ہمارے سامنے کی بات ہے کہ جب گاوں کے ایک گھر تنور گرم کیا جاتا تو گھر والی خاتون اپنی بچی کو پڑوس کے گھر بھجواتی کہ آ کے روٹیاں لگا لیں۔اور خواتین اپنا آٹا لے کر پہنچ جاتیں۔ ایک تو سب کا بھلا ہو جاتا دوسرا تنور میں جو آگ جلائی جاتی وہ ایندھن ضائع ہونے سے بچ جاتا کیونکہ ایک دفعہ آپ تنور گرم کر لیں تو پانچ گھروں کی روٹیاں پکا سکتے ہیں۔پھر تنور کے اندر بینگن سیخ میں پرو کر ڈالے جاتے اور بھون لیے جاتے اس کے بعد بھی آگ اتنی ہوتی کہ بڑے پتیلے میں پانی بھر کر چنے۔گندم۔باجرہ بمع گڑ ڈال دیتے اور کچھ دیر میں گھگھنیاں تیار ہو جاتیں۔ ہماری مائیں گھگھنیاں خیرات کے طور پر پکاتی تھیں۔جس خاتون نے قران کا اس دن ختم کیا ہوتا وہ گھنگنیاں پکا کے خیرات کرتی۔ صبح جب مکھن کے لیے دودھ بلویا جاتا تو پڑوسی بچے اس گھر لسی لینے پہنچ جاتے اور ایک ایک لیٹر لسی سب کو فری ملتی۔ گاٶں والی ماسیاں چھوٹا سا مکھن کا پیڑا بھی ڈال دیتیں۔ اگرچہ غریبی کا زمانہ تھا مگر لوگوں کے دل بہت بڑے تھے۔ گاوں کے گھروں میں بچے ایک دوسرے کے گھر سے نمک۔مرچ۔لہسن۔پیاز۔ مانگنے آتے تو پیار محبت سے دے دئیے جاتے اور یکجہتی میں اضافہ ہوتا۔ پکے ہوے سالن کی مُنگری تو ساتھ کے ایک دو گھر ضرور جاتی اب فریج میں سب کچھ جمع رہتا ہے ۔ شروع میں جب میں لاھور سے ایک الارم والی گھڑی جو تین انچ گولائی میں ہوتی لے آیا۔ گاوں والے نہر کا پانی اپنی باری کے حساب سے لگاتے تو بہت خوش ہوۓ کہ چلو اب ٹایم دیکھ کے پانی لگایا کریں گے۔گاوں کے کارپینٹر سے اس کا شیشم کی لکڑی کا ڈبے نما فریم بنایا گیا پالش ہوئی اس کو پکڑنے کے لیے اوپر ہینڈل لگا دیا۔ گاٶں کے کسان ایک ہاتھ میں گھڑی اور دوسرے میں کہی اٹھاے خوشی خوشی پھرتے اور اپنے نمبر پر کھیت کو پانی دیتے۔ بعض تو اتنا سادہ تھے کہ پہلے ان کو سمجھانا پڑتا کہ بڑی سوئی جب 12 بجے پہنچے گی تمھاری پانی لگانے کی باری شروع ہو گی۔ یہ گھڑی 24 گھنٹے میں ایک دفعہ ہمارے گھر اس لیے واپس آتی کہ ہم اس کو چابی دے دیں۔اب ویسی گھڑیاں کہیں نظر نہیں آتیں۔جب گاوں میں شادی کی تقریب ہوتی ہر گھر سے لڑکے ایک ایک چارپائی جمع کرتے رنگدار پانی کے ساتھ گھر والے کا نام لکھا جاتا اور شادی مکمل ہونے پر واپس کرتے۔سردیوں میں ایک ایک بستر بھی جمع کیا جاتا۔ شروع میں جب ریڈیو اور پھر ٹی وی ہمارے گھر آیا تو شام کو بچوں کی پوری کلاس بیٹھ کے ریڈیو سنتی اور ٹی وی دیکھتے کیونکہ پورے گاوں میں ٹی وی ایک دو گھر تھا۔اس کے لیے زمین پر دریاں بچھائی جاتیں۔ ہمارے مکان کچے تھے ہر سال ساون کے مہینے سے پہلے لپائی کرنی ہوتی۔اس کے لیے گاوں کے پندرہ بیس آدمی بلاۓ جاتے جس کو وِنگار کہتے۔ یہ سب بلا معاوضہ گھر کی لپائی کر دیتے صرف کھانا اور چاے ان کو مہیا کی جاتی۔ اسی طرح عورتیں پنگھٹ پر یا کنویں سے گھڑوں میں پانی بھرنے اکٹھی ہوتیں تو یہ ایک قسم کی کیمونٹی میٹنگ ہوتی۔ایک دوسرے کے دکھ درد۔بیماری خوشی۔کا پتہ چلتا اور لوگ ایک دوسرے کی مدد کو تیار رہتے۔ یہ سب پیار سب یکجہتی اس وقت ختم ہونا شروع ہوئی جب باھر کے لوگ ہمارے گاوں پہنچے۔پہلے پہل ہمیں قومی اور نسلی تفاخر کا سبق پڑھایا گیا کہ یہ تورانی۔یہ افغانی یہ فلاں یہ فلاں ہم سے کمتر اور ہم بہتر ہیں۔ جب یہ فارمولا پورا کامیاب نہ ہوا تو جمھوریت نے حملہ کر دیا۔ گاوں میں گروپ بن گئیے کون کونسلر بنے گا کس کے ووٹ زیادہ ہیں۔ بس اب ہم جدا ہونا شروع ہوۓ۔ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ باہر سے کچھ پڑھے لکھے عالم تشریف لاے ۔انہوں نے ہمیں واضع کیا کہ آپ کا باپ بریلوی ۔بھائی دیوبندی۔کزن شیعہ۔ماموں وہابی۔چچا پتھری۔ خالو ض صحیح نہیں پڑھتا۔ پھوپھا تبلیغی ہے۔بس پھر تو وہ گرد اڑی کی خدا کی پناہ ہم نے مسجدیں جدا جدا بنا کر اپنا مسلک لکھ دیا ۔میناروں پر چار پانچ لاوڈسپیکرز لگا لیے ۔امام صاحب علیحدہ۔نمازیں الگ۔جنازے الگ۔عیدیں الگ۔ پھر فرقہ واریت کا جو نتیجہ نکلا اور خون کی ہولی کھیلی گئی سب کے سامنے ہے۔ ابھی کچھ کسر باقی تھی کہ سیاسی پارٹیاں نمودار ہو گئیں پھر ایک بار ہم فلاں زندہ باد فلاں مردہ باد نعرے لگاتے باہم ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو گیے۔ ہمارے لیڈر ہم سے ووٹ لے کر پانچ سال کے لیے غائیب ہو جاتے ہیں مگر ہم ووٹر روز لڑتے رہتے ہیں۔ان تمام عوامل کا اثر یہ ہوا کہ آج ہمارے گاوں میں بھائی اپنے بھائی سے جدا ہے اور جمہوریت، فرقہ بندی ،نااتفاقی ، لڑائی جھگڑوں،نسلی فخر اور غرور کے جہنم کے گڑھے میں جل رہا ہے اور یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس آگ کو بھڑکانے والے ہاتھ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں غائب ہو جاتے ہیں؟
Friday, September 11, 2020
دکھ درد بانٹیں
میری ماں مجھ سے اکثر پوچھتی تھی کہ "بتاؤ! جسم کا اہم ترین حصہ کونسا ہے؟"
میں سال ہا سال اس کے مختلف جواب یہ سوچ کر دیتا رہا کہ شاید اب کے میں صحیح جواب تک پہنچ گیا ہوں-
جب میں چھوٹا تھا تو میرا خیال تھا کہ آواز ہمارے لیۓ بہت ضروری ہے، لہذا میں نے کہا " امی! میرے کان"
انہوں نے کہا "نہیں- دنیا میں بہت سے لوگ بہرے ہیں- تم مزید سوچو میں تم سے پھر پوچھوں گی-"
بہت سے سال گزرنے کے بعد انہوں نے پھر پوچھا!
میں نے پہلے سے زیادہ ذہن پر زور دیا اور بتایا کہ "امی! نظر ہر ایک کے لیۓ بہت ضروری ہے لہذا اس کا جواب آنکھیں ہونا چاہیۓ"
انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا "تم تیزی سے سیکھ رہے ہو، لیکن یہ جواب صحیح نہیں ہے کیونکہ دنیا میں بہت سے لوگ اندھے ہیں"
پھر ناکامی ہوئی اور میں مزید علم کی تلاش میں مگن ہو گیا- اور پھر بہت سے سال گزرنے کے بعد میری ماں نے کچھ اور دفعہ یہی سوال دہرایا اور ہمیشہ کہ طرح ان کا جواب یہی تھا کہ "نہیں- لیکن تم دن بدن ہوشیار ہوتے جا رہے ہو-"
پھر ایک سال میرے دادا وفات پا گئے- ہر کوئی غمزدہ تھا- ہر کوئی رو رہا تھا- یہاں تک کہ میرے والد بھی روئے- یہ مجھے خاص طور پر اس لیۓ یاد ہے کہ میں نے کبھی انھیں روتے نہیں دیکھا تھا-
جب جنازہ لے جانے کا وقت ہوا تو میری ماں نے پوچھا "کیا تم جانتے ہو کہ جسم کا سب سے اہم حصہ کونسہ ہے-"
مجھے بہت تعجب ہوا کہ اس موقع پر یہ سوال! میں تو ہمیشہ یہی سمجھتا تھا کہ یہ میرے اور میری ماں کے درمیان ایک کھیل ہے-
انہوں نے میرے چہرے پر عیاں الجھن کو پڑھ لیا اور کہا! "یہ بہت اہم سوال ہے- یہ ظاہر کرتا ہے کہ تم اپنی زندگی میں کھوۓ ہوئے ہو- ہر وہ جواب جو تم نے مجھے دیا وہ غلط تھا اور اس کی وجہ بھی میں نے تمہیں بتائی کہ کیوں- لیکن آج وہ دن ہے جب تمہیں یہ اہم سبق سیکھنا ہے"
انہوں نے ایک ماں کی نظر سے مجھے دیکھا اور میں نے ان کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں دیکھیں- انہوں نے کہا! "بیٹا! جسم کا اہم ترین حصہ کندھے ہیں-"
میں نے پوچھا! "کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے میرے سر کو اٹھا رکھا ہے؟"
انہوں نے کہا کہ "نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کا کوئی پیارا کسی تکلیف میں رو رہا ہو تو یہ اس کے سر کو سہارہ دے سکتے ہیں- ہر کسی کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ان کندھوں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے- میں صرف یہ امید اور دعا کر سکتی ہوں کہ تمہاری زندگی میں بھی وہ پیارے اور مخلص لوگ ہوں، کہ ضرورت پڑنے پر جن کے کندھے پر تم سر رکھ کر رو سکو-
یہ وہ وقت تھا کہ جب میں نے سیکھا کہ جسم کا اہم ترین حصہ خودغرض نہیں ہو سکتا- یہ دوسروں کے لیۓ بنا ہے- یہ دوسروں کے دکھ درد کا ساتھی اور ہمدرد ہے-
دوستو! لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ آپ نے کیا کہا- لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آپ نے کیا کیا- لیکن لوگ یہ کبھی نہیں بھول سکتے کہ آپ نے انھیں کیسا محسوس کرایا
اس لیئے دوسروں کا دکھ درد بانٹیں انکا سہارا بنیں خوش رہیں خوشیاں بانٹیں۔
Thursday, September 10, 2020
خواتین کیلئے سفر کے دوران حفاظتی اقدامات
ٹیکسی وغیرہ میں سفر کرنے والی ہر لڑکی کو یہ باتیں پتہ ہونی چاہیے :
کار میں بیٹھتے ہوئے اس نے سب سے پہلے دروازے میں نیچے کی جانب لگا "چائلڈ لاک" اوپر کیا۔ ایسا کرنے سے ڈرائیور خود سے دروازہ لاک نہیں کر سکتا تھا۔ اور کسی مصیبت میں وہ دروازہ کھول کر فرار ہو سکتی تھی۔
پھر وہ بجائے بیچ میں بیٹھنے کے ڈرائیونگ سیٹ کے بالکل پیچھے بیٹھی تھی کہ اگر ڈرائیور اس پر حملہ بھی کرنا چاہئے تو اسکا ہاتھ نہ پہنچے۔
پھر اس نے اپنا بیگ گود میں رکھا۔ اور بیگ چیک کرکے تسلی کی کہ بال پن، باڈی سپرے اور اضافی اسکارف یا کوئی اور کپڑا موجود ہے ناں جو وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتی تھی اپنے دفاع کیلئے۔ کیونکہ اگر ڈرائیور کوئی غلط موڑ مڑتا یا اسے گڑبڑ لگتی تو سب سے پہلے پیچھے سے وہ بال پن اسکے بازو پر مارتی تا کہ ڈرائیور گھبرا کر یکدم بریک لگائے اور پھر باڈی سپرے سے ڈرائیور کی آنکھوں پر سپرے کردے اور پھر اپنے سکارف کی مدد سے ڈرائیور کی گردن سیٹ سے باندھ دے کہ وہ اس پر حملہ نہ کر سکے ۔
اور ان سب کے بعد وہ باآسانی کار سے نکل کر اپنا بچاؤ کر سکے۔
یہ سب شانزے نے ایک سیلف ڈیفنس ویڈیو میں دیکھا تھا جسے وہ ہمیشہ ذہن میں رکھتی تھی۔
اور
باہر سفر کرنے والی ہر لڑکی کو یہ حفاظتی اقدامات پتہ ہونے چاہے۔
رکشہ میں سفر کے دوران بھی انہی احتیاطی تدابیر کو مدِ نظر رکھا جا سکتا
*نوٹ:*
اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے
عبدا لستار ایدھی
گجرات کے گاؤں بانٹوا کا نوجوان عبدالستار گھریلو حالات خراب ہونے پر کراچی جا کر کپڑے کا کاروبار شروع کرتا ہے کپڑا خریدنے مارکیٹ گیا وہاں کس نے کسی شخص کو چاقو مار دیا زخمی زمین پر گر کر تڑپنے لگا لوگ زخمی کے گرد گھیرا ڈال کر تماشہ دیکھتے رہے وہ شخص تڑپ تڑپ کر مر گیا..
نوجوان عبدالستار کے دل پر داغ پڑ گیا , سوچا معاشرے میں تین قسم کے لوگ ہیں دوسروں کو مارنے والے مرنے والوں کا تماشہ دیکھنے والے اور زخمیوں کی مدد کرنے والے .. نوجوان عبدالستار نے فیصلہ کیا وہ مدد کرنے والوں میں شامل ہو گا اور پھر کپڑے کا کاروبار چهوڑا ایک ایمبولینس خریدی اس پر اپنا نام لکها نیچے ٹیلی فون نمبر لکھا اور کراچی شہر میں زخمیوں اور بیماروں کی مدد شروع کر دی.
وہ اپنے ادارے کے ڈرائیور بهی تهے آفس بوائے بهی ٹیلی فون آپریٹر بهی سویپر بهی اور مالک بهی وہ ٹیلی فون سرہانے رکھ کر سوتے فون کی گھنٹی بجتی یہ ایڈریس لکهتے اور ایمبولینس لے کر چل پڑتے زخمیوں اور مریضوں کو ہسپتال پہنچاتے سلام کرتے اور واپس آ جاتے .. عبدالستار نے سینٹر کے سامنے لوہے کا غلہ رکھ دیا لوگ گزرتے وقت اپنی فالتو ریزگاری اس میں ڈال دیتے تھے یہ سینکڑوں سکے اور چند نوٹ اس ادارے کا کل اثاثہ تهے .. یہ فجر کی نماز پڑھنے مسجد گئے وہاں مسجد کی دہلیز پر کوئی نوزائیدہ بچہ چهوڑ گیا مولوی صاحب نے بچے کو ناجائز قرار دے کر قتل کرنے کا اعلان کیا لوگ بچے کو مارنے کے لیے لے جا رہے تھے یہ پتهر اٹها کر ان کے سامنے کهڑے ہو گئے ان سے بچہ لیا بچے کی پرورش کی اج وہ بچہ بنک میں بڑا افسر ہے ..
یہ نعشیں اٹهانے بهی جاتے تھے پتا چلا گندے نالے میں نعش پڑی ہے یہ وہاں پہنچے دیکھا لواحقین بهی نالے میں اتر کر نعش نکالنے کے لیے تیار نہیں عبدالستار ایدھی نالے میں اتر گیا, نعش نکالی گهر لائے غسل دیا کفن پہنایا جنازہ پڑهایا اور اپنے ہاتھوں سے قبر کهود کر نعش دفن کر دی .. بازاروں میں نکلے تو بے بس بوڑھے دیکهے پاگلوں کو کاغذ چنتے دیکھا آوارہ بچوں کو فٹ پاتهوں پر کتوں کے ساتھ سوتے دیکها تو اولڈ پیپل ہوم بنا دیا پاگل خانے بنا لیے چلڈرن ہوم بنا دیا دستر خوان بنا دیئے عورتوں کو مشکل میں دیکھا تو میٹرنٹی ہوم بنا دیا .. لوگ ان کے جنون کو دیکھتے رہے ان کی مدد کرتے رہے یہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ایدهی فاؤنڈیشن ملک میں ویلفیئر کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا یہ ادارہ 2000 میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی آ گیا .. ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنا دی .. عبدالستار ایدھی ملک میں بلا خوف پهرتے تهے یہ وہاں بهی جاتے جہاں پولیس مقابلہ ہوتا تھا یا فسادات ہو رہے ہوتے تھے پولیس ڈاکو اور متحارب گروپ انہیں دیکھ کر فائرنگ بند کر دیا کرتے تھے ملک کا بچہ بچہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے بعد عبدالستار ایدھی کو جانتا ہے ..
ایدھی صاحب نے 2003 تک گندے نالوں سے 8 ہزار نعشیں نکالی 16 ہزار نوزائیدہ بچے پالے.. انہوں نے ہزاروں بچیوں کی شادیاں کرائی یہ اس وقت تک ویلفیئر کے درجنوں ادارے چلا رہے تھے لوگ ان کے ہاتھ چومتے تهے عورتیں زیورات اتار کر ان کی جهولی میں ڈال دیتی تهیی نوجوان اپنی موٹر سائیکلیں سڑکوں پر انہیں دے کر خود وین میں بیٹھ جاتے تهے .. عبدالستار ایدھی آج اس دنیا میں نہیں ھیں مگر ان کے بنائے ھوئے فلاحی ادارے دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ھیں..
اللہ پاک ایدھی مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرماے.. آمین..!
زندگی کا راز(قانون کشش-Law of attraction )
از قلم۔۔سید زین حسن (شاہ جی)
"Whatever the mind of a man can Concieve and believe, the mind can Achieve" -Napoleon Hills*
(جو کچھ انسان کا ذہن جامد(سوچ) اور یقین کرسکتا ہے، ذہن بھی اسے حاصل کرسکتا ہے) نپولین ہل
جی ہاں،یہ قانون آپکی زندگی بھی بدل سکتا ہے، کیونکہ جو اس قانون پے یقین کرتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ انکی زندگی کچھ دنوں میں ہی بدل گئ۔
مجھے اس قانون کو سمجھے ہوۓبہت وقت ہوچکا ہے اور میری ذاتی زندگی پر اسکا بہت اثر ہے۔
چونکہ تحریر کے سلسلے میں مجھے پچھلے 3 دن سے انٹرنیٹ پر ریسرچ اور سٹڈی کرنی پڑی۔اور کافی معلومات کے بعد قلم✍🏻 ہاتھ میں لیا۔
آئیں جانتے ہیں کہ یہ قانون کونسا ہے اور کیسے کام کرتا ہے۔
اس قانون کا نام قانون کشش ہے (Law of attraction ) =شاید آپ نام سننے کے بعد سوچ رہے ہوں کہ یہ کوئی فزکس کا قانون ہے تو ایسابالکل نہیں ہے۔یہ قانون بنیادی طور پر نفسیات کا قانون ہے۔
ہم کہیں نا کہیں اسے سمجھنے کیلئے فزکس کے قوانین کی مثال تو دیں گے لیکن یہ قانون ان قوانین سے بالکل مختلف ہے۔
اس قانون کی بنیادی تعریف یہ ہے کہ "سوچ حقیقت کا روپ دھارتی ہے"
سننے میں یہ بات قابل یقین نا ہو شائد لیکن جب آپ اسے سمجھ لیتے ہیں تو آپکو یقین بھی آجاتا ہے۔
اسکو آسان سمجھنے کے لیے روز مرہ کی مثالیں پیش خدمت ہیں۔
*1)* آج شائد یہ بات پرانی ہوگئی ہے لیکن اب بھی کہیں نا کہیں ہمارے بزرگ اور گاؤں کے لوگ اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر گھر میں کوا 'کائن کائن'(کوے کی آواز) کرے تو اس دن گھر میں مہمان آتے ہیں اور اکثر انکی یہ بات سچ ہوجاتی ہے۔
2) ہم کسی کے بارے میں بات کر رہے ہوں اور وہ آجائے تو ہمارے منہ سے نکلتا ہے کہ بڑی لبھی عمر ہے،ہم بس تمیں ہی یاد کر رہے تھے ۔
اس قانون کی بنیادی وضاحت کچھ یوں ہے کہ ہمارا جسم ایک توانائی ہے۔جب ہم سوچتے ہیں تو ہمارے ارد گرد ایک اورا(Aura) بن جاتا ہے۔
اورا(Aura)کیا ہوتا ہے؟ ہم نے فزکس میں پڑھا کہ جو چیز حرکت کرتی ہے اسکے گرد ایک فیلڈ بن جاتی ہے جیسے *مگنیٹک فیلڈ(Magnetic field )* وغیرہ اور سوچ کی فیلڈ کو *psychology* کی زبان میں اورا کہتے ہیں جو ہماری سوچ سے بنتا ہے۔
تو جیسے ہی ہم کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں ہم ویسا ہی *اورا(aura)* بنا لیتے ہیں اور اسکی *فریکوینسی (Frequency )* پوری کائنات میں بھیج دیتے ہیں،اور پھر قانون کی کشش ویسی ہی چیزوں کو آپکی طرف لیۓآتی ہے۔
*قانون کشش ثقل(Law of Gravity )* کی سمجھ آپکو آتی ہے کہ نہیں لیکن یہ کام ضرور کر رھا ہے کہ زمین ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتی ہے،اس طرح ہماری سوچ کی *فریکوینسی(Frequency )* بھی اپنی طرف چیزیں کھینچتی ہے۔
آپ کے اپنے اندر ایک پوری کائنات ہیں۔
آپ اپنی سوچ کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔ یہ راز پچھلے عظیم لوگوں کو معلوم تھا جو وہ اتنے عظیم بنے،جیسے
*ایڈسن،ہنری فورڈ،اور اینسٹین* ۔
*"Imagination is everything" -A.Einstain.*
لیکن اس راز کو آسان الفاظ میں ایک *اسٹریلوی خاتون رونڈا بئرن(Rhonda Byrne )*
*نے ایک مووی کی شکل میں پیش کیا اس مووی کا نام The Secret ہے۔جس نے لاکھوں لوگوں کی زندگی بدل دی ہے۔*
اس قانون کو اب اس زاویہ سے سمجھتے ہیں کہ *آپ اس وقت اگر اپنے کمرے میں بیٹھے ہیں تو آپکے گرد تمام اشیاء دو مرتبہ بنی ہیں،ایک اسکے ایجاد کرنے والے کے تصور میں اور دوسری بار اس دنیا میں۔
مطلب ہر چیز پہلے ذہن میں بنتی ہے پھر حقیقت میں۔
*ہماری کامیابی،خوشی،رشتے،صحت اور زندگی تمام چیزیں ہماری سوچ پر منحصر کرتی ہے۔
ہمارا جسم ہمارے خیالات کا نتیجہ ہے۔
ہم وہی کچھ ہیں جس کے بارے میں ہم سوچتے ہیں۔
ہم اپنی زندگی خود ہی ڈیزائین کرتے ہیں۔بنیادی طور پر آپ اپنی زندگی کی کہانی کے خود ہی مصنف ہیں،اپنا پن اپنے پاس رکھیں اور لکھتے جائیں۔
*اس قانون کے بنیادی تین مقاصد ہیں،*
*1: مانگو(Ask )*
*2: یقین کرو(Believe )*
*3: اور حاصل کرو(Achieve )*
جو چیز آپ قدرت سے منگتے ہیں آپکو وہی چیز ملتی ہے۔اس بات کو دوسرے الفاظ میں کچھ یوں کہوں گا کہ جس چیز کو آپ شدت سے چاہتے ہیں،قدرت بھی اسے آپ سے ملنے میں مدد کرتی ہے۔
*جیسے ہمارے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا۔۔*
*"اللہ تعالی فرماتا ہیں:*
*کہ میں اپنے بندے سے اسکے گمان کے مطابق معاملا کرتا ہوں۔"*
اس قانون کی مزے کی بات یہ ہے کہ آپ مثبت سوچیں گے تو آپکی زندگی بھی مثبت ہونا شروع ہوجائے گی۔
لیکن بدقسمتی ہم اکثر منفی سوچ رکھتے ہیں کہ میرے امتحان میں نمبر کم آئیں گے ،میری نوکری نہیں لگے گی،میں امیر نہیں ہو سکتا اور پھرویسا ہی ہوجاتا ہے۔
یہ قانون ہمیں شکر گزاری اور مثبت سوچ رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ تا کہ ہم اچھی زندگی گزار سکیں۔
حقیقی نوٹ۔۔۔
میں زندگی کے برے حالت میں تھا اور ہار مان چکا تھا،یہ تحریر پڑھنے کے بعد میرے اندر دوبارہ سے اگے بڑھنے کا جذبہ اہ گیا ہے،اب میں پھر سے اگے بڑھو گا۔(ایک یونیورسٹی کے طالبعلم کا میسج)
۔اس تحریر کو زیادہ شیر کریں شاید اپکے ایک شیر سے کسی کی زندگی بدل جائے ۔شکریہ۔
(تحریر میں کوئی غلطی ہوئی ہو تو اسکے لیے معافی)
شکریہ
Wednesday, September 9, 2020
حیرت انگیز معلومات
کیا آپ جانتے ہیں؟
🕓 اللہ کے حروف 4 ہیں -
🕓 محمد کے حروف 4 ہیں-
🕓 رسول کے حروف 4 ہیں -
🕓 کتاب کے حروف 4 ہیں -
🕓 قرآن کے حروف 4 ہیں -
🕓 مسجد کے حروف 4 ہیں -
🕓 کلمہ کے حروف 4 ہیں -
🕓 نماز کے حروف 4 ہیں -
🕓 روزہ کے حروف 4 ہیں -
🕓 زکوٰۃ کے حروف 4 ہیں -
🕓 سورج کے حروف 4 ہیں -
🕓 چاند کے حروف 4 ہیں -
🕓 جہاد کے حروف 4 ہیں -
🕓 زمین کے حروف 4 ہیں -
🕓 نکاح کے حروف 4 ہیں -
🕓 طلاق کے حروف 4 ہیں -
🕓 دنیا کے حروف 4 ہیں -
🕓 آخرت کے حروف 4 ہیں -
🕓 سوال کے حروف 4 ہیں -
🕓 جواب کے حروف 4 ہیں -
🕓 گناہ کے حروف 4 ہیں -
🕓 نیکی کے حروف 4 ہیں -
🕓 ثواب کے حروف 4 ہیں -
🕓 عذاب کے حروف 4 ہیں -
🕓 بہشت کے حروف 4 ہیں (جنَّت) -
🕓 دوزخ کے حروف 4 ہیں (جہنم) -
🕓 حضور اکرم کے دوست 4 ہیں -
🕓 بڑے فرشتے 4 ہیں -
🕓 آسمانی کتابیں 4 ہیں -
خـــــــامـــــــوش_دوســـــــت
*جوانی میں انسان باپ کو شک کی نگاہ سے دیکھتا رہتا ہے , جیسے باپ کو ہمارے مسائل ,تکلیفوں یا ضرورتوں کا احساس ہی نہیں . یہ نئے دور کے تقاضوں کو نہیں سمجھتا*
*کبھی کبھی ہم اپنے باپ کا موازنہ بھی کرنا شروع کر دیتے ہیں , " اتنی محنت ہمارے باپ نے کی ہوتی , بچت کی ہوتی , کچھ بنایا ہوتا*
*تو آج ہم بھی ... فلاں کی طرح عالیشان گھر , گاڑی میں گھوم رہے ہوتے "*
*" کہاں ہو ? کب آؤ گے ? زیادہ دیر نہ کرنا " جیسے سوالات انتہائی فضول اور فالتو سے لگتے ہیں*
*" سویٹر تو پہنا ہے کچھ اور بھی پہن لو سردی بہت ہے " انسان سوچتا ہے کہ اولڈ فیشن کی وجہ سے والد کو باہر کی دنیا کا اندازہ نہیں*
*اکثر اولادیں اپنے باپ کو ایک ہی معیار پر پرکھتی ہیں , گھر ,گاڑی ,پلاٹ , بینک بیلنس , کاروبار اور اپنی ناکامیوں کو باپ کے کھاتے میں ڈال کر*
*خود سُرخرو ہو جاتے ہیں " ہمارے پاس بھی کچھ ہوتا تو اچھے اسکول میں پڑھتے , کاروبار کرتے "*
*اس میں شک نہیں*
*اولاد کے لئے آئیڈیل بھی ان کا باپ ہی ہوتا ہے لیکن کچھ باتیں , جوانی میں سمجھ نہیں آتیں یا ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے , اس ليے کہ ہمارے سامنے , وقت کی ضرورت ہوتی ہے , دنیا سے مقابلے کا بُھوت سوار ہوتا ہے*
*جلد سے جلد سب کچھ پانے کی جستجو میں ہم کچھ کھو بھی رہے ہوتے ہیں , جس کا احساس بہت دیر سے ہوتا ہے*
*بہت سی اولادیں , وقتی محرومیوں کا پہلا ذمّہ دار اپنے باپ کو قرار دے کر ,ہر چیز سے بری الزمہ ہو جاتی ہیں*
*وقت گزر جاتا ہے , اچھا بھی برا بھی , اور اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ انسان پلک جھپکتے ماضی کی کہانیوں کو اپنے ارد گِرد منڈلاتے دیکھنا شروع کر دیتا ہے*
*جوانی , پڑھائی , نوکری , شادی , اولاد اور پھر وہی اسٹیج ، وہی کردار , جو نِبھاتے ہوئے , ہر لمحہ , اپنے باپ کا چہرہ آنکھوں کے سامنے آ آ کر , باپ کی ہر سوچ , احساس , فکر , پریشانی , شرمندگی اور اذیّت کو ہم پر کھول کے رکھ دیتا ہے*
*باپ کی کبھی کبھی بلا وجہ خاموشی , کبھی پرانے دوستوں میں بے وجہ قہقہے*
*اچھے کپڑوں کو ناپسند کرکے ,پرانوں کو فخر سے پہننا , کھانوں میں اپنی سادگی پر فخر*
*کبھی کبھی سر جُھکائے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں میں مگن ہونے کی وجہ*
*کبھی بغیر وجہ تھکاوٹ کے بہانے سرِ شام بتّی بجھا کر لیٹ جانا*
*نظریں جھکائے , انتہائی محویت سے , ڈوب کر قران کی تلاوت کرنا , سمجھ تو آنا شروع ہو جاتا ہے لیکن بہت دیر بعد*
*جب ہم خود راتوں کو جاگ جاگ کر , دوسرے شہروں میں گئے بچوں پر آیت الکرسی کے دائرے پھونکتے ہیں*
*جب ہم سردی میں وضو کرتے ہوئے اچانک سوچتے ہیں , پًوچھ ہی لیں " بیٹا آپ کے ہاں گرم پانی آتا ہے ؟ "*
*جب قہر کی گرمی میں رُوم کولر کی خنک ہوا بدن کو چُھوتی ہے تو پہلا احساس جو دل و دماغ میں ہلچل سی مچاتا ہے , وہ " کہیں اولاد گرمی میں تو نہیں بیٹھی "*
*جوان اولاد کے مستقبل , شادیوں کی فکر , ہزار تانے بانے جوڑتا باپ , تھک ہار کر اللّه اور اس کی پاک کلام میں پناہ ڈھونڈتا ہے*
*تب یاد آتا ہے , ہمارا باپ بھی ایک ایک حرف , ایک ایک آیت پر , رُک رْک کر , بچوں کی سلامتی , خوشی , بہتر مستقبل کی دعائیں ہی کرتا ہوگا*
*ہر نماز کے بعد , اُٹھے کپکپاتے ہاتھ ,اپنی دعاؤں کو بھول جاتے ہونگے , ہماری طرح ہمارا باپ بھی ایک ایک بچے کو , نمناک آنکھوں سے اللّه کی پناہ میں دیتا ہوگا*
*سرِ شام کبھی کبھی , کمرے کی بتّی بُجھا کر , اس فکر کی آگ میں جلتا ہوگا کہ میں نے اپنی اولاد کے لئے بہت کم کِیا ؟*
*اولاد کو باپ بہت دیر سے یاد آتا ہے , اتنی دیر سے کہ ہم اسے چْھونے , محسوس کرنے , اسکی ہر تلخی , اذیت , فکر کا ازالہ کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں*
*یہ ایک عجیب احساس ہے , جو وقت کے بعد اپنی اصل شکل میں ہمیں بےچین ضرور کرتا ہے*
*لیکن یہ حقیقتیں جن پر بروقت عیاں ہو جائیں وہی خوش قسمت اولادیں ہیں*
*اولاد ہوتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں
باپ کا چھونا , پیار کرنا , دل سے لگانا , یہ تو بچپن کی باتیں ہیں*
*باپ بن کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں*
*پتہ نہیں باپ نے کتنی دفعہ دل ہی دل میں , ہمیں چھاتی سے لگانے کو بازو کھولے ہونگے ؟*
*پیار کے لئے اس کے ہونٹ تڑپے ہونگے*
*اور ہماری بے باک جوانیوں نے اسے یہ موقع نہیں دیا ہوگا*
*ہم جیسے درمیانے طبقے کے سفید پوش لوگوں کی*
*ہر خوائش , ہر دعا , ہر تمنا , اولاد سے شروع ہو کر , اولاد پر ہی , ختم ہو جاتی ہے*
*لیکن کم ہی باپ ہونگے جو یہ احساس اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں دلا سکے ہوں*
*یہ ایک چُھپا ,میٹھا میٹھا درد ہے جو باپ اپنے ساتھ لے جاتا ہے*
*اولاد کے ليے, بہت کچھ کر کے بھی کچھ نہ کرسکنے کی ایک خلش , آخری وقت تک ایک باپ کو بے چین رکھتی ہے , اور*
*یہ سب بہت شدت سے محسوس ہوتا ہے*
*جب ہم باپ بنتے ہیں . بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں*
*تو باپ کے دل کا حال جیسے قدرت ہمارے دلوں میں منتقل کر دیتی ہے*
*اولاد اگر باپ کے دل میں اپنے لئے محبت کو کھلی آنکھوں سے , وقت پر دیکھ لے*
*تو شاید اسے یقین ہو جائے کہ دنیا میں باپ سے زیادہ اولاد کا کوئی دوست نہیں ہوتا*
_*ھمیشہ ٹوٹ کے ماں باپ کی کرو خدمت،*_
*_ھیں کتنی دیر یہ بوڑھے شجر نہیں معلوم_*
_*ان کے ھونے سے بخت ھوتے ھیں،*_
_*باپ گھر میں درخت ھوتے ھیں.*_....
اللہ ہم سب کے والدین کو تندرستی والی لمبی زندگی عطا فرامائے...
آمین...
Sunday, September 6, 2020
کچھ لوگ......
✨ﮐُﭽﮫ ﻟﻮﮒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ﮔُﻼﺑﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ___
ﺍِن کا ﻧﺎﻡ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍِﺭﺩﮔﺮﺩ ﺧُﻮﺷﺒﻮ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ___💫
✨ﮐُﭽﮫ ﻟﻮﮒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ﮔﮭﭩﺎﺅﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ___
ﺟﻮ ﺩُﻭﺳﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺍِس ﻄﺮﺡ ﺑﺮﺳﺘﮯ ﮨﯿﮟ___
ﮐﮧ ﺯِﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺳﺨﺖ ﺩُﮬﻮﭖ ﻧﺮﻡ ﭼﮭﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ___
✨ﮐُﭽﮫ ﻟﻮﮒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ﺳِﺘﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ___
ﺟﻮ ﺩُﻭﺭ ﺳﮯ ﭼﻤﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﮯ___💫
✨ﮐُﭽﮫ ﻟﻮﮒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ﮔﮭﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ__
ﻭﮦ ﭼﺎﮨﮯ ﮨﻢ ﺳﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﺩﻭﺭ ہی ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ_
ﺩِﻝ ﺍُﻧﮑﯽ ﺭُﻭﺡ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﭧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯلیئے ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ___💫
✨ﮐُﭽﮫ ﻟﻮﮒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ﺧﻄﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ___
ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﺩِﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺮﺗﺎ___
ﺍﻭﺭ ﺩِﻝ ﭼﺎہتا ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﯿﮟ____💫
✨ﮐُﭽﮫ ﻟﻮﮒ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ﻧﮕﺎﮦ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ___
"ﻭﮦ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣِﻞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ💫
✨کچھ نئے لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔!
ہماری زندگی میں پُرانےلوگوں کی قدر بڑھانے کے لیئے آتے ہیں__💫
Saturday, September 5, 2020
درد
"درد" کا پہلا "د" نکال دیں تو"رد"بنتا ہے دوسرا "د" نکال دیں تو "در" بنتا ہے کسی کے"در"سے جب انسان"رد"کردیا جاتا ہے تو"درد"ملتا ہے اور یہی"درد"انسان کو اللہ کے"در"سے جوڑ دیتا ہے جہاں"رد" نہیں کیا جاتا ۔
شوہر کا مقام
ایک پرانے اور بوسیده مکان میں ایک غریب مزدور رهتا تھا،
مکان کیا تھا،بس آثار قدیمه کا کھنڈر هی تھا.
غریب مزدور جب سرشام گھر لوٹتا
اس کی بیوی معصومیت سے کهتی: اب تو گھر کا دروازه لگوادیں، کب تک اس لٹکے پردے کے پیچھے رهنا پڑے گا،
اور هاں! اب تو پرده بھی پرانا هو کر پھٹ گیا هے. مجھے خوف هے کهیں چور هی گھر میں نه گھس جائے"
شوهر مسکراتے هوئے جواب دیتا :
میرے هوتے هوئے بھلا تمهیں کیا خوف؟ فکر نه کرو میں هوں نا تمهاری چوکھٹ"
غرض کئی سال اس طرح کے بحث ومباحثے میں گزر گئے،
ایک دن بیوی نے انتهائی اصرار کیا که گھر کا دروازه لگوادو.
بالآخر شوهر کو هار ماننا پڑی اور اس نے ایک اچھا سا درازه لگا دیا.اب بیوی کا خوف کم هوا اور شوهر کے مزدوری پر جانے کے بعد گھر میں خود کو محفوظ تصور کرنے لگی.
ابھی کچھ سال گزرے تھے که اچانک شوهر کا انتقال هوگیا.اور گھر کا چراغ بجھ گیا، عورت گھر کا دروازه بند کیے پورا دن کمرے میں بیٹھی رهتی،
ایک رات اچانک چور دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل هوگیا، اس کے کودنے کی آواز پر عورت کی آنکھ کھل گئی،اس نے شور مچایا.محلے کے لوگ آگئے،اور چور کو پکڑ لیا.جب دیکھا تو معلوم هوا که وه چور پڑوسی هے.
اس وقت عورت کو احساس هوا که چور کے آنے میں اصل رکاوٹ دروازه نهیں میرا شوهر تھا.
اس چوکھٹ سے زیاده مضبوط وه چوکھٹ(شوهر) تھی.
شوهر میں لاکھ عیب هوں لیکن حقیقت یهی هے که مضبوط چوکھٹ یهی شوهر هیں،
دعا ہے !!!
اللہ رب العزت ہماری بہنوں کو شوہر کی قدر و منزلت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں
آمین.
Subscribe to:
Posts (Atom)