Tuesday, August 25, 2020

مٹتا ہوا لاہور

لاہور جو ایک شہر تھا۔۔۔۔۔

لاہور 
ناشپاتیوں، سنگتروں، مٹھوں، آڑوؤں، اناروں اور امرودوںکے باغات میں گھرا ہوتا تھا۔ 

موتیے اور گلاب کے کھیت عام تھے۔ 

حتیٰ کہ سڑکوں کے اطراف بھی گلاب اُگے ہوتے، 
جنہیں لاہور کے گردا گرد چلنے والی نہر سیراب کرتی۔ 

گلاب کے پھول لاہور سے دہلی تک جاتے۔ 

صحت بخش کھیلوں اور سرگرمیوں کا رواج تھا۔ 

نوجوان رات دس گیارہ بجے تک گتکا سیکھتے۔ 

اسکولوں میں گتکے کا باقاعدہ ایک پیریڈ ہوتا۔ 

تب شیرانوالا کے حاجی کریم بخش لاہور کے مشہور گتکاباز تھے، 
اور گورنمنٹ کنٹریکٹر موچی دروازہ کے میاں فضل دین مشہور بٹیرباز۔ 

تقریبات کو روشن کرنے کے لیے حسّا گیساں والا بھی لاہور کی معروف شخصیت تھے۔ 

خوشی، غمی، جلسوں، جلوسوں، میلوں ٹھیلوں اور شادی بیاہ کی تقریبات حسّا گیساں والے کے گیسوں سے جگمگ کرتیں۔ 

شادی کی رونق سات سات دن جاری رہتی۔ 

لاہور میں بناسپتی گھی رائج ہوا تو بہت کم لوگ اسے استعمال کرتے، وہ بھی چھپ کر۔ 

کوئی شادی پر بناسپتی گھی استعمال کرتا تو برادری روٹھ جاتی۔ 

جب چائے کا عادی بنانے کے لیے لپٹن والوں نے لاہور میں گھر گھر پکی ہوئی چائے مفت بانٹنا شروع کی 
تو ساندہ کی عورتوں نے چائے بانٹنے والے سکھ انسپکٹر کی پٹائی کردی۔ 

تعلیم کی طرف رجحان کا یہ عالم تھا کہ ماسٹر گھر گھر جاکر منتیں کرتے کہ اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کرائو۔ 

صدی پون صدی قبل کے لاہور کا یہ ماحول 
تین بزرگ لاہوریوں 
موچی دروازہ کے حافظ معراج دین، 
شیرانوالا اور فاروق گنج کے مستری محمد شریف 
اور ساندہ کے کرنل(ر) محمد سلیم ملک نے 
ماہنامہ آتش فشاں کے ایڈیٹر منیر احمد منیر کے ساتھ اپنے ان انٹرویوز میں بیان کیا ہے 

جو کتاب ''مٹتا ہوا لاہور'' میں شائع ہوئے ہیں۔

 ایک سو سات برس قبل 
24 فروری1911ء کے روز 
سرآغاخاں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے جلسۂ تقسیم انعامات کے لیے لاہور ریلوے اسٹیشن پر پہنچے 
تو لاہوریے ایک پُرجوش اور پُرہجوم جلوس کی صورت میں انہیں ایمپریس روڈ پر نواب پیلس میں لائے۔ 

ان کی آمد سے پہلے ان پر برسانے کے لیے پھول اکٹھا کیے گئے 
تو لاہور کے کھیت ویران ہوگئے اور پھول دوسرے شہروں سے منگوانا پڑے۔ 

یہی صورت 21 مارچ 1940ء کو پیش آئی 
جب قائداعظمؒ لاہور سیشن میں شرکت کے لیے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے 
تو دوسرے شہروں سے بھی پھول منگوائے گئے۔ 

تب لاہور اگرچہ سیاسی، سماجی اور روایتی جلسوں جلوسوں سے زبردست رونق دار تھا، 
پھر بھی اس کا سکون، خاموشی اور ٹھیرائو مثالی تھا۔

 ''مٹتا ہوا لاہور'' کے ان انٹرویوز کے مطابق شیر چڑیا گھر میں دھاڑتا 
تو اس کی گرج لاہور میں گونجتی۔ 

شہر اس قدر کھلا کھلا تھا 
کہ موچی دروازہ سے مزار داتا صاحبؒ اور مزار شاہ ابوالمعالی ؒ صاف نظر آتے 
اور لوگ موچی دروازہ کے باہر کھڑے ہوکر ہی دعا مانگ لیا کرتے۔

 بعض جگہوں اور تقریبات کے ناموں میں بھی تبدیلی آچکی ہے۔

 چڑیا گھر کو چڑی گھر کہتے تھے۔ 

کوٹ خواجہ سعید کا نام کوٹ خوجے سعید تھا۔ 

دسویں محرم یا یومِ عاشور کو گھوڑے والا دن کہتے تھے۔ 

عید میلاد النبیؐ بارہ وفات کہلاتی۔ 

حافظ معراج دین کہتے ہیں کہ اس روز جلوس نکالنے کا فیصلہ 
میں نے، نعمت کدہ کے مہر بِسّا اور مولانا محمد بخش مسلم نے کیا تھا۔ 

پہلا جلوس 1933ء میں نکلا۔ 

اس سے پہلے لاہور کی مساجد میں چنوں پر ختم ہوتا۔ 

باہر بچے کھڑے ہوتے جو نمازیوں کے باہر آنے پر آوازیں لگاتے:''میاں جی چھولے، میاں جی چھولے''۔ 
وہ چنے ان میں بانٹ دیے جاتے۔ 

مستری محمد شریف کہتے ہیں کہ جلوسِ عید میلادالنبیؐ میں لوگ گڈوں پر ہوتے یا پیدل۔ 

پچاس ساٹھ نوجوان گھڑ سوار برجسیں اور سبز پگڑیاں پہنے آگے ہوتے۔ 

ان کے پیچھے گتکا کھیلنے والے۔ 

پھر نعت خواں۔ 

آخر میں بینڈ والے۔ 

مستری صاحب کہتے ہیں کہ لاہور میں مسلمانوں کے صرف تین مذہبی جلوس نکلتے تھے۔ 

عید میلادالنبیؐ، بڑی گیارہویں شریف اور دسویں محرم کے روز، 
جسے گھوڑے والا دن کہتے تھے۔ 

اُس وقت کسی کو پتا نہیں تھا شیعہ سنی کا۔ 
خلقت امڈ کے آتی تھی۔ 

سنی گھوڑا تیار کرتے، سبیلیں لگاتے، کھانے پکاتے، روشنی کا انتظام کرتے، 

شیرانوالا اسکول کے ڈرل ماسٹر اور 
لاہور کی پہلی مگر خاموش فلم ''ڈاٹرز آف ٹوڈے'' 
عرف آج کی بیٹیاں کے ہیرو 
ماسٹر غلام قادر سنی تھے، 
لیکن گھوڑے کے جلوس کے ساتھ فرسٹ ایڈ کا سامان لے کے چلتے۔ 

تب لاہور میں بھائی چارہ اور محبت بھرے رویّے عام تھے۔ ا

یک کی بیٹی سب کی بیٹی، 
ایک کا داماد سارے محلے کا داماد۔ 
دکھ اور خوشیاں سانجھی۔ 

مستری شریف نے گلوگیر لہجے میں کہا: 
اب وہ وقت نہیں آئیں گے 
جب کالیے دے کھو پر 
سویرے سویرے وارثی دیوانہ گاتا
''میرے اللہ کریو کرم دا پھیرا'' 
تو لوگوں کے آنسو نکل آتے۔ 

اس کی آواز دور دور تک جاتی۔ 

لال آندھی چلتی تو مشہور ہوجاتا کہ کہیں کوئی قتل ہوا ہے۔ 

مستری صاحب لاہور میں نورجہاں جب وہ بے بی نورجہاں تھی، کے ذکر میں کہتے ہیں 
کہ وہ کالے کپڑے پہن کر 
نگار سنیما کے اسٹیج پر نعت گاتی 
تو فوٹوگرافر محمد بخش اس پر لال، نیلی، پیلی لائٹیں مارتا۔ 

محمد بخش کی شکل جارج پنجم پر تھی۔ 
جب جارج پنجم کی سلور جوبلی منائی گئی تو اسکول کے ہر بچے کو دیسی گھی کے سواسواسیر لڈو دیے گئے۔

لاہور کی ثقافتی اور روایتی صورت اس قدر بدل چکی ہے 
کہ برانڈ رتھ روڈ کیلیاں والی سڑک کہلاتی تھی۔ 

بہ قول محمد دین فوق '' یہ کیلے کے درختوں سے ڈھکی رہتی تھی۔ 

رات تو رات دن میں بھی کسی اکیلے دُکیلے آدمی کا یہاں سے گزرنا خطرے سے خالی نہ ہوتا''۔ 

شیخ عبدالشکور کہتے ہیں: 
''انارکلی بازار میں نیچے دکانیں تھیں، 
اوپر طوائفوں کے بالا خانے تھے۔ 
بعد میں وہاں سے انہیں نکال دیا گیا۔ 

شاہ محمد غوث کے سامنے جہاں اب وطن بلڈنگ ہے، 
وہاں عمدہ ناشپاتیوں کا باغ تھا''۔ 

اخبار وطن کے ایڈیٹر مولوی انشاء اللہ خاں چندے کھولنے میں مشہور تھے۔ 
اخبار وطن میں 1902ء میں انہوں نے حجاز ریلوے کے لیے چندہ کھولا 
کہ لاہور سے مدینہ منورہ تک ٹرین چلائی جائے گی۔ 
ٹرین تو نہ چلی، وطن بلڈنگ بننا شروع ہوگئی۔ 

لاہوریے پوچھتے تو انہیں جواب ملتا: 
پہلے ریلوے اسٹیشن تو بن جائے، پھر ٹرین بھی چل جائے گی۔ 
جو آج تک نہیں چلی۔ 

حافظ معراج دین کہتے ہیں: ''جو دو روپے چندہ دیتا، رئیس سمجھا جاتا''۔

دہلی دروازے کے باہر 
ہر اتوار کو گھوڑوں اور گدھوں کی منڈی لگتی۔ 
نیلامی ہوتی۔ 
اندھا گدھا کم قیمت پر بکتا۔ 

یہیں لاہور کی ککے زئی برادری کے ایک بڑے خان بہادر ملک نذر محمد کا گھوڑوں کا اصطبل تھا۔ 

خاں بہادر نذرمحمد انسانی حقوق کی معروف علَم بردار عاصمہ جہانگیر کے دادا تھے۔ 

وہ اپنے دور میں لاہور کی ایک خوشحال اور بڑی معزز و معتبر شخصیت تھے۔ 

انہیں انگریز نے منٹگمری (اب ساہی وال) میں گھوڑی پال مربعے دیے تھے۔ 

وصیت کے مطابق انہیں قبرستان شاہ محمد غوثؒ میں دفن کیا گیا۔ 

یہاں پنجاب کے سرسید ڈپٹی برکت علی، خواجہ عبدالعزیز ککڑو، ہندو بیرسٹر دیناتھ سمیت 
بڑی نامور شخصیات بھی دفن ہیں 

یہ تاریخی قبرستان دن دہاڑے اس طرح ختم کردیا گیا ہے 
کہ اس کے اوپر لینٹل ڈال کر مسجد وہاں تک پھیلا دی گئی ہے۔ 

قبرستان تک جانے کا کوئی راستہ نہیں رکھا گیا۔

 ان کئی جگہوں کا ذکر بھی ہے 
جو عدم توجہی سے برباد ہوگئیں یا ہورہی ہیں۔ 

مثلاً شادی لال بلڈنگ، 
برکت علی محمڈن ہال، 
لاہور کا پہلا سنیما پاکستان ٹاکیز، 
علامہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اورپاکستان کی نسبت سے صنوبر سنیما اور یونیورسٹی گرائونڈ وغیرہ وغیرہ۔ 

تاریخی یونیورسٹی گرائونڈ جہاں قائداعظمؒ نے لاہور کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسۂ عام سے خطاب کیا تھا، 
اسپورٹس کے حوالے سے بھی ایک یادگار جگہ ہے، 
جو اورنج لائن میٹرو پراجیکٹ کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ 

اسی طرح موج دریا روڈ پر جہاں انکم ٹیکس ہائوس ہے 
وہاں مہاراجا کپورتھلہ کا پُرشکوہ محل تھا۔ 

30جنوری1884ء کو سرسید احمد خاںؒ لاہور آئے 
تو اسی مکان میں ٹھیرے۔ 

لاہوریوں کو ''زندہ دلانِ لاہور'' کا لازوال خطاب سرسیدؒ ہی نے اپنے دورۂ لاہور کے دوران میں دیا تھا۔

1926ء میں علامہ اقبالؒ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے لیے کھڑے ہوئے 
تو لاہور ''پتلون پوش ولی کو ووٹ دو'' کے نعروں سے گونجتا رہا۔ 

جیت کے بعد لاہوریوں نے علامہ کے اعزاز میں موچی دروازہ کی تاریخی جلسہ گاہ میں جلسۂ عام کیا۔  

اگلی صف میں رستم زماں گاماں پہلوان کو بیٹھا دیکھ کر علامہ نے اسے بھی تقریر کی دعوت دے دی۔ 

موچی دروازے کی اجڑی اور مٹتی ہوئی اس جلسہ گاہ کے ذکر میں 
جنرل ایوب کے مقابلے میں مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ صدارتی امیدوار تھیں۔ 

موچی دروازے کی اسی جلسہ گاہ میں مادرملتؒ کے مقابلے میں اتنا بڑاجلسہ آج تک نہیں ہوا۔ 

جلسہ گاہ میں ان کی آمد پر لاہوریوں نے پُرزور اور پُرجوش آتش بازی بھی کی۔ 

کتاب کے مؤلف منیر احمد منیر نے موچی دروازے کے ایک ایسے جلسۂ عام کا بھی چشم دید احوال بیان کیاہے 
جس میں ایک بھی سامع نہ تھا۔

لاہور کے تاریخی دنگلوں، پہلوانوں، غنڈوں، سیاسی و سماجی تحریکوں اور ان کے نمایاں کرداروں کے علاوہ 
لاہور کی کئی قدیمی ہندو شخصیات کے ذکر میں 
بیلی رام تیل والا کی غنڈہ گردی 
اور ساہوکاربلاقی شاہ کی سودخوری کے واقعات بھی دیے گئے ہیں

کہ ممتاز دولتانہ کے والد احمد یار خاں دولتانہ اور مالیرکوٹلہ کے وزیراعظم نواب ذوالفقار علی خاں تک 
اس کے مقروض تھے۔

 اور اس ہندو سرمایہ دار لچھے شاہ کے اعلانِ پاکستان کے بعد 
دیے گئے اس چیلنج کی تفصیل بھی درج ہے 

کہ ''جو شاہ عالمی کو آگ لگائے گا میں اسے بیٹی کا ڈولا دوں گا''۔

 حافظ معراج دین کہتے ہیں:

مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے جواب میں موچی دروازے والوں نے شاہ عالمی جلادیا 
لیکن ہم نے اس کی بیٹیوں کی پوری حفاظت کی۔ 

مستری محمدشریف کہتے ہیں: 

ہندو عورتیں ساڑی پہنتی تھیں۔ مسلمان عورت کی شناخت برقع تھی۔ 

لاہور حیاداری سے اس قدر اٹااٹ تھا کہ رات تک نوجوان لڑکے لڑکیاں لاہور کے سرکلر گارڈن میں کھیلتے۔ 

کوئی لڑکا لڑکی کی طرف بری نظر سے نہ دیکھتا۔ 

پھل دار درختوں اور پھول دار پودوں سے بھرے ہوئے اس تاریخی باغ میں 
رات دس گیارہ بجے تک میں نوجوانوں کو گتکا سکھاتا۔ 

ہریالی اس قدر تھی کہ شیرانوالہ سے ہم داتا صاحبؒ حاضری کے لیے جاتے 
تو سڑک کو شیشم کے درختوں نے ڈھانپ رکھا ہوتا۔ ہم راستہ چھائوں ہی میں طے کرتے۔ 

اب وہ دور نہیں آئے گا۔ 
جب کھوٹ ملاوٹ کا کسی کو پتا ہی نہ تھا۔ جان و مال محفوظ تھی۔ 
زیورات سے لدی عورت کلکتے سے پشاور تک اکیلی جاتی، 
کوئی اس کی طرف نظر بھر کے دیکھتا نہ تھا۔

"مٹتا ہوا لاہور" سے کچھ یادیں

سچا شریک حیات

ایک مرد و عورت کی شادی ہوئی اور انکی زندگی ماشاءاللہ خوشیوں سے بهری تهی.
شوہر ایک دن بیوی سے: تم نے آج نماز نہیں پڑھی۔۔؟؟
بیوی: میں تھک گئی تھی، اس لیے نہیں پڑهی، صبح پڑھ لوں گی۔۔
شوہر کو یہ بات بری لگی مگر اس نے بیوی سے کچھ نہ کہا. خود نماز پڑهی تلاوت کی اور سو گیا.

شوہر دوسرے دن بیوی کے اٹهنے سے پہلے ہی نماز پڑھ کر دفتر کیلئے نکل گیا۔۔
بیوی اٹهی۔ شوہر کو نہ پا کر بہت پریشان ہوئی کہ اس سے پہلے ایسا کبهی نہیں ہوا۔ پریشانی ک عالم میں شوہر کو فون کیا لیکن کال اٹینڈ نہیں ہوئی۔ بار بار کال کی مگر جواب ندارد۔
بیوی کی پریشانی بڑھتی ہی جا رہی تهی۔ کچھ گھنٹے بعد کال کی تو شوہر نے اٹینڈ کی۔
بیوی نے ایک سانس میں نہ جانے کتنے سوال کر دیے.
کہاں تھے آپ۔۔؟
 کتنی کالز کی میں نے جواب نہیں دے سکتے تهے۔ پتہ ہے یہ وقت مجھ پہ کیسے گزرا.۔۔ آپ کو ذرا خیال نہیں. کم سے کم بتا تو سکتے تهے.
 شوہر کی آواز اسکے کانوں میں پڑی کہ تهکا ہوا تها اس لیے لیٹ گیا تو نیند آگئی۔۔
بیوی: دو منٹ کی کال کر کے بتا دیتے تو کتنی تهکاوٹ بڑھ جاتی۔ آپکو مجھ سے ذرا پیار نہیں.

شوہر نے تحمل سے جواب دیا: کل آپ نے بھی تو اس پاک ذات کی کال کو نظرانداز کیا..
کیا آپ نے حی علی الفلاح کی آوازسنی تهی۔۔؟؟ وہ خدا کی کال تهی جو آپ نے تهکاوٹ کی وجہ سے نہیں سنی۔ اس وقت بهی 5 منٹ کی بات تهی.نماز پڑھنے سے آپ کی تهکاوٹ کتنی بڑھ جاتی.؟؟
 کیا آپکو اپنے اس پروردگار سے اتنا پیار بهی نہیں جس نے آپکو سب کچھ دیا. کیا پروردگار کو یہ بات پسند آئی ہو گی.

بیوی پر سکتہ طاری ہو گیا اور روتے ہوئے بولی:
 مجھے معاف کر دیں۔ مجھ سے غلطی ہو گئی۔ میں سمجھ گئی ہوں۔ میں سچے دل سے استغفار کرتی ہوں۔ میرے پروردگار مجهے معاف فرما۔ 

سچا شریک حیات وہی ہے جو آپ کو دنیاوی تحفظ اور خوشیوں کے ساتھ کے آخرت میں  بهی سرخرو کروائے اور آپ کے ساتھ کھڑا ہو اور آپ کو بھٹکنے سے بچائے.
اللہ تعالی ہم سب کو نماز پڑهنے کی توفیق عطا فرمائے.
آمین ثم آمین یارب العالمین

*حقیقی نوٹ:*
اس پوسٹ نے میری زندگی بدل دی۔ میں ساری رات سوچتا رہا کہ میرے رب کو کتنا برا لگتا ہوگا کہ میرا تخلیق کیا گیا بندہ، میرے ہی بلاوے کو نظر انداز کر رہا ہے۔۔
اللّٰہ تعالیٰ میری غلطیوں کو معاف فرمائے۔۔ 

کمال کیا ہے....؟؟؟

👈 _ایک_فارســـــــی_حـــــــکایت_ 👉


ابوسعید ابوالخیر* سے کسی نے کہا؛ 
''کیا کمال کا انسان ھو گا وہ جو ھوا میں اُڑ سکے۔''

ابوسعید* نے جواب دیا؛ 
''یہ کونسی بڑی بات ھے، یہ کام تو مکّھی بھی کر سکتی ھے۔''

''اور اگر کوئی شخص پانی پر چل سکے اُس کے بارے میں آپ کا کیا فرمانا ھے؟

''یہ بھی کوئی خاص بات نہیں ھے کیونکہ لکڑی کا ٹکڑا بھی سطحِ آب پر تیر سکتا ھے۔''

ؔؔ''تو پھر آپ کے خیال میں کمال کیا ھے؟''

''میری نظر میں کمال یہ ھے کہ لوگوں کے درمیان رھو اور کسی کو تمہاری زبان سے تکلیف نہ پہنچے۔
جھوٹ کبھی نہ کہو، کسی کا تمسخر مت اُڑاؤ، کسی کی ذات سے کوئی ناجائز فائدہ مت اُٹھاؤ، یہ کمال ھیں۔

یہ ضروری نہیں کہ کسی کی ناجائز بات یا عادت کو برداشت کیا جائے، یہ کافی ھے کہ کسی کے بارے میں بن جانے کوئی رائے قائم نہ کریں۔

یہ لازم نہیں ھے کہ ھم ایک دوسرے کو خوش کرنے کی کوشش کریں، یہ کافی ھے کہ ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچائیں۔

یہ ضروری نہیں کہ ھم دوسروں کی اصلاح کریں، یہ کافی ھے کہ ھماری نگاہ اپنے عیوب پر ھو۔

حتّیٰ کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ ھم ایک دوسرے سے محبّت کریں، اتنا کافی ھے کہ ایک دوسرے کے دشمن نہ ھوں۔

دوسروں کے ساتھ امن کے ساتھ جینا کمال ھے۔''

Sunday, August 23, 2020

ایک یا دو کام

میں نہیں یقین کرتا کہ بندے کو ایک کام کرنا چاہیے۔ کامیابی صرف ایک کام کرنے سے نہیں ملتی۔ کامیابی کے لیے دوڑ لگانی پڑتی ہے۔ 
جیسے آپ ایم اے کسی مضمون میں یا کسی اور چیز میں کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی کرتے رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ۔ چھوٹے چھوٹے کورس بھی کرتے جائیں۔ اس طرح کیا ہوگا؟ کہ آپ کا ذہن بھی مصروف رہے گا ۔ اور اس کے پاس ہر وقت کوئی نہ کوئی چیلنج ہو گا۔ آپ جب تک اپنا ایم اے مکمل کرتے ہیں اس کے ساتھ آپ کے پاس دوسرے ہنر بھی ہوں گے۔
بالکل اسی طرح آپ ایک بزنس کرتے جائیں گے تو اس میں کامیابی کی ایک حد ہو گی یا شاید آپ کی اس بزنس کےلیے ایک حد ہو ۔ اگر آپ اس کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے چھوٹے بزنس کو بھی ساتھ ہی ہینڈل کرتے ہیں بلکہ کئی دوسرے بزنس ساتھ ساتھ ہینڈل کرتے ہیں تو کامیابی دس گنا ہوگی۔
میرے نزدیک زندگی آرام کرنے کےلیے نہیں ہے۔ صرف کام کرنے کےلیے ہے۔ 
آپ اگر آرام کا ہی مقصد لے کر زندگی کے میدان میں اترتے ہیں تو آپ آرام ہی کر رہے ہوں گے۔ اور آرام تو مُردے کرتے ہیں کوئی زندہ انسان نہیں۔

Saturday, August 22, 2020

معرفتِ الہٰی

ایک صوفی منش ہیڈ ماسٹر کے بارے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہوا، جو بہت سے لوگوں کی زبانی میں نے ان کی وفات کے بعد سنا۔ جب وہ کسی سکول میں استاد تعینات تھے تو انہوں نے اپنی کلاس کا ٹیسٹ لیا۔

ٹیسٹ کے خاتمے پر انہوں نے سب کی کاپیاں چیک کیں اور ہر بچے کو اپنی اپنی کاپی اپنے ہاتھ میں پکڑکر ایک قطار میں کھڑا ہوجانے کو کہا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جس کی جتنی غلطیاں ہوں گی، اس کے ہاتھ پر اتنی ہی چھڑیاں ماری جائیں گی۔

اگرچہ وہ نرم دل ہونے کے باعث بہت ہی آہستگی سے بچوں کو چھڑی کی سزا دیتے تھے. تاکہ ایذا کی بجائے صرف نصیحت ہو، مگر سزا کا خوف اپنی جگہ تھا۔

تمام بچے کھڑے ہوگئے۔ ہیڈ ماسٹر سب بچوں سے ان کی غلطیوں کی تعداد پوچھتے جاتے اور اس کے مطابق ان کے ہاتھوں پر چھڑیاں رسید کرتے جاتے۔

ایک بچہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچے اور اس سے غلطیوں کی بابت دریافت کیا تو خوف کے مارے اس کے ہاتھ سے کاپی گرگئی. گھگیاتے ہوئے بولا:

"جی مجھے معاف کر دیں میرا توسب کچھ ہی غلط ہے۔"

معرفت کی گود میں پلے ہوئے ہیڈ ماسٹر اس کے اس جملے کی تاب نہ لاسکے. اور ان کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ ہاتھ سے چھڑی پھینک کر زاروقطار رونے لگے اور بار بار یہ جملہ دہراتے:

"میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے۔"

روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی۔ اس بچے کو ایک ہی بات کہتے
"تم نے یہ کیا کہہ دیا ہے

، یہ کیا کہہ دیا ہے میرے بچے!"

"میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے"

"اے کاش ہمیں بھی معرفتِ الٰہی کا ذره نصيب ہو جاۓ اور بہترین اور صرف اللّٰه کے لۓ عمل کر کے بھی دل اور زبان سے نکلے…..میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے"..

کسی کا پردہ پاش نہ کریں

ایک مصری عالم کا کہنا تھا کہ مجھے زندگی میں کسی نے لاجواب نہیں کیا سوائے ایک عورت کے جس کے ہاتھ میں ایک تھال تھا جو ایک کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا میں نے اس سے پوچھا تھال میں کیا چیز ہے۔
" وہ بولی اگر یہ بتانا ہوتا تو پھر ڈھانپنے کی کیا ضرورت تھی۔"
" پس اس نے مجھے شرمندہ کر ڈالا "
یہ ایک دن کا حکیمانہ قول نہیں بلکہ ساری زندگی کی دانائی کی بات ہے۔
" کوئی بھی چیز چھپی ہو تو اس کے انکشاف کی کوشش نہ کرو۔"
کسی بھی شخص کا دوسرا چہرہ تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں خواہ آپ کو یقین ہو کہ وہ بُرا ہے یہی کافی ہے کہ اس نے تمہارا احترام کیا اور اپنا بہتر چہرہ تمہارے سامنے پیش کیا بس اسی پر اکتفا کرو۔
ہم میں سے ہر کسی کا ایک بُرا رخ ہوتا ہے جس کو ہم خود اپنے آپ سے بھی چھپاتے ہیں۔
" اللہ تعالٰی دنیا و آخرت میں ہماری پردہ پوشی فرمائے" ورنہ
جتنے ہم گناہ کرتے ہیں اگر ہمیں ایک دوسرے کا پتہ چل جائے تو ہم ایک دوسرے کو دفن بھی نہ کریں۔
جتنے گناہ ہم کرتے ہیں اس سے ہزار گنا زیادہ کریم رب ان پر پردے فرماتا ہے۔
" کوشش کریں کہ کسی کا عیب اگر معلوم بھی ہو تو بھی بات نہ کریں " آگے کہیں آپ کی وجہ سے اسے شرمندگی ہوئی تو کل قیامت کے دن اللہ پوچھ لے گا کہ جب میں اپنے بندے کی پردہ پوشی کرتا ہوں تو تم نے کیوں پردہ فاش کیا؟

خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں

Thursday, August 20, 2020

‎‎ﺍﺻﻞ .......... ﭘﮩﻠﻮﺍﻧﯽ

  ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻣﻈﻔﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎﻧﺪﮬﻠﻮﯼ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﭘﮩﻠﻮﺍﻥ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ، ﻭﮦ ﻏﺴﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺆﺫﻥ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮈﺍﻧﭩﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ، ﻧﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﻧﮧ ﺭﻭﺯﮮ ﮐﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮱ ﺁﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﻣﺆﺫﻥ ﮐﻮ ﺭﻭﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ   ‎‎سپیشل لائک کیلئے یہاں کلک کریں‏  ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﮩﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﯿﮱ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﮭﺮﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺒﺖ ﺁﻣﯿﺰ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ، ﻣﺎﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ ﺗﻢ ﺑﮍﮮ ﭘﮩﻠﻮﺍﻥ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮ، ﻭﯾﺴﮯ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺯﻭﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ ﺫﺭﺍ ﻧﻔﺲ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺯﻭﺭ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭ، ﻧﻔﺲ ﮐﻮ ﺩﺑﺎﯾﺎ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺖ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﺿﺮﻭﺭ ﭘﮍﮬﺎ ﮐﺮﻭ، ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺍﺻﻞ ﭘﮩﻠﻮﺍﻧﯽ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﮯ، ﺍﺗﻨﺎ ﺳﻨﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺷﺮﻡ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﺮﻡ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﺗﻨﺎ ﺍﺛﺮ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺳﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﺎ ﭘﺎﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ، ﺑﻌﺾ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﭘﺮ ﻧﺮﻣﯽ ﮐﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺛﺮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺩﯾﻦ ﺑﯿﺰﺍﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﯿﮱ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺝ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﻧﻈﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮱ، ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮐﯽ ﺳﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺟﯿﺴﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺳﮯ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮨﻤﺪﺭﺩﯼ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ، ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﺻﺎﻟﺤﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮱ ﺁﻣﺎﺩﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻋﻤﻮﻣﺎ ﻧﺮﻡ ﺧﻮﺋﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﻔﻊ ﺑﺨﺶ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﮔﻮ ﮐﮧ ﺑﻌﺾ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﺨﺘﯽ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ.....،

‏ﺍﯾﮏ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﺁﻣﻮﺯ ﺗﺤﺮﯾﺮ‏‎

  ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﮐﺎ ﺫﮐﺮ ﮨﮯ، ﺍﯾﮏ ﺩﺍﻧﺸﻤﻨﺪ ﻣﻀﻤﻮﻥ ﻧﮕﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ- ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﺳﺎﺣﻞ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﭘﺮ ﭼﮩﻞ ﻗﺪﻣﯽ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﻭﮦ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﺮ ﭨﮩﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﻭﺭ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﮨﯿﻮﻻ ﮐﺴﯽ ﺭﻗﺎﺹ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺎ- ﻭﮦ ﻣﺘﺠﺴﺲ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﻮﻥ ﺷﺨﺺ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺩﻥ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﺭﻗﺺ ﺳﮯ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ- ﯾﮧ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻭﮦ ﺗﯿﺰ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﭼﻞ ﭘﮍﺍ- ﻭﮦ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮨﮯ- ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺭﻗﺺ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ- ﻭﮦ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﺮ ﺟﮭﮑﺘﺎ، ﮐﻮﺋﯽ ﺷﮯ ﺍﭨﮭﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺘﺎ۔ ﺩﺍﻧﺶ ﻣﻨﺪ ﺍﺱ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻠﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﭼﮭﺎ" ،ﺻﺒﺢ ﺑﮧ ﺧﯿﺮ ﺟﻮﺍﻥ! ﯾﮧ ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ "؟ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﻗﺪﺭﮮ ﺗﻮﻗﻒ ﮐﯿﺎ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﺍﻧﺶ ﻣﻨﺪ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ "ﺳﺘﺎﺭﮦ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﻮ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ" "ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺗﻢ ﺳﺘﺎﺭﮦ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﻮ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟" " ﺳﻮﺭﺝ ﭼﮍﮪ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻟﮩﺮﯾﮟ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭧ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮭﯿﻨﮑﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ۔" "ﻟﯿﮑﻦ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ! ﯾﮧ ﺳﺎﺣﻞ ﺗﻮ ﻣﯿﻠﻮﮞ ﺗﮏ ﭘﮭﯿﻼ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﮮ ﺳﺎﺣﻞ ﭘﺮ ﺳﺘﺎﺭﮦ ﻣﭽﮭﻠﯿﺎﮞ ﺑﮑﮭﺮﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﯿﮟ ﻣﻤﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﺍﺱ ﮐﻮﺷﺶ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻕ ﭘﮍﮮ " ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺷﺎﺋﺴﺘﮕﯽ ﺳﮯ ﺩﺍﻧﺶ ﻣﻨﺪ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﯽ، ﻧﯿﭽﮯ ﺟﮭﮏ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺳﺘﺎﺭﮦ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭩﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻟﮩﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﭘﻮﺭﯼ ﻗﻮﺕ ﺳﮯ ﺍﭼﮭﺎﻟﺘﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﺑﻮﻻ "ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﻮ ﻓﺮﻕ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ ﻧﺎ " ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭼﮭﺎﺋﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﭼﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﭘﺮ ﻓﺮﻕ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ، ﮐﯿﻮﮞﮑﮧ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭼﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺍُﺱ ﭘﺮ ﺗﻮ ﭘﮍﮮ‎

Tuesday, August 18, 2020

انسان اور اچھے انسان

جب آپ سے کوئی خطا ہو جائے تو سمجھئے کہ آپ انسان ہیں اور جب اس خطا پر آپ کو ندامت و شرمندگی ہو تو سمجھئے کہ آپ ایک اچھے انسان اور اللہ کے محبوب بندے ہیں۔ ایسے میں اپنی خطاؤں پر توبہ کرنے میں جلدی کیجئے اور اللہ سے اپنی گناہوں اور خطاؤن پر معافی مانگئے۔

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: *"تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرتے ہیں"*۔ (سنن ابن ماجه: 4251، سنن ترمذي: 2499)

انسان کبھی خطا سے پاک نہیں ہوتا کیوں کہ فطری طور پر اس میں کمزوری پائی جاتی ہے۔ یہ اس کی فطرت ہے کہ وہ اپنے خالق کی طرف سے مطلوبہ احکامات کو انجام دینے میں غفلت برتتا ہے اور اس کی منع کردہ چیزوں کو ترک نہیں کرتا۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے اور اپنے نبی ﷺ کے ذریعے ہمیں بتایا ہے کہ سب سے بہتر خطا کار وہ ہیں، جو کثرت سے توبہ کرنے والے ہیں۔

اللہ تعالٰی ہمیں کثرت سے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری، ہمارے والدین کی اور تمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے۔ آمین

ان إلا نسان لفى خسر

السلام علیکم!

ہم نے کبھی غور نہیں کیا ہمارے ہر دن کا تیسرا حصہ ہماری غفلت کی نذر ہوتا ہے یعنی اوسطاً لوگ آٹھ گھنٹے  سوتے ہیں اور یہ چوبیس گھنٹے کا تیسرا حصہ بنتا ہے گویا  ایک برس میں چار ماہ کا عرصہ سوتے ہوئے گزرتا ہے اور دس برس میں تین سال اور تیس سال میں دس برس.  اس لیے جب قرآن مجید یہ کہتا ہے (ان إلا نسان لفى خسر)
کہ بے شک انسان خسارے میں ہے اس کی تفسیر کرتے ہوئے امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں (ان الانسان لفی خسر) بے شک انسان خسارے سے الگ ہو ہی نہیں سکتا  اور مزید آگے فرماتے ہیں کہ خسارہ تو اصل جمع پونجی (هو عمره) آدمی کی عمر ہوتی ہے  مگر ہم نے اس میں بہت کم غور کیا ہے اور قرآن مجید کی ایسی آیات ہمیں کس جانب توجہ دلاتی ہے علامہ ابن کثیر نے حضرت امام شافعی رحمہ اللہ علیہ ایک قول سورۃ العصر کے متعلق نقل کیا
کہ لوگ صرف اس سورہ میں غور کر لیں تو یہ انہیں کافی ہے اللہ تعالیٰ نے سورہ العصر میں نصاب زندگی دیا ہے  ارشاد باری تعالیٰ ہے ... قسم ہے زمانے کی کہ انسان خسارے میں ہے. ..
اور پھر خسارے سے پچنے کا نصاب عطا فرمایا کہ اگر خسارے سے پچنا چاہتے ہو تو 4 چیزوں کو لازم پکڑو. 
1.الاالدین امنوا. .....مگر وہ لوگ ایمان لائے. 
2.وعملوالصلحت. ....اور وہ لوگ جنہوں نے عمل صالح کیے. 
3.وتواصوابلحق. ...اور حق کی وصیت کی.
4.وتواصوابلصبر....اور صبر کی وصیت کی. 
ایمان عمل صالح  حق کی وصیت اور صبر کی وصیت ان کو عملی جامہ پہنانے سے آدمی خسارے سے بچ سکتا ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب آدمی اپنے باطن کو آباد کر لیتا ہے جب ذکر اللہ سے قلب کو پاک کر لیتا ہے