Saturday, August 22, 2020

معرفتِ الہٰی

ایک صوفی منش ہیڈ ماسٹر کے بارے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہوا، جو بہت سے لوگوں کی زبانی میں نے ان کی وفات کے بعد سنا۔ جب وہ کسی سکول میں استاد تعینات تھے تو انہوں نے اپنی کلاس کا ٹیسٹ لیا۔

ٹیسٹ کے خاتمے پر انہوں نے سب کی کاپیاں چیک کیں اور ہر بچے کو اپنی اپنی کاپی اپنے ہاتھ میں پکڑکر ایک قطار میں کھڑا ہوجانے کو کہا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جس کی جتنی غلطیاں ہوں گی، اس کے ہاتھ پر اتنی ہی چھڑیاں ماری جائیں گی۔

اگرچہ وہ نرم دل ہونے کے باعث بہت ہی آہستگی سے بچوں کو چھڑی کی سزا دیتے تھے. تاکہ ایذا کی بجائے صرف نصیحت ہو، مگر سزا کا خوف اپنی جگہ تھا۔

تمام بچے کھڑے ہوگئے۔ ہیڈ ماسٹر سب بچوں سے ان کی غلطیوں کی تعداد پوچھتے جاتے اور اس کے مطابق ان کے ہاتھوں پر چھڑیاں رسید کرتے جاتے۔

ایک بچہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچے اور اس سے غلطیوں کی بابت دریافت کیا تو خوف کے مارے اس کے ہاتھ سے کاپی گرگئی. گھگیاتے ہوئے بولا:

"جی مجھے معاف کر دیں میرا توسب کچھ ہی غلط ہے۔"

معرفت کی گود میں پلے ہوئے ہیڈ ماسٹر اس کے اس جملے کی تاب نہ لاسکے. اور ان کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ ہاتھ سے چھڑی پھینک کر زاروقطار رونے لگے اور بار بار یہ جملہ دہراتے:

"میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے۔"

روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی۔ اس بچے کو ایک ہی بات کہتے
"تم نے یہ کیا کہہ دیا ہے

، یہ کیا کہہ دیا ہے میرے بچے!"

"میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے"

"اے کاش ہمیں بھی معرفتِ الٰہی کا ذره نصيب ہو جاۓ اور بہترین اور صرف اللّٰه کے لۓ عمل کر کے بھی دل اور زبان سے نکلے…..میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے"..

کسی کا پردہ پاش نہ کریں

ایک مصری عالم کا کہنا تھا کہ مجھے زندگی میں کسی نے لاجواب نہیں کیا سوائے ایک عورت کے جس کے ہاتھ میں ایک تھال تھا جو ایک کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا میں نے اس سے پوچھا تھال میں کیا چیز ہے۔
" وہ بولی اگر یہ بتانا ہوتا تو پھر ڈھانپنے کی کیا ضرورت تھی۔"
" پس اس نے مجھے شرمندہ کر ڈالا "
یہ ایک دن کا حکیمانہ قول نہیں بلکہ ساری زندگی کی دانائی کی بات ہے۔
" کوئی بھی چیز چھپی ہو تو اس کے انکشاف کی کوشش نہ کرو۔"
کسی بھی شخص کا دوسرا چہرہ تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں خواہ آپ کو یقین ہو کہ وہ بُرا ہے یہی کافی ہے کہ اس نے تمہارا احترام کیا اور اپنا بہتر چہرہ تمہارے سامنے پیش کیا بس اسی پر اکتفا کرو۔
ہم میں سے ہر کسی کا ایک بُرا رخ ہوتا ہے جس کو ہم خود اپنے آپ سے بھی چھپاتے ہیں۔
" اللہ تعالٰی دنیا و آخرت میں ہماری پردہ پوشی فرمائے" ورنہ
جتنے ہم گناہ کرتے ہیں اگر ہمیں ایک دوسرے کا پتہ چل جائے تو ہم ایک دوسرے کو دفن بھی نہ کریں۔
جتنے گناہ ہم کرتے ہیں اس سے ہزار گنا زیادہ کریم رب ان پر پردے فرماتا ہے۔
" کوشش کریں کہ کسی کا عیب اگر معلوم بھی ہو تو بھی بات نہ کریں " آگے کہیں آپ کی وجہ سے اسے شرمندگی ہوئی تو کل قیامت کے دن اللہ پوچھ لے گا کہ جب میں اپنے بندے کی پردہ پوشی کرتا ہوں تو تم نے کیوں پردہ فاش کیا؟

خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں

Thursday, August 20, 2020

‎‎ﺍﺻﻞ .......... ﭘﮩﻠﻮﺍﻧﯽ

  ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﻈﻔﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎﻧﺪﮬﻠﻮﯼ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭘﮩﻠﻮﺍﻥ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ، ﻭﮦ ﻏﺴﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺆﺫﻥ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮈﺍﻧﭩﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ، ﻧﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﻧﮧ ﺭﻭﺯﮮ ﮐﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮱ ﺁﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﻣﺆﺫﻥ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ   ‎‎سپیشل لائک کیلئے یہاں کلک کریں‏  ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﯿﮱ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﮭﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺒﺖ ﺁﻣﯿﺰ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ، ﻣﺎﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ ﺗﻢ ﺑﮍﮮ ﭘﮩﻠﻮﺍﻥ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮ، ﻭﯾﺴﮯ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺯﻭﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ ﺫﺭﺍ ﻧﻔﺲ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺯﻭﺭ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭ، ﻧﻔﺲ ﮐﻮ ﺩﺑﺎﯾﺎ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺖ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﺿﺮﻭﺭ ﭘﮍﮬﺎ ﮐﺮﻭ، ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺍﺻﻞ ﭘﮩﻠﻮﺍﻧﯽ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﮯ، ﺍﺗﻨﺎ ﺳﻨﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺷﺮﻡ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﺮﻡ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﺗﻨﺎ ﺍﺛﺮ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺳﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﭘﺎﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ، ﺑﻌﺾ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﭘﺮ ﻧﺮﻣﯽ ﮐﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺛﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺩﯾﻦ ﺑﯿﺰﺍﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﯿﮱ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺝ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﻧﻈﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮱ، ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮐﯽ ﺳﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺟﯿﺴﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺳﮯ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ، ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﺻﺎﻟﺤﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮱ ﺁﻣﺎﺩﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻋﻤﻮﻣﺎ ﻧﺮﻡ ﺧﻮﺋﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﻔﻊ ﺑﺨﺶ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﮔﻮ ﮐﮧ ﺑﻌﺾ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﺨﺘﯽ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ.....،

‏ﺍﯾﮏ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﺁﻣﻮﺯ ﺗﺤﺮﯾﺮ‏‎

  ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ، ﺍﯾﮏ ﺩﺍﻧﺸﻤﻨﺪ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﻧﮕﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ- ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﺳﺎﺣﻞ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﭘﺮ ﭼﮩﻞ ﻗﺪﻣﯽ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﻭﮦ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﺮ ﭨﮩﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﻭﺭ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﮨﯿﻮﻻ ﮐﺴﯽ ﺭﻗﺎﺹ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺎ- ﻭﮦ ﻣﺘﺠﺴﺲ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﺷﺨﺺ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺩﻥ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﺭﻗﺺ ﺳﮯ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ- ﯾﮧ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻭﮦ ﺗﯿﺰ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﭼﻞ ﭘﮍﺍ- ﻭﮦ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮨﮯ- ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺭﻗﺺ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ- ﻭﮦ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﺮ ﺟﮭﮑﺘﺎ، ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮯ ﺍﭨﮭﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺘﺎ۔ ﺩﺍﻧﺶ ﻣﻨﺪ ﺍﺱ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺎ" ،ﺻﺒﺢ ﺑﮧ ﺧﯿﺮ ﺟﻮﺍﻥ! ﯾﮧ ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ "؟ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﻗﺪﺭﮮ ﺗﻮﻗﻒ ﮐﯿﺎ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﺍﻧﺶ ﻣﻨﺪ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ "ﺳﺘﺎﺭﮦ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﻮ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ" "ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺗﻢ ﺳﺘﺎﺭﮦ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﻮ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟" " ﺳﻮﺭﺝ ﭼﮍﮪ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﮩﺮﯾﮟ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭧ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮭﯿﻨﮑﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ۔" "ﻟﯿﮑﻦ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ! ﯾﮧ ﺳﺎﺣﻞ ﺗﻮ ﻣﯿﻠﻮﮞ ﺗﮏ ﭘﮭﯿﻼ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﮮ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﺮ ﺳﺘﺎﺭﮦ ﻣﭽﮭﻠﯿﺎﮞ ﺑﮑﮭﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﺍﺱ ﮐﻮﺷﺶ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﭘﮍﮮ " ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺷﺎﺋﺴﺘﮕﯽ ﺳﮯ ﺩﺍﻧﺶ ﻣﻨﺪ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﯽ، ﻧﯿﭽﮯ ﺟﮭﮏ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺳﺘﺎﺭﮦ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭩﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻟﮩﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﭘﻮﺭﯼ ﻗﻮﺕ ﺳﮯ ﺍﭼﮭﺎﻟﺘﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﺑﻮﻻ "ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﻮ ﻓﺮﻕ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ ﻧﺎ " ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭼﮭﺎﺋﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﭼﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﭘﺮ ﻓﺮﻕ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ، ﮐﯿﻮﮞﮑﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭼﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺍُﺱ ﭘﺮ ﺗﻮ ﭘﮍﮮ‎

Tuesday, August 18, 2020

انسان اور اچھے انسان

جب آپ سے کوئی خطا ہو جائے تو سمجھئے کہ آپ انسان ہیں اور جب اس خطا پر آپ کو ندامت و شرمندگی ہو تو سمجھئے کہ آپ ایک اچھے انسان اور اللہ کے محبوب بندے ہیں۔ ایسے میں اپنی خطاؤں پر توبہ کرنے میں جلدی کیجئے اور اللہ سے اپنی گناہوں اور خطاؤن پر معافی مانگئے۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: *"تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرتے ہیں"*۔ (سنن ابن ماجه: 4251، سنن ترمذي: 2499)

انسان کبھی خطا سے پاک نہیں ہوتا کیوں کہ فطری طور پر اس میں کمزوری پائی جاتی ہے۔ یہ اس کی فطرت ہے کہ وہ اپنے خالق کی طرف سے مطلوبہ احکامات کو انجام دینے میں غفلت برتتا ہے اور اس کی منع کردہ چیزوں کو ترک نہیں کرتا۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے اور اپنے نبی ﷺ کے ذریعے ہمیں بتایا ہے کہ سب سے بہتر خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرنے والے ہیں۔

اللہ تعالٰی ہمیں کثرت سے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری، ہمارے والدین کی اور تمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے۔ آمین

ان إلا نسان لفى خسر

السلام علیکم!

ہم نے کبھی غور نہیں کیا ہمارے ہر دن کا تیسرا حصہ ہماری غفلت کی نذر ہوتا ہے یعنی اوسطاً لوگ آٹھ گھنٹے  سوتے ہیں اور یہ چوبیس گھنٹے کا تیسرا حصہ بنتا ہے گویا  ایک برس میں چار ماہ کا عرصہ سوتے ہوئے گزرتا ہے اور دس برس میں تین سال اور تیس سال میں دس برس.  اس لیے جب قرآن مجید یہ کہتا ہے (ان إلا نسان لفى خسر)
کہ بے شک انسان خسارے میں ہے اس کی تفسیر کرتے ہوئے امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں (ان الانسان لفی خسر) بے شک انسان خسارے سے الگ ہو ہی نہیں سکتا  اور مزید آگے فرماتے ہیں کہ خسارہ تو اصل جمع پونجی (هو عمره) آدمی کی عمر ہوتی ہے  مگر ہم نے اس میں بہت کم غور کیا ہے اور قرآن مجید کی ایسی آیات ہمیں کس جانب توجہ دلاتی ہے علامہ ابن کثیر نے حضرت امام شافعی رحمہ اللہ علیہ ایک قول سورۃ العصر کے متعلق نقل کیا
کہ لوگ صرف اس سورہ میں غور کر لیں تو یہ انہیں کافی ہے اللہ تعالیٰ نے سورہ العصر میں نصاب زندگی دیا ہے  ارشاد باری تعالیٰ ہے ... قسم ہے زمانے کی کہ انسان خسارے میں ہے. ..
اور پھر خسارے سے پچنے کا نصاب عطا فرمایا کہ اگر خسارے سے پچنا چاہتے ہو تو 4 چیزوں کو لازم پکڑو. 
1.الاالدین امنوا. .....مگر وہ لوگ ایمان لائے. 
2.وعملوالصلحت. ....اور وہ لوگ جنہوں نے عمل صالح کیے. 
3.وتواصوابلحق. ...اور حق کی وصیت کی.
4.وتواصوابلصبر....اور صبر کی وصیت کی. 
ایمان عمل صالح  حق کی وصیت اور صبر کی وصیت ان کو عملی جامہ پہنانے سے آدمی خسارے سے بچ سکتا ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب آدمی اپنے باطن کو آباد کر لیتا ہے جب ذکر اللہ سے قلب کو پاک کر لیتا ہے 

اپنی حالت خود بدلیں

ایک پہاڑ کی چوٹی پر لگے درخت پر ایک عقاب نے اپنا گھونسلہ بنا رکھا تھا جس میں اس کے دیئے ہوئے چار انڈے پڑے تھے کہ زلزلے کے جھٹکوں سے ایک انڈا نیچے گراجہاں ایک مرغی کا ٹھکانہ تھا۔ مرغی نے عقاب کے انڈے کو اپنا انڈا سمجھا اور اپنے نیچے رکھ لیا۔ ایک دن اس انڈے میں سے ایک پیارا سا ننھا منا عقاب پیدا ہوا جس نے اپنے آپ کو مرغی کا چوزہ سمجھتے ہوئے پرورش پائی اور مرغی سمجھ کر بڑا ہوا۔
ایک دن باقی مرغیوں کےساتھ کھیلتے ہوئے اس نے آسمان کی بلندیوں پر کچھ عقاب اڑتے دیکھے۔ اس کا بہت دل چاہا کہ کاش وہ بھی ایسے اڑ سکتا! جب اس نے اپنی اس خواہش کا اظہار دوسری مرغیوں سے کیا تو انہوں نے اس کا تمسخر اڑایا اور قہقہے لگاتے ہوئے کہا تم ایک مرغی ہو اور تمہارا کام عقابوں کی طرح اڑنا نہیں۔ کہتے ہیں اس کے بعد اس عقاب نے اڑنے کی حسرت دل میں دبائے ایک لمبی عمر پائی اور مرغیوں کی طرح جیتا رہا اور مرغیوں کی طرح ہی مرا۔۔

اگر آپ عقاب ہیں اور آپ کے خواب آسمان کی بلندیوں میں اڑنے کے ہیں تو پھر اپنے خوابوں کو عملی جامہ دیجیئے، کسی مرغی کی بات پر دھیان نہ دیجیئے کیونکہ انہوں نے آپکو بھی اپنے ساتھ ہی پستیوں میں ڈالے رکھنا ہے۔
جب معاملات آگے نہ بڑھ رہے ہوں تو اپنی روزمرہ کی عادتوں سے ہٹ کر کچھ کرنا بھی کامیابیوں کو آسان بناتا ہے۔ اور پھر یہ بھی تو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
 جس کو خود   اپنی حالت بدلنے خیال نہ ہو

کامیابی کا راز

کوا وہ واحد پرندہ جو عقاب کو تنگ کر سکتا ہے. یہ پرندوں کے بادشاہ عقاب کی پشت پر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی چونچ سے اسکی گردن پر کاٹتاہے۔ جبکہ کوے سے زیادہ طاقتور عقاب کوے کا مقابلہ کرنے میں اپنی طاقت اور وقت صرف نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اپنے پر کھولتا اور آسمان کی طرف اونچی اُڑان بھرنا شروع کر دیتا ہے۔ عقاب کی پرواز جتنی بلند ھوتی جاتی ہے کوے کی اُڑان اتنی ہی مشکل ہو جاتی ہے اور بل آخر وہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے گر جاتاہے۔ 

آج سے آپ ان لوگوں کی وجہ سے پریشان ہونا چھوڑ دیں جو آپ کی پیٹھ پیچھے باتیں کرتے ھیں۔ 
آپ کی پرواز کے سامنے آسمان کھلا ہواہے۔ 
اپنی اُڑان کو اونچا کرتے جائیں تو بہت سی رکاوٹيں خود ہی دور ہوتی جائیں گی۔ 
اپنی طاقت عقاب کی مانند مثبت کاموں میں صرف کريں۔
اپنی پرواز کی قوت کو جان لیجیے۔ 
یہی کامیابی کا راز ہے۔

Saturday, August 15, 2020

ہماری خامیاں ہی ہماری طاقت ہیں

کہتے ہیں ایک چینی بڑھیا کے گھر میں پانی کیلئے دو مٹکے تھے، جنہیں وہ روزانہ ایک لکڑی پر باندھ کر اپنے کندھے پر رکھتی اور نہر سے پانی بھر کر گھر لاتی۔ ان دو مٹکوں میں سے ایک تو ٹھیک تھا مگر دوسرا کچھ ٹوٹا ہوا۔ ہر بار ایسا ہوتا کہ جب یہ بڑھیا نہر سے پانی لے کر گھر پہنچتی تو ٹوٹے ہوئے مٹکی کا آدھا پانی راستے میں ہی بہہ چکا ہوتا۔ جبکہ دوسرا مٹکا پورا بھرا ہوا گھر پہنچتا۔

ثابت مٹکا اپنی کارکردگی سے بالکل مطمئن تھا تو ٹوٹا ہوا بالکل ہی مایوس۔ حتیٰ کہ وہ تو اپنی ذات سے بھی نفرت کرنے لگا تھا کہ آخر کیونکر وہ اپنے فرائض کو اس انداز میں پورا نہیں کر پاتا جس کی اس سے توقع کی جاتی ہے۔اور پھر مسلسل دو سالوں تک ناکامی کی تلخی اور کڑواہٹ لئے ٹوٹے ہوئے گھڑے نے ایک دن اس عورت سے کہا: میں اپنی اس معذوری کی وجہ سے شرمندہ ہوں کہ جو پانی تم اتنی مشقت سے بھر کر اتنی دور سے لاتی ہو اس میں سے کافی سارا صرف میرے ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گھر پہنچتے پہنچتے راستے میں ہی گر جاتا ہے۔

گھڑے کی یہ بات سن کر بڑھیا ہنس دی اور کہا: کیا تم نے ان سالوں میں یہ نہیں دیکھا کہ میں جسطرف سے تم کو اٹھا کر لاتی ہوں ادھر تو پھولوں کے پودے ہی پودے لگے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف کچھ بھی نہیں اگا ہوا۔

مجھے اس پانی کا پورا پتہ ہے جو تمہارے ٹوٹا ہوا ہونے کی وجہ سے گرتا ہے، اور اسی لئے تو میں نے نہر سے لیکر اپنے گھر تک کے راستے میں پھولوں کے بیج بو دیئے تھے تاکہ میرے گھر آنے تک وہ روزانہ اس پانی سے سیراب ہوتے رہا کریں۔ ان دو سالوں میں ، میں نے کئی بار ان پھولوں سے خوبصورت گلدستے بنا کر اپنے گھر کو سجایا اور مہکایا۔ اگر تم میرے پاس نا ہوتے تو میں اس بہار کو دیکھ ہی نا پاتی جو تمہارے دم سے مجھے نظر آتی ہے۔

یاد رکھئے کہ ہم سے ہر شخص میں کوئی نا کوئی خامی ہے۔ لیکن ہماری یہی خامیاں، معذوریاں اور ایسا ٹوٹا ہوا ہونا ایک دوسرے کیلئے عجیب اور پر تاثیر قسم کے تعلقات بناتا ہے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ان کی خامیوں کے ساتھ ہی قبول کریں۔ ہمیں ایک دوسرے کی ان خوبیوں کو اجاگر کرنا ہے جو اپنی خامیوں اور معذوریوں کی خجالت کے بوجھ میں دب کر نہیں دکھا پاتے۔ معذور بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور اپنی معذوری کے ساتھ ہی اس معاشرے کیلئے مفید کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اللـــــــہ کـــــــی رحـــمــــت بیٹیـــــــاں

لڑکیوں کے اسکول میں آنے والی نئی ٹیچر خوبصورت اور با اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ علمی طور پر بھی مضبوط تھی لیکن اُس نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی.
سب لڑکیاں اس کے اردگرد جمع ہو گئیں اور مذاق کرنے لگیں کہ میڈم آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی ؟
میڈم نے داستان کچھ یوں سنانا شروع کی
ایک دفعہ ایک خاتون کی پانچ بیٹیاں تھیں ، شوہر نے اس کو دھمکی دی کہ اگر اس دفعہ بھی بیٹی ہوئی تو اس بیٹی کو باہر کسی سڑک یا چوک پر پھینک آوں گا ، 
خدا کی حکمت خدا ہی جانے کہ چھٹی مرتبہ بھی بیٹی پیدا ہوئی اور مرد نے بیٹی کو اٹھایا اور رات کے اندھیرے میں شہر کے مرکزی چوک پر رکھ آیا ماں پوری رات اس ننھی سی جان کیلئے دعا کرتی رہی اور بیٹی کو اللہ کے سپرد کر دیا ، دوسرے دن صبح باپ جب چوک سے گزارا تو دیکھا کہ کوئی بچی کو لے نھیں گیا بچی ساری رات ادھر ہی پڑی رہی باپ بیٹی کو واپس گھر لایا لیکن دوسری رات پھر بیٹی کو چوک پر رکھ آیا لیکن ماجرا اسی طرح تکرار ہوتا رہا یہاں تک کہ سات دن باپ باہر رکھ آتا اور جب کوئی لے نہ جاتا تو مجبوراً واپس اٹھا لاتا یہاں تک کہ باپ تھک گیا اور خدا کی رضا پر راضی ہو گیا۔
اور پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک سال بعد ماں پھر حاملہ ہو گئی اور اس دفعہ اللہ نے انکو بیٹا عطا فرما دیا لیکن کچھ ہی دن بعد بیٹیوں میں سے ایک فوت كر گئی
یہاں تک کہ پانچ بار حاملہ ہوئی اور اللہ نے پانچ بیٹے عطا فرمائے لیکن ہر دفعہ اسکی بیٹیوں میں سے ایک اس دنیا سے رخصت ہو جاتی.
فقط ایک ہی بیٹی زندہ بچی اور وہ وہی بیٹی تھی جس سے باپ جان چھڑانا چاہ رہا تھا ، ماں بھی اس دنیا سے چلی گئی اُدھر 5 بیٹے اور 1 بیٹی سب بڑے ہو گئے .
ٹیچر نے کہا پتہ ہے وہ بیٹی جو زندہ رہی کون ہے ؟
وہ میں ہوں.
اور میں نے ابھی تک شادی اس لیے نہیں کی کہ باپ اتنا بوڑھا ہو گیا ہے کہ اپنے ہاتھ سے کھانا بھی نھیں کھا سکتا جبکہ کوئی دوسرا نہیں جو اسکی خدمت کرے بس میں ہی اسکی خدمت کیا کرتی ہوں
اور وہ 5 بیٹے کھبی کھبی آ کر باپ کی احوال پرسی کر جاتے ہیں جبکہ باپ ہمیشہ شرمندگی کے ساتھ رو رو کے مجھ سے کہا کرتا ہے میری پیاری بیٹی جو کچھ میں نے بچپن میں تیرے ساتھ کیا اس پر مجھے معاف کرنا.