Friday, September 25, 2020

نائی اور غربت دی چس



ایک گاوں میں غریب نائی رہتا تھا جو ایک درخت کے نیچے کرسی لگا کے لوگوں کی حجامت کرتا ۔ مشکل سے گزر بسر ہوتی. اس کے پاس رہنے کو نہ گھر تھا نہ بیوی تھی نہ بچے تھے۔ ایک چادر اور ایک تکیہ اس کی ملکیت تھی ۔جب رات ہوتی تو وہ ایک بند سکول کے باہر چادر بچھاتا، تکیہ رکھتا اور سو جاتا.
ایک دن صبح کے وقت گاوں میں سیلاب آ گیا.
اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف شور و غل تھا۔ وہ اٹھا اور سکول کے ساتھ بنی ٹینکی پر چڑھ گیا. چادر بچھائی، دیوار کے ساتھ تکیہ لگایا اور لیٹ کر لوگوں کو دیکھنے لگا ۔
لوگ اپنا سامان، گھر کی قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہے تھے. کوئی نقدی لے کر بھاگ رہا ہے، کوئی زیور کوئی بکریاں تو کوئی کچھ قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہا ہے۔
اسی دوران ایک شخص بھاگتا آ رہا تھا اس نے سونے کے زیور پیسے اور کپڑے اٹھا رکھے تھے۔جب وہ اس نائی کے پاس سے گزرا تو اسے سکون سے لیٹے ہوئے دیکھا تو رک کر بولا۔۔۔
اوئے ساڈی ہر چیز اجڑ گئی اے. ساڈی جان تے بنی اے، تے تو ایتھے سکون نال لیٹا ہویا ویں۔۔۔۔
یہ سن کر وہ ہنس کر بولا....
*لالے اج ای تے غربت دی چس آئی اے۔*

جب میں نے یہ کہانی سنی تو پھر ایک خیال سا آیا۔

میں روز محشر والے دن کا سوچنے لگا کہ بروز حشر کا منظر بھی کچھ ایسا ہو۔
جب تمام انسانوں کا حساب قائم ہو گا۔
ایک طرف غریبوں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔
دو وقت کی روٹی، کپڑا ۔حقوق اللہ اور حقوق العباد ۔
ایک طرف امیروں کا حساب ہو رہا ہو گا ۔
پلازے. دکانیں. فیکٹریاں. گاڑیاں. بنگلے. سونا چاندی ۔ ملازم ۔ پیسہ ۔حلال حرام۔ عیش و آرام ۔ زکواۃ ۔حقوق اللہ۔ حقوق العباد۔۔۔۔!
اتنی چیزوں کا حساب کتاب دیتے ہوئے پسینے سے شرابور اور خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہو گے۔
دوسری طرف غریب کھڑے ان کو دیکھ رہے ہو گے چہرے پر ایک عجیب سا سکون اور شاید دل ہی دل میں کہہ رہے ہو گے۔۔۔۔!
اج ای تے غربت دی چس آئی اے ۔۔۔۔

چھوٹی سی کوشش

میں ایک ضروری کام نمٹا کر گھر کی طرف جارہا تھا، جب اچانک کسی نے سامنے آکر پرجوش انداز میں پکارا،
"السلام علیکم سر!!"
میں نے سلام کا جواب دیا۔۔ یقینا وہ میرا کوئی پرانا طالبعلم ہوگا، لیکن میں پہچان نہیں پایا۔
اس نے دونوں ہاتھوں سے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھاما اور اور مسرت بھرے انداز میں پوچھا۔
"مجھے پہچانا سر؟"
میں نے اب کے غور سے اسے دیکھا ، وہ چھ فٹ لمبا قد ، نفاست سے ترشی ہوئی داڑھی اور قدرے فربہی کی طرف مائل جسم اور لباس کے لحاظ سے آسودہ حال ایک خوبصورت جوان تھا، عمر کوئی پینتیس سال کے لگ بھگ تھی۔
"معذرت چاہتا ہوں بیٹا ، لیکن میں واقعی نہیں پہچان پا رہا"
مں نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
"کوئی بات نہیں سر۔۔۔ اتنا لمبا عرصہ جو گزر چکا ہے"
ساتھ ہی اس نے جس کالج سے تعلیم حاصل کی تھی اس کا نام بتاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔۔
"میں نوید اختر ہوں سر بیس سال پہلے تھرڈ ائیر میں آپ ہمارے انچارج تھے "
میرے ذہن میں ایک جھماکہ سا ہوا، ساتھ ہی میں نے اسے گلے لگا لیا۔۔
"تم نوید اختر ہو۔۔۔۔؟، مجھے یقین نہیں آرہا کتنے بدل گئے ہو تم"
وہ انتہائی قابل اور میرے پسندیدہ طالبعلموں میں سے ایک تھا،
اس کے بعد اس سے چند ایک رسمی باتیں ہوئیں جس کے بعد اس نے مجھے قریب ہی موجود اپنے گھر میں چلنے کی دعوت دی۔۔۔۔ میں نے انکار کرنا چاہا لیکن اس کا خلوص دیکھ کر میں خود کو اس کے ساتھ چلنے سے نہیں روک پایا۔۔
پانچ منٹ بعد ہم ایک چھوٹے سے خوبصورت گھر میں داخل ہونے کے بعد نفاست سے سجے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔۔۔
کچھ دیر بعد دیگر لوازمات کے ساتھ چائے بھی آگئی۔۔۔
چائے پیتے ہوئے باتوں کے دوران ہی مجھے باقی باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی پتا چلا کہ وہ آج کل ایک سرکاری محکمے میں بہت اچھی پوسٹ پر ہے اور یہ گھر اس نے پچھلے سال ہی خریدا تھا، سات سال پہلے اس کی شادی بھی ہوچکی تھی اور بچے بھی تھے، تاہم اس کی بیوی بچوں سمیت دو دن کے لیے میکے گئی ہوئی تھی۔۔
میں واقعی اس کی کامیاب اور پرسکون زندگی پر دل ہی دل میں بے حد مسرور تھا۔۔۔
باتوں کے دوران اچانک اس نے جذباتی انداز میں کہا۔۔
"میری زندگی میں شاید آج یہ سب کچھ نہ ہوتا اگر وہ فرشتہ صفت انسان میری زندگی میں نہ آتا"
میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔۔
"کیا مطلب۔۔ کون فرشتہ صفت انسان۔۔؟"

"میں آپ کو تفصیل بتاتا ہوں سر۔۔۔۔"
اب مجھے اس کی کہانی میں مزید دلچسپی پیدا ہو چکی تھی۔۔
اس نے بتانا شروع کیا۔۔
"سر آپ کو تو پتا ہی ہے کہ سیکنڈ ائیر کے دوران میرے ابو جی کی وفات کے بعد ہمارا گھریلو حالات کافی متاثر ہوگئے تھے۔۔۔ اللہ کا شکر ہے ان کی پنشن سے جیسے تیسے کرکے گزر بسر تو ہوجاتی لیکن تھرڈ ائیر میں پہنچنے کے بعد اس مہنگے کالج کی فیس ادا کرنا ہمارے لیے بہت مشکل تھا۔۔۔مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔۔۔اور میں اسی کالج میں پڑھ کر بڑا آدمی بننا چاہتا تھا کیونکہ اس کالج کا تعلیمی معیار بہت اچھا تھا۔۔۔۔ میں نے پارٹ ٹائم کام بھی شروع کیا لیکن مقررہ وقت تک فیس کی مطلوبہ رقم اکٹھی نہ ہو سکی۔۔ اور پھر وہ دن آگیا جب میری منت سماجت کے باوجود مجھے فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے کالج سے نکال دیا گیا۔۔۔ ابو کی وفات کے بعد دوسری بار اس دن میں کمرے میں چھپ کر بہت رویا تھا۔۔۔ مجھے اپنے سارے خواب ٹوٹتے نظر آرہے تھے اور میں خود کو دنیا کا بد قسمت ترین انسان سمجھ رہا تھا۔۔۔
اور پھر پتا ہے سر کیا ہوا۔۔۔۔؟؟؟
اگلے ہی دن مجھے کالج دوبارہ بلوایا گیا اور مجھے پتا چلا کہ میری فیس ادا ہو چکی ہے۔۔۔
میں نے پتا چلانے کی بہت کوشش کی کہ کس نے میری فیس ادا کی ہے لیکن ناکام رہا۔۔۔
تھرڈ ائیر میں آپ ہمارے انچارج تھے آپ پڑھاتے بھی بہت اچھا تھے اور پڑھائی کے علاوہ آپ کی بتائی گئی باتیں ہمیشہ مجھے آگے بڑھنے پر اکساتی تھیں۔۔۔ شاید آپ کو پتا نہیں لیکن آپ میرے ہیرو تھے اور صرف میرے ہی نہیں پتا نہیں کتنے طلبا کے آپ ہیرو تھے۔۔آپ کی وجہ سے بہت سی زندگیاں بدلی ہیں۔۔۔آپ کی باتیں ہمیشہ ہمارے اندر نئی روح پھونک دیتی تھیں۔۔ ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی تھیں"
نوید اختر ایک عقیدت سے میری طرف دیکھتے ہوئے بول رہا تھا۔۔۔
اور میں دل ہی دل میں اس پروردگار کے سامنے عاجزی سے جھکا ہوا تھا جس نے مجھے یہ توفیق بخشی تھی۔۔
نوید اختر نے بات جاری رکھی۔۔۔
"تھرڈ ائیر کے آخر میں آپ کی گورنمنٹ کالج میں لیکچرار کی جاب ہوگئی اور آپ ہمارے کالج سے چلے گئے لیکن آپ کی باتیں ہمیشہ میرا حوصلہ بڑھاتی رہیں۔۔۔۔دوسری طرف ہر سمسٹر میں میری فیس وہ اللہ کا بندہ ادا کرجاتا۔۔۔ اور مجھے خبر تک نہ ہوتی۔۔۔ میں اور میری والدہ دل سے اس عظیم انسان کے لیے دعائیں کرتے نہ تھکتے تھے۔۔۔ فورتھ ائیر میں بھی میری فیس وہ اللہ کا بندہ ادا کرتا رہا۔۔۔
بیچلرز کے بعد مجھے ایک مناسب جاب مل گئی لیکن میں نے پڑھائی کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری رکھا۔۔۔ اور اللہ کے کرم سے آج میرے پاس سب کچھ ہے۔۔۔لیکن میں اس عظیم انسان کو آج تک نہیں بھولا۔۔۔ میری بڑی خواہش ہے کہ میں اس اللہ کے بندے سے ملوں جس نے میری اس وقت مدد کی جب میرے نزدیک سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔۔۔اور اگر وہ میری مدد نہ کرتا تو شاید آج میرے پاس یہ سب کچھ نہ ہوتا۔۔۔۔۔ کاش مجھے پتا چل سکتا کہ وہ کون ہے۔۔۔ "
اس انسان کا ذکر کرتے ہوئے نوید اختر کافی جذباتی ہوچکا تھا۔۔۔
"بس بیٹا کچھ لوگوں کو اللہ وسیلہ بنا دیتا ہے اپنے بندوں کی مدد کا"
میں نے کہا۔۔۔
وہ چند لمحے میری آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر اس نے نظریں جھکا لیں۔۔۔
"اچھا بیٹا کافی دیر ہو گئی ہے ۔۔۔ میں اب چلتا ہوں۔۔۔ اور واقعی بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔۔۔ اللہ آپ کو دنیا اور آخرت کی ڈھیر ساری کامیابیاں اور اپنی رضا نصیب فرمائے "
میں یہ کہتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھا ۔۔۔ میرے اٹھتے ہی وہ بھی تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
میں نے ڈرائنگ روم کے دروازے کی طرف قدم بڑھائے۔۔۔ ابھی میں دروازے کے قریب پہنچا ہی تھا کہ پیچھے سے اس کی بھرائی ہوئی آوازمیرے کانوں میں پڑی۔۔۔
"سر۔۔۔۔!"
میں چونک کر پیچھے مڑا۔۔ وہ آنکھوں میں آنسو لیے میری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔اچانک وہ تیزی سے آگے بڑھا اور مجھ سے لپٹ کرپھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔۔۔
"آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا تھا کہ میری فیس آپ ہی ادا کرتے رہے ہیں۔۔۔"
میں ہکا بکا رہ گیا۔۔۔
وہ اب ہچکیاں لے کر رو رہا تھا۔۔۔۔اس نے اپنے بازووں کی گرفت مزید مضبوط کرکے روتے ہوئے کہا۔۔۔
"میں نے پرنسپل سے بھی بہت ہوچھا تھالیکن انھوں نے نہیں بتایا۔۔۔لیکن کل میں ان کے پاس دوبارہ گیا تھا۔۔ اور ان سے ہوچھ کر ہی دم لیاکہ وہ کون تھا جس نے میری زندگی میں روشنی بھری ہے۔۔۔۔۔
آپ نے اچھا نہیں کیا سر۔۔۔ آپ کومجھے بتانا چاہیے تھا۔۔۔ آپ ویسے بھی میری نظر میں ہیرو تھے۔۔۔لیکن اب آپ کا مقام میری نظر میں اتنا بلند ہوچکا ہےکہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے"
وہ چھ فٹ لمبا جوان بچوں کی طرح رو رہا تھا۔۔۔
اپنے گالوں پر نمی محسوس ہوتے ہی میں چونکا۔۔۔ نجانے کس وقت میری آنکھوں سے بھی آنسو نکل آئے تھے۔۔۔
ایک چھوٹی سی کوشش نے کسی کی زندگی کو اتنا بدل دیا تھا کہ میرا ہر ہر انگ اللہ کے حضور سجدہ شکر ادا کرنے کو تڑپ رہا تھا.

سچی توبہ

قادسیہ کا میدان جنگ ہے ایک آدمی شراب پی لیتا ہے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جومسلمان فوج کے سپہ سالار ہیں ان کو خبر ہوتی ہے، فرمایا اس کو زنجیروں میں جکڑ دو،؛ اور میدان جنگ سے واپس بلا لو، ایک کمانڈر نے کہا :سپہ سالار میدان جنگ ہے، غلطی ہو گئی اس سے ، دلیر آدمی ہے بہادر آدمی ہے، چھوڑ دیجیے اللہ کی راہ میں جنگ کرے گا، یا کسی کو مارے گا یا مر جائے گا، اس کو زنجیروں میں جکڑنے کی ضرورت کیا ہے؟
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا صحابی تلواروں اور بازؤں پر بھروسہ نہیں کرتا، اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرتا ہے میں اس شرابی کو لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا، اس کی وجہ سے کہیں میرے رب کی رحمتیں منہ ہی نہ موڑ جائیں ، جاؤ اسے زنجیریں پہنا دو،
سپہ سالار کے حکم پر اسے زنجیروں میں جکڑ دیتا جاتا ہے، اور خیمے میں ڈال دیا جاتا ہے اب وہ مسلمان قیدی زنجیروں میں جکڑا اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہے کہ میدان جنگ خوب گرم ہے بے بسی اور لاچارگی سے میدان جنگ کی جانب دیکھ کر تڑپ اٹھتا، ہائے کوئی میری زنجیروں کو کھول دو، میں نے اپنے رب سے اپنے گناہوں سے معافی مانگ لی ہے، ہائے مجھےکوئی کھولنے والا نہیں اور مسلسل آہ و بکا کرنے لگا سعد بن ابی وقاص کی بیوی دوسرے خیمے کے اندر موجود ہیں ، زنجیروں میں جکڑے قیدی نے دوسرے خیمے میں ان کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے پکار کر کہا اے سعد رض کی بیوی میری زنجیروں کو کھولنے میں میری مدد کریں ،
مجھ سے مسلمانوں کا گرتا ہوا خون دیکھا نہیں جاتا وہ بدستور پردے میں رہتے ہوئے کہتی ہیں، تم نے گناہ کیا اور سپہ سالار نے تمہیں زنجیروں میں جکڑنے کا حکم دیا ہے قیدی کہنے لگا ، خدا کی قسم اگر زندہ رہا تو خود آ کے زنجیریں پہن لوں گا خدا را مجھے رہا کر دیں، میں نے اپنے اللہ سے معافی مانگ لی ہے،
ادھر مسلمانوں کے لشکر پر شکست کے آثار گہرے ہوتے جارہے تھے، کافروں نے ایک ایک صف پر حملے کیے، صفیں الٹنے لگیں، ابو محجن ثقفی رضی اللہ عنہ کی آہوں اور سسکیوں کو دیکھ کر سعد رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ کا دل بھر آیا، انہوں نتائج کی پرواہ کیے بغیر اس کی زنجیروں کو کھول دیا،ابو محجن ثقفی نے اپنی زرہ نہیں پہنی بکتر بند نہیں پہنا، ننگے جسم کافروں کی ایک ایک صف پر ٹوٹ پڑے،
سعد رضی اللہ عنہ ان دنوں سخت بیمار تھے اور ایک بلند جگہ پر میدان جنگ کا نقشہ دیکھ رہے تھے، کیا دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی ہر ایک صف درہم برہم ہے، لیکن ایک تنہا آدمی آتا ہے کافروں کی صفوں کو الٹ کر رکھ دیتا ہے، اور وہ جس طرف بھی جاتا ہے بجلی بن کر گرتا ہے اور خرمنوں کو جلاتا ہوا چلا جاتا ہے، جس طرف مڑتا ہے کافر کٹ کٹ گرتے چلے جاتے ہیں،
سعد رضی اللہ عنہ ٹیلے پر بیٹھے ہوئے اپنا سر سجدے میں رکھ دیتے ہیں کہنے لگے:اے اللہ! اگر یہ فرشتہ نہیں ہے تو میں اپنی تلوار اس کی نذر کرتا ہوں، اس نے کافروں کی صفوں کو الٹ کر رکھ دیا، اسی مجاہد کی ہمت اور شجاعت کی بدولت اللہ پاک نے مومنوں کو فتح عطا فرما دی،مسلمان واپس ہوئے، کمانڈر نیچے اترے دیکھوں وہ جوان کون تھا؟ اب وہ صفوں میں نظر نہیں آرہا تھا، پوچھا وہ کون تھا جو اس بے جگری سے لڑ رہا تھا، ڈھونڈا، تلاش کیا وہ وہاں ہوتا تب نہیں، خیمے سے بیوی آواز دیتی ہیں :
اے سپہ سالار جس کو آپ ڈھونڈ رہے ہیں، اس نے اب زنجیریں پہن رکھی ہیں، سعد بن ابی وقاص پلٹے کہنے لگے، بیوی کیا کہتی ہو؟ کہنے لگیں، صحیح کہتی ہوں، یہ ابو محجن ثقفی ہے جس نے شراب سے توبہ کی اور تلوار تھام کے میدان جنگ میں چلا گیا، اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر زندہ لوٹا تو خود زنجیریں پہن لوں گا، اب یہ زنجیریں پہن چکا ہے،
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنی چھڑی کو ٹیکتے ہوئے اٹھے، ساتھیوں نے سہارا دینا چاہا، کہنے لگے چھوڑ دو مجھے میں اس شخص کے پاس اپنے پیروں پر چل کر جانا چاہتا ہوں جس کی توبہ نے اللہ کی رحمت کو آسمانوں سے زمین پر نازل کر دیا،
سبحان اللہ اللہ کبیرا
توبہ و استغفار میں دیر مت کریں کیا خبر ہم میں سے کسی ایک کی توبہ اللہ رب العالمین کی آسمانوں پر موجود رحمت کو زمین پر لے آئے اللہ کریم توفیق عمل عطا فرمائے۔

نسبت سے فرق تو پڑتا ہے

 گندم میں کنکرہوتا ہے، کیا وہ کنکر گندم کے بھاؤ نہیں بکتا؟ 
وہ بھی  گندم کے حساب سے ہی تلتا ہے۔
 اسی طرح جو ﷲ والوں کی مجالس میں بیٹھتا ہے
وہ کھرا نہ بھی ہو، کھوٹا ہی ہو…
 ان شاء ﷲ اس کا حساب کتاب، اور بھاؤ، اسی گندم کے بھاؤ لگ جائے گا اور ان شاء ﷲ وہ بھی اسی طرح بوریوں میں پیک ہو کے تُلے گا اور کندھوں پہ اٹھایا جائے گا
 اور اگر وہ دور رہا تو آوارہ پڑے کنکر کی طرح پاؤں تلے روندا جائے گا یا اٹھا کر باہر پھینک دیا جائیگا۔

ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺩﻭ ﺍﯾﻨﭩﯿﮟ ﻟﯿﮟ
 ﺍﯾﮏ ﺍﯾﻨﭧ ﮐﻮ
ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ..
ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﻨﭧ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﺨﻼ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﺩﯼ..
ﺍﯾﻨﭩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﯽ ....
ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍیک ....
ﻟﮕﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ...
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﮏ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﻣﺴﺠﺪ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ...
ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﺨﻼ ﺳﮯ....
ﺟﺲ ﺍﯾﻨﭧ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﺨﻼ ﺳﮯ
ﮨﻮﺋﯽ.....
ﻭﮨﺎﮞ ﮨﻢ ﻧﻨﮕﺎ ﭘﺎﻭﮞ ﺑﮭﯽ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﺍﯾﻨﭧ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻠّﻪ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ ﻭﮨﺎﮞ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﯿﺸﺎﻧﯿﺎﮞ ٹیکتے ﮨﯿﮟ ﺍﺳﮑﻮ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﻮﻣﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﻮﺳﮧ  ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ..
ﺩوﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﺗﺒﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻕ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻮﺍ!...
ﻗﯿﻤﺖ ﺍﯾﮏ ﺗﮭﯽ ﭼﯿﺰ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺗﮭﯽ.....
ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﯾﻨﭧ ﺍﯾﮏ
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻧﮯ ﻟﮕﺎئی ﺑﮭﯽ...
ﻓﺮﻕ ﺻﺮﻑ ﯾﮧ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﺴﺒﺖ
ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ﺗﮭﯽ
ﺍﭘﻨﯽ ﻧﺴﺒﺖ اللہ والوں ﺳﮯ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺑﮩﺖ ﻓﺮﻕ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ۔

Sunday, September 20, 2020

خونی رشتے


کہتے ہیں کہ ایک دن گاؤں کے کنوئیں پہ عجیب ماجرا ھوا کہ جو ڈول بھی کنوئیں میں ڈالا جاتا واپس نہ آتا جبکہ رسی واپس آ جا تی ، سارے لوگ خوفزدہ ھو گئے
کہ اندر ضرور کوئی جن جنات ھے جو یہ حرکت کرتا ھے ، آخر اعلان کیا گیا کہ جو بندہ اس راز کا پتہ لگائے گا اس کو انعام دیا جائے گا ،، ایک آدمی نے کہا کہ اس کو انعام کی کوئی ضرورت نہیں مگر وہ گاؤں والوں کی مصیبت کے ازالے کے لئے یہ قربانی دینے کو تیار ھے
مگر ایک شرط پر ،، شرط یہ ہے کہ میں کنوئیں میں اسی صورت اتروں گا جب رسا پکڑنے والوں میں میرا بھائی بھی شامل ھو ،،
اس کے بھائی کو بلایا گیا اور رسہ پکڑنے والوں نے رسا پکڑا اور ایک ڈول میں بٹھا کر اس بندے کو کنوئیں میں اتار دیا گیا ،
اس بندے نے دیکھا کہ کنوئیں میں ایک مچھندر قسم کا بندر بیٹھا ھوا ھے جو ڈول سے فورا رسی کھول دیتا ہے ،، اس بندے نے اپنی جیب کو چیک کیا تو اسے گڑ مل گیا ،،
اس نے وہ گڑ اس بندر کو دیا یوں بندر اس سے مانوس ھو گیا ، بندے نے اس بندر کو کندھے پر بٹھایا اور نیچے سے زور زور سے رسہ ہلایا ،، گاؤں والوں نے رسا کھینچنا شروع کیا اور جونہی ڈول اندھیرے سے روشنی میں آیا وہ لوگ بندر کو دیکھ کر دھشت زدہ ھو گئے کہ یہ کوئی عفریت ہے جس نے اس بندے کو کھا لیا ھے
اور اب اوپر بھی چڑھ آیا ھے ، وہ سب رسہ چھوڑ کر سرپٹ بھاگے مگر اس بندے کا بھائی رسے کو مضبوطی سے تھامے اوپر کھینچنے کی کوشش کرتا رھا یہاں تک کہ وہ کنارے تک پہنچ گیا ،
کنوئیں سے نکل کر اس نے بندر کو نیچے اتارا اور لوگوں کو اس بندر کی کارستانی بتائی پھر کہا کہ میں نے اسی لئے اپنے بھائی کی شرط رکھی تھی کہ اگر میرے ساتھ کنوئیں میں کوئی ان ھونی ھو گئ تو تم سب بھاگ نکلو گے جبکہ بھائی کو خون کی محبت روکے رکھے گی ،
یاد رکھیں کوئی لاکھ اچھائی کرے مگر خونی رشتے آخرکار خون کے رشتے ہی ہوتے ہیں ، ان کی قدر کریں.....

اوور کوٹ

''یہ سبق مجھے میرے والد نے دیا تھا۔ میں دن رات ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور صدق دل سے ان کی مغفرت کی دعا کرتا ہوں''۔

وہ رکا، رومال سے ماتھے کا پسینہ صاف کیا اور بولا ''میرے والد کو سردی کا مرض لاحق تھا۔ وہ گھر میں بھی اوور کوٹ پہن کر پھرتے تھے۔ میرے والد جون جولائی میں بھی دھوپ میں بیٹھتے تھے۔ ان کی جلد جل کر سیاہ ہو جاتی تھی لیکن ان کی سردی کم نہیں ہوتی تھی۔ وہ گرمیوں میں بھی لحاف لے کر سوتے تھے۔ پاؤں میں ڈبل جرابیں پہنتے تھے اور صبح شام ہیٹر کے قریب بیٹھتے تھے۔ سردیاں ان کے لئے ناقابلِ برداشت ہوتی تھیں۔ وہ اکتوبر میں کپکپانا شروع کر دیتے تھے۔
ہم انھیں اکتوبر سے مارچ تک دبئی شفٹ کر دیتے تھے، وہ چھ ماہ دبئی میں رہتے تھے اور چھ ماہ لاہور میں۔ اللہ تعالیٰ نے اس خوفناک بیماری کے باوجود ان پر بڑا کرم کیا تھا۔ وہ ارب پتی تھے، وہ حقیقتاً مٹی کو ہاتھ لگاتے تھے تو وہ سونا بن جاتی تھی۔ وہ دنیا کے مشہور ترین ڈاکٹروں کے زیر علاج رہے، لیکن اس خوفناک مرض نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ وہ آخری عمر میں سنکی ہو گئے تھے۔ وہ روز مجھے اپنے پاس بٹھاتے، 
میری ٹھوڑی پکڑتے اور نمناک آواز میں کہتے تھے عبدالمالک مجھے موت سے بہت ڈر لگتا ہے۔ میں جب سوچتا ہوں، میں زمین سے چھ فٹ نیچے پڑا ہوں گا، اندر اندھیرا اور سردی ہو گی اور میرے بدن پر صرف دو چادریں ہوں گی تو میری روح تک کانپ جاتی ہے۔ عبدالمالک کیا تم میرا ایک کام کرو گے؟ میں ہر روز جواب دیتا؛ ابا جی آپ حکم کریں، میں جی لڑا دوں گا۔ میرے والد بڑی لجاجت سے فرماتے؛ بیٹا تم کسی سے فتویٰ لے کر مجھے گرم کپڑوں میں دفن کر دینا۔ یہ ممکن نہ ہوا تو تم کم از کم میری قبر کو گرم رکھنے کا کوئی بندوبست ضرور کر دینا۔ میں فوراً حامی بھر لیتا تھا۔
میرا خیال تھا میں کسی نہ کسی عالم سے فتویٰ لے کر اباجی کو اوور کوٹ میں دفن کر دوں گا۔ میں ان کی قبر بھی گرم اینٹوں سے بنوا دوں گا۔ ہم لوگ امیر تھے۔ میں اکثر سوچتا تھا اگر کوئی عالم تیار نہ ہوا تو میں فتویٰ خرید لوں گا۔ مجھے جتنی بھی رقم خرچ کرنا پڑی کر دوں گا لیکن میں اپنے والد کی آخری خواہش ضرور پوری کروں گا۔''

وہ رکا، ٹھنڈی آہ بھری اور بولا؛ ''لیکن میں فیل ہو گیا۔ میرے والد ٢٠٠٠ء میں فوت ہو گئے۔ ہم نے انھیں گرم پانی سے غسل دیا، انھیں اوور کوٹ پہنایا اور اس اوور کوٹ پر کفن لپیٹ دیا۔
مولوی صاحب نے جب اوورٹ کوٹ دیکھا تو جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔ میں نے انھیں ہر قسم کا لالچ دیا، میں نے ان کی منت بھی کی لیکن وہ نہ مانے۔ میں نے تنگ آ کر انھیں دھمکی دے دی، وہ جنازہ چھوڑ کر چلے گئے۔ ہم نے اس کے بعد بے شمار مولویوں سے رابطہ کیا لیکن کوئی نہ مانا، یہاں تک کہ میں نے خود جنازہ پڑھانے کا فیصلہ کر لیا۔ میں جب والد کی میت کے پیچھے کھڑا ہوا تو لوگوں نے جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ میں نے ان کی بھی منتیں کیں لیکن وہ بھی نہ مانے۔

والد کی قبر کا ایشو بھی بن گیا۔ میں قبر میں ''انسولیشن'' کرنا چاہتا تھا لیکن لوگوں نے اعتراض شروع کر دیا۔ پورے شہر کا کہنا تھا قبر ہمیشہ اندر سے کچی ہوتی ہے۔ فرعونوں کے علاوہ آج تک کسی شخص کی قبر اندر سے پکی نہیں ہوئی، یہ بدعت ہے اور ہم اس بدعت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ میں مصیبت میں پھنس گیا یہاں تک کہ میرے پاس لوگوں کی بات ماننے کے سوا کوئی آپشن نہ بچا۔ مجھے والد کا اوورکوٹ بھی اتارنا پڑا اور قبر بھی توڑنی پڑی۔ میں نے بڑے دکھی دل کے ساتھ اپنے والد کو دفن کیا اور قبر پر دیر تک روتا رہا۔ میں جب بھی سوچتا تھا میں اپنے والد کی معمولی سی خواہش پوری نہیں کر سکا تو میری ہچکی بندھ جاتی تھی۔ میں اس کے بعد جب بھی والد کی قبر پر جاتا تھا۔ میں شرمندگی سے سر جھکاتا تھا اور ان سے معافی مانگتا تھا۔ یہ سلسلہ مہینہ بھر جاری رہا۔

میں ایک رات گہری نیند سویا ہوا تھا، میرے والد میرے خواب میں آ گئے۔ وہ سفید کفن میں ملبوس تھے۔ انھیں شدید سردی لگ رہی تھی، وہ کپکپا رہے تھے اور مجھے بلا رہے تھے۔ عبدالمالک! عبدالمالک! اٹھو اور میری بات سنو! میں نے خواب میں ان کی طرف دیکھا، وہ بولے؛ میرے بیٹے میں تمہیں زندگی کی وہ حقیقت بتانا چاہتا ہوں جو مجھے مرنے کے بعد معلوم ہوئی۔
میں نے عرض کیا؛ اباجی میں غور سے سن رہا ہوں، آپ فرمائیے۔
وہ بولے؛ بیٹا میں ارب پتی تھا، میں چیک پر خود دستخط نہیں کرتا تھا، میرے منیجر کرتے تھے۔ میں زمین جائیداد کا مالک بھی تھا اور میں تم جیسے سعادت مند بیٹوں کا باپ بھی تھا لیکن تم اور میری ساری دولت مل کر بھی میری ایک خواہش پوری نہ کر سکے۔ میں گرم کپڑوں اور گرم قبر میں دفن نہ ہو سکا۔
میں نے اس سے اندازہ لگایا انسان کی ساری دولت اور ساری آل اولاد مل کر بھی موت کے بعد اس کی مدد نہیں کر سکتی۔ یہ قبر میں اس کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ یہ سب اگر مجھے قبر سے پہلے ایک اوور کوٹ نہیں پہنا سکے تھے تو یہ اس سے آگے کے سفر میں میرا کیا ساتھ دے سکتے تھے۔ چنانچہ میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں دولت وہ ہے جو مرنے کے بعد بھی آپ کا ساتھ دے اور اولاد وہ ہے جو زندگی کے بعد بھی اولاد رہے۔
میں نے عرض کیا؛ اباجی آپ کی بات یقیناً ٹھیک ہو گی لیکن میں یہ سمجھ نہیں سکا۔ وہ مسکرائے اور فرمایا دولت اور اولاد کو صالح بناؤ۔ یہ مرنے کے بعد بھی تمہارے کام آتی رہے گی، ورنہ دوسری صورت میں یہ تمہارے امتحان میں اضافہ کرتی رہے گی۔ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ بولے؛ بیٹا میں نے پوری زندگی دولت کمائی، میں اس کا ٩٩ فیصد حصہ دنیا میں چھوڑ گیا۔
یہ ٩٩ فیصد حصہ میرے بعد نااہل ثابت ہوا جب کہ میں نے اس کے ایک فیصد سے یتیم اور غریب بچوں کے لئے اسکول بنایا تھا۔ دولت کا وہ ایک فیصدحصہ میرے لئے صالح ثابت ہوا، وہ آج بھی میرے کام آ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے تم سمیت چھ بچے دیئے تھے۔ میں نے ان تمام بچوں کو پریکٹیکل بنا دیا۔ یہ بچے دنیا دار ہیں، یہ زندگی میں مجھ سے زیادہ کامیاب ہیں۔
یہ دھڑا دھڑ پیسہ کما رہے ہیں لیکن مجھے آج ان میں سے کسی کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ ہاں البتہ میں نے اپنے خاندان کی ایک یتیم بچی کو تعلیم دلائی تھی۔ وہ بچی ڈاکٹر بن گئی، وہ ڈاکٹر ہفتے میں دو دن غریب مریضوں کا مفت علاج کرتی ہے۔ مجھے ان دو دنوں کا بہت فائدہ ہو رہا ہے۔ وہ بچی اور اس کے دو دن میرے لئے صالح ثابت ہو رہے ہیں۔ چنانچہ میرا مشورہ ہے تم اپنی دولت کا ایک فیصد اپنے اوپر خرچ کرو اور ٩٩ فیصد کو صالح بنا دو۔ تم مرنے کے بعد بھی خوشحال رہو گے اور تم اپنی اولاد کو کاروبار کے ساتھ ساتھ ویلفیئر پر لگا دو۔ یہ صالح ہو جائے گی اور یہ صالح اولاد تمہیں صدیوں تک نفع پہنچاتی رہے گی۔
میرے والد اٹھے، میرا ماتھا چوما اور چلے گئے۔ میرا خواب ٹوٹ گیا۔ میں جاگ کر بیٹھ گیا''

وہ رکا، لمبا سانس لیا، ماتھے کا پسینہ خشک کیا اور ہنس کر بولا؛ ''بس میرے والد نے مجھے زندگی کی ڈائریکشن دے دی۔ میں نے اولاد اور دولت کو صالح بنانا شروع کر دیا۔ میں نے اپنی دولت جمع کی، دس فیصد حصہ الگ کیا، یہ دس فیصد پراپرٹی میں لگایا۔ ایسے اثاثے بنائے جن کے کرایوں سے ہم اچھی اور پرآسائش زندگی گزار سکتے ہیں اور باقی دولت میں نے اللہ کے نام وقف کر دی۔
میں نے ملک کے دور دراز علاقوں میں کنوئیں کھدوائے اور اسکول اور ڈسپنسریاں بنانا شروع کر دیں۔ میں نے دولت کا ایک حصہ یتیم بچوں کی اعلیٰ تعلیم اور موذی امراض کے شکار لوگوں کی بہبود کے لئے بھی وقف کر دیا۔ یوں میری دولت صالح ہوتی چلی گئی، میں اب اپنے بچوں کو بھی ویلفیئر کے کام پر لگا کر صالح بناتا جا رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے یہ بھی ایک نہ ایک دن میری قبر کے لئے ٹھنڈک بن جائیں گے۔

وہ خاموش ہو گیا، میں نے عرض کیا؛ ''آپ بچوں کو کیسے صالح بنا رہے ہیں؟ '' وہ مسکرایا اور بولا؛ ''میں بچوں کو ٹریننگ دے رہا ہوں۔ ہماری کامیابی ہمارا اثاثہ ہوتی ہے، ہم جب تک اس اثاثے کا ایک بڑا حصہ صدقہ نہیں کرتے ہم اس وقت تک صالح نہیں ہو سکتے۔ آپ انجینئر ہیں تو آپ اپنی انجینئرنگ کا ایک حصہ اپنے اور اپنے خاندان کے لئے وقف کریں اور دوسرا حصہ صدقہ کر دیں۔ لوگوں کو اپنے علم اور اپنے فن کے فوائد میں شامل کر لیں آپ صالح ہو جائیں گے۔
آپ اسی طرح اگر ڈاکٹر ہیں تو آپ لوگوں کا مفت علاج کریں، یہ مفت علاج آپ کی طرف سے صدقہ ہو گا اور یہ صدقہ آپ کو صالح بنا دے گا اور آپ اگر تاجر ہیں تو آپ اپنی تجارت کو منافع خوری، ملاوٹ اور بددیانتی سے پاک کرتے جائیں۔ آپ صالح تاجر ہو جائیں گے اور اس کا آپ اور آپ کے والدین کو فائدہ ہو گا۔''


وہ خاموش ہو گیا۔ میں نے پوچھا؛ ''آپ کو اب تک اس پریکٹس کا کیا فائدہ ہوا؟ '' وہ مسکرایا اور بولا؛ ''میں زندگی اور میرے والد موت کے بعد مطمئن ہیں۔ وہ اکثر اوور کوٹ پہن کر میرے خواب میں آتے ہیں، میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور اونچی آواز میں کہتے ہیں ''شاباش عبدالمالک'' اور میں نہال ہو جاتا ہوں۔ میں خوش ہو جاتا ہوں''۔

حفاظت کا عمل

مفتی تقی عثُمانی مدظلہ کےدادا استاد،وہ فرمایا کرتے تھے کہ حفاظت کا ایک عمل ایسا ہے کہ کچھ خاص لوگوں کو ہی بتایا کرتا ہوں لیکن اب چوں کہ عمر کا آخری حصہ ہے اس لیے دل چاہتا ہے کہ ہر مسلمان تک یہ پہنچ جائے۔  اس کی تائید حضرت مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ نے بھی کی تھی اور یہ عمل کیا کرتے تھے۔ وہ عمل ذیل میں ارسال کیا جارہا ہے۔

*اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم (تین مرتبہ)*
*بسم اللہ الرحمن الرحیم (تین مرتبہ)*
*اعوذ بِکَلِماتِ اللہِ التَّامَّات مِن شرِّ مَا خَلَق (تین مرتبہ)*
*بسم اللہ پڑھ کر تین مرتبہ سورۃ اخلاص*
*بسم اللہ پڑھ کر تین مرتبہ سورۃ فلق*
*بسم اللہ پڑھ کر تین مرتبہ سورۃ الناس*
*فَاللہُ خَیرٌ حَافِظًا وَّ ھُوَ اَرحَمُ الرَّاحِمِین (تین مرتبہ)*
*وَ اَنَّ اللہَ قَد اَحَاطَ بِکُلِّ شَیئٍ عِلمًا (تین مرتبہ)*
آخر میں کوئی بھی درود شریف تین مرتبہ
اس کے بعد پورے جسم پر دم کرلیں، اپنے اہل و عیال اور بچوں کا بھی حصار کرلیں۔

فجر کی نماز کے بعد، مغرب کی نماز کے بعد۔۔۔ان شاءاللہ بےشمارفوائدوبرکات کھلی آنکھوں سے نظر آئیں گی اور شیطانی قوتوں اورھمہ قسم بداثرات سے حفاظت ہوگی
 *یاد رکھیں !*
ان اذکارکاخوداہتمام کرتےہوۓ، جتنا زیادہ ایسی خوبصورت،پیاری باتیں آگے پھیلائیں گےاتنازیادہ فائدہ دنیا وآخرت میں پائیں گے

نبی اکرم ﷺ کی قبر مبارک

نبی اکرم ﷺ کی قبر مبارک کے بارے درست معلومات

یقینا گنبد خضرا وہ گنبد ہے، جو پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں بستا ہے۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کے دل میں گنبد خضرا کی زیارت کی خواہش انگڑائی نہ لیتی ہو۔ اللہ کے محبوب نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک پر قائم اس گنبد خضرا کے نیچے اور روضہ شریف کے اندر کیا ہے، اس کے متعلق کہی کہانیاں مشہور ہیں۔ انٹرنیٹ پر کئی جعلی تصاویر گردش میں رہتی ہیں۔ انواع و اقسام کی قبروں کو قبر رسول کے نام سے سوشل میڈیا پر شیئر کیا جاتا ہے۔ کبھی کسی آدمی کی تصویر اس دعوے کے ساتھ شیئر کی جاتی ہے کہ یہ خادم رسول ہیں اور قبر مبارک کی صفائی کی خدمت پر مامور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے سب دعوے بے بنیاد اور مصنوعی ہیں۔

حقیقت کیا ہے؟ روضہ شریف کے اندر کیا ہے؟ کیا کوئی قبر مبارک تک رسائی رکھتا ہے؟ ان سب سوالوں کے جوابات کچھ عرصہ قبل سعودی حکومت نے باضابطہ طور پر دیئے ہیں اور اندرونی ہال کی تصاویر بھی شیئر کی گئی ہیں، جن سے سب بناوٹی باتوں کا قلع قمع ہوتا ہے۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وصال ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک میں ہوا تھا اور وہیں آپ کی تدفین ہوئی۔ اس کے بعد پھر حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما بھی وہاں مدفون ہوئے۔ اس طرح روضہ شریف کے اندر اس وقت تین قبریں ہیں۔ اس طرح کوئی بھی ایسی تصویر جس میں صرف ایک قبر ہو، وہ کسی صورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرقد کی نہیں ہو سکتی اور ویسے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی کوئی تصویر دنیا میں موجود نہیں ہے. اس لیے کہ گزشتہ ساڑھے پانچ صدیوں میں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔ اور اس سے پہلے کیمرا موجود ہی نہیں تھا کہ اس کی کوئی تصویر ہوتی۔

 وہ حجرہ شریف جس میں آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے دو اصحاب کے قبریں ہیں، اس کے گرد ایک چار دیواری ہے، اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے جو پانچ دیواروں پر مشتمل ہے۔ یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بنوائی تھی۔ اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔ اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں، لہذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان موجود ہی نہیں ہے۔ روضہ رسول ﷺ کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں چیچن صدر کی وڈیو وائرل ہوئی ہے

روضہ رسولﷺ پر سلام عرض کرنے والے عام زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے، جو حجرہ شریف کی پنج دیواری پر پڑا ہوا ہے۔ اس طرح سلام پیش کرنے والے زائرین اور آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔ ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج دیواری، اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔

 گزشتہ تیرہ سو سال سے اس پنج دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا ہے سوائے دو مواقع کے۔ ایک بار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ان کا غلام اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ السمہودی کے بیان کے مطابق وہ خود۔
ذہن میں رہے کہ نور الدین زنگی علیہ رحمہ والے واقع میں جو سیسہ پلائی دیوار بنائی گئی تھی وہ زمینی تھی اور وہ تقریبا 200 فٹ نیچے  اور جو  واقعہ میں پاؤں نظر آیا تھا وہ بھی سرنگ کے ذریعے نظر آیا تھا نہ کہ قبر مبارک کی طرف سے۔ بہرحال اس موقع پر بھی قبر کی زیارت ثابت نہیں۔

مسجد نبوی میں قبلہ کا رخ جنوب کی جانب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے۔ بڑے ہال کمرے کے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے یعنی جنت البقیع کی سمت ہے۔ یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی محراب ہے۔ اس کے پیچھے ان کی چارپائی (سریر) ہے۔ العربیہ ویب سائٹ نے محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ مبارک کی طرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔ 1406 ہجری میں شاہ فہد کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا۔ اس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں شاہ عبد العزیز  کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا۔ مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اُس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی جو 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی لمبائی ملا کر 14 میٹر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 91 ہجری سے لے کر 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا۔ اس کے بعد 881 ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی۔ اس وقت نامور مورخ اور فقیہ علّامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی علیہ رحمہ مدینہ منورہ میں موجود تھے، جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ 

وہ لکھتے ہیں 14 شعبان 881 ھ کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔ خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ میں نے رسول کریم ﷺ اورآپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہٴ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔ میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔
السمہودی نے اپنی کتاب میں حجرہ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ "اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے۔ حجرہ نبوی کا فرش مسجد نبوی کے فرش سے تقریبا 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔ اس دوران حجرے پر موجود چھت کو ختم کر کے اس کی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہے۔ اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیا گیا جس کی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراء کے عین نیچے واقع ہے"۔

یہ سب معلومات معروف کتاب "وفاء الوفاء با اخبار دار المصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم" کے مؤلف السمہودی نے اپنی مشہور تصنیف میں درج کی ہیں۔ مسجد نبوی، حجرہ شریف اور قبر مبارک کے حوالے سے یہ کتاب سب سے مستند حوالہ ہے۔ اس کتاب میں مدینہ منورہ کی تاریخ سے متعلق تمام معلومات جمع کی گئی ہیں. علامہ السمہودی کی وفات 911 ہجری میں ہوئی۔ 881 ہجری یا 1477 عیسوی سے لے کر اب تک تقریباً ساڑھے پانچ سو سال کے عرصے میں کوئی انسان آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت نہیں کر سکا ہے. جہاں تک چیچن صدر کو لے جایا گیا، وہاں سے آگے مزید چار دیواریں اور ہیں۔

صحت اللہ کی نعمت

یہ واقعہ حیران کن بھی ہے اور دماغ کو گرفت میں بھی لے لیتا ہے' 
 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک بار اللہ تعالیٰ سے پوچھا 
'' یا باری تعالیٰ انسان آپ کی نعمتوں میں سے کوئی ایک نعمت مانگے تو کیا مانگے؟'' 
اللہ تعالیٰ نے فرمایا 
'' صحت''۔ 
میں نے یہ واقعہ پڑھا تو میں گنگ ہو کر رہ گٸ۔
صحت اللہ تعالیٰ کا حقیقتاً بہت بڑا تحفہ ہے اور قدرت نے جتنی محبت 
اور 
منصوبہ بندی انسان کو صحت مند رکھنے کے لیے کی اتنی شاید پوری کائنات بنانے کے لیے نہیں کی-
' ہمارے جسم کے اندر ایسے ایسے نظام موجود ہیں کہ ہم جب ان پر غور کرتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے
' ہم میں سے ہر شخص ساڑھے چار ہزار بیماریاں ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔
یہ بیماریاں ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں' مگر ہماری قوت مدافعت' ہمارے جسم کے نظام ان کی ہلاکت آفرینیوں کو کنٹرول کرتے رہتے ہیں'
 مثلا
ً ہمارا منہ روزانہ ایسے جراثیم پیدا کرتا ہے جو ہمارے دل کو کمزور کر دیتے ہیں 
مگر 
ہم جب تیز چلتے ہیں' 
جاگنگ کرتے ہیں یا واک کرتے ہیں تو ہمارا منہ کھل جاتا ہے'
 ہم تیز تیز سانس لیتے ہیں'
 یہ تیز تیز سانسیں ان جراثیم کو مار دیتی ہیں اور
 یوں ہمارا دل ان جراثیموں سے بچ جاتا ہے'
 مثلاً
 دنیا کا پہلا بائی پاس مئی 1960ء میں ہوا مگر
 قدرت نے اس بائی پاس میں استعمال ہونے والی نالی لاکھوں' کروڑوں سال قبل ہماری پنڈلی میں رکھ دی' یہ نالی نہ ہوتی تو شاید دل کا بائی پاس ممکن نہ ہوتا'
 مثلاً گردوں کی ٹرانسپلانٹیشن 17 جون 1950ء میں شروع ہوئی مگر قدرت نے کروڑوں سال قبل ہمارے دو گردوں کے درمیان ایسی جگہ رکھ دی جہاں تیسرا گردہ فٹ ہو جاتا ہے' 
ہماری پسلیوں میں چند انتہائی چھوٹی چھوٹی ہڈیاں ہیں۔
یہ ہڈیاں ہمیشہ فالتو سمجھی جاتی تھیں مگر آج پتہ چلا دنیا میں چند ایسے بچے پیدا ہوتے ہیں جن کے نرخرے جڑے ہوتے ہیں' یہ بچے اس عارضے کی وجہ سے اپنی گردن سیدھی کر سکتے ہیں' نگل سکتے ہیں اور نہ ہی عام بچوں کی طرح بول سکتے ہیں
' سرجنوں نے جب ان بچوں کے نرخروں اور پسلی کی فالتو ہڈیوں کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا پسلی کی یہ فالتو ہڈیاں اور نرخرے کی ہڈی ایک جیسی ہیں چنانچہ سرجنوں نے پسلی کی چھوٹی ہڈیاں کاٹ کر حلق میں فٹ کر دیں اور یوں یہ معذور بچے نارمل زندگی گزارنے لگے' 
مثلاً ہمارا جگر جسم کا واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے
' ہماری انگلی کٹ جائے' بازو الگ ہو جائے یا جسم کا کوئی دوسرا حصہ کٹ جائے تو یہ دوبارہ نہیں اگتا جب کہ جگر واحد عضو ہے جو کٹنے کے بعد دوبارہ اگ جاتا ہے
' سائنس دان حیران تھے قدرت نے جگر میں یہ اہلیت کیوں رکھی؟ آج پتہ چلا جگر عضو رئیس ہے'
 اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں اور اس کی اس اہلیت کی وجہ سے یہ ٹرانسپلانٹ ہو سکتا ہے' 
آپ دوسروں کو جگر ڈونیٹ کر سکتے ہیں
' یہ قدرت کے چند ایسے معجزے ہیں جو انسان کی عقل کو حیران کر دیتے ہیں جب کہ ہمارے بدن میں ایسے ہزاروں معجزے چھپے پڑے ہیں اور یہ معجزے ہمیں صحت مند رکھتے ہیں۔
ہم روزانہ سوتے ہیں' 
ہماری نیند موت کا ٹریلر ہوتی ہے' انسان کی اونگھ' نیند' گہری نیند' بے ہوشی اور موت پانچوں ایک ہی سلسلے کے مختلف مراحل ہیں' 
ہم جب گہری نیند میں جاتے ہیں تو ہم اور موت کے درمیان صرف بے ہوشی کا ایک مرحلہ رہ جاتا ہے' ہم روز صبح موت کی دہلیز سے واپس آتے ہیں مگر ہمیں احساس تک نہیں ہوتا' 
صحت دنیا کی ان چند نعمتوں میں شمار ہوتی ہے یہ جب تک قائم رہتی ہے ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی
 مگر
 جوں ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑتی ہے' 
ہمیں فوراً احساس ہوتا ہے یہ ہماری دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی' 
ہم اگر کسی دن میز پر بیٹھ جائیں اور سر کے بالوں سے لے کر پاوں کی انگلیوں تک صحت کا تخمینہ لگائیں تو ہمیں معلوم ہو گا ہم میں سے ہر شخص ارب پتی ہے
' ہماری پلکوں میں چند مسل ہوتے ہیں۔
یہ مسل ہماری پلکوں کو اٹھاتے اور گراتے ہیں' اگر یہ مسل جواب دے جائیں تو انسان پلکیں نہیں کھول سکتا
' دنیا میں اس مرض کا کوئی علاج نہیں
' دنیا کے 50 امیر ترین لوگ اس وقت اس مرض میں مبتلا ہیں اور یہ صرف اپنی پلک اٹھانے کے لیے دنیا بھر کے سرجنوں اور ڈاکٹروں کو کروڑوں ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں' 
ہمارے کانوں میں کبوتر کے آنسو کے برابر مائع ہوتا ہے' یہ پارے کی قسم کا ایک لیکوڈ ہے' ہم اس مائع کی وجہ سے سیدھا چلتے ہیں
' یہ اگر ضائع ہو جائے تو ہم سمت کا تعین نہیں کر پاتے' 
ہم چلتے ہوئے چیزوں سے الجھنا اور ٹکرانا شروع کر دیتے ہیں ' 
دنیا کے سیکڑوں' ہزاروں امراء آنسو کے برابر اس قطرے کے لیے کروڑوں ڈالر دینے کے لیے تیار ہیں'
 لوگ صحت مند گردے کے لیے تیس چالیس لاکھ روپے دینے کے لیے تیار ہیں' 
آنکھوں کا قرنیا لاکھوں روپے میں بکتا ہے'
 دل کی قیمت لاکھوں کروڑوں میں چلی جاتی ہے'
 آپ کی ایڑی میں درد ہو تو آپ اس درد سے چھٹکارے کے لیے لاکھوں روپے دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں' 
دنیا کے لاکھوں امیر لوگ کمر درد کا شکار ہیں۔
گردن کے مہروں کی خرابی انسان کی زندگی کو اجیرن کر دیتی ہے'
 انگلیوں کے جوڑوں میں نمک جمع ہو جائے تو انسان موت کی دعائیں مانگنے لگتا ہے
' قبض اور بواسیر نے لاکھوں کروڑوں لوگوں کی مت مار دی ہے' 
دانت اور داڑھ کا درد راتوں کو بے چین بنا دیتا ہے'
 آدھے سر کا درد ہزاروں لوگوں کو پاگل بنا رہا ہے'
 شوگر'
 کولیسٹرول
 اور
 بلڈ پریشر کی ادویات بنانے والی کمپنیاں ہر سال اربوں ڈالر کماتی ہیں
 اور
 آپ اگر خدانخواستہ کسی جلدی مرض کا شکار ہو گئے ہیں تو آپ جیب میں لاکھوں روپے ڈال کر پھریں گے مگر آپ کو شفا نہیں ملے گی' 
منہ کی بدبو بظاہر معمولی مسئلہ ہے مگر لاکھوں لوگ ہر سال اس پر اربوں روپے خرچ کرتے ہیں'
 ہمارا معدہ بعض اوقات کوئی خاص تیزاب پیدا نہیں کرتا اور ہم نعمتوں سے بھری اس دنیا میں بے نعمت ہو کر رہ جاتے ہیں۔
ہماری صحت اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم ہے مگر 
ہم لوگ روز اس نعمت کی بے حرمتی کرتے ہیں' 
ہم اس عظیم مہربانی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرتے'
 ہم اگر روز اپنے بستر سے اٹھتے ہیں
' ہم جو چاہتے ہیں ہم وہ کھا لیتے ہیں اور یہ کھایا ہوا ہضم ہو جاتا ہے'
 ہم سیدھا چل سکتے ہیں'
 دوڑ لگا سکتے ہیں' 
جھک سکتے ہیں
 اور
 ہمارا دل' دماغ' جگر اور گردے ٹھیک کام کر رہے ہیں
' ہم آنکھوں سے دیکھ' 
کانوں سے سن' 
ہاتھوں سے چھو' 
ناک سے سونگھ
 اور منہ سے چکھ سکتے ہیں
 تو پھر ہم سب اللہ تعالیٰ کے فضل'
 اس کے کرم کے قرض دار ہیں
 اور 
ہمیں اس عظیم مہربانی پر اپنے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے
 کیونکہ 
صحت وہ نعمت ہے جو اگر چھن جائے تو ہم پوری دنیا کے خزانے خرچ کر کے بھی یہ نعمت واپس نہیں لے سکتے' 
ہم اپنی ریڑھ کی ہڈی سیدھی نہیں کر سکتے۔
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ —
اگر آپ نے شکر ادا نہیں کیا تو جلدی شکر ادا کرلیں۔

Saturday, September 19, 2020

ایک لڑکی کا قصہ

ایک لڑکی قصہ لکھتی ہے کہ

میں نے گھر کی صفائی کی اسی دوران بھائی نے فون کیا کہ میں بیوی بچوں سمیت تمہاری ملاقات کیلئے آرہا ہوں.

کہتی ہے کہ میں باورچی خانہ چلی گئ ، تاکہ ان کیلئے جلدی میں کچھ تیار کرسکوں، پر گھر میں صرف دو تین آم ہی پڑے تھے،جلدی میں دو گلاس جوس تیار کرلی. 

   جب وہ آئے، تو بھائی کے ساتھ اس کی ساس بھی تھی!
جو کہ اس سے پہلے کبھی بھی نہیں آئی تھی،تو میں نے دو گلاس جوس ماں اور بیٹی کے سامنے رکھ دی اور پانی کا گلاس بھائی کے سامنے رکھ کر کہا کہ،مجھے معلوم ہے کہ آپ کو سیون اپ پسند ہے... بھائی نے جیسے ہی گلاس منہ سے لگایا تو سمجھ گیا کہ یہ تو پانی ہے،
اسی دوران ساس نے میرے بھائی سے کہا: بیٹا سیون اپ میرے معدے کیلئے اچھا ہے اس لئے میرا جوس تم پی لو اور سیون اپ مجھے دو! 
یہاں پر میرے اوسان خطاء ہوئے،سخت شرمندگی ہوئی کہ میری چالاکی رسوا ہوگئ، پر ﷲ میرا بھائی سلامت رکھے.

   بھائی نے اپنی ساس سے کہا:اس گلاس سے تو میں نے کافی سیون اپ پی لیا ہے، آپ کیلئے میں فریج سے بوتل لاتا ہوں، اس نے گلاس لیا اور جلدی سے باہر نکلا، تھوڑی دیر بعد ہم نے گلاس ٹوٹنے کی آواز سنی! بھائی واپس آیا، ساس سے کہا کہ سیون اپ کا بوتل تو مجھ سے گر کر ٹوٹ پڑا،میں جلدی سے تمہارے لئے دکان سے ایک بوتل لے آتا ہوں؟ ساس نے سختی سے انکار کیا کہ چلو یہ میرے نصیب میں نہیں تھا.

   جب وہ رخصت ہونے لگے تو بھائی پیچھے رہا،خدا حافظ کہا مصافحہ کیلئے ہاتھ دیا، اور اسی دوران ہاتھ میں پیسے بھی تھمادیے ، اور مسکرا کر بولا، میری پیاری بہن کچن میں گرے ہوئے سیون اپ کی جگہ کو دھو ڈالنا. 
اسی طرح میرے پیارے بھائی نے میری کمزوری پر پردہ بھی ڈالا اور میرے ساتھ مدد بھی کی.
 (سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ)ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو مضبوط کردیں گے "سورت قصص 35"