Saturday, August 15, 2020

ہماری خامیاں ہی ہماری طاقت ہیں

کہتے ہیں ایک چینی بڑھیا کے گھر میں پانی کیلئے دو مٹکے تھے، جنہیں وہ روزانہ ایک لکڑی پر باندھ کر اپنے کندھے پر رکھتی اور نہر سے پانی بھر کر گھر لاتی۔ ان دو مٹکوں میں سے ایک تو ٹھیک تھا مگر دوسرا کچھ ٹوٹا ہوا۔ ہر بار ایسا ہوتا کہ جب یہ بڑھیا نہر سے پانی لے کر گھر پہنچتی تو ٹوٹے ہوئے مٹکی کا آدھا پانی راستے میں ہی بہہ چکا ہوتا۔ جبکہ دوسرا مٹکا پورا بھرا ہوا گھر پہنچتا۔

ثابت مٹکا اپنی کارکردگی سے بالکل مطمئن تھا تو ٹوٹا ہوا بالکل ہی مایوس۔ حتیٰ کہ وہ تو اپنی ذات سے بھی نفرت کرنے لگا تھا کہ آخر کیونکر وہ اپنے فرائض کو اس انداز میں پورا نہیں کر پاتا جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے۔اور پھر مسلسل دو سالوں تک ناکامی کی تلخی اور کڑواہٹ لئے ٹوٹے ہوئے گھڑے نے ایک دن اس عورت سے کہا: میں اپنی اس معذوری کی وجہ سے شرمندہ ہوں کہ جو پانی تم اتنی مشقت سے بھر کر اتنی دور سے لاتی ہو اس میں سے کافی سارا صرف میرے ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گھر پہنچتے پہنچتے راستے میں ہی گر جاتا ہے۔

گھڑے کی یہ بات سن کر بڑھیا ہنس دی اور کہا: کیا تم نے ان سالوں میں یہ نہیں دیکھا کہ میں جسطرف سے تم کو اٹھا کر لاتی ہوں ادھر تو پھولوں کے پودے ہی پودے لگے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف کچھ بھی نہیں اگا ہوا۔

مجھے اس پانی کا پورا پتہ ہے جو تمہارے ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گرتا ہے، اور اسی لئے تو میں نے نہر سے لیکر اپنے گھر تک کے راستے میں پھولوں کے بیج بو دیئے تھے تاکہ میرے گھر آنے تک وہ روزانہ اس پانی سے سیراب ہوتے رہا کریں۔ ان دو سالوں میں ، میں نے کئی بار ان پھولوں سے خوبصورت گلدستے بنا کر اپنے گھر کو سجایا اور مہکایا۔ اگر تم میرے پاس نا ہوتے تو میں اس بہار کو دیکھ ہی نا پاتی جو تمہارے دم سے مجھے نظر آتی ہے۔

یاد رکھئے کہ ہم سے ہر شخص میں کوئی نا کوئی خامی ہے۔ لیکن ہماری یہی خامیاں، معذوریاں اور ایسا ٹوٹا ہوا ہونا ایک دوسرے کیلئے عجیب اور پر تاثیر قسم کے تعلقات بناتا ہے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ان کی خامیوں کے ساتھ ہی قبول کریں۔ ہمیں ایک دوسرے کی ان خوبیوں کو اجاگر کرنا ہے جو اپنی خامیوں اور معذوریوں کی خجالت کے بوجھ میں دب کر نہیں دکھا پاتے۔ معذور بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور اپنی معذوری کے ساتھ ہی اس معاشرے کیلئے مفید کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اللـــــــہ کـــــــی رحـــمــــت بیٹیـــــــاں

لڑکیوں کے اسکول میں آنے والی نئی ٹیچر خوبصورت اور با اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ علمی طور پر بھی مضبوط تھی لیکن اُس نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی.
سب لڑکیاں اس کے اردگرد جمع ہو گئیں اور مذاق کرنے لگیں کہ میڈم آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی ؟
میڈم نے داستان کچھ یوں سنانا شروع کی
ایک دفعہ ایک خاتون کی پانچ بیٹیاں تھیں ، شوہر نے اس کو دھمکی دی کہ اگر اس دفعہ بھی بیٹی ہوئی تو اس بیٹی کو باہر کسی سڑک یا چوک پر پھینک آوں گا ، 
خدا کی حکمت خدا ہی جانے کہ چھٹی مرتبہ بھی بیٹی پیدا ہوئی اور مرد نے بیٹی کو اٹھایا اور رات کے اندھیرے میں شہر کے مرکزی چوک پر رکھ آیا ماں پوری رات اس ننھی سی جان کیلئے دعا کرتی رہی اور بیٹی کو اللہ کے سپرد کر دیا ، دوسرے دن صبح باپ جب چوک سے گزارا تو دیکھا کہ کوئی بچی کو لے نھیں گیا بچی ساری رات ادھر ہی پڑی رہی باپ بیٹی کو واپس گھر لایا لیکن دوسری رات پھر بیٹی کو چوک پر رکھ آیا لیکن ماجرا اسی طرح تکرار ہوتا رہا یہاں تک کہ سات دن باپ باہر رکھ آتا اور جب کوئی لے نہ جاتا تو مجبوراً واپس اٹھا لاتا یہاں تک کہ باپ تھک گیا اور خدا کی رضا پر راضی ہو گیا۔
اور پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک سال بعد ماں پھر حاملہ ہو گئی اور اس دفعہ اللہ نے انکو بیٹا عطا فرما دیا لیکن کچھ ہی دن بعد بیٹیوں میں سے ایک فوت كر گئی
یہاں تک کہ پانچ بار حاملہ ہوئی اور اللہ نے پانچ بیٹے عطا فرمائے لیکن ہر دفعہ اسکی بیٹیوں میں سے ایک اس دنیا سے رخصت ہو جاتی.
فقط ایک ہی بیٹی زندہ بچی اور وہ وہی بیٹی تھی جس سے باپ جان چھڑانا چاہ رہا تھا ، ماں بھی اس دنیا سے چلی گئی اُدھر 5 بیٹے اور 1 بیٹی سب بڑے ہو گئے .
ٹیچر نے کہا پتہ ہے وہ بیٹی جو زندہ رہی کون ہے ؟
وہ میں ہوں.
اور میں نے ابھی تک شادی اس لیے نہیں کی کہ باپ اتنا بوڑھا ہو گیا ہے کہ اپنے ہاتھ سے کھانا بھی نھیں کھا سکتا جبکہ کوئی دوسرا نہیں جو اسکی خدمت کرے بس میں ہی اسکی خدمت کیا کرتی ہوں
اور وہ 5 بیٹے کھبی کھبی آ کر باپ کی احوال پرسی کر جاتے ہیں جبکہ باپ ہمیشہ شرمندگی کے ساتھ رو رو کے مجھ سے کہا کرتا ہے میری پیاری بیٹی جو کچھ میں نے بچپن میں تیرے ساتھ کیا اس پر مجھے معاف کرنا.

Wednesday, August 12, 2020

ذہنی قوت خیال میں

ماہر نفسیات اور سائنس دانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خیال ایک عظیم قوت ہے۔ خیال میں بے پناہ قوت اور طاقت پائی جاتی ہے۔ لیکن اس بات کو عام آدمی کیلئے شاید سمجھنا یا اس کا ادراک کرنا اتنا آسان نہ ہو۔

خیال کی قوت سے مرادیہ ہے کہ جس خیال کو ہم بار بار دہراتے ہیں وہ خیال بالآخر ''وائٹل فورس'' بن جاتا ہے۔ اب یہ انسان کی اپنی مرضی ہے کہ وہ کسی خیال کو مثبت یا منف وائٹل فورس بناتا ہے دونوں صورتوں میں خیال کی قوت اپنی جگہ برقرار ہے۔


فرض کیجئے آپ کے پاس لکڑی کا ایک تختہ ہے اس کی لمبائی پندرہ فٹ اور چوڑائی ایک فٹ ہے۔ آپ نے اس تختے کو زمین پر رکھ دیا ہے اور آپ اس کے اوپر بلا خطرچلے جارہے ہیں۔ کیونکہ آپ کو یقین ہے کہ آپ بغیر کسی رکاوٹ کے لکڑی کے اس تختے پر چل سکتے ہیں اور آپ کے گرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن اگر کاس تختے کو زمین سے دس پندرہ فٹ کی بلندی پر باندھ دیا جائے اور آپ کو اس پر چلنے کو کہا جائے تو کیا اب آپ کے لئے اس پر چلنا اتنا آسان ہوگا؟ شاید نہیں۔ کیونکہ آپ نے سمجھ لیا ہے کہ ایسا کرنا آپ کے لئے آسان نہیں ۔ دونو ں صورتوں میں آپ کا خیال ہی آپ پر غالب ہے۔ لیکن شاید آپ نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہو کہ کچھ لوگ اتنی بلندی پر بھی آسانی سے چل سکتے ہیں۔ خاص صور پر سر کس میں کام کرنے والے لوگوں کیلئے ایسا کرنا کچھ مشکل نہیں ہوتا۔
اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں بلکہ انہیں خود پر یقین کامل ہوتا ہے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ آپ نے کسی شخص کو موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلاتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ کیا آپ یہ کام نہیں کر سکتے۔ شاید نہیں۔ کیونکہ آپ نے ہلے ہی سے یہ سوچ رکھا ہے کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر آپ سوچ لیں کہ آپ ایسا کر سکتے ہیں۔اور اس کے لئے آپ ضروری تربیت بھی حاصل کر لیں تو آپ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کی سوچ مثبت ہوگی تو آپ کا عمل بھی مثبت ہوجائے گا۔
فرض کیجئے ایک شخص نشہ کا عادی ہے کہ وہ یہ بری عادت نہیں چھوڑ سکتا۔ ایسا سوچنا ہی اس کی سب سے بڑی مشکل ہے۔ لیکن یقین کیجئے دنیا میں کوئی عادت ایسی نہیں جسے چھوڑا نہ جاسکے۔ اور کوئی نئی عادت ایسی نہیں جسے اختیار نہ کیا جاسکے۔ایک شخص کہتا ہے ددمجھے رات بھر ننید نہیں آتی'' اگر وہ یہ جملہ بار بار دہراتا ہے تو یہ جملہ اس کیلئے وائٹل فورس بن جاتا ہے۔ اسکی مشکل میں اضافہ ہو جاتا ہے اس طرح کی مشکلات ہم پر باہر سے وارد نہیں ہوتیں بلکہ ان کا مرکز خود ہمارے اندر موجود ہوتا ہے۔ ''ہاں''اور ''نہیں'' کی جنگ ہمارے اپنے اندر ہی جاری رہتی ہے۔ کامیابی اور ناکامی کی لہریں ہمارے اپنے اندر سے جنم لیتی ہیں۔ ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کی وجہ ہماری سوچ (خیال) ہی ہوتی ہے۔ ایک ننھا سا خیال ننھی منی کو نیل کی طرح آپ کے ذہن کی شاخ پر پھوٹتا ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے آپ اس خیال و تقویت دے کر اسے عمل کا حصہ بناتے ہیں یا اسے مسترد کر دیتے ہیں آپ کی خود کلامی، خیال کی اس ٹمٹماتی لو کیلئے تیل کا کام دیتی ہیں۔ آپ جسے ارادہ کہتے ہیں وہ اسی خیال کو دہرانے کا نام ہے ۔ ''میں یہ کر سکتا ہوں''
''میں کل صبح وقت پر اٹھوں گا'' ۔ ''میں امتحان میں کامیاب ہو جائوں گا''،''میں ڈاکٹر بنوں گا'' یا ''میں سائنس دان بنوں گا'' ۔ ابتداء میں یہ سب ننھے منے خیال ہوتے ہیں۔ انہیں دہراتے رہنے سے ان میں قوت آتی ہے اور یہ ایک عزم اور یقین کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ جب کوئی خیال یقین کی صورت اختیار کرل یتا ہے تو وہ وائٹل فورس بن جاتا ہے۔
یقین کامل ، ایسے غیر متزلزل یقین کو کہا جاتا ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو۔ یعنی اپنی ذات پر پختہ یقین کرنا۔ کبھی کام کو کرنے سے قبل جب آپ کو یہ یقین ہو جائے کہ آپ اس کام کو ضرور تکمیل تک پہنچا لیں گے تو اس میں ناکامی کے امکانات کم سے کم ہو جاتے ہیں۔ کسے یقین تھا کہ ہم بجلی کی صورت میں مصنوعی روشنی پیدا کرلیں گے کسے علم تھا کہ انسان کے ہوا میں اڑنے کا خواب بھی پورا ہو سکے گا۔ لیکن آخر یہ سب کچھ یقین اور محنت کی بدولت ہوگیا۔جب انسان کسی خیال کو عملی شکل دینے کا مصمم ارادہ کر لیتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی مدد بھی انسان کے شامل حال ہوجاتی ہے۔بد قسمتی سے ہم جن لوگوں کے درمیان رہتے ہیں۔ انہیں کے خیالات کی تقلید بھی کرتے ہیں۔ ہمیں قدم قدم پہ ایسے لوگوں سے واسطہ رہتا ہے جو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ''تم یہ کام نہیں کر سکتے'' ۔ اور ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے۔ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی دوسروں کی بات مان لیتے ہیں اور ارادہ ترک کر دیتے ہیں،ان لوگوں سے بچئے اور خیالات کی طاقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی زندگی کو بہتر بنایئے۔

نئی نسل اور کامیابی کا معیار

*اپنی نسلوں کو لعنت سکول سے بچاو*

یہ چھٹی یا ساتویں جماعت کا کمرہ تھا اور میں کسی اور ٹیچر کی جگہ کلاس لینے چلا گیا۔

 تھکن کے باوجود  کامیابی کے موضوع پر طلبا کو لیکچر دیا اور پھر ہر ایک سے سوال کیا 

ہاں جی تم نے کیا بننا ہے
 
ہاں جی آپ کیا بنو گے 

ہاں جی آپ کاکیا ارادہ ہے کیا منزل ہے ۔ 

سب طلبا کے ملتے جلتے جواب ۔

 ڈاکٹر 
       انجینیر
            پولیس 
                 فوجی
                    بزنس مین ۔

 لیکن ایسے لیکچر کے بعد یہ میرا روٹین کا سوال تھا اور بچوں کے روٹین کے جواب ۔جن کو سننا کانوں کو بھلا اور دل کو خوشگوار لگتا تھا ۔

لیکن ایک جواب آج بھی دوبارہ سننے کو نا ملا کان تو اس کو سننے کے متلاشی تھے ہی مگر روح بھی بے چین تھی ۔

 عینک لگاۓ بیٹھا خاموش گم سم بچہ جس کو میں نے بلند آواز سے پکار کر اس کی سوچوں کاتسلسل توڑا ۔

ہیلو ارے میرے شہزادے آپ نے کیا بننا ہے۔ آپ بھی بتا دو ۔کیا آپ سر تبسم سے ناراض ہیں۔ 

*بچہ آہستہ سے کھڑا ہوا اور کہا سر میں نور الدین زنگی بنوں گا۔* 

میری حیرت کی انتہإ نا رہی اور کلاس کے دیگر بچے ہنسنے لگے ۔ اس کی آواز گویا میرا کلیجہ چیر گٸی ہو ۔ روح میں ارتعاش پیدا کر دیا ۔

پھر پوچھا بیٹا آپ کیا بنو گے ۔ سر میں نور الدین زنگی بادشاہ بنوں گا ۔ ادھر اس کاجواب دینا تھا ادھر میری روح بے چین ہو گٸی جیسے اسی جذبے کی اسی آواز کی تلاش میں اس شعبہ تدریس کواپنایا ہو ۔ 

بیٹا آپ ڈاکٹر فوجی یا انجینیر کیوں نہیں بنو گے ۔ 

سر امی نے بتایا ہے کہ اگر میں نور الدین زنگی بنوں گا تو مجھے نبی پاک ﷺ کا۔دیدار ہو گا جو لوگ ڈنمارک میں ہمارے پیارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کررہے ہیں ان کو میں زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔

 اس کے ساتھ ساتھ اس بچے کی آواز بلند اور لہجے میں سختی آرہی تھی ۔

اس کی باتیں سن کر۔میرا جسم پسینہ میں شرابور ہو گیا ادھر کلاس کے اختتام کی گھنٹی بجی اور میں روتا ہوا باہر آیا ۔
مجھے اس بات کااحساس ہے کہ آج ماوں نے نور الدین زنگی پیدا کرنے چھوڑ دیے ہیں اور اساتذہ نے نور الدین زنگی بنانا چھوڑ دیے ہیں ۔ 

میں اس دن سے آج تا دم تحریر اپنے طلبا میں پھر سے وہ نور الدین زنگی تلاش کر رہاہوں ۔۔کیا آپ جانتے ہیں وہ کون ہے اس ماں نے اپنے بیٹے کو کس نورالدین زنگی کا تعارف کروایا ہو گا یہ واقعہ پڑھیے اور اپنے بچوں میں سے ایک عدد نور الدین زنگی قوم کو دیجیے۔

ایک رات سلطان نور الدین زنگی رحمتہ اللّه علیہ عشاء کی نماز پڑھ کر سوئے کہ اچانک اٹھ بیٹھے۔
اور نم آنکھوں سے فرمایا میرے ہوتے ہوئے میرے آقا دوعالم ﷺ کو کون ستا رہا ہے .

آپ اس خواب کے بارے میں سوچ رہے تھے جو مسلسل تین دن سے انہیں آ رہا تھااور آج پھر چند لمحوں پہلے انھیں آیا جس میں سرکار دو عالم نے دو افراد کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ مجھے ستا رہے ہیں.

اب سلطان کو قرار کہاں تھا انہوں نے چند ساتھی اور سپاہی لے کر دمشق سے مدینہ جانے کا ارادہ فرمایا .

اس وقت دمشق سے مدینہ کا راستہ ٢٠-٢٥ دن کا تھا مگر آپ نے بغیر آرام کیئے یہ راستہ ١٦ دن میں طے کیا. مدینہ پہنچ کر آپ نے مدینہ آنے اور جانے کے تمام راستے بند کرواے اور تمام خاص و عام کو اپنے ساتھ کھانے پر بلایا.

اب لوگ آ رہے تھے اور جا رہے تھے ، آپ ہر چہرہ دیکھتے مگر آپکو وہ چہرے نظر نہ آے اب سلطان کو فکر لاحق ہوئی اور آپ نے مدینے کے حاکم سے فرمایا کہ کیا کوئی ایسا ہے جو اس دعوت میں شریک نہیں .

جواب ملا کہ مدینے میں رہنے والوں میں سے تو کوئی نہیں مگر دو مغربی زائر ہیں جو روضہ رسول کے قریب ایک مکان میں رہتے ہیں .

 تمام دن عبادت کرتے ہیں اور شام کو جنت البقیح میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں ، جو عرصہ دراز سے مدینہ میں مقیم ہیں.

سلطان نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، دونوں زائر بظاہر بہت عبادت گزار لگتے تھے.

 انکے گھر میں تھا ہی کیا ایک چٹائی اور دو چار ضرورت کی اشیاء.کہ یکدم سلطان کو چٹائی کے نیچے کا فرش لرزتا محسوس ہوا. آپ نے چٹائی ہٹا کے دیکھا تو وہاں ایک سرنگ تھی.

آپ نے اپنے سپاہی کو سرنگ میں اترنے کا حکم دیا .وہ سرنگ میں داخل ہویے اور واپس اکر بتایا کہ یہ سرنگ نبی پاک صلی اللہ علیھ والہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف جاتی ہے،

یہ سن کر سلطان کے چہرے پر غیظ و غضب کی کیفیت تری ہوگئی .آپ نے دونوں زائرین سے پوچھا کے سچ بتاؤ کہ تم کون ہوں.

حیل و حجت کے بعد انہوں نے بتایا کے وہ یہودی ہیں اور اپنے قوم کی طرف سے تمہارے پیغمبر کے جسم اقدس کو چوری کرنے پر مامور کے گئے ہیں.

 سلطان یہ سن کر رونے لگے ، 

*اسی وقت ان دونوں کی گردنیں اڑا دی گئیں.*

سلطان روتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ

💞"میرا نصیب کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کے لئے اس غلام کو چنا گیا"💞

اس ناپاک سازش کے بعد ضروری تھا کہ ایسی تمام سازشوں کا ہمیشہ کہ لیے خاتمہ کیا جاۓ سلطان نے معمار بلاۓ اور قبر اقدس کے چاروں طرف خندق کھودنے کا حکم دیا یہاں تک کے پانی نکل آے.سلطان کے حکم سے اس خندق میں پگھلا ہوا سیسہ بھر دیا گیا.

💞
بعض کے نزدیک سلطان کو سرنگ میں داخل ہو کر قبر انور پر حاضر ہو کر قدمین شریفین کو چومنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔💞

ختم نبوت ﷺ

السلام عليكم 
امید ہے آپ تمام احباب خیریت سے ہونگے ۔ ایک اہم مسئلے کی طرف آپ کی توجہ مبذول  کرانی تھی۔ آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ ہر 2 ہفتوں بعد ختم نبوت ﷺ کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے کبھی کیا سفارشات پیش کی جاتی ہیں تو کبھی کیا ۔ یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہو رہا ہے ، انسانی فطرت ہے کہ ہر دوسرے روز پیش آنے والا مسئلہ انسان کی سوچ کو اور اس کی زندگی کو اس طرز کا عادی بنا دیتا ہے۔ یہی طریقہ ختم نبوت ﷺ کے قانون کے ساتھ کیا جا رہا ہے کہ مسلمان بالخصوص پاکستانی اس بے ادبی اور گستاخی کے عادی ہوجائیں روز روز احتجاج کر کر کے ان کی ہمت ٹوٹ جاۓ اور مسلمان اس مسئلہ اور عقیدہ پر بھی سمجھوتہ کر جاۓ ۔اور یہ کفار لوگ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوجائیں ۔
اپنے آپ کو روزمرہ کی بنیاد پر ہر روز حضور ﷺ کے عشق سے اپ ڈیٹ کیا کریں۔
اگر یہ کفار حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت کے قانون کو ختم کرنا چاھتے ہیں تو ہم مسلمان اور بطور امت محمّدﷺ ہمیں بھی اپنی ڈیوٹی کرنی چاہیے،
ہم نے روزانہ کی بنیاد پر حضور اکرم ﷺ کا ذکر اور ان کا چرچہ اور بھی زیادہ کر دینا ہے ، اپنی اولادوں اور نئی نسلوں کو روزانہ رات سیرت النبی ﷺ کا کم از کم ایک پیج ضرور پڑھ کر سنائیں اپنے بچوں میں حضور ﷺ کے عشق کی شمع ضرور روشن کریں۔ اپنی روز مرہ کی زندگی میں اپنے آفس دکان گھر میں اپنے ملنے والوں کو ضرور حضور ﷺ کی کوئی بات ضرور شیئر کیا کریں ۔#وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ#
اس پیغام کو اپنے اپنے طور پر اپنے whatsapp گروپس, فیس بک اور ہر جگہ پر شیئر کریں ۔اللّه اور اس کے حبیب ﷺ کے سلسلے سے تعلق کی بنیاد پر ہم پر اوروں سے زیادہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ 
شکریہ ۔۔۔۔۔۔ اللّه ہم سب کو اور ہماری اولادوں کو حضور ﷺ کی نسبت معرفت اور محبت سے مالا مال فرماۓ ۔۔۔۔ آمین

Tuesday, August 11, 2020

ہر حال میں خوش رہیں....

پریشان نہ ہوں ۔۔ 🙂
کچھ لوگ اپنی تعلیم 22 سال کی عمر میں مکمل کر لیتے ہیں۔ مگر ان کو پانچ پانچ سال تک کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی
کچھ لوگ 25 سال کی عمر میں کسی کپمنی کے CEO بن جاتے ہیں اور 50 سال کی عمر میں ہمیں پتہ چلتا ہے انکا انتقال ہو گیا ہے۔
جبکہ کچھ لوگ 50 سال کی عمر میں CEO بنتے ہیں اور 90 سال تک حیات رہتے ہیں۔
بہترین روزگار ہونے کے باوجود کچھ لوگ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں اور کچھ لوگ بغیر روزگار کے بھی شادی کر چکے ہیں اور روزگار والوں سے زیادہ خوش ہیں۔
اوبامہ 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گیا جبکہ ٹرمپ 70 سال کی عمر میں شروعات کرتا ہے۔۔۔
کچھ لیجنڈ امتحان میں فیل ہونے پر بھی مسکرا دیتے ہیں اور کچھ لوگ 1 نمبر کم آنے پر بھی رو دیتے ہیں۔۔۔۔
کسی کو بغیر کوشش کے بھی بہت کچھ مل گیا اور کچھ ساری زندگی بس ایڑیاں ہی رگڑتے رہے۔۔
اس دنیا میں ہر شخص اپنے Time zone کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ ظاہری طور پر ہمیں ایسا لگتا ہے کچھ لوگ ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور شاید ایسا بھی لگتا ہو کچھ ہم سے ابھی تک پیچھے ہیں لیکن ہر شخص اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہے اپنے اپنے وقت کے مطابق۔ ان سے حسد مت کیجئے۔ اپنے اپنے Time zone میں رہیں۔۔
انتظار کیجئے اور اطمینان رکھیئے۔
نہ ہی آپ کو دیر ہوئی ہے اور نہ ہی جلدی۔
. اپنے آپ کو رب کی رضا کے ساتھ باندھ دیجئے اور یقین رکھیئے کہ اللہ کی طرف سى  ہمارے لیے جو فیصلہ ہے وہ ہی بہترین ہے۔۔۔ 💗
💞ہر حال میں خوش رہیں سلامت رہیں

Monday, August 10, 2020

شکر کا مقام

جہاں آپ کے گلے ہیں، وہیں پہ شکر کا مقام ہے

شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک آدمی نے گلہ کیا کہ میرے پاس جوتا نہیں ہے  - آگے جا کے دیکھا تو ایک آدمی کی ٹانگیں ہی نہیں  - اس آدمی نے فوری طور پر شکر ادا کیا  - کمال کی بات تو یہ ہے کہ جوتوں کا گلہ کرنے والا جوتے کے بغیر ہی شکر کر گیا  - یہ حسن_نظر ہے ! اسے پتہ چلا کہ جس بات کا مجھے گلہ تھا وہ بات تو شکر والی تھی_______
آپ بھی یاد رکھنا! زندگی میں جہاں جہاں آپ کے گلے ہیں، وہیں پہ شکر کا مقام ہے  - زندگی میں جہاں آپ کو رکاوٹیں ہیں وہی شکر کی انتہا تھی  - آپ جس مقام پر ناراض ہوں، وہ شکر کا مقام ہے  - اس لیے دنیادار کے لئے جہاں صبر کرنے کا حکم ہے تو وہاں اپنے بندوں کو شکر کرنے کا حکم ہے  - جب دنیا دار کے ساتھ حادثہ ہو جائے ہم کہتے ہیں صبر کرو، صبر کرو، غم کے دن کٹ جائیں گے  - اور اگر اپنا بندہ ہو تو کہیں گے شکر کر کہ اللہ کے قریب ہونے کی چٹھی آ گئ ہے اور اس کے قریب ہونے کے زمانے آ گئے ہیں  - اس لیے فضل کا متلاشی بن جانا ہی فضل کی ابتدا ہے اور یہی اس کی انتہا ہے  - اگر یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ مرتے دم تک اس کلمے سے رشتہ نہیں توڑیں گے تو کلمہ تجھے کب چھوڑے گا  - اب یہ آپ کو کیوں چھوڑے گا کیونکہ آپ نے نہیں چھوڑا تو یہ کیسے چھوڑے گا  - اگر آپ وفا کی ابتدا کریں تو ادھر سے وفا ہی وفا ہے  - آپ جب مان جائیں تو سمجھنا کہ آپ ادھر سے مانے گئے  - جب آپ اس طرف چل پڑے تو سمجھ لو کہ منزل نے اجازت دے دی  - اس سفر پر کوئی مسافر اس وقت تک نہیں جا سکتا جب تک منزل خود نہ پکارے اس لئے آپ لوگوں کو صداقت اور نیکی کا سفر کرنے کی جو خواہش ہے یہ سمجھو کہ اس طرف سے منظوری کا اعلان ہے  - جس کو منظور نہیں کیا جاتا اس کو یہ شوق ہی نہیں ملتا۔
حضرت واصف علی واصف رح
کتاب۔ گفتگو 4

Sunday, August 9, 2020

بدنظری سے بچنے کا طریقہ

ایک نوجوان نے ایک بزرگ سے عرض کیا کہ حضور آپ کہتے ہیں کہ بدنظری سے پرہیز کرو لیکن میں کیا کروں جب بازار جاتا ہوں نظر اچانک اٹھ ہی جاتی ہے نوجوان ہو اور نظر نہ اٹھے یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔۔؟
بزرگ نےفرمایا
بیٹا میں آپ کے سوال کا جواب ضرور دونگا پہلے میرا ایک کام کرو
یہ ایک پیالہ دودھ کا ہے اسے وہ جو سامنے روڈ کےاس طرف بزرگ بیٹھا ہےان کو دے آؤ
ہاں
یاد رہے بیٹا!
پیالے سے ایک قطرہ دودھ بھی نہ گرے اور میں آپ کے ساتھ ایک آدمی بھیجوں گا جو آپکو دوجوتے لگاۓ گا وہیں بازار میں اگر پیالے سے ایک قطرہ بھی گرا
نوجوان
باباجی آپ پیالہ دیں یہ کونسا مشکل کام ہے میں ابھی جاکر پہنچا آتا ہوں
آپ بس یہیں بیٹھنا میں یوں گیا یوں واپس آیا
نوجوان ہاتھ میں پیالہ لیے چل پڑا بڑے اطمنیــان کے ساتھ اور اپنا سارا فوکس اسی دودھ کے پیالے پر رکھا کہ کہیں ایک قطرہ گر نہ جاۓ
اور اوپر سے یہ آدمی ساتھ ہے بازار میں دو جوتے لگاۓ گا کتنی بدنامی ہوگی میری
باالآخر نوجوان چلتاچلتا اس بزرگ آدمی کے پاس پہنچ گیا اور ایک قطرہ دودھ بھی نہ گرا اور پیالہ اس بزرگ کو پیش کر دیا
نوجوان اب پر جوش انداز میں خوشی خوشی واپس آیا
فوراً بزرگ کے پاس حاضر ہوا
حضرت میں نے پیالہ پہنچا دیا ایک قطرہ بھی دودھ کا نھیں گرنے دیا اب آپ مجھے نظری سے بچنے کا طریقہ بتاۓ
بزرگ نےفرمایا بیٹـــا۔۔۔
نوجوان جی حضور
بزرگ :
 بیٹا۔۔۔۔ جاتے ہوۓ  کتنے چہرے دیکھے؟
نوجوان: حضور ایک بھی نھیں دیکھا
بزرگ: کیوں بیٹا۔۔۔؟
نوجوان: بابا جی میرا سارا دھیـــان پیالے کی طرف تھا کہ کہیں دودھ نہ گر جاۓ کیونکہ مجھے دو جوتے لگنے تھے اور بازار میں میری رسوائی ہو جاتی اسلیے میرا کسی کی طرف دھیــــان نھیں گیا۔
بزرگ: 
بیٹاجی! یہی اللہ والوں کا راز ہے کہ وہ بدنظری سے بچ جاتے ہیں انکا سارا دھیــان اپنے دل کے پیالے کی طرف ہوتا ہے وہ اسے چھلکنے نھیں دیتے کہ اگر چھلک گیا تو بروز قیـــامت سب کے سامنے ان کی رسوائی ہوگی۔۔۔

تربیت کے سات سال

تربیت کے 3 سات سال
(جہانزیب راضی)

یاد رکھنا! جب تک بچہ 7 سال کا نہیں ہو جاتا وہ چکنی مٹی کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے خیالات سے لیکر اس کے رویے سب کے سب معاشرے اور گھر کی طرف سے وجود میں آتے ہیں، وہ صرف "طوطے" ہوتے ہیں جو آپ سے سنیں گے اور جو آپ کو کرتا دیکھیں گے ویسا ہی بولنا اور ویسے ہی کرنا شروع کر دیں گے۔ بچے کے یہ 7 سال ماں کے پاس امانت ہیں، یہ ماں کی گود، اس کی آغوش اور اس کی ممتا کی گرمی کے سال ہیں۔ ماں کو خصوصا اور گھر میں موجود باقی لوگوں کو عموما اپنے روز و شب، معاملات اور معمولات بہت دیکھ بھال کر گزارنے چاہییں۔ بہت سے ایسے سرسری اور معمولی واقعات جو شاید آپ کے نزدیک سرے سے کوئی اہمیت ہی نہ رکھتے ہوں بچے ان کا بغور مشاہدہ کرتے ہیں۔ 
ماں کی ایک ایک حرکت، باپ کی ہر ایک ادا، گھر میں موجود ہر فرد کا اس کے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ رویہ، ماں اور باپ کا آپس میں اور گھر میں موجود افراد کا ایک دوسرے کے ساتھ تعلق یہ سب ایک بچہ اچھی طرح نہ صرف نوٹ کرتا ہے بلکہ من و عن اس پر عمل کرنا اپنا فرض بھی سمجھتا ہے۔آپ کبھی غور کر لیں۔ کسی بچے کو جھوٹ، غیبت اور نقل اتارنے کی تلقین نہیں کی جاتی ہے، کوئی کتاب لاکر نہیں دی جاتی، جھوٹ اور غیبت کے حق میں لیکچرز نہیں دیے جاتے، "ایکٹیویٹی بیسڈ" جھوٹ اور غیبت کی مشقیں نہیں کروائی جاتیں۔ مگر وہ یہ سب کتنے آرام سے سیکھ لیتا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں سچ اور برائی سے روکنے کی تلقین اور لیکچرز بھی ہوتے ہیں، مشقیں بھی کروائی جاتی ہیں، کتابوں میں سے اچھے اچھے واقعات پڑھ کر بھی سنائے جاتے ہیں لیکن بچے پھر بھی جھوٹ اور برائی کی طرف رہی راغب ہوتے ہیں کیوں؟
ایک دفعہ ایک اسکول کی پرنسپل سے بچوں کے بات بے بات لڑنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کمال سادگی سے جواب دیا کہ "سر! اسلامیات ہی کیا اب تو اردو اور انگریزی تک کی کتابوں میں ہم وہ اسباق پڑھا رہے ہیں جس میں سیرت سے صلح صفائی کے واقعات مذکور ہیں". ذرا بتائیے؛
اس حادثہء وقت کو کیا نام دیا جائے؟
7 سال بچے کو پھول کی طرح رکھیں۔ آنکھوں سے لگا کر، سینے سے چمٹا کر اور اپنا بنا کر۔ اس عمر میں بچوں کو نصیحتیں نہیں کی جاتیں بلکہ نصیحتیں "دکھائی" جاتی ہیں۔ بول کر مت دکھائیے بلکہ کرکے بتائیے۔ بچے کے کسی بھی غلط عمل اور حرکت پر اسے آپ صحیح کرکے دکھائیے، بچہ اگر چھوٹی بہن یا بھائی کو مارتا ہے تو آپ اسے پیار کر لیجئے، یعنی چھوٹی بہن یا بھائی کو۔ بچہ کسی چیز کو کہیں ایسے ہی پھینکتا ہے تو آپ اس سے کچھ بھی بولے بغیر اسے جگہ پر رکھ دیجیے، بچہ پانی کے قریب نہیں جانا چاہتا اور ڈرتا ہے تو بس آپ پانی میں جائیے، پانی سے کھیلئیے، کھانا نہیں کھاتا تو اسے دسترخوان پر بٹھا کر آپ خود کھانا کھائیے۔ بچے کی یہ عمر آپ کے خاموش رہنے کی عمر ہے۔ بس غور سے دیکھیں کہ بچہ کیا اور کیوں کر رہا ہے؟ آپ کو نبی صلی اللہ وسلم کی سیرت سے بھی 7 سال تک کسی بھی قسم کی کوئی نصیحت اپنے نواسے نواسیوں کو نہیں ملے گی۔ بس کندھے پر اٹھا کر بازار میں نکل جانا، خود اپنی پیٹھ پر بٹھا کر زمین پر چلنا اور صرف پیار کرنا، حتی کہ نماز جیسی عظیم الشان عبادت میں بھی ان کے کھیل کو محبت اور پیار سے قبول کرنا، اپنی زبان کے بجائے محض عمل سے کرکے دکھانا، یہاں تک کے 7 سال سے پہلے فرض نماز کی بھی ترغیب سرے سے دین میں شامل نہیں ہے۔
اگلے سات سال یعنی 7 سے 14 یہ باپ کے پاس بچے کے امانت ہیں۔ ان سات سالوں میں بچے کو غلام کی طرح رکھئیے۔ بچے کی آدھی شخصیت اور لگ بھگ پچاس فیصد عادات اسی عمر میں کسی حد تک مکمل ہوچکی ہوتی ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ جب بچہ 7 سال کا ہوجائے تو اسے نماز کی ترغیب دو، نماز کی نصیحت کرو، جب 9 سال کا ہوجائے تو اس کا بستر الگ کر دو، 10 سال کا ہوجائے اور پھر بھی نماز نہ پڑھے تو اس پر سختی کرو، جب 12 سال کا ہوجائے تو اس کی نگرانی شروع کردو اور یہ نگرانی "چوکیدار اور ایجنسیوں" والی نہ ہو بلکہ اپنے پاس بچے کی پوری معلومات رکھیں۔ بچے کے شوق، اس کی دلچسپیاں، اس کے دوست، اس کے مطالعے میں رہنے والی کتابیں اور اس کی کتابوں میں بننے والی "تصویریں"۔ یہ سب کے سب آپ کے علم میں ہونا چاہیے اس عمر میں نصیحت شروع کی جائے گی لیکن محبت، ہمدردی اور تڑپ کے ساتھ، نہ کہ غصہ اور نفرت کے ساتھ۔ ذہن میں رہے کہ بچے کو ہاتھ لگانا، مارنا، بدتمیزی و بداخلاقی کرنا، بچے کو برا بھلا کہنا اور ذہنی ٹارچر کا نشانہ بنانا بہرحال اس عمر میں بھی جائز نہیں ہے۔
بچے کی عمر کا تیسرا حصہ 14 سال سے 21 سال تک کا ہوتا ہے۔ وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ چکا ہوتا ہے، اس لئے کہتے ہیں کہ اس عمر میں بچے کو دوست کی طرح رکھو۔ نادان ہیں وہ والدین اور اساتذہ جو نویں اور دسویں کے بچے بچیوں کو مارتے یا ان پر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ اس عمر میں نہ صرف ان کا جسم مضبوط ہونا شروع ہوجاتا ہے بلکہ نفس کے ساتھ بھی کشمکش شروع ہوچکی ہوتی ہے، جبکہ والدین 35 اور 40 کی عمر سے آگے نکل کر اپنے زوال کی طرف تیزی سے رواں دواں ہوتے ہیں۔ اگر آپ اپنے بچوں کے ساتھ 7 سے 14 سال والی عمر میں اپنا تعلق مضبوط نہیں کرتے تو پھر اس کے بعد باپوں کی زندگی تنہائی میں گزرتی ہے۔
عام طور پر بڑھاپے میں بچے ماں کا سہارا اور باپ کی کمزوری بن جاتے ہیں، کیونکہ باپ نے اپنی ساری زندگی "بچوں کے لئے" جو کھپادی ہوتی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ "اگر اپنے بچے کو اچھا انسان دیکھنا چاہتے ہو تو اس پر خرچ کی جانے والی رقم کو آدھا اور دئیے جانے والے وقت کو دگنا کر دو". 14 سال کی عمر کے بعد بچوں سے "یارانہ" لگا لیں۔ ان کو اپنا دوست بنائیں۔ ان کے دوستوں سے دوستی اور سہیلیوں کو بیٹی بنالیں، ان کے ساتھ اپنا تعلق اتنا مضبوط کریں کہ وہ اپنی غلط بات بھی بتانے کے لئے آپ ہی کے پاس آئیں اور آپ ایک اچھے دوست کی طرح اس کو ہمدردی کے ساتھ نصیحت کر سکیں۔ اگر وہ کسی غلط کام میں ملوث ہو گیا یا ہو گئی ہے اور اسے کوئی لڑکا یا لڑکی پسند بھی آگئی ہے تو بھی پورے حوصلے اور تحمل کے ساتھ اس کو سنیں، اس کے خیرخواہ بنیں اور آپ کے اوپر اولاد کا آخری حق بھی یہی ہے کہ اس کے بگڑنے سے پہلے اس کے لئے حلال رشتے کو آسان بنا دیں۔ اسی لیے کہا گیا گیا کہ جب بچہ 17 سال کا ہوجائے تو اس کی شادی کی فکر کرو۔
 21 سال کے بعد تو بچے بچیوں کی ویسے بھی اپنی ہی زندگی شروع ہوچکی ہوتی ہے۔ اگر آپ نے معاشرے میں ایک اچھا اور کارآمد فرد بنا کر بھیجا ہے تو وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ آپ کے لیے صدقہء جاریہ اور سرمایہء افتخار ہے ورنہ دوسری صورت میں آپ کی ہی اولاد آپ کے لئے اللہ نہ کرے ذلت ورسوائی کا ذریعہ بن جائے گی۔

سب سے بڑی قربانی

سب سے بڑی قربانی یہ ہے کہ آپ وہ بن کے دکھا دیں جو پروردگار نے آپ کو بننے کے لئے پیدا کیا ہے.


اپنے مقصد کو چھوٹی چھوٹی پریشانیوں اور لوگوں کے طعنوں پر قربان نہ کریں۔ 

قربانی یہ نہیں کہ آپ دوسروں کو خوش کرنے کے لئے اپنے ہدف سے ہٹ گئے۔ قربانی یہ ہے کہ آپ نے ہدف کو پانے کے لئے اپنی جھوٹی انا اور بہانوں کو اپنے مقصد پر قربان کر دیا۔ 

قربانی یہ نہیں کہ میں نے پڑھائی چھوڑ دی تاکہ میرا چھوٹا بھائی پڑھ سکے۔ قربانی یہ ہے کہ آپ چھوٹے بھائی کی پڑھائی کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ بھائی بہنوں کی زندگی بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی بھی زندگی سنوار لیں۔ 

دوسروں کے کئے اپنی آرزوؤں کو پامال کرنا قربانی نہیں۔ اپنے خوابوں سے دستبردار ہو جانا قربانی نہیں بلکہ بزدلی ہے، فرار ہے۔ 

کئی لوگوں کو محض اپنے خواب سے ہٹنے کا بہانہ چاہئے ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کے کندھوں پہ قربانی کی بندوق چلاتے ہیں اور جامِ شہادت نوش کر لیتے ہیں۔ یہ جعلی شہادت انہیں عمر بھر جعلی دلاسہ دیتی رہتی ہے۔ ایسے لوگ ساری زندگی اپنی بہانوں کی داستان سناتے رہتے ہیں کہ میں بھی کچھ بن سکتا تھا مگر میں نے فلاں فلاں کے لئے اپنے کیرئیر کی قربانی دے دی۔ 

اپنے مقاصد کی جستجو کرتے ہوئے دوسروں کا سہارا بننا اصل قربانی ہے۔ 

قربانی دینی ہی ہے تو اپنے آرام، سکون اور نیند کی قربانی دیجئے اور اس وقت میں اپنا شاندار مستقبل تراشئیے۔ خود کو پُش کرنا، اپنی صلاحیت کی حدوں کو چھو لینا اصل قربانی ہے۔ کسی فرسودہ بہانے کی خاطر اپنے ٹیلنٹ سے منہ موڑ لینا، اپنی خداداد ذہانت اور ہنر کی ناقدری کرنا کونسی قربانی ہے؟ 

اپنے پروردگار کی طرف سے ملنے والے مقصد کو لوگوں کی باتوں میں آکر قربان کر دینے والا شخص اندر سے جانتا ہے کہ اس نے زندگی کو اپنا بہترین نہیں دیا۔ اس نے کمال تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ایسا شخص کبھی اندر سے اطمینان نہیں پا سکتا۔ اور بھلا ایک نامکمل اور ناخوش شخص کی قربانی دوسروں کو کیا خوشی دے گی؟

آپ کا دوسروں کی خدمت کا جذبہ سر آنکھوں پہ۔ لیکن اگر واقعی آپ دوسروں کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے مقصد، اپنے ہدف کو پالیں۔ اس نیت کے ساتھ کہ آپ کی ذاتی کامیابی مزید کتنے لوگوں کے لئےایک بڑی کامیابی کی راہ ہموار کر دے گی۔ 

یاد رکھئے، اپنے خوابوں کی قربانی نہیں دینی۔ کچھ بن کے دکھانا ہے۔ 

*(-کامیابی مبارک,*
 *~قیصر_عباس)*