نبی اکرم ﷺ کی قبر مبارک کے بارے درست معلومات
یقینا گنبد خضرا وہ گنبد ہے، جو پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں بستا ہے۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کے دل میں گنبد خضرا کی زیارت کی خواہش انگڑائی نہ لیتی ہو۔ اللہ کے محبوب نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک پر قائم اس گنبد خضرا کے نیچے اور روضہ شریف کے اندر کیا ہے، اس کے متعلق کہی کہانیاں مشہور ہیں۔ انٹرنیٹ پر کئی جعلی تصاویر گردش میں رہتی ہیں۔ انواع و اقسام کی قبروں کو قبر رسول کے نام سے سوشل میڈیا پر شیئر کیا جاتا ہے۔ کبھی کسی آدمی کی تصویر اس دعوے کے ساتھ شیئر کی جاتی ہے کہ یہ خادم رسول ہیں اور قبر مبارک کی صفائی کی خدمت پر مامور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے سب دعوے بے بنیاد اور مصنوعی ہیں۔
حقیقت کیا ہے؟ روضہ شریف کے اندر کیا ہے؟ کیا کوئی قبر مبارک تک رسائی رکھتا ہے؟ ان سب سوالوں کے جوابات کچھ عرصہ قبل سعودی حکومت نے باضابطہ طور پر دیئے ہیں اور اندرونی ہال کی تصاویر بھی شیئر کی گئی ہیں، جن سے سب بناوٹی باتوں کا قلع قمع ہوتا ہے۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وصال ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک میں ہوا تھا اور وہیں آپ کی تدفین ہوئی۔ اس کے بعد پھر حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما بھی وہاں مدفون ہوئے۔ اس طرح روضہ شریف کے اندر اس وقت تین قبریں ہیں۔ اس طرح کوئی بھی ایسی تصویر جس میں صرف ایک قبر ہو، وہ کسی صورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرقد کی نہیں ہو سکتی اور ویسے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی کوئی تصویر دنیا میں موجود نہیں ہے. اس لیے کہ گزشتہ ساڑھے پانچ صدیوں میں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔ اور اس سے پہلے کیمرا موجود ہی نہیں تھا کہ اس کی کوئی تصویر ہوتی۔
وہ حجرہ شریف جس میں آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے دو اصحاب کے قبریں ہیں، اس کے گرد ایک چار دیواری ہے، اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے جو پانچ دیواروں پر مشتمل ہے۔ یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بنوائی تھی۔ اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔ اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں، لہذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان موجود ہی نہیں ہے۔ روضہ رسول ﷺ کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں چیچن صدر کی وڈیو وائرل ہوئی ہے
روضہ رسولﷺ پر سلام عرض کرنے والے عام زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے، جو حجرہ شریف کی پنج دیواری پر پڑا ہوا ہے۔ اس طرح سلام پیش کرنے والے زائرین اور آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔ ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج دیواری، اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔
گزشتہ تیرہ سو سال سے اس پنج دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا ہے سوائے دو مواقع کے۔ ایک بار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ان کا غلام اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ السمہودی کے بیان کے مطابق وہ خود۔
ذہن میں رہے کہ نور الدین زنگی علیہ رحمہ والے واقع میں جو سیسہ پلائی دیوار بنائی گئی تھی وہ زمینی تھی اور وہ تقریبا 200 فٹ نیچے اور جو واقعہ میں پاؤں نظر آیا تھا وہ بھی سرنگ کے ذریعے نظر آیا تھا نہ کہ قبر مبارک کی طرف سے۔ بہرحال اس موقع پر بھی قبر کی زیارت ثابت نہیں۔
مسجد نبوی میں قبلہ کا رخ جنوب کی جانب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے۔ بڑے ہال کمرے کے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے یعنی جنت البقیع کی سمت ہے۔ یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی محراب ہے۔ اس کے پیچھے ان کی چارپائی (سریر) ہے۔ العربیہ ویب سائٹ نے محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ مبارک کی طرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔ 1406 ہجری میں شاہ فہد کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا۔ اس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں شاہ عبد العزیز کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا۔ مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اُس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی جو 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی لمبائی ملا کر 14 میٹر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 91 ہجری سے لے کر 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا۔ اس کے بعد 881 ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی۔ اس وقت نامور مورخ اور فقیہ علّامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی علیہ رحمہ مدینہ منورہ میں موجود تھے، جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔
وہ لکھتے ہیں 14 شعبان 881 ھ کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔ خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ میں نے رسول کریم ﷺ اورآپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہٴ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔
السمہودی نے اپنی کتاب میں حجرہ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ "اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے۔ حجرہ نبوی کا فرش مسجد نبوی کے فرش سے تقریبا 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔ اس دوران حجرے پر موجود چھت کو ختم کر کے اس کی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہے۔ اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیا گیا جس کی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراء کے عین نیچے واقع ہے"۔
یہ سب معلومات معروف کتاب "وفاء الوفاء با اخبار دار المصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم" کے مؤلف السمہودی نے اپنی مشہور تصنیف میں درج کی ہیں۔ مسجد نبوی، حجرہ شریف اور قبر مبارک کے حوالے سے یہ کتاب سب سے مستند حوالہ ہے۔ اس کتاب میں مدینہ منورہ کی تاریخ سے متعلق تمام معلومات جمع کی گئی ہیں. علامہ السمہودی کی وفات 911 ہجری میں ہوئی۔ 881 ہجری یا 1477 عیسوی سے لے کر اب تک تقریباً ساڑھے پانچ سو سال کے عرصے میں کوئی انسان آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت نہیں کر سکا ہے. جہاں تک چیچن صدر کو لے جایا گیا، وہاں سے آگے مزید چار دیواریں اور ہیں۔