Thursday, September 17, 2020

کام کی باتیں

درخت پراوقات سے زیادہ پھل لگ جائیں تو اس کی ڈالیاں ٹوٹنا شروع ہو جاتی ہیں

انسان کو اوقات سے زیادہ مل جائے تو وہ رشتوں کو توڑنا شروع کر دیتا ہے۔ انجام آہستہ آہستہ درخت اپنے پھل سے محروم ہو جاتا ہے۔

الفاظ کا چناؤ سوچ سمجھ کر کریں جب آپ بات کر رہے ہوتے ہیں تو آپ کے الفاظ، آپ کے خاندان کا پتہ، مزاج اور آپ کی  تربیت کا پتہ دے رہے ہوتے ہیں۔

بچہ بڑا ہو کرسمجھ جاتا ہے کہ ابا کی پابندیاں ٹھیک ہی تھیں اور بندہ مرنے کے بعدسمجھ جائے گا کہ اس کے رب کی پابندیاں ٹھیک تھیں

زندگی کوئی چائے کا کپ تھوڑی ہوتی ہے کہ ایک چمچہ شکر ملا کر ذائقے کی تلخی کو دور کر دیا جائے زندگی کو تو عمر کے آخری لمحے تک گھونٹ گھونٹ پینا پڑتا ہے چاہے تلخی کتنی زیادہ کیوں نہ ہو جائے

تہجد پڑھتے ہیں مگر اپنے بھائی سے بول چال نہیں رکھتے ہر نیک کام کرتے ہیں مگر غیبت نہیں چھوڑتے اپنی نیکیاں ایسی تھیلی میں جمع نہ کریں جس میں سوراخ ہو

اگر تمہیں ایک دوسرے کے اعمال کا پتہ چل جائے تو تم ایک دوسرے کو دفن بھی نہ کرو
 اللہ نے تمہارے عیب چھپا رکھے ہیں اس پر شکر ادا کرو اور دوسروں کے عیبوں کو بھی چھپانے کی عادت ڈالو کیونکہ برائیاں آپ میں بھی ہیں اور زبانیں دوسروں کے پاس بھی ہیں

*کچھ لوگ اپنے لئیے ساری ساری رات جنت کی دعائیں مانگتے ہیں لیکن دوسروں کی زندگی انہوں نے جہنم بنائی ہوئی ہوتی ہے

ہم کسی کےدل میں جھانک نہیں سکتے یہ جان نہیں سکتے کہ کون ہمارے ساتھ کتنا مخلص ہے لیکن وقت اور روئیے جلد ہی یہ احساس دلا دیتے ہیں

اپنی طرف سے بھرپور کوشش کیجئیے سخت محنت کیجئیے طریقہ صحیح اور جائز اختیار کیجئیے دعا کیجئیے پر امید رہئیے اور نتیجہ اللہ تعالی پر چھوڑ دیجئیے

زبان دراز لوگوں سے ڈرنے کا کوئی فائدہ نہیں وہ تو شور ڈال کر اپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں لیکن ڈرو ان لوگوں سے جو سہہ جاتے ہیں کیونکہ وہ معاملہ اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں جہاں ناانصافی کی گنجائش نہیں ہوتی وہاں دیر ہےاندھیر کبھی نہیں

اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ.... ہر چیز آپ کے ہاتھوں سے نکل رہی ہے اور حالات آپ کے موافق نہیں ہیں تو ایک دفعہ اس درخت کے بارے میں ضرور سوچنا جو ایک ایک کر کے اپنے تمام پتے کھو دیتا ہے لیکن پھر بھی کھڑا رہتا ہے اس امید پر کہ... بہار کے دن آئیں گے

مجھے اتنا عجیب لگتا ہے ناں... کہ لوگ ہماری زندگی کا ایک صفحہ پڑھ کے ہمارے بارے میں پوری کتاب خود ہی لکھ لیتے ہیں.

کوئی یہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ حساب نہیں ہوگا کہ وہ بخشا جائے گا یاد رہے حساب دینا ہوگا ایک ایک آہ کا، آنسو کا، تڑپ کا، بے حسی کا اور بے رحمی کا حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد کا معاملہ بھی بہت سخت ہے
افسوس!
کچھ نہیں... سبھی لوگ یہ بات بھلائے بیٹھے ہیں

Wednesday, September 16, 2020

تلخیاں


زیادہ ملاقاتیں ہمیں تھکا دیتی ہیں۔
ہم صرف اس ملاقات سے تروتازہ ہوتے ہیں جسکی ہماری روح کو ضرورت ہوتی ہے 
یہ ملاقات کچھ لمحوں کی ہی کیوں نہ ہو بہت تاثیر چھوڑتی ہیں۔
ہم خواہ کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہو ہمیں ہمیشہ کسی ہم راز کی ضرورت رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
کسی ہم سوچ کی، کسی ہم سفر کی۔۔۔۔۔۔
ورنہ ہم اکیلے تھک جاتے ہیں۔
ہمیں ضرورت ہے ایک دوسرے کی لیکن ہر دوسرا ہمارا ہم راز نہیں ہوسکتا۔۔۔
ہمیں تلاش کرنی پڑتی ہے  ایسے شخص کی کسی ایسے انسان کی جو ہمیں دبحمعی سے سن سکتا ہو۔
ہم ہر شخص کی گفتگو سے متاثر نہیں ہو سکتے ۔
گفتگو صرف اس بات نہیں کہ صرف تم سناؤ، سامنے والے کو سننا بھی گفتگو کے ارکان میں شامل ہوتا ہے
ہم بس سنانا جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم، ہم نہیں رہے، ہم میں بن گئے ہے۔۔
جب پاس رہنے والے لوگ پر سکون  ہوں، تروتازہ اور شاداب 
ہو تو انسان پریشان ہو کر بھی مطمئن رہتا ہیں۔
لیکن اگر ارد گرد والے مایوس ہوں، بیمار ہوں تو اچھا  بھلا ہشاش بشاش چہرہ بھی بے سکون ہو جاتا ہے ، ڈیریشن میں چلا جاتا ہے. 
ہم نہ اکیلے خوش رہ سکتے ہیں نہ ہی معاشرے کے ایسے لوگوں کے ساتھ جو مایوس ہو۔
ہر بات پر لمبی لمبی بحث  کرنے والےہوں۔ 
ہمیں خوش رہنے کے لئے روحانی رشتوں کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔
اپنی روح سے ملتے جلتے لوگوں کی۔۔۔۔۔۔ 
ہمیں ﷲ سے ہی دعا مانگتے رہنا چاہیے کہ _"ہمیں مومن لوگوں کی محبت عطا کر اور ہمیں مثبت لوگوں کا ساتھ نصیب فرمادے"_۔۔۔۔۔۔
ماحول انسان پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔
ملاقاتیں انسان کو بہت متاثر کرتی ہے۔
ہمیں ملاقاتوں کا بہتر چناؤ کرنا چاہیے۔۔
جن ملاقاتوں سے ہم ڈپریس ہوں ہمیں ان ملاقاتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔
کبھی کبھار ہماری ڈپریشن ہمارے گھر سے ہی شروع ہوتی ہے۔۔
ہمیں کوئی بڑی پریشانی نہیں ہوتی مگر پھر بھی ہم نیم نیم پریشان ہوتے ہیں ۔ 
بڑی پریشانی کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم جانتے ہے کہ ہم کیوں پریشان ہیں ۔
کم از کم دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر اپنی حاجات تو طلب کر سکتے ہیں۔
یہ جو نیم نیم پریشانی ہوتی ہے یہ روح کو گھائل کر دیتی ہے۔
اس پریشانی میں سب سے بڑی پریشانی تو یہ ہوتی ہے کہ ہم دکھی کیوں ہے؟ 
سب کچھ ہمارے پاس ہے۔۔۔۔۔
سارے کام ہو رہے ہیں پھر بھی دماغ بوجھ محسوس کر رہا ہے۔ 
کس قدر بے بسی ہوتی ہے نہ ۔۔۔۔۔۔
بندہ کیا مانگے رب سے۔۔۔۔۔ 
لیکن اپنی دعاؤں میں سکون ضرور طلب کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔
یہاں اچھے اور برے کو مان کر سکون نہیں ملتا ۔
یہاں سکون والا وہ ہے جسے اللہ سکون میں رکھے ۔۔۔
اللہ ہی سے دعا گو ہونا چاہیے کہ وہ ہمیں کسی کا  محتاج نہ بنائے ۔۔
یہاں قصور والا اور بنا قصور والے سب برابر ہیں، 
ایک جیسی سزائیں دی جا رہی ہے 
جس کا قصور اسے سزا اور جس کا قصور نہیں اس کی آزمائش۔۔۔
ہمیں رب سے یہ مانگتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں سخت ترین آزمائشوں سے دور رکھے۔۔۔

Monday, September 14, 2020

حضرت نوح علیہ السلام اور ابلیس لعین

روایت ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کوہ جودی پر جا کر رکی تو تو ابلیس نے پانی پر بیٹھ کر حضرت نوح علیہ السلام سے کہا، اے نوح (علیہ السلام) تو نے بد دعا کر کے دنیا کو پانی میں غرق کر دیا۔ اب میرے لئے کیا حکم ہے؟ حضرت نوح علیہ السلام نے جواب دیا، اب تمہارا کام یہ ہے کہ خدا سے توبہ کرو اور خدا کے فرمانبردار بندے بن جاؤ ۔ ابلیس نے کہا کیا میری توبہ قبول ہو جائے گی؟ اگر قبول ہونے کی امید ہے تو آپ میرے حق میں سفارش فرما دیجیئے ۔ 

حضرت نوح علیہ السلام نے مناجات میں حق تعالٰی سے عرض کیا کہ ابلیس توبہ کی درخواست کررہا ہے، کیا حکم ہے ۔ حکم ہوا شیطان سے کہہ دو کہ اگر وہ آدم (علیہ السلام) کی قبر کو سجدہ کر لے تو توبہ قبول کر لی جائے گی ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے خدا کا حکم ابلیس کو سنایا تو ابلیس نے جواب دیا، کہ میں نے زندہ آدم کو تو سجدہ نہیں کیا تھا، اب مرنے کے بعد ان کو کب سجدہ کرنے والا ہوں ۔ ابلیس نے کہا، چونکہ آپ نے خدا کی جانب میری سفارش کی تھی اس لئے شکریہ کے طور پر آپ سے تین باتیں عرض کرتا ہوں۔ 

١۔ جس وقت غصہ آئے مجھے یاد کر لیا کرو، غصہ کے وقت میں انسان کا چہرہ ، منہ ، ناک بن جاتا ہوں اور خون کی طرح رگ رگ میں دوڑتا پھرتا ہوں ۔ 

٢۔ لڑائی کے وقت بھی مجھے یاد کر لیا کرو ۔ اس موقع پر میں لوگوں کے دلوں میں بیوی بچے کا خیال ڈال دیتا ہوں ۔ 

۳۔ کسی نامحرم عورت کے ساتھ کبھی تخلیہ میں نہ بیٹھنا ۔ میں ایسے وقت نہ معلوم کیا کر گزرتا ہوں ۔ 

ایک روایت میں ہے کہ ابلیس نے حضرت نوح علیہ السلام سے کہا تھا، کہ حسد ، حرص نہ کرنا ۔ حسد کی وجہ سے میں اور حرص کی وجہ سے آدم علیہ السلام  جنت سے نکال دیئے گئے ۔ 

وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ طوفان کے بعد جب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم زمین پر آباد ہو گئی، تو ابلیس لعین نے حضرت نوح علیہ اسلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ، آپ نے مجھ پر احسان عظیم فرمایا ہے، آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔ اس احسان کے بدلے میں آپ جو بات مجھ  سے دریافت فرمائیں گے، اس کا صحیح صحیح جواب دوں گا ۔ 

حضرت نوح علیہ السلام نے شیطان کی بات سن کر منہ پھیر لیا ۔ وحی آئی کہ اگر تمہیں کچھ پوچھنا ہو، ابلیس سے پوچھ لو، وہ تمہیں صحیح صحیح جواب دے گا ۔ نوح علیہ السلام نے ابلیس لعین سے پوچھا، یہ بتا دنیا میں تیرا یار و مدد گار کون ہے؟ ابلیس نے جواب دیا، میرے یار و مدد گار وہ لوگ ہیں جو بخل اور تکبر کرتے ہیں، اور ہر کام میں عجلت کے عادی ہیں ۔ 

حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا، تُو میرا کس بات پر شکریہ ادا کرنے آیا تھا، میں نے تجھ پر کیا احسان کیا ہے؟ تو شیطان نے جواب دیا، کہ آپ نے بد دعا کر کے ساری قوم غرق کرا دی۔ مجھے ان کی گمراہی کے فکر سے نجات مل گئی ۔ حضرت نوح علیہ السلام یہ سن کر بہت پشیمان ہوئے اور عجلت پسندی سے چار برس تک بارگاہِ الہٰی میں گریہ و زاری کرتے رہے ۔

*نوٹ:* 
اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے 

ماں نسلوں کو سنوار دیتی ہے

" تھامس ایڈیسن مشہور عالم سائنسدان تھا..
اپنے بچپن میں  بخار کے باعث وہ قوت گویائی سے محروم ہو گیا تھا.
جب وہ چھوٹا تھا تو ایک دن وہ سکول سے آیا اور ایک سر بمہر لفافہ اپنی والدہ کو دیا کہ استاد نے دیا ہے کہ " اپنی ماں کو دے دو ."

ماں نے کھول کر پڑھا.اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.

پھر اس نے با آواز بلند پڑھا.

*" تمھارا بیٹا ایک جینئس ہے، یہ سکول اس کے لئے بہت چھوٹا ہے، اور یہاں اتنے اچھے استاد نہیں کہ اسے پڑھا سکیں سو آپ اسے خود ہی پڑھائیں. "*
اسکے بعد اس کو پڑھانے کی ذمہ داری اس کی والدہ نے لے لی.

سالوں بعد جب *تھامس ایڈیسن* ایک سائنسدان کے طور مشہور عالم ہو گیا تھا.

اور اس کی والدہ وفات پا چکی تو وہ اپنے خاندان کے

پرانے کاغذات میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا کہ اسے وہی خط ملا.

اُس نے خط کو کھولا تو پر اس پر لکھا تھا.

*" آپ کا بیٹا انتہائی غبی ( کند ذہن ) اور ذہنی طور پہ ناکارہ ہے... ہم اسے اب مزید اسکول میں نہیں رکھ سکتے."*

اسی دن *ایڈیسن* نے اپنی ڈائری میں لکھا.

*" _تھامس ایلوا ایڈیسن_ ایک ذہنی ناکارہ بچہ تھا پر ایک عظیم ماں نے اسے صدی کا سب سے بڑا سائنسدان بنا دیا. "*

_*(ماں نسلوں کو سنوار دیتی ہے )*_

ﷲ تعالٰی کی محبت اور شفقت

روایات میں آتا ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام کی بد دعا پر طوفان آ چکا، ساری قوم اس طوفان کے نتیجے میں ہلاک ہو گئی تو اس کے بعد اللہ تعالٰی نے وحی کے ذریعے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ اب تمہارا کام یہ ہے کہ تم مٹی کے برتن بناؤ ۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالٰی کے حکم کی تعمیل میں مٹی کے برتن بنانا شروع کر دیئے اور دن رات اس میں لگے رہے ۔ جب کئی دن گزر گئے اور برتنوں کا ڈھیر لگ گیا، تو اللہ تعالٰی نے دوسرا حکم یہ دیا کہ اب ان سب برتنوں کو ایک ایک کر کے توڑ دو ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے عرض کیا کہ یا اللہ! میں نے بڑی محنت سے اور آپ کے حکم پر بنائے تھے، اب آپ ان کو توڑنے کا حکم دے رہے ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا، کہ ہمارا حکم یہ ہے کہ اب ان کو توڑ دو ۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے ان کو توڑ دیا ۔ لیکن دل دکھا کہ اتنی محنت سے بنائے اور ان کو تڑوا دیا ۔

اللہ تعالٰی نے فرمایا، اے نوح!  تم نے اپنے ہاتھوں سے یہ برتن بنائے، اور میرے حکم سے بنائے، ان برتنوں سے تمہیں اتنی محبت ہو گئی کہ جب میں نے تمہیں ان کو توڑنے کا حکم دیا تو تم سے توڑا نہیں جا رہا تھا ۔ دل یہ چاہ رہا تھا کہ یہ برتن جو میری محنت اور میرے ہاتھ سے بنے ہیں کسی طرح بچ جائیں تو بہتر ہے۔ اس لئے کہ تمہیں ان برتنوں سے محبت ہو گئی تھی ۔ لیکن تم نے ہمیں نہیں دیکھا کہ ساری مخلوق ہم نے اپنے ہاتھ سے بنائی اور تم نے ایک مرتبہ کہہ دیا کہ_:
رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّا رََا _
(سورۃ نوح : ٢٦)
اے اللہ زمین میں بسنے والے سب کافروں کو ہلاک کر دے اور ان میں سے کوئی باقی نہ رہے۔

تمہارے اس کہنے پر ہم نے اپنی مخلوق کو ہلاک کر دیا ۔

اشارہ اس بات کی طرف فرمایا کہ جس مٹی سے تم برتن بنا رہے تھے، باوجود یہ کہ وہ مٹی تمہاری پیدا کی ہوئی نہیں تھی، اور اپنی خواہش سے وہ برتن نہیں بنا رہے تھے بلکہ میرے حکم سے بنا رہے تھے ۔ پھر بھی تمہیں ان سے محبت ہو گئی تھی، تو کیا ہمیں اپنی مخلوق سے محبت نہیں ہو گی؟ 
واللہ عالم 

سبحان اللہ ، 
اس میں کو ئی شک نہیں کہ اللہ تعالٰی ماں کی محبت سے ستر گنا زیادہ  محبت کرنے والا اور باپ کی شفقت سے سو (١٠٠)  گنا زیادہ شفیق ہے۔ تو یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالٰی نہ کسی پر ظلم کرتا ہے نہ اپنے بندوں پر سختی چاہتا ہے، اور نہ ہی ان کی ہلاکتوں اور بربادیوں سے خوش ہوتا ہے ۔ لیکن جو بھی بُرا ہمارے ساتھ ہوتا ہے وہ دراصل ہماری ہی کوتاہیوں اور نالائقیوں کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد پاک خاص طور پر یاد رکھنا چاہیئے کہ اگر اللہ کے نزدیک اس دنیا کی ذرہ برابر بھی وقعت ہوتی تو وہ کافروں کو ایک گھونٹ پانی کا بھی نہ دیتا ۔ اس ذاتِ کریمی کی نافرمانیوں کے باوجود یہ اس کی کریمی ہے کہ وہ کِھلا بھی رہا ہے، پِلا بھی رہا ہے، پال بھی رہا ہے، نگہداشت بھی کر رہا ہے ۔ تا حیات برستی ان رحمتوں  کا تو ہم شکر ادا کرتے نہیں، جبکہ ہمہ وقت کی ناشکری ہماری فطرت بن چکی ہے۔ سچ کہوں کہ کم نصیبی تو یہ ہے کہ اس ذات مہربان کی ان تمام مہربانیوں کا ہمیں اندازہ تک نہیں ہے - بہرحال اللہ تعالٰی کا حضرت نوح علیہ السلام سے فرمائے گئے ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ اس کو اپنے بندوں سے بہت محبت ہے ۔ یعنی اگر تمہیں میرے ساتھ محبت ہے تو پھر تمہیں میری مخلوق کے ساتھ بھی محبت کرنا پڑے گی ۔

لوگوں کی مدد

کسی آبادی میں ایک امیر آدمی نے نیا مکان بنایا اور وہاں آکر رہنے لگا یہ امیر آدمی کبھی کسی کی مدد نہیں کرتا تھا...
اسی محلے میں کچھ دکاندار ایسے تھے جو خود امیر نہیں تھے لیکن لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے🤫
ایک قصائی تھا جو اکثر غریبوں کو مفت اور بہت عمدہ گوشت دے دیا کرتا تھا۔
.ایک راشن والا تھا جو ہر مہینہ کچھ گھرانوں کو ان کے گھر تک مفت راشن پہنچا دیتا تھا۔
ایک دودھ والا تھا جو بچوں والے گھروں میں مفت دودھ پہنچاتا۔
لوگ مالدار شخص کو خوب برا کہتے کہ دیکھو اتنا مال ہونے کے باوجود کسی کی مدد نہیں کرتا ہے اور یہ دکاندار بے چارے خود سارا دن محنت کرتے ہیں لیکن غریبوں کا خیال بھی رکھتے ہیں۔
کچھ عرصہ اسی طرح گذر گیا اور سب نے مالدار آدمی سے ناطہ توڑ لیا اور جب اس مالدار کا انتقال ہوا تو محلہ سے کوئی بھی اس کے جنازے میں شریک نہ ہوا.
مالدار کی موت کے اگلے روز ایک ًغریب نے گوشت والے سے مفت گوشت مانگا تو اس نے دینے سے صاف انکار کردیا....
دودھ والے نے مفت دودھ سے صاف انکار کردیا.
راشن والے نے مفت راشن دینے سے صاف انکار کردیا..
پتہ ہے کیوں؟؟؟؟؟؟
ان سب کا ایک ہی جواب تھا، تمہیں یہاں سے کچھ بھی مفت نہیں مل سکتا کیونکہ وہ جو تمہارے پیسے ادا کیا کرتا تھا کل دنیا سے چلا گیا ہے

کبھی کسی کے بارے میں خود سے فیصلہ نہ کرو کیونکہ تم نہیں جانتے کس کا باطن کتنا پاکیزہ ہے.

Sunday, September 13, 2020

کائنات کا پروردگار

قُرآن سے ہمیں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ کائنات کے پروردگار کا ذاتی نام اللہ ہے۔ جبکہ باقی ساری اُسکی صفات ہیں، جنکو اسماء حسنیٰ بھی کہا جاتا ہے اور انکی معرُوف تعداد ۹۹ بتائی جاتی ہے۔

یہ جو کہا جاتا ہے کہ رام بھی وہی اور رحیم بھی وہی، یہ حقیقت سے بے خبری کی دلیل ہے۔ اور فریب تخیل یا دانستہ ترویج ہے۔ یہُودیوں کا یہُوواہ ہو، عیسائوں کا فادر، ہندُوں کا اِیشْوَر یا انکے ویدان کا پرماتما، مجُوسیوں کا یزداں یا انام ایکدُوسرے سے یکسر مُختلف ہیں۔ اور قُرآن کا اللہ ان سب سے الگ ہے۔ یہ اسلئے کہ ان مذاہب کے بانیوں نے جنہیں ہم زُمرہ انبیاء(ع) میں شُمار کرسکتے ہیں، اگرچہ انبیاء(ع) کو دین کے بانی نہیں بلکہ دین کو پُہنچانے والے کہا جائیگا۔ اُنھوں نے تو اللہ کی وہی صفات بیان کی ہونگی جو قُرآن میں بیان ہوئی ہیں، پھر اُن میں انسانی خیالات اور تَصَوَّرُات کی آمیزش ہوگئی تو اس سے نہ صرف مُختلف مذاہب کے خُدا الگ ہوگئے بلکہ خُدا کے حقیقی اور منزہ تَصَوَّرُ سے بھی جُداگانہ تَصَوَّرُ کے پیکر بن گئے۔ اسی لئے قُرآن نے کہا ہے؛

"وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔ اُسکی اولاد کہاں سے آئی جبکہ اُسکی کوئی بیوی نہیں؟ اور اُس نے ہر چیز پیدا کی اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے!" ۔ (الأنعام/۱۰۱)

یہ لوگ اللہ کے مُتعلق جو تَصَوَّرُ پیش کرتے ہیں وہ اُس سے بہت بُلند و بالا ہے۔ اسکا تَصَوَّرُ وہی صحیح ہوسکتا ہے جسکو اُس نے خُود پیش کیا ہے اور جو قُرآن کے اندر محفُوظ ہے۔

جب تک اللہ کا صحیح تَصَوَّرُ اور مفہُوم ہمارے سامنے نہیں آتا، دین کی بُنیاد ہی استوار نہیں ہوسکتی۔ لحاظہ یہ نہایت ضرُوری ہے کہ پہلے یہ دیکھا جاۓ کہ لفظ اللہ کا مفہُوم کیا ہے۔

عربی زُبان کا قاعدہ ہے کہ جب کسی لفظ کے آگے ا ل لگا دیا جاۓ، تو اسکے ایک معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہر قسم کی صفت اس میں پائی جاتی ہے، دُوسرے یہ ہوتا ہے کہ وہ صفت انتہائی اور بُلند ترین درجہ کی اُس میں پائی جاتی ہے، یعنی اُس میں بھی توحید ہوئی کہ اس قسم کی صفت اسی انداز میں اور کسی میں نہیں پائی جاتی ۔ اسلئے جب ہم اللہ کہتے ہیں تو یہ ہے ال الہ، اسکے معنی یہ ہونگے کہ الہ کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔ الہ صرف اللہ ہوسکتا ہے۔ اور جب ہم کہتے ہیں کہ؛
              لآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ 
تو دیکھیے کہ پھر وہی بات ہوگئی کہ کوئی الہ نہیں ہوسکتا سواۓ اللہ کہ۔ 

اب دیکھتے ہیں کہ الہ کے بُنیادی معنی کیا ہیں۔ الہ کا مادہ ہے ا ل ة۔ اس میں بُنیادی طور پر ذیل کے معنی پاۓ جاتے ہیں؛

۱-  گھبرا کر کوئی پناہ ڈُھونڈنا یا پناہ دینا۔
۲- مُتَحَیَّر ہونا۔
۳- بُلند مرتبہ اور نگاہوں سے پوشیدہ ہونا۔
۴- کسی کی غُلامی، محکُُومیت، اقتدار اور اختیارتسلیم کرنا۔

تو جب ہم کہیںُگے لآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ   تو اسکا مطلب یہی ہوگا کہ کائنات میں کوئی صاحب اقتدار نہیں سواۓ  اللہ کے۔ تو آپ دیکھ لیجئے کہ اس میں کس قدر توحید کا گہرا مقصد سامنے آگیا۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آگئی کہ ہمارا اور کائنات کے پروردگار کا آپس میں تعلُق کیا ہے۔ 

اللہ کی ذات کے بارے میں تو ہمارے تَصَوَّرُات اور خیالات میں کُچھ اس سے زیادہ نہیں آسکتا جتنا کہ اُس نے خُود ہمیں قُرآن میں بتایا ہے؛ 

"کہہ دو: اللہ سب سے الگ ہے۔ اللہ سب سے بے نیاز اور سب اُسکے مُحتاج ہیں۔ نہ وہ کسی کا باپ ہے نہ کسی کا بیٹا۔ اور نہ ہی اُسکا کوئی ہمسر ہے!" - (الإخلاص/۱-۴)

جزاک اللہ خیر!......... 

لوہے اور ہیرے میں فرق

لڑکیوں پرپابندیاں لگانے کی وجہ

ایک بار ایک لڑکی نے مولاناصاحب سے کہاکہ ایک بات پوچھوں؟؟😐😐

مولانا صاحب نےفرمایا؛ بولو بیٹی کیا بات ھے؟؟😊😊

لڑکی نے کہا ہمارے سماج میں لڑکوں کو ہر طرح کی آزادی ہوتی ہے !! وہ کچھ بھی کریں؛ کہیں بھی جائیں، اس پر کوئی خاص روک ٹوک نہیں ہوتی!👍👍

اس کے بر عکس لڑکیوں کو بات بات پر روکا جاتا ہے۔ یہ مت کرو! یہاں مت جاو! گھر جلدی آجاؤ !!..٠٠😐😐
یہ سن کر مولانا صاحب مسکرائے اور فرمایا !!..

بیٹی آپ نے کبھی لوہے کی دکان کے باہر لوہے کے گودام میں لوہے کی چیزیں پڑیں دیکھیں ہیں ؟ یہ گودام میں سردی ٠گرمی ٠ برسات ٠رات٠ دن٠ اسی طرح پڑی رہتی ہیں ٠٠ اس کے باوجود ان کا کچھ نہیں بگڑتا اور ان کی قیمت پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا٠٠😇😇

لڑکوں کی کچھ اس طرح کی حیثیت ہے سماج میں!👍👍

اب آپ چلو ایک سنار کی دکان میں۔ ایک بڑی تجوری اس میں ایک چھوٹی تجوری اس میں رکھی چھوٹی سُندر سی ڈبی میں ریشم پر نزاکت سے رکھا چمکتا ہیرا٠۔۔☺☺
کیو نکہ جوہری جانتا ہے کی اگر ہیرے میں ذرا بھی خراش آ گئی تو اس کی کوئی قیمت نہیں رہے گی۔۔😑😑

اسلام میں بیٹیوں کی اہمیت بھی کچھ اسی طرح کی ھے🌹🌹🌹
۔ پورے گھر کو روشن کرتی جھلملاتے ہیرے کی طرح ذرا سی خراش سے اس کے اور اس کے گھر والوں کے پاس کچھ نہیں بچتا 😓😓

بس یہی فرق ہے لڑکیوں اور لڑکوں میں ٠😊

پوری مجلس میں خاموشی چھا گئ اس بیٹی کے ساتھ پوری مجلس کی آنکھوں میں چھائی نمی صاف صاف بتا رہی تھی لوہے اور ہیرے میں فرق ٠٠ 😇😇😇

*آپ سے التجا ہے کہ یہ پیغام اپنی بیٹیوں بہنوں کو ضرور سنائیں، دکھائیں اور پڑھائیں*👍👍👍

*جزاک اللہ خیرا کثیرا

مسلم تاجروں کا اخلاق اور محبت

یہ قدیم مسلم تاجروں کی روایت تھی کہ وہ صبح دکان کھولنے کے ساتھ ایک چھوٹی سی کرسی دکان کے باہر رکھتے تھے جوں ہی پہلا گاہک آتا دکاندار کرسی اس جگہ سے اٹھاتا اور دکان کے اندر رکھ دیتا تھا.

لیکن جب دوسرا گاہک آتا دکاندار اپنی دکان سے باہر نکل کر بازار پر اک نظر ڈالتا جس دکان کے باہر کرسی پڑی ہوتی وہ گاہک سے کہتا کہ تمہاری ضرورت کی چیز اس دکان سے ملے 
گی،میں صبح کا آغاز کرچکا ہوں.

کرسی کا دکان کے باہر رکھنا اس بات کی نشانی ہوتی تھی کہ ابھی تک اس دکاندار نے آغاز نہیں کیا ہے.

یہ مسلم تاجروں کا اخلاق اور محبت تھی نتیجتا ان پر برکتوں کا نزول ہوتا تھا.

عربی سے ترجمہ

سبــــق آمـــوز تحــریــر

ایک دفعہ ایک گھوڑا ایک گہرے کنویں میں جا گرا اور زور زور سے آوازیں نکالنےلگا.

گھوڑے کا مالک کسان تھا جو کنویں کے کنارے پہ کھڑا اسے بچانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا.

جب اسے کوئی طریقہ نہیں سوجھا تو ہار مان کر دل کو تسلی دینے لگا کہ گھوڑا تو اب بوڑھا ہو چکا ہے، وہ اب میرے کام کا بھی نہیں رہا، چلو اسے یوں ہی چھوڑ دیتے ہیں، اور کنویں کو بھی آخر کسی دن بند کرنا ہی پڑے گا، اس لیے اسے بچا کر بھی کوئی خاص فائدہ نہیں.

یہ سوچ کر اس نے اپنے پڑوسیوں کی مدد لی اور کنواں بند کرنا شروع کر دیا.

سب کے ہاتھ میں ایک ایک بیلچہ تھا جس سے وہ مٹی اور کوڑا کرکٹ کنویں میں ڈال رہے تھے گھوڑا اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا.

اس نے اور تیز آواز نکالنی شروع کر دی. کچھ ہی لمحے بعد گھوڑا بالکل خاموش سا ہو گیا.

جب کسان نے کنویں میں جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جب جب گھوڑے کے اوپر مٹی اور کچرا پھینکا جاتا ہے تب تب وہ اسے جھٹک کر اپنے جسم سے نیچے گرا دیتا ہے اور پھر گری ہوئی مٹی پر کھڑا ہو جاتا ہے.

یہ سلسلہ کافی دیر تک چلتا رہا. کسان اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر مٹی اور کچرا پھینکتا رہا اور گھوڑا اسے اپنے بدن سے ہٹا ہٹا کر اوپر آتا گیا، اور دیکھتے ہی دیکھتے کنویں کے اوپر تک پہنچ گیا اور باہر نکل آیا.

یہ منظر دیکھ کر کسان اور اس کے پڑوسی سکتے میں پڑ گئے. ان کی حیرانی قابل دید تھی.
اس غیر متوقع نتیجے پر وہ گھوڑے سے بھی بڑھ کر مجسمہ حیرت بنے ہوئے تھے۔

زندگی میں ہمارے ساتھ بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں کہ ہمارے اوپر کچرا اچھالا جائے،

ہماری کردار کشی کی جائے،
ہمارے دامن کو داغدار کیا جائے،

ہمیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے،

لیکن گندگی کے اس گڑھے سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں کہ ہم ان غلاظتوں کی تہہ میں دفن ہو کر رہ جائیں،

بلکہ ہمیں بھی ان بے کار کی چیزوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اوپر کی طرف اور آگے کی سمت بڑھتے رہنا چاہیے.

زندگی میں ہمیں جو بھی مشکلات پیش آتی ہیں وہ پتھروں کی طرح ہوتی ہیں مگر یہ ہماری عقل پر منحصر ہے کہ آیا ہم ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں

یا

ان کے اوپر چڑھ کر مشکل کے کنویں سے باہر آنے کی ترکیب کریں...

خاک ڈالنے والے ڈالتے رہیں مگر پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا..