بارش کے چھوٹے چھوٹے قطرے جب مل کر برستے ہیں تو تُند و تیز لہروں میں بدل جاتے ہیں…
ریت اور مٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرات سے مل کر ہی ہموار اور زرخیز زمین تشکیل پاتی ہے…
زینہ زینہ چڑھ کر ہی بلندیوں پر پہنچا جاتا ہے ناں؟
قدم قدم اُٹھا کر ہی منزل سے ہمکنار ہوا جاتا ہے…
سو ہمیشہ اپنی قدر کیجیئے،یہ نہ سمجھیئے کہ میں کر بھی کیا سکتی ہوں/سکتا ہوں؟
مجھ میں بھلا کیا صلاحیتیں ہیں،جنہیں استعمال میں لاؤں؟
میرے پاس بڑے بڑے منصوبے اور مال ہو گا شاید تب ہی دنیا کو مجھ سے کوئی فائدہ ہو سکے گا؟
تب تک مجھے مایوسی میں ہی رہنا ہے…
سوچتے ہی چلے جانا ہے…
اپنے آپ کو کوستے ہوئے افسوس ہی کرتے رہنا ہے…!!!
نہیں بلکہ آپ نے اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کا تہیہ کر لینا ہے…
سب سے اوّلین مستحق ہمارے گھر کے افراد ہوتے ہیں… الاوّل فالاوّل…
ہمارے والدین،اولاد،رشتہ دار،پھر وہ جگہیں جہاں ہم کام کرتے ہیں،ہمارا معاشرہ،قوم،اور اُمت یہ سبھی کیٹیگریز ہمارے کردار کی مستحق ہیں…
ہم اس دین کے ماننے والے ہیں ناں جہاں اپنے بھائی کو مسکرا کر دیکھنا بھی صدقہ ہے…
جہاں مریض کی عیادت کرنے والا جنت کے باغوں میں گھومتا ہے…
جہاں للہ کسی کی زیارت کرنے والے کو فرشتہ ندا دیتا ہے تُجھے مبارک ہو،تیرا چلنا خوشگوار ہو اور جنت میں تُجھے ٹھکانہ نصیب ہو…
جہاں رستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا،کسی بھولے اور اندھے کو رستہ دکھا دینا صدقہ ہے…
کسی کو نیکی کی طرف رہ نمائی کر دینا نیکی کرنے کی مثل ہے…
بس اپنی سوچ مثبت رکھیئے،
منفی سوچ،بدگمانیوں اور نفرت و حسد کے جذبات دل کے دریچوں سے نکال باہر پھینکیں…
کسی کے راز کی حفاظت…
کسی کے عیوب کی پردہ پوشی…
کسی کی مصیبت کی گھڑی میں ہمدردی کے چند بول…
خیر خواہی پر مبنی مشورہ دے دینا…
کسی کو معاف کر دینا…
زیادتی پر درگزر کر جانا…
یقین جانیئے یہ بڑے عزم اور درجہ والے کام ہیں…
ہم اکثر بڑی بڑی نیکیاں کر کے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی پرواہ نہ کر کے بڑی نیکیوں کو بھی ضائع کر دیتے ہیں…
اپنے والدین کا ہاتھ پکڑ کر چلنا…
ماؤں کے کاموں میں ہاتھ بٹا دیجیئے…یہ نہیں کہ ہم سوشل بنے پھرتے ہوں اور ماں دھوپ میں تڑپتی اور کام سنبھالتی رہے…
ماں کا دور تھکاوٹ سے چُور گزر چکا ہے اب ہماری جوانی کے عمل کا دور ہے…
اسے موبائل کی غیر ضروری مصروفیات کی نذر ہر گز نہ ہونے دیجیئے…
مانا کہ ہمارے للہ ہی سہی،محبتوں کے حصار بہت وسیع ہوں،لیکن ماں باپ جیسے رشتے سے بڑھ کر ہر گز نہیں ہو سکتے…
ہماری عبادات،رب کے ذکر اور تعلیم و تعلم سے بڑھ کر نہیں ہو سکتے…
اپنا حق بھی پہچانیں…!!!
اپنی لائف کو مینیج کیجیئے اور اس کے مطابق تمام معاملات ڈیل کرنے کی کوشش کیجیئے…
اہم چاہے چھوٹا کام ہی کیوں نہ ہو،اسے اولیت دیجیئے…
غیر اہم بڑا ہی سہی،ثانویت کے درجہ پر رکھیں…
فراغت کے لمحات میسر ہوں تو انہیں بھی ضائع نہ جانے دیں،اپنے دوست احباب سے، رشتہ داروں سے حال احوال بانٹ لیجیئے…
کُچھ وقت اُن کے ساتھ بِتایئے…
انہیں اپنا ہونے کا احساس دلایئے…!!!
اپنے چھوٹے چھوٹے اعمال سے زندگی کی تصویر میں رنگ بھرنے کی مشق جاری رکھیئے…
روزانہ قرآن کی ایک آیت ہی خود یا کسی سے سمجھنے کی کوشش کریں…
ایک حدیث کا مطالعہ کر لیں،زندگی گزارنے کے بہت سے اصولوں سے شناسائی ملے گی…
تاریخ کا ایک ورق ہی پلٹ کر دیکھ لیں…
پانچ،سات منٹ نکال کر حالاتِ امت سے آگہی حاصل کریں…
استغفراللہ،الحمدللہ،سبحان اللّٰہ و بحمدہ سبحان اللّٰہِ العظیم یہ وہ کلمات ہیں جن کے بارے میں پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کہ یہ زبان پر بہت ہلکے لیکن میزان میں بہت بھاری ہیں…کی حاضر دل سے تسبیح پڑھ لیں…
غرض چراغِ رہ بنیں…
اُمیدِ سحر بنیں…
خیر کی قربت…
شر سے دوری بنیں…!!!
مسافر ہیں تو زادِ سفر سمیٹیں…
سب تو تو،میں میں کا کھیل ختم ہو جانے والا ہے اور کام آنے والی چیز فقط بھلائیاں ہیں…!!!
چھوٹے کاموں کو حقیر نہ سمجھیں…:
سب سارا دن پانی بہا بہا کر ضائع کر دیتے تھے…
ایک دن میں نے سوچا کہ جتنا پانی بہہ جاتا ہے اگر کسی پودے کی کیاری میں ہاتھ دھو لیئے جائیں تو ایک تو پودے کی زمین نرم رہے گی،دوسرا کیچڑ سے بھی بچت…
اب بات مانتے مانتے تو دیر لگتی…
میں نے یہ ذمہ داری خود اُٹھا لی ،اور صرف ایک دن میں مجھے چودہ مرتبہ صرف ہاتھ دھونے کے لیئے لوٹا بھر بھر کر کیاری کے پاس رکھنا پڑا…
لیکن فائدہ یہ ہوا کہ سب کی ایک عادت سی بن گئی کہ اب ہاتھ باری باری کیاریوں میں ہی دھونے ہیں…!!!
زندگی کی خوشیوں سے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو کبھی دیس نکالا نہ دیں،ورنہ یہ زندگی بے رنگ،بے ذائقہ اور پھیکی پھیکی رہ جاتی ہے…
یاد ہے ناں پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اپنے پیارے صحابی کو نصیحت:
لَا تَحقِرَنَّ مِنَ المَعرُوفِ شَیئًا…
ہاں بس اسے یاد رکھیئے،زندگی کا اصول بنا لیجیئے…!!!!!
===============================
ریت اور مٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرات سے مل کر ہی ہموار اور زرخیز زمین تشکیل پاتی ہے…
زینہ زینہ چڑھ کر ہی بلندیوں پر پہنچا جاتا ہے ناں؟
قدم قدم اُٹھا کر ہی منزل سے ہمکنار ہوا جاتا ہے…
سو ہمیشہ اپنی قدر کیجیئے،یہ نہ سمجھیئے کہ میں کر بھی کیا سکتی ہوں/سکتا ہوں؟
مجھ میں بھلا کیا صلاحیتیں ہیں،جنہیں استعمال میں لاؤں؟
میرے پاس بڑے بڑے منصوبے اور مال ہو گا شاید تب ہی دنیا کو مجھ سے کوئی فائدہ ہو سکے گا؟
تب تک مجھے مایوسی میں ہی رہنا ہے…
سوچتے ہی چلے جانا ہے…
اپنے آپ کو کوستے ہوئے افسوس ہی کرتے رہنا ہے…!!!
نہیں بلکہ آپ نے اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کا تہیہ کر لینا ہے…
سب سے اوّلین مستحق ہمارے گھر کے افراد ہوتے ہیں… الاوّل فالاوّل…
ہمارے والدین،اولاد،رشتہ دار،پھر وہ جگہیں جہاں ہم کام کرتے ہیں،ہمارا معاشرہ،قوم،اور اُمت یہ سبھی کیٹیگریز ہمارے کردار کی مستحق ہیں…
ہم اس دین کے ماننے والے ہیں ناں جہاں اپنے بھائی کو مسکرا کر دیکھنا بھی صدقہ ہے…
جہاں مریض کی عیادت کرنے والا جنت کے باغوں میں گھومتا ہے…
جہاں للہ کسی کی زیارت کرنے والے کو فرشتہ ندا دیتا ہے تُجھے مبارک ہو،تیرا چلنا خوشگوار ہو اور جنت میں تُجھے ٹھکانہ نصیب ہو…
جہاں رستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا،کسی بھولے اور اندھے کو رستہ دکھا دینا صدقہ ہے…
کسی کو نیکی کی طرف رہ نمائی کر دینا نیکی کرنے کی مثل ہے…
بس اپنی سوچ مثبت رکھیئے،
منفی سوچ،بدگمانیوں اور نفرت و حسد کے جذبات دل کے دریچوں سے نکال باہر پھینکیں…
کسی کے راز کی حفاظت…
کسی کے عیوب کی پردہ پوشی…
کسی کی مصیبت کی گھڑی میں ہمدردی کے چند بول…
خیر خواہی پر مبنی مشورہ دے دینا…
کسی کو معاف کر دینا…
زیادتی پر درگزر کر جانا…
یقین جانیئے یہ بڑے عزم اور درجہ والے کام ہیں…
ہم اکثر بڑی بڑی نیکیاں کر کے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی پرواہ نہ کر کے بڑی نیکیوں کو بھی ضائع کر دیتے ہیں…
اپنے والدین کا ہاتھ پکڑ کر چلنا…
ماؤں کے کاموں میں ہاتھ بٹا دیجیئے…یہ نہیں کہ ہم سوشل بنے پھرتے ہوں اور ماں دھوپ میں تڑپتی اور کام سنبھالتی رہے…
ماں کا دور تھکاوٹ سے چُور گزر چکا ہے اب ہماری جوانی کے عمل کا دور ہے…
اسے موبائل کی غیر ضروری مصروفیات کی نذر ہر گز نہ ہونے دیجیئے…
مانا کہ ہمارے للہ ہی سہی،محبتوں کے حصار بہت وسیع ہوں،لیکن ماں باپ جیسے رشتے سے بڑھ کر ہر گز نہیں ہو سکتے…
ہماری عبادات،رب کے ذکر اور تعلیم و تعلم سے بڑھ کر نہیں ہو سکتے…
اپنا حق بھی پہچانیں…!!!
اپنی لائف کو مینیج کیجیئے اور اس کے مطابق تمام معاملات ڈیل کرنے کی کوشش کیجیئے…
اہم چاہے چھوٹا کام ہی کیوں نہ ہو،اسے اولیت دیجیئے…
غیر اہم بڑا ہی سہی،ثانویت کے درجہ پر رکھیں…
فراغت کے لمحات میسر ہوں تو انہیں بھی ضائع نہ جانے دیں،اپنے دوست احباب سے، رشتہ داروں سے حال احوال بانٹ لیجیئے…
کُچھ وقت اُن کے ساتھ بِتایئے…
انہیں اپنا ہونے کا احساس دلایئے…!!!
اپنے چھوٹے چھوٹے اعمال سے زندگی کی تصویر میں رنگ بھرنے کی مشق جاری رکھیئے…
روزانہ قرآن کی ایک آیت ہی خود یا کسی سے سمجھنے کی کوشش کریں…
ایک حدیث کا مطالعہ کر لیں،زندگی گزارنے کے بہت سے اصولوں سے شناسائی ملے گی…
تاریخ کا ایک ورق ہی پلٹ کر دیکھ لیں…
پانچ،سات منٹ نکال کر حالاتِ امت سے آگہی حاصل کریں…
استغفراللہ،الحمدللہ،سبحان اللّٰہ و بحمدہ سبحان اللّٰہِ العظیم یہ وہ کلمات ہیں جن کے بارے میں پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کہ یہ زبان پر بہت ہلکے لیکن میزان میں بہت بھاری ہیں…کی حاضر دل سے تسبیح پڑھ لیں…
غرض چراغِ رہ بنیں…
اُمیدِ سحر بنیں…
خیر کی قربت…
شر سے دوری بنیں…!!!
مسافر ہیں تو زادِ سفر سمیٹیں…
سب تو تو،میں میں کا کھیل ختم ہو جانے والا ہے اور کام آنے والی چیز فقط بھلائیاں ہیں…!!!
چھوٹے کاموں کو حقیر نہ سمجھیں…:
سب سارا دن پانی بہا بہا کر ضائع کر دیتے تھے…
ایک دن میں نے سوچا کہ جتنا پانی بہہ جاتا ہے اگر کسی پودے کی کیاری میں ہاتھ دھو لیئے جائیں تو ایک تو پودے کی زمین نرم رہے گی،دوسرا کیچڑ سے بھی بچت…
اب بات مانتے مانتے تو دیر لگتی…
میں نے یہ ذمہ داری خود اُٹھا لی ،اور صرف ایک دن میں مجھے چودہ مرتبہ صرف ہاتھ دھونے کے لیئے لوٹا بھر بھر کر کیاری کے پاس رکھنا پڑا…
لیکن فائدہ یہ ہوا کہ سب کی ایک عادت سی بن گئی کہ اب ہاتھ باری باری کیاریوں میں ہی دھونے ہیں…!!!
زندگی کی خوشیوں سے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو کبھی دیس نکالا نہ دیں،ورنہ یہ زندگی بے رنگ،بے ذائقہ اور پھیکی پھیکی رہ جاتی ہے…
یاد ہے ناں پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اپنے پیارے صحابی کو نصیحت:
لَا تَحقِرَنَّ مِنَ المَعرُوفِ شَیئًا…
ہاں بس اسے یاد رکھیئے،زندگی کا اصول بنا لیجیئے…!!!!!
===============================