھی جائز نہیں ہے۔
بچے کی عمر کا تیسرا حصہ 14 سال سے 21 سال تک کا ہوتا ہے۔ وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ چکا ہوتا ہے، اس لئے کہتے ہیں کہ اس عمر میں بچے کو دوست کی طرح رکھو۔ نادان ہیں وہ والدین اور اساتذہ جو نویں اور دسویں کے بچے بچیوں کو مارتے یا ان پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ اس عمر میں نہ صرف ان کا جسم مضبوط ہونا شروع ہوجاتا ہے بلکہ نفس کے ساتھ بھی کشمکش شروع ہوچکی ہوتی ہے، جبکہ والدین 35 اور 40 کی عمر سے آگے نکل کر اپنے زوال کی طرف تیزی سے رواں دواں ہوتے ہیں۔ اگر آپ اپنے بچوں کے ساتھ 7 سے 14 سال والی عمر میں اپنا تعلق مضبوط نہیں کرتے تو پھر اس کے بعد باپوں کی زندگی تنہائی میں گزرتی ہے۔
عام طور پر بڑھاپے میں بچے ماں کا سہارا اور باپ کی کمزوری بن جاتے ہیں، کیونکہ باپ نے اپنی ساری زندگی "بچوں کے لئے" جو کھپادی ہوتی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ "اگر اپنے بچے کو اچھا انسان دیکھنا چاہتے ہو تو اس پر خرچ کی جانے والی رقم کو آدھا اور دئیے جانے والے وقت کو دگنا کر دو". 14 سال کی عمر کے بعد بچوں سے "یارانہ" لگا لیں۔ ان کو اپنا دوست بنائیں۔ ان کے دوستوں سے دوستی اور سہیلیوں کو بیٹی بنالیں، ان کے ساتھ اپنا تعلق اتنا مضبوط کریں کہ وہ اپنی غلط بات بھی بتانے کے لئے آپ ہی کے پاس آئیں اور آپ ایک اچھے دوست کی طرح اس کو ہمدردی کے ساتھ نصیحت کر سکیں۔ اگر وہ کسی غلط کام میں ملوث ہو گیا یا ہو گئی ہے اور اسے کوئی لڑکا یا لڑکی پسند بھی آگئی ہے تو بھی پورے حوصلے اور تحمل کے ساتھ اس کو سنیں، اس کے خیرخواہ بنیں اور آپ کے اوپر اولاد کا آخری حق بھی یہی ہے کہ اس کے بگڑنے سے پہلے اس کے لئے حلال رشتے کو آسان بنا دیں۔ اسی لیے کہا گیا گیا کہ جب بچہ 17 سال کا ہوجائے تو اس کی شادی کی فکر کرو۔
 21 سال کے بعد تو بچے بچیوں کی ویسے بھی اپنی ہی زندگی شروع ہوچکی ہوتی ہے۔ اگر آپ نے معاشرے میں ایک اچھا اور کارآمد فرد بنا کر بھیجا ہے تو وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ آپ کے لیے صدقہء جاریہ اور سرمایہء افتخار ہے ورنہ دوسری صورت میں آپ کی ہی اولاد آپ کے لئے اللہ نہ کرے ذلت ورسوائی کا ذریعہ بن جائے گی۔

سب سے بڑی قربانی

سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ آپ وہ بن کے دکھا دیں جو پروردگار نے آپ کو بننے کے لئے پیدا کیا ہے.


اپنے مقصد کو چھوٹی چھوٹی پریشانیوں اور لوگوں کے طعنوں پر قربان نہ کریں۔ 

قربانی یہ نہیں کہ آپ دوسروں کو خوش کرنے کے لئے اپنے ہدف سے ہٹ گئے۔ قربانی یہ ہے کہ آپ نے ہدف کو پانے کے لئے اپنی جھوٹی انا اور بہانوں کو اپنے مقصد پر قربان کر دیا۔ 

قربانی یہ نہیں کہ میں نے پڑھائی چھوڑ دی تاکہ میرا چھوٹا بھائی پڑھ سکے۔ قربانی یہ ہے کہ آپ چھوٹے بھائی کی پڑھائی کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ بھائی بہنوں کی زندگی بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی بھی زندگی سنوار لیں۔ 

دوسروں کے کئے اپنی آرزوؤں کو پامال کرنا قربانی نہیں۔ اپنے خوابوں سے دستبردار ہو جانا قربانی نہیں بلکہ بزدلی ہے، فرار ہے۔ 

کئی لوگوں کو محض اپنے خواب سے ہٹنے کا بہانہ چاہئے ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کے کندھوں پہ قربانی کی بندوق چلاتے ہیں اور جامِ شہادت نوش کر لیتے ہیں۔ یہ جعلی شہادت انہیں عمر بھر جعلی دلاسہ دیتی رہتی ہے۔ ایسے لوگ ساری زندگی اپنی بہانوں کی داستان سناتے رہتے ہیں کہ میں بھی کچھ بن سکتا تھا مگر میں نے فلاں فلاں کے لئے اپنے کیرئیر کی قربانی دے دی۔ 

اپنے مقاصد کی جستجو کرتے ہوئے دوسروں کا سہارا بننا اصل قربانی ہے۔ 

قربانی دینی ہی ہے تو اپنے آرام، سکون اور نیند کی قربانی دیجئے اور اس وقت میں اپنا شاندار مستقبل تراشئیے۔ خود کو پُش کرنا، اپنی صلاحیت کی حدوں کو چھو لینا اصل قربانی ہے۔ کسی فرسودہ بہانے کی خاطر اپنے ٹیلنٹ سے منہ موڑ لینا، اپنی خداداد ذہانت اور ہنر کی ناقدری کرنا کونسی قربانی ہے؟ 

اپنے پروردگار کی طرف سے ملنے والے مقصد کو لوگوں کی باتوں میں آکر قربان کر دینے والا شخص اندر سے جانتا ہے کہ اس نے زندگی کو اپنا بہترین نہیں دیا۔ اس نے کمال تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ایسا شخص کبھی اندر سے اطمینان نہیں پا سکتا۔ اور بھلا ایک نامکمل اور ناخوش شخص کی قربانی دوسروں کو کیا خوشی دے گی؟

آپ کا دوسروں کی خدمت کا جذبہ سر آنکھوں پہ۔ لیکن اگر واقعی آپ دوسروں کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے مقصد، اپنے ہدف کو پالیں۔ اس نیت کے ساتھ کہ آپ کی ذاتی کامیابی مزید کتنے لوگوں کے لئےایک بڑی کامیابی کی راہ ہموار کر دے گی۔ 

یاد رکھئے، اپنے خوابوں کی قربانی نہیں دینی۔ کچھ بن کے دکھانا ہے۔ 

*(-کامیابی مبارک,*
 *~قیصر_عباس)*

والدین کی دعا کا اثر

اللہ تعالٰی نے ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ سمندر کے کنارے جائیں اور قدرت الٰہیہ کا تماشا دیکھیں۔

 حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے مصاحبین کے ساتھ تشریف لے گئے؛مگر انھیں کوئی ایسی شے نظر نہیں آئی۔

 آپ نے ایک جن کو حکم دیا کہ سمندر میں غوطہ لگا کر اندر کی خبر لاؤ۔ عفریت نے غوطہ لگایا مگر کچھ نہ پایا، اور واپس آکر عرض کیا:
 اے اللہ کےنبی!
میں نے غوطہ لگایا مگر سمندر کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا، اور نہ کوئی شے دیکھی۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس سے قوی جن کو غوطہ خوری کا حکم فرمایا۔ مگر وہ بھی نامراد واپس آیا، اگرچہ یہ اس سے دوگنی مسافت تک اندر گیا تھا۔

 اب آپ نے اپنے وزیر *آصف بن برخیا* کو سمندر میں اُترنے کا حکم دیا۔
انہوں نے تھوڑی دیر میں ایک سفید کافوری قبہ لاکر حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر کیا، جس میں چار دروازے تھے۔ ایک دروازہ موتی کا، دوسرا یاقوت کا، تیسرا ہیرے کا اور چوتھا زمرد کا۔ چاروں دروازے کھلے ہونے کے باوجود اندر سمندر کے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں داخل ہوا تھا حالانکہ قبہ سمندر کی تہہ میں تھا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملاحظہ فرمایا کہ اس کے اندر *ایک خوبصورت نوجوان* صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے نماز میں مشغول ہے۔

 آپ قبہ کے اندر تشریف لے گئے اور اس سے سلام کر کے دریافت فرمایا کہ اس سمندر کی تہہ میں تم کیسے پہنچ گئے؟

 اس نے جواب دیا:

اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ معذور تھے اور میری ماں نابینا تھی، میں نے ان دونوں کی ستر سال تک خدمت کی۔ میری ماں کا جب انتقال ہونے لگا تو اس نے دعا کی: خداوندا! اپنی طاعت میں میرے فرزند کو عمر دراز عطا فرما۔
اسیطرح جب میرے باپ کا وصال ہونے لگا تو انہوں نے دعا کی: پروردگار میرے بیٹے کو ایسی جگہ عبادت میں لگا جہاں شیطان کا دخل نہ ہو سکے۔ میں اپنے والد کو دفن کرکے جب اس ساحل پر آیا تو مجھے یہ قبہ نظر آیا۔ اس کی خوبصورتی کا مشاہدہ کرنے کے لیے میں اس کے اندر چلا گیا۔ اتنے میں ایک فرشتہ وارد ہوا اور اس نے قبہ کو سمندر کی تہہ میں اُتار دیا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نےاس سے دریافت کیا: تم کس زمانے میں یہاں آئے؟

نوجوان نے جواب دیا: سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے جان لیا کہ اسے دو ہزار سال ہو گئے ہیں مگر وہ اب تک بالکل جوان ہے اور اس کا بال بھی سفید نہیں ہوا ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: تم وہاں کھاتے کیاہو؟

نوجوان نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی!ایک سبز پرندہ روزانہ اپنی چونچ میں سر برابر کی ایک زرد چیز لے کر آتا ہے میں اسے کھا لیتا ہوں اور اس میں دنیا کی تمام نعمتوں کا لطف ہوتا ہےـ اس سے میری بھوک بھی مٹ جاتی ہے اور پیاس بھی رفع ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ گرمی، سردی، نیند، سستی، غنودگی اور نامانوسی و وحشت یہ تمام چیزیں مجھ سے دور رہتی ہیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: اب تم ہمارے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہو یا تمہیں تمہاری جگہ پہنچا دیاجائے؟

نوجوان: حضور! مجھے میری ہی جگہ بھجوا دیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے حضرت آصف بن برخیاؓ کو حکم فرمایا تو انھوں نے قبہ اٹھا کر پھر سمندر کی تہہ میں پہنچادیا۔

اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
اللہ تم پر رحم کرے دیکھو والدین کی دعا کتنی مقبول ہوتی ہے۔ لہٰذا اُن کی نافرمانی سے بچو۔

📗 _نوجوانوں کی حکایات کا انسائیکلوپیڈیا، صفحہ215/214۔_

جہیز لعنت ہے

کل ایک لڑکی کا میسج آیا کہ کوئی اچھی سی جاب بتا سکتے ہیں ؟؟ جب میں نے وجہ پوچھی تو حیران کے ساتھ خاموش سا ہوگیا۔۔۔ 
ہوا یوں کچھ دن پہلے اک فیملی لڑکی کو دیکھنے آئی ۔۔ لڑکی ماشااللہ پیاری ہے اور ماسٹر کیا ہوا ہے۔۔چائے دینے کے بعد لڑکی روم میں چلی گئی۔
کچھ تعریفوں کے بعد بات پکی ہونے لگی تو سوال جہیز کا آگیا ۔ لڑکے کی ماں نے کہا کے ہمارے خاندان میں یہ رواج ہے کہ 15 تولہ سونا 10 مرلے کا پلاٹ اور فلاں فلاں سامان فرنیچر ہوتا اور ساتھ بیٹھا بیٹا چائے کے سپ لیتا رہا۔۔ کچھ دیر پہلے جہاں لڑکی کی بات اور ہنسی مزاق ہو رہا تھا اب وہاں سناٹا تھا۔۔۔ 
آخر کار جواب نا ہو گیا۔ لڑکی ڈر کے مارے کمرے سے نا نکل رہی تھی۔ آخر برتن اٹھانے کے لیے آئی تو غیرت مند (پڑھا لکھا بےروزگار )بھائی بولا " جتنا اس کو پڑھانے پر پیسا لگایا اس سے اچھا تھا جہیز بنا لیتے۔۔ پھر غصہ سے بہن کی طرف مخاطب ہوا کہ اتنا باپ نے پڑھایا ہے کوئی اچھی جاب کر اور جہیز بنا۔۔. وہاں بیٹھا باپ خاموش تھا اور ماں آنسو بہا رہی تھی۔۔۔۔
میں اکثر جو لکھتا ہوں کہانی نہیں حقیقت لکھتا ہوں۔۔ 
باقی اگر جہیز کی پوسٹ کردو تو ہر مرد یہاں "جہیز لعنت ہے" کہنے لگتا ہے اور حقیقت میں خاموش بیٹھے چائے پیتے ہیں۔۔

اصـــــــلاحـــــــی تحـــــــریر

آج آپ زندہ ہیں مگر تھوڑی دیر کے لیے اپنے آپکو قبر والوں میں شمار کریں کیونکہ قبر والا اپنے عمل کو ذرہ برابر زیادہ نہیں کر سکتا اور اسکا مہلت عمل ختم ہو جاتا ہے

فراغت اور صحت سے خوب فائدہ اٹھائیں

صبح ہو تو عمل کیلئے شام کا انتظار نہ کریں اور شام ہو تو صبح کا انتظار نہ کریں کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ کب موت آجائے اور یہ قیمتی وقت ختم ہو جائے

یہ ضائع کیا ہوا وقت ایک تکلیف دہ حسرت اور پچھتاوا بن جائیگا

 یہ ضائع کرنے اور فضول کاموں میں گزارنے کا وقت نہیں ہے
یہ کمائی کا وقت ہے

دیکھئے کہ کل کی زندگی کیلئے،آخرت کیلئے کیا بھیجا،کیا سامان کیا

اصل زندگی آخرت کا گھر ہے
دنیا کی زندگی، زندگی نہیں۔۔۔آزمائش ہے،کام کا وقت ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تلقین کی کہ قبر کے گڑھے کیلئے تیاری کرلو، یہاں کوئی روشنی نہیں ہوگی،
      اپنے اعمال کی روشنی ہوگی
صرف عمل ساتھ دیں گے

اپنے آپ کو گناہوں سے بچائیں۔۔یہ سوچ کر کہ میں نے آخرت کی تیاری کرنی ہے۔۔۔گناہوں سے صبر کرنا ہے نفس کو روکنا ہے

عقلمند وہ ہے جو موت کو زیادہ یاد کرے اور اسکے بعد کے مراحل کی تیاری کرنے والے ہوں

قیامت کے روز پہلا سوال نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا
نماز سے دن شروع کریں، 
نماز کو پہلی ترجیح بنائیں اور 
نمازوں کے اوقات کے مطابق ہی اپناٹائم ٹیبل بنائیں

آخرت کو بہت یاد کریں

فرائض کو ترجیح دیں

اللہ ہمیں پانچ وقت کا نمازی بنا دے اور ہمیں اپنی آخرت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائیں
آمین ثم آمین

مرد ذات.....



کئی دفعہ کئی لڑکیوں کی پوسٹ دیکھی جہاں لکھا تھا مرد ذات ہی گھٹیا ہے،، پہلے تو مسکرایا پھر سوچنے لگا یار مرد بھی کیا چیز ہے؟ 
آج میں بتانے والا ہوں مرد کیا چیز ہے؟ 
مجھے مرد بننے کا پتہ تب چلا جب میں لاہور میں از آ لیبر کام کررہا تھا یعنی مزدوری کرتا تھا میرے ساتھ کمرے میں ایک پختون سترہ سالہ لڑکا تھا وہ صبح سویرے 5 بجے دہاڑی ڈونڈھنے نکلتا اور شام کو جب آتا تقریباً 7 یا 8 بجے تو فوراً کہتا چلو کھانا کھانے، میں روز کہتا ابھی تو وقت نہیں 10 بجے چلیں گے وہ روز کہتا نہیں یار بھوک لگی ہے ۔۔۔
ہر روز اس کا یہی معمول تھا میں ہر روز پوچھتا تھا تمہیں اتنی بھوک کیوں لگتی ہے لیکن ہمیشہ وہ میری بات ٹال دیتا تھا ایک دن میں بھی ضدی بن گیا اور ان سے کہا تب تک نہیں چھوڑوں گا جب تک مجھے صاف صاف بتا نہیں دیتے، اسے جب پتہ چلا یہ پیچھا نہیں چھوڑنے والا تو مجھے آخر کار جواب دے ہی دیا جسے سننے کے بعد میری انکھوں میں آنسو آگئے اور اس جوان کو سلوٹ کرنے کا من کیا اس کا جواب یہ تھا،، 
میں دن میں دو دو دہاڑی کرتا ہوں صبح اٹھتا ہوں تو ایک کپ چائے پی کر کام پر جاتا ہوں 3 بجے کام ختم کرکے دوسری جگہ چلا جاتا ہوں اور پھر آٹھ بجے تک وہی رکتا ہوں،، میں نے کہا کھانا کب کھاتے ہو،، کہا بس شام کو ہی،، میں نے غصے سے کہا اتنا بھی کیا پیسے کا لالچ کے اپنا پیٹ بھی نا بھر سکو،، کہنے لگا میری ایک بہن ہے جو بہری بھی ہے اور گونگی بھی، میں دن رات محنت کرکے پسینہ بہا کے پیسے اکھٹا کررہا ہوں مجھے ان کا آپریشن کروانا ہے میرے بابا اکیلے یہ خرچہ نہیں اٹھا پائیں گے،، میں ہر دن لگ بھگ 2 ہزار کماتا ہوں جس میں صرف ستر روپے کھانے کے لئے رکھتا ہوں باقی جمع کررہا ہوں،، میری انکھیں لبریز ہوگئیں ۔۔۔
پھر ایک دن میں ان کے ساتھ کام پر گیا جانتے ہو وہ کام کیا کرتا تھا،، 16 منزل تک ہر روز تقریباً آدھا ڈمپر ریتی چڑھاتا تھا اپنے پییٹ پر میں نے تب سیکھا مرد کیا ہے اور کیا کرسکتا ہے، اور کیا سہہ سکتا ہے، میں صرف 50 یا 60 ٹائلز چڑھا کر رات کو پیٹ سیدھا نہیں کرسکتا تھا سوچا اس بیچارے لڑکے کا کیا حال ہوگا جو محض 17 سال کا ہے اور اتنا بوجھ اٹھا رہا ہے آج تقریباً 4 سال بعد ان سے رابطہ کیا تو کہنے لگا بہن کا آپریشن ہوگیا اب وہ سن تو سکتی ہے پر بول نہیں سکتی لیکن میں خوش ہوں ان کے شادی کرادی ہے میں نے اور لڑکا بہت اچھا ہے، بہن کا ہر طرح سے خیال رکھ رہا ہے ۔۔۔
میں نے کہا آپ نے کتنے پیسے لگائے شادی اور آپریشن پر کہا بارہ لاکھ میرے دس لاکھ بابا نے ۔
میں نے کہا بہن کو تو آباد کرلیا لیکن خود کو برباد کردیا وہ مسکرایا اور کہنے لگا میں نے جو سودا کیا ہے فائدے کا ہے لیکن آپ نے کیا کیا اتنے سالوں میں خاموش رہ گیا کیونکہ میں نے تو کچھ کیا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔
سو امید ہے آپ جان گئے ہوں گے مرد کیا ہوتا ہے مرد وہ ہستی ہے جو ماں کے گود سے لے لر تختہ غسل تک اپنوں کے خاطر جیتا ہے نا کہ اپنی خاطر اور پھر بھی کچھ لوگ اس مقدس ذات کو گالیاں دیتے ہیں،، ہاں ہوں گے ایک دو ہر جنس میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں آپ پوری ذات کو بدنام کردو ۔۔۔۔

مثبت اور منفی لوگ

میں نے ایک بات محسوس کی ہے، جیسے لوگ ہمارے ارد گِرد ہوتے ہیں ہماری زندگیوں پر ویسا اثر ہونا شروع ہو جاتا ہے، ہماری پرسنلیٹی، ہماری سوچ، ہمارا اٹھنا بیٹھنا، ہماری ڈیلنگز، ہمارے الفاظ، یہاں تک کہ ہمارے اللہ پر توکل پر بھی اثر ہوتا ہے، منفی لوگ ہر طرح سے منفی شعاعیں پھیلانے کے عادی ہوتے ہیں وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں میں بھی مایوسی کا زہر انجیکٹ کر رہے ہوتے ہیں، مثبت سوچ و کردار کے مالک لوگ آپ کی زندگی میں مزید رنگ بھر دیتے ہیں، آپ کو گرنے نہیں دیتے، آپ کو خود اعتمادی کا فن سکھاتے ہیں، آپ کو محبت بانٹنا سکھاتے ہیں، ایسے لوگوں سے ملنے اور بات کرنے کے بہانے ڈھونڈیں، ان کے قریب رہیں، ان کی مثبت شعاعیں آپ کو مشکل زندگی میں مثبت رہ کر جینا سکھا دیں گی، اللہ پر توکل سکھا دیں گی

یسے تھے ہمارے امام

امام ابوحنیفہ کے کپڑے کی دکان تھی ۔ آپ مدرسے کے بعد وہاں تجارت کرتے تھے ۔امت محمدی کو اگر تجارت کسی نے سکھائی ہے وہ یا تو خلیفہ اول ابو بکر صدیق تھے یا پھر امام ابو حنیفہ ۔ایک دن ظہر کی نماز کے بعد اپنی دکان بند کردی اور جانے لگےتو ساتھی دکاندار نے کہا " ابو حنیفہ آج تو جلدی نکل لیے کہاں جارہے ہیں آپ آج اتنی جلدی "امام ابو حنیفہ نے فرمایا " آپ دیکھ نہیں رہے کہ آسمان پہ کالے بادل آچکے ہیں "اس شخص نے کہا " یا نعمان آسمان کے بادلوں کا دکان سے کیا لینا دینا"امام ابو حنیفہ نے فرمایا " جب بادل گہرے ہوجاتے ہیں تو چراغ کی روشنی اندھیرا ختم کرنے کے لیے کافی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے گاہک کو کپڑے کی ورائیٹی کا پتہ نہیں چلتا اسکو کوالٹی کی پہچان نہیں ہوتی ۔ میں نے اس وجہ سے دکان جلدی بند کردی کہ میرے پاس آیا ہوا گاہک کم قیمت کپڑے کو قیمتی سمجھ کر زیادہ پیسے نہ دے ۔"آج کے دکانداروں کے پاس جاکر پتہ چلتا ہے کہ جب انکے پاس کوئی معصوم گاہک آجاے تو وہ انکو ایسی قینچی سے زبح کرلیتے ھے کہ دو نمبری کپڑا بھی ایک نمبر کی قیمت پہ فروخت کرلیتے ھے۔ بلکہ آجکل تو باقاعدہ سے گاہک کو لوٹنے کے عجیب وغریب طریقے آرہے ھے۔

اپنی اہمیت

‏کبھی کبھی ہماری بہت زیادہ چاہت دوسرے کے لیے گھٹن بن جاتی ہے کسی کو خود سے بڑھ کر چاہنے، ہر وقت اس کو سوچتے رہتے ہیں ہر وقت میسر رہتے ہیں تو ہم اپنی وقعت کھو دیتے ہیں اس لیے کسی کو اتنی اہمیت بھی نہ دیں کہ اپنی کوئی اہمیت ہی نہ رہے ہر وقت لوگوں کو میسر ہونا خاص سے عام کر دیتا ہے.

Saturday, August 8, 2020

ایک یا دو کام

میں نہیں یقین کرتا کہ بندے کو ایک کام کرنا چاہیے۔ کامیابی صرف ایک کام کرنے سے نہیں ملتی۔ کامیابی کے لیے دوڑ لگانی پڑتی ہے۔ 
جیسے آپ ایم اے کسی مضمون میں یا کسی اور چیز میں کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی کرتے رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ۔ چھوٹے چھوٹے کورس بھی کرتے جائیں۔ اس طرح کیا ہوگا؟ کہ آپ کا ذہن بھی مصروف رہے گا ۔ اور اس کے پاس ہر وقت کوئی نہ کوئی چیلنج ہو گا۔ آپ جب تک اپنا ایم اے مکمل کرتے ہیں اس کے ساتھ آپ کے پاس دوسرے ہنر بھی ہوں گے۔
بالکل اسی طرح آپ ایک بزنس کرتے جائیں گے تو اس میں کامیابی کی ایک حد ہو گی یا شاید آپ کی اس بزنس کےلیے ایک حد ہو ۔ اگر آپ اس کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے چھوٹے بزنس کو بھی ساتھ ہی ہینڈل کرتے ہیں بلکہ کئی دوسرے بزنس ساتھ ساتھ ہینڈل کرتے ہیں تو کامیابی دس گنا ہوگی۔
میرے نزدیک زندگی آرام کرنے کےلیے نہیں ہے۔ صرف کام کرنے کےلیے ہے۔ 
آپ اگر آرام کا ہی مقصد لے کر زندگی کے میدان میں اترتے ہیں تو آپ آرام ہی کر رہے ہوں گے۔ اور آرام تو مُردے کرتے ہیں کوئی زندہ انسان نہیں۔