Sunday, September 6, 2020

کچھ لوگ......

✨ﮐُﭽﮫ ﻟﻮﮒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ﮔُﻼﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ___
ﺍِن کا ﻧﺎﻡ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍِﺭﺩﮔﺮﺩ ﺧُﻮﺷﺒﻮ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ___💫

✨ﮐُﭽﮫ ﻟﻮﮒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ﮔﮭﭩﺎﺅﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ___
ﺟﻮ ﺩُﻭﺳﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺍِس ﻄﺮﺡ ﺑﺮﺳﺘﮯ ﮨﯿﮟ___
ﮐﮧ ﺯِﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺳﺨﺖ ﺩُﮬﻮﭖ ﻧﺮﻡ ﭼﮭﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ___

✨ﮐُﭽﮫ ﻟﻮﮒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ﺳِﺘﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ___
ﺟﻮ ﺩُﻭﺭ ﺳﮯ ﭼﻤﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﮯ___💫

✨ﮐُﭽﮫ ﻟﻮﮒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ__
ﻭﮦ ﭼﺎﮨﮯ ﮨﻢ ﺳﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﺩﻭﺭ ہی ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ_
ﺩِﻝ ﺍُﻧﮑﯽ ﺭُﻭﺡ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﭧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯلیئے ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ___💫

✨ﮐُﭽﮫ ﻟﻮﮒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ﺧﻄﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ___
ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﺩِﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺮﺗﺎ___
ﺍﻭﺭ ﺩِﻝ ﭼﺎہتا ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﯿﮟ____💫

✨ﮐُﭽﮫ ﻟﻮﮒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ﻧﮕﺎﮦ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ___
"ﻭﮦ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣِﻞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ💫

✨کچھ نئے لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔!
ہماری زندگی میں پُرانےلوگوں کی قدر بڑھانے کے لیئے آتے ہیں__💫

Saturday, September 5, 2020

درد

"درد" کا پہلا "د" نکال دیں تو"رد"بنتا ہے دوسرا "د" نکال دیں تو "در" بنتا ہے کسی کے"در"سے جب انسان"رد"کردیا جاتا ہے تو"درد"ملتا ہے اور یہی"درد"انسان کو اللہ کے"در"سے جوڑ دیتا ہے جہاں"رد" نہیں کیا جاتا ۔

شوہر کا مقام

ایک پرانے اور بوسیده مکان میں ایک غریب مزدور رهتا تھا،

مکان کیا تھا،بس آثار قدیمه کا کھنڈر هی تھا. 
غریب مزدور جب سرشام گھر لوٹتا
 اس کی بیوی معصومیت سے کهتی: اب تو گھر کا دروازه لگوادیں، کب تک اس لٹکے پردے کے پیچھے رهنا پڑے گا،
اور هاں! اب تو پرده بھی پرانا هو کر پھٹ گیا هے. مجھے خوف هے کهیں چور هی گھر میں نه گھس جائے"
شوهر مسکراتے هوئے جواب دیتا : 
میرے هوتے هوئے بھلا تمهیں کیا خوف؟ فکر نه کرو میں هوں نا تمهاری چوکھٹ"
غرض کئی سال اس طرح کے بحث ومباحثے میں گزر گئے،
 ایک دن بیوی نے انتهائی اصرار کیا که گھر کا دروازه لگوادو.
بالآخر شوهر کو هار ماننا پڑی اور اس نے ایک اچھا سا درازه لگا دیا.اب بیوی کا خوف کم هوا اور شوهر کے مزدوری پر جانے کے بعد گھر میں خود کو محفوظ تصور کرنے لگی.
ابھی کچھ سال گزرے تھے که اچانک شوهر کا انتقال هوگیا.اور گھر کا چراغ بجھ گیا، عورت گھر کا دروازه بند کیے پورا دن کمرے میں بیٹھی رهتی،
ایک رات اچانک چور دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل هوگیا، اس کے کودنے کی آواز پر عورت کی آنکھ کھل گئی،اس نے شور مچایا.محلے کے لوگ آگئے،اور چور کو پکڑ لیا.جب دیکھا تو معلوم هوا که وه چور پڑوسی هے.
اس وقت عورت کو احساس هوا که چور کے آنے میں اصل رکاوٹ دروازه نهیں میرا شوهر تھا.
اس چوکھٹ سے زیاده مضبوط وه چوکھٹ(شوهر) تھی.
شوهر میں لاکھ عیب هوں لیکن حقیقت یهی هے که مضبوط چوکھٹ یهی شوهر هیں،
دعا ہے !!!
اللہ رب العزت ہماری بہنوں کو شوہر کی قدر و منزلت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں 
آمین.

مکافات کی چکی

۔    👈 *مکافات کی چکی چلتی آہستہ ہے لیکن پیستی بہت باریک ہے*۔👉

امی آج تو بھائی نے بھابھی کو خوب مارا ہےصغیرہ نے مسکراتے ہوئے اپنی امی کو بتایا اچھا ہوابہت اتراتی تھی میں نے ہی تیرے بھائی سے کہا تھا کہ زیادہ جورو کا غلام بن کے مت رہا کر، پیار کے ساتھ غصہ اور ناراضگی بھی ضروری ہے، کبھی کبھی ڈانٹ ڈپٹ بھی ہونی چاہیے لیکن تیرے بھائی نے تھوڑی بات کو زیادہ سمجھا اور میں تو کہتی ہوں اچھا ہی کیا دو چار اور مارنے چاہیے تھے...

صغیرہ نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا اور بات بلکہ کہا جائے اس سازش میں حصہ لیتے ہوئے معلومات میں مزید اضافہ کیا بھائی تو بھابھی کو چھوڑنے کے لیے بھی کہہ رہے تھےمیں تو کہتی ہوں اگر ایسا ہوا تو اچھا ہی ہوگا اس سے پہلے کہ ماں کوئی جواب دیتی تبھی فون کی گھنٹی بجی ماں نے گھنٹی کی آواز سن کر صغیرہ سے کہا دیکھ کس کا فون ہے...

اس وقت کون ہوسکتا ہے شاید باجی کا فون ہو ان کو بھی یہ خوش خبری سناتی ہوں صغیرہ سرگوشی کے انداز میں گنگناتی ہوئی اٹھی باجی کا نمبر دیکھ کر فون اٹھایااور چہک کر کہا ہیلو لیکن ادھر کی بات سن کر چیخ ماری ماں نے گھبراتے ہوئے پوچھا کیا ہوا صغیرہ خیر تو ہےصغیرہ نے روتے اور ہکلاتے ہوئے بتایا امی جان باجی باجی وہ باجی کو ان کے شوہر نے بہت مارا ہے اور طلاق دینے کا کہہ رھے ھیں.
اب بھی کوئ نا سمجھے تو اسکی کم عقلی.

حـــــــکایات رومـــــــیؒ


ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺭﻭﻣﯽؒ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ!
"ﺍﯾﮏ ﺷﯿﺮﯾﮟ ﺯﺑﺎﻥ ﺁﺩﻣﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﺩﺭﺯﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﺰﮮ ﺩﺍﺭ ﻗﺼﮯ ﺳﻨﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ،
ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﮔﻮ ﺍﺗﻨﯽ ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﺭﮐﻬﺘﺎ ﺗﻬﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﺍﭼﻬﺎ ﺧﺎﺻﺎ ﺩﺭﺯﯼ ﻧﺎﻣﮧ ﻣﺮﺗﺐ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﻬﺎ۔
ﺟﺐ ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺩﺭﺯﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﻮﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﮑﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﮔﺎﮨﮑﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﭙﮍﺍ ﻏﺎﺋﺐ ﮐﺮ 
ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﺍﻥ ﮔﻨﺖ ﻗﺼﮯ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮ ﮈﺍﻟﮯ، تب ﺳﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﮏ ﺧﻄﺎ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺗﺮﮎ ﺟﺴﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﺍﻧﺶ ﻭ ﺫﮨﺎﻧﺖ ﭘﺮ ﺑﮍﺍ ﻧﺎﺯ ﺗﻬﺎ، ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ؛ "ﺍﺱ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﮔﺮﻭ ﺩﺭﺯﯼ ﮐﻮﻧﺴﺎ ﮨﮯ؟"
ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﮔﻮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ؛ "ﯾﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮨﺮ ﻓﻦ ﺍﺱ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﮔﻠﯽ ﮐﻮﭼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﯿﮟ، ﻟﯿﮑﻦ ﭘﻮﺭﺵ ﻧﺎﻣﯽ ﺩﺭﺯﯼ ﺑﮍﺍ ﻓﻨﮑﺎﺭ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﭨﮯ ﮐﺎ ﻣﻨﺘﺮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﮐﮧ ﮐﭙﮍﺍ ﺗﻮ ﮐﭙﮍﺍ ﺁﻧﮑﻬﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﺎﺟﻞ ﺗﮏ ﭼﺮﺍ ﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﻮﺭﯼ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﻧﮧ ﻟﮕﻨﮯ ﺩﮮ۔"
ﺗﺮﮎ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ؛ "ﻟﮕﺎ ﻟﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺷﺮﻁ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﭙﮍﺍ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺎؤﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮑﻬﻮﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﯿﻮﻧﮑﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﻬﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﻫﻮﻝ جﻬﻮﻧﮏ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﺍ ﭼﺮﺍﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺎﮞ! ﮐﭙﮍﺍ ﺗﻮ ﺩﺭﮐﻨﺎﺭ ﺍﯾﮏ ﺗﺎﺭ ﺑﻬﯽ ﻏﺎﺋﺐ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ۔" 
ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﻧﮯ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺳﻨﺎ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ؛ "ﺍﺭﮮ ﺑﻬﺎﺋﯽ! زﯾﺎﺩﮦ ﺟﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﺁ ، ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﻬﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﺩﻋﻮﯼٰ ﮐﺮﺗﮯ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺩﺭﺯﯼ ﺳﮯ ﭼﻮﭦ ﮐﻬﺎ ﮔﺌﮯ۔ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻘﻞ ﻭ ﺧﺮﺩ ﭘﺮ ﻧﮧ ﺟﺎ، ﺩﻫﻮﮐﺎ ﮐﻬﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔"
ﻣﺤﻔﻞ ﺑﺮﺧﺎﺳﺖ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﺮﮎ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﻬﺮ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﭘﯿﭻ ﻭ ﺗﺎﺏ ﺍﻭﺭ ﻓﮑﺮ ﻭ ﺍﺿﻄﺮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﮔذﺍﺭﯼ۔ ﺻﺒﺢ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺍﻃﻠﺲ ﮐﺎ ﮐﭙﮍﺍ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﺵ ﺩﺭﺯﯼ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﭘﻮﭼﻬﺘﺎ ﭘﻮﭼﻬﺘﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ۔
ﺩﺭﺯﯼ ﺍﺱ ﺗﺮﮎ ﮔﺎﮨﮏ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﻬﺘﮯ ﮨﯽ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺍﺩﺏ ﺳﮯ ﮐﻬﮍﺍ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺗﺴﻠﯿﻤﺎﺕ ﺑﺠﺎ ﻻﯾﺎ۔ ﺩﺭﺯﯼ ﻧﮯ ﺧﻮﺵ ﺍﺧﻼﻗﯽ ﻭ ﺗﻌﻈﯿﻢ ﻭ ﮐﺮﯾﻢ ﮐﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﻈﺎﮨﺮﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺗﺮﮎ ﺑﮯﺣﺪ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮨﻮﺍ اور ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﯾﮧ ﺷﺨﺺ ﺗﻮ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﻋﯿﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﺩﻏﺎﺑﺎﺯ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ۔ ﻟﻮﮒ ﺑﻬﯽ ﺧﻮﺍﮦ ﻣﺨﻮﺍﮦ ﺭﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﭘﮩﺎﮌ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ اور ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺍﻃﻠﺲ ﺩﺭﺯﯼ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﺩﻫﺮ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ؛ "ﺍﺱ ﺍﻃﻠﺲ ﮐﯽ ﻗﺒﺎ ﻣﺠﻬﮯ ﺳﯽ ﺩﯾﮟ۔"
ﺩﺭﺯﯼ ﻧﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﺩﺏ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﺎﻧﺪﻫﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ؛ "ﺣﻀﻮﺭ ﻗﺒﺎ ﺍﯾﺴﯽ ﺳﯿﻮﮞ ﮔﺎ، ﺟﻮ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﭘﺮ ﺯﯾﺐ ﺩﮮ ﮔﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺩﯾﮑﻬﮯ ﮔﯽ۔"
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﭙﮍﺍ ﮔﺰ ﺳﮯ ﻧﺎﭘﺎ ﭘﻬﺮ ﮐﺎﭨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﺎ ﺑﺠﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻧﺸﺎﻥ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ اور ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺩﻫﺮ ﺍﺩﻫﺮ ﮐﮯ ﭘﺮﻟﻄﻒ ﻗﺼﮯ ﭼﻬﯿﮍ ﺩﯾﺌﮯ۔ ﮨﻨﺴﻨﮯ ﮨﻨﺴﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ، ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﮎ ﮐﻮ ﺑﮯﺣﺪ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔
ﺟﺐ ﺩﺭﺯﯼ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﯽ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﺩﯾﮑﻬﯽ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻣﺰﺍﺣﯿﮧ ﻟﻄﯿﻔﮧ ﺳﻨﺎﯾﺎ ﺟﺴﮯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺗﺮﮎ ﮨﻨﺴﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﻨﺪﻫﯽ ﭼﻨﺪﻫﯽ ﺁﻧﮑﻬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﻬﯽ ﻣﭻ ﮔﺌﯿﮟ۔ ﺩﺭﺯﯼ ﻧﮯ ﺟﻬﭧ ﭘﭧ ﮐﭙﮍﺍ ﮐﺎﭨﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﻥ ﺗﻠﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﺩﺑﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﺎ۔ ﻏﺮﺽ کہ ﺍﺱ ﭘﺮﻟﻄﻒ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﺳﺮﺍﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﮎ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﺻﻞ ﻣﻘﺼﺪ ﺍﻭﺭ ﺩﻋﻮﯼٰ ﻓﺮﺍﻣﻮﺵ ﮐﺮ بیٹھا۔
ﮐﺪﻫﺮ ﮐﯽ ﺍﻃﻠﺲ۔۔!! 
ﮐﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﺷﺮﻁ..!!
ﮨﻨﺴﯽ ﻣﺬﺍﻕ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻏﺎﻓﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺗﺮﮎ ﺩﺭﺯﯼ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ، ﺍﯾﺴﯽ ﮨﯽ ﻣﺰﯾﺪﺍﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﺎٶ..!
ﺩﺭﺯﯼ ﻧﮯ ﭘﻬﺮ ﭼﺮﺏ ﺯﺑﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻣﻈﺎﮨﺮﮦ ﮐﯿﺎ، ﺗﺮﮎ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﻨﺴﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﻬﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ۔
ﮨﻮﺵ ﻭ ﺣﻮﺍﺱ ﺭﺧﺼﺖ..!!
ﻋﻘﻞ ﻭ ﺧﺮﺩ ﺍﻟﻮﺩﺍﻉ..!!
ﺍﺱ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺩﺭﺯﯼ ﻧﮯ ﭘﻬﺮ ﮐﭙﮍﺍ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺭﺍﻥ ﺗﻠﮯ ﺩﺑﺎ ﻟﯿﺎ۔
ﺗﺮﮎ ﻧﮯ ﭼﻮﺗﻬﯽ ﺑﺎﺭ ﻣﺬﺍﻕ ﮐﺎ ﺗﻘﺎﺿﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺩﺭﺯﯼ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﺣﯿﺎ ﺁ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ؛ "ﻣﺰﯾﺪ ﺗﻘﺎﺿﺎ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺍﮔﺮ ﮨﻨﺴﯽ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺗﯿﺮﯼ ﻗﺒﺎ ﺗﻨﮓ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ۔"

ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺭﻭﻣﯽؒ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ؛
ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮ ﻭﮦ ﺗﺮﮐﯽ ﮐﻮﻥ ﺗﻬﺎ..!!
ﺩﻏﺎﺑﺎﺯ ﺩﺭﺯﯼ ﮐﻮﻥ ﺗﻬﺎ..!!
ﺍﻃﻠﺲ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺴﻨﯽ ﻣﺬﺍﻕ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ..!!
ﻗﯿﻨﭽﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻗﺒﺎ ﮐﯿﺎ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ..!!
تو ﺳﻨﻮ!
ﻭﮦ ﻏﺎﻓﻞ ﺗُﺮﮎ ﺗﯿﺮﯼ ﺫﺍﺕ ﮨﮯ، ﺟﺴﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻘﻞ ﻭ ﺧﺮﺩ ﭘﺮ بڑا ﺑﻬﺮﻭﺳﮧ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﻋﯿﺎﺭ ﺩﻫﻮﮐﮧ ﺑﺎﺯ ﺩﺭﺯﯼ ﯾﮧ ﺩﻧﯿﺎﺋﮯ ﻓﺎﻧﯽ ﮨﮯ، ﮨﻨﺴﯽ ﻣﺬﺍﻕ ﻧﻔﺴﺎﻧﯽ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﮨﯿﮟ، ﺗﯿﺮﯼ ﻋﻤﺮِ ﺍﻃﻠﺲ ﭘﺮ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﺩﺭﺯﯼ ﮐﯽ ﻗﯿﻨﭽﯽ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ ﭼﻞ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺩﻝ ﻟﮕﯽ ﮐﺎ ﺷﻮﻕ ﺗﯿﺮﯼ ﻏﻔﻠﺖ ﮨﮯ، ﺍﻃﻠﺲ ﮐﯽ ﻗﺒﺎ ﺗﺠﻬﮯ ﺑﻬﻼﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮑﯽ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﻠﻮﺍﻧﯽ ﺗﻬﯽ اور ﻭﮦ ﻓﻀﻮﻝ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﻭﺭ ﻗﮩﻘﮩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺎﮦ ﻭ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔
ﺍﮮ ﻋﺰﯾﺰ!
ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﺵ ﻭ ﺣﻮﺍﺱ ﺩﺭﺳﺖ ﮐﺮ، ﻇﺎﮨﺮ ﮐﻮ ﭼﻬﻮﮌ، ﺑﺎﻃﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺗﻮﺟﮧ ﮐﺮ، ﺗﯿﺮﯼ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﻋﻤﺮ ﮐﯽ ﺍﻃﻠﺲ ﻟﯿﻞ ﻭ ﻧﮩﺎﺭ ﮐﯽ ﻗﯿﻨﭽﯽ ﺳﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﻣﮑﺎﺭ ﺩﺭﺯﯼ ﭨﮑﮍﮮ ﭨﮑﮍﮮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭼﺮﺍﺋﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﮨﻨﺴﯽ ﻣﺬﺍﻕ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﮨﮯ..!!
(حکایات رومیؒ)

*نوٹ:* 
اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے 

Friday, September 4, 2020

مبارک محفل

حضرت  محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھ کر کبھی کبھار دنیاوی باتیں اور  مزاح فرمایا کرتے تھے۔ یوں بھی ہوتا کہ وہ مجلس مستقل ایک واقعہ اور قصہ  بن جایا کرتی۔
 ایک مرتبہ نبی کریمؐ اپنے رفقاء سیدنا ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمانؓ کی معیت میں علیؓ کے گھر تشریف لے گئے۔
 سیدنا علیؓ کی اہلیہ سیدہ فاطمہؓ نے شہد کا ایک پیالہ ان حضرات کی مہمان  داری کی خاطر پیش کیا۔ شہد اور خوبصورت چمکدار پیالہ۔۔۔ اتفاق سے اس پیالے  میں اک بال گرگیا۔
 آپؐ نے وہ پیالہ خلفائے راشدین کے سامنے رکھا اور فرمایا: آپ میں سے ہر ایک اس پیالے کے متعلق اپنی رائے پیش کرے۔
 ابوبکر صدیقؓ فرمانے لگے کہ میرے نزدیک مومن کا دل اس پیالے کی طرح چمکدار  ہے، اور اس کے دل میں ایمان شہد سے زیادہ شیریں ہے، لیکن اس ایمان کو موت  تک باحفاظت لے جانا بال سے زیادہ باریک ہے۔
 عمرؓ فرمانے لگے کہ حکومت  اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے اور حکمرانی شہد سے زیادہ شیریں ہے لیکن حکومت  میں عدل وانصاف کرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
 عثمانؓ فرمانے لگے کہ  میرے نزدیک علم دین، اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے، اور علم دین سیکھنا شہد  سے زیادہ میٹھا ہے لیکن اس پر عمل کرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
 علیؓ نے  فرمایا: میرے نزدیک مہمان اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے اور اس کی مہمان  نوازی شہد سے زیادہ شیریں ہے اور ان کو خوش کرنا بال سے زیادہ باریک ہے۔
 سیدہ فاطمہؓ فرمانے لگیں کہ یارسول اللہ، اگر اجازت ہو تو میں بھی کچھ عرض  کروں؟ آپؐ کے اجازت دینے پر فرمانے لگیں کہ عورت کے حق میں حیا اس پیالے  سے زیادہ چمکدار ہے۔ اور اس کے چہرے پر پردہ شہد سے زیادہ میٹھا ہے اور غیر  مرد کی اس پر نگاہ نہ پڑے یہ بال سے بھی زیادہ باریک ہے ۔
 کیا خوب ہی محفل تھی، جب خلفائے راشدین اپنی رائے کا اظہار کرچکے تو آپؐ کی طرف متوجہ ہوئے۔
 ادھر سرکار دو عالمؐ کے لب مبارک ہے تو زبان نبوت سے یہ الفاظ مبارک نکلے  کہ معرفت اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے اور معرفت الٰہی کا حاصل ہونا اس شہد  سے زیادہ میٹھا ہے، اور معرفت الٰہی کے بعد اس پر عمل کرنا، بال سے زیادہ  باریک ہے۔
 ادھر زمین پر یہ مبارک محفل سجی تھی ادھر رب ذوالجلال سے  جبریلؑ بھی اجازت لے کر آپہنچے اور فرمانے لگے کہ ''میرے نزدیک راہ اللّه چمکدار سے زیادہ روشن ہے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور اپنا مال و اپنی  جان قربان کرنا شہد سے زیادہ شیریں اور اس پر استقامت بال سے زیادہ باریک  ہے۔''
 جب زمین پر سجی اس محفل میں سب اپنی رائے کا اظہار کرچکے تو  جبریل امین فرمانے لگے کہ یارسول! اللہ تعالیٰ بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں،  فرمایا کہ جنت اس پیالے سے زیادہ چمکدار ہے اور جنت کی نعمتیں اس شہد سے  زیادہ شیریں ہیں، لیکن جنت تک پہنچنے کے لیے پل صراط سے گزرنا بال سے زیادہ  باریک ہے۔
 بلاشبہ یہ مجلس بھی مبارک اور ہر ایک کی گفتگو بھی مبارک،  اس مجلس میں جہاں آقا نامدارؐ تھے وہیں صحابہ بھی تھے، آپ کی یہ مجلس اور  اس میں ہونے والی گفتگو ہم سب کیلیے مشعل راہ ہے۔ 
 (بکھرے موتی ص 938)

ادلے کا بدلہ

ایک لومڑی ایک چیل کی سہیلی بن گئی۔ دونوں میں اتنا پیار ہوا کہ ایک دوسرے کے بغیر رہنا مشکل ہو گیا۔ ایک دن لومڑی نے چیل سے کہا۔

"کیوں نہ ہم پاس رہیں۔ پیٹ کی فکر میں اکثر مجھے گھر سے غائب رہنا پڑتا ہے۔ میرے بچے گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں اور میرا دھیان بچوں کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ کیوں نہ تم یہیں کہیں پاس ہی رہو۔ کم از کم میرے بچوں کا تو خیال رکھو گی۔"

چیل نے لومڑی کی بات سے اتفاق کیا اور آخرکار کوشش کرکے رہائش کے لیے ایک پرانا پیڑ تلاش کیا جس کا تنا اندر سے کھوکھلا تھا۔ اس میں شگاف تھا۔ دونوں کو یہ جگہ پسند آئی۔ لومڑی اپنے بچوں کے ساتھ شگاف میں اور چیل نے پیڑ پر بسیرا کر لیا۔

کچھ عرصہ بعد لومڑی کی غیر موجودگی میں چیل جب اپنے گھونسلے میں بچوں کے ساتھ بھوکی بیٹھی تھی، اس نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے لومڑی کا ایک بچہ اٹھایا اور گھونسلے میں جا کر خود بھی کھایا اور بچوں کو بھی کھلایا۔ جب لومڑی واپس آئی تو ایک بچہ غائب پایا۔ اس نے بچے کو ادھر ادھر بہت تلاش کیا مگر وہ نہ ملا۔ آنکھوں سے آنسو بہانے لگی۔ چیل بھی دکھاوے کا افسوس کرتی رہی۔

دوسرے دن لومڑی جب جنگل میں پھر شکار کرنے چلی گئی اور واپس آئی تو ایک اور بچہ غائب پایا۔ تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کا ایک اور بچہ غائب ہو گیا۔ چیل لومڑی کے سارے بچے کھا گئی۔ لومڑی کو چیل پر شک جو ہوا تھا، وہ پختہ یقین میں بدل گیا کہ اس کے تمام بچے چیل ہی نے کھائے ہیں مگر وہ چپ رہی۔ کوئی گلہ شکوہ نہ کیا۔ ہر وقت روتی رہتی اور خدا سے فریاد کرتی رہتی کہ ۔

"اے خدا! مجھے اڑنے کی طاقت عطا فرما تاکہ میں اپنی دوست نما دشمن چیل سے اپنا انتقام لے سکوں۔"
خدا نے لومڑی کی التجا سن لی اور چیل پر اپنا قہر نازل کیا۔ ایک روز بھوک کے ہاتھوں تنگ آ کر چیل تلاش روزی میں جنگل میں اڑی چلی جا رہی تھی کہ ایک جگہ دھواں اٹھتا دیکھ کر جلدی سے اس کی طرف لپکی۔ دیکھا کچھ شکاری آگ جلا کر اپنا شکار بھوننے میں مصروف ہیں۔

چیل کا بھوک سے برا حال تھا۔ بچے بھی بہت بھوکے تھے۔ صبر نہ کرسکی۔ جھپٹا مارا اور کچھ گوشت اپنے پنجوں میں اچک کر گھونسلے میں لے گئی۔ ادھر بھنے ہوئے گوشت کے ساتھ کچھ چنگاریاں بھی چپکی ہوئی تھیں۔ گھونسلے میں بچھے ہوئے گھاس پھوس کے تنکوں کو آگ لگ گئی۔ گھونسلا بھی جلنے لگا۔ ادھر تیز تیز ہوا چلنے لگی۔ گھونسلے کی آگ نے اتنی فرصت ہی نہ دی کہ چیل اپنا اور اپنے بچوں کا بچاؤ کر سکے۔ وہیں تڑپ تڑپ کر نیچے گرنے لگے۔ لومڑی نے جھٹ اپنا بدلہ لے لیا اور انہیں چبا چبا کر کھا گئی
*حـــــــاصـــــــک کـــــــلام​:*
جو کسی کے لیے کنواں کھودتا ہے، خود بھی اسی میں جا گرتا ہے۔ اس لیے سیانوں نے کہا ہے کہ برائی کرنے سے پہلے سوچ لے کہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے.

خاموش دوست

جوانی میں انسان باپ کو شک کی نگاہ سے دیکھتا رہتا ہے , جیسے باپ کو ہمارے مسائل ,تکلیفوں یا ضرورتوں کا احساس ہی نہیں . یہ نئے دور کے تقاضوں کو نہیں سمجھتا

کبھی  کبھی ہم اپنے باپ کا موازنہ بھی کرنا شروع کر دیتے ہیں , " اتنی محنت ہمارے باپ نے کی ہوتی , بچت کی ہوتی , کچھ بنایا ہوتا* 
      *تو آج ہم بھی ... فلاں کی طرح عالیشان گھر , گاڑی میں گھوم رہے ہوتے "*  
    *" کہاں ہو ? کب آؤ گے ? زیادہ دیر نہ کرنا " جیسے سوالات انتہائی فضول اور فالتو سے لگتے ہیں* 

    *" سویٹر تو پہنا ہے کچھ اور بھی پہن لو سردی بہت ہے "  انسان سوچتا ہے کہ اولڈ فیشن کی وجہ سے والد کو باہر کی دنیا کا اندازہ نہیں* 

    *اکثر اولادیں اپنے باپ کو ایک ہی معیار پر پرکھتی ہیں  , گھر ,گاڑی ,پلاٹ , بینک بیلنس , کاروبار اور اپنی ناکامیوں کو باپ کے کھاتے میں ڈال کر* 
    *خود سُرخرو ہو جاتے ہیں "  ہمارے پاس بھی کچھ ہوتا تو اچھے اسکول میں پڑھتے , کاروبار کرتے "* 
    *اس میں شک نہیں* 
    *اولاد کے لئے آئیڈیل بھی ان کا باپ ہی ہوتا ہے لیکن کچھ باتیں , جوانی میں سمجھ نہیں آتیں یا ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے , اس ليے کہ ہمارے سامنے , وقت کی ضرورت ہوتی ہے , دنیا سے مقابلے کا بُھوت سوار ہوتا ہے* 
    *جلد سے جلد سب کچھ پانے کی جستجو میں ہم کچھ کھو بھی رہے ہوتے ہیں , جس کا احساس بہت دیر سے ہوتا ہے* 

    *بہت سی اولادیں , وقتی محرومیوں کا  پہلا  ذمّہ دار اپنے باپ کو قرار دے کر ,ہر چیز سے بری الزمہ ہو جاتی ہیں* 

    *وقت گزر جاتا ہے , اچھا بھی برا بھی , اور اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ انسان پلک  جھپکتے ماضی کی کہانیوں کو اپنے ارد گِرد منڈلاتے دیکھنا شروع کر دیتا ہے*      
    
     *جوانی , پڑھائی , نوکری , شادی , اولاد اور پھر وہی اسٹیج ، وہی کردار , جو نِبھاتے ہوئے , ہر لمحہ , اپنے باپ کا  چہرہ آنکھوں کے سامنے آ آ کر , باپ کی  ہر سوچ , احساس , فکر , پریشانی , شرمندگی اور اذیّت کو ہم پر کھول کے رکھ دیتا ہے* 

    *باپ کی کبھی کبھی بلا وجہ خاموشی , کبھی پرانے دوستوں میں بے وجہ قہقہے*  
    *اچھے کپڑوں کو ناپسند کرکے ,پرانوں کو فخر سے پہننا , کھانوں میں اپنی سادگی پر فخر*  
    *کبھی کبھی سر جُھکائے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں میں مگن ہونے کی وجہ* 
    *کبھی بغیر وجہ تھکاوٹ کے بہانے سرِ شام بتّی بجھا کر لیٹ جانا* 

    *نظریں جھکائے , انتہائی محویت سے , ڈوب کر قران کی تلاوت کرنا ,  سمجھ تو آنا شروع ہو جاتا ہے لیکن بہت دیر بعد* 

    *جب ہم خود راتوں کو جاگ جاگ کر , دوسرے شہروں میں گئے بچوں پر آیت الکرسی کے دائرے پھونکتے ہیں* 
    *جب ہم سردی میں وضو کرتے ہوئے اچانک سوچتے ہیں , پًوچھ ہی لیں " بیٹا  آپ کے ہاں  گرم پانی آتا ہے ؟ "* 

    *جب قہر کی گرمی میں رُوم کولر کی خنک ہوا بدن کو چُھوتی ہے تو پہلا احساس جو دل و دماغ میں ہلچل سی مچاتا ہے , وہ " کہیں اولاد گرمی میں تو نہیں بیٹھی "* 

    *جوان اولاد کے مستقبل , شادیوں کی فکر , ہزار تانے بانے جوڑتا باپ , تھک ہار کر اللّه اور اس کی پاک کلام میں پناہ ڈھونڈتا ہے* 
    *تب یاد آتا ہے , ہمارا باپ بھی ایک ایک حرف , ایک ایک آیت پر , رُک رْک کر , بچوں کی سلامتی , خوشی , بہتر مستقبل کی دعائیں ہی کرتا ہوگا* 

    *ہر نماز کے بعد , اُٹھے کپکپاتے ہاتھ ,اپنی دعاؤں کو بھول جاتے ہونگے , ہماری طرح ہمارا باپ بھی ایک ایک بچے کو , نمناک آنکھوں سے اللّه کی پناہ میں دیتا ہوگا*  

    *سرِ شام کبھی کبھی , کمرے کی بتّی بُجھا کر , اس فکر کی آگ میں جلتا ہوگا کہ میں نے اپنی اولاد کے لئے بہت کم کِیا ؟*  

    *اولاد کو باپ بہت دیر سے یاد آتا ہے , اتنی دیر سے کہ ہم اسے چْھونے , محسوس کرنے , اسکی ہر تلخی , اذیت , فکر کا ازالہ کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں* 

     *یہ ایک عجیب احساس ہے , جو وقت کے بعد اپنی اصل شکل میں ہمیں بےچین ضرور کرتا ہے* 
    *لیکن یہ حقیقتیں جن پر بروقت عیاں ہو جائیں وہی خوش قسمت اولادیں ہیں* 

    *اولاد ہوتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں
 باپ کا چھونا , پیار کرنا , دل سے لگانا , یہ تو بچپن کی باتیں ہیں* 

    *باپ بن کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں* 
    *پتہ نہیں باپ نے کتنی دفعہ دل ہی دل میں , ہمیں چھاتی سے لگانے کو بازو کھولے ہونگے ؟* 
    *پیار کے لئے اس کے ہونٹ تڑپے ہونگے* 
    *اور ہماری بے باک جوانیوں نے اسے یہ موقع نہیں دیا ہوگا*

    *ہم جیسے درمیانے طبقے کے سفید پوش لوگوں کی* 
    *ہر خوائش , ہر دعا , ہر تمنا , اولاد سے شروع ہو کر , اولاد پر ہی , ختم ہو جاتی ہے*  

    *لیکن کم ہی باپ ہونگے جو یہ احساس اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں دلا سکے ہوں*  
    *یہ ایک چُھپا ,میٹھا میٹھا درد ہے جو باپ اپنے ساتھ لے جاتا ہے* 
    *اولاد کے  ليے, بہت کچھ کر کے بھی کچھ نہ کرسکنے کی ایک خلش , آخری وقت تک ایک باپ کو بے چین رکھتی ہے , اور* 
    *یہ سب بہت شدت سے محسوس ہوتا ہے*  
    *جب ہم باپ بنتے ہیں . بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں*  
    *تو باپ کے دل کا حال جیسے قدرت ہمارے دلوں میں منتقل کر دیتی ہے*  

    *اولاد اگر باپ کے دل میں اپنے لئے محبت کو کھلی آنکھوں سے , وقت پر دیکھ لے* 
    *تو شاید اسے یقین ہو جائے کہ دنیا میں باپ سے زیادہ اولاد کا کوئی دوست نہیں ہوتا*       

_*ھمیشہ ٹوٹ کے ماں باپ کی کرو خدمت،*_  
*_ھیں کتنی دیر یہ بوڑھے شجر نہیں معلوم_*                         
_*ان کے ھونے سے بخت ھوتے ھیں،*_ 
_*باپ گھر میں درخت ھوتے ھیں._.... 

اللہ ہم سب کے والدین کو تندرستی والی لمبی زندگی عطا فرامائے...  
آمین...

جنـــــــرل اور چـــــــرواہـــــــا

یہ 1917 کی بات ہے عراق کے پہاڑوں میں برطانوی جنرل 
سٹانلی ماودے کا ایک چرواہے سے سامنا ہوا.

جنرل چرواہے کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے مترجم سے کہا  ان سے کہہ دو کہ جنرل تمہیں ایک پاونڈ دے گا بدلے میں تمہیں اپنے کتے کو ذبح کرنا ہوگا.

کتا چرواہے کے لئے بہت اہم ہوتا ہے یہ اس کی بکریاں چراتا ہے،دور گئے ریوڑ کو واپس لاتا ہے،درندوں کے حملوں سے ریوڑ کی حفاظت کرتا ہے،لیکن پاونڈ کی مالیت تو آدھا ریوڑ سے بھی زیادہ بنتی ہے چرواہے نے یہ سوچا اس کے چہرے پر  لالچی مسکراہٹ پھیل گئی،اس نے کتا پکڑ لایا اور جنرل کے قدموں میں ذبح کر دیا.

جنرل نے چرواہے سے کہا اگر تم اس کی کھال بھی اتار دو  میں تمہیں ایک اور پاونڈ دینے کو تیار ہوں،چرواہے نے خوشی خوشی کتے کی کھال بھی اتار دی،جنرل نے کہا میں مزید ایک اور پاونڈ دینے کے لئے تیار ہوں اگر تم اس کی بوٹیاں بھی بنا دو چرواہے نے فوری یہ آفر بھی قبول کرلی جنرل چرواہے کو تین پاونڈ دے کر چلتا بنا.

جنرل چند قدم آگے گئے تھے کہ اسے پیچھے سے چرواہے کی آواز سنائی دی وہ پیچھے پیچھے آ رہا تھا اور کہہ رہا تھا جنرل اگر میں کتے کا گوشت کھا لوں آپ مجھے ایک اور پاونڈ دیں گے؟

جنرل نے انکار میں سر ہلایا کہ میں صرف تمہاری نفسیات اور اوقات دیکھنا چاہتا تھا،تم نے صرف تین پاونڈ کے لئے اپنے محافظ اور دوست کو ذبح کر دیا اس کی کھال اتار دی،اس کے ٹکڑے کیا اور چوتھے پاونڈ کے لئے اسے کھانے کے لئے بھی تیار ہو،اور یہی چیز مجھے یہاں چاہئے.

پھر جنرل اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوئے کہ اس قوم کے لوگوں کی سوچیں یہ ہیں لہذا تمہیں ان سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے.

آج یہی حال مسلم ملکوں اور معاشروں کا ہے،اپنی چھوٹی سی مصلحت اور ضرورت کے لئے اپنی سب سے قیمتی اور اہم چیز کا سودا کر دیتے ہیں.

اور یہ وہ ہتھیار ہے جسے ہر استعمار،ہر قابض،ہر شاطر دشمن ہمارے خلاف استعمال کرتا رہا ہے،اسی کے ذریعے اس نے حکومت کی ہے اور اسی کے ذریعے ملکوں کو لوٹا ہے. 

آج ہمارے درمیان ہمارے ملکوں میں کتنے ہی ایسے 'چرواہے' ہیں جو نہ صرف کتے کا گوشت کھانے کے لئے تیار ہیں بلکہ اپنے ہم وطن بھائیوں کا گوشت کھا رہے ہیں اور چند ٹکوں کے عوض اپنا وطن بیچ رہے ہیں.

_ڈاکٹر علی الوردی کی عربی کتاب "لمحات_اجتماعية_من_تاريخ_العراق" سے ماخوذ_

مادری زبان

"مادری زبان میں تعلیم ایسا ہے جیسے بچوں کو بادام سے چھلکا اتار کر بادام کا مغز دیا جائے. جب وہ کھائے گا تو ذائقہ محسوس کرے گا اور شوق سے کھائے گا. کسی اور زبان میں تعلیم دینا ایسا ہے جیسے بچے کو بادام چھلکے سمیت کھلایا جائے. اُسے نہ ذائقے کا پتہ چلے گا اور نہ اُس کے بدن کو فائدہ پہنچے گا. بلکہ وہ چھلکا اُتارنے میں وقت گزارے گا"۔
مولانا ابوالکلام آزاد