Friday, September 11, 2020

بیج کے اپنے دل میں کیا ہے؟

ایک مرضی دہقان کی، کسان کی، باغبان کی ہوتی ہے. 
ایک مرضی زمین کی ہوتی ہے. 
ایک سب سے بڑی مرضی اوپر والے کی ہوتی ہے.
مالی دا کم مشکاں لانا، بھر بھر مشکاں لاوے، ہو! 
مالک دا کم، پھل، پھل لانا، لاوے یا نہ لاوے 

ہر سال کسان ہل چلاتا ہے، کھاد ڈالتا ہے، جڑی بوٹیاں تلف کرتا ہے اور پھر بیج پھینکتا ہے اور پانی دیتا ہے. بہت سے بیج آگ آتے ہیں، کونپلیں سر اٹھاتی ہیں، برگ و بار لاتی ہیں. 

پھر ایک مرضی بیج کی ہوتی ہے. 

جتنا مرضی ہل چل جائے، کھاد ڈل جائے، کھیت سیراب کردیا جائے، اگر بیج کی مرضی نہیں ہے تو وہ اپنی کھال پھاڑ کر زمین کے سینے پر دستک نہیں دے گا. کونپل نہیں پھوٹے گی. بیج اپنے آمد موجود امکانات، پیغامات، کھلیان سب اپنے ساتھ سمیٹ کر لے جائے گا اور سب دیکھتے رہ جائیں گے. 

یہی پرسنل ڈیویلپمنٹ کی سائنس کا دل ہے. تبدیلی کا سارا تحرک بیج کا ذاتی فیصلہ ہے، ورنہ ہل چلانے والے، کھاد ڈالنے والے تھک جائیں گے، اگر بیج اگلے مرحلے میں پہنچنے کے لئے فنا ہونے پر آمادہ نہیں ہوگا! 

سیکھنے کے سلسلے میں ایک قانون واضح ہے کہ طالب جب سیکھنے کے لیے تیار ہو تو استاد کو، مربی کو، مرشد کو حاضر ہونا پڑتا ہے. یاد رکھیں، ترتیب یہی رہے گی. تڑپ استاد یا مرشد کے دل میں نہیں، طالب کے دل میں ہوگی اور سکھانے والا ظاہر ہوجائے گا. اس کے پاس کوئی دوسرا انتخاب ہی نہیں.

آپ اپنی زندگی میں یاد کریں جب کسی بھی سلسلے میں ایسی تڑپ پیدا ہوئی تو جیسے عالم غیب سےکوئی آن ٹپکا. اگلے کے پاس کوئی چوائس نہیں، سوال یہ ہے کہ ہو بیڈ یو وانٹ اٹ! اس کا کم از کم نسخہ یہ ہے کہ طلب میں اتنی شدت ہونی چاہیے جتنی سانس لینے کے لئے ہوتی ہیں. جب دم گھٹتا ہے اور رؤؤاں رؤؤاں اکھٹا ہوکر سر پٹختا ہے. اگر طلب میں شدت نہیں ہے تو لے ادھوری رہ جائے گی. 

مرشد رومی کہتے ہیں، جس کی تجھے تلاش ہے، وہ تیری تلاش میں تھکتا پھر رہا ہے، خواری کرتا پھر رہا ہے. بوہے، باریاں جھانکتا پھر رہا ہے. کہانی یہی ہے کہ اس تلاش میں شدت کتنی ہے؟ وجد کتنا ہے؟ 

چار سال پہلے کی بات ہے جب لندن کے نیشنل جیوگرافک سوسائٹی بھرے ہوئے ہال میں، میں اور دیپک چوپڑا اکٹھے ہوئے تھے اور ہمارے ساتھ ٹونی بیوزان موجود تھا. دونوں ہی میرے مرشد تھے. بیوزان سے میں نے دماغ کو رنگ اور روپ کے زاویے سے پکڑنا دیکھا تھا. بیوزان کی مائنڈ میپنگ تکنیک نے مجھے صرف 45 دن میں سی ایس ایس میں کامیاب ہونے میں مدد دی تھی. 

چوپڑا ایک اور طرح کا جادوگر تھا. وہ گورے کو اسی کی زبان میں مار دیتا تھا، اس کی ساری سائنس، ساری کیمسٹری، فزکس، بائیالوجی اس کے اوپر الٹاتا تھا اور پھر جب سامعین اور ناظرین کی سوچ ہانپ جاتی تھی تو وہ تمام تر علم کے اوپر بیٹھے خدا سے آہستہ آہستہ نقاب سرکاتا تھا. آج بھی دنیا کے ڈھیر ساری رنگوں والی قومیتیں سانس روکے اس کی گفتگو سن رہی تھیں اور وہ انہیں چیلنج کر رہا تھا کہ کائنات %68 ڈارک انرجی سے بنی ہے، %27 ڈارک میٹر ہے اور %5 نارمل میٹر جس کو آج تک ہم سارے سائنسی علوم سے کسی حد تک سمجھ پائے ہیں.

پھر وہ ایک لحظے کے لیے رکا اور کہنے لگا. میرے پاس ایک سوال ڈارک میٹر اور کائنات کی بنت سے بھی زیادہ مشکل ہے. بلکہ دو سوال. اور ان دو سوالات سے مشکل سوال ڈکشنری میں وجود نہیں رکھتے. 

پانچ سو لوگ اب دم سادھے اس کے انتظار میں تھے 

"میں صبح اٹھتا ہوں تو اپنے آپ سے پوچھتا ہوں اور رات کو سوتے وقت بھی. تو کبھی آدھا جواب ملتا ہے، کبھی پاؤ بھر، مگر جتنا بھی مل جائے، کمال کا ہے. سوال بہت سادہ ہیں، شاید جواب مشکل ہیں."

ہال میں سانسوں کی سمفنی تیز ہوگئی. سینکڑوں آنکھیں اس پر جم چکی تھیں. 

"سوال دو ہیں. 
1: تم کون ہو؟ ہو آر یو؟ 
2:تم کیا چاہتے ہو؟ وٹ ڈو یو وانٹ؟ ". 
ہال میں طاری سکتہ بے تحاشا تالیوں سے ٹوٹا. لوگ بے ساختہ اپنی سیٹوں سے کھڑے ہو کر تالیاں پیٹ رہے تھے. 

تم چاہتے کیا ہو؟ کئی بار مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا. اور سچی بات تو یہ ہے کہ لگتا ہے کہ اس کا جواب پتہ ہے، پھر آپ لکھتے ہیں، چند لکیریں کھینچے ہیں، فہرست بناتے ہیں، پھر فہرست لمبی ہوجاتی ہے. پھر صفحے ختم ہونے لگتے ہیں. پر چاہت ختم نہیں ہوتی اور فہرست دیکھ کر لگتا ہے کہ مجھے یہ نہیں، شاید کچھ اور چاہیے. 

جب بیج جان لیتا ہے کہ اسے کیا چاہیے تو پھر اسے پھوٹنے سے کوئی نہیں روک سکتا، مگر ایک ہی چیز بیج کے لیے مشکل ہے کہ اسے اپنا "بیج پنا" فنا کرکے اگلی صورت قبول کرنی ہوگی. وہ ایک ہی وقت میں بیج اور کونپل نہیں ہوسکتا. بیج اور درخت نہیں ہوسکتے. بیج اور پھل نہیں ہوسکتا. کیا تم تیار ہو؟ 

جب طالب مانگتا ہے اور اپنی موجودہ حالت کو کھونے کے لیے تیار ہوجاتا ہے تو پھر استاد، مربی یا مرشد کا ظہور ہوجاتا ہے. 

کہ ہم جس کی طلب میں ہوتے ہیں، وہی ہمیں ڈھونڈ رہا ہوتا ہے. 

کس کی طلب میں ہو؟ کیا ڈھونڈ رہے /رہی ہو؟ 
کون ہو تم؟ 
کیا چاہتے /چاہتی ہو؟ 
بیج کے دل میں کیا ہے؟ 

عارف انیس

( زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس)

زندگی، کرکٹ کا گھوڑا ہے



جو بھی موڑ ہیں، چکر ہیں، کھائیاں ہیں، اترائیاں ہیں، اچھے کے لیے ہیں. اسی سفر کا حصہ ہیں اور اگلے سنگ میل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہیں. ہاں ہوسکتا ہے کچھ لمحات کے لیے رستہ دھند میں کھو جائے یا نظر دھندلا جائے مگر جو یہ جو چھوٹا موٹا غوطہ ہے یہ ہمیں جگانے کے لیے ضروری ہے کہ رستہ ہموار ہو تو ہماری آنکھ لگ جاتی ہے. 

پیدائشی خوف صرف دو ہیں، تیز آواز کا خوف اور اونچائی سے ڈرنے کا خوف، باقی سب ہم نے سیکھے ہیں. لیکن جو سیکھا گیا ہو، اس کو تو بھلایا بھی جاسکتا ہے. اگر ہم اپنے خوف کے ساتھ بند کمرے میں کچھ وقت گذار سکیں اور اس کی آنکھوں میں جھانک سکیں تو اچانک اس کا حجم کم ہونے لگتا ہے. خوف اس مشہور کلاسیکی کہانی کے دیو کی طرح ہے جس کا سر آسمان سے لگ رہا ہوتا ہے مگر جب ہیرو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہے تو اس کا قد سکڑنے اور سمٹنے لگ جاتا ہے. اور پھر سکڑ کر اس کا حجم چڑیا بھر رہ جاتا ہے. تاہم اس کی آنکھوں میں دیکھنا شرط ہے. 

چیزیں بگڑ سکتی ہیں، بنا بنایا کھیل تلپٹ ہوسکتا ہے اور یہی زندگی کے کھیل کی خوبصورتی ہے. مگر اسی طرح معجزاتی طور پر اجنبی لوگ مل جائیں گے، دست غیب سے امداد ہوجائے گی، ڈوبتی کشتی پار لگ جائے گی. اور ایک لمحہ رک کر سوچیں تو یہ چھوٹے موٹے معجزے آپ سب کے ساتھ ہوچکے ہیں. تاہم نامعلوم کیوں ہم یہ سب بھول جاتے ہیں اور آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور آہ بھرتے ہیں. "آخر یہ برا میرے ساتھ ہی کیوں ہورہا ہے؟"

آپ نے امتحان دیا، ناکامی ہوگئی، لگا زندگی کا اختتام ہوگیا. محبت کی مگر منزل نہ مل سکی، اب دیوداس بنے پھرتے ہیں. ملازمت کے لئے مشقت کی، مگر انکار ہوگیا. باہر ویزے کے لیے اپلائی کیا، پراجیکٹ بنا کر بھیجا، پے درپے پریزینٹیشز دے ماریں مگر آگے سے ملا ٹھینگا، کاروبار کیا مگر دیوالیہ نکل گیا، لگا جینے کا مقصد ختم ہوگیا. مسئلہ یہ ہے کہ ہم ایک وقتی مسئلے کو ایک کمبل کی طرح کھینچ کھانچ کےپوری زندگی ہر چڑھا لیتے ہیں جب کہ بنانے والے نے یہ کھیل بڑی حکمت سے ترتیب دیا ہے. یہ خوش قسمتی ہے یا بدقسمتی کہ زندگی کے کھیل میں ہمیشہ فاتح کوئی نہیں رہتا. ہر کوئی اپنی باری پر ضرور ہارتا ہے. اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جیتتا بھی ضرور ہے.

چلیں کرکٹ کو ہم سب ہی سمجھتے ہیں توہمارے دوست سندیپ مہیش واری کے لفظوں میں سوچ لیتے ہیں کہ زندگی کرکٹ کا کھیل ہے.فرض کریں کہ کرکٹ کا میچ چل رہا ہے۔ آپ بیٹنگ کر رہے ہیں۔ پیچھے کوئی وکٹ نہیں، کوئی وکٹ کیپر نہیں، کوئی اور کھلاڑی نہیں۔ سامنے زندگی ہے جو ایک کے بعد ایک گیند آپ کی طرف پھینکتی جا رہی ہے۔ ایک بال آئی۔ آپ نے بیٹ گھمایا، بال بیٹ کے اوپر سے گذر کے پیچھے چلی گئی۔ اب آپ کیا کرو گے؟ یہ کھیل ایسا ہے کہ میں نے آپ سے کہا ناں کہ کوئی وکٹ نہیں، کوئی اور کھلاڑی نہیں مطلب اگر آپ چاہو بھی تو اس زندگی کے کھیل میں آپ آوٹ نہیں ہو سکتے۔ تب تک کہ جب تک آپ میدان کو چھوڑ کر بھاگ نہیں جاتے۔ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو ہرا نہیں سکتی اگر آپ پِچ پر ڈٹے رہو۔ زندگی کا بس ایک کام ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک گیند پھینکتی جا رہی ہے۔ آپ کا کام یہ ہے کہ آپ ایک ایک کرکے گیند کھیلتے جائیں. 

یہ گیندیں کیا ہیں؟ ۔۔ ۔ یہ مواقع ہیں جو ایک کے بعد ایک زندگی آپ کی طرف پھینکتی جا رہی ہے۔ تو اب کرنا کیا ہے پِچ پر ڈٹے رہنا ہے۔ ایک گیند چھوٹ گئی لگ جاتی تو بہت اچھا ہوتا نہیں لگی تو بھی خوب ہے۔ اپنی توجہ پِچ کی طرف رکھو، اپنی نظر زندگی کی طرف رکھو، غور سے دیکھو ایک اور موقع گیند کی صورت میں آپ کی طرف آ رہا ہے۔ پھر بیٹ گھمایا۔ گیند کو چھوئے بغیر بیٹ آگے بڑھ گیا۔ کوئی بات نہیں۔ کھیل ختم نہیں ہوا۔ دنیا کی نظر میں آپ ہار رہے ہو مگر ڈٹے رہو۔ یہاں پہ اووَرز کی کوئی حد نہیں۔ ہزاروں گیندیں اور ہیں۔ اسی طرح پانچ گیند ضائع ہوئے، آپ نے ہار نہیں مانی۔ چھٹی گیند پر آگے بڑھے اور بیٹ گھمایا، گیند بیٹ کو لگی اور چھَکّا۔ پانچ بال کی کمی پوری ہوئی۔ سارا کھیل پلٹ جائے گا ایک دن کے اندر۔ وہ ایک دن، جس دن آپ یہ ٹھان لو گے کہ چاہے جتنی بھی مشکلیں آئیں، چاہے جتنی بھی مصیبتیں آئیں۔ مجھے ہارنا نہیں ہے، میں ہارنے کے لئے اس دنیا میں نہیں آیا/آئی۔ میں لڑوں گا /گی۔ ڈٹ کر ان پریشانیوں کا سامنا کروں گا/گی۔ وہ دن آپ کی تمام پریشانیوں اور تکلیفوں کا آخری دن ہو گا۔ کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ پھر زندگی میں پریشانیاں نہیں آئیں گی، وہ آتی رہیں گی، بس یہ ہوگا کہ آپ کو پتہ چل جائے گا کہ وہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہیں اور اگلی گیند پر کھیل تبدیل بھی ہوسکتا ہے. اس میں خوش قسمتی یا بدقسمتی کا کوئی چکر نہیں کہ کوئی بھی واقعہ زندگی کے بڑے پزل کا ایک بس چھوٹا سا ٹکڑا ہوتا ہے. 

یہاں اشفاق احمد صاحب کی کئی بار سنائی ہوئی چینی حکایت انہی سے سنتے ہوئے مزہ لیجئے. ایک منگ بادشاہ کے عہد میں ایک غریب آدمی تھا۔ گائوں کا رہنے والا۔ بہت ہی غریب آدمی تھا، لیکن تھاوہ صوفی آدمی، روحانیت سے اس کا گہرا تعلق تھا۔ تو اس غریب آدمی کے پاس ایک خوب صورت گھوڑا تھا، اعلیٰ درجے کا گھوڑا۔ دنیا اسے دیکھنے کے لیے آتی۔ اس نے بڑے پیار کے ساتھ اپنے گھر کے قریب ایک چھوٹا سا اصطبل بناکے رکھا ہوا تھا۔ اس کا عشق اور کچھ نہیں تھا، اس کے پاس اور کچھ نہیں تھا۔ ایک گھوڑا ہی تھا اس کے پاس۔

بادشاہ وقت کو پتا چلا کہ ایک گھوڑا اس کے پاس ہے جوکہ بہت اعلیٰ درجے کا ہے تو یہ حاصل کرنا چاہیے۔ تو بادشاہ اپنے حواریوں کے ساتھ امیروں، وزیروں کے ساتھ اس کے پاس آیا۔ کہنے لگا، ''اے فقیر! مانگ کیا مانگتا ہے اس گھوڑے کے بدلے؟اس نے کہا، ''حضور یہ بکائو مال نہیں ہے۔ یہ شوق سے رکھا ہوا ہے۔ یہ بیچا نہیں جاسکتا۔ یہ تو بیچنے والی چیز ہی نہیں ہے۔ ،،اس نے کہا نہیں! ہم تجھے منہ مانگی قیمت دیں گے۔ اس نے کہا ، نہیں جی میں نے بیچنا نہیں ہے۔ اس نے کہا، پھر غور کرلے۔ ہم تجھے ایک پرگنہ ایک ریاست دیں گے۔ اس کے بدلے تو ہمیں یہ گھوڑا دیدے۔ وہ پھر بھی نہیں مانا۔ ضدی آدمی تھا۔ سودا چکتے چکتے معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ اس نے کہا، ''آدھی سلطنت لے لے، گھوڑا مجھے دے دے۔ '' اس نے کہا ، ''جناب عالی ! میں نے بتایا کہ اس کا مول کوئی نہیں ہے۔ اگر یہ بکنے والی چیز ہوتی تو میں دے دیتا آپ کو، لیکن یہ بکنے والی چیز نہیں ہے۔'' تو اس نے کہا، اچھا تیری مرضی ۔

جب بادشاہ چلا گیا تو گائوں کے لوگوں نے کہا تو کتنا نالائق، بے وقوف اور کتنا جاہل ہے کہ بادشاہ وقت تیرے پاس آیا۔ اس نے آدھی سلطنت آفر کی۔ اگر ظالم تجھے مل جاتی تو ہم بھی مزے کرتے۔ سارے گائوں کے مزے ہوتے۔ تو ہمارا بادشاہ ہوتا۔ ظالم تو نے یہ کتنی بڑی حماقت کی ہے۔ کتنی بڑی خوش نصیبی کو گھرآئے دھکادے دیا، باہر پھینک دیا۔ تو اس نے کہا، وہ عجیب وغریب آدمی تھا کہ میرا گھوڑا ہے۔ اس نے اس کا مول لگایا، میں نے نہیں دیا۔ اس میں خوش نصیبی یا بدنصیبی کی کیا بات ہے۔ یہ تو میری زندگی ہے۔ میرا گھوڑا ہے۔ خوش نصیبی تم کدھر سے نکال رہے ہو، میں نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا توضدی آدمی ہے۔ تو شروع ہی سے ایسا ہے اور تیرا مزاج ہی ایسا ہے۔ یہ کہہ کر چلے گئے۔ 

تھوڑے عرصے بعد کیا ہوا۔ صبح اٹھا چارہ ڈالنے کے لیے تو وہاں دیکھا کہ اصطبل میں گھوڑا نہیں تھا۔ اصطبل خالی تھا۔ گائوں کے لوگ آئے ، روتے پیٹتے ۔ کہنے لگے ہمارے گائوں کا حسن تباہ ہوگیا۔ تجھ سے کہا تھا ناکہ بادشاہ وقت کے ساتھ زور آزمائی نہیں کرتے۔ تیرا گھوڑا پاس نہیں رہا۔ تیرے ساتھ بڑا ظلم ہوا تو تباہ ہوگیا۔ برباد ہوگیا۔ اس نے کہا، میں کہاں سے تباہ ہوگیا۔ کہاں سے برباد ہوگیا۔ ایک گھوڑا تھا، چھوٹی سی چیز تھی۔ میری زندگی تو بہت بڑی ہے۔ یہ اس کا ایک حصہ تھا۔ حصے کے اوپر میری ساری زندگی کو کیوں پھیلا کر کہہ رہے ہو، کہ چونکہ تمہارا گھوڑا چلا گیا، اس لیے تم برباد ہوگئے۔ معمولی سی بات ہے۔ انہوں نے کہا، نہیں تو بے وقوف آدمی ہے۔ تجھے اللہ نے عقل ہی نہیں دی۔ وہ پھر واپس چلے گئے۔ کوئی ایک مہینہ گیارہ دن کے بعد اس کا گھوڑا ہنہناتا ہوا واپس آگیا۔ اس کے ساتھ گیارہ نئے جنگلی گھوڑے تھے۔ وہ کہیں بھاگ گیا تھا جنگل میں ، اور جنگل میں جاکر انہیں سیٹ کرتا اور وہ سارے اس کے عشق میں مبتلا ہوگئے۔ تو گیارہ گھوڑے نئے اعلیٰ درجے کے ساتھ لے کر آگیا۔ جب اس نے دیکھا تو بڑا خوش ہوا۔ انہوں نے رسے ڈال کر سب کو وہاں کھڑے کردیا۔

گائوں کے لوگ آئے۔ انہوں نے کہا ''تو بڑا خوش نصیب ہے۔ تیرا گھوڑا کھو گیا تھا اور دیکھ تجھے کمال کی چیز لاکردی۔ اس نے کہا، میری کہاں خوش نصیبی ہے، گھوڑا تھا ، چلا گیا تھا۔ واپس آگیا ۔ تو میری ساری زندگی کچھ اور ہے، اور تم ایک واقعہ پکڑ لیتے ہو۔ تم اتنے نالائق لوگ، سمجھتے نہیںہو۔ تم آکر کہتے ہو، کیا خوش نصیبی ہے۔ وہ جو گھوڑے جنگل سے آئے تھے اور وہ جنگلی گھوڑے تھے۔ اب ان کو سدھانا بڑا مشکل کام تھا۔ تو اس آدمی کا ایک اکلوتا بیٹا تھا۔ بہت پیارا جی جان سے عزیز تھا۔ ایک باپ تھا، ایک بیٹا تھا۔ اس نے کہا، باپ یہ جنگلی گھوڑے ہیں۔ میں ان کو سدھائوں گا۔ بریک ان کروں گا ان ہارسز کو۔ چنانچہ اس نے ایک کو رسہ پھینک کر پکڑا۔ پکڑکر اس کے منہ میں لگام دے کر اس کے اوپر چڑھا۔ چڑھ کے سب سے صحت مند جنگلی منہ زور گھوڑے کو سدھانے کی کوشش کی۔ اس کو لے کر گیا۔ بھگایا۔ جنگل میں چکر لگایا۔ 

دوسرے دن پھر جب اس پر چڑھا تو گھوڑے سے گر گیا اور اس کی ران کی ہڈی ٹوٹ گئی، اور زمین پر تڑپنے لگا۔ اس کا باپ آیا اس کو اٹھا کر لے گیا گھر۔ گائوں کے لوگ روتے پیٹتے آئے، تیری بدقسمتی ہے۔ تیراایک ہی بیٹا تھا تو تومارا گیا ۔ تباہ ہوگیا۔ بربادہو گیا ۔ ہم تو رونے، سیاپا کرنے آئے ہیں۔ اتنا جواں سال بیٹا اس کی ران کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اب یہ تیرے کسی کام کا نہیں رہا۔ اس نے کہا، بھائی اس میں میری بدقسمتی کدھر سے آگئی۔ یہ میری زندگی کا ایک حصہ ہے۔ ایک بیٹا ہے۔ بیٹے کی ران ٹوٹ گئی ہے۔ مشکل آئی ہے تو ٹھیک ہے۔ تم مجھے سارے کے سارے کیوں کہہ دیتے ہو کہ تو تو مارا گیا ، توتو برباد ہوگیا۔ تیرے گھر میں تو بدنصیبی آگئی ہے۔ تائو ایک مذہب ہے۔ اس کے پیروکار بڑے وحدانیت کے قائل ہوتے ہیں۔ تو یہ پوری تصویر کو مانتے ہیں اور یہ جو ٹوٹے آتے ہیں، ان کو نہیں مانتے۔ اب وہ بدنصیب باپ اور بدنصیب بیٹا اور ان کے بارہ گھوڑے رہ گئے۔ تھوڑے دنوں کے بعد بادشاہ کی قریبی ہمسایہ بادشاہ سے جنگ لگ گئی اور گھمسان کارن پڑا۔ جنگ طول اختیار کرگئی تو بادشاہ وقت کو جبری بھرتی کی ضرورت پڑی۔ اس نے ڈنکا بجادیا گائوں گائوں میں ڈونڈی پھیر دی اور جونوجوان بچے تھے ان کی زبردستی جبری بھرتی کے لیے وہ گائوں میں آگئے۔ جتنے خوب صورت تگڑے مضبوط بچے تھے ان کو کان سے پکڑ کر جنگ میں لے گئے۔ اس کے بیٹے کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی، وہ کسی کام کا ہی نہیں تھا وہ اسے چھوڑ کر چلے گئے۔ 

گاؤں کے لوگ اس کے پاس آکر کہنے لگے، یار! ہمارے تو پیارے بیٹے تھے، سب کو ہانک کر لے گئے۔ تو بہت اچھا رہا۔ خوش قسمت ہے۔ اس نے کہا، یار!تم بندے اس قابل نہیں ہوکہ تمہارے ساتھ رہا جائے۔ یہ گائوں ہی نالائق لوگوں کا ہے جو زندگی کے ایک چھوٹے سے حصے کو ساری زندگی پر پھیلا کر اس کا نتیجہ نکال دیتے ہیں۔ تو میں معافی چاہتا ہوں۔ میں تمہارے درمیان نہیں رہوں گا اور میری اور تمہاری جدائی ہے۔ چنانچہ وہ اپنے گھوڑے اور بیٹا لے کر کسی اور گاؤں میں چلا گیا ۔

تو پیارے پڑھنے والے، کوئی غوطہ، کوئی جھٹکا، کوئی ناکامی، کوئی خواری، حتیٰ کہ کوئی کامیابی بھی مستقل نہیں ہے. ہماری زندگی کی فلم میں اس کی انٹری ایک خاص موقع پر کسی گانے، کسی دوگانے، کسی ڈائیلاگ کے لیے ضروری ہے. ہمیں صرف یہ سمجھا ہے اس ہونی کا مطلب کیا ہے اور پھر اگلی گیند کھیلنے کے لیے تیار ہوجانا ہے. کریز پر موجود رہیں اور بلا گھماتے جائیں. کہانی باقی ہے میرے دوست اور میچ بھی چل رہا ہے. کہانی ہٹ ہوئی یا نہیں، یہ فیصلہ تماشائیوں کو کرنے دیں، آپ کی انٹری کمال کی ہونی چاہیے.

عارف انیس 

( زیر تعمیر کتاب "صبح بخیر زندگی" سے اقتباس)

وقت پر فیصلہ کریں

ایک پانی سے بھرے برتن میں ایک زندہ مینڈک ڈالیں اور پانی کو گرم کرنا شروع کریں - جیسے ہی پانی کا درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو گا ، مینڈک بھی اپنی باڈی کا درجہ حرارت پانی کے مطابق ایڈجسٹ کرے گا اور تب تک کرتا رہے گا جب تک پانی کا درجہ حرارت "بوائلنگ پوائنٹ" تک نہیں پہنچ جاتا ۔۔۔۔
جیسے ہی پانی کا ٹمپریچر بوائلنگ پوائنٹ تک پہنچے گا تو مینڈک اپنی باڈی کا ٹمپریچر پانی کے ٹمپریچر کے مطابق ایڈجسٹ نہیں کر پائے گا اور برتن سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا لیکن ایسا کر نہیں پائے گا کیونکہ تب تک مینڈک اپنی ساری توانائی خود کو "ماحول کے مطابق" ڈھالنے میں صرف کر چکا ہو گا 
بہت جلد مینڈک مر جائے گا۔۔۔
یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے 
"وہ کونسی چیز ہے جس نے مینڈک کو مارا؟"
سوچیئے! 
میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے اکثر یہ کہیں گے کہ 
مینڈک کو مارنے والی چیز وہ "بے غیرت انسان" ہے جس نے مینڈک کو پانی میں ڈالا
یا پھر کچھ یہ کہیں گے کہ 
مینڈک اُبلتے ہوئے پانی کی وجہ سے مرا۔۔۔ 
لیکن،
سچ یہ ہے کہ مینڈک صرف اس وجہ سے مرا کیونکہ وہ وقت پر جمپ کرنے کا فیصلہ نہ کر سکا اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے میں لگا رہا ۔۔۔
ہماری زندگیوں میں بھی ایسے بہت سے لمحات آتے ہیں جب ہمیں خود کو حالات کے مطابق ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے خیال رکھیں کہ کب آپ نے خود کو حالات کے مطابق ڈھالنا ہے اور کب حالات کو اپنے مطابق ۔۔۔۔
اگر ہم دوسروں کو اپنی زندگیوں کے ساتھ جسمانی، جذباتی، مالی، روحانی اور دماغی طور پر کھیلنے کا موقع دیں گے تو وہ ایسا کرتے ہی رہیں گے 
اس لیے وقت اور توانائی رہتے "جمپ" کرنے کا فیصلہ کریں ۔۔۔۔اور ہر دفعہ کنوئیں کا مینڈک بننے سے پرہیز کریں.

رشتے اور جُدائیاں - کل اور آج

ہمارے سامنے کی بات ہے کہ جب گاوں کے ایک گھر تنور گرم کیا جاتا تو گھر والی خاتون  اپنی بچی کو پڑوس کے گھر بھجواتی کہ آ کے روٹیاں لگا لیں۔اور خواتین اپنا آٹا لے کر پہنچ جاتیں۔ ایک تو سب کا بھلا ہو جاتا دوسرا تنور میں جو آگ جلائی جاتی وہ ایندھن ضائع ہونے سے بچ جاتا کیونکہ ایک دفعہ آپ تنور گرم کر لیں تو پانچ گھروں کی روٹیاں پکا سکتے ہیں۔پھر تنور کے اندر بینگن سیخ میں پرو کر ڈالے جاتے اور بھون لیے جاتے اس کے بعد بھی آگ اتنی ہوتی کہ بڑے پتیلے میں پانی بھر کر چنے۔گندم۔باجرہ بمع گڑ ڈال دیتے اور کچھ دیر میں گھگھنیاں تیار ہو جاتیں۔ ہماری مائیں گھگھنیاں خیرات کے طور پر پکاتی تھیں۔جس خاتون نے قران کا اس دن ختم کیا ہوتا وہ گھنگنیاں پکا کے خیرات کرتی۔ صبح جب مکھن کے لیے دودھ بلویا جاتا تو پڑوسی بچے اس گھر لسی لینے پہنچ جاتے اور ایک ایک لیٹر لسی سب کو فری ملتی۔ گاٶں والی ماسیاں  چھوٹا سا مکھن کا پیڑا بھی ڈال دیتیں۔ اگرچہ غریبی کا زمانہ تھا مگر لوگوں کے دل بہت بڑے تھے۔ گاوں کے گھروں میں بچے ایک دوسرے کے گھر سے نمک۔مرچ۔لہسن۔پیاز۔ مانگنے آتے تو پیار محبت سے دے دئیے جاتے اور یکجہتی میں اضافہ ہوتا۔ پکے ہوے سالن کی مُنگری تو ساتھ کے ایک دو گھر ضرور جاتی اب فریج میں سب کچھ جمع رہتا ہے ۔ شروع میں جب میں لاھور سے ایک الارم والی گھڑی جو تین انچ گولائی میں ہوتی لے آیا۔ گاوں والے نہر کا پانی اپنی باری کے حساب سے لگاتے تو بہت خوش ہوۓ کہ چلو اب ٹایم دیکھ کے پانی لگایا کریں گے۔گاوں کے کارپینٹر سے اس کا شیشم کی لکڑی کا ڈبے نما فریم بنایا گیا پالش ہوئی اس کو پکڑنے کے لیے اوپر ہینڈل لگا دیا۔ گاٶں کے کسان ایک ہاتھ میں گھڑی اور دوسرے میں کہی اٹھاے خوشی خوشی پھرتے اور اپنے نمبر پر کھیت کو پانی دیتے۔ بعض تو اتنا سادہ تھے کہ پہلے ان کو سمجھانا پڑتا کہ بڑی سوئی جب 12 بجے پہنچے گی تمھاری پانی لگانے کی باری شروع ہو گی۔ یہ گھڑی 24 گھنٹے میں ایک دفعہ ہمارے گھر اس لیے واپس آتی کہ ہم اس کو چابی دے دیں۔اب ویسی گھڑیاں کہیں نظر نہیں آتیں۔جب گاوں میں شادی کی تقریب ہوتی ہر گھر سے لڑکے ایک ایک چارپائی جمع کرتے رنگدار پانی کے ساتھ گھر والے کا نام لکھا جاتا اور شادی مکمل ہونے پر واپس کرتے۔سردیوں میں ایک ایک بستر بھی جمع  کیا جاتا۔ شروع میں جب ریڈیو اور پھر ٹی وی ہمارے گھر آیا تو شام کو بچوں کی پوری کلاس بیٹھ کے ریڈیو سنتی اور ٹی وی دیکھتے کیونکہ پورے گاوں میں ٹی وی ایک دو گھر تھا۔اس کے لیے زمین پر دریاں بچھائی جاتیں۔ ہمارے مکان کچے تھے ہر سال ساون کے مہینے سے پہلے لپائی کرنی ہوتی۔اس کے لیے گاوں کے پندرہ بیس آدمی بلاۓ جاتے جس کو وِنگار کہتے۔ یہ سب بلا معاوضہ گھر کی لپائی کر دیتے صرف کھانا اور چاے ان کو مہیا کی جاتی۔ اسی طرح عورتیں پنگھٹ پر یا کنویں سے گھڑوں میں پانی بھرنے اکٹھی ہوتیں تو یہ ایک قسم کی کیمونٹی میٹنگ ہوتی۔ایک دوسرے کے دکھ درد۔بیماری خوشی۔کا پتہ چلتا اور لوگ ایک دوسرے کی مدد کو تیار رہتے۔ یہ سب پیار سب یکجہتی اس وقت ختم ہونا شروع ہوئی جب باھر کے لوگ ہمارے گاوں پہنچے۔پہلے پہل ہمیں قومی اور نسلی تفاخر کا سبق پڑھایا گیا کہ یہ تورانی۔یہ افغانی  یہ فلاں یہ فلاں ہم سے کمتر اور ہم بہتر ہیں۔ جب یہ فارمولا پورا کامیاب نہ ہوا تو جمھوریت نے حملہ کر دیا۔ گاوں میں گروپ بن گئیے کون کونسلر بنے گا کس کے ووٹ زیادہ ہیں۔ بس اب ہم جدا ہونا شروع ہوۓ۔ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ باہر سے کچھ پڑھے لکھے عالم تشریف لاے ۔انہوں نے ہمیں واضع کیا کہ آپ کا باپ بریلوی ۔بھائی دیوبندی۔کزن شیعہ۔ماموں وہابی۔چچا پتھری۔ خالو ض صحیح نہیں پڑھتا۔ پھوپھا تبلیغی ہے۔بس پھر تو وہ گرد اڑی کی خدا کی پناہ ہم نے مسجدیں جدا جدا بنا کر اپنا مسلک لکھ دیا ۔میناروں پر چار پانچ لاوڈسپیکرز لگا لیے ۔امام صاحب علیحدہ۔نمازیں الگ۔جنازے الگ۔عیدیں الگ۔ پھر فرقہ واریت کا جو نتیجہ نکلا اور خون کی ہولی کھیلی گئی سب کے سامنے ہے۔ ابھی کچھ کسر باقی تھی کہ سیاسی پارٹیاں نمودار ہو گئیں پھر ایک بار ہم فلاں زندہ باد فلاں مردہ باد نعرے لگاتے باہم ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو گیے۔ ہمارے لیڈر ہم سے ووٹ لے کر پانچ سال کے لیے غائیب ہو  جاتے ہیں مگر ہم ووٹر روز لڑتے رہتے ہیں۔ان تمام عوامل کا اثر یہ ہوا کہ آج ہمارے گاوں میں بھائی اپنے بھائی سے جدا ہے اور جمہوریت، فرقہ بندی ،نااتفاقی ، لڑائی جھگڑوں،نسلی فخر اور غرور کے جہنم کے گڑھے میں جل رہا ہے اور یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس آگ کو بھڑکانے والے ہاتھ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں غائب ہو جاتے ہیں؟

دکھ درد بانٹیں

میری ماں مجھ سے اکثر پوچھتی تھی کہ "بتاؤ! جسم کا اہم ترین حصہ کونسا ہے؟"

میں سال ہا سال اس کے مختلف جواب یہ سوچ کر دیتا رہا کہ شاید اب کے میں صحیح جواب تک پہنچ گیا ہوں-

جب میں چھوٹا تھا تو میرا خیال تھا کہ آواز ہمارے لیۓ بہت ضروری ہے، لہذا میں نے کہا " امی! میرے کان"

انہوں نے کہا "نہیں- دنیا میں بہت سے لوگ بہرے ہیں- تم مزید سوچو میں تم سے پھر پوچھوں گی-"

بہت سے سال گزرنے کے بعد انہوں نے پھر پوچھا!

میں نے پہلے سے زیادہ ذہن پر زور دیا اور بتایا کہ "امی! نظر ہر ایک کے لیۓ بہت ضروری ہے لہذا اس کا جواب آنکھیں ہونا چاہیۓ"

انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا "تم تیزی سے سیکھ رہے ہو، لیکن یہ جواب صحیح نہیں ہے کیونکہ دنیا میں بہت سے لوگ اندھے ہیں"

پھر ناکامی ہوئی اور میں مزید علم کی تلاش میں مگن ہو گیا- اور پھر بہت سے سال گزرنے کے بعد میری ماں نے کچھ اور دفعہ یہی سوال دہرایا اور ہمیشہ کہ طرح ان کا جواب یہی تھا کہ "نہیں- لیکن تم دن بدن ہوشیار ہوتے جا رہے ہو-"

پھر ایک سال میرے دادا وفات پا گئے- ہر کوئی غمزدہ تھا- ہر کوئی رو رہا تھا- یہاں تک کہ میرے والد بھی روئے- یہ مجھے خاص طور پر اس لیۓ یاد ہے کہ میں نے کبھی انھیں روتے نہیں دیکھا تھا-

جب جنازہ لے جانے کا وقت ہوا تو میری ماں نے پوچھا "کیا تم جانتے ہو کہ جسم کا سب سے اہم حصہ کونسہ ہے-"

مجھے بہت تعجب ہوا کہ اس موقع پر یہ سوال! میں تو ہمیشہ یہی سمجھتا تھا کہ یہ میرے اور میری ماں کے درمیان ایک کھیل ہے-

انہوں نے میرے چہرے پر عیاں الجھن کو پڑھ لیا اور کہا! "یہ بہت اہم سوال ہے- یہ ظاہر کرتا ہے کہ تم اپنی زندگی میں کھوۓ ہوئے ہو- ہر وہ جواب جو تم نے مجھے دیا وہ غلط تھا اور اس کی وجہ بھی میں نے تمہیں بتائی کہ کیوں- لیکن آج وہ دن ہے جب تمہیں یہ اہم سبق سیکھنا ہے"

انہوں نے ایک ماں کی نظر سے مجھے دیکھا اور میں نے ان کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں دیکھیں- انہوں نے کہا! "بیٹا! جسم کا اہم ترین حصہ کندھے ہیں-"

میں نے پوچھا! "کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے میرے سر کو اٹھا رکھا ہے؟"

انہوں نے کہا کہ "نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کا کوئی پیارا کسی تکلیف میں رو رہا ہو تو یہ اس کے سر کو سہارہ دے سکتے ہیں- ہر کسی کو زندگی میں کبھی نہ کبھی ان کندھوں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے- میں صرف یہ امید اور دعا کر سکتی ہوں کہ تمہاری زندگی میں بھی وہ پیارے اور مخلص لوگ ہوں، کہ ضرورت پڑنے پر جن کے کندھے پر تم سر رکھ کر رو سکو-

یہ وہ وقت تھا کہ جب میں نے سیکھا کہ جسم کا اہم ترین حصہ خودغرض نہیں ہو سکتا- یہ دوسروں کے لیۓ بنا ہے- یہ دوسروں کے دکھ درد کا ساتھی اور ہمدرد ہے-

دوستو! لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ آپ نے کیا کہا- لوگ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آپ نے کیا کیا- لیکن لوگ یہ کبھی نہیں بھول سکتے کہ آپ نے انھیں کیسا محسوس کرایا
اس لیئے دوسروں کا دکھ درد بانٹیں انکا سہارا بنیں خوش رہیں خوشیاں بانٹیں۔

Thursday, September 10, 2020

خواتین کیلئے سفر کے دوران حفاظتی اقدامات

ٹیکسی وغیرہ میں سفر کرنے والی ہر لڑکی کو یہ باتیں پتہ ہونی چاہیے :

کار میں بیٹھتے ہوئے اس نے سب سے پہلے دروازے میں نیچے کی جانب لگا "چائلڈ لاک" اوپر کیا۔ ایسا کرنے سے ڈرائیور خود سے دروازہ لاک نہیں کر سکتا تھا۔ اور کسی مصیبت میں وہ دروازہ کھول کر فرار ہو سکتی تھی۔ 

پھر وہ بجائے بیچ میں بیٹھنے کے ڈرائیونگ سیٹ کے بالکل پیچھے بیٹھی تھی کہ اگر ڈرائیور اس پر حملہ بھی کرنا چاہئے تو اسکا ہاتھ نہ پہنچے۔ 

پھر اس نے اپنا بیگ گود میں رکھا۔ اور بیگ چیک کرکے تسلی کی کہ بال پن، باڈی سپرے اور اضافی اسکارف یا کوئی اور کپڑا موجود ہے ناں جو وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتی تھی اپنے دفاع کیلئے۔ کیونکہ اگر ڈرائیور کوئی غلط موڑ مڑتا یا اسے گڑبڑ لگتی تو سب سے پہلے پیچھے سے وہ بال پن اسکے بازو پر مارتی تا کہ ڈرائیور گھبرا کر یکدم بریک لگائے اور پھر باڈی سپرے سے ڈرائیور کی آنکھوں پر سپرے کردے اور پھر اپنے سکارف کی مدد سے ڈرائیور کی گردن سیٹ سے باندھ دے کہ وہ اس پر حملہ نہ کر سکے ۔

اور ان سب کے بعد وہ باآسانی کار سے نکل کر اپنا بچاؤ کر سکے۔
یہ سب شانزے نے ایک سیلف ڈیفنس ویڈیو میں دیکھا تھا جسے وہ ہمیشہ ذہن میں رکھتی تھی۔ 
اور 
باہر سفر کرنے والی ہر لڑکی کو یہ حفاظتی اقدامات پتہ ہونے چاہے۔

رکشہ میں سفر کے دوران بھی انہی احتیاطی تدابیر کو مدِ نظر رکھا جا سکتا

*نوٹ:* 
اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے 

عبدا لستار ایدھی

گجرات کے گاؤں بانٹوا کا نوجوان عبدالستار گھریلو حالات خراب ہونے پر کراچی جا کر کپڑے کا کاروبار شروع کرتا ہے کپڑا خریدنے مارکیٹ گیا وہاں کس نے کسی شخص کو چاقو مار دیا زخمی زمین پر گر کر تڑپنے لگا لوگ زخمی کے گرد گھیرا ڈال کر تماشہ دیکھتے رہے وہ شخص تڑپ تڑپ کر مر گیا..

نوجوان عبدالستار کے دل پر داغ پڑ گیا , سوچا معاشرے میں تین قسم کے لوگ ہیں دوسروں کو مارنے والے مرنے والوں کا تماشہ دیکھنے والے اور زخمیوں کی مدد کرنے والے .. نوجوان عبدالستار نے فیصلہ کیا وہ مدد کرنے والوں میں شامل ہو گا اور پھر کپڑے کا کاروبار چهوڑا ایک ایمبولینس خریدی اس پر اپنا نام لکها نیچے ٹیلی فون نمبر لکھا اور کراچی شہر میں زخمیوں اور بیماروں کی مدد شروع کر دی.
وہ اپنے ادارے کے ڈرائیور بهی تهے آفس بوائے بهی ٹیلی فون آپریٹر بهی سویپر بهی اور مالک بهی وہ ٹیلی فون سرہانے رکھ کر سوتے فون کی گھنٹی بجتی یہ ایڈریس لکهتے اور ایمبولینس لے کر چل پڑتے زخمیوں اور مریضوں کو ہسپتال پہنچاتے سلام کرتے اور واپس آ جاتے .. عبدالستار نے سینٹر کے سامنے لوہے کا غلہ رکھ دیا لوگ گزرتے وقت اپنی فالتو ریزگاری اس میں ڈال دیتے تھے یہ سینکڑوں سکے اور چند نوٹ اس ادارے کا کل اثاثہ تهے .. یہ فجر کی نماز پڑھنے مسجد گئے وہاں مسجد کی دہلیز پر کوئی نوزائیدہ بچہ چهوڑ گیا مولوی صاحب نے بچے کو ناجائز قرار دے کر قتل کرنے کا اعلان کیا لوگ بچے کو مارنے کے لیے لے جا رہے تھے یہ پتهر اٹها کر ان کے سامنے کهڑے ہو گئے ان سے بچہ لیا بچے کی پرورش کی اج وہ بچہ بنک میں بڑا افسر ہے ..
یہ نعشیں اٹهانے بهی جاتے تھے پتا چلا گندے نالے میں نعش پڑی ہے یہ وہاں پہنچے دیکھا لواحقین بهی نالے میں اتر کر نعش نکالنے کے لیے تیار نہیں عبدالستار ایدھی نالے میں اتر گیا, نعش نکالی گهر لائے غسل دیا کفن پہنایا جنازہ پڑهایا اور اپنے ہاتھوں سے قبر کهود کر نعش دفن کر دی .. بازاروں میں نکلے تو بے بس بوڑھے دیکهے پاگلوں کو کاغذ چنتے دیکھا آوارہ بچوں کو فٹ پاتهوں پر کتوں کے ساتھ سوتے دیکها تو اولڈ پیپل ہوم بنا دیا پاگل خانے بنا لیے چلڈرن ہوم بنا دیا دستر خوان بنا دیئے عورتوں کو مشکل میں دیکھا تو میٹرنٹی ہوم بنا دیا .. لوگ ان کے جنون کو دیکھتے رہے ان کی مدد کرتے رہے یہ آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ ایدهی فاؤنڈیشن ملک میں ویلفیئر کا سب سے بڑا ادارہ بن گیا یہ ادارہ 2000 میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی آ گیا .. ایدھی صاحب نے دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ ایمبولینس سروس بنا دی .. عبدالستار ایدھی ملک میں بلا خوف پهرتے تهے یہ وہاں بهی جاتے جہاں پولیس مقابلہ ہوتا تھا یا فسادات ہو رہے ہوتے تھے پولیس ڈاکو اور متحارب گروپ انہیں دیکھ کر فائرنگ بند کر دیا کرتے تھے ملک کا بچہ بچہ قائداعظم اور علامہ اقبال کے بعد عبدالستار ایدھی کو جانتا ہے .. 
ایدھی صاحب نے 2003 تک گندے نالوں سے 8 ہزار نعشیں نکالی 16 ہزار نوزائیدہ بچے پالے.. انہوں نے ہزاروں بچیوں کی شادیاں کرائی یہ اس وقت تک ویلفیئر کے درجنوں ادارے چلا رہے تھے لوگ ان کے ہاتھ چومتے تهے عورتیں زیورات اتار کر ان کی جهولی میں ڈال دیتی تهیی نوجوان اپنی موٹر سائیکلیں سڑکوں پر انہیں دے کر خود وین میں بیٹھ جاتے تهے .. عبدالستار ایدھی آج اس دنیا میں نہیں ھیں مگر ان کے بنائے ھوئے فلاحی ادارے دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف ھیں.. 
اللہ پاک ایدھی مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرماے.. آمین..!

زندگی کا راز(قانون کشش-Law of attraction )

از قلم۔۔سید زین حسن (شاہ جی)

"Whatever the mind of a man can Concieve and believe, the mind can Achieve" -Napoleon Hills*
(جو کچھ انسان کا ذہن جامد(سوچ) اور یقین کرسکتا ہے، ذہن بھی اسے حاصل کرسکتا ہے) نپولین ہل

جی ہاں،یہ قانون آپکی زندگی بھی بدل سکتا ہے، کیونکہ جو اس قانون پے یقین کرتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ انکی زندگی کچھ دنوں میں ہی بدل گئ۔
مجھے اس قانون کو سمجھے ہوۓبہت وقت ہوچکا ہے اور میری ذاتی زندگی پر اسکا بہت اثر ہے۔
چونکہ تحریر کے سلسلے میں مجھے پچھلے 3 دن سے انٹرنیٹ پر ریسرچ اور سٹڈی کرنی پڑی۔اور کافی معلومات کے بعد قلم✍🏻 ہاتھ میں لیا۔

آئیں جانتے ہیں کہ یہ قانون کونسا ہے اور کیسے کام کرتا ہے۔
اس قانون کا نام قانون کشش ہے (Law of attraction ) =شاید آپ نام سننے کے بعد سوچ رہے ہوں کہ یہ کوئی فزکس کا قانون ہے تو ایسابالکل نہیں ہے۔یہ قانون بنیادی طور پر نفسیات کا قانون ہے۔
ہم کہیں نا کہیں اسے سمجھنے کیلئے فزکس کے قوانین کی مثال تو دیں گے لیکن یہ قانون ان قوانین سے بالکل مختلف ہے۔

اس قانون کی بنیادی تعریف یہ ہے کہ "سوچ حقیقت کا روپ دھارتی ہے"
سننے میں یہ بات قابل یقین نا ہو شائد لیکن جب آپ اسے سمجھ لیتے ہیں تو آپکو یقین بھی آجاتا ہے۔

اسکو آسان سمجھنے کے لیے روز مرہ کی مثالیں پیش خدمت ہیں۔
*1)* آج شائد یہ بات پرانی ہوگئی ہے لیکن اب بھی کہیں نا کہیں ہمارے بزرگ اور گاؤں کے لوگ اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر گھر میں کوا 'کائن کائن'(کوے کی آواز) کرے تو اس دن گھر میں مہمان آتے ہیں اور اکثر انکی یہ بات سچ ہوجاتی ہے۔
2) ہم کسی کے بارے میں بات کر رہے ہوں اور وہ آجائے تو ہمارے منہ سے نکلتا ہے کہ بڑی لبھی عمر ہے،ہم بس تمیں ہی یاد کر رہے تھے ۔

اس قانون کی بنیادی وضاحت کچھ یوں ہے کہ ہمارا جسم ایک توانائی ہے۔جب ہم سوچتے ہیں تو ہمارے ارد گرد ایک اورا(Aura) بن جاتا ہے۔
اورا(Aura)کیا ہوتا ہے؟ ہم نے فزکس میں پڑھا کہ جو چیز حرکت کرتی ہے اسکے گرد ایک فیلڈ بن جاتی ہے جیسے *مگنیٹک فیلڈ(Magnetic field )* وغیرہ اور سوچ کی فیلڈ کو *psychology* کی زبان میں اورا کہتے ہیں جو ہماری سوچ سے بنتا ہے۔

تو جیسے ہی ہم کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں ہم ویسا ہی *اورا(aura)* بنا لیتے ہیں اور اسکی *فریکوینسی (Frequency )* پوری کائنات میں بھیج دیتے ہیں،اور پھر قانون کی کشش ویسی ہی چیزوں کو آپکی طرف لیۓآتی ہے۔

*قانون کشش ثقل(Law of Gravity )* کی سمجھ آپکو آتی ہے کہ نہیں لیکن یہ کام ضرور کر رھا ہے کہ زمین ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتی ہے،اس طرح ہماری سوچ کی *فریکوینسی(Frequency )* بھی اپنی طرف چیزیں کھینچتی ہے۔

آپ کے اپنے اندر ایک پوری کائنات ہیں۔
آپ اپنی سوچ کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔ یہ راز پچھلے عظیم لوگوں کو معلوم تھا جو وہ اتنے عظیم بنے،جیسے 
*ایڈسن،ہنری فورڈ،اور اینسٹین* ۔
*"Imagination is everything" -A.Einstain.*
لیکن اس راز کو آسان الفاظ میں ایک *اسٹریلوی خاتون رونڈا بئرن(Rhonda Byrne )*
*نے ایک مووی کی شکل میں پیش کیا اس مووی کا نام The Secret ہے۔جس نے لاکھوں لوگوں کی زندگی بدل دی ہے۔*

اس قانون کو اب اس زاویہ سے سمجھتے ہیں کہ *آپ اس وقت اگر اپنے کمرے میں بیٹھے ہیں تو آپکے گرد تمام اشیاء دو مرتبہ بنی ہیں،ایک اسکے ایجاد کرنے والے کے تصور میں اور دوسری بار اس دنیا میں۔
مطلب ہر چیز پہلے ذہن میں بنتی ہے پھر حقیقت میں۔

*ہماری کامیابی،خوشی،رشتے،صحت اور زندگی تمام چیزیں ہماری سوچ پر منحصر کرتی ہے۔
ہمارا جسم ہمارے خیالات کا نتیجہ ہے۔
ہم وہی کچھ ہیں جس کے بارے میں ہم سوچتے ہیں۔
ہم اپنی زندگی خود ہی ڈیزائین کرتے ہیں۔بنیادی طور پر آپ اپنی زندگی کی کہانی کے خود ہی مصنف ہیں،اپنا پن اپنے پاس رکھیں اور لکھتے جائیں۔

*اس قانون کے بنیادی تین مقاصد ہیں،*
*1: مانگو(Ask )*
*2: یقین کرو(Believe )*
*3: اور حاصل کرو(Achieve )*
جو چیز آپ قدرت سے منگتے ہیں آپکو وہی چیز ملتی ہے۔اس بات کو دوسرے الفاظ میں کچھ یوں کہوں گا کہ جس چیز کو آپ شدت سے چاہتے ہیں،قدرت بھی اسے آپ سے ملنے میں مدد کرتی ہے۔
*جیسے ہمارے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا۔۔*
*"اللہ تعالی فرماتا ہیں:* 
*کہ میں اپنے بندے سے اسکے گمان کے مطابق معاملا کرتا ہوں۔"*
اس قانون کی مزے کی بات یہ ہے کہ آپ مثبت سوچیں گے تو آپکی زندگی بھی مثبت ہونا شروع ہوجائے گی۔
لیکن بدقسمتی ہم اکثر منفی سوچ رکھتے ہیں کہ میرے امتحان میں نمبر کم آئیں گے ،میری نوکری نہیں لگے گی،میں امیر نہیں ہو سکتا اور پھرویسا ہی ہوجاتا ہے۔

یہ قانون ہمیں شکر گزاری اور مثبت سوچ رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ تا کہ ہم اچھی زندگی گزار سکیں۔

حقیقی نوٹ۔۔۔
میں زندگی کے برے حالت میں تھا اور ہار مان چکا تھا،یہ تحریر پڑھنے کے بعد میرے اندر دوبارہ سے اگے بڑھنے کا جذبہ اہ گیا ہے،اب میں پھر سے اگے بڑھو گا۔(ایک یونیورسٹی کے طالبعلم کا میسج)
۔اس تحریر کو زیادہ شیر کریں شاید اپکے ایک شیر سے کسی کی زندگی بدل جائے ۔شکریہ۔


(تحریر میں کوئی غلطی ہوئی ہو تو اسکے لیے معافی)
شکریہ

Wednesday, September 9, 2020

حیرت انگیز معلومات

 کیا آپ جانتے ہیں؟ 
🕓 اللہ کے حروف 4 ہیں -
🕓 محمد کے حروف 4 ہیں-
🕓 رسول کے حروف 4 ہیں -
🕓 کتاب کے حروف 4 ہیں -
🕓 قرآن کے حروف 4 ہیں -
🕓 مسجد کے حروف 4 ہیں -
🕓 کلمہ کے حروف 4 ہیں -
🕓 نماز کے حروف 4 ہیں -
🕓 روزہ کے حروف 4 ہیں -
🕓 زکوٰۃ کے حروف 4 ہیں -
🕓 سورج کے حروف 4 ہیں -
🕓 چاند کے حروف 4 ہیں -
🕓 جہاد کے حروف 4 ہیں -
🕓 زمین کے حروف 4 ہیں -
🕓 نکاح کے حروف 4 ہیں -
🕓 طلاق کے حروف 4 ہیں -
🕓 دنیا کے حروف 4 ہیں -
🕓 آخرت کے حروف 4 ہیں -
🕓 سوال کے حروف 4 ہیں -
🕓 جواب کے حروف 4 ہیں -
🕓 گناہ کے حروف 4 ہیں -
🕓 نیکی کے  حروف 4 ہیں -
🕓 ثواب کے حروف 4 ہیں -
🕓 عذاب کے حروف 4 ہیں -
🕓 بہشت کے حروف 4 ہیں (جنَّت) -
🕓 دوزخ کے حروف 4 ہیں (جہنم) -
🕓 حضور اکرم  کے دوست 4 ہیں -
🕓 بڑے فرشتے 4 ہیں -
🕓 آسمانی کتابیں 4 ہیں -
 

خـــــــامـــــــوش_دوســـــــت

  *جوانی میں انسان باپ کو شک کی نگاہ سے دیکھتا رہتا ہے , جیسے باپ کو ہمارے مسائل ,تکلیفوں یا ضرورتوں کا احساس ہی نہیں . یہ نئے دور کے تقاضوں کو نہیں سمجھتا* 

    *کبھی  کبھی ہم اپنے باپ کا موازنہ بھی کرنا شروع کر دیتے ہیں , " اتنی محنت ہمارے باپ نے کی ہوتی , بچت کی ہوتی , کچھ بنایا ہوتا* 
      *تو آج ہم بھی ... فلاں کی طرح عالیشان گھر , گاڑی میں گھوم رہے ہوتے "*  
    *" کہاں ہو ? کب آؤ گے ? زیادہ دیر نہ کرنا " جیسے سوالات انتہائی فضول اور فالتو سے لگتے ہیں* 

    *" سویٹر تو پہنا ہے کچھ اور بھی پہن لو سردی بہت ہے "  انسان سوچتا ہے کہ اولڈ فیشن کی وجہ سے والد کو باہر کی دنیا کا اندازہ نہیں* 

    *اکثر اولادیں اپنے باپ کو ایک ہی معیار پر پرکھتی ہیں  , گھر ,گاڑی ,پلاٹ , بینک بیلنس , کاروبار اور اپنی ناکامیوں کو باپ کے کھاتے میں ڈال کر* 
    *خود سُرخرو ہو جاتے ہیں "  ہمارے پاس بھی کچھ ہوتا تو اچھے اسکول میں پڑھتے , کاروبار کرتے "* 
    *اس میں شک نہیں* 
    *اولاد کے لئے آئیڈیل بھی ان کا باپ ہی ہوتا ہے لیکن کچھ باتیں , جوانی میں سمجھ نہیں آتیں یا ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے , اس ليے کہ ہمارے سامنے , وقت کی ضرورت ہوتی ہے , دنیا سے مقابلے کا بُھوت سوار ہوتا ہے* 
    *جلد سے جلد سب کچھ پانے کی جستجو میں ہم کچھ کھو بھی رہے ہوتے ہیں , جس کا احساس بہت دیر سے ہوتا ہے* 

    *بہت سی اولادیں , وقتی محرومیوں کا  پہلا  ذمّہ دار اپنے باپ کو قرار دے کر ,ہر چیز سے بری الزمہ ہو جاتی ہیں* 

    *وقت گزر جاتا ہے , اچھا بھی برا بھی , اور اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ انسان پلک  جھپکتے ماضی کی کہانیوں کو اپنے ارد گِرد منڈلاتے دیکھنا شروع کر دیتا ہے*      
    
     *جوانی , پڑھائی , نوکری , شادی , اولاد اور پھر وہی اسٹیج ، وہی کردار , جو نِبھاتے ہوئے , ہر لمحہ , اپنے باپ کا  چہرہ آنکھوں کے سامنے آ آ کر , باپ کی  ہر سوچ , احساس , فکر , پریشانی , شرمندگی اور اذیّت کو ہم پر کھول کے رکھ دیتا ہے* 

    *باپ کی کبھی کبھی بلا وجہ خاموشی , کبھی پرانے دوستوں میں بے وجہ قہقہے*  
    *اچھے کپڑوں کو ناپسند کرکے ,پرانوں کو فخر سے پہننا , کھانوں میں اپنی سادگی پر فخر*  
    *کبھی کبھی سر جُھکائے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں میں مگن ہونے کی وجہ* 
    *کبھی بغیر وجہ تھکاوٹ کے بہانے سرِ شام بتّی بجھا کر لیٹ جانا* 

    *نظریں جھکائے , انتہائی محویت سے , ڈوب کر قران کی تلاوت کرنا ,  سمجھ تو آنا شروع ہو جاتا ہے لیکن بہت دیر بعد* 

    *جب ہم خود راتوں کو جاگ جاگ کر , دوسرے شہروں میں گئے بچوں پر آیت الکرسی کے دائرے پھونکتے ہیں* 
    *جب ہم سردی میں وضو کرتے ہوئے اچانک سوچتے ہیں , پًوچھ ہی لیں " بیٹا  آپ کے ہاں  گرم پانی آتا ہے ؟ "* 

    *جب قہر کی گرمی میں رُوم کولر کی خنک ہوا بدن کو چُھوتی ہے تو پہلا احساس جو دل و دماغ میں ہلچل سی مچاتا ہے , وہ " کہیں اولاد گرمی میں تو نہیں بیٹھی "* 

    *جوان اولاد کے مستقبل , شادیوں کی فکر , ہزار تانے بانے جوڑتا باپ , تھک ہار کر اللّه اور اس کی پاک کلام میں پناہ ڈھونڈتا ہے* 
    *تب یاد آتا ہے , ہمارا باپ بھی ایک ایک حرف , ایک ایک آیت پر , رُک رْک کر , بچوں کی سلامتی , خوشی , بہتر مستقبل کی دعائیں ہی کرتا ہوگا* 

    *ہر نماز کے بعد , اُٹھے کپکپاتے ہاتھ ,اپنی دعاؤں کو بھول جاتے ہونگے , ہماری طرح ہمارا باپ بھی ایک ایک بچے کو , نمناک آنکھوں سے اللّه کی پناہ میں دیتا ہوگا*  

    *سرِ شام کبھی کبھی , کمرے کی بتّی بُجھا کر , اس فکر کی آگ میں جلتا ہوگا کہ میں نے اپنی اولاد کے لئے بہت کم کِیا ؟*  

    *اولاد کو باپ بہت دیر سے یاد آتا ہے , اتنی دیر سے کہ ہم اسے چْھونے , محسوس کرنے , اسکی ہر تلخی , اذیت , فکر کا ازالہ کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں* 

     *یہ ایک عجیب احساس ہے , جو وقت کے بعد اپنی اصل شکل میں ہمیں بےچین ضرور کرتا ہے* 
    *لیکن یہ حقیقتیں جن پر بروقت عیاں ہو جائیں وہی خوش قسمت اولادیں ہیں* 

    *اولاد ہوتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں
 باپ کا چھونا , پیار کرنا , دل سے لگانا , یہ تو بچپن کی باتیں ہیں* 

    *باپ بن کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں* 
    *پتہ نہیں باپ نے کتنی دفعہ دل ہی دل میں , ہمیں چھاتی سے لگانے کو بازو کھولے ہونگے ؟* 
    *پیار کے لئے اس کے ہونٹ تڑپے ہونگے* 
    *اور ہماری بے باک جوانیوں نے اسے یہ موقع نہیں دیا ہوگا*

    *ہم جیسے درمیانے طبقے کے سفید پوش لوگوں کی* 
    *ہر خوائش , ہر دعا , ہر تمنا , اولاد سے شروع ہو کر , اولاد پر ہی , ختم ہو جاتی ہے*  

    *لیکن کم ہی باپ ہونگے جو یہ احساس اپنی اولاد کو اپنی زندگی میں دلا سکے ہوں*  
    *یہ ایک چُھپا ,میٹھا میٹھا درد ہے جو باپ اپنے ساتھ لے جاتا ہے* 
    *اولاد کے  ليے, بہت کچھ کر کے بھی کچھ نہ کرسکنے کی ایک خلش , آخری وقت تک ایک باپ کو بے چین رکھتی ہے , اور* 
    *یہ سب بہت شدت سے محسوس ہوتا ہے*  
    *جب ہم باپ بنتے ہیں . بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں*  
    *تو باپ کے دل کا حال جیسے قدرت ہمارے دلوں میں منتقل کر دیتی ہے*  

    *اولاد اگر باپ کے دل میں اپنے لئے محبت کو کھلی آنکھوں سے , وقت پر دیکھ لے* 
    *تو شاید اسے یقین ہو جائے کہ دنیا میں باپ سے زیادہ اولاد کا کوئی دوست نہیں ہوتا*       

_*ھمیشہ ٹوٹ کے ماں باپ کی کرو خدمت،*_  
*_ھیں کتنی دیر یہ بوڑھے شجر نہیں معلوم_*                         
_*ان کے ھونے سے بخت ھوتے ھیں،*_ 
_*باپ گھر میں درخت ھوتے ھیں.*_.... 

اللہ ہم سب کے والدین کو تندرستی والی لمبی زندگی عطا فرامائے...  
آمین...